فلم بنانا کھیل نہیں
فلم یوں تو کھیل ہے، لیکن اس کا بنانا کھیل نہیں۔ ارادے اور روپ ریکھا سے لے کر فلم بنانے تک بیچ میں بیسیوں، سیکڑوں ایسی رکاوٹیں آتی ہیں کہ بڑے دل گردے والا آدمی بھی دم توڑ سکتا ہے۔
سوشل فلم باقی دوسری فلموں سے الگ نہیں، لیکن زیادہ مشکل اس لیے ہے کہ سماج مختلف قسم کا ہے۔ کئی مذہب، نسل، صوبے، بولیاں ٹھولیاں ہیں۔ جمہوری نظام نے انفرادی طور سے سب کو بنیادی حقوق دے رکھے ہیں اور مجموعی طور پر برابری کے حقوق۔ کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ میں ان حقوق کے خلاف ہوں، لیکن ایک بات ضرور ہے کہ انفرادی اور اجتماعی طور سے ابھی میرے بھائیوں کو ان حقوق کا استعمال کرنا نہیں آتا۔
مجھے یاد ہے، جب میں نے فلم ’مرزا غالب‘لکھی تو اول اور آخر ہمارے سامنے مقصد یہ تھا کہ دیش کے کونے کونے میں مرزا غالب کا کلام گونجے۔ لوگ ان کے خیالات اور ان کی شاعری کی عظمت سے روشناس ہوں۔ کہانی تو ایک بہانہ ہوتی ہے، جس کی مدد سے آپ اس عہد کے سماج کی پرچھائیاں قلم بند کرتے ہیں۔ چنانچہ بہادر شاہ ظفر کہتے ہیں، ’’آواز اٹھی اور نہ آنسو بہے۔ شہنشاہ ہند کی حکومت جمنا کے کنارے تک رہ گئی۔‘‘
مغل عہد ختم ہو رہا تھا اور برٹش سامراجیت دھیرے دھیرے اپنے پنجے پھیلا رہی تھی۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ مرزا صاحب جب جیل سے رہا ہو کر اپنی محبوبہ کے یہاں آتے ہیں اور دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں تو کوئی جواب نہیں آتا۔ اس وقت وہ ایک سادہ مگر دکھ بھرے جملے میں اس عہد کا پورا نقشا کھینچ دیتے ہیں، ’’ارے کہاں ہو دلی والو۔۔۔؟ دن دہاڑے ہی سو گئے؟‘‘ اس پر بھی کچھ لوگوں کو سوجھی کہ مرزا صاحب کی عشقیہ زندگی کیوں پیش کی گئی؟ جیسے وہ انسان نہیں تھے، ان کے دل نہیں تھا۔ وہ کتنے دل والے تھے، ان کے خطوط پڑھ کر پتا چلتا ہے۔
تاریخی فلموں کا ذکر محض تذکرہ ہے، کیونکہ حقیقت میں وہ کسی نہ کسی طرح سماجک پہلو لیے ہوئے ہیں۔ مگر اس کا کیا کیا جائے کہ اس کے ساتھ کسی نہ کسی مقصد کا اشارہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر مہاراج رنجیت سنگھ کے بارے میں فلم بنانا آسان نہیں ہے۔ حقیقت سے متعلق دو مؤرخوں کی رائے آپس میں نہیں ملےگی۔ پھر وہ مقصد ان کی زندگی کے انفرادی پہلو کو فلم کے پردے پر نہیں لانے دےگا۔ آپ کو کئی اداروں سے کلیرنس حاصل کرنا ہوگا اور جب وہ حاصل ہوگا تو اسکرپٹ کی شکل بالکل بدل چکی ہوگی، جس میں آپ اپنا چہرہ پہچان ہی نہیں پائیں گے۔ کچھ اس قسم کی باتیں ہو جائیں گی۔۔۔ آپ بہت اچھے ہیں، میں بھی بہت اچھا ہوں۔ تندرستی ہزار نعمت ہے، وغیرہ وغیرہ اور اگر آپ ان کے شکوک کے خلاف جائیں گے تو مورچے لگیں گے، آپ کی زندگی خطرے میں پڑ جائےگی اور آپ گھر کے باہر نہیں نکل سکیں گے۔
