شاعری کی طرح مصوری بھی انسان کے نازک احساسات کا نتیجہ ہے۔ جو کام شاعر کرتا ہے وہی مصور کرتا ہے۔ شاعر زبان سے، مصور پنسل یا قلم سے، سچی شاعری کی تعریف یہ ہے کہ تصویر کھینچ دے۔ علیٰ ہذا سچی تصویر کی صفت یہ ہے کہ اس میں شاعری کا مزہ آئے۔ شاعر کانوں کے ذریعے سے روح کو مسرت پہنچاتا ہے اور مصور آنکھوں کے ذریعے سے اور چونکہ قوت باصرہ بہ نسبت سامعہ کے زیادہ نازک اور ذکی الحس ہے اسی لئے جو بات مصور ایک نشان ایک خط یا ذرا سے رنگ سے ادا کردے گا وہ شاعر کے صدہا اشعار سےنہ ادا ہوسکے گی۔ شاعر جب اپنے اشعار پڑھنے لگتا ہے جو محض زبان کو اظہار کے لئے کافی نہ سمجھ کر آنکھ، ابرو اور انگلیوں سے ایسے اشارے کنائے کرتا ہے جن سے اس کے اشعار کا لطف دوبالا ہو جائے۔ گویا اسے اپنا مطلب ادا کرنے کے لئے تصویر نگاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگرمصور کی تصویر ہی اس کا خیال ادا کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے۔
مگر جس فن کا ہم ذکر کر رہے ہیں وہ اس سچی تصویر نگاری کی نقل ہے چونکہ شاعر کا تعلق زبان سے ہے اس لئے اس کے دل میں بات پیدا ہوئی اوراس نے زبان سے ادا کی۔ مصوری کے لئے نگاہ کی درستی، ہاتھ کی صفائی اور رنگ آمیزی کا علم از بس ضروری ہے اس لئے مصور ایسی آسانی سے اظہار خیال نہیں کر سکتا۔ جیسے کہ شاعر ہر ملک کی تاریخ میں شاعری کے بہت دنوں بعد فن تصویر کو عروج ہوتا ہے۔ اطالیہ میں شاعری سنہ عیسوی سے قبل درجہ کمال پر پہنچ گئی تھی۔ مگر مصوری کا عروج چوھویں صدی میں ہوا۔ علیٰ ہذا انگلستان میں ملٹن اور شیکسپیئر کے عنقریب دو صدی بعد مصوری نے زور پکڑا۔
ہندوستان میں اور فنون کی طرح مصوری بھی کمال کے درجہ پہنچی ہوئی تھی۔ اگرچہ آج کل اس زمانہ کی تصویریں نہیں ملتیں۔ مگر جن ہاتھوں نے ایلورا اور اجنتا کے مندروں میں جادو طرازیاں کیں ان کے کمال مصوری میں کوئی شک نہیں ہوسکتا پرانے ملکوں کی مصوری کا اندازہ کرنے کے لئے لازم ہے کہ اس کی قدیم عمارتیں دیکھی جائیں۔ کیونکہ تصویریں بہت عرصہ تک اصلی آب و تاب پر قائم نہیں رہ سکتیں۔ بلکہ مدت دراز گزر جانے پر وہ آپ ہی آپ تلف ہو جاتی ہیں۔
دور اکبری یا اس کے مابعد کی ہندوستانی تصاویر سے بھی یہاں کے کمال مصوری کا کسی قدر اندازہ ہو سکتا ہے۔ گویا وہ زمانہ ہندوستان کے عروج کا نہ تھا تاہم اس وقت کی تصویریں بہت ہی نادر ہیں۔ بلاشک شبیہ نگاری میں انہیں کمال حاصل ہوا۔ ہاں دوسرے اصناف مصوری میں انہیں بہت دسترس نہ تھا اور مسافت عینی کے قواعد سے بھی وہ بہت مانوس نہ تھے۔ آئین اکبری کی تصاویر میں اگرچہ چلت پھرت، زندہ دلی، تناسب سب کچھ موجود ہے مگر مسافت عینی کا بالکل لحاظ نہیں کیا گیا۔ دروازہ کے مقابل صحن میں جس قد و قامت کی شکلیں نظر آتی ہیں اتنی ہی بڑی محل سرائے کے اندر بھی دکھائی دیتی ہیں۔ اور یہ موجودہ فن تصویر کے لحاظ سے بہت بڑا نقص ہے۔ علاوہ بریں دھوپ چھاؤں کے لحاظ سے بھی ان تصاویر میں اکثر نقائص نظر آتے ہیں۔ صحن اور محل سرا کے اندر ایک ہی اندازہ اور وزن کی روشنی پائی جاتی ہے۔ یہ نقائص غالباً اس وجہ سے پیدا ہوئے کہ ہندوستان میں فن تصویر معماری کی طرح پیشہ وروں کے ہاتھوں میں تھا اور وہ علمی تحقیقات سے نابلد ہونے کے باعث اپنے فن کی صفائی کا تعلق ہے۔ ان تصویروں میں کوئی عیب نہیں۔ مگر سائنس کے لحاظ سے ان میں بیشتر نقائص موجود ہیں۔
اگرچہ تصویر نگاری گزشتہ کئی صدیوں سے ہمارے نصاب تعلیم کا کوئی قابل قدر جزو نہیں رہی ہے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ زمانہ عروج میں یہ فن یہاں ضرور رائج تھا۔ یورپ نے اگر تصویروں سے مذہبی عمارتوں اور کلیساؤں کو آراستہ کیا تو ہندوستان نے انہیں مراسم تمدنی میں داخل کردیا۔ شادی بیاہوں میں عورتیں اپنے ہاتھوں سے گھر میں نقش و نگار بناتی ہیں۔ کیسا ہی غریب شخص کیوں نہ ہو مگر جب وہ اپنے بیٹے یا بیٹی کا بیاہ کرتا ہے تو اپنے دروازے پر ہاتھی، گھوڑے، اونٹ، پیادوں کی تصویریں ضرور بنواتا ہے۔ یہ تصویریں ایک روئی لپٹے ہوئے تنکے سے بنائی جاتی اور گیرو، کھریایا چانول پیس کر رنگی جاتی ہیں۔ اور اگرچہ نہایت بے ڈول بھدی اور بدقطع ہوتی ہیں مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ کسی رسم قدیم کی بگڑی ہوئی یادگاریں ہیں۔
اسی طرح ہندؤوں میں کئی ایسے تہوار ہیں جن موقعوں پر عورتیں گھروں میں دیواروں پر تصویریں بناتی ہیں اور یہ تصویریں محض جانوروں یا پھول پتوں کی نہیں ہوتیں بلکہ ایک طولانی کہانی انہیں نشانات سے ادا کی جاتی ہے۔ ان میں نہ تناسب ہوتا ہے، نہ دھوپ چھاؤں، نہ مسافت عینی کا کچھ لحاظ ہوتا ہے، نہ رنگ آمیزی کا۔ ہاں ان سے یہ بات یقینی طور پر ثابت ہوجاتی ہے کہ زمانہ قدیم میں اس فن کے سبھی اصناف ہمارے نسوانی نصاب تعلیم میں داخل تھے۔
یورپ میں فن تصویر کا آغاز تیرہویں صدی کے قریب ہوا، اور پندرہویں صدی تک وہاں نہ صرف نادر تصویروں کا خزانہ آباد ہو گیا بلکہ اس فن پر متعدد علمی تصانیف تیار ہو گئیں، جن میں لیونارڈ و وینسی کی کتاب ابھی تک باخبر حلقوں میں بہت اعزاز سے دیکھی جاتی ہے۔ اطالیہ وہ مقدس سرزمین تھی جہاں یورپی فن تصویر کا آفتاب طلوع ہوا، اور جہاں سے اس کی شعاعیں تین صدی تک دیگر ممالک کو منور کرتی ر ہیں۔ یہیں اس فن کے خدا پیدا ہوئے۔ رفیلیؔ، میکائیل، انجیلوؔ، جولیو رومینو اور کریجیوؔ جیسے ناموران فن اسی خاک سے اٹھے جن کی تصاویر اساتذہ حال دیکھتے ہیں اور دانتوں تلے انگلی دباتے ہیں۔ اس فن میں ان کا وہی رتبہ تھا اور وہ اسی طرح تقلید سے بالاتر ہیں جیسے ہومرؔ، ورجلؔ، کالی داسؔ یا شیکسپیئر۔ ان کی تصویروں کے مقابل جاتے ہی ایسا محسوس ہوتا ہے گویا کسی تروتازہ باغ میں آ پہنچے۔ ہاں یہ مزہ حاصل کرنے کے لئے ایک خاص تربیت حسن کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر اچھی تصویر سے حظ نہیں حاصل ہو سکتا۔ بعینہٖ اسی طرح جیسے بغیر شاعرانہ تربیت کے شعر کی خوبیوں کا لطف اٹھانا غیرممکن ہے۔
اٹلی صرف شبیہ نگاری پر قانع نہیں ہوا بلکہ اس نے فن تصویر کے ہر صنف میں رتبہ کمال حاصل کیا۔ مناظر فطرت، روایات دینی، مضامین شاعرانہ وغیرہ اصناف اس نے پیدا کئے اور انہیں پالا پوسا۔ ان میں کی بعض تصویریں ایسی مقبول ہوگئی ہیں کہ دنیا کا کوئی کونہ ان سے خالی نہیں ہے۔ رفیلی کی بے نظیر تصویر ’’ابن مریم‘‘ ہندوستان کے ہر شہر میں شرفا کے کمروں میں اور تمبولیوں کی دوکانوں پر یکساں زیب دیتی ہے۔ اس کی رنگت کی سادگی، خیالات کی پاکیزگی ایسی پرلطف ہے کہ بدمذاق شخص بھی اسے دیکھ کر کچھ نہ کچھ روحانی مزہ اٹھا لیتا ہے۔ یہ تصویریں ایسی احتیاط سے رکھی ہوئی ہیں اور ان پر روغن ایسے پختہ اور دیرپا دیے ہوئے ہیں کہ باوجود تین صدیاں گزر جانے کے ابھی تک ان کی تازگی اور آب و تاب میں فرق نہیں آیا۔ ہاں بعض تصویریں جن کی کافی احتیاط نہ ہو سکی البتہ کسی قدرخراب ہوگئی ہیں۔ رینالڈؔ کہا کرتا تھا کہ وہ جن استادوں کی بنائی ہوئ ہیں وہ انسان نہیں بلکہ فرشتے تھے۔
اٹلی کا وقار سارے یورپ پر ابھی تک ایسا مسلط ہے کہ کسی ملک کا شخص اپنے فن کا استاد نہیں مانا جاتا، تاوقتیکہ وہ دوچار بار اٹلی کے تصویرخانوں کا باقاعدہ مشاہدہ نہ کر لے۔ بالخصوص رومؔ کا نگارخانہ، وٹیکن تو ہمیشہ شاہدان فن کا زیارت گاہ رہا ہے۔ اس کی بنیاد پوپؔ لیو کے عہد مبارک میں پڑی تھی اور اسی وقت سے اساتذہ باکمال اس کے محرابوں اور طاقوں کو اپنی معجزہ نگاریوں سے مزین کرنے لگے۔ دنیا میں کوئی دوسرا نگار خانہ ایسا نہیں جو وقعت و عظمت میں اس کی ہمسری کا دم بھر سکے۔ حتیٰ کہ اس کی سیر کرنے ہی سے زمانہ حال کی تصاویر پر محاکمہ کرنے کا تمغہ مل جاتا ہے۔ یورپ میں کتنے ہی ایسے قدردان پڑے ہوئے ہیں جو ان میں کی ایک ایک تصویر کے لئے دس دس لاکھ پونڈ تک دینے کو تیار ہیں۔ یہاں اساتذہ اجل نے حسن و شباب، شجاعت و مردانگی، تقدس اور عبادت، فقر و ریاضت عشق و محبت کے اعلیٰ ترین نمونے اپنے جادو طراز قلم سے بنا کر رکھ دیے ہیں۔ جو مصور قدرت کی بہترین صناعیوں سے ٹکر کھاتے ہیں۔
