فکشن کی شعریات اور ساختیات
THE STRUCTURAL PATTERN OF THE MYTH UNCOVERS THE BASIC STRUCTURE OF THE HUMAN MIND THE STRUCTURE WHICH GOVERNSTHE WAY HUMAN BEINGS SHAPE ALL THEIR INSTITUTIONS, ARTIFACTS AND THEIR FORMS OF KNOWLEDGE.
(LEVI STARAUSS)
ساختیاتی طریقۂ کار بیانیہ (NARRATIVE) کے مطالعے کے لیے خاص طور پر موزوں ہے۔ اس کی اطلاقی سرگرمی سب سے زیادہ اسی میدان میں ملتی ہے۔ بیانیہ کا ایک سرا متھ، اساطیر، دیومالا، کتھا کہانی وغیرہ لوک روایتوں (FOLKLORE) سے جڑا ہوا ہے تو دوسرا ایپک، ڈرامے، ناول اور افسانے سے جڑا ہوا ہے۔ مؤخر الذکر اصناف طوالت، پیچیدگی اور فنی تراش خراش میں بیانیہ کے اولین قبل تاریخی لوک نمونوں سے خاصی مختلف ہیں۔ تاہم بیانیہ کی طویل تاریخ میں بعض ساختیاتی عناصر مشترک بھی ہیں، مثلاً پلاٹ، منظر نگاری، کردار، مکالمہ، انجام وغیرہ۔ ساختیاتی فکر چونکہ نظروں سے اوجھل داخلی ساخت اور کلی تجریدی نظام پر زور دیتی ہے، بیانیہ کی مختلف اقسام کا مطالعہ ساختیات کے لئے خاص کشش رکھتا ہے اور ساختیاتی مفکرین نے اس چیلنج کو بخوبی قبول کیا ہے۔)
ولاد میر پروپ اور لیوی سٹراس
بیانیہ (NARRATIVE) کے ساختیاتی مطالعے کے اولین بنیاد گزاروں میں روسی ہیئت پسندولاد میر پروپ (VLADMIR PROPP) اور فرانسیسی ماہر بشریات کلاڈلیوی سٹراس (CLAUDE LEVI STRAUSS) بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ پروپ کا کمال یہ ہے کہ اس نے اپنی معرکہ آرا کتاب MORPHOLOGY OF THE FOLKTALE. LENINGRAD 1928 میں روسی لوک کہانیوں کا تجزیہ پیش کرکے بیانیہ کے ساختیاتی مطالعے کی ایک نئی راہ کھول دی۔ اس کا انگریزی ترجمہ تیس برس بعد 1958میں یونی ورسٹی آف ٹکساس سے شائع ہوا۔ پروپ نے جس طرح روسی لوک کہانیوں کے فارم کی گرہیں کھولیں اور ان کی ساختوں کو بےنقاب کیا، اس نے آگے چل کر بیانیہ کے ساختیاتی مطالعے کے لیے ایک روشن مثال کا کام کیا۔
لیوی سٹراس نے بھی اگرچہ لوک روایتوں پر کام کیا، لیکن دونوں کے کام اور تجزیاتی رویے میں بنیادی فرق ہے، جس کا تذکرہ آگے آئے گا۔ پروپ کا کام نسبتاً سادہ ہے اور زیادہ پیچیدہ بھی نہیں، شاید اسی لیے پروپ کا اثر بعد کی ساختیاتی فکر پر زیادہ پڑتا رہا ہے۔ اس روسی کتاب کا تیس برس بعد انگریزی میں شائع ہونا اس کے طریقۂ کار کی صلابت اور اہمیت کا کھلا ہوا ثبوت ہے۔ ولاد میر پروپ بنیادی طور پر ہیئت پسند تھا جس نے روسی ہیئت پسندوں کی دین کا پورافائدہ اٹھایا اور بیانیہ کی شعریات کے تعین کی سمت میں اہم نیا قدم اٹھایا۔
پروپ کی فکر کے بنیادی نکات کو بیان کرنے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ شاعری اور متھ میں جو فرق ہے، وہ نظر میں رہے، اس لیے کہ موجودہ بیانیہ خواہ وہ کتنی ترقی کر چکا ہو، وہ اپنے قدیم ماڈل (PROTOTYPE) یعنی متھ، اساطیر، دیومالا، لوک ساہتیہ اور قصے کہانی سے رشتہ نہیں توڑ سکتا۔ بیانیہ کی بعد کی تمام ہیئتی اور معنیاتی ترقی کا جوہر یا اصل الاصول انہیں اولین بنیادی نمونوں میں ملتا ہے۔ بیانیہ عناصر وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں اور دیکھا جائے تو بعد کے زمانوں میں بیانیہ کے مختلف پیرایے نئی طاقت اور نئے تحرک کے لیے بار بار اپنے اولین سرچشمۂ فیضان کے طرف پلٹتے رہے ہیں۔ ادبی نظام میں شاعری کے مقابلے میں متھ یعنی بیانیہ کے جوہر کی اصلیت کیا ہے، اس بارے میں لیوی سٹراس کا یہ بیان غور طلب ہے،
’’متھ لسانی اظہار کا وہ حصہ ہے جہاں اطالی کہاوت “TRANSLATOR IS TRAITOR” مترجم مساوی ہے غدار کے، سچائی سے خالی معلوم ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے متھ کو لسانی اظہارات کے نقشے میں شاعری سے بالمقابل بالکل دوسرے سرے پر رکھنا پڑےگا (اگرچہ اس کے خلاف بہت کچھ کہا گیا ہے۔ ) شاعری وہ لسانی اظہار ہے جس کا ترجمہ بغیر اس کو شدید نقصان پہنچائے ممکن ہی نہیں۔ اس کے برعکس متھ میں کہانی کا عنصر بدترین ترجمے میں بھی ضائع نہیں ہوتا۔ ہم متھ کی زبان اور ثقافت کو خواہ جانتے ہوں یا نہیں، ایک متھ دنیا میں کہیں بھی اور کسی بھی زبان میں متھ ہی رہتی ہے اور بطور متھ ہی پڑھی اور سمجھی جاتی ہے۔ اس کی اصل نہ اسلوب میں ہے، نہ لفظوں کی موسیقی یا ان کی نحوی ترتیب میں ہے، فقط ’’کہانی‘‘کے عنصر میں ہے جس کو متھ بیان کرتی ہے۔ متھ بنیادی نوعیت کی وہ زبان ہے جس کا معنیاتی تفاعل لسانی اظہار کی کھردری سطح کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔‘‘ (STRUCTURAL ANTHROPOLOGY. P206)
اوپر کے بیان سے واضح ہے کہ متھ اور شاعری میں لسانی اظہار کی سطح پر قطبین کا فرق ہے۔ در اصل شاعری میں زبان کا لفظیاتی، استعاراتی اور مماثلتی (PARADIGMATIC) پہلو حاوی رہتا ہے، یعنی ہر ہر لفظ پوری شعری میراث کی گونج کا حامل ہوتا ہے اور یہی وہ عنصر ہے جو بقول رابرٹ فراسٹ ترجمے میں ضائع ہو جاتا ہے۔ “POETRY IS WHAT IS LOST IN TRANSLATION”
شاعری لسانی ثقافت کے اس عنصر سے فروغ پاتی ہے جو بے مثل یا یکتا (UNIQUE) ہے۔ اس کے برعکس متھ زبان کے اس اساسی پہلو یعنی UNIVERSAL سے عبارت ہے جو تمام زبانوں میں قدر مشترک کا درجہ رکھتا ہے۔ زبان کی بعض ساختوں کی طرح جو آفاقی نوعیت کی ہیں، متھ کی ساخت بھی آفاقی ہے۔ بمقابلہ لفظیاتی نظام کے جوہر زبان میں اپنی الگ خود مختارانہ حیثیت رکھتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ متھ اور لوک کہانیوں کا سرمایہ ساختیاتی مطالعے میں ترجیحی حیثیت رکھتا ہے اور اولین ساختیاتی مفکروں نے متھ کے مطالعے میں ایک خاص کشش محسوس کی۔ ولادمیر پروپ کا زمانہ 1920 کے بعد کا ہے، یعنی وہی دور جب روسی ہیئت پسند سرگرم عمل تھے اور ادبی منظرنامے پر چھائے ہوئے تھے۔ چنانچہ پروپ کا شمار بھی روسی ہیئت پسندوں میں کیا جاتا ہے۔ پروپ نے اپنے معاصر روسی ہیئت پسندوں کو بھی متاثر کیا اور بعد میں فرانسیسی ساختیاتی فکر پر بھی اثر ڈالا۔
پروپ سے پہلے وسے لووسکی (VESELOVSKY) اور بیدئیر (BEDIER) روسی لوک کہانیوں پر کچھ کام کر چکے تھے۔ پروپ کی اولیت یہ ہے کہ اس نے جملے کے تجزیے کو ماڈل بنایا اور لوک کہانیوں کی پرتیں کھولتے ہوئے ان کی آرکی ٹائپ تک پہنچ گیا۔ جملے کی بنیادی تقسیم موضوع اور اس کے عمل کی ہے۔ ’’بادشاہ نے اژدہے کو تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔‘‘ یہ جملہ کسی کہانی کا مرکزی حصہ یا پوری کہانی بھی ہو سکتا ہے۔ ’’بادشاہ‘‘ کو ’’شہزادے‘‘، ’’وزیر زادے‘‘ یا کسی بھی دوسرے جری کردار سے، تلوار کو ’’نیزے‘‘، ’’برچھی‘‘ یا تیروتبر سے اور ’’اژدہے‘‘ کو شیر، چیتے یا خطرناک یا ناپسندیدہ کردار سے بدل سکتے ہیں اور ساخت جوں کی توں رہےگی۔ جملے کی ساخت اور لوک کہانیوں کی ساخت میں مماثلت کی نشان دہی کرکے پروپ نے بیانیہ کے مطالعے کی نئی راہ کھول دی۔
