Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

فارسی غزل اور جفائے محبوب

عندلیب شادانی

فارسی غزل اور جفائے محبوب

عندلیب شادانی

MORE BYعندلیب شادانی

     

    ایران کی عشقیہ شاعری کا مطالعہ کرنے والا جب یہ دیکھتا ہے کہ وہاں کے ہرشاعر کا کلام جفائے محبوب کے ذکر سے بھرا پڑا ہے تو وہ حیران رہ جاتا ہے اور قدرتی طور پر اس کے دل میں یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ، 

    (۱) کیا حسن و جفا اور محبوب و بے وفائی لازم و ملزوم ہیں؟ 

    (۲) کیا ظلم و ستم ’’خوبان پارسی گو‘‘ کی فطرت میں داخل ہے؟ 

    (۳) کیا جورو جفا ایرانیوں کی نسلی اور قومی خصوصیت ہے؟ 

    (۴) کیا شعرائے ایران صرف ایسے شخص سے محبت کیا کرتے تھے جو ظالم اور بے وفا ہو؟ 

    (۵) کیا شعرائے ایران نے محض ’’زیب داستان‘‘ کے لیے محبوب کی بے وفائی اور ستم رانی کارونا رویا ہے اور حقیقت سے اسے کوئی واسطہ نہیں؟ 

    درحقیقت نہ حسن وجفا لازم و ملزوم ہیں، نہ جورو جفا ’’خوبانِ پارسی گو‘‘ کی فطرت میں داخل ہے، نہ یہ ایرانیوں کی کوئی نسلی یا قومی خصوصیت ہے، نہ شعرائے ایران صرف بے وفا محبوبوں سے محبت کیا کرتے تھے۔ نہ یہ بے وفائی اور ظلم رانی کا رونا بے بنیاد ہے۔ 

    تو پھر کیا سبب ہے کہ ایران کے وہ بے شمار شعراءجنہوں نے عشق و محبت کو موضوعِ سخن بنایا ہمیشہ محبوب کے جوروستم کے فریادی رہے۔ ممکن ہے کہ بعض شعرا کو جفا طینت اور ظلم سرشت محبوبوں سے سابقہ پڑا ہو لیکن یہ بات کسی طرح سمجھ میں نہیں آسکتی کہ عشاق کے اس جم غفیر میں دس بیس کو بھی محبت کا جواب محبت سے نہ ملا ہو۔ شعرائے ایران کی اس ظاہری بے اعتدالی بلکہ بے راہروی کا کوئی معقول سبب شاید آج تک بیان نہیں کیا گیا۔ مولانا شبلیؔ نے شعرالعجم میں اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ، 

    ’’عشق چونکہ تمام احساسات کو مشتعل اور تیز کردیتاہے اس لیے ہر چیز کا اثر عاشق پر زیادہ پڑتا ہے۔ عشق کا یہ تقاضا ہے کہ محبوب کے دیدار و گفتار سے کبھی سیری نہیں ہوسکتی۔ لیکن یہ ممکن نہیں کہ محبوب دنیا کا تمام کاروبارچھوڑ کر آٹھ پہر عاشق کی نظر فروزی کرتارہے۔ اس لیے وہ عاشق کی آرزو بر نہیں لاسکتا۔ اب اگر وہ عاشق کے سامنے سے کسی وقت ہٹ جاتا ہے یا ہر وقت اس کو حاضری کا موقع نہیں دیتا یا اس کے وعدوں کو پورا نہیں کرسکتا یا کبھی کسی اور سے مخاطب ہوجاتا ہے یا کوئی اور اس کی صحبت میں پہنچ جاتا ہے تو عاشق کو یہی باتیں بے وفائی، بدعہدی، بے رحمی، سخن سازی، رقیب نوازی کی صورت میں نظر آتی ہیں اور چونکہ عاشق کااحساس عام لوگوں کے احساس کی بہ نسبت زیادہ تیز ہوتا ہے اس لیے ہر وصف اپنے درجہ سے بہت بڑھ کر اس پر اثر کرتاہے۔ معشوق کی ایک ذرا سی بے التفاتی کو وہ ظلم و سفاکی کہتا ہے۔ اس بناپر ان خیالات کی تہ میں کچھ نہ کچھ واقعیت ضرور ہے۔‘‘ 1

    نفسیاتی نقطۂ نظر سے مولانا کی یہ تاویل توجہ کے قابل ضرور ہے اور اسے بالکل نظرانداز نہیں کیا جاسکتا لیکن ظاہر ہے کہ یہ ہمارے معمہ کا صحیح حل نہیں۔ اس لیے کہ عشق و محبت کا جذبہ ہر ملک اور ہر قوم میں پایا جاتا ہے، کچھ اہل ایران کے لیے مخصوص نہیں۔ پھر کیا سبب ہے کہ عشق و محبت نے دنیا کی کسی قوم کو ایرانی شعرا کی طرح متاثر نہیں کیا؟ ہر متمدن ملک میں شاعری کا چرچا رہا ہے، ہر مہذب قوم نے بہت سے ’’غزل سرا‘‘ پیدا کیے لیکن ان کے کلام میں اگر کہیں کہیں محبوب کی سرد مہری کاشکوہ ہے تو اکثر و بیشتر اس کی وفاپرستی اور عاشق نوازی کا ذکر بھی ہے۔ ایرانی شعرا کی طرح نہیں کہ چھ سو برس تک ہر شاعر یہی کہتا رہا کہ محبوب ظالم اور بے وفا ہے۔ آخر دوسرے ملکوں کے شعرا کے احساسات بھی عشق کی حرارت سے مشتعل اور تیز ہوجاتے تھے، پھر کیا سبب ہے کہ ان سب نے متفق اللفظ ہوکر محبوب کی بے وفائی اور ستم رانی کا شکوہ نہیں کیا۔ کیا دنیا کی تاریخ میں ایران کے سوا کسی قوم کے لٹریچر سے کوئی ایسی مثال پیش کی جاسکتی ہے کہ تقریباً بلااستثناء ہر شاعر کا محبوب چنگیز اور نیروؔ کا جانشیں یعنی جور و ستم کا پتلا نظر آتا ہے۔ اردو بیچاری تو اس معاملہ میں کسی شمار ہی میں نہیں کیونکہ اس نے تو آنکھیں بند کرکے فارسی کاتتبع کیا ہے۔ ہاں اردو کے علاوہ اگر اورکوئی مثال ایسی مل جائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہاں بھی وہی اسباب کارفرماتھے جن کی بناپر ایران کی شاعری نے یہ بظاہر غیرفطری روش اختیار کی۔ 

    مولانا شبلیؔ کے نزدیک ایرانیوں کے ان خیالات میں واقعیت صرف اتنی ہے کہ حرارتِ عشق سے احساسات مشتعل اور تیز ہوجانے کی بناپر شاعر اپنے محبوب کی ذرا سی بے التفاتی کو بھی ظلم اور سفاکی سمجھتا تھا۔ یعنی محبوب کاایسا برتاؤ جو ایک بالکل معمولی اور قدرتی بات تھی اور جو دوسروں کی نظر میں کسی طرح بھی قابل اعتراض نہیں ٹھہر سکتا۔ عاشق کو اپنی شدتِ احساس کی بناپر جور و ستم اور بے وفائی دکھائی دیتا تھا۔ بالفاظ دیگر اس کے یہ معنی ہوئے کہ خطا خود عاشق کی تھی معشوق کی نہیں اور محبوب کی جو ظلم رانی کے واقعات بیان کیے گئے ہیں وہ محض بے بنیاد ہیں۔ 

    مولانا کا یہ قیاس بھی درست نہیں۔ تاریخی شواہد اس کے خلاف ہیں۔ درحقیقت یہ معمہ اس وقت تک سمجھ میں نہیں آسکتا جب تک اس دور کی ایرانی سوسائٹی کی اخلاقی حالت کا ہمیں صحیح طور پر اندازہ نہ ہو۔ 

    ۳۸۷ھ بمطابق ۹۹۷ء میں سلطان محمود غزنوی نے جس وقت تاج شاہی سر پر رکھا امرد پرستی کی وبا ایران میں اچھی طرح پھیل چکی تھی۔ اس کے اسباب بیان کرنے کا یہ محل نہیں۔ کسی دوسری صحبت میں اس موضوع پر تفصیلی بحث کی جائے گی۔ سلطان محمود اور ایازؔ کی محبت کا افسانہ غالباً سلطان کے اکثر کارناموں سے زیادہ مشہور ہے۔ ایازؔ ایک ترک غلام تھا اور نظامی عروضی کے قول کے مطابق کچھ ایسا غیرمعمولی حسین بھی نہ تھا لیکن اندھے کیوپڈ کے تیر ہمیشہ اسی طرح چلتے ہیں۔ بہرحال اس واقعہ سے امرد پرستی کے مکروہ ذوق کو یقیناً تقویت پہنچی ہوگی۔ ’’النّاس علیٰ دینِ ملوکہم۔‘‘ بادشاہ اور وہ بھی محمود غزنوی جیسا جلیل القدر بادشاہ جس چیز کا دلدادہ ہو، اُمرائے دربار اور عوام الناس میں اس کی مقبولیت ایک قدرتی بات ہے۔ کہنے والے نے سچ کہا ہے کہ، 

    ہر عیب کہ سلطاں بہ پسندد ہنر است

    ملک الشعرا سلطانی، عنصرؔی نے ایک قصیدے میں جی کھول کے دربارِ محمودی کے غلامانِ سیمیں تن کی تعریف کی ہے۔ ہم یہاں صرف دو شعر نقل کرتے ہیں، 

    ازایشاں ہریکے چوں روز روشن
    زتیرہ شب نہادہ برسر افسر

    ان میں سے ہر ایک روز وشن کی مانند کالی رات (یعنی زلفِ سیاہ) کا تاج سر پر رکھے ہوئے تھا

    چو بینی خدِّایشاں را تو گوئی
    ہمی شمشاد دیدی بر معصفر

    تم ان کے رخسار دیکھو تو کہو
    کہ کسنبھ پرشمشاد لپٹا ہوا ہے 

    انسان اپنے نفس کی کمزوری کے باعث بعض اوقات ایسے افعال کا مرتکب ہوتا ہے جو قانونِ اخلاق کی رو سے جرم و گناہ کا مرتبہ رکھتی ہیں مگر وہ برائی کو بہرحال برائی سمجھتا ہے اسی لیے ہمیشہ انہیں دوسروں سے چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن چوتھی صدی ہجری میں امرد پرستی کوئی بری بات نہیں سمجھی جاتی تھی اسی لیے اس کا اعلان بھی قابل اعتراض نہ تھا۔ چنانچہ محمودی شعرا قصائد میں سلطان اور ایازؔ کی محبت کا ذکر کرتے تھے۔ جب ایازؔ کے سبزہ کاآغاز ہوا تو خود سلطان محمود کی فرمائش سے فردوسیؔ نے خطِ ایازؔ کی تعریف میں یہ رباعی کہی، 