سب فنوں کا قاعدہ ہے کہ جب وہ ابتدائی مدارج طے کرکے کمال کے رتبہ کو پہنچتے ہیں توان میں مختلف رنگ پیدا ہوجاتے ہیں۔ ہندوستان میں فلسفہ اور دینیات کے سات رنگ موجود ہیں۔ علیٰ ہذا اردو شاعری میں دہلی اور لکھنؤ کے طرز جدا جدا ہیں۔ اسی طرح اٹلی میں فن تصویر کے جدا جدا رنگ ہوگئے۔ جن میں رومؔ، وینسؔ، فلورینسؔ اور ملنؔ بہت معروف ہیں۔ ہر رنگ کو اپنی خصوصیات پر ناز ہے۔ کوئی شبیہ نگاری کا دل دادہ ہے، کوئی مناظر فطرت کا، کوئی مضامین شاعرانہ کا، ان کے تفصیل فن میں بھی اختلافات موجود ہیں۔ اور ہر رنگ کے ساتھ اساتذہ فن کے نام وابستہ ہیں۔
رومؔ سے فرانسؔ، اسپین اور ڈنمارک نے سبق سیکھا اور انہیں تینوں ممالک کے چند اہل کمال نے انگلستان میں اس فن کو پھیلایا۔ اٹلی کے بعد مصوری میں فرانس کا درجہ ہے اور وہاں کا نگار خانہ ’’لوور‘‘ بھی وٹیکن ثانی ہے۔
جو فوائد بنی نوع انسان کو نظم سے حاصل ہوتے ہیں وہی فوائد تصویر سے بھی حاصل ہوتے ہیں۔ شعر ایک محبوب بالذات شے ہے۔ تصویر کی بھی یہی صفت ہے۔ شاعر کی آنکھ حسن پر لوٹ پوٹ ہو جاتی ہے۔ مصور تڑپنے لگتا ہے۔ اعلیٰ شاعری جذبات انسانی کو دکھاتی اور ہمارے دل کی نازک کیفیات بیان کرتی ہے، دلوں کوابھارتی اورہمارے خیالات کوپستی سے نکال کر بلندی پر پہنچاتی ہے۔ یعنی شاعری کا اعلیٰ ترین فرض انسان کو بہتر بنانا ہے۔ اعلیٰ مصوری بھی ہمارے سامنے معاشرت انسانی کے بہترین پہلو دکھاتی اور اچھے اچھے کاموں کے نمونے پیش کرتی ہے۔ یعنی شاعری کی طرح اس کا فرض بھی آدمی کو انسان بنانا ہے۔ بعض اوقات شاعری کی طرح مصوری بھی زمانہ کی بدکاریوں پر تازیانے لگاتی ہے۔ مگر دونوں فنون گلدستے سجانے والے باغبان ہیں نہ کہ گھاس پات اکھاڑنے والے مالی۔
شاعری کی طرح مصوری بھی افراد کو قومیت کی طرف لے جاتی ہے بلکہ اس وقت ہندوستان کو شاعری سے زیادہ مصوری کی ضرورت ہے۔ ایسے ملک میں جہاں صدہا مختلف زبانیں رائج ہیں۔ اگر کوئی عام زبان رائج ہوسکتی ہے تو وہ تصویر ہے۔ یہی زبان کشمیر سے راس کماری تک ہر فرد بشر کی سمجھ میں یکساں آسکتی ہے۔ راجہ روی ورما مرحوم اگر تلنگ زبان کی شاعری کرتے توان کے نام سے یہ خطہ آج آشنا بھی نہ ہوتا۔ اور نہ اس سے عام قوم کا کچھ بھلا ہوتا۔ مگر ان کی تصویروں نے سارے ملک میں ایک قربت، ایک اپنائیت کا احساس پیدا کر دیا ہے۔ بنگالی بھی شکنتلا کی تصویر سے اسی قدر خوش ہوتا ہے جس قدر پنجابی یا مرہٹہ ہو سکتا ہے کیونکہ سب ہندو فرقوں میں کالی داس اور اس کی ہیروئن کا نام بچہ بچہ کی زبان پر ہے۔ اسی طرح بے شمار ایسے مذہبی اور تمدنی مضامین ہیں جو سب ہندوستانیوں کے دلوں میں ایک ہی خیال، ایک ہی جوش، ایک ہی احساس پیدا کر سکتے ہیں۔ اور جو تصویر ایسے پاکیزہ مضامین کو ادا کرتی ہے، وہ ملک میں سچی قومیت پھیلاتی ہے کیونکہ ایک ہی خیال سے مؤثر ہو جانے کا نام قومیت ہے۔