پروپ نے ایک سو روسی کہانیوں کا انتخاب کیا اور اپنے تجزیے سے بتایا کہ کرداروں او ران کے ’’تفاعل‘‘ (FUNCTIONS) کی بنا پر ان لوک کہانیوں کی داخلی ساخت کو بے نقاب کیا جا سکتا ہے اور ان کی درجہ بندی کس خوبی سے کی جا سکتی ہے۔ اس نے ان کہانیوں کے مختلف اور مشترک عناصر کا تجزیہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ ان کہانیوں میں اگرچہ کردار بدلتے رہتے ہیں لیکن کرداروں کا ’’تفاعل‘‘ (FUNCTIONS) مقرر ہے اور تمام کہانیوں میں ایک سا رہتا ہے۔ کردار کے تفاعل کو کردار کا وہ عمل قرار دیتے ہوئے جو کہانی کی معنویت کے دوسرے اجزا سے جڑا ہوا ہے، پروپ نے استقراری طور پر چار قوانین مرتب کئے جنہوں نے آگے چل کر لوک ادب اور بیانیہ کے مطالعے کی نئی دنیا فراہم کر دی۔ آفاقی اطلاقیت اور صداقت کے اعتبار سے قانون تین اور چار کو بعد کے مفکرین نے سائنسی دریافت کا درجہ دیا ہے۔
(۱) کرداروں کے ’’تفاعل‘‘ کہانی کے راسخ اور غیرمذبذب عناصر ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ کون ان کو سرانجام دیتا ہے، یہ کہانی کے بنیادی اجزا ہیں۔
(۲) ’’تفاعل‘‘ کی تعداد کہانیوں میں محدود ہے۔
(۳) تفاعل کی ’’ترجیع‘‘ (SEQUENCE) ہمیشہ ایک سی رہتی ہے۔
(۴) باوجود تنوع کے تمام کہانیوں میں ’’ساخت’’ایک جیسی ہے۔
کرداروں کے ’’تفاعل‘‘ (FUNCTIONS) کے اعتبار سے ایک کے بعد ایک کہانی کا تجزیہ کرتے ہوئے پروپ اس نتیجہ پر پہنچا کہ کہانیوں میں کرداروں کے تفاعل (FUNCTIONS) کی کل تعداد اکتیس سے کسی طرح نہیں بڑھتی اور اگرچہ بعض کہانیوں میں عمل کی کچھ کڑیاں نہیں ملتیں، لیکن ہمیشہ ان کی ترتیب وہی رہتی ہے۔ تعداد میں فرق ہو سکتا ہے، لیکن ترتیب میں کوئی تبدیلی نہیں ہتی۔ ذیل ان میں تفاعل (FUNCTIONS) کا گوشوارہ (تفصیل کے لئے اصل سے رجوع ضروری ہے ) درج کیا جاتا ہے، یعنی ابتدائی منظر کے بعد جب گھرانے کے افراد سامنے آتے ہیں اور ہیرو کی نشان دہی ہو جاتی ہے تو کہانی ان تفاعل (FUNCTIONS) میں سے سب یا بعض کی مدد سے اسی ترتیب سے بیان ہوتی ہے۔
(۱) خاندان کا کوئی فرد گھر سے غائب ہو جاتا ہے۔
(۲) ہیرو کو ممانعت ہو جاتی ہے۔
(۳) ممانعت کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔
(۴) ولن جاسوسی کی کوشش کرتا ہے۔
(۵) ولن کو اپنے ’’شکار‘‘ (VICTIM) کے بارے میں اطلاع ملتی ہے۔
(۶) ولن اپنے ’’شکار‘‘ کو دھوکا دیتا ہے تاکہ اس پر یا اس کے مال و اسباب پر قبضہ کرلے۔
(۷) ’’شکار، دام تزویر میں آ جاتا ہے اور نادانستہ اپنے دشمن کی مدد کرتا ہے۔
(۸)، (الف) ولن خاندان کے کسی فرد کو نقصان پہنچاتا ہے یا اسے زخمی کر دیتا ہے۔
(۸)، (ب) خاندان کا کوئی فرد کسی چیز کی خواہش کرتا ہے یا اس میں کوئی کمی ظاہر ہوتی ہے۔
(۹) بدبختی معلوم ہو جاتی ہے، ہیرو سے درخواست کی جاتی ہے، یا اس کو حکم دیا جاتا ہے اور اس کو روانہ ہونے کی اجازت دی جاتی ہے یا اس کو بھیجا جاتا ہے۔
(۱۰) بدبختی کے ’’توڑ‘‘ کا فیصلہ کیا جاتا ہے یا فیصلے سے اتفاق کیا جاتا ہے۔
(۱۱) ہیرو گھر سے روانہ ہوتا ہے۔
(۱۲) ہیرو آزمائش میں مبتلا ہوتا ہے، سوال و جواب ہوتے ہیں، یا ہیرو پر حملہ کیا جاتا ہے۔ نتیجتاً کوئی جادوئی شے یا مددگار رونما ہوتا ہے۔
(۱۳) ہیرو مستقبل کے محسن کے اعمال کی مخالفت کرتا ہے۔
(۱۴) ہیرو جادوئی شے یا شخص کو حاصل کرتا ہے۔
(۱۵) ہیرو کو جس شے یا شخص کی جستجو ہوتی ہے، اس کا نشان ملتا ہے یا اس کو ادھر لے جایا جاتا ہے یا وہ ادھر جاتا ہے۔
(۱۶) ہیرو اور ولن کا براہ راست مقابلہ ہوتا ہے۔
(۱۷) ہیرو نشان زد کیا جاتا ہے۔
(۱۸) ولن کی شکست ہوتی ہے۔
(۱۹) بدبختی دور ہو جاتی ہے، یا اس کا اثر ختم ہو جاتا ہے۔
(۲۰) ہیرو کی واپسی ہوتی ہے۔
(۲۱) ہیرو کا تعاقب کیا جاتا ہے۔
(۲۲) ہیرو کو تعاقب سے بچایا جاتا ہے۔
(۲۳) ہیرو انجانے طور پر گھر لوٹتا ہے یا دوسرے ملک میں پہنچتا ہے۔
(۲۴) نقلی ہیرو دعوے دار بنا ہوا ملتا ہے۔
(۲۵) ہیرو کی اصلیت کی آزمائش ہوتی ہے، یا اس کو کوئی مشکل کام دیا جاتا ہے۔
(۲۶) کام ہو جاتا ہے۔
(۲۷) ہیرو کی شناخت ہو جاتی ہے۔
(۲۸) نقلی ہیرو یا ولن کو بے نقاب کیا جاتا ہے۔
(۲۹) نقلی ہیرو کو نئی شکل دی جاتی ہے۔
(۳۰) ولن کو سزا دی جاتی ہے۔
(۳۱) شادی کے شادیانے بجتے ہیں اور ہیرو کو تخت و تاج پیش کیا جاتا ہے۔
پروپ پہلے سات ’’تفاعل‘‘ کو تیاری کی منزل کہتا ہے۔ اسی طرح دوسرے زمروں کی بھی نشاندہی کی جا سکتی ہے، مثلاً دسویں تفاعل تک مصائب کا سلسلہ ہے، اس کے بعد بے گھری، دربدری، جنگ و جدال، مراجعت اور بالآخر وصال، شادی، تخت نشینی وغیرہ اور ان اکتیس ’’تفاعل‘‘ کے ساتھ ساتھ پروپ نے سات ’’دائرہ ہائے عمل‘‘ (SPHERES OF ACTION) بھی نشان زد کیے جو کرداروں کے رول اور ان کی نوعیت پر مبنی ہیں،
(۱) ولن (رقیب یا ناپسندیدہ کردار)
(۲) محسن
(۳) مددگار
(۴) شہزادی (معشوق) اور اس کا باپ
(۵) بھیجنے والا۔
(۶) ہیرو (عاشق یا ’’شکار‘‘)
(۷) نقلی ہیرو۔
پروپ کہتا ہے کہ ایک کردار ایک ہی کہانی میں ایک سے زیادہ رول بھی انجام دے سکتا ہے۔ مثلاً ولن نقلی ہیرو بھی ہو سکتا ہے، یا محسن قاصد بھی ہو سکتا ہے۔ اس طرح ایک رول میں کئی کردار بھی آ سکتے ہیں۔ مثلاً ایک سے زیادہ ولن لیکن ان کا دائرہ عمل وہی ہوگا جو اوپر بیان کیا گیا۔ دیکھا جائے تو ان میں سے مختلف کردار اور ان کا دائرہ عمل وہی ہے جو بعد کے بیانیہ کی مختلف اقسام مثلاً ایپک، رومانی داستانوں اور عام قصے کہانیوں میں ملتا ہے۔
یوں اپنے تجزیے سے پروپ نے نہ صرف روسی لوک کہانیوں کی گرامر دریافت کی بلکہ یہ ثابت کردیا کہ بیانیہ اپنی بناوٹ کے اعتبار سے جملے کی افقی نحوی (SYNTAG MATIC) ساخت کا تتبع کرتا ہے۔ گویا عمودی مماثل (PARADIGMATIC) ساخت شاعری سے مخصوص ہے اور اس کا بیانیہ کے ڈھانچے کی تعمیر سے زیادہ تعلق نہیں۔ پروپ کا ایک اور کارنامہ یہ ہے کہ اس کے مطالعے سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ بیانیہ کی ساخت کا وحدانی عنصر کرداروں کے تنوع اور بوقلمونی (یعنی صوتی کثرت) کی سطح پر نہیں، بلکہ کرداروں کے ’’تفاعل‘‘ کی فونیمی سطح پر دریافت کیا جا سکتا ہے، یعنی اُس عمل میں جسے پلاٹ میں کردار سرانجام دیتے ہیں۔ پروپ کا کمال یہ ہے کہ اس نے یہ نتائج اگرچہ لوک کہانیوں کے تجزیے سے اخذ کیے، لیکن ان کا اطلاق تمام بیانیہ پر ہو سکتا ہے۔
پروپ نے یہ اہم اشارہ بھی کیا کہ پریوں کی کہانیوں کے مآخذ متھ ہیں۔ متھ سے کہانی بناتے ہوئے دلچسپی کا عنصر بڑھانے کے لیے شجاعت اور دلیری کے واقعات کا اضافہ کر دیا جاتا تھا۔ پروپ کو یہ اعتراف ہے کہ کہانی کی جمالیاتی اپیل فضائل اور اوصاف کے اضافے سے بڑھ سکتی ہے، نہ کہ ان مشترک تفاعل کی وجہ سے جو سب کہانیوں کا مشترک ڈھانچا ہیں۔ یہ فضائل اور اوصاف کرداروں کی عمر، جنس، شکل، صورت، عادات، نیز حرکات و سکنات کا مجموعہ ہو سکتے ہیں۔ پروپ کہتا ہے کہ ان سے کہانیوں میں حسن و دلکشی اور رعنائی و تاثیر میں اضافہ ہوتا ہے۔ غرض پروپ اگرچہ کہانیوں کے حسن و دلکشی کا احساس رکھتا ہے، لیکن ’’جمالیاتی قدر‘‘ اس کا موضوع نہیں۔ اس کی دلچسپی صرف بیانیہ کی ساخت میں تھی۔ اس کا کمال یہ ہے کہ اس نے پلاٹ کے تفاعل اور کرداروں کے رول کے باہمی رشتوں کی نشاندہی کرکے بیانیہ کی بنیادوں پر بے نقاب کر دیا۔ بیانیہ پر بعد کے کئی لکھنے والوں نے پروپ کے ساختیاتی مطالعات کا واضح اثر قبول کیا، ان کا ذکر آگے آئےگا۔