    مست است ہمی چشم تو و تیر بدست
    بس کس کہ زتیرِ چشم مستِ تو نجست

    تیری آنکھ مست ہے اور ہاتھ میں تیر لیے ہوئے
    کم ہی لوگ ایسے ہیں جو تیری چشم مست کے تیر سے بچے ہوں۔ 

    گرپوشد عارضت زرہ عذرش ہست
    کز تیربترسد ہمہ کس خاصہ زمست

    اگرتیرا رخسار زرہ پہن لے تو اسے معذور سمجھنا چاہیے
    کیونکہ تیر سے ہرشخص ڈرتا ہے خصوصاً مست سے 

    فرخیؔ اور دوسرے شعرا نے بھی ایازؔ کے حسن و جمال کی تعریف کی ہے۔ سلجوقیوں کے دور میں یہ آگ اور بھی تیز ہوگئی۔ سلطان سنجر کی امرد پرستی کے قصے تاریخوں میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں۔ 

    ’’ملک شاہ سلجوقی نے جب سمرقند فتح کیا تو دربار کے ملک الشعرا امیر معزیؔ نے قصیدہ پیش کیا جس میں فوج کی حملہ آوری اور معرکہ آرائی کا حال لکھا ہے۔ اس میں جہاں سپاہیوں کی تصویر کھینچی ہے اس طرح کھینچی ہے، 

    یکے بساعد سیمیں دروں فگندہ کمان
    یکے بہ سنبلِ مشکیں دروں کشیدہ سپر

    یکے شگوفہ و سوسن گرفتہ در جوشن
    یکے بنفشد و عنبر نہفتہ در مغفر 2

    ابوالمعالی رازی ایک قصیدے میں بارگاہِ سلطان مسعود سلجوقی کی تعریف کرتے ہوئے سلطان کے غلاموں کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتاہے، 

    یارب ایں بچہ ترکاں چہ بتا نندکہ ہست
    دیدۂ مردم نظار از یشاں چو بہار

    خدا یا یہ ترک بچے کیا قیامت ہیں کہ انہیں دیکھ کر آنکھوں میں بہار چھاجاتی ہے۔

    نظرِ زہرہ دمریخ بہم یافتہ اند
    کہ ہمہ رود نواز ند و ہمہ تیغ گزار

    سب نے زہرہ و مریخ سے فیض پایا ہے۔ جبھی تو یہ سب رود 3 نواز اور شمشیرزن ہیں۔

    بگہ رزم ندانند بجز اسپ و سلاح
    بگہ بزم نداند بجز بوس و کنار

    جنگ کے وقت گھوڑے اور ہتھیار کے سوا اور کسی چیز سے واقف نہیں اور بزم میں بوس و کنار کے سوا اور کچھ نہیں جانتے۔ 

    منم آنکس کہ ہم سالہ دریں اندوہم
    کہ ازیناں صنمے بینم اندو گسار

    میں سال بھر سے اس فکر میں ہوں کہ ان میں سے ایک غم گسار معشوق مجھے مل جائے۔

    حکیم سنائی (متوفی ۵۹۰ھ) جو اسی دور کے آدمی ہیں، لکھتے ہیں کہ، 

    خادماں راز بہرِ آن بخرند
    تابر خسار شاں ہمی نگرند

    لوگ اس لیے غلام خریدتے ہیں کہ ان کے حسن سے آنکھیں سینکیں۔ 

    متقدمین، متوسطین، اور متاخرین میں سے ہر گروہ کے شعرا کا کلام صراحتاً اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ امرد پرستی سارے ایران میں ایک وبا کی طرح پھیل گئی تھی۔ تاریخ شاہد ہے کہ سلاطین، امرا، علما، صوفیا، شعرا سبھی اس بلا میں مبتلا تھے۔ ہم نے اپنے مضمون ’’ایران کی امرد پرستی کا اثر اردو شاعری پر‘‘ مطبوعہ ساقی میں ایران کے متعدد و مشہور شعرا کے ایسے اشعار پیش کیے تھے جن سے ان بزرگوں کی شاہد پرستی پر روشنی پڑتی تھی۔ یہ اندرونی شہادتیں اگرچہ کسی بیرونی تائید کی محتاج نہیں لیکن بعض خوش عقیدہ حضرات کی ان روشن دلیلوں سے تشفی نہ ہوئی۔ لہٰذا اب ہم صرف ایسے شعراکا ذکر کرتے ہیں جن کی امرد پرستی صرف ان کے کلام ہی سے نہیں بلکہ تاریخ سے بھی ثابت ہے۔ 

    دقیقی: وہی دقیقیؔ جس نے شاہنامہ کا سنگِ بنیاد رکھا اور جس کے ایک ہزار اشعار شاہنامہ میں موجود ہیں، ایک ترک غلام کے ہاتھ سے، جو اس کا معشوق بھی تھا، قتل ہوا۔ ا س کے دو شعر بھی سن لیجیے، 

    لشکر برفت و آن بتِ لشکر شکن برفت
    ہرگز مباد کس کہ دہد دل بہ لشکری

    لشکر چلا گیا اور وہ بتِ لشکر شکن بھی چلا گیا۔ خدا نہ کرے کہ کوئی لشکری پر عاشق ہو۔ 

    دانی کہ دلِ من کہ فگندست بتاراج
    آں دو خطِ مشکیں کہ پدید آمدہ از عاج

    کچھ تمہیں معلوم ہے کہ میرا دل کس نے لوٹ لیا؟ اس خطِ مشکیں نے جو عاج یعنی ہاتھی دانت جیسے دونوں رخساروں پر نمودار ہوا ہے۔ 

    علی باخرزی: ابوالحسن علی نام، زبردست فاضل تھے، جوانی میں رکن الدولہ طغرل بیگ سلجوقی کے دربار میں کاتب کے معزز عہدے پر مامور تھے۔ آخر اپنی خوشی سے ملازمت سے دست کش ہوکر گوشہ نشینی اختیار کی۔ پیوندؔ نامی ایک صاحبِ جمال ترک پر عاشق ہوگئے تھے۔ انجام کار اسی کے ہاتھوں ۴۶۸ھ میں قتل ہوئے۔ جس وقت پتھر کے نیچے آپ کے ہاتھ کو دباکر تلوار سے بری طرح آپ کو زخمی کیا گیا اس وقت آپ نے یہ رباعی کہی، 

    سن می بروم، بیامرا سیر بہ بیں
    دیں حالِ بصد ہزارتغییر بہ بیں 

    سنگے زبرد دستِ من از زیر ببیں
    ازیار بُریدنی بہ شمشیر بہ بیں 

    امین احمد رازیؔ، صاحب تذکرۂ ہفت اقلیم کا بیان ہے کہ آپ والی ابخاز مسمی بہ ماہ پرفریفتہ ہوگئے تھے۔ حاسدوں نے آپ کو قتل کرڈالا۔ بہرحال جس نے بھی قتل کیا ہو غایت ایک ہی ہے۔ 

    ادھم کاشی: کاشان کے نامور شعرا میں آپ کا شمار ہے۔ صاحبِ دیوان ہیں۔ عمر کا زیادہ حصہ بغداد اور تبریز میں بسر کیا۔ فرماتے ہیں، 

    خط سبزت کہ آیتِ خوبی است
    آئیے در نہایت خوبی است

    تیرا خطِ سبز حسن کی نشانی ہے۔ اور بہت خوب نشانی ہے۔

    جس زمانے میں آپ کا قیام تبریز ؔمیں تھا آپ ایک خوبرو نوجوان پر فریفتہ ہوگئے۔ ایک مرتبہ آدھی رات کے وقت کسی کوچہ میں اس سے مڈبھیڑ ہوگئی۔ اس جوان نے غرورِ حسن میں آپ کے ایک کاری ضرب لگائی کہ آپ کا کام تمام ہوگیا۔ حالتِ نزع میں آپ نے یہ رباعی کہی،

    دوشینہ سحر یتیم تبریزی من
    آمد بسرِ راہ بخوں ریزیِ من

    رات پچھلے پہر میرا طرّار تبریزی
    میرا خوں بہانے کے لیے راستہ میں آیا

    عریاں زلباس عاریت ساخت مرا
    ایس بود نتیجہ سحر خیزیِ من

    اس نے لباسِ زندگی مجھ سے چھین لیا۔ میری سحر خیزی کا یہ نتیجہ ہوا۔

    جفائی استرابادی: شہزادہ سام میرزا، صاحب تحفۂ سامی کا معاصر تھا۔ سام میرزا نے لکھا ہے کہ شخص بڑا طرار اور ’’عاشق پیشہ‘‘ تھا۔ راتوں کوگھوما کرتا تھا۔ ایک دن کہیں رقیب سے مڈبھیڑ ہوگئی۔ بس پھر کیا تھا لڑائی ٹھن گئی۔ دونوں تلواریں گھسیٹ گھسیٹ کر ایک دوسرے پر حملہ آور ہوگئے۔ آخر دونوں مارے گئے۔ یہ مطلع اس کی یادگار ہے۔

    نہ محرمے کہ بگوید بیار حال مرا
    نہ ہمدمے کہ زخاطر بروملال مرا

    واضح ہو کہ سام میزرا نے تحفۂ سامی میں جہاں کہیں لفظ ’’عاشق پیشہ‘‘ استعمال کیا ہے ’’شاہدایاز‘‘ یا بالفاظ دیگر ’’امرد پرست‘‘ کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ کیونکہ اس عہد میں ’’عاشق پیشہ‘‘ کااطلاق انہیں لوگوں پر ہوتا تھا جو جوانانِ خوبرو کے ساتھ عشق بازی کرتے تھے۔ 

    شوکتی اصفہانی: محمد ابراہیم نام، صاحبِ آتش کدہ کا بیان ہے کہ یہ شخص بڑھاپے میں بھی جملہ مناہی کامرتکب ہوتا تھا۔ چنانچہ دوسری مرتبہ جب ہندوستان گیا تو ایک لڑکے پر دست درازی کی، اس نے قتل کردیا۔ یہ شعر اس کا ہے اور خوب ہے۔ 

    شمع و گل و پروانہ و بلبل ہمہ جمع اند
    اے دوست بیارحم بہ تنہائی ماکن

    شمع اور پروانہ، گل اور بلبل سب یکجا ہیں
    اے دوست! میری تنہائی پر رحم کھا اور تو بھی آجا

    امردپرستی کا یہ سیلاب جتناآگے بڑھتا گیا، پرزور ہوتا گیا۔ چنانچہ سلجوقی دور میں یہ عالم تھا کہ عارف و عامی سب اس کی رَو میں بہے چلے جاتے تھے۔ اس دور کے اکثر ممتاز اور نامور شعرا اسی رنگ میں رنگے نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم صرف چند واقعات نقل کرتے ہیں، 