کون ایسا ہندو ہوگا جو راجہ رام چندر کے بن باس پر آنسو نہ بہائے۔ سری کرشن کی بانسری کی دلکش صدا سے کسے وجد نہ آئے گا۔ دمینتی کی عصمت کی کون ہندوستانی قسم نہ کھائے گا۔ یہ تو خیر مذہبی باتیں ہیں۔ محض ایک ہندوستانی گھرانے کی تصویر، ایک ہندی شوہر کا اپنی پیاری بیوی سے رخصت ہونا، ایک ہندو عورت کا اپنے پردیس جانے والے بالم کی آمد کے لئے آنچل اٹھا کر سورج سے دعا مانگنا، محض ایک ہندو لڑکے کا اپنی ماں کی گود میں کھیلنا، ایسے مضامین ہیں جو ایک جادو طراز مصور کے ہاتھوں میں سچی قومیت کے نشان بن سکتے ہیں۔
مصوری سے ہمارا منشا فوٹوگرافی ہرگز نہیں ہے۔ فوٹوگرافی سیکھنا دنوں کا کام ہے۔ مصوری برسوں کا، بلکہ مدتوں کا۔ اگرچہ آج کل فوٹوگرافی کو اس کی ارزانی کی وجہ سے بمقابلہ مصوری کے بہت فروغ ہے لیکن نقاد ان فن فوٹوگرافی کو فن کے زمرہ میں لاتے ہی نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ فوٹوگرافر بہت تھوڑے سے وقت میں اصل شے کی نقل اتار لیتا ہے۔ مگر یہ نقل بے جان، مردہ اور بے رنگ ہوتی ہے۔ فطرت کی بوقلمونی اور رنگا رنگی اظہر من الشمس ہے۔ ایسی کوئی قدرتی شے نہیں جو کوئی نہ کوئی رنگ نہ رکھتی ہو۔ فوٹوگرافر اس نکتہ کو بالکل نظر انداز کر دیتا ہے۔
مثلاً اگر کسی کوہستانی منظر کی تصویر اتارے گا تو پہاڑ کا دامن، اس کی چوٹی، اس پر کے ہرے بھرے درخت، اس کے درے اور غار اور اس کے مقابل کا وسیع اور دلکش منظر سب ایک ہی رنگ کے ہوں گے۔ آسمان بجائے نیلگوں کے زردی مائل ہوگا۔ اگر اس پہاڑ میں کوئی آبشار ہوگا تو فوٹو میں ایک سفید لکیر نظر آئے گا جس میں حرکت، تیزی اور کف نام کو نہ ہوگی۔ اس کو دیکھ کر ہم یہ نہ پہچان سکیں گے کہ یہ کس منظر کی تصویر ہے۔ خوہ وہ نظارہ ہماری نظروں میں کیسا ہی مانوس کیوں نہ ہو۔ برعکس اس کے مصور اگر اسی منظر کا سماں صبح کے وقت دکھائے گا تو پہاڑ کی چوٹیوں پر دھندلی سنہری کرنیں ہوں گی۔ دامن بالائی حصے سے کسی قدر زیادہ سیاہی مائل ہوگا۔ درخت ہرے بھرے اور زرنگار۔ آسمان پر شفق کی سرخی پھیلی ہوئی، آبشار کا پانی حرکت کرتا اور لہراتا ہوا، پہاڑ کے مقابل کا میدان زردی مائل، شبنمی رنگ کا نظر آئے گا۔ اگر ہم نے کبھی اس منظر کو دیکھا ہے تو تصویر کے دیکھتے ہی فوراً پہچان جائیں گے۔
