فاروقی کی تنقید نگاری سے متعلق چند باتیں
ہم تنقید کے اس عہد کو فاروقی کا عہد بھی کہہ سکتے ہیں۔ پچھلے تیس برس کی ادبی تاریخ میں کوئی بھی قابل ذکر بحث ایسی نہیں رہی جس میں شمس الرحمن فاروقی کی حیثیت مرکزی نہ رہی ہو۔ عسکری نے ایک بات جو یہ کہی تھی کہ حالی کے بعد اردو تنقید فاروقی کے واسطے سے ایک نئے معیار تک پہنچی ہے، اگر اس کے معنی کا تعین کیا جائے تو گزشتہ تین دہائیوں کے پس منظر میں سب سے زیادہ نمایاں تصویر فاروقی کی ہی ابھرتی ہے۔
اس امتیاز کا سبب کیا ہے؟ یہ سوال تنقید کے پورے معاصر منظر نامے کو سامنے لاتا ہے۔ بے شک، اس دور کی نظم اور افسانے کی طرح اس دور میں اردو تنقید نے بھی کئی نودریافت منزلیں طے کی ہیں۔ صرف ہندوستان میں اردو تنقید کی سرگرمیوں کو سا منے رکھا جائے تو فکشن کی تنقید کے پس منظر میں وارث علوی کے مضامین پر اور ادبی رویوں، میلانات، مباحث کے پس منظر میں خلیل الرحمن اعظمی، باقر مہدی اور فضیل جعفری کے مضامین پر فوراً نگاہ ٹھہرتی ہے۔ ان مضامین کا فکری حوالہ محض بیرونی تصورات نہیں بنتے، ہمارا جیتا جاگتا ادبی معاشرہ بنتا ہے۔ جو تنقید کسی عہد کے ادب اور ادب کے حوالے سے اس عہد کی انسانی صورت حال کو خاطر میں نہیں لاتی اس سے ہمارے تعلق کی نوعیتیں بھی رسمی محدود اور مصنوعی ہوتی ہیں۔ اسی لیے عالمانہ تنقید کا التباس پیدا کرنے والے (اکثر مترجمہ) مضامین سے زیادہ پرکشش اور توجہ طلب میرے لیے تخلیق لکھنے والوں کی تنقیدی تحریریں ہوتی ہیں۔
فاروقی کی تنقید نگاری کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنے کے لیے یا بہ حیثیت نقاد فاروقی کے مزاج و منصب کی تعیین کے لیے بہت تفصیل درکار ہے۔ اردو تنقید کی پوری تاریخ میں مختلف روایتوں، ذہنی رابطوں اور زمانوں کا ایسا سنگم جو فاروقی کی تحریروں سے ابھرتا ہے اس کی بس اکا دکا مثالیں ہمیں دکھائی دیتی ہیں۔ مشرق اور مغرب، قدیم اور جدید، روایتی اور غیرروایتی کا ایک انوکھا امتزاج فاروقی کے مضامین میں ملتا ہے۔ چنانچہ فاروقی کے تنقیدی شعور پر مشکل سے ہی کوئی حکم لگایا جاسکتا ہے۔ ان کا شعور ہمیشہ متحرک اور ارتقا پذیر رہا ہے۔ ان کی بصیرت بہت ہمہ گیر اور مرتکز مقصد آگاہ اور تجزیہ کار ہونے کے باوجود بہت جاذب رہی ہے۔
ہمارے زمانے میں تنقید تو تنقید، کئی فنون نے بھی اپنے عمل سے متعلق ایک بنیادی نکتہ فراموش کردیا تھا۔ ٹرسٹن زارا کے منشور کی اشاعت کے بعد مغرب میں اور مغرب کے رائج الوقت تصورات کی مقبولیت کے بعد مشرقی معاشروں میں بھی یہ وبا تیزی سے پھیلی کہ عالمی انسان کے ساتھ ساتھ فنون لطیفہ اور ادب کی عالمی قدروں کا ظہور اب ہوچکا ہے۔ اپنی ادبی تاریخ کے حساب سے دیکھا جائے تو انیسویں صدی کی بے لگام عقلیت پرستی اسی طرح کے ایک رویے کا طلسم و تماشا نظر آتی ہے۔ ہم اپنی نشاۃ ثانیہ کی زیادتیاں بھلادیتے ہیں۔ مگر اس فراموش کاری کا کیا جواز ہے کہ انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں اگرچہ ہماری فکری قیادت کرنے والوں کا ایک ایسا حلقہ بھی بن چکا تھا جو لڑکھڑا کر سنبھل چکے تھے۔ اور یہ حلقہ تاریخ کو اور روایت کو اور عالم گیر تصورات کے تسلط اور تفوق کے باوجود اپنی بنیادوں کو ایک نئے تناظر میں دیکھ رہا تھا۔ اور یہ ایک نئی مشرقیت کے اعلان کا لمحہ تھا جس کے مرکز پر سائنسی اور ٹکنولوجیکل ترقی کے ساتھ ساتھ پچھلے گم شدہ زمانوں کی روداد بھی سمٹ آئی تھی۔ لیکن اس حلقے کی باتوں پر بالعموم لوگوں نے دھیان نہیں دیا۔