پروپ اگرچہ جیسا کہ اوپر کہا گیا، کہانیوں کی جمالیات کے اسباب و علل کی بحث نہیں اٹھاتا، تاہم کہانی کی داخلی ساخت (تنظیم)، ہیئتی ڈھانچے کے عناصر اور ان کی کارکردگی کے دائرۂ عمل کو اس نے ہمیشہ کے لیے نشان زد کردیا۔ اس طرح گویا اس نے لوک کہانیوں کی گرامر کو متعین کیا جن کی بنیادوں پر آگے چل کر بیانیہ پر کام کرنے والوں نے عمارتیں اٹھائیں۔ پروپ کے برعکس کلاڈلیوی سٹراس کا موضوع لوک کہانی کی ہیئت نہیں بلکہ لوک کہانی کی اصل ہے۔ یعنی متھ جس سے چھوٹی بڑی لوک کہانیاں وجود میں آتی ہیں۔ لیوی سٹراس ماہر بشریات تھا۔ اس کی نظر ثقافت کی جڑوں پر تھی اور اس کے بقول کسی بھی ثقافت کی جڑیں اس کی متھوں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ لیوی سٹراس کا انقلاب آفریں کام STRUGTURAL ANTHROPOLOGY پیرس سے 1958 میں شائع ہوا۔ پروپ کے برعکس لیوی سٹراس متھ کے تجزیے کے ذریعے انسانی ذہن کی اصل تک پہنچنا چاہتا تھا۔
لیوی سٹراس کی سب سے بڑی خواہش یہ ثابت کرنا تھا کہ انسانی ثقافتی اور سماجی برتاؤ کے تمام مظاہر کو ایک نظام کے تحت لایا جا سکتا ہے۔ اپنے مشہور مقالے TRISTES TROPIQUES. PARIS.1958 میں اس نے لکھا ہے، ’’سوال یہ ہے کہ کیا انسانی سماجی زندگی کی مختلف جہات (بشمول آرٹ اور مذہب) ان تصورات اور طریقوں کی مدد سے نہیں سمجھی جا سکتیں جو جدید لسانیات میں دریافت کر لیے گئے ہیں۔ مزید یہ کہ کیا یہ ظواہر اس حقیقت کا حصہ نہیں جس کی داخلی نوعیت وہی ہے جو زبان کی ہے۔‘‘ (ص62) لیوی سٹراس کا موضوع اگرچہ بشریات ہے لیکن اس کی اصل سعی و جستجو انسانی سماجی زندگی کے نظم کی تلاش ہے۔ اکثر و بیشتر وہ پرانے سماجوں سے بے ربط اور منتشر معلومات کا ڈھیر جمع کرتا ہے اور پھر دیکھتا ہے کہ کیا صوتیاتی ماڈل یا نظریۂ فونیم کی بنا پر ان میں کوئی نظم یعنی ساخت تلاش کی جا سکتی ہے، تاکہ انسان کی تحت الشعوری یعنی اساسی کارکردگی کے رازوں تک پہنچا جا سکے۔
چنانچہ قدیم تہذیب و ثقافت کے متعدد ظواہر یعنی تیج تہوار، رسم و رواج، طور طریقے، ٹوٹم، اوہام، رشتہ داریوں، شادی بیاہ کی رسموں غیرہ کا لیوی سٹراس نے نہایت باریک بینی سے مطالعہ کیا اور یہ دیکھنے کی کوشش کی کہ ان میں کیا امتیازات اور باہمی رشتے کارگر ہیں۔ رشتہ داریوں (KINSHIP) کے تجزیے کے بارے میں وہ لکھتا ہے، ’’رشتہ داریوں کے نام فونیم کی طرح معنی کو ممیز کرتے ہیں اور یہ بامعنی بھی اسی وقت ہوتے ہیں جب ان کو ایک نظام کے تحت دیکھا جائے۔‘‘ (ایضاً ص 34)
لیوی سٹراس کا طریقہ کار کچھ اس طرح کا ہے کہ وہ سب سے پہلے متھ کے بیانیہ کو چھوٹے چھوٹے واحدوں (UNITS) میں تقسیم کرتا ہے جو ایک ایک جملے میں لکھے جا سکتے ہیں۔ یہ پروپ کے ’’تفاعل‘‘ کے گوشوارے سے ملتے جلتے ہیں، لیکن بعینہ ان کی طرح نہیں، کیونکہ یہ ’’افعال‘‘ پر نہیں بلکہ ’’رشتوں‘‘ پر مبنی ہیں اور کہیں کہیں تو یہ صرف ناموں کی وضاحت پر مشتمل ہیں، جیسے THE BAN متھ میں ایڈپس SWOLLEN=FOOT لیوی سٹراس ان واحدوں کے لئے متھیم (MYTHEMES) کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ اصطلاح اس نے فونیم یا مارفیم کی طرز پر وضع کی ہے۔ یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن جس طرح وہ ان متھیم کو ترتیب دیتا ہے وہ خاصا پیچدہ اور دقت طلب ہے۔
لیوی سٹراس کا کہنا ہے کہ متھ ایک طرح کا پیغام ہے جو اس ثقافت کے افراد کے لیے ہے جس ثقافت میں وہ متھ رائج ہے۔ مزید یہ کہ جب تک کوئی ثقافت وحدانی رہتی ہے، متھ میں تبدیلی نہیں ہوتی، لیکن جب جب اس میں دوسرے اثرات کے درآنے سے مختلف پرتیں پیدا ہوتی ہیں، تو متھ میں بھی تبدیلیاں نمودار ہو جاتی ہیں۔ تاہم متھ کا اصل پیغام نہیں بدلتا بلکہ یہ وہی رہتا ہے۔ اکثر و بیشتر یہ پیغام ایک کوڈ یعنی رمز کے ذریعے ادا ہوتا ہے۔ اس رمزکو متھیم کی مناسب ترتیب سے دریافت کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا پروپ کے لوک کہانیوں کے تفاعل کے گوشوارے کی طرح متھیم کی ترتیب اس اعتبارسے نہیں ہے جس طرح یہ واحدے متھ کے بیانیہ میں آتے ہیں، بلکہ رشتوں کے اعتبار سے ہے۔
چنانچہ متھ میں متھیم آگے پیچھے آ سکتی ہیں اور متھ کا رمز اسی وقت کھلتا ہے جب ان کو صحیح ترتب سے دیکھا جائے۔ لیوی سٹراس نے STRUCTURAL ANTHROPOLOGY میں شامل اپنے مشہور مضمون “THE STRUCTURAL STUDY OF MYTH”میں ایڈپس متھ کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے،
’’آرکسٹر اسکور بائیں سے دائیں لکھا جاتا ہے اور اوپر سے نیچے۔ ساز بجاتے ہوئے صفحے پلٹنا پڑتے ہیں، لکن سازوں کی سنگ کالم در کالم چلتی ہے۔ ایڈپس متھ کے رمز کو کھولنے کے لیے اس کو اس طرح دیکھنے کی ضرورت ہے۔ متھ کو ایک سیدھے خط کے طور پر لینا مناسب ہوگا۔ اس کو سمجھنے کے لیے ہمارا کام صحیح ترتیب سے اس کی بازیافت کرنا ہے۔ مثلاً اگر ہمارے سامنے کوئی ایسی چیز ہے جس میں میتھیم یوں آتی ہیں۔۔۔ 1.2.4.7.8.2.3.4.6.8.1.4.5.7.8.1.2.5.7.3.4. 5.6.8۔۔۔ تو چاہیے کہ سب ایک کو اوپر تلے ایک ساتھ، اسی طرح سب دو کو اور سب تین کو ایک ساتھ رکھیں۔ علیٰ ہذا القیاس، جیسا کہ اس نقشے میں دکھایا گیا ہے۔
8 7 4 2 1
8 6 4 3 2
8 7 5 4 1
7 6 5 2 1
8 6 5 4 3
اس گوشوارے میں سب سے بڑا ہندسہ آٹھ ہے۔ اگرچہ کوئی سلسلہ پوری طرح ایک سے آٹھ تک مکمل نہیں، تاہم متھیم کی تکرار کے دوران نمبروں کی پانچ بار تکرار ہوئی ہے۔ اس لیے ان کو آٹھ کالموں اور پانچ سلسلوں میں درج کیا گیا ہے۔ لیوی سٹراس کہتا ہے کہ متھیم کے سلسلے میں کہیں کوئی نمبر خالی ہے، تو معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ متھیم کہاں پر وارد نہیں ہوئی۔ مثال کے طور پر ہمیں معلوم ہے کہ پہلے سلسلے کو ظاہر کرتے ہوئے خالی جگہیں کہاں چھوڑنی ہیں، اسی طرح جب ہم تیسری سطر میں پانچ تک پہنچتے ہیں تو ہمیں معلوم ہے کہ اس کو کہاں درج کرنا ہے، یعنی اس متھیم کی ترتیب کیا ہے۔ اس وضاحت کے بعد لیوی سٹراس نے ایڈپس متھ کا تجزیہ پیش کیا ہے۔ لیوی سٹراس کے ذہن کی براقی اور خلاقی اپنی جگہ پر، یہ تجزیہ نہایت پیچیدہ ہے اور اشکال سے پُر ہے۔ یعنی سائنسی تجزیے کی سادگی اس میں نہیں ملتی۔ سوائے لیوی سٹراس کے مداحوں کے دوسروں نے اس تجزیے کے کئی نکات سے اختلاف کیا ہے اور اس کو دو راز کار قرار دیا ہے۔
ایڈپس متھ کے مقابلے میں ریڈانڈین متھوں پر لیوی سٹراس کا کام کہیں زیادہ وقیع ہے۔ ایڈمنڈلیچ نے لیوی سٹراس کے طریق کار کو تو ریت کے پہلے باب یعنی کتاب آفرینش (GENESIS) کے تجزیے پر آزمایا ہے۔ اس کے دلچسپ مضمون کا عنوان ہے۔ “LEVI STRAUSS IN THE GARDEN OF EDEN”اس میں ’’کتاب آفرینش‘‘ کا اساطیری مطالعہ نہایت خوبی سے کیا گیا ہے۔ قطع نظر ان اثرات کے جنہوں نے ساختیاتی فکر کے پروان چڑھانے میں مدد دی، لیوی سٹراس اکثر و بیشتر اساطیری روایتوں کی دھند میں کھو جاتا ہے۔ اس کا طرز تحریر بھی خاصا پیچیدہ ہے۔ چنانچہ بقول رابرٹ شولز اس کی تحریروں میں انسانی ذہن کی بنیادی ساختوں سے ملاقات ہو یا نہ ہو، لیوی سٹراس کے خلاق ذہن سے ضرور ملاقات ہو جاتی ہے۔