بلاشک فوٹوگرافر واقعیت میں مصور سے بڑھا رہتا ہے مگر فن وہ ہے جو فطرت کی خوبصورتیوں میں اضافہ کرے۔ حسین کو حسین تر بنائے، نہ کہ حسن فطری کو اور گھٹاکر اور اسے قدرتی زیوروں سے معرا کرکے ہمارے سامنے پیش کرے۔ مصور اگر کوئی منظر دکھاتا ہے تو محض واقعیت پر قانع نہیں رہتا بلکہ وہ اپنی جدت اور قوت تمیز سے کام لیتا ہے۔ اگر کوئی بھدی چیز سامنے آگئی ہے تو وہ اسے نظرانداز کر جاتا ہے۔ اور کسی دوسرے منظر کی خوبصورت چیزیں ایسی خوش مذاقی سے لاکر ملا دیتا ہے کہ تصویر کی خوبی دوبالا ہوجاتی ہے۔ وہ فطرت کی نقل نہیں کرتا بلکہ فطرت کو سنوارتا اور سدھارتا ہے۔ بیچارہ فوٹوگرافر اپنے فن کی قیود سے مجبور ہے، وہ نقل کرتا ہے، اورنقل بھی ایسی جسے اصل سے کوئی نسبت نہیں ہوتی۔
شاعر کی طرح مصور میں بھی آمد ہوا کرتی ہے۔ مگر شاعر تو ہوش سنبھالتے ہی موزونی طبع دکھانے لگتا ہے۔ اور بیچارہ مصور ایک مدت تک مناظر فطرت، خصائل انسانی و عادات حیوانی کا مطالعہ و مشاہدہ کرتا رہتا ہے۔ اس کے لئے ان نکات کو بنظر غور دیکھنے کی بہ نسبت شاعر کے بدرجہا زیادہ ضرورت ہے۔ مصوری وہ فن ہے جس کے لئے فرصت، بڑی تیز نگاہ، بڑا وسیع اور روشن تخیل، بڑا دردمند اور نازک دل ہونا چاہئے۔ ان خوبیوں کے ہونے پر بھی انسان شب و روز مشق کرنے، رنگوں کے اسرار و نکات سمجھنے، اساتذہ فن کی تصویروں کو دیکھنے اور ان کے محاسن کو سمجھنے کے بغیر اس فن میں مہارت نہیں حاصل کر سکتا۔ اس کے ایک ایک صنف بلکہ ایک ایک صنف کی ایک ایک شاخ میں کمال حاصل کرنے کے لئے ایک زندگی درکار ہے۔ کوئی مصور پھولوں کا عاشق ہوتا ہے اور وہ انہیں کے محاسن دکھانے میں اپنی زندگی صرف کر دیتا ہے۔ کوئی زندگی بھر کتوں ہی کی تصویریں کھینچتا ہے، کسی نے بچوں کی تصویریں کھینچنا اپنی زندگی کا مشغلہ قرار دے لیا ہے اور کوئی مناظر بحری پر فریفتہ ہے۔ یہ میدان ایسا وسیع ہے کہ اس پر احاطہ کر لینا ایک آدمی کی قابلیت سے باہر ہے۔ اس کے ایک چھوٹے سے خطے کو لے لیجئے اور اسی پر اپنی عمارتیں بنایئے اور تب وہ عمارت ایسی ہوگی کہ دیکھنے والے اس کی تعریف کریں گے۔ اور وہ عرصہ تک قائم رہ سکے گی۔
یورپ کے متعدد رسالے بالالتزام فن تصویر پر مضامین شائع کیا کرتے ہیں۔ خاص انگلستان میں ایسے کئی رسالے ہیں۔ ان مضامین کی عوام کے دلوں میں کیا وقعت ہے وہ اس سے ظاہر ہے کہ ایسے مضامین ہمیشہ ترتیب میں ممتاز جگہ پاتے ہیں۔ وہاں کوئی اچھی تصویر نکل جاتی ہے تو چاروں طرف اس کا چرچا ہونے لگتا ہے۔ رسالے اس کی نقلیں چھاپتے ہیں۔ اس پر نکتہ چینیاں کی جاتی ہیں۔ اس کے محاسن ومعائب پر مباحثے ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں اس فن کی ترقی کی یہ منزل کوسوں دور ہے۔ دیکھنا چاہئے ہم وہاں کب تک پہنچتے ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.