فن برائے فن
بعض حضرات کو مجھ سے شکایت ہے کہ یہ اچھے خاصے علمی مضمون کو کرخنداروں کی زبان میں ادا کرکے مبتذل بنا دیتا ہے۔ خدا جانے ان بزرگوں کو میری ایک اس سے بھی زیادہ تشویش ناک اور بنیادی ابتذال پسندی کا احساس ابھی تک کیوں نہیں ہوا۔ بڑے بڑے نظریوں اور مذاہب فکر پر غور کرتے ہوئے عام طور سے میں نے ان کے صحیح ترین تصورکے بجائے مقبول ترین تصور کو پیش نظر رکھا ہے۔ جن دنوں مناظروں کا زور تھا، بعض مسلمان یہ خبر سن کے پھولے نہیں سماتے تھے کہ امریکہ میں ایک شخص نے تحقیق سے ثابت کر دیا ہے کہ حضرت عیسیٰ کا وجود ہی نہیں تھا۔ مگر انجیل میں مسیح کا جو تصور پیش کیا گیا ہے وہ اتنا اطمینان بخش ہے کہ اگر حضرت عیسیٰ ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہوتے تو اس کے علاوہ اور کیا ہوتے۔ اگر واقعی ان کا وجود فرضی ہے تو ہمیں انسانی تخیل پر ناز ہونا چاہئے کہ وہ ایسے افسانے تخلیق کر سکتا ہے جو حقیقت سے زیادہ جاندار ہوں اور عام انسانیت کی ذہنی گیرائی پر بھی فخر کرنا چاہئے کہ وہ آزاد خیال محققوں اورعالموں کی طرح گٹھل نہیں ہے بلکہ افسانوں کی حقیقت کو سمجھ سکتی ہے۔
مارکسی تنقید پر اظہار خیال کرتے ہوئے بھی میں نے مارکسی نقادوں کے عمل کو مارکس اور لینن کے وصیت ناموں سے زیادہ اہمیت دی ہے۔ اسی طرح معتدل مزاج اور متوازن دماغ روسو سے بھی میں نے واقفیت بڑھانے کی کوشش نہیں کی۔ بلکہ رومانی شاعروں کے شدت پسند محبوب اور امام ژاں ژاک کو بدنام کرنے میں لگا رہا ہوں۔ مجھے احساس ہے کہ یہ سب بڑی سخت تحقیقی غلطیاں ہیں۔ مگر میری بھی یہ مجبوری ہے کہ مجھے صرف ایسے خیالات سے دلچسپی ہے جنہوں نے زندہ انسانوں کے دل و دماغ میں اچھی یا بری کسی نہ کسی طرح کی حرکت پیدا کی جو ممکن ہے مسخ شدہ صورت میں رائج ہوئے ہوں مگرجن سے نسلوں کی نسلیں متاثر ہوئیں۔
مجھے حقیقت کی نسبت افسانوں سے زیادہ شغف ہے۔ کیونکہ جب تک حقیقت پر انسانوں کے تخیل کا عمل نہیں ہوتا وہ مردہ رہتی ہے۔ حقیقت میں معنی اسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب وہ افسانہ بن جائے۔ عجائب خانہ کی الماریوں کے شیشے بھی ضرور صاف رہنے چاہئیں لیکن میرا دل انسانی دماغوں کے عمل اور رد عمل کے مطالعے میں ہی لگتا ہے۔
چنانچہ فن برائے فن کا ذکر کرتے ہوئے میں نہ تو یہ معلوم کرنے کی کوشش کروں گا کہ یہ فقرہ ایجاد کس نے کیا، نہ یہ دریافت کروں گا کہ وہ سال کون سا تھا اور اس دن موسم کیسا تھا، نہ یہ غور کروں گا کہ اس نظریے کے موجد کا مطلب کیا تھا، اس نے کہاں تک اس کی پابندی کی، اس کے مقتدی کون کون تھے، انہوں نے اصل نظریے میں کیا کیا ترمیمیں اور اضافے کئے اور کیوں کئے۔ یہ مسائل مشکل ہوں یا آسان، میں انہیں حل کرنے کا خیال ہی اپنے دل میں نہ آنے دوں گا۔ فن برائے فن والے نظریے کے متعلق جو خوش فہمیاں یا غلط فہمیاں رائج ہو چکی ہیں، صرف انہیں کو بحث کا موضوع بناؤں گا۔ کیونکہ عام انسانوں کی ذہنی زندگی پر صرف انہیں کا اثر پڑا ہے۔
آج کل ہر ملک میں تنقید کا ایک ایسا مدرسہ فکر قائم ہے جس کی رائیں ادب کے براہ راست اور ذاتی تاثر پر نہیں بلکہ سیاسی مصلحت اندیشیوں پر مبنی ہوتی ہیں۔ اس مدرسے کے نزدیک آدمی آدمی کے ادبی مزاج کا فرق کوئی معنی نہیں رکھتا۔ جہاں کسی کا ادب اور فن سے غیر معمولی شغف دیکھا، فوراً جمال پرستوں اور فن برائے فن والوں کے ریوڑ میں ہانک دیا۔ ان لوگوں کے لئے بھیڑ، بکری، گدھے، گھوڑے سب ایک ہیں کیونکہ سب کی چار ٹانگیں ہیں۔ بہر حال مجھے کچھ ایسی شکایت بھی نہیں۔ میرا تو بلکہ تھوڑا سا فائدہ ہی ہے۔ اگر لومڑی بھی بچہ شتر ہونے کے شبہ میں پکڑی جانے لگے تو اونٹ رے اونٹ تیری کون سے کل سیدھی کا طعنہ بے اثر ہو کے رہ جاتا ہے۔ پھر تو اونٹ میں لومڑی کی سی لچکدار کمر، چکنے چکنے سفید بال، سمجھ بوجھ، پھرتی ہر چیز ثابت کی جا سکتی ہے۔ اس لئے فن برائے فن کی جو تعریف بھی کی جائے، اس کے پرستاروں میں جن لوگوں کو چاہے شمار کیا جائے مجھے سب قبول ہے۔
ویسے فن برائے فن کا فقرہ سن کر میرے ذہن میں تین متفرق تصورات پیدا ہوتے ہیں۔
(1) کمہار کو معلوم ہے کہ میں جو گھڑا بنا رہا ہوں اس میں پانی رکھا جائے گا۔ یہ حقیقت اس کے شعور میں اس طرح جذب ہو چکی ہے کہ اب اسے اس کا خیال بھی نہیں آتا اور نہ کبھی اس کے دل میں ایسا گھڑا بنانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے جس میں پانی رکھا ہی نہ جا سکے۔ جس طرح مٹی کا استعمال اس کے کام کی ایک پہلے سے مقرر کی ہوئی شرط ہے، اس طرح گھڑے کی افادیت بھی۔ وہ ان شرائط کو تقریبا جبلی طور پر تسلیم کرتا ہے۔ اب اس کی پوری توجہ اس بات پر صرف ہوتی ہے کہ میں گھڑے کو اپنی بساط بھر خوبصورت بناؤں۔ اسے فن کی افادیت سے انکار نہیں ہے۔ کیونکہ گھڑا بنانے کا خیال ہی اسے ایک مادی ضرورت کے ماتحت آیا ہے۔ مگر اس کی توجہ کا مرکز جمالیاتی عنصر ہے۔ یہی رویہ ایک ادیب اور شاعر کابھی ہوسکتا ہے بلکہ کسی نہ کسی حد تک ہر کامیاب فنکار کا ہونا چاہئے۔ ورنہ فن کا احترام کئے بغیر فن پیدا نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ اس حد تک تو ہر فنکار فن برائے فن کا قائل ہوتا ہے۔
اگر سماج میں ہم آہنگی، یک سوئی اور مرکزیت ہو تو چاہے نظریاتی طور پر فن کا ایک خاص افادی مقصد ہی کیوں نہ سمجھا جاتا ہو مگر متذکرہ بالا قسم کی فن پرستی کا وجود ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اگر روس میں خالص اور ہم آہنگ اشتراکی تہذیب کبھی مکمل ہوئی تو اس دور کے روسی بھی فن پرستی سے نہیں بچ سکیں گے۔
(2) اندرونی طور پر ہم آہنگ سماج میں ہر جسمانی اور ذہنی عمل کا مقصد و منہاج، فریضہ، طریقہ کار اور نظام زندگی میں اس کی جگہ مقرر ہوتی ہے۔ ایک عمل نہ تو دوسرے عمل کے لوازمات و مناسبات غصب کر سکتا ہے، نہ اس کے حق میں اپنے لوازمات سے دستبردار ہو سکتا ہے۔ چنانچہ فن کی جگہ بھی اس طرح معین ہوتی ہے کہ لوگ اسے فن ہی سمجھ کے اختیار کرتے ہیں۔ کسی اورعمل کا نعم البدل سمجھ کے نہیں۔ ٹی، ایس ایلیٹ نے کہا ہے کہ فن برائے فن کے اصلی معنی تو بس سترہویں اور اٹھارہویں صدی کے لوگ سمجھتے تھے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ اس زمانے میں لوگ فن کو نہ تو آرنلڈ کی طرح مذہب کا قائم مقام بنانا چاہتے تھے، نہ آسکر وائلڈ کی طرح پوری زندگی کا، نہ کمیونسٹوں کی طرح سیاست کا۔ یہ نقطہ نظر افادیت کو فن کی حدود سے خارج نہیں کرتا۔ یہ بیان تو انفرادی طور سے ہر تہذیب پر منحصر ہے کہ وہ فن میں افادیت چاہتی ہے یا نہیں اور چاہتی ہے تو کس قسم کی افادیت۔
یہ ذہنیت کس قسم کی ہوتی ہے اوراس سے جو فن کا تصور پیدا ہوتا ہے اس کی کیفیت کیا ہوتی ہے۔ ان سب باتوں کو غیر متوازن معاشرے میں رہنے والے پوری طرح نہیں سمجھ سکتے۔ایک انتباہ یہ بھی ضروری ہے کہ مختلف ذہنی عوام کی الگ الگ جگہ مقرر کرنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ان امتیازات کی تدوین سیاسی دستور یا قانون تعزیرات کی شکل میں ہو گئی ہو۔ان میں سے بعض حدبندیاں ایسی ہوتی ہیں جنہیں متوازن معاشرے کے لوگ ملحوظ تو رکھتے ہیں مگر ان کی نوعیت بیان نہیں کر سکتے۔ ان کو الفاظ کی شکل میں تجسیم دینے کی ضرورت توازن بگڑنے کے بعد ہوتی ہے تاکہ ان کی مخالفت یا حمایت کی جا سکے۔ بہر صورت فن اور زندگی میں فرق کرنے کی صلاحیت متوازن معاشرے کے توازن کا ایک لازمی اظہار ہے۔
(3) فن برائے فن کا مقبول ترین تصور یہ ہے کہ فنکار زندگی کی تمام دلچسپیوں سے بے نیاز ہو کے بس جمالیاتی تسکین کے پیچھے پڑا رہے۔ یہ تصور اس لحاظ سے تو مہمل ہے کہ خالص فن کا مکمل نمونہ کم سے کم ادب میں تو دستیاب ہو نہیں سکتا۔ البتہ یہ ضرور ممکن ہے کہ کوئی فنکار جمال پرستی کی دھن میں اپنے تجربات کو محدود کر لے اور اس طرح اپنی تخلیقات کو نقصان پہنچائے۔ جس طرح آج کل بہت سے لوگ اس کوشش میں مصروف ہیں کہ فن کو زندگی بنا دیں، اسی طرح ساٹھ سترسال پہلے مغرب میں دوچار افراد نے چاہا تھا کہ ساری زندگی کو فن بنا دیں یا زندگی کو ایسا بھینچیں کہ اس میں فن کے سوائے کچھ رہ ہی نہ جائے۔۔۔ اور فن بھی اپنے ہلکے سے ہلکے معنوں میں۔ ان لوگوں کی یہ کوشش بیکار گئی اور بے کار جانی چاہئے تھی۔ اس بھدی شکل میں یہ نظریہ شاید ہی کسی قدآور فنکار نے قبول کیا ہو۔
البتہ اتنا ضرور ہوا کہ جب لوگوں کو فن اوردوسرے ذہنی عوامل کا فرق جاننے کی فکرہوئی تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ فن کی روح جمالیاتی تسکین ہے۔ اب فنکار یہ کوشش کرنے لگے کہ اپنی تخلیقات میں زیادہ سے زیادہ جمالیاتی تسکین فراہم کریں۔ مگرعملی طور پر مجھے کوئی ایسا معقول فنکار نظر نہیں آتا جس نے اس نظریے پر ایمان لانے کے بعد زندگی کے اہم ترین پہلوؤں کو نظرانداز کر دیا ہو یا ان سے دلچسپی ختم کردی ہو، یا محض جمالیاتی تسکین کا رسیا بن کے رہ گیا ہو۔ زیادہ سے زیادہ یہ گمان مجھے گویتے کے بارے میں ہو سکتا ہے۔ مگرخدا جانے کیوں، مجھے گویتے سے وابستگی ہی نہیں ہوتی۔ اس لئے میں نے اس کی تحریریں بہت کم پڑھی ہیں۔ بے جانے بوجھے اسے گردن زدنی کیسے قرار دے دوں۔
اس کے علاوہ ایزرا پاؤنڈ نے دنیا کے بہترین ادب کا نصاب ترتیب دیتے ہوئے بودلیر کو نظرانداز کردیا ہے اور گویتے کو رکھا ہے، آخر کوئی تو بات ہوگی ہی۔ حالانکہ فن برائے فن کی جو شکل اصل میں نقصان رساں تھی، اس پر تقریبا عمل ہوا ہی نہیں، چھٹ بھیوں کی تو میں بات ہی نہیں کر رہا، مگرعام طور سے لوگ فن برائے فن کا مطلب وہی سمجھتے ہیں اور اسی حیثیت سے اس نظریے کی مخالفت ہوتی ہے۔ پچھلے سوسال کے دوران میں فنکاروں نے راہبوں کی طرح فن کی پرستش کی ہے اور اس کی خاطر ہر قسم کی قربانیاں دی ہیں۔ اس لئے شاید اس غلط فہمی کے لئے بھی گنجائش نکل آتی ہے۔ مگرایک خاص سیاسی جماعت کا یہ وطیرہ بھی رہا ہے کہ جس فنکار میں اپنے طرز کی سیاست نظر نہ آئی اسے جمال پرست کی گالی ٹکا دی۔