بہر حال لیوی سٹراس کے اس کارنامے کو تسلیم کرنا ہوگا کہ تمدنی زندگی کے ٹھوس حقائق اور اشیا سے بھری پری دنیا کو وہ ایک ایسی نگاہ عکس ریز سے دیکھتا ہے جو اس کی تہوں تک اتر جاتی ہے۔ وہ ثقافتی (صوتی) مظاہر کی بوقلمونی اور رنگارنگی میں فونیمی وحدت کا جویا تھا۔ ادب کے نقطۂ نظر سے دیکھیں تو وہ مواد کی کثرت کا مطالعہ اس کے پس پشت کارفرما ’’فارم‘‘ کی وحدت کو دریافت کرنے کے لئے کرتا تھا۔ یہ جاننے کے لیے کہ ثقافتی زندگی کی حیران کن بوقلمونی کا ساختیاتی اصل الاصول کیا ہے۔
نارتھروپ فرائی
ساختیاتی فکر کو آگے بڑھانے والوں میں اور تنقید کو ایک باقاعدہ سسٹم دینے والوں، نیز ’’نئی تنقید‘‘ کے امریکی دبستان پر پہلا باضابطہ وار کرنے والوں میں نارتھر روپ فرائی (NORTHROP FRYE) کا نام بہت اہمیت رکھتا ہے۔ فکشن کی شعریات کی بحث میں فرائی کی حیثیت ولادمیر پروپ اور لیوی سٹراس کے بعد اور گریما، تو دوروف اور ژینت سے پہلے ایک جزیرے کی سی ہے۔ اس نے ادبی تنقید کو جو سسٹم دینے کی کوشش کی، اس کا کوئی واضح تعلق پہلے آنے والوں میں سے نہیں ہے۔ اس لیے فرائی کا ذکر الگ سے کرنا ہی مناسب ہے۔ فرائی کی شہرۂ آفاق تصنیف ANATOMY OF CRITICISM پرنسٹن یونیورسٹی پریس سے 1957 میں شائع ہوئی تھی۔
اس کا کہنا ہے کہ ادبی تنقید میں بحث فقط ’’لکھے‘‘ ہوئے ’’لفظ‘‘ تک محدود کیسے رہ سکتی ہے، جب تک مختلف متون کی مشترکہ اور مختلف خصوصیات کے مطالعے اور مختلف اصناف کے مطالعے سے حاصل ہونے والے ’’علم‘‘ کے ذریعے یہ معلوم نہ ہو کہ ادب کی نوعیت و ماہئیت کیا ہے، نظم و نثر کے امتیازات کیا ہیں، اساطیر و رزمیہ اور ناول و افسانہ کا فرق کیا ہے، (یا مثلاً اردو روایت کے حوالے سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ داستان و حکایت، کتھا کہانی، یا قصیدے مثنوی، مرثیے، غزل یا نظم کے تقاضے کیا ہیں، یا مختلف اصناف کو پڑھتے ہوئے ہماری توقعات کیا ہوتی ہیں، یا کسی بھی فن پارے کا مطالعہ ہم کن تجربات کی روشنی میں کرتے ہیں۔ )
نارتھروپ فرائی کی ANATOMY OF CRITICISM ادبی تنقید میں سنگ میل کا درجہ اس لیے رکھتی ہے کہ فرائی کی ’’ساختیات‘‘ نے اس وقت کی رائج نئی تنقید کے بنیادی مفروضات کو چیلنج کیا اور اصرار کیا کہ شعریات اور ادبی تنقید ایک باقاعدہ ’’ضابطہ‘‘ علم ہے اور خواہ ایسا محسوس ہو یا نہ ہو، یہ ضابطۂ علم فن پارے کا مطالعہ کرتے ہوئے لامحالہ عمل آرا رہتا ہے۔ نیز یہ کہ تنقید کا ایک منصب یہ بھی ہے کہ وہ ادب کی شعریات کے اصول و قوانین کا تعین کرے اور انہیں منظم و منضبط کرے۔ فرائی کا کہنا ہے کہ ’’شعریات کے نظام‘‘ کے تصور کے بغیر تنقید اس پر اسرار مذہب کی طرح ہے جس کا کئی صحیفہ نہ ہو، “MYSTERY-RELIGION WITHOUT A GOSPEL”
فرائی کی بہت سی باتوں سے اختلاف کیا گیا ہے اور کیا جاتا رہےگا، لیکن اس حقیقت سے شاید ہی کسی کو انکار ہو کہ فرائی نے ادب کی شعریات کا نظام وضع کرنے کی جو کوشش کی، وہ ہر اعتبار سے حوصلہ مندانہ اور قابل قدر ہے۔ فرائی ادب میں نری حقیقت نگاری کے خلاف ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ادب افسانویت کے بغیر تخلیق ہو ہی نہیں سکتا۔ وہ ادب کی معنویت کو واضح کرنے کے لیے دو اہم اصطلاحیں استعمال کرتا ہے۔ ایک کو وہ ’’مرکز جو‘‘ (CENTRIPETAL) کہتا ہے اور دوسری کو ’’مرکز گریز ((CENTRIFUGAL بقول فرائی ادب کی پہچان یہ ہے کہ اس کی معنویت ’’مرکز جو‘‘ ہوتی ہے، ’’مرکز گریز‘‘ نہیں۔ یعنی ادب میں خارجی حقیقت کا کیسا ہی عکس کیوں نہ پیش کیا جائے، اس کی معنویت کا رخ باطن کی طرف (اندر کی طرف) رہتا ہے، باہر کی طرف نہیں۔
فرائی اپنی تنقید کو آر کی ٹائیپل تنقید (ARCHETYPAL CRITICISM) کا نام دیتا ہے۔ ’’آر کی ٹائپ‘‘ کو وہ ایسی علامات یا پیکر قرار دیتا ہے جو ایک متن کو دوسرے متن سے جوڑتے ہیں اور متون کی افہام و تفہیم کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ان کے ذریعے انسان کی وہ بنیادی امنگیں اور ارادے ظاہر ہوتے ہیں جو مختلف انسانی سماجوں میں پائے جاتے ہیں خواہ ان میں کتنا ہی مکانی یا زمانی بعد کیوں نہ ہو۔ آر کی ٹائپ بار بار ظاہر ہونے کا مطلب ضروری نہیں کہ ان کی صداقت ہو، بلکہ یہ کہ ان میں ایسی کشش ہے کہ ان کے ذریعے سامع یا قاری کی توجہ برابر مبذول کی جا سکتی ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ آرکی ٹائپ ان تصورات کی نمائندگی کرتے ہیں جو انسانی خواہش کا مقصود ہیں یا ان خواہشات کی راہ میں مزاحم ہوتے ہیں۔ مختصر یہ کہ آر کی ٹائپ انسانی امنگوں اور حوصلوں، نیز ترددات اور تفکرات کو ظاہر کرتے ہیں۔
فرائی کے نظام کی پشت پر انسانی فطرت اور ثقافت کا جو تصور ہے، اس کی روسے ادب محض خارجی حقیقت کا پرتو نہیں بلکہ انسان کے کلی خواب‘‘ THE TOTAL DREAM OF MAN” کا پرتو ہے۔ بقول فرائی تہذیب دراصل فارم سازی کا یعنی فطرت کو فارم دینے کا عمل ہے۔ عمارات، باغات، شہر، سماج، سب ذہن انسانی کی خواہش کے کرشمے ہیں۔ ادب بھی اسی عمل کا مظہر ہے۔ اگر تعبیری طور پر دیکھا جائے تو ادب نہ صرف فطرت سے ماورا ہے بلکہ فطرت کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ ادب اپنی آزادانہ کائنات رکھتا ہے، اسی لیے یہ دنیا گویا اصناف کے امکانات کے انبار سے عبارت کہی جا سکتی ہے۔
فرائی کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے شعریات کے کلی نظام کے مقدمے کو پوری قوت سے پیش کیا۔ وہ چیز جس کی بدولت شاعری کو بطور شاعری پڑھا جاتا ہے، فی نفسہ شاعری نہیں ہے، نہ ہی اس کے پڑھنے کا تجربہ ہے، بلکہ شاعری کے بارے میں وہ علم ہے جس کو شعریات کہا جاتا ہے اور جس کا کچھ نہ کچھ تصور ہر زمانے میں موجود رہا ہے، لیکن ادبی تنقید اس کے اصول و قوانین کو تمام و کمال منضبط نہیں کر سکی۔ ’’ادبی قابلیت‘‘ یا ’’ادبی نظام‘‘ کا تصور بعض معترضین کے نزدیک ناپسندیدہ ہو سکتا ہے، کیونکہ ایسے لوگوں کی اب بھی کمی نہیں جو کسی بھی طرح کے نظم یا ضابطہ بندی کو ادب کی خلقی آزادہ روی اور بےروک ٹوک تخلیقیت کے منافی سمجھتے ہوں۔ ان کی رو سے اگر ادب کے ’’صحیح‘‘ مطالعے کا کوئی طریقہ آج تک وضع نہیں ہو سکا، تو ’’ادبی قابلیت‘‘اور ادبی ’’عدم قابلیت‘‘ کا تصور بھی منطقی اعتبار سے قابل قبول نہیں ہو سکتا۔
شطرنج کی بازی یا کوئی بھی کھیل اور اس میں ہار جیت کسی نہ کسی طرح کے اصول و قوانین کے تابع ہو سکتی ہے لیکن ادب کا تمول اور نوع اس نوعیت کا ہے کہ اس کو اصول و قوانین کے تابع کرنا گویا خود اس کے وجود کو رد کرنا ہے۔ غرض ان لوگوں کے بقول ادب کی دنیا میں لطف اندوزی کا عمل ذاتی اور موضوعی اور اسے کسی ماہرانہ قانون دانی کی تحویل میں لانا غیر ادبی فعل ہے۔
لیکن فرائی کا اصرار یہ ہے کہ ادب میں سوال محض لطف اندوزی کا نہیں ہے۔ لطف اندوزی تو افہام و تفہیم اور مہارت کے بغیر بھی ممکن ہے۔ ایسا ممکن ہے کہ کوئی شخص متن کو صریحاً غلط سمجھے، لیکن خالصتاً ذاتی وجوہ سے وہ اس سے لطف اندوز ہو۔ اس صورت حال سے ادبی افہام و تفہیم کے تقاضے رد نہیں ہوتے بلکہ یہ حقیقت خود اس کا ثبوت ہے کہ افہام و تفہیم اور تحسین کی کچھ نہ کچھ اصولی بنیادیں ہیں۔ یہ بنیادیں نہ ہوں تو نہ صرف ادب سے متعلق ہر بحث بے مصرف ہے بلکہ ادب سرے سے تخلیق ہی نہیں ہو سکتا۔ کوئی تعلیمی نظام (خواہ ہ کتنا ہی ناقص کیوں نہ ہو) ادب کے بین متنی INTER-TEXTUAL مطالعے سے ادب کے بارے میں بعض توقعات کو راہ دیتا ہے اور ادبی معیاروں کا احساس پیدا کرتا ہے، جسے دوسرے لفظوں میں ادبی تربیت یا ادبی مذاق یا سخن فہمی کہتے ہیں۔ یہ عمل کتنا ہی غیرشعوری کیوں نہ ہو، اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