آپ زیب النساء کے بارے میں فلم نہ ہی بنائیں تو اچھا ہے، کیونکہ وہ اورنگ زیب کی بیٹی تھی اور اس لیے سیزر کی بیوی کی طرح تمام شکوک اور شبہوں سے اوپر۔ عاقل خان گورنر ملتان سے ان کی محبت کو نہ صرف مشکوک سمجھا جائےگا، بلکہ اس کی صحت، میرا مطلب ہے، قصے کی صحت کو بیہودہ قرار دیا جائےگا۔ آپ دور کیوں جاتے ہیں، حال ہی میں ستیہ جیت رے نے، جنہیں دنیا ایک بڑے ڈائریکٹر کی حیثیت سے مانتی ہے، ایک فلم بنائی جس میں ایک نرس دکھائی گئی جو اپنے گھر کے حالات سے مجبور ہوکر رات کو دھندا کرتی ہے۔ اب وہ ایک انفرادی بات تھی جس کا اجتماعی طور پر نرس پیشہ عورتوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پر اس پر بھی ہنگامہ برپا ہو گیا۔ نرسوں نے آندولن چلایا اور شری رائے کو ان سے معافی مانگنی پڑی۔ میں پوچھتا ہوں کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ایک طرف لوگ مرزا غالب، اور ’سنسکار‘ جیسی فلموں کے خلاف مظاہرے کرتے ہیں اور دوسری طرف بھارت سرکار انہیں سال کی بہترین فلم قرار دیتی ہے۔ اس کے بنانے والے کو راشٹرپتی اپنے ہاتھوں سے سورن پدک اور مان پتر پیش کرتے ہیں۔
ساماجک فلم اپنے یہاں بنانے میں اپنے یہاں دیش کے حالات بہت آڑے آتے ہیں۔ مختلف گروہ، قومیں اور مقصد تو ایک طرف، خود سرکار بھی اس گناہ سے بری نہیں۔ مثال کے طور پر سرکار کی پالیسی اہنسا ہے۔ لیکن اس کو کیا کیجیےگا کہ کئی ہنسا استعمال کرنے والوں کو ہم نے اپنا رہنما مانا ہے، ان کے سامنے سر جھکایا ہے اور اس کے سہرے گائے ہیں۔ میں شہید بھگت سنگھ کی مثال آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ شہید بھگت سنگھ اول اور آخر کرانتی کاری تھے، وہ من سے سوشلسٹ تھے اور ان کا نظریہ تھا کہ طاقت کے استعمال کے بنا برٹش سامراجیہ کا تختہ الٹنا ممکن نہیں ہے۔ اب آپ ان کے بارے میں فلم بنائیں تو ایک طرف ان کو ان کے ساتھی بھگوتی چرن ورما کی بیوی کو بار بار بھابی کہہ کر پوشیدہ سیکس کی طرف اشارہ کرنا پڑےگا اور دوسری طرف ان کے اسمبلی میں بم پھینکنے کے واقعے کو یا تو چھوڑ دینا ہوگا اور یا پھر اس کا بیان یوں کرنا ہوگا کہ وہ صرف سامراجیہ کو چونکانا چاہتے تھے۔
تبھی ایک اندرونی تضاد پیدا ہو جائےگا۔ کیا لاہور میں سپرنٹنڈنٹ پولس سانڈرس کی ہتیا بھی انہوں نے انگریزوں کو چونکانے کے لیے کی تھی؟ اگر آپ ان واقعات کو ایسے ہی دکھائیں گے جیسے کہ وہ واقع ہوئے تو آپ حملوں کا نشانہ بنیں گے، کیونکہ ملک میں کئی ایسے گروہ ہیں جو گولی بندوق میں یقین رکھتے ہیں اور سرکار کی پالیسی ایسی ہے کہ وہ دھماکہ بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ ورنہ ان کروڑوں نوجوانوں کا کیا ہوگا جو دن رات یونی ورسٹی کیمپس میں اودھم مچاتے رہتے ہیں۔