خیر یوں ہے تو یوں سہی۔ میں فن برائے فن کا یہ مفہوم بھی قبول کرتا ہوں اور جمال پرستوں کی پوری فہرست بھی جس میں بودلیر، ورلین، راں بو، مالارمے، والیری، ژید سب شامل ہیں بلکہ میں تو سر ریلسٹوں کو بھی انہیں میں ملائے دیتا ہوں۔ حالانکہ وہ فن برائے فن تو دور کی بات ہے، فن کے بھی پرستار نہیں تھے، بلکہ فن کو بالکل ہی ختم کرنا چاہتے تھے۔ اس کا ایک جواز تو یہ ہے کہ مقہور و مردود تو یہ لوگ بھی ہیں۔ دوسرے اس گروہ کے امام آندرے برتوں نے ابھی 49ء میں کہا ہے کہ ہم لوگ اب بھی جدید دور کی اس عظیم روایت کے قائل ہیں جو بودلیر سے شروع ہوتی ہے۔ اس روایت کے زمرے میں جن لوگوں کا شمار ہوتا ہے ان کے آپس کے نظریاتی اختلافات چاہے جو بھی ہوں مگر بادی النظر میں یہی خیال ہوتا ہے کہ یہ لوگ فن کو مقصود بالذات سمجھتے ہیں اور فن سے صرف جمالیاتی لطف حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
چلئے اس گمان ہی کو حقیقت سمجھئے۔ اب ہم نظریات سے بحث نہیں کریں گے، یہ بھی یاد نہیں رکھیں گے کہ راں بو کو فن برائے فن کا نظریہ قبول نہیں ہوسکتا تھا اور والیری نے خالص شاعری کے تصور کو مہمل بتایا تھا۔ ہم سب کو ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے سمجھے لیتے ہیں۔ اب ہم نظریات کو چھوڑ کر ان لوگوں کاعمل دیکھیں گے۔ ہم غور کریں گے کہ جب یہ لوگ تخلیق کی طرف آئے تو انہوں نے کیا کیا؟ محض حسن کے پیچھے سرگرداں پھرا کئے یا ان کا تجسس انہیں اور میدانوں میں بھی لے گیا؟ جمالیات کا پرستار بننے کے بعد ان کی زندگی جوئے کم آب بن کے رہ گئی یا اس میں سمندر کا سا بپھراؤ آ گیا؟ کیا یہ لوگ خیر اور صداقت کے تصورات سے بالکل ہی کنارہ کش ہو گئے؟ کیا ان لوگوں میں کسی اخلاقی کشمکش کے آثار نہیں ملتے؟ کیا یہ حقیقت ہے کہ یہ لوگ جمالیاتی تسکین کے علاوہ اگر کسی چیز کی طرف مائل ہوتے ہیں تو فاسد جذبات اور اخلاقی تخریب کی طرف؟ کیا یہ لوگ زندگی سے منہ موڑ کے موت کی طرف جا رہے ہیں؟ اب ہم ان سب سوالوں کے جواب ڈھونڈیں گے۔ نظریات میں نہیں بلکہ تخلیقات میں۔
انیسویں صدی کے پہلے پچاس سال تک تنقید کاعام اورغالب رجحان یہی تھا کہ ادب کے مقاصد میں نفع اور لطف دونوں چیزیں شامل ہیں۔ اس کے بعد یا تونفع کی شرط بالکل ہی اڑادی جاتی ہے یا اس کا ذکر دبی زبان سے ہوتا ہے۔ نظریہ سازوں کے ذہن میں لطف کا تصور جتنا ارفع و اعلیٰ ہو وہ الگ چیز ہے۔ مگرعام آدمی اس لفظ کا مطلب بہت ہی معمولی قسم کی لذت اندوزی یا سرور سمجھتا ہے۔ ایک خاص سیاسی میلان رکھنے والی تنقید اسی مفہوم پر زور دیتی ہے تاکہ چند ادیبوں کے متعلق عام لوگوں کایہ عقیدہ اور مضبوط ہو جائے کہ یہ تو دن رات پینک میں پڑے ’’جمالیاتی تسکین‘‘ کی چسکیاں لیتے رہتے تھے۔ یہ بات برحق ہے کہ اس گروہ کے شاعر جمالیاتی ہیئت کی تکمیل پر اپنا پورا زور صرف کرتے ہیں۔ مگر انہیں اپنی تخلیقات یا تخلیقی جد و جہد میں مجموعی طور پر جو ’’مزا‘‘ ملتا تھا اس کے چند نمونے دیکھ لیجئے۔
بودلیر سے یہ عظیم روایت شروع ہوتی ہے۔ راں بونے اسے شاعروں کا بادشاہ بلکہ خدا کہا ہے۔ اس خدا نے اپنی جمالیاتی تسکین کے لئے ایک ذہنی جنت تیار کی ہے۔ جب وہ اس جنت کا لطف لینے کے لئے وہاں پہنچتا ہے تو اسے جو کچھ نظر آتا ہے اس کا خلاصہ آپ بھی ملاحظہ فرمائیے۔
’’اے وینس! تیرے جزیرے میں مجھے بس ایک علامتی صلیب کھڑی ملی جس پر میری شبیہ لٹکی ہوئی تھی۔۔۔اے میرے آقا، مجھے اتنی قوت اور ہمت عطا فرما کہ میں اپنے دل اور اپنے جسم کا بہ غور مشاہدہ کر سکوں اور مجھے گھن نہ آئے!‘‘
پھرجب بودلیر خدا کی بنائی ہوئی دنیا کی طرف راغب ہوتا ہے تو اسے مندرجہ ذیل لطف حاصل ہوتا ہے،
’’عظیم جنگلو! تم سے مجھے اتنا ہی ڈر لگتا ہے جتنا پرانے گرجاؤں سے۔ تم طوفانوں کی طرح چنگھاڑتے ہو اور ہمارے ملعون و مقہور دل بھی، جو ابدی ماتم اور موت کی ازلی کراہوں کا گہوارہ ہیں، تمہارے نوحوں کے جواب میں گونج اٹھتے ہیں۔۔۔
سمندر کے ہولناک قہقہے میں مجھے کسی مفتوح و مغلوب انسان کی تلخ ہنسی سنائی دیتی ہے جس میں آہیں اور گالیاں بھری ہوں!‘‘
محبوب سے محبت جتانے بیٹھتا ہے تو اسے ہدایت کرتا ہے کہ،
’’تو اس وقت تک میری ہمسر نہیں ہوسکتی جب تک کہ تو کسی کے لئے دروازہ کھولتے ہوئے خوف زدہ نہ ہو، تجھے ہر طرف مصیبت ہی مصیبت نظر نہ آئے، گھنٹہ بجے تو تو کانپ نہ اٹھے۔‘‘
اب دور جدید کے امام اعظم راں بو کو دیکھئے کہ ان کی پینک کا کیا رنگ ہے،
’’میں زہر کا پورا قدح چڑھا گیا ہوں۔۔۔ میری انتڑیاں پھنک رہی ہیں۔ زہر کے زور سے میرے اعضا میں تشنج ہے، میری شکل بگڑی جا رہی ہے۔ میں بالکل ڈھے گیا ہوں، میں پیاس کے مارے مر رہا ہوں، میرا دم گھٹ رہا ہے۔ میں چیخ تک نہیں سکتا، یہ جہنم ہے، ابدی اذیت! ذرا دیکھو آگ کیسے بھڑک اٹھی ہے! میں بھنا جا رہا ہوں۔‘‘
انہیں شعلوں کے آشیاں میں سوتا چھوڑ کے آگے بڑھئے اور دیکھئے کہ امام ثانی لوتریاموں کس قسم کی عشرت اندوزی میں غین ہیں،
لوتریاموں کا افسانوی نمائندہ مال دور دور سمندر میں اتر گیا ہے۔ وہاں اسے ایک شارک مچھلی ملتی ہے۔ دونوں کی آنکھیں یہ کہتی معلوم ہوتی ہیں کہ یہ مجھ سے بھی زیادہ بد ہے، آخر وہ مچھلی کا بوسہ لیتا ہے اور اس سے ہم آغوش ہو جاتا ہے۔ دو مضبوط رانیں جونکوں کی طرح اس خوفناک مچھلی کی چپچپاتی ہوئی کھال کے گرد لپٹ جاتی ہیں، بازو اور گل پھڑے محبوب کے جسم کو بڑے پیار سے آغوش میں لے لیتے ہیں،ان کے گلے اور سینے ایک دوسرے سے جڑ جاتے ہیں اور دونوں میں سے سمندری پودوں کی بو کے بھپکے اٹھنے لگتے ہیں۔۔۔ وہ دونوں ایک طویل، پاکیزہ اور ہولناک ہم آغوشی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
’’آخر میں مجھے ایک ایسی ہستی مل گئی تھی جو مجھ سے مشابہ تھی۔ آئندہ سے میں زندگی میں تنہائی محسوس نہیں کروں گا! اس کے خیالات بھی بالکل میرے ہی جیسے تھے! میری پہلی محبوبہ میرے سامنے تھی!‘‘
میں آپ کو مضمون کے شروع ہی میں ڈرانا تو نہیں چاہتا تھا مگر جمالیاتی تسکین کا تماشا دکھانے کے لئے یہ منظر بھی پیش کرنا پڑا۔ مگر ابھی آپ ناک بھوں نہ چڑھائیے۔ خفگی اور مذمت کے لئے بہت وقت ہے۔ پہلے یہ اور ملاحظہ فرما لیجئے کہ جدید دور کی عظیم روایت کے نئے اماموں یعنی آندرے برتوں اور فلپ سوپو کو کیسے سرور گٹھے ہیں،
’’ہمارا منہ گم شدہ ساحلوں سے بھی زیادہ خشک ہے۔ ہماری آنکھیں بغیر کسی توقع کے بغیر کسی مقصد و منتہا کے گھومتی رہتی ہیں۔۔۔ شاندار اسٹیشنوں پر بھی ہمیں پناہ نہیں ملتی۔۔۔ ہر چیز اپنی جگہ پر ہے اور اب کوئی آدمی بات نہیں کر سکتا۔ ہر حس مردہ ہو گئی ہے اور اندھے بھی ہم سے بہتر ہیں۔۔۔ ساری زمین کا عظیم تبسم ہمارے لئے کافی ثابت نہیں ہوا۔۔۔ یہ نعمت ہر دسترخوان پر مزا دے گی۔ مگر افسوس کہ ہمیں بھوک ہی نہیں رہی!‘‘
یہ تو دو تین مثالیں ہیں۔ اس دور میں ہر آدمی کے یہاں قدم قدم پر ایسے ہی شدید رومانی درد و کرب کا اظہار ملتا ہے۔ اس عنصر کی موجودگی میں ان لوگوں کی تخلیقی کاوشوں کو صرف اور محض لذت اندوزی یا جمالیاتی لطف تک محدود کر دینا جائز نہیں۔ اگر ذرا سے لطف کی خاطر ان لوگوں نے یہ روحانی اذیت قبول کی ہے تو ان کی ہمت واقعی داد کے قابل ہے۔ اس روحانی کرب کی ایک توجیہہ یہ ہو سکتی ہے کہ خود اذیتی ان کے خمیر میں پڑی تھی اور نظمیں لکھ لکھ کر وہ یہی طلب پوری کرتے تھے۔ اس سے تو انکارنہیں کیا جا سکتا مگر نفسیات سے اس بات کی توجیہہ نہیں ہو سکتی کہ ان کی خود اذیتی یہی شکل کیوں اختیار کرتی ہے۔ یہ لوگ بڑے بڑے ما بعد الطبیعیاتی سوالات پوچھتے ہیں۔ انسان کیا چیز ہے؟ کائنات میں انسان کی کیا جگہ ہے؟ کائنات میں شرکا وجود کیوں ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ جب ان سوالوں کا جواب نہیں ملتا، یا پھر سکون انگیز جواب نہیں ملتا تو ان کے اندر وہ غم و غصہ اور کرب پیدا ہوتا ہے جس کی میں نے مثالیں دیں۔
اگر یہ لوگ جنسی چیزوں کا ذکر کرتے ہوئے جھینپتے تو خیر ہم کہہ سکتے تھے کہ ان کی خود اذیتی نے نکاس کا یہ راستہ ڈھونڈا ہے اور اپنے آپ کو تکلیف پہنچانے کے لئے ناقابل حل ما بعدالطبیعیاتی مسائل کا جھگڑا نکالا ہے۔ مگر جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا، ان لوگوں نے منہ سے لوئی بالکل اتار کر رکھ دی ہے، جنسی بے راہ روی کے اظہار میں انہیں ہمارا آپ کا تو کیا بہو بیٹیوں کا بھی لحاظ نہیں ہوتا۔ اس لئے نفسیاتی حیلوں سے بھی کام نہیں چلے گا۔ اگر یہ لوگ اتنا درد اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں جمالیاتی تسکین یا لذت اندوزی، یا خود اذیتی سے کسی بڑی چیز کی فکر ہے جو اتنی گراں معلوم ہوتی ہے کہ اتنے کرب سے دوچار ہونے کے بعد بھی ان کی روحانی کاوش میں فرق نہیں آتا اور ان کی جد و جہد برابر جاری رہتی ہے۔
اب ایک نیا سوال پیدا ہوتا ہے۔ اگر ان لوگوں کی تخلیقی کاوشوں کا مقصد جمالیاتی تسکین سے کچھ زیادہ تھا تو فن برائے فن کا دم بھرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر ان کی تخلیقات میں اخلاقی مسائل، کائنات گیر سوالات اور ایک جاں گداز ابدی لگن ملتی ہے تو اپنے نظریات میں فن کا محض جمالیاتی حس کے مظاہر تک محدود کر دینے میں کیا مصلحت تھی؟ ان لوگوں کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کے لئے زندگی میں سب سے بڑی چیز فن ہے۔ انہیں یہ گوارا نہیں کہ ہمارے فن پر مذہبی، اخلاقی، سیاسی معیار عائد کئے جائیں۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کسی نہ کسی قسم کی تھوڑی بہت اخلاقی ترجیحات کے بغیر کوئی ادب پارہ تخلیق نہیں کیا جا سکتا۔ تمام مروجہ معیاروں کو ترک کرنے کے بعد ان کے لئے لازم ہو گیا کہ ادب پارے کے ساتھ اقدار بھی تخلیق کریں۔ اگر انہیں صرف و محض تسکین کی تلاش تھی تو انہوں نے مروجہ معیاروں کو چھوڑ کے انتہائی حماقت کی اور اپنے سر دوہری محنت لی۔ ان کے لئے آسان ترین راستہ تو یہ تھا کہ جس قسم کی اقدار بھی میسر آتیں، قبول کرتے اور ان کی بنیاد پر اپنا جمالیاتی نقش بناتے۔ مگر ان جمال پرستوں کو غیر جمالیاتی چیزوں کے خلاف اتنی گرمی دکھانے اور اپنے فن کو تمام مروجہ تصورات سے آزاد کرانے کی پریشانی کیوں ہوئی؟