فرائی کہتا ہے کہ یہ بدیہی ہے کہ ادب کے بہت سے اصول و ضوابط سائنس کی طرح واضح طور پر ظاہر نہیں ہوتے، بلکہ تہہ نشیں طور پر کارگر رہے ہیں۔ فرائی اصرار کرتا ہے کہ ادب کی شعریات کا مربوط اور منظم نظریہ ممکن ہے اور ادبی تنقید کا مقصود یہی ہونا چاہیے۔ فکشن کی اقسام کو ایک نظام کے تحت لاکر ضابطہ بند کرنے کی جو کوشش فرائی نے کی، اسے ادبی تنقید میں ایک حوصلہ مندانہ اقدام قرار دیا گیا ہے۔
فرائی کے نظریے کی رو سے فکشن کو دو طرح سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک کو وہ ’’اطواری نظام‘‘ (SYSTEM OF MODES) اور دوسرے کو ’’صنفی نظام‘‘ (SYSTEM OF FORMS) کہتا ہے۔ ’’اطواری نظام‘‘ در اصل تاریخی (DIACHRONIC) جہت رکھتا ہے۔ یہ ہیرو کی قوت عمل پر مبنی ہے۔ ہیرو کی قوت عمل دو طرح کی ہوسکتی ہے، یعنی دوسرے افراد کے مقابلے میں یا ماحول کے مقابلے میں۔ اسی طرح ہیرو کی برتری بھی دو طرح کی ہو سکتی ہے، یعنی برتری بہ اعتبار درجہ یا برتری بہ اعتبار نوع۔ فرائی کا کہنا ہے کہ ان عوامل کی روشنی میں فکشن کے کم از کم نو (۹) اطواری زمرے MODAL CATEGORIES ترتیب دیے جا سکتے ہیں جو اس طرح ہیں،
(۱) برتربہ اعتبار نوع، افراد اور ماحول دونوں سے
(۲) برتربہ اعتبار نوع، افراد یا ماحول کسی ایک سے
(۳) برتربہ اعتبار درجہ دونوں سے
(۴) برتربہ اعتبار درجہ کسی ایک سے
(۵) برابر دونوں کے
(۶) کم تربہ اعتبار درجہ کسی ایک سے
(۷) کم تربہ اعتبار درجہ دونوں سے
(۸) کم تربہ اعتبار نوع کسی ایک سے
(۹) کم تربہ اعتبار نوع دونوں سے
ان زمروں پر مبنی پانچ قسمیں ادب میں فی الحقیقت ملتی ہیں جو یوں ہیں۔
(۱) اساطیری یا دیومالائی (MYTH)، (برتربہ اعتبارِ نوع دونوں سے )
(۲) رومانی (ROMANCE) (برتربہ اعتبار درجہ دونوں سے )
(۳) اعلیٰ حقیقت پسندانہ (HIGH MIMESIS)، (برتر بہ اعتبار درجہ فقط افراد سے، ماحول سے نہیں )
(۴) کم تر حقیقت پسندانہ (LOW MIMESIS)، (برتر کسی اعتبار سے نہیں )
(۵) طنزیہ /ستم ظریفانہ IRONY (فروتر)
بیانیہ میں تھیم کی اقسام کو فرائی نے MYTHOS کے تصور کی مدد سے ضابطہ بند کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ موسموں کی تقسیم پر مبنی ہیں، یعنی انہیں بہار، گرما، خزاں اور سرما کے دائرے کی رعایت سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ قصے کہانیوں میں پلاٹ کی ساخت یا تھیم کا ارتقا اسی مناسبت سے طے پاتا ہے۔ مثلاً بہار کا MYTHOS کامیاب عشق سے عبارت ہے۔ سماج کی طرف سے رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں، لیکن انجام کار ان پر قابو پا لیا جاتا ہے اور با لآخر سماج میں نیا ارتباط پیدا ہوتا ہے۔ خزاں سے مناسبت رکھنے والا پلاٹ المیہ نوعیت رکھتا ہے۔ اس میں معاہدے کی خلاف ورزی ہوتی ہے، رکاوٹیں سد راہ ثابت ہوتی ہیں اور مخالف عناصر (انسانی یا آسمانی طاقتیں یا فطرت) بدلہ لینے میں کامیاب ہوتے ہیں اور اگر وصال یا ارتباط ہوتا بھی ہے تو دوسری دنیا میں یا قربانی کی شکل میں رونما ہوتا ہے۔
گرما سے مناسبت رکھنے والے پلاٹ جستجو کے رومان پر مبنی ہوتے ہیں۔ ان میں دشوار گزار اور خطرناک سفر، جدوجہد، معرکہ آرائی اور ہیرو کی فتح مندی وکامرانی کا بیان ہوتا ہے، جبکہ سرما کے پلاٹ IRONY کی رو سے بالکل دوسرا نقشہ پیش کرتے ہیں، جستجو ناکامی پر منتج ہوتی ہے، سماج کی نئی تشکیل نہیں ہو پاتی اور ہیرو کو بالآخر محسوس ہوتا ہے کہ سوائے موت یا دیوانگی کے کوئی راہ فرار نہیں ہے۔
فکشن کے اطواری نظام کی طرح فرائی کے ’’صنفی نظام‘‘ کا نظریہ بھی خاصا اہم ہے جسے وہ ’’مسلسل اصناف‘‘ (CONTINOUS FORMS) کا نام دیتا ہے۔ ارسطو کی تقسیم، یعنی غنائیہ، رزمیہ اور ڈرامائی کو بنیاد بناتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ رزمیہ (یعنی بیانیہ) کی مزید تقسیم ممکن ہے۔ اسے وہ EPOS اور ’’فکشن‘‘ کہتا ہے۔ EPOS کا تعلق زبانی روایت سے ہے یعنی وہ ادب جو سنانے کے لیے ہو اور ’’فکشن‘‘ وہ ادب ہے جو پڑھنے کے لیے لکھا جائے۔ اس تقسیم پر اعتراض کیا گیا ہے کہ ملٹن کی فردوس گم شدہ، بقول فرائی اگرچہ پڑھنے کے لیے لکھی گئی تھی، لیکن اس کی خطابیہ لے اس کو زبانی روایت کی چیز بنا دیتی ہے۔ یا ڈکنس جب اپنے ناولوں کو خود پڑھتا ہے تو فکشن، EPOS میں بدل جاتا ہے۔ ایک مسئلہ یہ بھی اٹھایا گیا کہ فکشن کے فنی پہلو پر اصرار کی وجہ سے فرائی کو سوانح اور تاریخ کو حذف کرنا پڑا۔ خود نوشت سوانح کو اس نے یہ کہہ کر شامل رکھا کہ خود نوشت سوانح اس اعتبار سے تخلیقی ہے کہ مصنف کو خود نوشت میں واقعات و تجربات کے ایک وسیع سلسلے سے انتخاب کرکے ایک مربوط نظام خلق کرنا پڑتا ہے اور یہ عمل افسانویت کے عمل سے مشابہ ہے۔
لیکن اگر پلوٹارچ اور لٹن اسٹریچی جیسے سوانح نگار اور کار لائل جیسے مؤرخ ادب کے زمرے سے خارج کر دیے جائیں تو غور طلب ہے کہ کیا ادب کی ایسی تعبیر و تعریف جامع کہی جا سکےگی۔ تو دوروف صنفی نظام کے نظریے کو قابل قبول قرار نہیں دیتا۔ رابرٹ شولز کا کہنا ہے کہ فرائی کے اطواری نظام کے مقابلے پر اس کے ’’صنفی نظام‘‘ کے نسبتاً کم قابل قبول ہونے کی وجہ یہ ہے کہ فرائی کا رویہ اناٹومی میں از اول تا آخر اساطیری اور آر کی ٹائپل ہے۔ ’’اطواری نظام‘‘ کی بحث کا معنیاتی ہونا سمجھ میں آتا ہے، لیکن ’’صنفی نظام‘‘ کی بحث کا تقاضا تھا کہ اس کو فنی اور بدیعی سطحوں کی مدد سے استوار کیا جائے تاہم فرائی یہاں بھی معنیاتی امتیازات سے مدد لیتا ہے، نتیجتاً اس کے صنفی زمرے بندی میں کھانچے رہ جاتے ہیں۔
لیکن فرائی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ نظام کی شقیں اتنی اہم نہیں جتنا نظام کی جامعیت اور کلیت اہم ہے۔ فرائی کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے ادبی شعریات کو ذہن انسانی کی کارکردگی سے مربوط کرکے دیکھنے کی کوشش کی اور اس میں ایک تسلسل اور نظم دریافت کیا۔ بقول فرائی آر کی ٹائپ بار بار ظاہر ہوتے ہیں، اسی لیے کہ انسانی فطرت راسخ ہے یعنی ایک سی ہے۔ نہ صرف انسان کی جسمانی ضروریات ایک سی ہیں بلکہ تہذیب کے ظواہر یعنی بوقلمونی اور انتشار میں نظم و ضبط پیدا کرنے کی خواہش بھی ہر سماج میں ایک سی ہے۔ ادب اسی نظم و ضبط کی خواہش کا اظہار ہے جو خود مختارانہ نوعیت رکھتا ہے۔
چنانچہ اس کے اطوار بھی (مثلاً اساطیری (دیومالائی)، رومانی، حقیقت پسندانہ اور طنزیہ یا ستم ظریفانہ) دنیا کے تمام سماجوں میں کم وبیش ایک سے ہیں اور ایک سے تواتر سے رونما ہوتے ہیں۔ ان میں تنوع پایا جا سکتا ہے، لیکن ان کی بنیادی ساختیں ذہن انسانی کی اس بنیادی نحویت پر مبنی ہیں جس کا ایک سرا خواہش و آرزو اور سعی و جستجو سے جڑا ہوا ہے، تو دوسرا درد و داغ و سوز و تردد و تفکر واضطراب و پریشانی سے۔ اس ثنویت کی آویزش و پیکار تمام انسانی سماجوں کا لازمہ ہے۔