    اوحد الدین کرمانی۔ (متوفی ۵۳۶ھ) اکابر صوفیہ میں آپ کا شمار ہے۔ شیخ محی الدین عربی کی صحبت سے فیضیاب ہوئے۔ سید حسینی سادات، اوحدی مراغی اور فخرالدین عراقی جیسے بزرگوں نے آپ کے چلہ خانہ میں چلے کھینچے۔ خوبرویوں سے آپ کو بہت زیادہ دلبستگی تھی اور جس وقت محبت جوش زن ہوتی تھی تو کسی خوبرو کو اپنے سینہ سے چمٹالیتے تھے تب کہیں جاکر دل تسکین پاتا تھا۔ جس وقت آپ بغداد تشریف لے گئے تو خلیفہ کے بیٹے نے جو بہت خوبصورت تھا آپ سے ملنا چاہا۔ لوگوں نے کہا کہ ان کاتو یہ طریقہ ہے کہ کسی حسین کو دیکھتے ہیں تو سینہ سے چمٹا لیتے ہیں۔ خلیفہ زادہ نے کہا کہ اگر میرے ساتھ یہ حرکت کی تو میں اسے قتل کرڈالوں گا۔ وہ صوفی نہیں کافر ہے، ملحد ہے، بدعتی ہے۔ الغرض وہ شیخ کے یہاں پہنچا۔ آپ بذریعہ کشف خلیفہ زادہ کے ارادے سے مطلع ہوچکے تھے۔ آپ نے یہ رباعی پڑھی، 

    سہل است مرا برسرِ خنجر بودن
    درپائے مرادِ دوست بے سربودن

    خنجر پر گلا رکھ دینا اور دوست کی آرزو کے مطابق قتل ہوجانا میرے لیے سہل ہے،

    تو آمدۂ کہ کافرے را بہ کشی
    غازی چوتوئی رواست کافر بودن

    تم ایک کافر کو قتل کرنے کے ارادے سے آئے ہو۔ جب تم غازی ہو تو کافر ہوناجائز ہے۔ 

    یہ رباعی سن کر خلیفہ زادہ شیخ کے پاک باطن کا قائل ہوا اور آپ کے حلقہ ارادت میں داخل ہوگیا۔ مثنوی مصباح الارواح آپ کی گراں پایہ تصنیف ہے۔ 

    سوزنی سمرقندی: متوفی ۵۶۲ھ یا ۵۶۵ھ۔ ہزل گوئی اور ہجونگاری میں شہرۂ آفاق ہے۔ آخر عمر میں توبہ کی اور حرمین شریفین کی زیارت سے مشرف ہوا۔ اس کا ایک واقعہ اسی کی زبان سے سنیے، 

    گفتا پدرم می نگرد، دورشواز من
    آخر بہ پدر ہست حمیت بہ پسر بر

    اس نے مجھ سے کہا کہ دور ہو، میرا باپ دیکھ رہا ہے۔ آخر باپ کو بیٹے کی غیرت ہوتی ہے۔ 

    گفتم کہ خدایا سببے ساز بزودی
    کایں ماہِ شکر خندہ بگرید بہ پدربر

    میں نے کہا اے اللہ جلد کوئی ایسی صورت پیدا کردے کہ اس ماہ رو کا باپ مرجائے۔

    صاحب مجمع الفصحا کابیان ہے کہ جوانی میں سوزنی ایک درزی کے لڑکے پر عاشق ہوگیا اور اس کی محبت میں درزی کاپیشہ اختیارکیا۔ بعدازاں جب اس کی طبیعت شاعری کی طرف مائل ہوئی تو سوزنی تخلص اختیار کیا۔

    مجیر بیلقانی: متوفی ۵۷۲ھ، صاحبِ آتش کدہ کا بیان ہے کہ لڑکپن میں شروان پہنچ کر خاقانی کی خدمت میں رہنے لگا۔ خاقانی نے اسے بیٹا بنالیا۔ مجیر نے خاقانی کی مدح میں قصائد بھی کہے ہیں۔ انجام کار خاقانیؔ کے ایک رشتہ دار پر عاشق ہو گیا۔ بربنائے غیرت خاقانی عاشق و معشوق کے درمیان جدائی کا باعث ہوا۔ آزارِ فراق نے مجیر کی جان پر بنادی۔ قریب تھا کہ عذاب مفارقت اس کاخاتمہ کردے۔ خاقانی کو اس کی زبوں حالی پر ترس آگیا اور اس کے محبوب کو اس کی عیادت کے لیے بھیج دیا۔ محبوب نے اپنے بیمار کا سر اپنے زانو پر رکھ کر بہت کچھ اظہارِ نوازش کیا۔ آخر مجیرؔ اچھا ہوگیا اور دوبارہ زندگی پائی۔ مگر اب اس کے لیے شروان میں ٹھہرنا محال تھا، ناچار تبریز کا رخ کیا۔ خاقانی سے بگڑ گئی۔ 

    فخر گرگانی: فخر الدین اسعد نام، اپنے زمانے کے مشہور فضلا اور شعرا میں آپ کا شمار ہے۔ سلطان محمد بن محمود سلجوقی کے مداح تھے۔ مثنوی ’’دیس درامین‘‘ آپ ہی کی تصنیف ہے۔ آپ سلطان کے ایک غلام پر عاشق ہوگئے تھے۔ سلطان کو جب اس واقعہ کی خبر ہوئی تو اس نے ایک رات کو مے خواری کی مجلس میں آپ کو اس غلام کے ساتھ تنہا چھوڑ دیا۔ آپ نے سلطان کے احترام اور اپنی پاک دامنی کا پاس کرتے ہوئے غلام کواسی بے خودی کی حالت میں کمرہ میں سلا دیا او راس کے سرہانے اور پائینتی کئی شمعیں روشن کرکے خود باہر چلے آئے اور ایک گوشے میں بیٹھ کر اپنے دردِدل میں مشغول ہوگئے۔ اتفاقاً غلام نے سوتے میں حرکت کی۔ ایک شمع گرپڑی جس سے بستر میں آگ لگ گئی اور رفتہ رفتہ فرش، بستر، مکان اور غلام سب کو جلاکر راکھ کا ڈھیر کردیا۔ اس المناک سانحہ نے آپ کا دل توڑ دیا اور آپ بادشاہی ملازمت سے دست کش ہوگئے۔ 

    اشرفی سمرقندی: متوفی ۵۹۵ھ۔ سید معین الدین نام۔ آپ سمرقند کے سادات رفیع الدرجات میں سے تھے۔ رضاقلی خاں ہدایتؔ نے آپ کو ’’اعلمِ علما ء و افضل فضلائے زمانِ خود‘‘ لکھا ہے۔ صاحبِ آتش کدہ کے بیان کے مطابق ایک مدت تک امورِ شرعیہ کا انتظام آپ کے سپرد کردیا۔ آپ کی وفات کے بعد حکام و سلاطین نے آپ کے قوانین و ضوابط کو اپنا دستور العمل بنایا۔ بیغو ملک شاہ کے عہد میں آپ کچھ دنوں کے لیے ہرات تشریف لے گئے تھے۔ وہاں ایک امیرزادہ پر عاشق ہوگئے۔ ایک دن آپ چند احباب اور اپنے معشوق کے ساتھ باغ کی سیر کو تشریف لے گئے۔ وہاں ہر قسم کی باتیں ہوتی رہیں یہاں تک کہ جسم و روح کی الفت کامسئلہ چھڑا۔ سید صاحب نے فرمایا کہ ارواح کا ربط ازلی دنیوی اختلاط کاباعث ہوتاہے۔ اتنے میں ایک قمری نے جو سروکی شاخ پر بیٹھی ہوئی تھی دردناک آواز سے کُو کُو کرنا شروع کیا۔ سید صاحب کے معشوق نے پوچھا کہ اگر یہ قمری سرو پر عاشق ہے تو اس کامحبوب اس کے پاس موجود ہے، پھر فریاد کیوں کر رہا ہے اور اگر سرو پر عاشق نہیں ہے تو پھراس کا معشوق کون ہے۔ اور اگر عشق سے بے بہرہ ہے تو اس کی یہ دردناک آواز دل پر اثر کیوں کرتی ہے۔ سید صاحب نے فرمایا کہ زمانۂ فراق کی وجہ سے فریاد کرتی ہے۔ معشوق یہ سن کر ہنس دیا اور غلیل اٹھاکر اس بیچاری قمری کو نشانہ بنایا۔ قمری مرکر سرو کے نیچے گرپڑی۔ سید صاحب یہ حال دیکھ کر غصہ سے بیتاب ہوگئے۔ اس مجلس سے اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ جو شخص بلاوجہ ایک بے گناہ پرندے کی جان لیتا ہے وہ دوستی کے لائق نہیں۔ معشوق نے بہت کچھ معذرت کی مگر کچھ نتیجہ نہ ہوا۔ کہتے ہیں کہ وہ معشوق تھوڑے دنوں بعد کہیں سفر میں گیا۔ راہزنوں نے اسے تیر کا نشانہ بنایا۔ آپ کا ایک شعر بھی سن لیجیے، 

    خواہم کہ فراواں بکشم بار جفایش
    لیکن نہ تو انم کہ زتن بردہ تواں را

    میں تو اس کا ظلم بہت کچھ سہنا چاہتاہوں مگر کیا کروں اس نے تو میرے جسم کی قوت ہی سلب کرلی۔ 

    ظہیر فاریابی: متوفی ۵۹۸ھ۔ وہی ظہیر فاریابی جس کے کلام کی تعریف میں یہ شعر زبان زدِ خاص و عام ہے، 

    دیوانِ ظہیر فاریابی
    درکعبہ بدز داگر بیابی

    وہی ظہیرؔ فاریابی جسے بعض لوگوں نے پیغمبری سخن انوریؔ پر ترجیح دی ہے۔ مدتوں جو انانِ لشکر لب کی محبت میں سرگرداں رہا اوررقیبوں کے ہاتھوں بڑی بڑی اذیتیں سہیں۔ کہتا ہے، 

    طفل شوخے بردہ از کف اختیارم اے ظہیرؔ
    در ہوائے عشق او درکہنہ سالی میردم

    رضی: مولانا رضی الدین نیشاپوری، مداحِ ارسلاں بن طغرل بیگ سلجوقی۔ ایک دفعہ آپ ایک نوجوان تاجر پر عاشق ہوگئے اور ہر وقت اس کی خدمت میں حاضر رہتے تھے اور سفر میں بھی اس کے ساتھ جایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ اثنائے سفر میں آپ بیمار ہوگئے۔ قافلہ ایک ہولناک بیابان میں سے گزر رہا تھا۔ آپ کے معشوق اور دوسرے لوگوں نے جب آپ کو قریب مرگ پایا تو آپ کی زندگی سے مایوس ہوکر آپ کو وہیں بیابان میں چھوڑ کر چل دیے۔ جب آپ کی آنکھ کھلی تو خود کو تنہا پایا۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں نے اس وقت اپنے دل میں کہا کہ شدتِ عصیاں کے باعث خدا سے طلب رحمت کی بھی ہمت نہیں پڑتی لیکن وہ تو غفور رحیم ہے۔ بس اشکِ ندامت میری آنکھوں سے جاری ہوگئے۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بزرگ نورانی صورت ظاہر ہوئے او رمجھ سے پوچھا کہ کیا حال ہے۔ میں نے کہا بیمار ہوں، تنہا ہوں اور وطن سے دور۔ فرمایا معشوقِ حقیقی سے دل لگاکہ کبھی تنہا نہ رہے۔ یہ کہہ کر غائب ہوگئے۔ میری بیماری زائل ہوچکی تھی۔ میں اٹھ کر روانہ ہوا اور تھوڑے ہی فاصلہ پر قافلہ سے جاملا۔ مجھے صحیح و سالم دیکھ کر سب حیران رہ گئے۔ میں نے کسی کی طرف التفات نہ کیا اور حجاز کو روانہ ہوگیا۔ یہ رباعی آپ کی تصنیف ہے۔ 