انیسویں صدی کے درمیان میں بہت سے پڑھے لکھے لوگوں کا اعتقاد مذہب پر سے اٹھ گیا تھا۔ جو زیادہ حساس تھے وہ اور چیزوں کو بھی شہے کی نظر سے دیکھنے لگے تھے۔ یہ عمل اور اس کے اسباب و نتائج کوئی ایسی ڈھکی چھپی باتیں نہیں ہیں۔ اس لئے میں اختصار سے کام لوں گا۔ ایک خاص حلقے کے خیال میں یہ سب متوسط طبقے کے انحطاط کی نشانیاں ہیں۔ یہ رائے بھی اپنی جگہ درست مگر ادب کے طالب علم کی تسلی کے لئے اتنی بات کافی نہیں۔ مارلو کے زمانے میں اور اس سے بھی سو سال پہلے ویوں کے زمانے میں تو متوسط طبقے کا انحطاط تو الگ رہا، ترقی بھی پوری طرح شروع نہیں ہوئی تھی۔ البتہ کچھ کچھ آثار ضرور نظر آنے لگے تھے۔ مگر ان دونوں شاعروں کی ذاتی زندگی اور تخلیقات کئی اہم باتوں میں ہمارے زیر نظر شاعروں کی زندگی اور تخلیقات سے مشابہ ہیں۔ خصوصا ویوں میں تو ٹھیٹ اسی قسم کا درد و کرب ملتا ہے جو ورلین اور راں بو میں ہے۔ چنانچہ ادب میں عالمگیر تشکک کے عمل کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں اپنی تفتیش کا آغاز نشاۃ ثانیہ کے دور سے کرنا پڑے گا جب مختلف اثرات کے ماتحت کلیسا، بلکہ مذہب سے بے اطمینانی کا سلسلہ شروع ہوا۔
مذہب کی حقانیت یا ضرورت آپ کے نزدیک مسلم ہو یا نہ ہو، ایک بات ماننی پڑتی ہے کہ عام آدمی کو مذہب دوچار بڑے اذیت ناک مسائل سے محفوظ رکھتا ہے۔ مثلا ایک تو سوال ہے کائنات میں شر کے وجود کا، دوسرا سوال ہے انفرادی بقا کا۔ تیسرا معاملہ ہے عالم موجودات میں انسان کی حیثیت کا۔ میں یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ مذہب ان مسئلوں کو دو اور دو چار کی طرح حل کر دیتا ہے یا مذہب پر ایمان لانے کے بعد آدمی کو اس قسم کی کوئی تشویش ہوتی ہی نہیں۔ لیکن اتنی بات ہے کہ مذہب میں آپ کو لازمی طور سے دوچار باتوں پر اگر مگر کیے بغیر ہی ایمان لانا پڑتا ہے، اور ان بنیادی مفرضات کو مان لینے کے بعد ایک ایسا منطقی نظام مرتب ہو جاتا ہے جو ایک عام آدمی کے روحانی مسائل کو تشفی بخش طریقے سے حل کر دیتا ہے۔ لیکن ان بنیادی مفروضات کو ترک کر دیا جائے تو یہ مسائل ایسی خوفناک شکل اختیار کر لیتے ہیں کہ ابھی تک انسانی دماغ انہیں حل نہیں کر سکا اور حل سوچا ہے تو یہ کہ ایسی باتوں سے کنی کاٹ کے نکل جاؤ۔
مگر فنکار کے لئے مصیبت یہ ہے کہ وہ تجربات سے آنکھیں نہیں چرا سکتا۔ نتیجہ یہ ہے کہ اسے مستقل درد و کرب کی شدت برداشت کرنا پڑتی ہے۔ ویوں اور مارلو نے شروع ہی میں محسوس کر لیا تھا کہ یہ بے دینی ہمیں کیسے کیسے کنویں جھنکوائے گی۔ مارلو کا شیطان تک اعتراف کرتا ہے کہ خدا سے چھٹ جانا دوزخ کے عذابوں سے بھی شدید ترعذاب ہے۔ ویوں ایک اور بات بھی محسوس کرتا ہے، وہ یہ کہ سرمایہ دارانہ نظام میں انسان کی کیا گت بننے والی ہے۔ چنانچہ معاشرے کی طرف سے بھی بے یقینی کی داغ بیل پڑ چکی ہے۔ تشکک کی مختلف قسمیں اپنی انتہائی ہولناک شکل میں جدیدیت کے شاعروں کے یہاں ظاہر ہوتی ہیں۔ اب معاشرہ سماجی، معاشی اور سیاسی اعتبار سے بھی غیر متوازن ہو چکا ہے اور اس کے نظام میں اتنی جان نہیں رہی کہ سب افراد کو ایک شیرازے میں جوڑے رکھے، یا ان سے وفاداری کا مطالبہ منوا سکے۔
سائنس نے خدا کو کائنات سے بے دخل کر دیا تھا، مگر سائنس ان سوالوں کا کوئی جواب نہ دے سکا، جنہیں خدا کا تصور کسی نہ کسی طرح حل کر دیتا تھا۔ اس لئے فنکاروں کو سائنس پر بھی اعتماد نہ رہا۔ انیسویں صدی کا ایک نیا دیوتا تھا ترقی، لیکن ترقی کے معنی اگر صرف کہیں نہ کہیں چلتے رہنے کے ہیں تو جیسا راں بو نے کہا تھا، یہ بھی ممکن ہے کہ دنیا گھوم پھر کے وہیں آجائے جہاں سے چلی تھی۔ مختصر یہ کہ فنکار، مذہب، سائنس، ملک وقوم، خاندان، اخلاقی تصورات سب سے بیزار ہوتا چلا گیا کیونکہ اس کی دنیا میں کوئی مرکزی تصور نہیں رہا تھا جس سے یہ سب چیزیں بندھی رہ سکیں۔
لیکن چونکہ ان تصورات کی گرفت عام لوگوں پر باقی تھی اور مختلف لوگ مختلف طریقوں سے اس عقیدت کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کر رہے تھے، اس لئے فنکار اور بھی چوکنا ہوگیا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جمالیاتی تسکین حاصل اور فراہم کرنے کے علاوہ وہ ایک اور کام ضرور کر رہا ہے یعنی ہر مروجہ تصور سے انکار۔ کم سے کم اس میں یہ خواہش ضرور نظر آتی ہے کہ دھوکا نہیں کھاؤں گا اوراپنے فن میں کھوٹ کی آمیزش نہیں ہونے دوں گا۔ اگر کسی غیر جمالیاتی تصور کی ضرور ت پڑی تو خود ڈھونڈ لوں گا۔ دوسروں کی بات کا یقین نہیں کروں گا۔
فنکار کی دنیا میں اس کی جمالیاتی حس یا اعصابی تجربہ وہ آخری چیز رہ گئی تھی جس پر اسے یقین کرا سکے۔ گو تھوڑے ہی دن بعد اسے اس چیز پر بھی شک ہونے لگا۔ اپنے آپ سے خلوص برتنے اور آلائشوں سے پاک رہنے کی لگن تھی جس نے فن برائے فن کے عقیدے کو جنم دیا۔ فنکار زندگی سے یا اخلاقی مسائل سے بھاگ نہیں رہا تھا۔ البتہ اسے دوسروں کے پیش کردہ حل قبول نہیں تھے۔ فن برائے فن کا نظریہ پناہ گاہ نہیں تھا، بلکہ میدان کارزار۔ فنی حس کے علاوہ تمام اقدار کو رد کر کے فنکار زبردستی اوکھلی میں اپنا سر دے رہا تھا۔ دور جدید سے پہلے فنکار آسانی سے کہہ سکتے تھے کہ ہمارے فن کا مقصد منفعت بھی ہے اور لطف بھی۔ کیونکہ ان کے ذہن میں منفعت کا واضح تصور موجود تھا۔ مگر نئے فنکار کے پاس نفع نقصان کا کوئی بنا بنایا معیار نہیں تھا۔ اسے تو خود تجربے کر کے پتہ چلانا تھا کہ نفع کیا ہوتا ہے اورنقصان کیا۔ اگراس نے منفعت کا خیال ترک کر دیا تو وہ مجبور تھا۔
فن پر کسی اور قسم کے معیارعائد نہ کرنے کے معنی عملا یہ ہوتے ہیں کہ فنکار کسی ادارے یا مروجہ تصور کی امداد قبول کرنے کو تیار نہیں، بلکہ محض اپنے بل بوتے پر حقیقت کی تلاش کرنا چاہتا ہے۔ خواہ آخر میں اسے حقیقت انہیں اداروں میں ملے۔ فن برائے فن ہر قسم کی آسانیوں، ترغیبوں اور مفادوں سے محفوظ رہ کر انسانی زندگی کی بنیادی حقیقتوں کو ڈھونڈنے کی خواہش کا نام ہے۔ بظاہر تو یہ بات ضرور قابل اعتراض معلوم ہوتی ہے کہ اس نظریے میں ایک آدمی کے ذاتی تاثرات کو سب سے بڑا معیار مانا گیا ہے۔ مگر اس اعتراض میں یہ حقیقت پیش نظر نہیں رکھی گئی کہ یہاں ایک آدمی کا سوال نہیں بلکہ فنکار کا سوال ہے۔ فنکار محض ایک آدمی نہیں ہوتا۔ فنکار تو براہ راست زندگی کا آلہ کار ہے۔ وہ ایک معمل ہے جہاں زندگی تجربے کرتی ہے۔
راں بو کے بقول ہمیں یہ نہیں کہنا چاہئے کہ میں سوچتا ہوں، بلکہ مجھے سوچا جاتا ہے۔ اس لئے فنکار کی تخلیقات کو ایک آدمی کی رائے سے نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہ اور بات ہے کہ جھوٹے فنکاروں سے بھی ہمیں وقتا فوقتا سابقہ پڑتا ہے۔ مگر اس طرح تو جھوٹے پیغمبروں کی بھی دنیا میں کمی نہیں۔ بہار کے قشق چیپل غژنغ صاحب بھی تو براہ راست اللہ میاں سے خطاب لے کر نازل ہوئے تھے۔ مگر انہیں کسی نے کلیم اللہ نہیں سمجھا۔
ان تصریحات کے بعد بہتر ہوگا کہ میں جدید شاعروں کے دوچار ایسے بیانات کا جائزہ لوں جو بظاہر بڑے خطرناک معلوم ہوتے ہیں۔ بودیلیر نے کہا ہے کہ کسی کو الزام دینا، کسی کی مخالفت کرنا، بلکہ انصاف کا مطالبہ کرنا بھی بدمذاقی ہے۔ ظاہر میں تو اس کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ فنکار کو انصاف اور آزادی کی لڑائی سے واسطہ نہیں رکھنا چاہئے۔ مگر یہ بیان آسکروائلڈ کا نہیں بودیلیر کا ہے۔ بودیلیر کے سامنے ایک نہایت ہی زبردست مسئلہ تھا۔ حقیقت کا جو تصور اب تک رائج تھا وہ کام نہیں دے رہا تھا۔ اب فنکار کے لئے لازمی تھا کہ حقیقت کو نئے سرے سے سمجھے۔ حقیقت کا تصور متعین نہ ہو سکا ہے تو انصاف کا مطلب بھی مبہم ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں کس قسم کے انصاف کا مطالبہ کیا جائے؟ در اصل اس قسم کے تشکک سے انصاف کی لڑائی میں کوئی کمی نہیں آتی۔ کیونکہ اس سے انصاف کا مسئلہ سلجھتا ہے۔ اگر اس قسم کے شک کو روس، امریکہ اور انگلستان کے ارباب اقتدار اپنے دل میں کبھی کبھی راہ دے دیا کرتے تو یو این او کفن دوزوں کی انجمن بن کے نہ رہ جاتی۔
اسی طرح جب راں بو اخلاقیات کو دماغ کی کمزوری بتاتا ہے تو اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ جو لوگ حالا ت کا لحاظ کئے بغیر مروجہ اخلاقی قانون کو بے چوں و چرا تسلیم کر لیتے ہیں وہ سوچنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ خود راں بو میں بھی نئی اخلاقی اقدار فراہم کرنے کی طاقت تھی یا نہیں، اس کا حال اس کا کلام پڑھ کر ہی معلوم ہو سکتا ہے۔ اب آندرے ژید کا ایک رسوائے زمانہ جملہ لیجئے۔۔۔ نیک جذبات سے صرف برا ادب پیدا ہو سکتا ہے۔ اس بیان سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہے کہ ژید کا فنکار کو نیکی سے بالکل بے نیاز ہو جانے کا مشورہ دینا ہے، بلکہ اسے کہنا یہ ہے کہ معاشرے کا اندرونی توازن بگڑ چکا ہو، مگر نیک و بد کا تصوروہی چلا آ رہا ہو جو مکمل ہم آہنگی اور توازن کے وقت تھا، تو ایسا تصور فنکارکو صحیح تخلیق میں مدد نہیں دے سکتا۔ کیونکہ اس کا کام نئی حقیقتوں کی دریافت بھی ہے۔ بالکل انہیں معنوں میں بودیلیر نے شیطان کو جلاوطنوں کا عصا اور موجدوں کا چراغ کہا ہے۔ اگر آپ کو نئے اخلاقی معیار ڈھونڈنے ہیں تو مروجہ معیاروں کو بجنسہ قبول نہیں کر سکتے۔ اس کے لئے تو بعض وقت نیک کو بد اور بد کو نیک سمجھ کر تجربہ کرنا پڑے گا کہ حقیقت کیا ہے۔