سال بھر پہلے راجا روی ورما کی تصویروں کی نمائش ہوئی تو مصوری کے کئی نئے نقادوں کا سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ ILLUSTRATIVE ART گئے دنوں کا قصہ ہے۔ نئے سرے سے اس کا راگ الاپنے کے کیا معنی؟ گویا کہ ہندوستانی مصوری بلکہ پورے مشرق کی مصوری، یہاں تک کہ RENAISSANCE PAINTERS کا پورا سرمایہ حرف غلط تھا۔ کچھ ایسی ہی صورت حال ادبی تنقید کے منظرنامے پر بھی رونما ہوئی نظریے کے لفظ سے چڑ کے باوجود کلیے قائم کیے جانے لگے۔ اصول سازی کا مرض ایسا پھیلا کہ ادب کے لفظ سے چڑ کے باوجود کلیے قائم کیے جانے لگے۔ اصول سازی کا مرض ایسا پھیلا کہ ادب سے حقیقی دل چسپی کی جگہ فکری تنازعوں نے لی اور اس میلان کا یہ قہر اپنی تمام تر بدہیئتی کے ساتھ ہم آج دیکھ رہے ہیں کہ فوکو، دریدا، سوسیئر، رولاں بارتھ کے وظیفے میں ہمارے اپنے مشاہیر کی آوازیں گم ہوچکی ہیں۔
اس پس منظر میں غالب اور میر سے متعلق فاروقی کی تشریحات، داستان کی شعریات اور روایتی اصطلاحات کی وضاحتیں سامنے آئیں تو خیال آیا کہ یہ ’’لفظ و معنی‘‘ اور ’’شعر غیر شعر اور نثر‘‘ کی تفہیم کے سلسلے میں فاروقی کا ایک اگلا قدم ہے۔ تہذیب کا سفر ضروری نہیں کہ سیدھی لکیر کا سفر ہو۔ تاریخ کے متدائر تصور کی تفصیلات میں اختلاف کی گنجائش بے شک نکلتی ہے۔ مگر یہ تو تسلیم کرنا ہی چاہیے کہ دائرے میں اخذ اور انجذاب کی صلاحیت خط مستقیم سے زیادہ ہوتی ہے۔ اور تہذیب، فنون، ادبیات کی سطح پر ارتقا کا مفہوم یوں بھی متعین ہوتا ہے کہ کسی عہد نے اپنی آگہی اور بصیرت کے دائرے کو محض جوں کا توں رہنے دیا یا اسے کچھ اور وسعت بھی دی ہے۔ ظاہر ہے کہ تشریح اور تشریح میں، بیان اور بیان میں فرق ہوتا ہے۔ قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین کا بیانیہ طلسم ہوش ربا اور فسانہ آزاد کا بیانیہ نہیں ہے۔ اسی طرح فاروقی کی تشریح بھی سہا مجددی اور نظم طباطبائی کی تشریح نہیں ہے۔ اقبال اپنی مشرقیت کے مرحلے میں مغربیت کو عبور کرنے کے بعد داخل ہوئے تھے۔ فاروقی کی ابتدائی تحریروں کو ان کی حالیہ تحریروں کے ساتھ رکھ کر د یکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی تنقیدی بصیرتوں نے کیسے پرپیچ اور طویل سفر کے بعد اپنی راہ دریافت کی ہے۔