    ہر نیم شبے دردِ تو بیدار کند
    واندیشہ تو دردلِ من کارکند

    تیرا درد آدھی رات کو مجھے بیدار کردیتا ہے اور تیرا خیال میرے دل پر چھاجاتا ہے۔ 

    رحم آرکہ دردِ دل من، می ترسم
    روزے بہ چنیں شبت گرفتار کند

    مجھ پر رحم کر، مجھے ڈر ہے کہ میرا دردِدل کہیں ایک دن تجھے بھی ایسی ہی رات سے دوچار نہ کردے۔

    یہ چھٹی صدی ہجری کے واقعات ہیں لیکن جس وقت ہم ساتویں صدی میں داخل ہوتے ہیں تو چاروں طرف امرد پرستی کے شور انگیز طوفان کے سوا اور کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اس دور کی سوسائٹی کی اخلاقی حالت کا اندازہ کرنا ہوتو گلستاں کاباب پنجم پڑھ لینا کافی ہے۔ شیخ سعدیؔ کے علم و فضل اور تقدس و بزرگی سے انکار نہیں لیکن سوسائٹی کے اثر سے بچنا ان کے لیے بھی ممکن نہ ہوا۔ گلستاں کے پانچویں باب میں عشق و جوانی کے متعلق بیس حکایتیں لکھی ہیں جن میں سے پندرہ میں خود اپنی اور دوسروں کی امرد پرستی کے واقعات بیان کیے ہیں۔ اور یہ امرد پرست کون لوگ ہیں؟ کوئی عالمِ دانشمند، کوئی شیخِ پارسا، کوئی معلمِ مدرسہ، کوئی خواجہ ذی مرتبت، کوئی قاضی شہر۔ قاضی ہمدان کی حکایت خاص طور پر پڑھنے کے لائق ہے۔ یہ بزرگ ایک نعلبند کے لڑکے پر عاشق ہوگئے تھے۔ آخر جب اس کے ساتھ خلوت میں پکڑے گئے اور بادشاہ نے آپ کو سزا دینی چاہی اور کہا کہ ’’میرے نزدیک مناسب یہ ہے کہ تجھے قلعہ پر سے نیچے گرا دیا جائے تاکہ تو ہلاک ہوجائے اور لوگ اس واقعہ سے عبرت حاصل کریں۔‘‘ قاضی نے جواب دیا کہ ’’اے خداوندِ جہاں! یہ جرم دنیا میں تنہا میں نے ہی نہیں کیا ہے۔ کسی اور کو گرادیجیے تاکہ میں اس سے عبرت حاصل کروں۔‘‘ بات سچی تھی۔ بادشاہ کو ہنسی آگئی اور قاضی کو معاف کردیا۔ 

    درحقیقت ایک قاضی ہمدانؔ نہیں، خدا جانے کتنے قاضی اور مفتی، فقیہہ اور مدرس، عالم اور صوفی یہ خطرناک کھیل کھیلا کرتے تھے۔ اسی کے متعلق شیخ سعدیؔ نے کہا ہے کہ، 

    گرد ہے نشینند باخوش پسر
    کہ ماپاکبازیم و اہلِ نظر

    لوگ ایک خوبرو چھوکرے کے گرد جمع ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو پاکباز اور اہلِ نظر ہیں۔ 

    ایک اور جگہ فرماتے ہیں، 

    محتسب درفقائے رندان است
    غافل ازصوفیانِ شاہد باز

    محتسب رندوں کے پیچھے پھرتا ہے لیکن شاہد باز صوفیوں کی اسے خبر نہیں کہ وہ کس رنگ میں ہیں۔ 

    خود شیخ سعدیؔ علم و فضل اور تقدس و بزرگی میں کس سے کم تھے مگر کاشغر کی جامع مسجد میں بھی نہیں چوکتے۔ ایک خوبرو چھوکرے کو دیکھ کر یہ شعر پڑھتے ہیں کہ، 

    اے دلِ عشاق بدامِ توصید
    مابتو مشغول و تو باعمر وزید

    تبریز کے حمام میں ہمامؔ تبریزی کے خوبصورت لڑکے کو گھورنے کے لیے پہنچتے ہیں۔ ہمامؔ انہیں دیکھ کر بیٹے کو اپنی پیٹھ کے پیچھے چھپا لیتا ہے۔ آپ ہمامؔ کا یہ شعر پڑھتے ہیں، 

    درمیانِ من و معشوق حجاب است ہمام
    دارم اُمید کہ آں ہم زمیاں برخیزد

    درحقیقت امرد پرستی کا زہر ان بزرگوں کے رگ و پے میں سرایت کرگیا تھا۔ زبان سے جو کچھ نکلتا تھا وہ اسی جذبے کی ترجمانی کرتاتھا۔ خیر یہ تو پھر بھی معمولی باتیں ہیں۔ شیخ نے گلستان میں اپنے متعلق جو واقعات لکھے ہیں ان کے مطالعہ کے بعد یہ مان لینا پڑتا ہے کہ امرد پرستی اس زمانے کے فیشن میں داخل تھی۔ 

    خواجہ حافظؔ اس بارے میں بہت خوش قسمت تھے کہ جی کھول کر مے پرستی اور شاہد بازی کی داد دینے کے باوجود آج ملامتِ خلق سے محفوظ ہیں۔ ان کی آلودہ دامنی کے ہم بھی قائل نہیں لیکن انہوں نے اپنے متعلق خود جو کچھ کہا ہے اس کا یقین نہ کرنا بھی ہمارے نزدیک ان پر دروغ گوئی کی تہمت لگانا ہے۔ خدا بھلاکرے دیوانِ حافظؔ کے خوش اعتقاد شارحین اور حاشیہ نگاروں کا جنہوں نے حافظؔ کے ہر شعرکو ایک معمہ اور چبستاں بنادیا۔ ان کے نزدیک خواجہ حافظؔ نے جو کچھ کہا ہے وہ استعارہ کے پیرائے میں ’’حقیقت‘‘ کا بیان ہے۔ ’’مجاز‘‘ سے اسے کوئی سروکار نہیں۔ حافظؔ کی ہر شراب معرفتِ الٰہی ہے۔ حافظؔ کامعشوق یا ذاتِ باری ہے یا پیرِ روشن ضمیر۔ خواجہ صاحب کی بادہ نوشی کے متعلق بحث کایہ محل نہیں، ہاں ان کی شاہد بازی یا بالفاظِ دیگر امرد پرستی کے متعلق چند شعر نقل کردینا بے محل نہ ہوگا۔ فرماتے ہیں، 

    یارب ایں بچہ ترکاں چہ دلیر اند بخوں
    کہ بہ تیرِ مژہ ہر لحظہ شکارے گیرند

    خدایا یہ تُرک بچے خون بہانے میں کیسے دلیر ہیں کہ ہر لحظہ پلکوں کے تیر سے ایک شکار مار لیتے ہیں۔ 

    آخر کون ہیں یہ ترک بچے؟ خدا تو یقیناً نہیں۔ کیونکہ خود خدا ہی سے ان کے متعلق استفسار کیا جارہا ہے۔ اب رہ گئے مرشدانِ طریقت تو انہیں بھی ترک بچے کہنا شارحین کے نزدیک جائز ہو تو ہو خواجہ صاحب جیسے اندازہ دانِ ادب اور خوش ذوق انسان سے اس قسم کی جاہلانہ گستاخی کی توقع ہرگزنہیں کی جاسکتی۔ 

    گرآں شیریں پسر خونم بریزد
    دلاچوں شیر مادر کن حلالش

    اگر وہ خوبرو چھوکرا میرا خون بہائے تو اے دل تو اُسے ماں کے دودھ کی طرح حلال کردے۔ 

    اے نازنیں پسر! تو چہ مذہب گرفتۂ
    کت خونِ ماحلال ترازخونِ مادراست

    اے نازنین لڑکے! آخر تونے کون سا مذہب اختیار کیا ہے کہ تیرے نزدیک ہمارا خون ماں کے دودھ سے زیادہ حلال ہے۔ 

    کیا ارشاد ہوتا ہے اس ’’شیریں پسر‘‘ اور ’’نازنین پسر‘‘ کے بارے میں؟ یہ پیر صاحب ہیں یا اللہ صاحب؟ 

    عمر بگزشت بہ بے حاصلی و بوالہوسی
    اے پسر جامِ میم وہ کہ بہ پیری برسی

    بوالہوسی اور ہرزہ سرائی میں ایک عمر گزرگئی۔ اے چھوکرے مجھے جامِ شراب دے۔ خدا تیری عمر دراز کرے۔ 

    مائیم و غمِ عشق جوانے وخیالے
    وزماہِ رخش گشتہ تنم ہمچوہلالے 

    ہم ہیں اور ایک جوان کاعشق۔ اس کے چاند جیسے مکھڑے نے مجھے ہلال کی طرح خمیدہ کردیا۔ 

    دلبرم شاہد و طفل است، ببازی روزے
    بکشزارم و درشرع نباشد گنہش

    میرا معشوق ایک کمسن چھوکرا ہے۔ کسی دن کھیل کھیل میں وہ مجھے مار ڈالے گا اور ازروئے شرع اس سے کوئی مواخذہ نہ ہوگا۔ 

    صنمِ لشکریم غارت دل کردہ برفت
    آہ اگر عاطف شاہ نگیر دوستم

    معشوق لشکری میرا دل لوٹ کر چلتا ہوا۔ اگر بادشاہ کی عنایت نے میری دستگیری نہ کی تو قیامت ہوگی۔ 

    عاشق روئے جوانے خوش و نوخاستہ ام
    وزخدا صحبتِ اورابدعا خواستہ ام

    ایک خوبصورت کمسن چھوکرے پر میں عاشق ہوں۔ خدا سے دعاکرتا ہوں کہ اس کا وصل نصیب ہوجائے۔ 

    من آدمِ بہشتی ام امادریں سفر
    حالی اسیر عشقِ جوانانِ مہ وشم

    اصلاً میں بہشتی ہوں لیکن اس سفر (یعنی دنیا میں ) جوانانِ ماہ وش کے عشق میں گرفتار ہوں۔ 