یہ تاریخ کو چڑانے والی بات ہوگی کہ ہم کہیں کہ ہندوستان کو آزادی صرف اہنسا کی پالیسی کی وجہ سے ملی۔ اس میں رائل نیوی کے ناوِکوں کا بھی ہاتھ تھا جنہوں نے گھٹیا قسم کے کھانے اور بدسلوکی کا بہانہ لے کر ہندستان کی آزادی کے لیے لڑائی لڑی، مخالفت کی اور ممبئی کی گلیوں میں انگریز کی گولیوں سے شہید ہوئے۔ جلیاں والا باغ کے بیسیوں سال کے بعد اُودھم سنگھ نے لندن پہنچ کر مائیکل اوڈائر کو گولی ماردی اور ہماری قومی بے عزتی کا بدلہ لیا۔ لیکن آپ اس سوشل اور تاریخی سچ کو مصیبت میں آئے بغیر نہیں دکھا سکتے۔ اس لیے کہ برطانیہ کے ساتھ ہمارے کامن ویلتھ تعلقات ہیں، جو موجودہ بین الاقوامی حالات کو دیکھتے ہوئے ہم کسی طرح نہیں بگاڑ سکتے۔ ہم حقیقت کی آنکھوں میں نہیں گھور سکتے۔
سوشل فلم بناتے وقت ہم ہر ہر قدم پر ایسے بیسیوں خطروں سے دوچار ہوتے ہیں۔ آپ قومی ایکتا پر فلم بنا رہے ہوں تو آپ میں ہمت نہیں ہوگی کہ رانچی، بھیونڈی اور مالیگاؤں کے واقعات کو ان کی صحیح صورت میں پیش کر سکیں، کیونکہ ان میں ایک مذہب یا قوم کے لوگوں نے دوسرے پر وحشیانہ ظلم ڈھائے تھے۔ آپ ہندو مسلم فساد دکھاتے ہیں تو آپ کے لیے ضروری ہے کہ جہاں دو ہندو مرے ہوں وہاں دو مسلمان مار کے دکھائیں۔ اس پر بھی نہ ہندوؤں کی تسلی ہوگی نہ مسلمانوں کی۔ دونوں آپ سے ناخوش، دونوں ناراض اور اس پر آپ کو سینسر سرٹیفکیٹ لینے میں تکلیف ہوگی۔
تو یہ آپ طلبہ کے موجودہ ایجی یشن کو بھی نہیں ٹٹول سکتے۔ ان کے دنگوں اور مخالفت تک پہنچنے کی کوشش نہیں کر سکتے۔ یونی ورسٹی کیمپس میں آج جو ہو رہا ہے، آخر ہے کیا؟ وہ اپنا اصل مقصد چھوڑ کر سنیاسی ہوتے جا رہے ہیں یا وہ مختلف سیاسی پارٹیوں کے ہتھکنڈوں کا شکار ہیں؟ آخر اس ماردھاڑ کی وجہ کیا ہے؟ یہ بھی تو گاندھی جی کو مانتے ہیں۔ پھر کیوں یہ لوگ ایکاایکی امڑ کر مارکاٹ کرنے لگتے ہیں؟ ان باتوں کی تہہ میں جانا اور ان کے بارے میں فلم بنانا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے۔ ایسا کریں گے تو کئی ہزاروں کے پانو پر آپ کے پانو پڑیں گے اور وہ سب ہیں بڑی پہنچ والے۔ اس لیے آپ صرف گول گول دال والی بات کیجیے۔ پانچ چھے گانے ڈال دیجیے، دوچار ناچ، ماں باپ، بیٹے بیٹوں کو بچپن ہی سے بچھڑا دیجیے تاکہ بڑا بھائی جوان ہوکر پولیس انسپکٹر ہوجائے۔ انجانے ہی میں اپنے چھوٹے بھائی کو ملزم کے طور پر عدالت میں پیش کرے او ریہ بعد میں پتا چلے کہ جج ان دونوں کا باپ تھا اور ماں جو بیٹے کے خلاف گواہی دے رہی ہے، اس کی بیوی تھی۔ پھر تو باپ کے لیے مشکل ہو جائے، ماں کے لیے مصیبت۔
نوجوانوں کے بارے میں فلم بنائیے تو صرف یہیں تک پہنچیے کہ بڑوں کا عشق، عشق تھا اور چھوٹوں کی محبت بدنامی اور بدکاری۔ اُسے ’اُچت‘مت لکھیے کہ شری مدبھاگوت سے لے کر اب تک استری اور پرشوں کے بیچ کیا کیا گردانیں ہوئیں۔ صرف اتنا ہی کافی ہے کہ چند مصیبتوں میں پڑے بڑوں کے پاس کوئی وقت نہیں ہے۔ وہ انہیں سیاسی اور رہنما نہیں سمجھتے اور اگر سمجھتے ہیں تو اپنے ہی الٹے معنی پہناتے ہیں۔
اب آپ اس بدنام لفظ ’سیکس‘ پر آ جائیے۔ ہمارا سماج یہ تو سہن کر سکتا ہے کہ لڑکا اور لڑکی ناچتے ہوئے ایک پیڑ کے گرد یا موٹر میں بیسیوں چھچھوری اور اخلاق سے گری ہوئی حرکتیں کریں، لیکن باغ میں جو پیار کرنے والے کا اپنی محبوبہ کو پہلا اپہار ہے، وہ اسے برداشت نہیں کر سکتے۔ ہم اپنی فلموں میں دو، تین، چار ریلیں صرف یہ ثابت کرنے کے لیے لیتے ہیں کہ راجو کو رادھا سے محبت تھی۔ لیکن نفسیاتی بات جو چند سیکنڈ میں ثابت ہو سکتی ہے، پورا معاشرہ اس کے خلاف ہے، ہمارا سماج اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ کھجوراہو، کونارک کے وارث یہ بات کہتے ہیں اور بار بار کہتے ہیں۔۔۔ اصل مقصد تو یہ تھا کہ اِس عمل کو ڈھکے چھپے ڈھنگ سے پیش کیا جائے اور فلم جو کسی حدتک آرٹ بھی ہے، کمرشیل اور پیشہ وروں کے ہاتھوں سے نکلتی جائے۔
لیکن عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ چند مناظر کو فلمانے کی اجازت اچھے اور بڑے فلم سازوں کو یکساں نہیں ہے۔ یوں سنسر نے اپنے لیے گنجایش رکھی ہے کہ ہر فلم اور اس میں ہونے والے واقعات کو بنانے والے کی نیت اور واقعے کی نوعیت میں دیکھا جائےگا۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ ایک لمحے کے لیے مان بھی لیا جائے کہ سنسر کے چودھری بڑے دل والے ہیں، مگر ان کا کیا کیجیے گا جو پبلک کی سطح پر تصویر کو پاس کرنے کے سلسلے میں پہلے دیکھتے ہیں اور جن کا ادبی ذوق قابل غور ہے اور جو بار بار اس بات کا دعوا کرتے ہیں، ’’میں فلم نہیں لکھتا، نہ دیکھتا ہوں۔‘‘
مثال کے طور پر میں ایک فلم بناتا ہوں جس کا بنیادی خیال ہے کہ بالغ ہوتے ہوئے بچے کو جنسی تعلیم دینی چاہیے اور اسے ان تمام خطروں سے آگاہ کرنا چاہیے جو پیدا ہو سکتے ہیں۔ اب صاف ہے کہ اگر میں لڑکے اور لڑکی کے سلسلے میں کوئی لغزش نہیں دکھاؤں گا تو ڈراما پیدا نہیں ہوگا اور دکھاؤں گا تو اس کا حل مجھے وہی پیش کرنا پڑےگا جو مقبول ہے اور وہ نہیں جو نفسیاتی ہے۔
حال ہی کی بات ہے، میں ایک فلم بنا رہا تھا، جو نفسیاتی تھی۔ ہوتا یہ ہے کہ ایک عورت کا شوہر کسی اور لڑکی کی وجہ سے گھر چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے۔ اس کے جانے کے بعد اس عورت کے ایک بچی پیدا ہوتی ہے۔ جوان ہوکر وہ شادی کرتی ہے، پرماں بیٹی کے ساتھ یوں چپک جاتی ہے کہ داماد کے لیے سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایک دن ایسا آتا ہے کہ وہ اپنی بیٹی اور داماد کو ایک دوسرے کے بازوؤں میں دیکھ لیتی ہے اور ایک لمحے کے لیے اپنے آپ کو اپنی بیٹی کی جگہ پروجیکٹ کر دیتی ہے۔
انسان اپنے دماغ میں کئی بار ایسی ایسی باتیں سوچ لیتا ہے جو ساماجک اور اخلاقی نظریے سے قبول نہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ سمجھ لیتا ہے، چاہے اس کے بعد وہ اپنے آپ کو بہت بڑا پاپی اور گناہ گار سمجھے۔ اس لیے ایسا ہی ہوتا ہے، ساس ایک لمحے کے لیے رک تو جاتی ہے، پر فوراً ہی چونک کر پیچھے ہٹ جاتی ہے اور احساس گناہ سے اوت پروت مندر میں جاکر بھجن گانے لگتی ہے،
’مورے تو گردھر گوپال دوجا نہیں کوئے۔‘
اس سین کو فلمایا تھا کہ میری ہیروئن نے اس پر اعتراض کیا، ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ میں نے کہا، ’’ہوتا ہے میڈم۔ اور پھر جب میں یہ دکھلاتا ہوں کہ وہ ایک گنہگار ہونے کے جذبے سے شرمندہ ہوکر سیٹ سے چلی جاتی ہے تو پھر آپ کو کیا اعتراض ہے؟‘‘ میڈم نے وہ سین کر تو دیا، پر سوچتی رہی کہ اس پر پبلک سے جوتے پڑیں گے۔ میں نے اس پر بھی کہا کہ جوتے جو پڑیں گے، آپ مجھے بھیج دیجیے، میرے اپنے جوتے پرانے ہو گئے بلکہ پھٹ چکے ہیں۔
سوشل فلم بنانے والے کی حیثیت اس عورت کی طرح ہے جو غرارہ پہنے ہوئے کسی پارٹی میں گئی اور جب لوٹی تو برسات ہو چکی تھی اور گھر کے سامنے پانی ہی پانی تھا۔ اس کے مرد نے سروالٹرریلے کی طرح راستے میں اینٹیں اور سلیں رکھ دیں اور وہ غرارے کو سنبھالتی ہوئی چلی۔ لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ ایک اینٹ ٹیڑھی رکھی ہوئی ہے۔ وہ دھپ سے پانی میں گری۔۔۔ غرارے سمیت! ساودھانی اُسے لے ڈوبی۔
نابابا۔ سماجک فلم بنانے میں بڑی جوکھم ہے۔ چاروں طرف سے آپ ننگے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ بدن پر کھال بھی نہیں اور نمک کی کان سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ فلمیں ساماجک اور دوسری کن حالات میں بنتی ہیں، اس کا آپ کو اندازہ نہیں۔ نام کی ہمیں پوری آزادی ہے مگر اس کے بعد جو مراحل پیش آتے ہیں، اس عالم میں مجاز کا شعر یاد آ جاتا ہے،
حدیں وہ کھینچ رکھی ہیں حرم کے پاسبانوں نے
کہ بن مجرم بنے پیغام بھی پہنچا نہیں سکتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.