اس لئے یہ فنکار ہر قسم کے مروجہ تصورات سے اپنے فن کو آزاد رکھنے پر مصر رہے ہیں۔ بلکہ ژید نے تو اس معاملے میں بڑی سخت گیری سے کام لیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگر آپ کسی جماعت میں شامل ہوں گے تو جماعت آپ کو قید کر لے گی۔ اصل فرانسیسی جملے کا ترجمہ اردو میں نہیں ہو سکتا۔ ورنہ اس کا تو ایک مفہوم یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر آپ کوئی فیصلہ کریں گے تو اس فیصلے کے اسیر ہو کے رہ جائیں گے۔ یعنی ژید چاہتے ہیں کہ آپ اپنے تجربات سے کبھی مطمئن نہ ہوں، بلکہ جوبات طے کر لیں اسے پھر شک کی خوردبین سے دیکھیں۔ اسی طرح روحانی سفر میں وہ پہلے سے مقرر کی ہوئی منزل کے قائل نہیں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اکثر تخلیقی خیالات یوں ہی کھیل ہی کھیل میں پیدا ہوتے ہیں۔
آج کل فرانس میں ایک تحریک چلی ہے ذمہ دار ادب کی۔ اس کے متعلق ژید نے کہا تھا کہ آج تو آپ ادب کو ذمہ دار بنا رہے ہیں، کل کہیں گے کہ خیال کو بھی ذمہ دار ہونا چاہئے یعنی اگر مقررہ طریقوں کے علاوہ کسی اور طرح سوچنے کی پابندی ہو گئی تو تخلیقی خیالات کا بیج ہی مارا جائے گا۔ ژید کے نزدیک جن خیالات سے انسانیت کو فائدہ پہنچا ہے، وہ عموماً روحانی یا ذہنی کھیل سے پیدا ہوئے ہیں۔ فن برائے فن کے نظریے کو بھی آپ اسی قسم کا کھیل سمجھئے۔ جو لوگ کسی نہ کسی شکل میں فن کی برتری کے قائل تھے، ان کی بنیادی خواہش زندگی سے کنارہ کشی نہیں تھی۔ جس طرح دنیا کی ابتدا سے لے کر آج تک فنکار نئے خیالات، تصورات، احساسات تخلیق کرنے کا کھیل کھیلتے چلے آئے ہیں، وہی کھیل یہ لوگ بھی کھیل رہے تھے۔ فرق یہ ہے کہ ان کے کھیل کے قواعد ذرا مختلف تھے۔ یہ کھیل یوں کھیلا جاتا تھا کہ پہلے تو کائنات کو ریزہ ریزہ کر دو اور پھر ایک نئی کائنات بناؤ جو پہلے سے زیادہ حسین، ہم آہنگ، متوازن اور بامعنی ہو۔ اس کھیل میں یہ لوگ ہارے ہوں یا جیتے ہوں، بہرحال انہوں نے کھیلا ضرور۔۔۔
ممکن ہے فن برائے فن کا نظریہ بڑا مہلک ہو۔ مگرمیں نے تو اپنی سی لیپ پوت کر ہی دی۔ بہر حال آپ میری بات پر نہ جائیے۔ جن لوگوں کو اس نظریے سے متعلق سمجھا جاتا ہے، ان کی تخلیقات دیکھئے۔ جدید روایت نے جو کچھ سوچا، سمجھا اورمحسوس کیا ہے، اس پر جو کچھ بیتی ہے، اس کی محرومیاں اور کامرانیاں، غرض ہر چیز کا نچوڑ راں بو کی نظم دوزخ میں ایک موسم میں آگیا ہے جو ۱۸۷۳ء میں لکھی گئی تھی۔ یہ نظم آپ کو بتائے گی کہ اگر جمال پرستی کے بارے میں کسی کو خوش فہمیاں تھیں تو وہ کتنی جلدی رفع ہوگئیں اور ہر فنکار کو اپنی اپنی جگہ پر پتہ چل گیا کہ تصور جمال کی بنیاد چند غیر جمالیاتی اور ہمہ گیر اقدار اور اخلاقی اعتبارات پرنہ ہو تو احساس جمال بذات خود ایک مصیبت بن جاتا ہے۔ راں بو کی نظم یوں شروع ہوتی ہے،
’’اگر مجھے ٹھیک یاد ہے تو ایک زمانے میں میری زندگی ایک ضیافت تھی، جہاں ہر دل کا کنول کھل جاتا تھا، جہاں ہر طرح کی شراب کا دور چلتا تھا۔
ایک شام میں نے حسن کو اپنے گھٹنوں پر بٹھا لیا۔۔۔ اور مجھے اس کا مزا کڑوا لگا۔۔۔ اور میں نے اسے گالیاں دیں۔‘‘
در اصل ساری بات ان تین چھوٹے چھوٹے جملوں میں آگئی ہے۔ اخلاقیات اور مذہب یا ایک متوازن اور ہمہ گیر نظام حیات کی اجازت سے نکاح پڑھوائے بغیر حسن کو گھٹنوں پر بٹھانے کا یہی انجام ہوتا ہے۔ خیر، آپ راں بو کی زبانی ہی سنئے کہ آگے کیا گزری،
’’میں نے قانون کے خلاف ہتھیار اٹھا لئے۔
میں بھاگ کھڑا ہوا۔ اے جادوگرنیو، اے افلاس، اے نفرت، میں نے اپنا خزانہ تمہارے سپرد کر دیا!
آخر یہ حا ل ہوا کہ ہر طرح کی انسانی امید میری روح سے غائب ہو گئی۔ ہر مسرت کا گلہ گھونٹنے کے لئے میں بہرا بن کے وحشی درندے کی طرح اس پر جھپٹ پڑا۔
میں نے جلا دوں کو بلایا تاکہ دم توڑتے ہوئے ان کی بندوقوں کے کندے دانتوں سے چبا سکوں۔ میں نے وباؤں کو پکارا کہ ریت سے، خون سے میرا گلا گھونٹ دیں۔ میں نے مصیبت کو اپنا معبود بنا لیا۔ میں کیچڑ میں لوٹا۔ میں نے جرم کی ہوا سے اپنے آپ کو سکھایا اور میں نے دیوانگی سے دل لگی کی۔
اور موسم بہار میرے لئے از خود رفتہ مجذوبوں کا سا ہولناک قہقہہ لے کر آیا۔‘‘
یہ حالت صرف راں بو ہی کی نہیں ہوئی بلکہ اس روایت کے اور شاعروں کو بھی، دوسرے تصورات سے کنارہ کش ہو کے صرف حسن پرستی کرنے کی کوشش میں اسی قسم کے تجربات سے دوچار ہونا پڑا۔ اب ان کے سامنے دو راستے تھے۔ یا تو اپنا خزانہ جادوگرنیوں کو، افلاس کو، نفرت کو سپرد کر کے فراغت سے بیٹھ جائیں کہ جو گزرتی ہے گزرا کرے۔ یا پھر اپنی زندگی کونئی اخلاقی بنیادوں پرپھر سے تعمیر کریں۔ تاکہ جمال پرستی سے ایسے ہولناک نتائج پیدا نہ ہوں۔ان شاعروں نے دونوں باتیں کیں۔ کبھی تو ہمت ہار کے بیٹھ گئے، کبھی ہمت کر کے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان کی بے دلی کے نمونے تو میں پیش کر ہی چکا ہوں اورنہ بھی کرتا تو اوروں نے انہیں بدنام کرنے میں کیا کسر چھوڑی ہے۔ میں تو صرف یہ دکھاؤں گا کہ ان لوگوں میں حسرت تعمیر کتنی شدید تھی۔
راں بو نے مذکورہ بالا نظم میں ورلین سے اپنے بارے میں یہ الفاظ کہلوائے ہیں، ’’جب وہ مجھے بے دل سا معلوم ہوتا تو میں اس کے ہرعجیب وغریب اور پیچیدہ فعل کا بہ غور مشاہدہ کرتی۔ چاہے وہ فعل اچھا ہو یا برا۔ مجھے یقین تھا کہ میں اس کی دنیا میں کبھی ہار نہیں پا سکتی۔ راتوں کو میں اس کے سوتے ہوئے پیارے جسم کے برابر لیٹی گھنٹوں جاگتی رہی ہوں اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتی رہی ہوں کہ آخر وہ حقیقت سے اتنا کیوں بچنا چاہتا ہے۔ ایسی خواہش تو آج تک کسی آدمی کے دل میں بھی نہ پیدا ہوئی ہوگی۔ اس کی طرف سے تو مجھے کوئی اندیشہ نہیں تھا، مگر مجھے محسوس ہوتا تھا کہ وہ معاشرے کے لئے ایک زبردست خطرہ بن سکتا ہے۔۔۔ شاید وہ زندگی کو بدلنے کے سربستہ رموز سے واقف ہے؟ پھر میں خود ہی جواب دیتی کہ نہیں، وہ تو صرف ان رموز کی تلاش میں ہے۔‘‘
یہ فقرہ، زندگی کا بدلنا اس قابل ہے کہ اسے سارے جدید ادب کا عنوان سمجھا جائے۔ وہ حقیقت جس سے راں بو یا دوسرے شاعر بچنے کی کوشش کر رہے ہیں صرف حقیقت کا مروجہ تصور ہے، جس میں اخلاقیات سے لے کر سیاسی اور معاشی نظام تک سب چیزیں آجاتی ہیں۔ یہ لوگ موجودہ حقیقت سے بے نیاز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ ایک نئی حقیقت تخلیق کر سکیں۔ اور تو اور خود ژید کے یہاں جن کے خلاف آج کل یہ بات بہت زوروں سے کہی جا رہی ہے کہ انہیں ذاتی تسکین کے علاوہ کسی چیز سے علاقہ نہیں، یہ خیال بار بار ملتا ہے کہ انسان فطرت کے مقابلے پر ڈٹ جائے، اسے قابو میں لانے کی کوشش کرے اور اس طرح اپنی زندگی بدلے۔ انہیں پرومی تھی اَس کی داستان بہت عزیز ہے۔ کیونکہ اس نے انسان کے فائدے کے لئے آسمان سے آگ چرائی تھی، جس سے زندگی کا نقشہ بہت کچھ بدلا۔
راں بو کو تو تمام فطری اور ماورائے فطری اسرار و رموز معلوم کرنے کی ایسی لگن تھی کہ دل میں ہر وقت آگ بھڑکتی رہتی تھی۔ اس نے اپنے دو خطوں میں ایک باقاعدہ نظر یہ پیش کیا ہے کہ شاعر کو عارف بھی ہونا چاہئے۔ اس میں یہ اہلیت ہو کہ وہ ہر چیز کی تہہ تک دیکھ سکے اور مستقبل کا نظارہ بھی کر سکے۔ اس عارف کا ایک خاص فریضہ یہ ہے کہ اپنے اندر جو ماورائے عقل قوتیں موجود ہیں ان کی مدد سے خارجی حقیقت کا نقاب چاک کر دے اور اس پردے کے پیچھے جو ازلی نور ہے وہاں تک پہنچ جائے۔ اس کی رائے میں سب سے پہلا عارف بودیلیر تھا۔ راں بو کہتا ہے کہ آئندہ سے شاعری عمل کے ساتھ ساتھ نہیں چلے گی، بلکہ آگے رہے گی، آگے رہنے کا مطلب یہ نہیں کہ شاعر عمل سے بے نیاز ہو کر فکر مطلق میں ڈوب جائے گا۔ راں بو شاعر کو آسمان سے آگ چرانے والا بتاتا ہے۔ یعنی شاعر جن حقیقتوں کو بے نقاب کرے گا، وہ صرف جمالیاتی تسکین کے کام نہیں آئیں گی بلکہ ان سے انسان کی زندگی بدلے گی اور بہتر شکل اختیار کرے گی۔
زندگی کو از سر نو تخلیق کرنے کا خیال صرف خواہش تک محدود نہیں رہا۔ ان لوگوں نے اپنی سی کوشش کی ضرور، خواہ وہ کامیاب ہوئے ہیں یا ناکامیاب، یا یہ کوشش سرے سے مہمل ہو۔ اس وقت ذکرصرف کوشش کا ہے۔ کوشش کی نوعیت کا نہیں۔ راں بو کہتا ہے، ’’میں نے نئے پھول، نئے ستارے، نئے جسم، نئی زبانیں ایجاد کرنے کی کوشش کی ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوا ہے جیسے مجھ میں مافوق الفطری قوتیں آگئی ہوں۔ اپولی نیئر کی ایک نظم کا اقتباس دیکھئے، ’’ہم آپ کو نہایت عجیب اور وسیع و عریض سرزمینیں دینا چاہتے ہیں جہاں جو بھی چاہے اسے پھولوں سے لدے ہوئے اسرار و رموز حاصل ہو سکتے ہیں۔ وہاں طرح طرح کی نئی آگ ہے۔ جس کے رنگ آج تک کسی نے دیکھے بھی نہ ہوں گے۔ ہزاروں نئی نئی شکلیں ہیں جن تک وہم و گمان کا بھی گزر نہیں ہوا۔ ہمیں ان سب کو حقیقت بخشنی ہے۔‘‘ اسی خواہش کا اظہار ساں پول رونے یوں کیا ہے، جو دنیا ابھی تک نامعلوم ہے ہمیں وہاں جاکر انسانوں کی نو آبادیاں بسانی ہیں۔
جیسا ان اقتباسات سے بھی ظاہر ہوتا ہے، نیا فن حال پرست یا جمود پرست نہیں ہے۔ اس کی آنکھیں برابر مستقبل کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ ان فنکاروں نے صراحتاً کہا ہے کہ شاعر کو اپنے اندر پیش بینی کی صلاحیت پیدا کرنی چاہئے۔ بلکہ بعضوں نے یہ تو رائے دی ہے کہ فنکار کو چاہئے کہ ماضی کی یادوں کو ذہن سے بالکل خارج کردے تاکہ مستقبل کا نظارہ براہ راست کر سکے۔ چنانچہ اس ضمن میں ایک نئی اور ظاہر میں مہمل سی اصطلاح وجود میں آئی ہے۔ مستقبل کی یاد۔ اب دوچار نمونے ان فنکاروں کی مستقبل پرستی کے دیکھئے۔
ساں پول رو نےکہا ہے، ’’فن صرف یہ نہیں ہے کہ موجودہ لمحے کو دیکھا اور محسوس کیا جائے، بلکہ فن کا خاص کام یہ ہے کہ زمانہ حاضر کی حدوں کے پار جا کے ان خیالات کو پہلے سے دیکھا اور محسوس کیا جائے جن پر ابھی تک عمل نہیں ہوا۔‘‘ شارل کرو کی خواہش ہے کہ ’’اپنا تو بس ایک مسلک ہو، ایک معبود ہو۔۔۔ مستقبل!‘‘ اپولی نیئر کی رائے میں، ’’نئی روح کا تقاضا ہے کہ ہم پیغمبرانہ فرائض اختیار کریں۔‘‘ در اصل اپولی نیئر کا نقطہ نظر ان سب شاعروں سے زیادہ امید پرستانہ رہا ہے اور انہوں نے مستقبل کے بارے میں بڑی بڑی توقعات کا اظہار کیا ہے۔۔۔ اور ٹھیٹ لڑائی کے زمانے میں۔ ایک اقتباس ان کی نظم کا بھی ملاحظہ فرما لیجئے،