    یارب تو آں جوانِ دلاور نگاہ دار
    کزتیرِ آہِ گوشہ نشیناں حذرنہ کرد

    حافظا! وعظ و نصیحت گو مکن
    ترکِ ترکانِ خطا نہ بود صواب

    چند بناز پرورم مہر بتانِ سنگدل
    یاد پدرنمی کنندایں پسرانِ ناخلف

    بخوفِ طوالت ہم نے صرف چند ہی شعر نقل کیے ہیں ورنہ خواجہ صاحب کے دیوان میں درجنوں اشعارایسے موجود ہیں جن میں ’’نازنین پسر‘‘ سے محبت کا ذکر ہے۔ اس قسم کے اشعار کی کوئی معقول تاویل نہیں کی جاسکتی اور سچ پوچھیے تو کسی تاویل کی ضرورت نہیں، اس لیے کہ خواجہ صاحب نے کوئی نئی بات نہیں کہی۔ کوئی دنیا سے نرالا کام نہیں کیا۔ اس زمانے میں جو سب کہتے تھے وہی انہوں نے بھی کہا۔ جو سب کرتے تھے وہی انہوں نے بھی کیا۔ 

    اس قسم کے اشعار ہر شاعر کے دیوان میں مل جائیں گے لیکن اس مضمون میں ہم نے اندرونی شہادتوں سے بحث نہیں کی ہے لہٰذا بلاستثنائے خواجہ حافظؔ صرف ان لوگوں کا تذکرہ کیا ہے جن کی شاہد بازی کا کوئی واقعہ کسی تاریخ یا تذکرہ میں مسطور ہے۔ باقی حضرات کو نظرانداز کردیا ہے۔ اس اصول کی بناپر خواجہ حافظؔ کا تذکرہ اس مضمون میں نہ ہونا چاہیے تھا لیکن خواجہ صاحب کو اپنی عالمگیر شہرت کے باعث چونکہ غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے اس لیے ان کا ذکر ضروری سمجھا تاکہ قارئین کو اندازہ ہوجائے کہ خواجہ حافظؔ جیسے بزرگوار پر بھی اس زمانے کی سوسائٹی کا کتنااثر تھا۔ 

    بابا افضل کاشی: معاصر سعدیؔ، آپ ایک جید فاضل اور بلند پایہ عارف تھے۔ خواجہ نصیر الدین طوسی نے آپ کی شان میں یہ قطعہ کہا ہے، 

    گر عرض دہد سپہر اعلیٰ
    فضل فضلا و فضلِ افضلؔ

    اگر آسمان باباافضلؔ اور دوسرے فضلا کی فضیلت پیش کرے،

    ازہر ملکے بجائے تسبیح
    آواز آید کہ افضلؔ افضل

    تو ہر فرشتہ اپنی تسبیح کے بجائے یہ کہے کہ بابا افضل سب سے افضل ہے۔ 

    آپ ہی کے پاسِ خاطر سے خواجہ نصیر الدین طوسی نے ہلاکو خاں سے سفارش کی تھی جس کی بدولت فتنۂ مغول کے زمانہ میں کاشان اور اس کے نواحی تخت و تاراج سے محفوظ رہے۔ کئی رسالے جو بقول لطف علی بیگ آذر ’’کلیدِ مخزنِ علوم‘‘ ہیں، آپ کی تصنیف ہیں۔ آپ ایک درزی کے لڑکے پر عاشق ہوگئے تھے اور تین برس تک آپ کا یہ معمول رہا کہ اکثر اوقات اپنے معشوق کی دکان کے برابر کے دروازے میں بیٹھے خیالِ محبوب میں غرق رہاکرتے تھے۔ اِدھر ادبِ عشق اور اُدھر حجابِ حسن مانع تھا اس لیے عاشق و معشوق کے درمیان کبھی گفتگو کی نوبت نہ آتی تھی۔ آخر ایک دن آپ اپنے محبوب کی دکان پر گئے وہ دکان پر موجود نہ تھا۔ معلوم ہوا کہ چند خوبرو نوجوان کے ساتھ باغ کی سیر کو گیا ہے۔ آپ بھی پوشیدہ طور پر وہاں پہنچے اورایک پیڑ کے نیچے بیٹھ کر ان خوبرویوں کے نظارۂ جمال میں مصروف ہوگئے۔ 

    ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے چاہنے والے کا حال سنا رہاتھا۔ آپ کے معشوق نے کہا کہ تین برس سے ایک شخص ہماری دکان کے پاس بیٹھا رہتا ہے۔ مجھ پر عاشق ہے لیکن میں نے کبھی اس سے بات نہیں کی۔ اس لیے کہ جس وقت میں کپڑا پھاڑتا ہوں تو اس میں سے الفراق الفراق کی آواز آتی ہے۔ چونکہ ہروصال کاانجام فراق ہے اور رنجِ فراق جانکاہ ہوتا ہے اس لیے میں نے گوارانہیں کیا کہ وہ اس عذاب میں مبتلا ہو۔ اسی وجہ سے میں بظاہر اس سے کوئی سروکار نہیں رکھتا۔ بابا افضلؔ نے یہ بات سنتے ہی ایک آہ کانعرہ مارا اور بے ہوش ہوگئے۔ سب لڑکے آپ کے پاس پہنچے اورآپ کو پہچان لیا اور آپ کا معشوق بھی آپ کے قدموں میں گرپڑا اور آپ کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوگیا۔ یہی واقعہ آپ کے ترک و تجرید کاباعث ہوا۔ آپ زیادہ تر رُباعی کہا کرتے تھے۔ آپ کی مندرجہ ذیل رُباعی جو غلطی سے ابوسعید ابوالخیر کی طرف منسوب کی جاتی ہے، اہل حال کی زبانوں پر ہے، 

    باز آ باز آ ہر انچہ ہستی باز آ
    گر کافر و گبروبت پرستی باز آ

    ایں درگہ مادر گہ نو میدی نیست
    صدبار اگر توبہ شکستی بازآ

    کامی سبزواری: شاگرد مولاناجامیؔ، ضیاء الدین یوسف فرزندِ مولانا جامیؔ پر عاشق ہوگیا تھا۔ یہ شعر اس کا ہے۔ 

    برآب وقتِ رفتن عکس رخت فتادہ
    یاباغبان زشرمت گل را بآب دادہ

    پانی میں یہ تیرے چہرہ کاعکس ہے یا باغبا نے تجھ سے شرمندہ ہوکر پھول پانی میں ڈال دیا ہے۔ 

    ضیائی آرد بیلی: وطن سے ہرات پہنچا۔ میرعلی شیرنوائی نے اس کی بہت قدر کی۔ ہرات میں خواجہ میرک صاحبِ دیوان کے صاحبزادہ بدیع الزماں میرزا پر عاشق ہوگیا۔ واقعہ کی پوری تفصیل آتشکدۂ میں مذکور ہے۔ 

    شہزادہ سام میرزا ولد شاہ طہما سب صفوی کاتذکرۂ شعرا، تحفۂ سامی، جو ۹۵۷ھ میں تصنیف ہوا۔ دور صفویہ خصوصاً دسویں صدی ہجری کی ایرانی سوسائٹی کا بہترین آئینہ ہے۔ اس میں سلاطین و امرا، ساداتِ عظام و علمائے کرام ’’حضراتِ واجب التعظیم‘‘ (جو کبھی کبھی شعر کہہ لیا کرتے تھے ) وزرائے محترم و سائر ارباب قلم و شعرا کے حالات لکھے ہیں اس دور میں شاہد بازی کو جو قبول عام حاصل تھا اس کا اندازہ اس امر سے ہوسکتاہے کہ تحفۂ سامی میں ہر طبقہ کے بزرگوں کی امردپرستی کے حالات مندرج ہیں۔ بعض حضرات کے تراجم بطور اختصار یہاں نقل کیے جاتے ہیں۔ تحفۂ سامی کے علاوہ دوسرے تذکروں سے بھی مدد لی گئی ہے لہٰذا جن لوگوں کے حالات تحفۂ سامی سے ماخوذ ہیں ان کے سامنے ’’تس‘‘ (تحفۂ سامی) لکھ دیا گیا ہے۔ 

    میرقربی: (تس) ساداتِ گیلان میں سے ہیں۔ لیکن قزوین میں سکونت اختیار کرلی ہے۔ ایک جوان پر عاشق ہوگئے ہیں۔ ہر وقت اس کی خدمت میں حاضر رہتے ہیں اور راتوں کو اس کے کوچہ میں گھوماکرتے ہیں۔ یہ مطلع ان کا ہے، 

    بسلامت زسر کوئے ملامت نہ روم
    گرروم از سرِ کویت بسلامت نہ روم

    کوچۂ ملامت سے میں سلامتی کے ساتھ نہیں جاؤں گا اور اگر چلا بھی گیا تو تیرے کوچہ سے سلامت نہ جاؤں گا۔ 

    قاضی محمد: (تس) مدتوں رےؔ کے قاضی رہے۔ وصالیؔ تخلص کرتے تھے۔ ۹۳۲ھ میں وفات پائی۔ جوانی میں صادقؔ نامی ایک جوان پر عاشق ہوگئے تھے۔ اس نے آپ کو ایک حوض میں گرادیا اور آپ کا ہاتھ زخمی کردیا۔ اس واقعہ کے متعلق آپ نے یہ قطعہ کہا، 

    بعشق صادق اگردستِ من شکست چہ باک
    ہرآنکہ عاشقِ صادق بود چنیں باشد

    پے ثبوت مرااحتیاجِ بینہ نیست
    گواہِ عاشق صادق در آستیں باشد 

    قاضی مسیح الدین عیسی ساوجی: اپنے زمانے کے بہترین علما میں آپ کا شمار ہے۔ آپ کو شہزادہ (وبعدازاں سلطان) یعقوب کا معلم مقرر کیا گیا۔ شہزادہ کے حسنِ زاہد فریب نے آپ کا دل چھین لیا۔ کچھ دنوں تو یہ بات چھپی رہی آخر بادشاہ کو اس کی خبر ہوگئی۔ چونکہ قاضی صاحب کی پاکبازی مسلم تھی اس لیے بادشاہ نے آپ کے اعزاز و اکرام میں اور بھی اضافہ کردیا۔ یہ شعرآپ کاہے، 