اس نظر سے دیکھا جائے تو فرائی کا نظریہ اگرچہ نئی تنقید کی متنی تحدید کے رد پر مبنی ہے، تاہم اس کے منطقی نتائج اس سے زیادہ مختلف نہیں۔ یعنی انسانی فطرت چونکہ غیرمذبذب ہے اور اس کے بنیادی تقاضے ہر سماج میں اور ہر زمانے میں ایک سے ہیں، اس لیے ادب تاریخ اور آئیڈیولوجی سے ماورا ہے اور اس لازوال امنگ اور کشمکش کا اظہار ہے جو قائم و دائم انسانی فطرت کا لازمہ ہے۔ فرائی کا خیال تھا کہ خیال مقدم ہے، یعنی معنی ذہن میں پیدا ہوتا ہے اور لسانی اظہار مؤخر ہے۔ بعد کی ساختیاتی فکر نے ثابت کردیا کہ زبان خیال کی نقال نہیں ہے بلکہ خیال کی شرط ہے، یعنی معنی کا تفاعل زبان کے اندر ہی ممکن ہے۔
متن کی کثیر معنیت پر زور دیتے ہوئے فرائی کہتا ہے کہ متن کی مختلف توجیہات متضاد نہیں ہوتیں، بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں، کیونکہ وہ متن کی کل تفہیم میں معاون ہوتی ہیں۔ تنقید کے مختلف رویے متن کو قریب سے یا دور سے دیکھتے ہیں اوریوں متن کی مختلف توجیہات کو نمایاں کرکے اس کی کلی شناخت میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ چنانچہ فرائی مختلف تنقیدی روشوں کا مخالف نہیں، بلکہ ان کے درمیان جو رکاوٹیں ہیں ان کو دور کرنے کے حق میں ہے۔ لیکن فرائی اس امر کو فراموش کر دیتا ہے کہ خود اس نے اپنے نظریے کی بنیاد حقیقت پسندانہ روش کے رد پر رکھی تھی۔ الغرض اس اعتبار سے اس کا موقف بہت کچھ میتھیو آرنلڈ سے ملتا جلتا ہے کہ انسانی سماج کی طرح ادبی تنقید بھی تضادات سے بھری ہوئی ہے، بالخصوص ان تضادات سے جو سماجی طبقات کی تقسیم سے پیدا ہوتے ہیں۔
چنانچہ ادبی تنقید لبرل (روشن خیال) تعلیم کے ایک شعبے کے طور پر تاریخ کے جبر کے باوجود ایک آزاد اور غیرطبقاتی سماج کے تصور کو ممکن بنا سکتی ہے۔ یعنی تنقید کے باوجود خود مختار اورخود کفیل ہونے کے ایک سماجی معمل کے طور پر کام دے سکتی ہے اور طبقاتی کشمکش کو حل کر سکتی ہے، لیکن واقعاتی طور پر نہیں، صرف تصوراتی طور پر۔ غرض فرائی کا لبرل ہیومیونزم بھی اصلاً تجربیت، مثالیت (EMPIRICISM. IDEALISM) کی نوعیت رکھتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں انسانی ذہن چونکہ اس سماجی تشکیل سے الگ ہے جس کی ساخت کا وہ خود حصہ ہے یا چونکہ تاریخ کے بہاؤ کو بدل سکنے پر وہ قادر نہیں، اس لیے ذہنی آزادی ہی اس کے لیے سب سے بڑی ’’سماجی قدر‘‘ ہے۔
لیکن بعد کی ’’پس ساختیاتی‘‘ فکر نے ثابت کردیا کہ ادب میں کوئی نظریاتی موقف خلا میں ممکن نہیں۔ ادبی تنقید لاکھ خود مختار سہی، اس کے نظریاتی مضمرات تنقید کی حدود سے باہر جاتے ہیں اور آئیڈیولوجی سے جڑ جاتے ہیں اور خود آئیڈیولوجی ایک جامع بڑی حقیقت یعنی ’’سماجی تشکیل‘‘ کا حصہ ہے۔ غرض نظریاتی سطح پر ادب کے تصورات کو زبان و معنی کے تصورات سے اور زبان و معنی کے تصورات کو ’’سماجی تشکیل‘‘ کے تصورات سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔
گریما، تودوروف، ژینت
ولادمیر پروپ کے نظریات کو آگے بڑھانے والوں میں اے جے گریما A.G. GREMASکا نام بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی کتاب SEMANTIQUE STRUCTURALE PARIS 1966. پروپ کے نظریے کی نئی توضیح و تصریح پیش کرتی ہے۔ جیسا کہ کتاب کے نام سے ظاہر ہے، گریما نے اپنے نظریے کی بنیاد بیانیہ کے معنیاتی تجزیے پر رکھی، نیز جہاں پروپ نے صرف لوک کہانیوں کو موضوع بنایا تھا، گریما نے بیانیہ کی متعدد شکلوں پر نظر ڈالی اور پورے بیانیہ کی شعریات کے تعین کی کوشش کی۔ گریما نے وضاحت کی کہ جس طرح آواز کا تفاعل اس کے فونیمی تضاد سے معلوم ہوتا ہے، اسی طرح معنی کے امتیازات ’’سیم‘‘ (SEMES) یعنی معنیاتی واحدوں کے تضادات سے قائم ہوتے ہیں۔ چنانچہ اصولی طور پر تاریک کے معنی روشن کے تضاد سے یا ’’اوپر‘‘ کے معنی ’’نیچے‘‘ کے تصور سے متعین ہوتے ہیں۔ یہی دو طرفہ تضاد ’’مرد۔ عورت‘‘، ’’عمودی۔ افقی‘‘، ’’انسان۔ جانور‘‘ وغیرہ میں ملتا ہے۔
بقول گریما اُس کے نظریے کی بنیاد معنی خیزی کی اسی بنیادی ’’ساخت‘‘ پر مبنی ہے۔ اس وضاحت کے بعد چار طرفہ تضاد کی بات کرتا ہے، ’’الف کا تضاد ب سے ہے، ویسا ہی جیسا منفی الف کا تضاد منفی ب سے ہے۔‘‘ گویا اس ابتدائی ساخت میں ایک چیز کے دو پہلو شامل ہیں، اس کا متضاد پہلو اور اس کا منفی پہلو۔ یعنی معنی کے عمل میں ہم ب کو الف کے الٹ اور منفی ب کو الف کے الٹ کے طور پر تو دیکھتے ہی ہیں، لیکن اس کے ساتھ منفی الف کو الف کی نفی اور منفی ب کو ب کی نفی کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔ گریما اس کو یوں ظاہر کرتا ہے۔ ABAB
گریماوضاحت کرتا ہے کہ یہ ساختیں اتنی طاقتور اور گہری ہیں کہ ’’بیانیہ‘‘ کی مختلف شکلوں کو خلق (GENERATE) کرتی ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ انسان بولنے والا جاندار (HOMO LOQUENBS) ہے، پس زبان کی بنیادی ساختوں کا بیانیہ کی بنیادی ساختوں پر پایا جانا فطری ہے۔ گریما کا خیال ہے کہ عمل کی تفصیل بدلتی رہتی ہے، کردار بدلتے رہتے ہیں، اظہاری منظر نامہ بدلتا رہتا ہے، جیسے PAROLE بدلتا رہتا ہے، لیکن فکشن کی LANGUE کے اصول بنیادی ہیں اور ان کا تعین ساختیاتی فکر کی ذمہ داری ہے۔ پروپ سے اتفاق کرتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ فکشن کی گرامر اور اس کے بنیادی اصول محدود ہیں، لیکن بخلاف پروپ کے وہ فکشن کو ایک معنیاتی ساخت کے طور پر دیکھتا ہے جو جملے کی ساخت سے مماثلت رکھتی ہے۔
پروپ نے کرداروں کو عمل کے سات دائروں میں بانٹا تھا۔ سوسیئر اور جیکب سن کے دو طرفہ تضاد کے تصور سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گریما کہتا ہے کہ عمل کے ان سات دائروں کو عاملوں (ACTANTS) کے صرف تین جوڑوں میں ظاہر کیا جا سکتا ہے، جو اس طرح ہیں،
موضوع /معروض: SUBJECT/OBJECT
فرستندہ /گیرندہ: SENDER/ RECEIVER
مددگار /مخالف: HELPER/OPPONENT
یہ جوڑے تین بنیادی نمونوں (PATTERNS) پر مبنی ہیں، جو بیانیہ کی تمام اقسام میں ملتے ہیں،
(۱) خواہش، جستجو یا مقصود (موضوع، معروض)
(۲) ترسیل (فرستندہ، گیرندہ)
(۳) تعاون، تداخل (مددگار، مخالف)
اگر ان اصولوں کی روشنی میں سوفوکلیز کے OEDIPUS THE KING دیکھیں تو پروپ کی درجہ بندی کی بہ نسبت کہیں زیادہ گہرا تجزیہ سامنے آتا ہے،
(۱) ایڈپس تلاش کرتا ہے لائیوس کے قاتل کی۔ ستم ظریفی یہ کہ وہ خود اپنی تلاش میں ہے (وہ خود موضوع بھی ہے، معروض بھی)
(۲) اپولو کے گناہوں کی پیشن گوئی کرتی ہے ٹرسیس جوکاسٹا۔ پیغامبر اور گڈریا، جانتے یا نہ جانتے ہوئے اس کی صداقت کی توثیق کرتے ہیں۔
(۳) ٹرسیس اور جوکاسٹا ایڈپس کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ قاتل کی تلاش نہ کرے۔ پیغامبر اور گڈریانادانستہ تلاش میں مدد کرتے ہیں۔ ایڈپس خود پیغام کی صحیح تعبیر میں حائل ہوتا ہے۔