’’شعور کی گہرائیو! کل تمہیں کھنگالا جائے گا اور کون جانے اس تحت الثری میں سے کیسی کیسی جاندار ہستیاں، بلکہ پوری پوری کائناتیں نکلیں گی۔۔۔ انسان کو پتہ چلے گا کہ میں در اصل بہت زیادہ پاک، طاقتور اور دانش مند ہوں۔‘‘
یہ تو یہ، خود راں بو جو خوشی کو لعنت کہتا ہے، کیونکہ خوشی ہمیں روحانی جد و جہد اور حقیقت کی تلاش سے غافل کرتی ہے، جو اپنی ذہنی زندگی کو دوزخ سے تعبیر کرتا ہے، اس زمانے کے انتظار میں ہے جب زندگی نئی شکل میں ظاہر ہوگی۔ وہ دن کب آئے گا جب ہم ساحلوں اور پہاڑوں کے اس پار جابروں اور عفریتوں کے زوال، توہم کے خاتمے، نئی جد و جہد اور نئی عقل و دانش کی پیدائش کا استقبال کرنے جائیں گے اور زمین پر مسیح کے ظہور کے وقت اپنا ہدیہ عقیدت لے کر سب سے پہلے پہنچیں گے؟ اسے انتظار ہی نہیں بلکہ یقین ہے کہ دوزخ کی رات ختم ہو جائے گی اور ’’صبح کے وقت ہم شدید صبر کی طاقت سے مسلح عظیم الشان شہروں میں داخل ہوں گے۔‘‘
زندگی کو بدلنے کی خواہش کے ساتھ ساتھ سب سے اہم مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ زندگی کو بدلنے کا ذریعہ کیا ہو۔ انیسویں صدی میں مذہب کے ذریعہ زندگی کو بدلنے کا خیال عام طور سے مضحکہ خیز سمجھا جاتا تھا۔ البتہ سائنس سے یہ امید ضرور تھی۔ فنکار نے اس ماحول میں اپنے آپ سے یہ سوال پوچھا ہے کہ اگر انسان کو خارجی ماحول پر پوری قدرت حاصل ہو جائے، ہر چیز کا علم نصیب ہو جائے اور ہر ممکن ہنر مل جائے تو کیا زندگی بدل جائے گی؟ چنانچہ راں بو نے فرض کیا ہے کہ یہ سب چیزیں میرے قبضے میں آگئیں، ’’میں ہرقسم کے اسرار و رموز کو بے نقاب کرنا جانتا ہوں، وہ مذہبی اسرار ہوں یا فطری موت، پیدائش، مستقبل، ماضی، نظام کائنات، عدم میں نئے سے نئے واہمے پیدا کرنے میں استاد ہوں۔۔۔ مجھ میں سب ہنر ہیں۔۔۔ آپ کو حبشیوں کے گانے چاہئیں یا حوروں کا ناچ؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں غائب ہو جاؤں، غوطہ ماروں اور انگوٹھی نکال لاؤں؟ بولئے آپ کیا چاہتے ہیں؟ میں سونا بناؤں گا، بڑی بڑی اکسیر دوائیں بناؤں گا۔‘‘
اول تو یہ جو آدمی بول رہا ہے وہ دوزخ میں ہے اور اس علم و ہنر کے باوجود اسے چھٹکارا نہیں ملتا، پھر آپ نے دیکھا راں بو نے علم و ہنر کے کارناموں کو بازیگری بنا کے دکھا دیا ہے۔ چونکہ علم و فن سے زندگی بدل نہیں سکی اس لئے ان کی وقعت اس کی نظروں میں اس سے زیادہ نہیں۔ اپنی نظم کے آخری حصے میں راں بو اس نتیجے پر پہنچتا ہے، ’’میں سمجھتا تھا کہ مجھے مافوق الفطری طاقتیں حاصل ہوگئی ہیں۔ خیر، اب مجھے چاہئے کہ اپنے تخیل اور اپنی یادوں کو دفن کردوں۔‘‘ اب اسے یہ بھی پتہ چل گیا ہے کہ علم و ہنر میرے کام کیوں نہیں آیا۔ ’’میں اخلاقیات سے بالکل کنارہ کش ہو گیا تھا۔ میں اپنے آپ کو فرشتہ یا دانش مند سمجھتا تھا۔ مگر میں تو پھر زمین پر واپس آ گیا ہوں۔‘‘
فرشتے کا مطلب ہے مکمل انسان۔ جو آدمی اپنے آپ کو مکمل سمجھتا ہو وہ اپنی زندگی کو بدل نہیں سکتا، اسی طرح خالی دانش مندی سے بھی وہ اصول ہاتھ نہیں آسکتا جو زندگی کو ایک منظم اور ہم آہنگ نقش کی شکل دے دے۔ خالی علم سے جبلتوں کی ترتیب و تنظیم ممکن نہیں بلکہ علم جبلتوں کا آلہ کار بننے کی زبردست صلاحیت رکھتا ہے اور جبلتوں کے آزاد ہو جانے ہی کوراں بود دوزخ سمجھتا ہے۔ چنانچہ علم اور فن کے بھروسے پر نجات، یا زندگی کو بدلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
چونکہ فنکار ان دونوں چیزوں سے مایوس ہو چکا ہے، مگر ساتھ ہی زندگی کو بدلنے کی خواہش اب بھی باقی ہے۔ اس لئےاس کا اہم ترین فریضہ یہ ہو جاتا ہے کہ زندگی کو بدلنے کا نسخہ ہر جگہ ڈھونڈے۔ اگر عقل کے ذریعے ممکن نہ ہو تو ماورائے عقل طاقتوں کے ذریعے۔ چنانچہ اس اندھی جستجو کا جذبہ ساری جدید روایت پر غالب ہے۔ اس جستجو کا استعارہ سفر ہے۔ یوں تو شاتو بریاں اور بائرن جیسے رومانی شاعر بھی سفر کے دھنی تھے۔ مگر ان کا سفر غم غلط کرنے یا نئے احساسات سے لطف اندوز ہونے کے لئے تھا، حقیقت کی جستجو کے لئے نہیں۔ اس نئے سفر کے لوازمات سب سے پہلے بودیلیر نے گنوائے۔ بودیلیر کے مسافر کو ایک انہونی لگن کھائے جاتی ہے، وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ کہاں جا رہا ہوں اور کیوں جا رہا ہوں، مگر برابر چلتا رہتا ہے۔ اس سفر کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں نہ بادبان کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ بھاپ کی۔ بس شرط یہ ہے کہ آدمی وہ چیز ڈھونڈکے لائے جو نئی ہو اور جسے کوئی نہ جانتا ہو۔ جیسے جیسے یہ جدید روایت آگے بڑھتی ہے، جسمانی بے حرکتی کا عنصر بھی بڑھتا جاتا ہے۔
آندرے سال موں نے کہا ہے، ’’میں ایسے اسٹیشن کے خواب دیکھتا ہوں، جہاں سے گاڑیاں ہی نہ چلتی ہوں۔۔۔ بے حرکتی بھی بڑا اچھا سفر ہے۔ بس صبر کر کے اپنے سامان پر بیٹھ جانا چاہئے۔‘‘ ان شعروں سے یہ نتیجہ بھی نکالا جا سکتا ہے کہ شاعرمکمل جمود کی تلقین کر رہا ہے۔ مگر یہ تفسیرغلط ہے۔ شاعر نامعلوم نئی حقیقت کی جستجو کو جسمانی حرکت سے بے نیاز کرنا چاہتا ہے۔ بقول پول کلوول، سوال چلنے کا نہیں ہے بلکہ پانے کا۔ جس طرح نیا سفرحرکت سے بے نیاز ہے، اسی طرح نتائج کی نوعیت بھی مد نظر نہیں۔ یہ تو ٹھیک ہے کہ اصل مقصد زندگی کو بدلنا ہے، مگر جب نسخہ کا پتہ ہی نہیں تو مہوس کے لئے یہی رہ جاتا ہے کہ جو چیز بھی ہاتھ آئے اسے آزمائے۔ یہ تلاش فنکار کی جان کو اس طرح لگی ہے کہ اسے کسی چیز کا ڈر ہی نہیں۔ بودیلیر نے اس جستجو کی نوعیت دو لائنوں میں بیان کر دی ہے، ’’غارکی تہہ میں کود پڑو، چاہے وہاں جنت ہو یا جہنم۔۔۔ نامعلوم حقیقت کی گہرائیوں میں تاکہ کوئی نئی چیز ہاتھ آسکے۔‘‘
اور یہ غار کون سا ہے؟ خود فنکار کی ہستی۔ اس چیز کو خودپرستی اور انانیت کہہ کر بدنام کیا جاتا ہے۔ مگر ان لوگوں کے اپنے اندر غوطہ لگانے کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی کہ یہ لوگ اپنے ذاتی تجربات کے ذریعے دیکھ چکے تھے کہ خارجی زندگی کی تنظیم و ترتیب سے روحانی انتشار، عدم توازن اور کرب ختم نہیں ہوتا بلکہ شاید مایوسی کچھ اور شدید ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اپنے اندر ڈوب کے یہ لوگ تجربہ کرنا چاہتے تھے کہ آخر ہماری داخلی زندگی میں بے ترتیبی کی وجہ کیا ہے۔ اس کی تنظیم ہو سکتی ہے یا نہیں۔ اگر ہو سکتی ہے تو کس اصول کے ماتحت۔ اس اقدام کا مطلب یہ نہیں تھا کہ خارجی دنیا سے تو لطف لے چکے، اب ذرا اپنی ہستی سے دل بہلاؤ بلکہ ان لوگوں کا مقصد اپنی اندرونی زندگی کا معروضی مطالعہ تھا۔
لافورگ نے سفر کے معنی ’’اپنے اندر اتر جانا‘‘ بتائے ہیں اور ساں پول رو نے ’’اس طرح چلنا کہ آنکھیں اندر کی طرف لگی ہوں۔‘‘ ان فقروں سے یہ شبہ ضرور ہوتا ہے کہ یہ لوگ صرف فرار یا لذت اندوزی کے خواہش مند ہیں۔ مگر در حقیقت نئے فنکار کو تلاش اس بات کی ہے کہ میری داخلی زندگی اصل میں چیز کیا ہے۔ بائبل کی مشہور حکایت ہے کہ ایک آدمی کا بیٹا گھر سے بھاگ کھڑا ہوا تھا اور بڑی مصیبتیں اٹھانے کے بعد واپس آیا تھا۔ ژید نے اسے نئے معنے پہنائے ہیں۔ بیٹا گھر لوٹ کے آتا ہے تو ماں پوچھتی ہے کہ تم گھر سے کیوں چل دیئے تھے۔ بیٹا جواب دیتا ہے کہ میں ڈھونڈ یہ رہا تھا کہ آخر میں ہوں کون۔۔۔ ژید کے نزدیک یہ تفتیش محض فنکاروں کا چونچلا نہیں ہے بلکہ اچھے حکمرانوں کے لئے بھی ضروری ہے۔
ژید کے ناول تے زے میں بڈھا باپ ہیرو کو نصیحت کرتا ہے کہ ’’سب سے پہلے تم یہ معلوم کرو کہ تم کون ہو۔ اس کے بعد اپنے آباد و اجداد کی روایت سے واقفیت پید ا کرو۔‘‘ کسی اور جگہ ژید نے اس تفتیش کا طریقہ بھی بتا دیا ہے، ’’دکھ سہتے ہوئے اپنے آپ کو اس طرح دیکھنا جیسے دکھ سہنے والا کوئی اور ہو۔‘‘ بودیلیر نے تو خیر خدا سے دعا مانگی ہی ہے کہ ’’مجھے گھن نہ آئے۔‘‘ راں بو نے بھی اپنے عارف اور شاعر کی خصوصیات یوں بیان کی ہیں، ’’وہ اپنی روح کو ڈھونڈتا ہے۔ اس کا معائنہ کرتا ہے، اسے طرح طرح سے آزماتا ہے، اسے سمجھاتا ہے۔‘‘
جس چیز کو ان لوگوں کی انحطاط پسندی یا تعیش پرستی یا بدکرداری کہا جاتا ہے، اسے انہی تصریحات کو پیش نظر رکھ کر سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ عمل میں تو خیر نہیں مگر خیال کی حد تک یہ درست ہے کہ نئے تجربات کی دھن میں یہ لوگ اخلاق، عقل اور انسانیت سب کی حدوں سے گزر گئے۔ ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ ایک دن بیٹھے بیٹھے راں بو نے ورلین سے کہا کہ ہاتھ پھیلاؤ اور ایک نیا تجربہ حاصل کرو۔ ورلین نے ہاتھ پھیلایا تو راں بو نے چاقو مار دیا۔ مگر یہاں مزے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ یہ لوگ اپنی ہستی کے ہر پہلو سے براہ راست واقفیت حاصل کرنا چاہتے تھے۔ خواہ وہ پہلو برا ہو یا عقل کے خلاف ہو یا غیر انسانی ہو۔ ان کا واحد مقصد انسان کے متعلق سچا علم حاصل کرنا اور انسان کی تہہ تک پہنچنا تھا۔ یہ لوگ اپنے اوپر تجربات کرتے تھے۔ ان کی بعض باتوں میں ہمیں شہوت پرستی نظر آتی ہے۔ مگر ان کی شہوت پرستی، عیاشی اور تماش بینی سے کوسوں دور ہے۔ اپنی شہوت کا مطالعہ بھی یہ لوگ راہبانہ سخت گیری کے ساتھ کرتے تھے۔
ژید کے تے زے نے بیسیوں عورتوں سے دل لگایا، مگر دل اٹکایا کہیں نہیں۔ اپنی اس کمزوری کا اعتراف کرتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ مجھے اس سے یہ فائدہ ضرور ہوا کہ اپنے آپ کو جاننے میں بڑی مدد ملی۔ بودیلیر نے کہا کہ ’’میں ان چیزوں کی تلاش میں ہوں جو خالی ہیں، سیاہ ہیں اور ننگی ہیں۔‘‘ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آئندہ سے بدکاری کے علاوہ اس کا کوئی مشغلہ ہی نہیں ہوگا۔ جن سرزمینوں کو انسانی تجربات کی حدود سے باہر سمجھ کے اورعدم یا خلا کہہ کے یوں ہی چھوڑ دیا گیا ہے، بودیلیر وہاں کی بھی سیاحت پر مصر ہے۔ جن چیزوں کو مروجہ اخلاقیات نے ممنوع قرار دے دیا ہے وہ انہیں بھی آزمانا چاہتا ہے کہ ان کی حقیقت کیا ہے اور انسانی زندگی سے ان کا کیا تعلق ہے۔