    ہرگزنہ بود ازتو گمانِ جفا مرا
    دیگر بکس نہ ماندہ امیدِ وفامرا

    تجھ سے تو مجھ کو جفاؤں کا گمان تک بھی نہ تھا۔ اب کسی سے مجھے امید وفا کی نہ رہی۔ 

    میر نصیبی: سید جلیل القدر و فاضل عظیم الشان، آپ طبقۂ ساداتِ نور بخشیہ میں سے ہیں۔ ابتدائے حال میں رےؔ سے شیراز آئے اور علامہ جلال الدین دوّانی کے حلقہ تلامذہ میں داخل ہوگئے۔ اسی زمانے میں گوئیے کے ایک لڑکے سے جس کانام محمودؔ تھا آپ کو عشق ہوگیا۔ شورِ محبت نے ایسا وارفتہ کیا کہ دنیا کے تمامی امور سے بیگانہ ہوگئے بالآخر علامہ دوّانی کی وفات کے بعد اپنے وطن طرشت (رے ) کو لوٹ آئے اور اپنے دیوان کی ترتیب میں مشغول ہوگئے۔ ۵۱۴ھ میں وفات پائی۔ یہ شعر ان کا ہے، 

    زندہ درعشق چاں بود نصیبیؔ مجنوں
    عشق آں روز مگر ایں ہمہ دشوار نبود

    اے نصیبیؔ! مجنوں عشق میں زندہ کیسے رہا۔ شاید اس زمانہ میں عشق اس قدر دشوار نہ تھا۔ 

    مولانا ابدال: 4 (تس) اصفہانی الاصل، ابتدامیں عطاری کرتے تھے۔ سام میرزا کا بیان ہے کہ مولانا مدتوں میرے ساتھ رہے۔ میں نے پوچھا کہ آپ ابدال کس طرح بن گئے۔ انہوں نے بیان کیا کہ جس زمانے میں میں عطاری کرتاتھا ایک جوان پر عاشق ہوگیا تھا۔ ایک دن میں نے اپنے معشوق کے لیے غزل کہی اور دکان کے سامنے اسے سنارہا تھا کہ ایک مُحَصَّل آیا اور مجھ سے روپے کا مطالبہ کیا۔ میں نے کہا ذراٹھہرجا۔ اس نے ایک ڈنڈا میرے سر پر مارا۔ میرا معشوق یہ حال دیکھ کر پراگندہ خاطر ہوگیا اور وہاں سے چلا گیا۔ آتشِ جدائی میرے سینہ میں شعلہ زن ہوگئی۔ دکان کو میں نے آگ لگادی اور شہر کے باہر ایک قلندر سے ملاقات ہوئی۔ میں نے اپنے کپڑے اسے دے دیے اور اس کی گُدڑی خود لے لی۔ آستین پھاڑ کر سر پر رکھ لی اور الف کی طرح ایک دھجی اس کے دامن میں سے پھاڑ کر کمر میں باندھ لی اور کوئے یار کی طرف روانہ ہوگیا۔ میرے عزیزوں نے جب یہ حال دیکھا تو مجھے کچھ نصیحت اور ملامت کی۔ آخر مجھے دارالشفا لے گئے اور تین مہینہ تک قید میں رکھا مگر کچھ نتیجہ نہ ہوا۔ ناچار مجھے رہا کرکے مجھ سے ترکِ تعلق کرلیا۔ اس کے بعد تین برس تک میں اصفہان میں ننگے سر، ننگے پاؤں پھرتا رہا۔ پھر تبریز چلا گیا۔ پانچ برس تک وہاں ارمینوں کے ساتھ اسی طرح گزارے۔ اسی زمانہ میں یہ غزل کہی تھی، 

    مقطع،
    ابدال برائے یک پیالہ
    دردیر نشستہ چوں کشتیاں 

    اس کے بعد توفیق الہی رہنما ہوئی، توجہ کی اور بارہ برس عبادت و ریاضت میں گزارے۔ یہ مطلع ان کا ہے، 

    تُرکِ من شیوۂ بیدا ونکو میداند
    طرز عاشق کشی آنست کہ اومیداند

    میرا معشوق شیوۂ بیداد خوب جانتا ہے۔ عاشق کشی کااصلی طریقہ وہی ہے جو اسے معلوم ہے۔ 

    مولانا حیرانی: اصلاً قمّی ہیں مگر ہمدانی مشہور ہیں، سلطان یعقوب کے ندیم تھے۔ کئی مثنویاں لکھی ہیں۔ کاشان میں ایک جوان پر عاشق ہوگئے تھے لہٰذا کاشان کے قاضی نے شہر سے آپ کے اخراج کا حکم دے دیا۔ اس موقع پرآپ نے قاضی کی ہجو میں جو قصیدہ کہا تھا وہ کافی مشہور ہے۔ یہ مطلع آپ کاہے، 

    صباحِ عید اگر من دستِ آں نازک بدن بوسم
    زشادی تابہ شب آں روز دستِ خویشتن بوسم

    مولانا سائل: متوفی ۹۲۸ھ۔ اصلاً رازی مگر ہمدانی مشہور ہیں۔ شاعرِ شیریں زبان تھے۔ اکثر اہل استعدادآپ کی صحبت کو غنیمت سمجھتے تھے۔ آپ ہمیشہ ایک وجد و حال کے عالم میں رہتے تھے۔ شعرائے معاصرین کے ساتھ آپ کے بہت معرکے رہے۔ ہمدان میں ایک جوان پر عاشق ہوگئے تھے۔ اس جوان کے اعزہ و اقارب نے آپ کو بڑی بڑی ایذائیں پہنچائیں۔ ایک دن اُن لوگوں نے آپ کو بالکل برہنہ کرکے بہت ہی ذلیل کیا۔ ناچارآپ نے نِہاوند کا راستہ لیا۔ آپ کا معشوق اس دن شکار کو گیا ہوا تھا۔ برف دباراں کاطوفان آگیا اور وہ اپنے ساتھیوں سے بچھڑگیا۔ راستہ میں مولانا سے ملاقات ہوگئی۔ ساری رات عاشق و معشوق یکجا رہے اور کوئی خلل انداز نہ تھا۔ ایک مرتبہ آپ کا معشوق گھوڑے سے گرپڑا تو آپ نے یہ رباعی کہی، 

    دی درسرزمیں اے قمر زہرہ جبیں
    گرزانکہ فتاوی نبودعیب توزیں 

    اے ماہ َرو! اگر تو کل گھوڑے سے گرپڑا تو اس میں تیرا کوئی قصور نہیں۔ 

    تو برگِ گلی واسپِ توبادِ صبا است
    از بادِ صبا برگِ گل افتدبہ زمیں 

    تو پھول کی پتی ہے اور تیرا گھوڑا بادصبا۔ بادصاب سے پھول کی پتی زمین پر گر ہی پڑتی ہے۔ 

    مولانا شہودی گیلانی: اصلاً آپ لاہیجانی ہیں۔ سلطان یعقوبؔ کے معاصر تھے۔ مدتوں قاضی یحییٰ لاہیجانی کے ایک رشتہ دار پر عاشق رہے۔ ارباب غرض نے مولانا کو بہت تکلیف پہنچائیں اور قاضی موصوف سے شکایت کی۔ قاضی صاحب نے آپ کے قتل کا فتویٰ دے دیا۔ اسی اثنا میں مولانا کا محبوب اس مجلس میں آپہنچا۔ مولانا اسے دیکھتے ہی بیہوش ہوگئے۔ قاضی صاحب کو بھی آپ کی اس حالتِ زار پر ترس آگیا۔ اور خود قاضی صاحب کے حکم سے معشوق نے آپ کے منہ پر گلاب چھڑکا او ربہت کچھ اظہارِ لطف و نوازش کیا۔ یہ رباعی آپ کی ہے، 

    بربرگِ سمن سنبل تر ریختہ
    ازآب حیات آتش انگیختہ

    زنہار مدہ ببادآں زلف سیاہ
    کزہرتارش دلے درآویختہ


    مولانا آہی ترشیزی: آپ سلسلہ گورگانیہ کے آخری تاجدار سلطان حسین بایقرا (متوفی ۹۱۰ھ) پر عاشق ہوگئے تھے۔ سلطان آپ کی بہت مراعات کرتاتھا۔ یہ شعر آپ کا ہے۔ 

    مراگویند مشکلہائے عشق از صبربکشاید
    مرا صبرے اگر بودے نہ گشتے کارِمن شکل

    صبر کی تلقین کرتے ہیں مرے غمخوار حیف
    صبر ممکن ہو تو پھر روناہی کیا تقریر کا

    امیر ہمایوں: آپ اسفرائن کے بزرگ زادوں میں سے ہیں۔ جوانی میں آپ تبریز میں سلطان یعقوب کے ایک جوان ملازم ولیؔ بیگ نامی پر عاشق ہوگئے تھے۔ اس محبت نے آپ کو شاعر بنادیا۔ سال بھر تک آپ ہر روز معشوق کے گزرگاہ میں بیٹھا کرتے تھے لیکن ملاقات نہیں ہوتی تھی۔ آخر کسی نے ولی بیگ کو بھی اس واقعہ سے آگاہ کردیا۔ ایک دن وہ کچھ لوگوں کے ساتھ اُدھر سے گزر رہا تھا۔ امیر موصوف سے ملاقات ہوگئی۔ کہا کوئی شعر سنائیے۔ آپ نے فی البدیہہ یہ مطلع پڑھا، 

    یک دم کہ باتوام بسوئے من نظر مکن
    سیرت ندیدہ ام زخودم بے خبر سکن

    دم بھر کے لیے میں تیرے پاس ہوں، تو میری طرف نہ دیکھ۔ میں نے ابھی جی بھر کے تجھے نہیں دیکھا ہے۔ مجھے بیہوش نہ کر۔ 

    اہلی خراسانی: (تس) ترشیزہ کاباشندہ، نہایت خوش گو شاعر ہے۔ ہمیشہ عشق بازی کیا کرتاتھا۔ آخر خراسان میں فریدوںؔ میرزا پر بری طرح فریفتہ ہوگیا۔ مجنوں کی طرح بال بڑھالیے تھے جو سر پر جھاڑ جھنکار کی طرح الجھے رہتے تھے، اسی کے متعلق کہتا ہے، 

    موئے ژولیدہ کہ برسرمنِ ابتر دارم
    سایۂ دولتِ عشق است کہ برسردارم

    آخر شہزادہ نے اس درویش وفاکیش کو اپنی خدمت میں طلب کیا اور بہت نوازش فرمائی۔ تباہی سلطنت کے بعداہلیؔ تبریز چلا گیا۔ وہاں کبھی ایک جوان سے کبھی دوسرے جوان سے عشق بازی کرتارہا۔ آخر بڑھاپے میں گوشہ نشیں ہوگیا۔ یہ شعر اس کا ہے، 

    ہمہ چوں ذرّہ زخورشید رخت رقص کناں
    ماندہ چوں سایہ منم درپسِ دیوار ازتو

    سب کے سب تیرے آفتاب رخ سے ذروں کی طرح رقص کر رہے ہیں۔ ایک میں ہی سایہ کی طرح دیوار کے نیچے پڑا ہوں۔ 

    بابافغانی شیرازی: شاعر مشہور، صاحب طرز سمجھا جاتا ہے۔ جوانانِ گل اندام کی محبت میں اس نے بڑی بڑی ذلتیں سہیں۔ صاحب دیوان ہے۔ یہ شعر اس کا ہے، 