ظاہر ہے کہ گریما نے ان اصولوں کی زمرہ بندی فونیم کے نمونے پر کی ہے جس کی ایک شکل ہم لیوی سٹراس کے یہاں دیکھ چکے ہیں۔ اس اعتبار سے گریما کافکری رویہ روسی بنیاد گزار پروپ سے زیادہ ساختیاتی ہے کیونکہ گریما اپنی اصول سازی کے لیے اجزا کے مابین، رشتوں کو بنیاد بناتا ہے، جبکہ پروپ نے اجزا کی فقط کرداری نوعیت کو پیش نظر رکھا ہے۔ بہر حال چراغ سے چراغ روشن ہوتا ہے اور یوں فکر کا سلسلہ آگے بڑھتا ہے۔
مزید برآں گریما نے بیانیہ کی تمام ترجیعوں (SEQUENCES) کو ضابطہ بند کرنے کے لیے پروپ کے اکتیس تفاعلی اجزا کو کم کرکے بیس کردیا اور پھر ان کو بھی صرف تین نحویوں SYNTAGMSمیں منظم کر دیا۔ ’’اصولی‘‘ (CONTRACTUAL)، ’’عملی‘‘ (PERFORMATIVE) اور ’’تداخلی‘‘ (DISJUNCTIVE) ان میں سے پہلا زمرہ خاصا دلچسپ ہے جو اصول یا عہد پر قائم رہنے، وعدہ نبھانے یا اس کو توڑنے کے بارے میں ہے۔ بیانیہ کی مختلف اقسام میں ان میں سے کوئی بھی ساخت پائی جا سکتی ہے،
عہد (یا ممانعت)۔۔۔ عہد شکنی (خلاف ورزی)
عہد کی عدم موجودگی (بدنظمی)۔۔۔ عہد کا استحکام (نظم و ضبط کا قیام)
ایڈپس میں پہلی ساخت ملتی ہے۔ وہ پدر کشی (PATRICIDE) اور محرمات کے ساتھ مباشرت (INCEST) کی سماجی ممانعت کی خلاف ورزی کرتا ہے اور انجام کار سزا کو پہنچتا ہے۔
تودوروف TZVETAN TODOROV کا کام بھی فکشن کی شعریات کے سلسلے میں بے حد اہم ہے۔ وہ پروپ اور گریما سے بھی آگے کی بات کرتا ہے۔ ایک طرح سے تودوروف اگلوں کے خیالات کو اور زیادہ روشن کرکے انہیں ایک نئی نظریاتی شکل عطا کرتا ہے۔ تودوروف نے 1965 میں روسی ہیئت پسندوں کی تحریروں کا انتخاب فرانسیسی میں پیش کیا تھا جس کا بہت اثر ہوا۔ اس کے بعد اس کی شہرۂ آفاق کتاب GRAMMAIRE DU DECAME RON 1976 میں شائع ہوئی جس میں اس نے پروپ کے اصولوں کی روشنی میں بوکاکیو کے فکشن کا تجزیہ کیا۔ اس کی دوسری تصانیف میں POETIQUE DE LA PROSE. 1971 خاص اہمیت رکھتی ہے۔ تودوروف کی تمام کتابیں پیرس سے فرانسیسی میں شائع ہوئیں اور ان کے انگریزی تراجم کا سلسلہ جاری ہے۔ اس وقت کے ساختیاتی نقادوں میں تودوروف بہت اہمیت رکھتا ہے۔
تودوروف نے پروپ کی تحقیقات پر خاصا اضافہ کیا اور اپنے نظریے کا DECAMERON پر اطلاق کرکے اس کی وضاحتیں بھی کیں۔ اس کا زور فکشن کی گرامر کے تعین پر ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ہر طرح کے فکشن میں تین جہات (ASPECTS) ضروری ہیں۔ (۱) معنیاتی جہت (SEMANTIC) یعنی مواد کی جہت (۲) نحویاتی جہت (SYNTA-CTICAL) یعنی کہانی کے مختلف اجزا میں ترتیب کی جہت (۳) لفظیاتی جہت (VERBAL) یعنی لفظوں اور ترکیبوں کے خصوصی استعمال کی جہت۔ اس کے بعد وہ زبان کے نحوی اصولوں کے ماڈل کی بنا پر بیانیہ کی ساخت کے تعین کے کام کو آگے بڑھاتا ہے۔ وہ بیانیہ کے قلیل ترین (IRREDUCIBLE) جز کو جس کو مزید تحلیل نہ ہو سکے، مسئلہ PROPOSITION کہتا ہے۔ بیانیہ میں کئی ’’مسائل‘‘ (PROPOSITIONS) مل کر ’’ترجیع‘‘ (SEQUENCE) قائم کرتے ہیں۔ ’’مسائل‘‘ یوں ہو سکتے ہیں،
الف بادشاہ ہے۔
ب الف کی ماں ہے۔
ج الف کا باپ ہے
الف ب سے شادی کرتا ہے
الف ج کو قتل کرتا ہے
بقول تودوروف یہ وہ مسائل ہیں جن پر ایڈپس متھ کا بیانیہ مبنی ہے۔ الف ایڈپس ہے، ب جو کاسٹا ہے اور ج لئیس ہے۔ پہلی تین شقیں ’’موضوعی‘‘ ہیں یعنی مبتدا کی شکل ہیں۔ پہلی، چوتھی اور پانچویں میں خبر یہ عنصر ہے۔ تودوروف کا کہنا ہے کہ خبر یہ شقیں صفات کے طور پر بھی کام دے سکتی ہیں اور صورت حال کو ظاہر کر سکتی ہیں (بادشاہ ہونا، شادی کرنا، قتل کرنا) یا یہ حرکیاتی طور پر بیانیہ افعال کی حیثیت سے بھی عمل آرا ہو سکتی ہیں۔ بیانیہ کے قلیل ترین جز (مسئلہ) کو قائم کر لینے کے بعد تودوروف بیانیہ کے ساختیاتی نظام کی دو نسبتاً اوپری سطحوں سے بحث کرتا ہے۔ ایک کو وہ گریما کی طرح ترجیع (SEQUENCE) کہتا ہے اور دوسری کو ’’متن‘‘ (TEXT) کئی مسائل شقیں مجتمع ہوکر ’’ترجیع‘‘ قائم کرتی ہیں اور کئی ترجیعیں مل کر ’’متن‘‘ کی تشکیل کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر ذیل کی پانچ ’’مسائلی‘‘ شقیں ایک صورت حال کا احاطہ کرتی ہیں، جس میں خلل واقع ہوتا ہے اور بالآخر پہلی صورت حال پھر قائم ہو جاتی ہے اگرچہ قدرے بدلی ہوئی شکل میں یہ پانچ مسائلی شقیں یوں ہو سکتی ہیں۔
توازن (۱) (امن)
طاقت (۱) (دشمن کا حملہ)
عدم توازن (جنگ)
طاقت (۲) (دشمن کی شکست)
توازن (۲) (امن نئی شرائط پر)
یہ ایک ترجیع ہوئی۔ ایسی کئی ترجیعات مل کر ’’متن‘‘ قائم کرتی ہیں۔ بیانیہ میں ترجیعات کسی بھی ترتیب سے مجمتع ہو سکتی ہیں، کہانی کے اندر کہانی (EMBEDDING) داستاں در داستاں، تمثیل در تمثیل (اردو میں یہ داستانی، قصصی اسلوب کی نمایاں خصوصیت ہے ) ترجیعوں میں ارتباط کی اور شکلیں بھی ہیں۔ مثلاً واقعات کا اضافہ یا باہمی تبدل یا باہمی ارتباط وغیرہ۔ تودوروف نے بیانیہ کی شعریات کے بارے میں اپنی اصول سازی کا بنیادی مطالعہ DECAMERON پر اپنی کتاب میں کیا ہے جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔ بیانیہ کی آفاقی گرامر کے تعین کی تودوروف کی کوشش میں سائنسی معروضیت کی پوری شان ہے جسے بالعموم سراہا گیا ہے۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ زیادہ پر اعتمادی بھی اپنا رد عمل پیدا کرتی ہے۔ جیسا کہ آگے چل کر ہم دیکھیں گے۔ پس ساختیات کے متعدد فکری رویے اسی معروضی پراعتمادی کے رد عمل میں وجود میں آئے۔
یہ خیال کہ ادبی فن پارہ زبان سے قائم ہوتا ہے، اور زبان ہی پیغام ہے۔۔۔ THE MEDIUM IS THE MESSAGE بنیادی ساختیاتی نظریہ ہے اور جیکب سن نے اس کی نظریاتی بنیادوں کو واضح کیا تھا۔ یہ خیال پس رومانوی تصور کی بھی توثیق کرتا ہے کہ فارم اور مواد در اصل ایک ہیں کیونکہ اس میں یہ تصور جاگزیں ہے کہ فارم ہی مواد ہے۔ اسی خیال کی بنا پر تودوروف نے ایک جگہ یہ نہایت دلچسپ بحث اٹھائی ہے کہ الف لیلیٰ جیسے شاہکار کا بنیادی موضوع در اصل خود کہانی کہنے کا عمل ہے کیونکہ کردار سب انسان (HOMOLOQUENS) یعنی ’’بولنے والے جاندار‘‘ ہیں اور ان کے لیے کہانی سنانا زندہ رہنے کی علامت ہے اور کہانی کے ختم ہو جانے کا مطلب ہے موت۔ یہ مسئلہ صرف الف لیلیٰ کے کرداروں کا نہیں، انسان کا ہے کہ اس کے لیے ’’بیانیہ زندگی ہے اور عدم بیانیہ موت۔‘‘ NARRATION EQUALS LIFE: THE ABSENCE OF NARRATION DEATH (P.92)
اس نکتے پر مزید خیال آرائی کرتے ہوئے تودوروف کہتا ہے، ’’ہرفن پارہ، ہر ناول، اپنے اجزا کے ذریعہ در اصل خود اپنی تخلیق کی کہانی کہتا ہے یا خود اپنی تاریخ بیان کرتا ہے۔ فن پارے کے معنی خود اپنے آپ کو بیان کرنے، خود اپنے آپ کو قائم کرنے اور خود اپنا اثبات کرانے میں ہیں۔‘‘ (ص49)
تودوروف اصناف کی تعریف کا سوال بھی اٹھاتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ادبی اصناف کی گرامر اتنی ضروری ہے جتنی بیانیہ کی گرامر۔ ہر تحریر دوسری تحریروں کی روشنی میں لکھی جاتی ہے اور پہلے سے چلے آ رہے اور موجود ادب کے تئیں مصنف کے رد عمل کو ظاہر کرتی ہے۔ اس حقیقت سے انکار ناممکن ہے کہ ادبی اظہار گویا (PAROLE) ہے۔ ادب کی LANGUE کے تناظر میں۔ لیکن بمقابلہ دوسری ساختوں کے ادب کی دنیا میں PAROLE یعنی فن پارہ ادب کی LANGUE کو بھی متاثر کرتا ہے۔ ہر ناول، ناول کے بنیادی اصول و قوانین (ساخت) کی رو سے تخلیق تو ہوتا ہی ہے، لیکن اپنی صنف کے تصور میں تغیروتبدل بھی کر سکتا ہے۔ چنانچہ صنف منجمد نہیں، حرکیاتی وجود رکھتی ہے۔ اپنے مقالے