ننگی سے مراد یہ ہے کہ وہ ہر قسم کے ذہنی پردوں کو چیر کے حقیقت کو اصلی شکل میں دیکھنا چاہتا ہے، یہاں تک کہ خوفناک جبلتوں کو بھی۔ اسی تقاضے کے ماتحت ان لوگوں سے بعض وحشت ناک حرکتیں سرزد ہوئی ہیں۔۔۔ عمل میں بہت کم، خیال میں بہت زیادہ بلکہ ایک حد تک یہ لوگ اپنی تحقیقات کے لئے خیالی بداعمالی کو ضروری سمجھتے ہیں۔ چنانچہ راں بو نے اپنے عارف کے متعلق کہا ہے، ’’ مگر سوال اپنی روح کو بے انتہا ہولناک بنانے کا ہے۔ وہ بہت زیادہ زبردست مجرم، بہت ہی مردود وملعون بن جاتا ہے اور ساتھ ہی سب سے بڑا عارف بھی۔۔۔ کیونکہ اسے وہ چیز مل جاتی ہے جس سے کوئی واقف ہی نہیں ہے۔‘‘
اپنے آپ کو جاننے کی کوشش میں فنکار کو بڑے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ وہ ہر قسم کی شخصیت اور کردار اختیار کر کے دیکھتا ہے، زندگی کی ہر شکل کو آزماتا ہے، حقیقت کو ہر وضع اور ہر ہیئت میں تلاش کرتا ہے۔ یہ کوشش مضحکہ خیز تو ضرور ہے اور فنکار کو خود اس کا اعتراف ہے مگر جس معاشرے میں مرکزیت نہ رہی ہو، وہاں یہ کوشش لازمی بن جاتی ہے تاکہ مرکز کو پھر سے ڈھونڈا جا سکے یا نیا مرکز ایجاد کیا جا سکے۔ ہمارے زمانے میں سیاست دان تو الگ رہے، بڑے بڑے فلسفی اس ریاضت سے تھک کے کسی نہ کسی نظریے کے سائے میں جا بیٹھے ہیں۔ مگر ایک فنکار ہے جس نے ہار نہیں مانی۔ خدا نہیں ملتا تو نہ سہی مگر فنکار نے بولنے والے بچھڑوں کو ہر شکل میں پہچان لیا ہے۔
خیر اب آپ راں بو کی زبان سے سنئے کہ تلاش حقیقت کے سلسلے میں فنکار نے کیسے کیسے تجربات کئے ہیں، مگر تھکنے میں نہیں آیا۔ ’’آؤ بھیس بدلیں۔۔۔ نٹ، فقیر، فنکار، ڈاکو، پادری۔ مجھ میں سب ہنر ہیں۔۔۔ آؤ جتنی بھی شکلیں ذہن میں آئیں، بناکے دیکھیں۔ اب میں اپنے آپ کو کس کے ہاتھ بیچوں؟ کس جانور کو پوجوں؟ کس مقدس بت پر حملہ کروں؟ کون سے دل توڑوں؟ کون سا جھوٹ اختیار کروں۔۔۔؟ کس کے خون میں چلوں؟‘‘
فنکار اتنی دوڑ دھوپ کرتا ہے، مگر اپنی محنت کا پھل کھانے کی اسے جلدی نہیں ہے۔ اگر اس کی محنت ضائع گئی ہے تو جائے مگر اپنی ناکامی کی پردہ پوشی اسے گوارا نہیں۔ راں بو طرح طرح سے زندگی کو بدلنے کی کوشش کرتا ہے مگر ہربار اسے پتہ چلتا ہے کہ یہ تو وہی زندگی ہے اور اصلی زندگی غائب ہے۔ چنانچہ فنکار اپنی ناکامی اور محرومی کا اعتراف بے کھٹکے کر لیتا ہے۔ بلکہ اسے یہ محسوس ہو جاتا ہے کہ اس ناکامی کا سبب بھی خود میرے اندر موجود ہے۔ چنانچہ لوتریاموں نے کہا ہے، ’’وہ طوفان کی طرح آزاد تھا، لیکن آخرایک دن اپنی خوفناک قوت ارادی کے بے قابو ساحلوں پر پھنس کے رہ گیا۔‘‘
ان لوگوں کو اپنی سرشاری کے باوجود علم ہے کہ ہم زندگی کو جس پیمانے پر بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ در اصل انسان سے ممکن ہی نہیں۔ بہرحال اپنی سی کوشش ہم بھی کر رہے ہیں۔ راں بو نے صاف لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ ’’روحانی کشمکش بھی اتنی ہی خوفناک ہوتی ہے جتنی انسانوں کی جنگ، مگر انصاف کا جلوہ صرف خدا ہی کو حاصل ہو سکتا ہے۔‘‘ صرف ما بعد الطبیعیاتی معاملات ہی میں نہیں، معمولی انسانی معاملات میں بھی ان کی خود آگاہی حد سے بڑھی ہوئی ہے۔ ان لوگوں پر آپ کوئی ایسا اعتراض نہیں کر سکتے جو انہوں نے خود اپنے اوپر نہ کیا ہو۔ ان لوگوں نے یہاں تک تسلیم کیا ہے کہ ہماری جد و جہد کا مقصد کتنا ہی بلند کیوں نہ سہی، ہماری جو گت بن گئی ہے وہ اس عمل کا لازمی جز سہی، موجودہ سماج کتنی ہی بری سہی، مگر موجودہ حالت میں معاشرے کے لئے ہمیں قبول کرنا دشوار ہے۔
راں بو نے ورلین سے اپنے بارے میں کہلوایا ہے، ’’ وہ کچھ نہیں جانتا، اور کام وہ کبھی کر کے نہیں دے گا۔ وہ تو اس طرح زندگی بسر کرنا چاہتا ہے جیسے کوئی سوتے میں چل رہا ہو۔ کیا صرف اپنی نیک مزاجی اور رحم دلی کے بل پر اسے حقیقی دنیا میں رہنے کا حق ہو سکتا ہے؟‘‘ غالباً ان فنکاروں میں خود آگاہی کے لئے ایک الگ حس موجود ہے۔ یہ لوگ چاہے جس حالت میں بھی ہوں، خواہ انہوں نے اپنے باقی حواس کو منتشر اور گڈمڈ کر دیا ہو، مگر یہ زائد حس کبھی غافل نہیں ہوتی۔ لوتریاموں نے ان کی پوری کیفیت کا خلاصہ ایک جملے میں بیان کر دیا ہے، ’’میں نے تمہیں دھوکا دینے کے لئے ضرور ایسا کہا تھا، مگر در اصل میری عقل کبھی غیر حاضرنہیں ہوتی۔‘‘ اس زائد حس کو ایسا بنیادی تشکک کہا جا سکتا ہے جو اپنے آپ سے بھی مطمئن نہیں ہوتا، اپنے آپ کو بھی معاف نہیں کرتا۔ بودیلیر نے اپنے ’’ریاکار قاری‘‘ کو اپنا ہم شکل اور بھائی کہا تھا۔ یہ ذہنیت اس پوری روایت پر حاوی ہے، بلکہ یہ جملہ اور شاعروں اور ادیبوں کے یہاں بھی گونجتا ہے۔
میں نے کہا تھا کہ یہ لوگ اپنا معروضی مطالعہ کرنا چاہتے تھے، مگر ممکن ہے یہ محض دعویٰ ہی دعویٰ ہو بلکہ بدکاری کا پردہ بن گیا ہو۔ اس لئے ایک ذرا طویل اقتباس اور پیش کروں گا۔ اگر ایک اچھا خاصا معقول آدمی اپنے بیوی بچوں اور گھربار کو چھوڑ کے ایک سترہ اٹھارہ سال کے لڑکے کے پیچھے پیچھے شہر در شہر، ملک در ملک سرگرداں پھرے تو واقعی بڑی بات ہے۔ مگر آپ کو دکھانا یہ چاہتا ہوں کہ ورلین اور راں بونے اس قسم کی اوباشی سے حاصل کیا کیا؟ راں بو نے مذکورہ بالا نظم کے ایک حصے میں اپنی دونوں کی داستان لکھی ہے۔ اپنے آپ کو جہنمی دولہا قرار دیا ہے اور ورلین کو پگلی دلہن۔ اب سنئے کہ یہ پگلی دلہن کیا کہتی ہے،
’’میں برباد ہوگئی، میرا ناک میں دم آگیا۔ میں ناپاک ہوں۔۔۔ میں جہنمی دولہے کی باندی بن گئی ہوں۔۔۔ وہ بچہ ہی سا تھا۔۔۔اس کی لطافتوں نے مجھے مسحور کرلیا۔ میں اس کے پیچھے ایسی دیوانی ہوئی کہ اپنے انسانی فرائض بھی بھول بیٹھی۔۔۔ جہاں وہ جاتا ہے میں بھی اس کے ساتھ ساتھ جاتی ہوں، میں مجبور ہوں اوروہ اکثرمجھ پر، مجھ بیچاری پر خفا ہوتا رہتا ہے۔ وہ تو بھوت ہے بھوت، آدمی تھوڑی ہے۔۔۔ کبھی بے شرمی کی باتوں پر فخر کرتا ہے، کبھی سنگ دلی کو حسین بنا دیتا ہے اور میں سنتی رہتی ہوں۔۔۔اکثر رات کے وقت اس کا بھوت میرے سر پر بھی سوار ہو جاتا، ہم لوٹے لوٹے پھرتے اور میں اس سے لڑتی جھگڑتی۔۔۔ وہ دن بھی کیا ہوتے ہیں جب وہ اس طرح بن بن کے چلتا ہے جیسے بہت بڑا مجرم ہو! کبھی کبھی وہ بڑی پیاری دیہاتی زبان میں باتیں کرتا ہے۔۔۔ شراب خانوں میں وہ پاس بیٹھے ہوئے لوگوں کو دیکھ دیکھ کے رونے لگتا، جنہیں افلاس نے جانور بنا رکھا تھا۔
وہ اندھیری سڑکوں پر پڑے ہوئے شرابیوں کو اٹھاتا۔ اس کا انداز کچھ ایسا ہوتا جیسے کسی بدمزاج ماں کو چھوٹے چھوٹے بچوں پر رحم آجائے۔۔۔ وہ ایسی شائستگی سے چلتا جیسے کوئی چھوٹی سی لڑکی گرجا جا رہی ہو۔۔۔ وہ ایسے بنتا جیسے تجارت، فن طب ہر چیز اسے آتی ہو۔۔۔ چاہے وہ کیسے ہی اچھے یا برے، پیچیدہ اور عجیب و غریب کام کیوں نہ کر رہا ہو، میں اس کا ساتھ دیتی۔ مجھے یقین تھا کہ میں اس کی دنیا میں بار نہیں پا سکتی۔۔۔ مگر اس کی نیک دلی بڑی مسحور کن ہے، اور میں اس کی قیدی ہوں، کسی اور میں یہ طاقت۔۔۔ مایوسی کی طاقت نہیں ہو سکتی کہ اسے برداشت کرے، اس کی سرپرستی کرے اور اس کی محبت کار بارگراں اٹھائے۔۔۔ میری زندگی اس پر منحصر ہوکے رہ گئی تھی۔ مگر میری حقیر اور بے رنگ سی ہستی سے اسے کیا لگاؤ تھا۔۔۔؟
بعض دفعہ میں چڑکے اس سے کہتی کہ میں تمہاری بات سمجھتی ہوں تو وہ کندھے جھٹک دیتا۔ چنانچہ مجھے بار بار غصہ آجاتا۔۔۔ مگرمجھے اس کی نوازشوں کی طلب زیادہ ہی ہوتی گئی۔ اس کے بوسوں اور ہم آغوشیوں سے مجھے ایسا معلوم ہوتا جیسے میں جنت میں پہنچ گئی ہوں۔ مجھے ان باتوں کی عادت پڑ گئی۔۔۔ مگر مجھے پیار کرنے کے بعد کہتا، ’’جب میں تیرے پاس نہیں ہوں گا تو جو باتیں اب تک ہوئی ہیں وہ تجھے کیسی مضحکہ خیز معلوم ہوں گی۔ یعنی جب نہ تو تیری گردن میں میری بانہیں ہوں گی، نہ تیرے آرام کرنے کے لئے میرا سینہ ہوگا، نہ میرے ہونٹ تیری آنکھوں پر ہوں گے۔ کیونکہ ایک نہ ایک دن میرا کہیں دور چلا جانا لازمی ہے۔ مجھے دوسروں کی بھی تو مدد کرنی چاہئے۔ یہ میرا فریضہ ہے۔۔۔ میں نے اس سے وعدہ کرلیا کہ وہ مجھے چھوڑ کے نہیں جائے گا۔
اس نے یہ محبت بھرا وعدہ بیسیوں دفعہ کیا ہے مگر یہ وعدہ بھی ایسا ہی بے فیض نکلا جیسے میں اس سے کہوں کہ میں تیری باتیں سمجھتی ہوں۔۔۔ بعض دفعہ میں بالکل بھول جاتی ہوں کہ میری کیا گت بن گئ ہے۔ وہ مجھے طاقت دے گا۔ ہم دونوں سفر کریں گے، ریگستانوں میں، شکار کھیلیں گے نامعلوم شہروں کی پٹریوں پر سوئیں گے، نہ کوئی فکر ہوگی نہ دکھ۔ جب میری آنکھ کھلے گی تو اس کی ساحرانہ طاقت کے طفیل قانون اور رسم و رواج بدل گئے ہوں گے، یا دنیا ویسی کی ویسی ہوگی، مگر مجھ سے میری خواہشوں، میری مسرتوں اور میری بے فکریوں پرکوئی باز پرس نہیں کرے گی۔ میں نے اتنے دکھ اٹھائے ہیں کہ ان کے بدلے میں کیا تو مجھے وہ عجیب و غریب زندگی دے دے گا۔ جو بچوں کی کتابوں میں بستی ہے؟ وہ یہ نہیں کر سکتا۔ مجھے اس کے آدرش کا پتہ نہیں۔
اس نے مجھے بتایا ہے کہ میرے دل میں کچھ پشیمانیاں ہیں، کچھ امیدیں ہیں۔ مگر ان کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔ کیا اسے خدا سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہے۔ شائد مجھے خدا ہی سے رجوع کرنا چاہئے۔ مگر میں بالکل تحت الثریٰ میں جا پہنچی ہوں اور مجھ سے دعا بھی نہیں مانگی جاتی۔ اگر وہ مجھ سے اپنے رنج وغم بیان کرے تو کیا میں انہیں اس کے ہنسی مذاق سے کچھ زیادہ سمجھ لوں گی؟ وہ مجھ پر حملہ کرتا ہے، دنیا میں جس کسی بات سے بھی میرا تعلق ہے ان سب پر مجھے گھنٹوں شرم دلاتا رہتا ہے۔ اگرمیں روؤں تو بگڑ بیٹھتا ہے۔ بعض دن ایسے آتے کہ جو آدمی کسی نہ کسی قسم کا کام کرتے ہیں، وہ اسے کسی خوفناک دیوانگی کے کھلونے معلوم ہوتے۔ وہ بڑی دیر دیر تک ایسے ہنستا کہ ڈر لگنے لگتا۔۔۔ پھر اس کا انداز نوجوان ماں یا بڑی بہن کا سا ہو جاتا۔ اگر وہ اتنا وحشی نہ ہوتا تو ہماری نجات ہو جاتی۔ مگر اس کی نرمی بھی تو اتنی ہی مہلک ہے۔ میں اس کی باندی بن کے رہ گئی ہوں۔۔۔ میں بالکل پگلی ہوں!‘‘