    وصالم ہست امارخصتِ بوس و کنارم نے
    گلم درخوابگاہ و خواب درپیراہن است امشب

    فروغی استرابادی: شاہ طہما سب صفوی کے فضلا و شعرائے دربار میں آپ کا شمارہے۔ اکثر جوانانِ شیریں شمائل کی محبت میں گرفتار رہے۔ ائمہ ہدا کی مدح میں بہت سے قصائد لکھے ہیں۔ فرماتے ہیں، 

    بدشنام راندی مرا، سوئے من بیں
    چوزخمم زدی لطف فرمائے مرہم

    تم نے گالیاں دے کر مجھے نکال دیا، میری طرف دیکھو تو زخم لگایا ہے تو اب مرہم بھی دو۔ 

    گلشنی کاشانی: (تس) ابتدامیں مشک بیچا کرتا تھا اور خوبرویوں کی جستجو میں بادشاہی لشکر میں آیا جایا کرتاتھا۔ ’’عاشقہ پیشہ‘‘ آدمی ہے۔ عتبات عالیات کی زیارت سے مشرف ہونے کے بعد شوستر پہنچا، وہاں ایک جوان پر عاشق ہوگیا۔ آج کل وہیں مقیم ہے۔ خط نستعلیق خوب لکھتا ہے۔ یہ شعر اس کاہے، 

    چودادی دل بہ دلدارے مشواز بیدلاں غافل
    چو عاشق گشتۂ باید کہ دانی قدر عاشق را

    اب توتم ایک دلدار پر فریفتہ ہو، اب تو اپنے عاشق سے تغافل نہ کرو۔ عاشق ہونے کے بعد تو تمہیں عاشق کی قدر جاننی چاہیے۔ 

    جاروبی: (تس) والیِ ہرات درمش خاں پر عاشق تھا۔ یہ شعر اس کا ہے، 

    ازکوئے توچوں باد برآشفتم درفتم
    گردے زدلِ مدعیان رُفتم درفتم

    رہائی: (تس) شعرائے توران میں سے ہے۔ وہاں سے شروان پہنچا اور سلطان خلیل شروان پر عاشق ہوگیا اور اس عشق کی بدولت بڑی بڑی اذیتیں اور مصیبتیں اٹھائیں۔ یہ شعر اس کا ہے، 

    باکس زجوریار حکایت نمی کنیم
    صد شکرمی کنیم و شکایت نمی کنیم

    ہم کسی سے جفائے یار کاذکرنہیں کرتے۔ شکرکرتے ہیں شکایت نہیں کرتے۔ 

    فانی تبریزی: (تس) تبریز کے معززین میں سے تھا، ہمیشہ امردوں کی صحبت میں رہتا تھا۔ یہ شعر اس کا ہے، 

    کرامیخواستی کز مہربانی باز بفریبی
    کہ گاہ از سوزش شمع گاہ از پروانہ میگفتی

    تم کسے پھر اپنی مہربانی سے پھانسنا چاہتے تھے کہ کبھی سوز شمع کا ذکر کرتے تھے اور کبھی پروانے کا۔ 

    قاضی سنجانی: (تس) آپ شاہ سنجان کی اولاد میں ہیں۔ بلاکے ذہین اور تیز فہم ہیں۔ ’’مخزن الاسرار‘‘ کے تتبع میں ایک مثنوی ’’منظرالابصار‘‘ تصنیف کی ہے اور ایک اور مثنوی میں شاہ طہماسب کے کارنامے نسب کیے ہیں۔ اتفاق سے ۹۰ برس کی عمر میں قاضی صاحب بلائے عشق میں مبتلا ہوگئے اور بہت کچھ ملامت کانشانہ بنے، بڑی ذلتیں سہیں، بہت رسوا ہوئے۔ ایک دن ایک جوان نے مذاق کے طور پر آپ سے پوچھا کہ یہ شعر کس کاہے، 

    اے پیر گشتہ بہر جواناں زرہ مرد
    موئے سپید درپئے زُلفِ سیہ مرد

    اے بڑے میاں جوانوں کی خاطر گمراہ نہ ہو، یہ سفید بال لے کر سیاہ زلفوں کے پیچھے نہ پھرو۔

    قاضی صاحب نے فی البدیہہ جواب دیا، 

    قاضی آخردرمیاں بازیچۂ طفلاں شدی
    خودبگو پیرانہ سرایں عشق درزیدن چہ بود

    پرتوی شیرازی: اپنے عہد کاممتاز شاعر ہے، ۔ شاقی نامہ خوب کہا ہے۔ ایک جوان پر عاشق ہوگیا تھا۔ معشوق کسی بات پراس سے بگڑ گیا اور مدتوں خفا رہا آخر صلح ہوگئی۔ یہ شعر اس کا ہے، 

    مرا بجور چوکشتی وفا چہ فائدہ دارد
    کنوں کہ جاں بلب آمد جفا چہ فائدہ دارد

    واہب اصفہانی: میرزا حسن نام۔ شاہ عباس صفوی کے عہد میں ایک معزز عہدے پر سرفرازتھے۔ ایک زمانہ میں آپ کو داغ نامی ایک چھوکرے سے عشق ہوگیا تھااور کسی طرح اس کا وصال میسر نہیں ہوتا تھا۔ محبوب کی بے مہری اوراغیار کی مخالفت نے آپ کی جان پر بنادی تھی۔ ایک دن آپ کے ایک دوست نے بیان کیا کہ آپ کا معشوق ایک ’’گوے زرد‘‘ نامی طوائف پر عاشق ہوگیا ہے۔ میرزا صاحب نے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور ایک قطعہ لکھ کر اسے بھیجا۔ ایک شعر یہ ہے، 

    عالمے صید تو گروید چو اوصید توشد
    بود درطائع حسنت کہ شود عالمگیر

    جب وہ تیرا شکار ہوگیا تو گویا ساری دنیا تیری شکار ہوگئی۔ تیرے حسن کی قسمت میں عالمگیر ہونالکھا تھا۔ 

    رجائی ہروی: مولانا حسن علی نام۔ ’’درویشِ دل ریش، فاضلِ نیک اندیش۔‘‘ ابتدا میں آپ ایک جوان صرّاف پر عاشق ہوگئے تھے۔ اکثر اوقات آپ اپنے معشوق کی دکان کے سامنے ایک سان گر کی دکان میں کام کیا کرتے تھے۔ خواب میں مولانا نظامی نے آپ کو رجائیؔ تخلص عطا فرمایا۔ جس وقت میرزا شرف جہاں قزدینی خانہ نشیں تھے۔ مولانا رجائی حج کو جاتے وقت ان سے ملے تھے۔ 

    محتشم کاشی: مداح شاہ طہماؔ سب صفوی۔ دور صفیہ کے شعرامیں محتشم کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ بلکہ جہاں تک شہرت کا تعلق ہے کسی کو یہ بات نصیب نہیں ہوئی۔ محتشم کا ترکیب بند جوسید الشہدا کے مرثیہ میں لکھا ہے اکثر بلا د اسلام میں مشہور ہے۔ محتشم ایک خوبرو، شاطر، مسمی بہ جلالؔ پر بری طرح عاشق ہوگیا تھا، اس نے اپنی داستانِ محبت خود اپنے قلم سے لکھی ہے جو جلالیہ کے نام سے موسوم ہے۔ یہ ۶۴ صفحہ کا ایک مختصر رسالہ ہے جس میں ۶۴ غزلیں اور باقی نثر ہے۔ مضمونِ ہذا کی ترتیب کے دوران میں راقم الحروف کو جلالیہ کے مطالعہ کااتفاق ہوا۔ یہ رسالہ اس عہد کی سوسائٹی کی ایک روشن تصویر ہے۔ بادہ کشی اور شاہد بازی لوگوں کی طبیعت ثانی بن گئی تھی۔ گھر گھراسی کاچرچا تھا۔ کوئی صحبت اس کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی تھی۔ محتشم کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں شاعری اور امرد پرستی لازم و ملزوم ہوگئے تھے۔ محتشم نے جہاں اپنی پاک بازی کا ذکر کیا ہے وہاں دوسرے شعرا آلودہ دامنی پر بھی طعن کی ہے۔ شاطر جلالؔ جس وقت کاشان پہنچا، عشاق اوراہل نظر کے لیے قیامت آگئی۔ ہر شخص نقدِ دل ہاتھ میں لیے نذر دینے چلاآتا ہے۔ سب سے زیادہ اہم بات محتشم نے یہ بیان کی ہے کہ امرد پرستی کے شوق میں شعرا عورتوں سے بیزار ہوگئے تھے۔ 

    جیسا کہ ہم پیشتر بیان کرچکے ہیں سام میرزا نے تحفہ سامی میں لفظ ’’عاشق پیشہ‘‘ ہر جگہ امرد پرست کے معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ اس زمانہ میں عشق بازی اور امرد پرستی کے ایک ہی معنی تھے۔ سطور ذیل میں تحفۂ سامی سے چند ایسے بزرگوں کا حال نقل کیا جاتا ہے جو کسی خاص جوانِ شیریں شمائل کے دلدادہ نہ تھے بلکہ ان کی شاہد پرستی عام تھی۔ ہر ’’نازنین پسر‘‘ ان کی محبت کامرکز ہوسکتاتھا۔ 

    مولانا قرشی: جمند کے باشندے، عاشق پیشہ ہیں۔ دل درد مند پایا ہے۔ مدتوں سلسلہ نور بخشیہ کی ملازمت میں رہے۔ رمل جاتنے ہیں۔ یہ شعر ان کا ہے، 

    پیرم وسست وازیں حال پریشانم سخت
    کہ مبادا از سر کوئے توبر بندم رخت

    میں بوڑھاہوں اور کمزور اور اس حالت سے سخت پریشان ہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ تیرے کوچہ سے چلتاہوجاؤں۔ 

    مولانا عبدی: خطاطی میں مولانا شاہ محمود کے استاد اورمولانا سلطان علی مشہدی کے شاگرد تھے۔ باوجود پیری سروقامتوں سے دل بستگی رکھتے تھے۔ مدتوں شاہ طہماؔ سب صفوی کے ملازم رہے۔ یہ شعر ان کا ہے، 

    اے دل کشیدہ دار چو عبدی عنانِ صبر
    گر مہرِ مہوشاں ہوس است ایں قدر بس است

    قاری قزوینی: درویشانِ قزوین میں سے تھے۔ بتانِ آتشیں رخ کی محبت کا شعلہ جب سینہ میں بھڑکتا تھا تو ننگے سر، ننگے پاؤں، نالاں و گریاں گھوما کرتے تھے او رجن دنوں عشق کا جوش ٹھنڈا ہوجاتا تھا تو گوشہ نشیں ہوکر شعر کہا کرتے تھے۔ یہ شعر آپ کاہے، 