THE FANTASTIC IN FICTION IN TWFNTETH CENTURY STUDIES. VOL.3. MAY 1970.PP.76-92
میں تودوروف نے اس بارے میں نہایت اہم نکات بیان کیے ہیں،
(۱) ادبی متن اس کا امکان رکھتا ہے کہ جس نظام نے اسے پیدا کیا ہے اور جس کا وہ حصہ ہے، اس کی تشکیل نو کر دے۔ فن پارہ تبدیل ہونے کی طاقت رکھتا ہے۔
(۲) ادبی متن زبان کے نظام کو جس کا وہ امین ہے، زیرو زبر بھی کر سکتا ہے، وہ اس میں ترمیم و توسیع کر سکتا ہے۔ ادبی متن جو قرأت کا مواد ہے، وہ چیز نہیں ہے جو زبان ہے۔ پس ادب زبان کے اندر وہ چیز ہے جو زبان کی خلقی مابعد الطبیعات کو تباہ کرسکتی ہے، ادبی بیان کی اصل یہ ہے کہ وہ زبان سے آگے جائے ورنہ پھر ادب کا کیا جواز ہے۔ ادب ایک مہلک ہتھیار کی طرح ہے جس سے زبان خود کشی کرتی ہے۔ اصل انگریزی متن (ترجمہ) یوں ہے۔
AFTER ALL. WRITING THE RAW MATERIAL OF READING IS NOT THE SAME THING AS LANGUAGE THUS LITERATURE IS INSIDE LANGUAGE, WHAT DESTROYS THE METAPHSICS INHERANT IN EVERY LANGUAGE. THE ESSENCE OF LITERAY DISCOURSE IS TO GO BEYOND LANGUAGE NOT IT WOUD HAVE NO RAISON DETRE. LITERAURE IS LIKE A DEADLY WEAPON WITH WHICH LANGUAGE COMMITS SUICIDE. (P.91)
ساختیاتی نظریہ سازی میں قرأت کی اہمیت پر زور دینا تودوروف کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ وہ ساختیاتی مفکرین میں پہلا شخص ہے جس نے بہ دلیل اس مسئلہ کو اٹھایا اور اس کی نظریاتی گرہیں کھولیں۔ تودوروف کے یہ خیالات بیج ثابت ہوئے رولاں بارتھ کے لیے جس کے یہاں ادبی تنقید کے عمل میں تحریر اور قرأت کی اہمیت مرکزی نظریے کا درجہ رکھتی ہے۔
اس باب کے آخر میں ایک اور اہم نظریہ ساز ژیرار ژینت (GERARD GENETTE) کے کام پر نظر ڈالی جائےگی۔ ژینت نے بیانیہ کے بارے میں اپنا پیچیدہ مگر محکم نظریہ مارسل پروست کے مطالعے کے تناظر میں پیش کیا۔ روسی ہیئت پسندوں نے کہانی اور پلاٹ کے جس فرق پر زور دیا تھا (ملاحظہ ہو باب سوم) اس خیال کو آگے بڑھاتے ہوئے ژینت نے بیانیہ کی تین سطحیں قرار دیں، ’’کہانی‘‘ (HISTOIRE)، ’’ڈسکورس‘‘ یا ’’بیان‘‘ (RECIT) اور ’’بیانیہ‘‘ (NARRATION) مثلاً اینیڈ II میں الینیس کہانی سانے والا ہے اور سامعین سے خطاب کر رہا ہے۔ یہ خطاب ’’بیانیہ‘‘ (NARRATIONS) ہے، جو کچھ وہ پیش کر رہا ہے وہ ڈسکورس ’’بیان‘‘ ہے اور یہ ’’بیان‘‘ ترجمانی کرتا ہے ان واقعات کی جن میں وہ خود ایک کردار ہے، یہ ’’کہانی‘‘ ہے۔
بیانیہ کی تین جہات فعل کے تین صرفی پہلوؤں سے جڑی ہوئی ہیں یعنی ’’فعل‘‘ ’’صورت‘‘ اور ’’طور فعل‘‘ TENSE, MOOD, VOICE، مثلاً ’’صورت‘‘ (MOOD) اور طور فعل (VOICE) کی مدد سے ان مسائل کی بخوبی درجہ بندی ہو جاتی ہے جو بیانیہ میں ’’نقطۂ نظر‘‘ (POINT OF VIEW) کے سوال سے پیدا ہوتے ہیں۔ بالعموم ہم بیان کرنے والے کی آواز اور کردار کے تناظر میں فرق نہیں کر پاتے۔ GREAT EXPECTATIONS میں پپ اپنے گزرے ہوئے دنوں کا تناظر فراہم کرتا ہے۔ جبکہ وہ اسے بحیثیت ایک راوی کے بعد میں بیان کر رہا ہے۔
ژینت نے اپنے بحث انگیز موضوع‘‘ FRONTIERS OF NARRATIVE’’1966 میں بیانیہ کے مسائل کا جو جائزہ لیا تھا، اس پر بعد کے آنے والے بہت کم اضافہ کرسکے ہیں۔ ژینت بیانیہ کے نظریے پر تین دو رخے تضادات کے ذریعہ غور کرتا ہے اور پہلے سے چلے آ رہے تصورات کے ذیل کے جوڑوں کو چیلنج کرتا ہے۔ اول ’’بیانیہ‘‘ اور ’’نقالی‘‘ (DEIGESIS/MIMESIS) یہ فرق ارسطو کی بوطیقا میں بھی ملتا ہے۔ یعنی عام بیانیہ (جب مصنف اپنی آواز میں بطور مصنف بیان کرتا ہے ) اور نقالی (جب مصنف کسی کردار کی زبان میں بات کرتا ہے ) ژینت دلچسپ بحث اٹھاتے ہوئے کہتا ہے کہ اس فرق کو منطقی طور پر ثابت کرنا مشکل ہے کیونکہ مصنف نقالی کرتے ہوئے لاکھ کوشش کرے کہ من وعن وہی لفظ دہرائے جو کسی نے کہے تھے تو ایسا کرنا فکشن میں ناممکن ہے، کیونکہ مصنف کا موضوعی ذہن تو اس میں شامل ہو ہی جائےگا۔
ژینت زور دیتا ہے کہ فکشن ڈچ پینٹنگ کی طرح نہیں جس میں کینوس پر اصل اشیا بھی لگا دی جاتی ہیں۔ چنانچہ ژینت یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ قدما کا نظریۂ نقالی (MIMESIS) بیانیہ جمع کرداروں کی تقاریر نہیں تھا بلکہ بیانیہ اور صرف بیانیہ تھا۔ دوسرا دو رخا تضاد جسے ژینت چیلنج کرتا ہے، وہ بیانیہ اور وضاحت (NARRATION. DESCRIPTION) پر مبنی ہے۔ ژینت کا کہنا ہے کہ یہ پہلے سے طے کر لیا گیا ہے کہ ایک میں فکری پہلو حاوی ہے اور دوسرے میں عملی۔ یعنی ’’بیانیہ‘‘ میں عمل اور واقعات ہیں اور ’’وضاحت‘‘ میں کردارو ں اور اشیا کا ذکر ہے۔ پہلی نظر میں ’’بیانیہ‘‘ اصل معلوم ہوتا ہے کیوں کہ عمل اور واقعات کہانی کے ڈرامائی مواد کی بنیاد ہیں۔ اس کے مقابلے میں ’’وضاحتی پہلو‘‘ اضافی اور آرائشی معلوم ہوتا ہے۔
آدمی میز کی جانب بڑھا اور اس نے چاقو اٹھالیا۔ عمل سے بھرپور ہے، اس لیے بیانیہ ہے۔ غرض اس طرح دونوں کا فرق بتا دینے اور ترجیع قائم کر لینے کے بعد ژینت اس سارے مسئلے پر دوبارہ نظر ڈالتا ہے اور بتاتا ہے کہ اس ترجیع کو بھی چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ وہ کہتا ہے اگر اس جملے پر دوبارہ غور کریں تو معلوم ہوتا کہ اس جملے کے اسم اور فعل صرف ’’بیانیہ‘‘ نہیں، بلکہ ’’وضاحتی‘‘ ہیں۔ مثلاً اگر ’’آدمی‘‘ کو لڑکا اور میز کو ڈسک اور اٹھا لیا کولپک لیا سے بدل دیں تو وضاحت بدل جاتی ہے۔ آخر میں وہ بیانیہ اور بیان (NARRATIVE/DISCOURSE) کے جوڑنے سے بحث کرتا ہے کہ ایک میں خالص بیان ہے جس میں کوئی بولتا نہیں اور دوسرے میں ایسا بیان (ڈسکورس) ہے جس میں ہمیں معلوم ہے کہ کون بول رہا ہے۔ دونوں کے تضاد کی بحث کو قائم کرنے کے بعد ژینت اس کو بھی مسترد کر دیتا ہے اور دلیل یہ لاتا ہے کہ کوئی خالص بیانیہ ایسا نہیں ہو سکتا جس میں موضوعی پر تو (SUBJECTIVE COLOURATION) نہ ہو۔
کوئی ’’بیانیہ‘‘ کتنا خالص کیوں نہ دکھائی دے، فیصلہ کرنے والے ذہن کی پرچھائیں ضرور در آتی ہے۔ اس اعتبار سے ’’بیانیہ‘‘ ہمیشہ غیر خالص ہوتا ہے۔ خواہ ’’ڈسکورس‘‘ کا عنصر راوی کی آواز کے ذریعے در آئے جیسا کہ فیلڈنگ اور سروینٹیز کے یہاں ہوتا ہے، یا کردار، راوی ہو جیسا سٹرن کے یہاں ہے، یا خط کی ذریعے ’’ڈسکورس‘‘ ہو جیسا کہ رچرڈسن کے یہاں ملتا ہے۔ ژینت کا خیال ہے کہ ’’بیانیہ‘‘ اپنے ’’خالص پن‘‘ کو ہیمنگوے کے یہاں زیادہ سے زیادہ پا سکا، لیکن نئے فکشن (NOUVEAU ROMAN) کے آتے آتے ’’بیانیہ‘‘ مصنف کے اپنے ’’ڈسکورس‘‘ میں پوری طرح ڈوب گیا۔
ژینت نے جس طرح بعض بنیادی تصورات کے تضادات کو پہلے قائم کیا اور پھر خود ہی ان کو چیلنج کیا اور منطقی طور پر بہ دلیل ان کو مسمار کر دیا، اس سے ملتے جلتے فکری رویے نے آگے چل کر ژاک دریدا (JACQUES DERRIDA) کے ایک بالکل نئے اور باغیانہ فلسفے ’’رد تشکیل‘‘ (DECONSTRUCTION) کے لیے دروازہ کھول دیا جو پس ساختیاتی فکریات کا خاص حصہ ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.