ایک آدھ بات فاروقی کے تنقیدی اسلوب کے بارے میں ’’لفظ و معنی ’’اور فاروقی کے تبصرے‘‘ میں نئے فکری اختلافات کے حوالوں سے فاروقی نے اپنی باتیں اکثر نیم جذباتی محاکاتی، مناظرانہ انداز میں تیز، چبھتی ہوئی زبان میں کہی تھیں۔ دھیرے دھیرے یہ رنگ دبتا گیا اور کسی مبصر نے ان کے اسلوب میں منطقی اثبات پسندوں جیسی بعض باتیں بھی ڈھونڈ نکالیں۔ مجھے یہ تاثر اس وقت بھی غلط محسوس ہوا تھا، آج بھی غلط دکھائی دیتا ہے کیونکہ اس رائے کی روشنی میں فاروقی کی تنقید کے کئی بنیادی اوصاف نمایاں ہونے کے بجائے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ اول تو منطقی اثبات پسندی کو ادبی تنقید کے سیاق میں زیادہ اہمیت دینا ہی درست نہیں۔ ہاں تخلیقی تجربے اور اس کی لسانی ہیئت کے باطنی روابط اور رموز کا معاملہ الگ ہے۔ دوسرے یہ کہ فاروقی نے اپنے تنقیدی اسلوب کے واسطے سے بھی ادب کے مطالعے کی ایک بنیادی قدر کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی ہے۔
یہ قدر ہے ادب پارے یا اصل تخلیقی متن کے بالمقابل تعبیر، تشریح اور تفہیم کے عمل کی ثانویت کے احساس اور اعتراف کی۔ فاروقی کی تنقیدوں میں زبان اور اسلوب ان تنقیدوں کے قاری اور اصل تخلیق کے مابین کسی طرح کی دھند یا دوری نہیں پیدا کرتے۔ میرا خیال ہے کہ اس معاملے میں بھی اردو تنقید کے سب سے برگزیدہ اور اولین معماروں (حالی، شبلی، آزاد) کے بعد سے ہمارے زمانے تک فاروقی تنقیدیں ایک خاص امتیاز رکھتی ہیں۔ فاروقی کے یہاں زبان ادائے مطالب کا ذریعہ ہے اور بس۔ یعنی کہ ادب کی تخلیق کرنے والے کے اختیارات میں ذراسی مداخلت بھی انہیں گوارا نہیں۔ اور ان کا تنقیدی اسلوب ایک تربیت یافتہ اور ذہین پڑھنے والے کے ردعمل کو جہاں تک ہوسکے، کسی قسم کی آرائش کے بغیر بے کم و کاست اپنے قاری تک پہنچانا چاہتا ہے۔ وہ اسے اپنے مطالعے، اپنی آگہی، اپنے تناظر میں شریک کرنا چاہتے ہیں، کسی جذباتی رشوت کی ادائیگی کے بغیر۔ اس طرح فاروقی نے تنقید کو ایک خالصتاً علمی اور فکری سرگرمی بنادیا ہے، بہت مناسب اور شایستہ طور طریق کے ساتھ۔
فاروقی کی علمیت اور وسعت مطالعہ حیران کن ہے۔ ان میں تجزیہ کاری اور ترکیب کاری کے اوصاف یکجا نہ ہوتے تو ان کی تنقید میں استدلال کا وہ منفرد انداز بھی پیدا نہ ہوتا جو ہر حقیقت کے حصے بخرے کرنے اور حقیقت کے مختلف عناصر کے امتزاج سے ایک نیا مرکب بنانے کی یکساں استعداد رکھتا ہے۔ فاروقی کی تنقید صرف متاثر نہیں کرتی، قائل بھی کرتی ہے۔ حواس کو محض روشن نہیں کرتی، انہیں متحرک اور آپ اپنے طور پر بھی آمادہ کار کرتی ہے۔ چنانچہ فاروقی کی تنقید نے ادب کے طالب علموں کو EDUCATE کرنے کا جو رول تن تنہا انجام دیا ہے، وہ نئی تنقید کے مجموعی رول سے کم اہم اور اثر آفریں نہیں رہا ہے۔
یہ تنقید صرف اردو تنقید کی روایت کو ہی نہیں بلکہ ہماری مجموعی ادبی اور معاشرتی روایت کو ایک نئی جہت دیتی ہے۔ مشرقی اور مغربی پیمانوں اور میزان اقدار کے فرق کو یہ تنقید مٹاتی نہیں، نہ ہی انہیں ایک دوسرے کے لیے اجنبی ٹھہراتی ہے۔ اس تنقید نے مغرب سے اپنے اکتسابات کے ذریعہ مشرق کو نئے سرے سے سمجھنے کا ایک جواز مہیا کیا ہے۔ ایک نئے زاویے کی تشکیل کی ہے اور تنقید کے منصب اور مقصد کا معیار اور منہاج کا ایک ایسا تصوروضع کیا ہے جسے ہم شاید صرف فاروقی سے ہی منسوب کرسکتے ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.