    اے زدہ مہر رخت برمنِ گریاں آتش
    دارم از جورتو بردل غم و برجاں آتش

    میرہادی موسوی: اول طلب علم میں مشغول تھے لیکن عشق بازی نے تعلیم چھڑوادی۔ شاہ طہماؔسب صفوی کے عہد میں محتسب کے عہدے پر مامور تھے اس کے باوجود خود مناہی کے مرتکب ہوتے تھے، آخر میں مشہد امام رضا علیہ السلام کے متولی بنائے گئے۔ کبھی کبھی شعر کہتے تھے۔ یہ شعر آپ کاہے، 

    بگفتم تیغِ کیں بردار و اوّل قتل ہادی کن
    بخندہ گفت در عاشق کشی ہادی نمی خواہم

    میں نے کہا تلوار اٹھاؤ اور پہلے ہادی کو قتل کر ڈالو۔ ہنس کر بولے کہ مجھے عاشق کشی میں ہادی کی ضرورت نہیں۔ 

    امیر کمال الدین: ولد حضرت امیر حکیم، طبیب، عاشق پیشہ، رند مشرب تھے۔ فصاحت میں اپنی نظیر نہ رکھتے تھے۔ صاحبِ دیوان ہیں۔ یہ شعر ان کا ہے، 

    کجا وفائے تواز من جفادریغ مدار
    کہ جز جفائے تو اے بے وفانمی خواہم

    کہا ں کی وفا، تو مجھ پر جفا ہی کر۔ بے وفا میں تو تیری جفا ہی کا طلب گار ہوں۔ 

    میر عبدالباقی: سادات اصفہان سے ہیں۔ خاصے مولوی ہیں مگر ہمیشہ سروقامتوں سے دل بستگی رکھتے ہیں۔ اسی لیے لشکر میں آتے جاتے ہیں۔ بادشاہ اس بات سے ناراض ہوگیا۔ مثنوی ’’سجتہ الابرار‘‘ کا جواب لکھتا ہے۔ تصوف میں ایک اور مثنوی بھی لکھی ہے۔ عاشقانہ اشعاربھی کہتے ہیں۔ 

    میر قریش کاشانی: رمل خوب جانتے ہیں۔ ان کے مطلع سے ان کی کل کیفیت معلوم ہوسکتی ہے، 

    زاں خوشد لم کہ یار ہمی گفت بارقیب سید قریش اسپ مرا بردو آب داد

    میں اس بات سے مسرور ہوں کہ میرے محبوب نے رقیب سے کہا کہ سید قریشؔ نے میرے گھوڑے کو لے جاکر پانی پلایا۔ 

    مولانا نطقی: عاشق پیشہ اور رند مشرب تھے۔ یہ شعر ان کا ہے، 

    بکش خنجر کہ جاں بہر تو اے نامہرباں دارم توخنجر درمیاں داری و ن جاں درمیاں دارم

    خزانی قمی: عاشق پیشہ تھا۔ اکثر اوقات قبرستانوں میں رہتا تھا۔ یہ شعر اس کاہے، 

    بہار و چشم جہاں ہیں جدا زدیدنِ یاراست
    خزانِ عمر من است ایں بہار ایں نہ بہار است

    بہارآئی ہے اور محبوب میری آنکھوں سے دور ہے۔ یہ بہار نہیں یہ تو میری زندگی کی خزاں ہے۔ 

    مولانا مجلد: آپ خراسانی ہیں، جلد سازی اور عشق بازی میں زندگی گزارتے تھے۔ یہ شعر ان کاہے، 

    ہرگہ کہ خشم برمن درویشی می کنی
    لب میگزی و جانِ راریش می کنی

    شمسی شیروانی: زین سازی آپ کا پیشہ تھا۔ آخر عشق بازی میں رسوا ہوئے۔ یہ شعر ان کا ہے، 

    مہ من یار اغیار است بامن یار بایست
    ہدیں خواری کہ من افتادہ ا اغیار بالیتے 

    امیر مقبول: اس کا وقت زیادہ تر رندوں کی صحبت میں گزرتا تھا۔ اس کی غزل پردازی اور عشق بازی دور دور مشہور ہے۔ یہ شعر اس کا ہے، 

    ہر دم بصورتِ دگرم دل رود زدست
    عاشق شدن خوش است بہر صورتے کہ ہست

    سوسنی: اس شاعر کے حالات کے ضمن میں سامؔ میرزا نے کسی راوی کی زبان سے ایک واقعہ نقل کیا ہے، جس سے اس عہد کی سوسائٹی پر خاصی روشنی پڑتی ہے۔ 

    ’’ایک دن ہم لوگ چند خوبرو نوجوان کو ساتھ لیے سوسنیؔ کے ہمراہ سیر کر رہے تھے۔ آپس میں یہ قرار پایا تھا کہ راستہ میں جو کوئی جوانِ شیریں شمائل ملے اس کے مناسب حال ہم لوگ ایک شعر کہیں، اتفاقاً ایک قصاب کے لڑکے سے مڈبھیڑ ہوئی۔ ہم میں سے ہر شخص فکرِ شعر کرنے لگا۔ سوسنیؔ نے ہم سب سے پہلے یہ شعر پڑھا، 

    ہر گہ آں قصاب خنجر برگوئے من نہد
    می زنم سربرزمیں تاپا بروئے من نہد‘‘

    یہاں اس دور کے چند ایسے شعرا کا ذکر کر دینا بیجا نہ ہوگا جو خود چراغ انجمن تھے اور عشاق ان پر پروانہ وار گرتے تھے۔ 

    شیخ کمال: شہریار قزوین شاہ میرزا کا بیٹا اور ملک محمود خاں ویلمی کا پوتا۔ نظر باز اس کی شمع جمال کے پروانہ تھے۔ یہ مطلع اس کا ہے، 

    اے زمیں آں قامتِ رعنا نگر
    زیر پائے کیستی بالانگر

    خرامی تبریزی: صباحت و ملاحت میں شہرۂ شہر اور حسنِ خرام میں آشوب دہر ہے۔ یہ مطلع اس کا ہے، 

    میر دم از کوئے جاناں بادلِ افگارِ خویش
    زانکہ پوشد دامنم از دیدۂ خونبارِ خویش

    زلالی تبریزی: جب تک حسین تھے شاعر تھے۔ دوسرے شعرا مدد کیا کرتے تھے۔ جب ڈاڑھی نکل آئی تو شعر کہنا موقوف ہوگیا۔ یہ مطلع ان کاہے،

    بشنو ایں نکتہ سنجیدہ زغم خوردہ عشق
    کہ بہ از زندۂ بے عشق بود مردہ عشق

    حریفی نہاوندی: آغازِ جوانی میں ترکوں کے پاس رہا۔ جوانی کے بعد شاعر ہوگیا۔ یہ مطلع اس کا ہے، 

    بسینہ چوں درآمد تیراوجاں کرد آہنگش
    دِلم از رشک ادبگرفت در پہلوئے خود تنگش

    غزالی ھروی: المشہور بہ چنبک۔ جس وقت تک سبزۂ خط نمودار نہ ہوا تھا، کمینے بدمعاشوں کی صحبت میں رہتا تھا۔ بعد میں شاعر ہوگیا۔ یہ مطلع اس کا ہے، 

    تادر اقلیم جمالت بادشاہی دادہ اند
    مہر و مہ برخوبی حسنت گواہی دادہ اند

    ان تمام واقعات کی موجودگی میں کون کہہ سکتا ہے کہ محمود غزنوی کے زمانے سے لے کر چھ سو برس بعد تک ایران میں دھوم سے امرد پرستی نہیں کی گئی۔ اور یہ گھناؤنا مشغلہ کسی خاص طبقہ کے لیے مخصوص نہ تھا بلکہ عارف و عامی سبھی اس میں برابر حصہ لیتے تھے۔ خصوصیت کے ساتھ، شعراکی زندگی اس کے بغیر زندگی ہی نہ تھی۔ درحقیقت یہی چیز باعث ہوئی میں جفائے محبوب کے شکوۂ پیہم کی۔ 

    بات یہ ہے کہ ایک ’’نازنیں پسر‘‘ کی صفاتِ محبوبی ایک شاعر کے لیے تو شیفتگی کاباعث ہوسکتی تھیں لیکن خود شاعر میں وہ صفات سادہ روئی کہاں جو اس کے محبوب کے جذبات محبت کو برانگیختہ کرسکیں۔ نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ محبت یک طرفہ رہتی تھی۔ اور یہ قدرتی بات تھی۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک نوخیز امرد اپنے سے کئی گنا زیادہ عمر والے شخص پر عاشق ہوجائے۔ اور بعض حالات میں تو حضرات عشاق کاسنِ شریف اپنے محبوب کے پدرِ بزرگوار بلکہ جدِّامجد سے بھی کہیں زیادہ ہوتا تھا۔ مرد عورت کے درمیان معاشقہ ہو تو اور کچھ نہ سہی کم سے کم جنسی کشش ہی محبوب کو اپنے چاہنے والے سے وابستہ رکھتی ہے لیکن ایک امرد کو کسی مولانا صاحب یا قاضی صاحب یا پیر صاحب یا صوفی صاحب یا سید صاحب یا شیخ صاحب سے کیا دلی لگاؤ ہوسکتا ہے۔ 

    اگرچہ اس زمانہ کی سوسائٹی کے نزدیک یہ ’’فن شریف‘‘ فیشن میں داخل تھا۔ اس لیے ’’پسرانِ نازنین‘‘ کے لیے بھی یہ امر کچھ ایسا معیوب اور شرمناک نہ تھا کہ لوگ ان پر عاشق ہوجائیں، پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ بعض جوانوں کی غیرت مند طبیعتیں اس شناعت کی تاب نہ لاسکیں اور انہوں نے اپنے چاہنے والوں کو قتل کردیا۔ بعض نے اپنے عشاق کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچائیں۔ اکثر ملاقات سے بالکل محترز اور مجتنب رہے۔ ایسی صورت میں عشاق کا شکوہ جفابالکل حقیقت پر مبنی اور بیانِ واقعہ ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جب غزل میں محبوب کے جور و جفا کا ذکر عام ہوگیا تو اکثر نقال شعرا محض دوسروں کی تقلید میں بھی ان مضامین کو باندھنے لگے۔ 

    اردو غزل میں بھی جفائے محبوب کی وہی دھوم دھام ہے جو فارسی غزل میں پائی جاتی ہے۔ مگر دونوں میں بڑا فرق ہے۔ فارسی میں بیشتر اصل ہے اور کمتر نقل، لیکن ہمارے یہاں اصل برائے نام اور باقی فارسی کی تقلید ہے۔

    حاشیہ

    (۱) (شعر العجم، جلد پنجم۔ ص۔ ۷۹-۸۰، اعظم گڑھ ایڈیشن)

    (۲) شعر العجم جلد۴، ص۲۰۰، اعظم گڑھ ایڈیشن۔

    (۳) رود ایک باجے کا نام ہے۔

    (۴) ابدال فارسی میں قلندر کو کہتے ہیں۔

     

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے