فوکو کا یہ قول بہت مشہور ہے کہ انسان کی موت واقع ہو چکی ہے۔
اپنی کتاب’’ پاگل پن اور تہذیب ‘‘ میں فوکو نے اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ پاگل پن کے سلسلے میں یورپ میں تصورات کس طرح بدلتے رہے ہیں۔ فوکو نے اس سلسلے میں جدید میڈیکل سائنس میں بھی جو عہد بہ عہد تبدیلیاں آتی رہی ہیں ان کا بھی جائزہ لیا ہے۔ مختلف علوم مثلاً حیاتیات، لسانیات اور معاشیات کے بنیادی تصورات کا بھی پتہ چلایا ہے۔ اس طرح فوکو کا شمار فرانس کی چار بڑی شخصیتوں میں ہونے لگا۔ ان چار عظیم شخصیتوں میں لیوی اسٹر اس، رولاں بارت اور لاکاں کے نام شامل ہیں لیکن فوکو اپنے آپ کو ساختیات کا ماننے والا تسلیم نہیں کرتا۔ فوکو کی سوچ نطشے کی سوچ سے بہت زیادہ مماثلت رکھتی ہے۔ فوکو کا یہ قول بہت مشہور ہے کہ انسان کی موت واقع ہو چکی ہے۔
اگر ہم فوکو کی زندگی پر توجہ کریں تو پتہ چلتا ہے۱۹۶۰ء میں Ferrand Clermont کی یونیورسٹی میں وہ فلسفے کے شعبے کا صدر بنایا گیا تھا ’’ پاگل پن‘‘ پر اپنی تحقیقات کے سلسلے میں وہ پہلے ہی ڈاکٹریٹ حاصل کر چکا تھا۔۱۹۷۰ء میں وہ کالج ڈی فرانس میں تاریخ نظام ہائے فکر کا چیئر مین بنا دیا گیا۔ یورپ کے جدید کلچر کے سلسلے میں جو بنیادی محرکات سہاروں کی حیثیت رکھتے ہیں فوکو کی توجہ کا مرکز یہی محرکات تھے۔ فوکوان محرکات کو تاریخ کے تناظر میں دیکھنا چاہتا تھا۔ اس کی تحقیقات اپنی سب سے مشہور کتاب پاگل پن اورتہذیب لکھنے کے بعد بھی جاری رہیں، اس کی ساری کتابوں میں دی آرڈر آف تھنگز The Order of Things کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہوئی اور اس کی تصنیف و تالیف کا یہ سلسلہ موت تک جاری رہا۔ اس کی کتاب’’ جنسیت کی تاریخ ‘‘ اس کی موت کے بعد شائع ہوئی۔
فوکو کے عہد میں نوم چومسکی Noam Chomsky ہیبر ماس Habermas اور ژاک دریدا بہت مشہور تھے، ان چاروں کی عمروں میں بس ایک آدھ سال ہی کا فرق تھا، ہیبر ماس۱۹۲۹ء میں پیدا ہوا تھا اور ژاک دریدا۱۹۳۰ء میں۔ فوکو ساختیات سے اپنے تعلق کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں تھا، وہ ہمیشہ اپنے آپ کو جدید عہد کا مورخ سمجھتا تھا۔
فوکو نے اپنے زمانے کے پاگل خانوں اور قید خانوں کے بارے میں اپنی کتابوں میں بہت اہم معلومات فراہم کی ہیں۔ قبل تاریخ کے سلسلے میں بھی اسے چند اہم ماہرین میں شمار کیا جاتا ہے اس نے جدید عہد کا تجزیہ اس قدر علمی انہماک اور خوبصورتی سے کیا ہے کہ اسے جدید تہذیب کا ایک حیرت ناک نقاد سمجھا جاتا ہے۔ جدید تہذیب کی خیرہ کر دینے والی تنقید اسی کی وجہ سے ظہور میں آئی۔
وہ دو اہم باتیں جاننا چاہتا تھا ایک یہ کہ یورپ کے معاشرے میں تاریخی طور پر عقل کا نشوو نما کس طرح ہوا جدید کلچر کی بنیاد تعقل Rationality پر کس طرح قائم ہوئی اور یہ کہ جدید کلچر میں Rationality کی تاریخی بنیاد کیا ہے۔ یورپ کے معاشرے میں بالغ اور آزاد عقل کا ظہور سائنس، ٹیکنالوجی اور سیاسی اداروں کی شکل میں کس طرح ہوا؟
ایمانول کانٹ کا یہ سوال اپنی جگہ بہت اہم ہے کہ روشن خیالی کا مطلب کیا ہے؟ اس سوال کا ذکر فوکو نے کئی جگہ کیا ہے کانٹ کے سوال کا مطلب یہ تھا کہ سائنس کی تاریخ کیا ہے؟
جرمنی میں یہی سوال میکس ویبر Weber Max اور ہیبر ماس Habermas نے اٹھایا تھا سوال یہ ہے کہ سماجی عقل یا Rationality سے کیا مراد ہے؟ سماجی عقل کا ظہور ایک تو سائنس کی تاریخ کی صورت میں ہوتا ہے دوسرے سماجی عقل کا ظہور معاشرتی اداروں کی صورت میں ہو سکتا ہے۔ مثل فوکو یہ سمجھتا تھا کہ عقل ہی علم کا ماخذ ہے۔
فوکو نے جس زمانے میں اپنی کتاب ’’پاگل پن اور تہذیب‘‘ لکھی تھی اس زمانے میں یورپ میں پرائیویٹ پاگل خانے اور پاگلوں کی سرکاری پناہ گاہیں Mental Asylums بہت خراب حالات میں تھیں لیکن Pinel اور Tuke کی کوششوں سے یہ پاگل خانے جدید ذہنی اسپتالوں کی صورت میں بدل گئے۔ فوکو کے کام کا آغاز پاگل پن اور تہذیب کے مسائل سے ہوا اور اس کا اختتام جنسیات کی تاریخ پر۔ فوکو کی تحقیقات کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ تجزیاتی تحلیل پر نئے سرے سے غور و فکر کے رجحان کو تقویت ملی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عمرانیات پر فوکو کا اتنا اثر آج نہیں ہے جتنا اثر مارکس، فرائڈ اور مارکیوز Marcuse کا ہے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ فوکو کے موضوعات اور اس کا طریقہ فکر عمرانیات کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔
فوکو کا انتقال۱۹۸۴ء میں۵۸ برس کی عمر میں ہوا۔ تاریخ اور فلسفے میں اس کی فکر بڑی Originality رکھتی ہے۔ اس کے کام کی نوعیت میکس ویبرکے کام سے ملتی جلتی ہے۔ میکس ویبر Max Weber کا کارنامہ ہی یہ ہے کہ اس کی تحقیقات مغربی تہذیب کی اس خصوصیت سے تعلق رکھتی ہے کہ یورپ میں سماجی ارتقاء کے سلسلے میں بنیادی دھارا اگر تعقل کے عمل کا ہے تو اس کی خاص نوعیت کیا ہے۔ میکس و یبر کا خیال تھا کہ سرمایہ داری کے زمانے میں قانون،آرٹ،مذہب اور موسیقی کے ارتقا میں اصل اہمیت ایک عام Rationalizing Process کی ہے جو سماج میں جاری رہتا ہے اور اسی تعقل کے عمل سے اس کے خیال میں یورپ میں مختلف سماجی ہیتوں اور کلچر میں اسٹرکچر پیدا ہوئے ہیں۔ میکس و یبر کی رائے میں مختلف قسم کی تعقل پسندی جدید سوسائٹی کے مرکزی حلقوں میں پیدا ہوئی اور اسی سے یورپ کا مخصوص کلچر پیدا ہوا ہے۔ فوکو میکس ویبر سے مختلف بنیادوں پر اپنی فکر کو استوار کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ فوکو میں Rationalizing کے عمل کی کوئی ایسی صورت ہے جو تہذیب کے تمام شعبوں پر محیط ہو، کچھ ایسے مقامات ضرور ہیں جہاں تعقل کا یہ عمل بہت نمایاں ہے۔ تو بات یہ ہے فوکو کے مقاصد کی نوعیت میکس و یبر سے مختلف تھی۔ ان معنوں میں کہ فوکو کے یہاں فکر کی تنظیم کا بڑاگہرا تعلق اقدار اور علم کے باہمی تعلق سے ہے۔
میکس ویبر کے یہاں معاشرے میں ایک مخصوص تقدیر کار فرما رہتی ہے یعنی تعقل ایک آہنی قید خانے کی صورت میں موجود رہتا ہے لیکن فوکو کا خیال ہے کہ عقلیت جو اقتدار کی ٹیکنالوجی سے پیدا ہوتی ہے اس سے مزاحمت کا امکان بھی رہتا ہے۔ چنانچہ فوکو کے خیال میں مختلف بیماریاں، جرائم اور ان کی سزائیں اور جنسیت کے مسائل اسی عقلیت کی عمرانی تاریخ کے ابواب ہیں۔ فوکو کی دلچسپی ہمیشہ اس مسئلے میں رہی ہے کہ معاشرے میں عقلیت کس طرح ظہور کرتی ہے اور کس طرح نشوونما پاتی ہے پھر کس طرح اسی عقلیت سے علم کے مختلف شعبے معاشرے میں ظہور کرتے ہیں۔ فوکو کی کتابیں اس لیے مشکل نہیں ہیں کہ ان کی زبان بَل کھائی ہوئی ہے اور اس کے تصورات عام تفہیم سے بھاگ نکلتے ہیں بلکہ یہ کتابیں اس لیے مشکل ہیں کہ ان کا اسٹرکچرAnti-Disciplinary ہے۔
فوکو کے یہاں عمرانی بصیرتوں کی کمی نہیں ہے، لیکن مشکل یہ آن پڑتی ہے کہ اس کے خیالات روایتی ڈسپلن کے مطابق نہیں ہوتے۔
فوکو کی دلچسپی اس بات میں زیادہ ہے کہ Relations Power کے یہ سسٹم کس طرح تشکیل پاتے ہیں۔ فوکو کے خیالات میں ماہرین عمرانیات کے لیے خاصی دلچسپ چیزیں ہیں لیکن ان خیالات سے کوئی مجموعی فلسفہ ترتیب دیناآسان کام نہیں ہے۔
مارکس، فرائڈ اور نطشے نے فوکو کی فکر پر اپنے اثرات مرتب کیے ہیں لیکن فوکو بہت زیادہ ان مفکروں کے حوالے دینا پسند نہیں کرتا۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان تینوں مفکروں کے یہاں علم اور اقتدار کا باہمی تعلق بہت نمایاں ہے، مارکس کے یہاں خیال کی قوت معاشی حوالوں کے ذریعے نظر آتی ہے۔ فرائڈ کے یہاں خواہش اور علم کے درمیان یہ تعلق نظر آتا ہے اور نطشے معاشرے کی مختلف ہئیتوں میں اقتدار کی خواہش کو جلوہ گر دیکھتا ہے۔ ان میں سے ہر تعلق دراصل زندگی کی ایک تعبیر ہے اور ہر تعبیر مظہر کی تہہ میں اقتدار اور مفادات کی جنگ کوچھپائے رکھتی ہے۔
یہ جنگ عام انسانوں کی نفسیات سے لے کر انفرادی نفسیات تک ہر جگہ کشمکش کی صورت میں جاری رہتی ہے۔ فوکو کے مطابق ان تینوں مفکروں کے یہاں زندگی کی یہ تعبیریں مختلف انداز میں ملتی ہیں مثلاً مارکس کے یہاں پیداوار کا بورژوا تصور ملتا ہے۔ فرائڈ کے یہاں مریض کے بیان کیے ہوئے خوابوں کی تعبیر ملتی ہے اور نطشے کے یہاں الفاظ کے معانی کی تعبیر۔
ہر چند کہ فوکو یہ کہتا ہے کہ آج کی تاریخ ان تصورات کے بغیر نہیں لکھی جا سکتی جن کا تعلق براہ راست یا بالواسطہ طور پر مارکس کے خیالات سے ہے اس کے باوجود فوکو کے خیالات کے ارتقاء میں نطشے کے بہت گہرے اثرات ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فوکو کے نظریات کو اس کے عہد کے تصورات کے پس منظر میں دیکھنا چاہیے یعنی فوکو سے واقف ہونے کے لیے جہاں اشتراکیت اور ساختیات سے واقف ہونا ضروری ہے وہیں مظہریات Phenomenology اور تشریحیات Hermeneutics سے واقف ہونابھی ضروری ہے۔
ساختیات کی آمد سے مظہریات رخصت ہو گئی اور فکر میں کچھ ایسی تبدیلی آئی کہ التھیو سے Althusser کی اہمیت بڑھ گئی اور مارکسزم کی دوبارہ تشکیل اس طرح کی جانے لگی کہ Stalinism اور دہشت گردی سے نجات مل جائے۔
فوکو کا کام مظہریات سے اس طرح مختلف ہے کہ مظہریات کے مطابق خود مختار داخلیت کو معانی کی تخلیق کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا یعنی فوکو معانی کی تخلیق کا ذمہ دار داخلیت کو نہیں سمجھتا (جیسا کہ مظہریات کے ماننے والوں کاخیال ہے)
فوکو کے کام کو ہائیڈ یگر کی فکر سے بھی الگ سمجھا جاتا ہے کیوں کہ فوکو کے یہاں کوئی آخری سچائی ایسی نہیں ہے جو دریافت کرنے والے کے انتظارمیں ہو۔
مظہریات کے مطابق معانی انسان کی داخلیت سے پیدا ہوتے ہیں چنانچہ مظہریاتی فکر انسانی داخلیت ہی کو معانی کا محور سمجھتی ہے۔ معانی کا آغاز داخلیت میں تو ہوتا ہے لیکن اس معانی کا تعلق سماجی، تاریخی اور کلچرل پس منظر سے ہوتا ہے۔ اس طرح پتہ چلتا ہے کہ فوکو کے کام کا تعلق مظہریات سے بھی نہیں ہے کیوں کہ فوکو کے خیال میں معانی خود مختار داخلیت سے پیدا نہیں ہوتے اور نہ ان کا تعلق تشریحیات Hermeneutics سے ہے کیوں کہ Hermeneutics میں کوئی گہری اور آخری سچائی دریافت کرنے والے کے انتظار میں ہوتی ہے۔ اسی طرح فوکو کا کام اشتراکیت سے بھی مختلف ہے کیوں کہ فوکو کے تجزیوں کا انحصار مقامی اور مخصوص واقعات پر ہوتا ہے۔ عالمی صورتِ حال اور عالمی Process پر نہیں ہوتا۔
فوکو کے یہاں حالات کو متعین کرنے والا صرف ایک (Factor) نہیں ہوتا یعنی صرف معاشیات ہی حالات کا فیصلہ نہیں کرتے بلکہ مختلف نوعیت کے کئی واقعات مل جل کر ایک بدلی ہوئی صورت حال پیدا کر دیتے ہیں۔ چنانچہ فوکو کا تصور تاریخ مارکس کے تصورِ تاریخ سے بالکل مختلف ہے۔ فوکو کے تصور تاریخ کا ماخذ نطشے کا تصور تاریخ ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.