راں بو نے اپنی تصویر پیش کرتے ہوئے کسی قسم کی خوش فہمی روا نہیں رکھی، کوئی رعایت نہیں برتی۔ کوئی اچھا یا برا پہلو ایسا نہیں رہا جو پیش نہ کر دیا ہو۔ اپنے بارے میں اس قسم کی معروضیت اس روایت کے فنکاروں کا مطمح نظر تھا۔ اسی چیز کو زیادہ تفصیل سے دیکھنا چاہیں تو پروست یا جوئس سے رجوع کیجئے۔ یہ لوگ اخلاقی بے راہ روی میں ضرور پڑے، مگر انہوں نے اخلاقی بے راہ روی کو بھی اخلاقی حس کا آلہ بنا دیا اور اپنے آپ کو اخلاقی تجزیے کے لئے پیش کیا۔ اپنے آپ سے علیحدگی برتنے کی صلاحیت کے بغیر اخلاقی حس کا وجود میں آنا ناممکن ہے۔ ممکن ہے کہ ان لوگوں نے مروجہ اخلاقیات کی تخریب کی ہو۔ مگرساتھ ہی ایک نئی اور بلندتر اخلاقیات کے لئے زمین بھی ہموار کی۔ جس دور میں ان لوگوں نے اپنی تخلیقات کی ہیں، کم سے کم سیاست کے میدان میں کوئی آدمی اخلاقیات کے اس درجے تک نہیں پہنچ سکا۔ خارجی حقیقت کے اندر پیرتے پیرتے ہمارے دانشور جوہر تک تو جا پہنچے ہیں مگر چند فنکاروں کے علاوہ اپنے اندرغوطہ لگانے کی ہمت اس زمانے میں اور کوئی نہیں کر سکا، حالانکہ جوہری طاقت کی تباہ کاریوں کو صرف خود بینی کی طاقت ہی روک سکتی ہے۔ مگر ہماری سیاست میں خودبینی زوال پسندی کا پیش خیمہ سمجھی گئی ہے۔
ادب کی اس روایت نے ایک اور بہت بڑا کام سر انجام دیا ہے۔ نشاۃ ثانیہ کے وقت انسان نے سمجھا تھا کہ میں مذہب اور خدا کے تصورات سے آزاد ہو کے بھی زندہ رہ سکتا ہوں۔ ان ادیبوں نے اپنے اوپر تجربات کر کے ثابت کیا ہے کہ مذہب نہ سہی تو کسی نہ کسی ایسے ہی ہمہ گیر تصور کے بغیر انسان متوازن زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ کسی نقاد نے اس تحریک کے شروع ہی میں بھانپ لیا تھا کہ جمالیات کا راستہ خدا کی طرف جاتا ہے۔ چنانچہ یہی ہوا۔ مارلو کے شیطان نے کہا تھا کہ خدا سے الگ ہو کے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے دوزخ میں جل رہے ہوں۔ بالکل یہی تجربہ راں بو کا ہے۔ بلکہ اس کے خیال میں توخدا سے بھاگنا بالکل ناممکن ہے۔ ’’ میں چھپ گیا ہوں اور نہیں چھپا‘‘ اس روایت میں صرف منفی پہلو ہی نہیں ہے بلکہ بڑی شدید ما بعد الطبیعیاتی لگن ملتی ہے۔
یوں تو سبھی شاعروں نے مگر خصوصیت سے لا فورگ اور ماکس ژاکوب نے تو بالکل صوفیوں کے سے تجربات کو اپنا موضوع سخن بنایا ہے۔ ویسے یہ سب کے سب خارجی فطرت اور انسانی حواس کی پابندیوں سے باہر نکلنے کو بے قرار ہیں، بلکہ حقیقت اور فریب حقیقت، خواب، انسانی تجربہ، جیسے مبہم تصورات کو بھی اپنے لئے دیوار سمجھتے ہیں۔ بقول پیٹرر وردی، ’’جہاں حواس کی حکمرانی ہو وہاں سے حقیقت غائب ہو جاتی ہے، اڑ جاتی ہے۔‘‘ لہٰذا ان لوگوں کی نظر میں شاعر قید میں ہے، اور اس سے باہر نکلنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ خدا کے تصور تک کوایک شاعر نے دیوار بتایا ہے جو ہمیں اس سے بھی لطیف تر حقیقت تک پہنچنے نہیں دیتی۔ چنانچہ یہ لوگ معرفت بھی بالکل نئے طریقے سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان لوگوں کا مطمح نظریہ ہے کہ مادے میں تھوڑی سی غیر مادیت پیدا ہو اور غیرمادی حقیقت میں تھوڑی سی مادیت۔ جو چیز بے نہایت ہے وہ تھوڑی بہت ٹھوس بنے۔
لافورگ پوچھتا ہے کہ ہمیں کیا خدا کو از سر نو نہیں بنانا پڑے گا؟ یعنی معرفت حاصل کرنے کے لئے ہمیں وہ احساس پیدا کرنا پڑے گا جس کا خیال ابھی تک معرفت ڈھونڈنے والوں کو میسر نہیں آیا تھا۔ اس خواہش کا اظہار اس نے دوسری طرح یوں کیا ہے، ’’اے ہمارے آسمانوں والے باپ! ہمیں روزکی روٹی پہنچا۔ بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ ہمیں ذرا اپنے دسترخوان پر بیٹھ جانے دو۔‘‘ اسی طرح ژید کا ہیروتے زے اس بات پر تعجب کرتا ہے کہ آخرغیر مادی دنیا اور خارجی حقیقت کو الگ الگ چیزیں سمجھنے کی کیا ضرورت ہے۔
تو گویا اس طرح یہ فنکار فطرت کے متعلق ہمارے تصورات بھی بدل رہے ہیں اور ایک نئی قسم کا تصوف ایجاد کر رہے ہیں۔ فطرت کی غواصی میں سائنس دان بہت دور نکل گیا ہے۔ مگر عام آدمی فطرت کو اسی طرح محسوس کرتا ہے جیسے دو سو سال پہلے، بلکہ طرز احساس تو شاید سائنس دانوں کا بھی نہیں بدلا، نظریات بدل گئے ہیں۔ یہ کوشش صرف فنکار نے ہی کی ہے کہ احساس کے انداز ہی کو بنیادی طور سے بدلا جائے۔ مثلا ایک ذرا سی بات یہی ہے کہ جہاں حدیں نہ ہوں وہاں حدیں بھی محسوس کی جائیں اور جہاں حدیں موجود ہوں انہیں محسوس نہ کیا جائے۔
دوسری کوشش یہ کہ آواز یا روشنی جیسے عناصر کوان کی اولیں شکل میں محسوس کیا جائےاور ٹھوس اور بے ٹھوس چیزوں کو آپس میں سمو دیا جائے۔ اس عمل کا نام ساں پول رونے نہ دکھائی دینے والی چیزوں کی دکھائی دینے والی اقلیدس بنا دیا ہے۔ اسی طرح ایک کوشش یہ ہوئی ہے کہ اندھیرے، اجالے، حقیقی اور غیر حقیقی، زندہ اور مردہ کے تضاد کو باطل قرار دے دیا جائے۔ اس کے لئے ایک بالکل ہی نئی قسم کی صلاحیت درکار ہوگی اور ذہن، احساسات، حافظہ سب کو ازکار رفتہ سمجھ کے چھوڑ دینا پڑے گا۔ اسی نئی صلاحیت کو پول ایلوار نے یوں بیان کیا ہے، ’’میں نظر کی خالص قوت کا غلام بن گیا، اپنی غیرحقیقی اور دوشیزہ آنکھوں کا غلام، جو نہ دنیا سے واقف ہیں نہ اپنے آپ سے۔ یہ بڑی پرسکون طاقت ہے۔ میں نے جو دکھائی دیتا ہے اسے بھی ختم کر دیا اور جو نہیں دکھائی دیتا اسے بھی۔ میں نے اپنے آپ کو ایک بے داغ آئینے میں کھو دیا!‘‘
ان لوگوں نے خارجی فطرت اور اپنی خودی کو تجزیہ کر کے منتشر کر دینے کے بعد ان میں سے ایسی قوتیں نکالیں جوعقل کے دائرے میں نہیں سماتیں۔ مثلا بدی، بے نظمی۔ ممکن ہے انہوں نے ان چیزوں پر ضرورت سے زیادہ توجہ صرف کی ہو۔ بہر صورت انہوں نے یہ منظور نہیں کیا کہ ہمیں تجربہ تو ہو بے نظمی کا اور کائنات کو بنائیں منظم۔ اس کے بجائے انہوں نے انسان، فطرت، کائنات اور حقیقت کا ایسا ہمہ گیر تصور ڈھونڈنے کی کوشش کی، جس میں ان سب عناصر کی جگہ نکل آئے اور جوان تمام عناصر پر حاوی ہو، جن کا میں نے ذکر کیا۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایسا تصور ڈھونڈنے کی کوشش ہی سرے سے مہمل اور لایعنی ہے، یا ایسا تصور یا تصورات پہلے سے موجود ہیں، یا ان لوگوں کو اس جد و جہد میں بڑی سخت ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑا اور ان کا فن انسانیت کے لئے نقصان دہ بن کے رہ گیا۔ یہ سب سوالات الگ ہیں۔ میں ان میں الجھنا نہیں چاہتا۔ میں تو صرف اتنی بات ثابت کر رہا ہوں کہ ان لوگوں نے خالی خولی جمال پرستی نہیں کی، بلکہ انسان کے پور ے نظام احساس کو بدلنا چاہا۔ سائنس کی تازہ ترین دریافتوں کو انسانی شعور میں جذب کرنے کی طرف پہلا قدم اٹھایا جس کے بغیر علم بعض دفعہ وہ ہمزاد بن جاتا ہے جو قبضے سے نکل گیا ہو، اور روح عنصر کے غالب ترین عنصر یعنی تجرباتیت پر ایک نئے تصوف کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی۔ یہ کوشش غالباً اتنی ہمہ گیر اور جامع ہے کہ انسان کی موجودہ صلاحیتیں ان سے عہدہ بر آنہیں ہو سکتیں۔ اس صورت میں ہمیں فخر کرنا چاہئے کہ انسان نے ایسے عظیم الشان کام کا خواب دیکھا۔ اس کے بعد ہم جتنے چاہیں اعتراضات کر سکتے ہیں اور وہ سب کے سب مجھے قبول ہوں گے۔ بلکہ میں نے خود بھی ایسے اعتراضات متعدد بار کئے ہیں۔
فطرت اور ما بعد الفطرت کے مشاہدے کے لئے نئی نظر پیدا کرنے کی کوشش کا ایک لازمی ضمیمہ یہ بھی ہے کہ ایک نیا فن ایجاد کیا جائے۔ عام طور سے جمال پرستی کے جو معنی لئے جاتے ہیں وہ یہاں بالکل بے کار ہو جاتے ہیں۔ ان لوگوں کی کوششوں کا ماحصل یہ ہے کہ حقیقت کو محض بیان کر کے نہ رکھ دیاجائے بلکہ ایک نئی حقیقت لفظوں کی مدد سے تخلیق کی جائے۔ بقول ساں پول رو ان لوگوں کے پیش نظر دوبارہ پیدائش نہیں تھی بلکہ محض پیدائش۔ ایک طرح دیکھئے تو یہ عنصر شاعری میں ہمیشہ موجود رہا ہے۔ مگر ان لوگوں نے شعوری طور پر کوشش کی کہ یہ عنصر ہمارے یہاں زیادہ سے زیادہ نظر آئے۔ یہ لوگ گویا لفظ کو آزاد کر دینے کی دھن میں لگے ہوئے تھے۔ ساں پول رونے اس عمل کی تصریح یوں کی ہے ’’لفظوں میں پہلی مرتبہ پر لگے ہوں۔ ان پروں سے لفظ اس قابل ہو جائیں گے کہ حقیقت سے ما بعد الطبیعات میں، واہمہ سے اشیاء کی سرزمین میں پھلانگ جائیں۔‘‘
اس جملے سے واضح ہوگیا ہوگا کہ یہ عملی زندگی سے فرار یا خالی جمالیاتی تسکین کی چاٹ نہیں ہے بلکہ فطرت اور حقیقت کے تصور کو بنیادی طور سے بدلنے کی ہمہ گیر کوشش کا ایک حصہ ہے۔ اسی عمل کو راں بو نے الفاظ کی کیمیا گری کہا ہے، یا ’’شاعرانہ لفظ جس سے سارے حواس فائدہ اٹھا سکیں۔‘‘ اپنی تخلیقی کاوشوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ ’’میں خاموشیوں کو، راتوں کو، الفاظ کی گرفت میں لا رہا تھا، جو بیان ہو سکتا اسے لکھ رہا تھا۔ میں گھمیریوں کو قائم کر رہا تھا۔‘‘
اگر آپ اس عمل کو اور زیادہ تصریح کے ساتھ سمجھنا چاہتے ہیں تو ژاں پول سارتر کی تفسیر دیکھئے۔ ان کے خیال میں شاعر لفظوں کو استعمال ہی نہیں کرتا۔ نثرنگار لفظوں کے اندر داخل ہو کر ان کا اچھی طرح معائنہ کر سکتا ہے۔ یہ بات شاعر کے بس میں نہیں۔ وہ لفظوں کو صرف باہر سے دیکھتا ہے۔ نثرنگار کی طرح وہ کسی چیز کو بیان نہیں ک رسکتا۔ اس کے بجائے وہ اس چیز کے مقابلے میں، لفظوں کی مدد سے ایک نئی چیز بنا کے رکھ دیتا ہے۔ وہ الفاظ کی شکل میں چیزوں کا بدل پیش کرتا ہے چنانچہ اس کے شعر محض بیانیہ جملے نہیں ہوتے بلکہ چیزیں ہوتے ہیں۔ شاعر ٹھیٹ معنوں میں خالق ہوتا ہے۔ سارتر نے مثال کے طور پر راں بو کی دو لائنیں پیش کی ہیں،
’’کیسے کیسے موسم ہیں! کیسے کیسے قلعے ہیں!
وہ کون سی روح ہے جو بے گناہ ہو؟‘‘
سارتر کہتے ہیں، ’’یہاں نہ تو کسی سے سوال کیا گیا ہے، نہ کوئی سوال کرتا ہے شاعر بالکل غائب ہے، اس سوال کا جواب نہیں دیا جا سکتا۔ یا یوں کہئے کہ یہ خود اپنا جواب ہے۔ کیا یہ جھوٹا استفسار ہے؟ مگر یہ سمجھنا مہمل بات ہوگی کہ راں بو یہ کہنا چاہتا ہے کہ ہر آدمی کے اپنے اپنے گناہ ہیں۔ جیسا برتوں نے ساں پول رو کے بارے میں کہا تھا، اگر وہ ایسا کہنا چاہتا تو کہہ دیتا۔ اس نے کوئی اور بات بھی نہیں کہنی چاہی۔ اس نے تو ایک مطلق استفسار پیش کیا ہے۔ اس نے تو روح کے ایک حسین لفظ کو استفساریہ ہستی عطا کر دی ہے۔ یہاں استفساریہ ایک چیز بن گیا ہے جیسے ٹنٹوریٹو کا درد و کرب زرد آسمان بن گیا تھا۔ یہ مفہوم نہیں رہا، بلکہ مادی چیز بن گیا ہے۔ اسے باہر سے دیکھا گیا ہے اور راں بو ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم اس کے ساتھ مل کر اسے باہر سے دیکھیں۔ اس میں عجب اس بات سے پیدا ہوتا ہے کہ اسے دیکھنے کے لئے ہم انسانی کیفیت کی حدوں سے باہر نکل جاتے ہیں اور اسے وہاں سے دیکھتے ہیں جہاں سے خدا دیکھتا ہے۔‘‘
نیا فن تخلیق کرنے کی اس کوشش کو اگر ہم انتہائی عظیم کارنامہ تسلیم کر بھی لیں، تو بھی ایک اعتراض یہ وارد ہوتا ہے کہ ان میں سے بعض لوگوں نے زندگی کا اظہار کرنے کے بجائے اظہار کے عمل اور اظہار کے ذرائع کو اظہار کا موضوع بنایا، بلکہ والیری نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ مجھے تو بس طریقہ کار سے دلچسپی ہے۔ اگر آدمی اظہار کا طریقہ ڈھونڈلے تو پھر اظہار کی بھی ضرورت نہیں۔ اگر آپ صرف نظریوں تک محدود رہیں تو واقعی یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ زندگی سے بیگانے ہو گئے ہوں گے۔ مگر سوال میرا یا آپ کا نہیں فنکار کا ہے۔ اور فنکار بھی کیسے مالارمے اور والیری جیسے۔ اگر اس پائے کا فنکار یہ تفتیش شروع کرتا ہے کہ اظہار کی کیفیت کیا ہوتی ہے۔ اظہار میں خلل کس طرح اور کن باتوں سے پڑتا ہے اور یہ رکاوٹ کس طرح دور ہوتی ہے تو ناممکن ہے کہ وہ انسانی دماغ اور انسانی زندگی کے سب سے بنیادی عناصر تک نہ پہنچ جائے۔
چنانچہ موت و حیات، جسم اور روح، خیر و شر، عدم اور وجود، غرض انسان کے وہ کون سے بنیادی مسائل ہیں جو ہمیں مالارمے اور والیری کے کلام میں نہ ملیں۔ والیری نے جو نظمیں اظہار کے مسائل سے متعلق لکھی ہیں انہیں پڑھتے ہوئے ہمیں انسان کے بارے میں بڑے گہرے انکشافات ہوتے ہیں بلکہ اچھا خاصا ایک فلسفہ زندگی مرتب کیا جا سکتا ہے۔ رہی یہ بات کہ ان دونوں میں زندگی گھٹتے گھٹتے اتنی کم ہو گئی تھی کہ ان کے یہاں موت و حیات کا فرق موہوم سا رہ گیا ہے۔ تو یہ مسئلہ بحث سے حل نہیں ہو سکتا بلکہ مالارمے کی اے رودیاد اور چرواہے کا خواب (مترجمہ میراجی) یا والیری کی نظم سانپ پڑھ کے دیکھنی چاہئے۔ ان لوگوں نے بھی موت سے کشمکش کی ہے اور موت پر فتح پائی ہے۔ البتہ گریبان پھاڑ کے ’’زندگی! زندگی!‘‘ چلاتے ہوئے نہیں بھاگے۔ ان لوگوں کا ایک خاص ذہنی کلچر ہے، ایک خاص لب و لہجہ ہے، اسی کے اندر رہ کے بات کرتے ہیں۔ مالارمے نے زندہ رہنے کی خواہش کا اظہار ایسے مہذب لہجے میں کیا ہے۔
’’لیکن اے میرے دل! ذرا ملاحوں کا گانا تو سن!‘‘
والیری نے خواہش مرگ پر فتح پانے کا ذکر یوں کیا ہے،
’’ہوا سنکنے لگی جینے کی کوشش کرنی چاہئے۔‘‘
ان شاعروں پر سب سے زیادہ لعنت ملامت اس لیے کی جاتی ہے کہ انھوں نے سماجی مسائل کو قابل اعتنا نہیں سمجھا، اس کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ انھوں نے کسی خاص جماعت کی سیاست کو قابل اعتنا نہیں سمجھا۔ یہ تو میں بہت پہلے بتا آیا ہوں کہ انھیں ہر قسم کے جامد تصورات سے آزاد رہنے کی اتنی فکر کیوں تھی۔ مگر سیاست یا سیاسی جماعتوں سے الگ رہنا ضروری اس لیے تھا کہ سیاسی لوگ عزیز ترین تصورات کو بھی مصلحت پر قربان کر سکتے ہیں۔ یہ صرف خیالی ڈر نہیں تھا بلکہ بودلئیر، ورلین، راں بو انقلابات میں خود حصہ لے کر سیاسی لوگوں کی حقیقت کا تجربہ کر چکے تھے، بودلئیر نے کہا ہے کہ بھلا جمہوریت پرستی سے کون بچ سکتا ہے، یہ تو آتشک کے جراثیم کی طرح ہمارے خون میں ملی ہوئی ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بودلئیر عوام کا دشمن تھا، اس جملے کا مفہوم یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ سیاسی لوگ جمہوریت کا نام لے کر کس طرح اپنا الو سیدھا کرتے ہیں، مگر اس کے باوجود ہم جمہوری نظام کی خواہش کرنے پر طبعا ً مجبور ہیں، جمال پرستی کا الزام اگر تھوڑا بہت کسی پر عائد ہو سکتا ہے تو اوئیس مالنس پر، مگر اس تک نے اس حقیقت کو محسوس کر لیا تھا- اس کا ایک کردار کہتا ہے کہ اگر میں اپنے آپ کو فریب دیتا رہتا ہوں تو کیا ہے، متوسط طبقہ تو جمہوریت کا نام لے کر غریبوں کو اچھی طرح الو بنا رہا ہے، میری فریب خوردگی تو پھر بھی اس درجہ کی نہیں ہے۔
سیاست بازی کو چھوڑیئے، جہاں تک افلاس کے مسئلے کا سوال ہے اس روایت والوں کو اس کا انتہائی تلخ احساس رہا ہے، بلکہ شاید اتنی تلخی ان لوگوں میں نہ ہوگی جو براہ راست سماجی مسائل کو اپنا موضوع بناتے ہیں۔ مثال دینے بیٹھوں تو ایک نیا مضمون تیار ہو جائے گا، ایک اکیلے راں بوں کے یہاں اچھی خاصی درجن بھر نظمیں ایسی نکل آئیں گی جن میں غریبوں سے شدید ہمدردی کا اظہار کیا گیا ہے۔ مسحور بچے، جوئیں چننے والیاں،غریب لوگ گرجا میں وغیرہ وغیرہ۔
اور اپنی نظم پیرس پھر بستا ہے میں تو راں بو نے موجودہ سیاسی اور معاشی نظام پر ایسا خوفناک طنز کیا ہے جس کی مثال ادب پیش نہیں کر سکتا، اس روایت نے صرف احتجاج یا ہمدردی پر اکتفا نہیں کی بلکہ غیر سیاسی اصطلاحوں میں ایک ہمہ گیر عدل اور آزادی کا خواب دیکھا ہے، صرف توڑا نہیں، بنایا بھی ہے۔
پروست اور جوئس تک پہنچتے پہنچتے اس روایت نے انسانی زندگی کے بعض لازمی اداروں کا اثبات شروع کر دیا ہے۔ چنانچہ ان دونوں نے ابتدائی انسانی تعلقات مثلا خاندان کی ضرورت کا اعتراف بڑی شدومد سے کیا ہے۔ اسی طرح ژید نے اپنے تازہ ترین ناول تے زے میں محض انفرادیت کو کافی نہیں سمجھا، بلکہ روایت کو بھی آدمی کی مکمل نشوونما کے لئے لازمی بتایا ہے۔ اس کے علاوہ اس ناول میں انہوں نے براہ راست ایک ایسے نظام زندگی کی تعریف کی ہے جہاں دولت سب لوگوں میں برابر تقسیم ہوتی ہے اور آدمی کا سماجی درجہ صرف ذاتی قابلیت سے متعین ہوتا ہے۔ ژید کی اس دنیا میں عدل ہی نہیں آزادی بھی ہے۔ بادشاہ تے زے روحانی دنیا اور خارجی حقیقت کو الگ الگ چیزیں نہیں سمجھتا اور اس کا معیشت زدہ مہمان ای۔ ڈی پس ان دونوں کو الگ الگ مانتا ہے۔ مگراس اختلاف کے باوجود تے زے کا رویہ معاندانہ نہیں ہوتا بلکہ اس کاعقیدہ ہے کہ ای ڈی پس کے آنے سے میرے شہر پر برکتیں نازل ہوئی ہیں۔ یہ ہے وہ دنیا جسے یہ جمال پرست بنانا چاہتے ہیں۔ یہ بات آپ کو صرف فن برائےفن کے پجاریوں کی دنیا میں ہی ملے گی کہ اپنے مخالف کو رحمت سمجھا جاتا ہو۔
اس کتاب میں ژید نے فرد کی نشوونما اور تکمیل کا انتہائی صحتمندانہ تصور پیش کیا ہے۔ فرد کو چاہئے کہ اپنا ایک کام متعین کر لے اور پھر دل و جان سے اسے پورا کرنے میں لگ جائے۔ راستے سے بھٹکنے پر تو انسان مجبور ہے۔ مگر ہمیشہ کے لئے بھٹک کر نہ رہ جائے۔ کام کو بیوی بچوں سے بھی زیادہ عزیز رکھے اور اسے پورا کر کے چھوڑے اور یہ کام ایسا ہو کہ اس سے پوری انسانیت کو فائدہ پہنچے۔ اسی سے فرد کی زندگی مکمل ہوتی ہے۔ ژید کے نزدیک کام کو ادھورا چھوڑنا سب سے بڑا گناہ ہے اور دوزخ میں آدمی کو یہی سزا دی جائے گی کہ جو کام تم نے پورا نہیں کیا تھا اسے بار بار کرو۔
آپ کہیں گے کہ آخر ژید صاحب کو ہوش آگیا تو بڑی اچھی بات ہے۔ مگر وہ خود اور ان کے ساتھ دوسرے جمال پرست بھی ایسی چیزیں لکھتے رہے ہیں جن سے ایک موہوم جمالیاتی تسکین تو حاصل ہوتی ہے مگر انسانیت کو اور کوئی واضح فائدہ نہیں پہنچتا۔ یہ اعتراض صرف سیاسی قسم کے لوگوں ہی کی طرف سے عائد نہیں ہوتا بلکہ ایسے لوگوں کی طرف سے بھی جو سیاست سے باہر نکلنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ چنانچہ کیسٹلر نے ژید پر اعتراض کیا ہے کہ ان کی کتابوں میں کوئی خیال نہیں ہوتا۔ بس ایک مبہم سا ذائقہ، ایک ہلکی سی خوشبو ضرور محسوس ہوتی ہے جوان کی تخلیقات کو ادبی عظمت عطا کرنے کے لئے کافی نہیں ہے۔ کیونکہ خالی ذائقے سے انسانیت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا مگر کیسٹلر کے خلاف شہادت دینے کے لئے میں خود اپنے تجربات پیش کرتا ہوں۔
ژید نے جنگ کے دوران میں اپنے روزنامچے میں جو کچھ لکھا ہے اس کا زیادہ حصہ خیالات نہیں بلکہ صرف یہی ذائقہ فراہم کرتا ہے۔ اتفاق کی بات ہے کہ جن دنوں مسلمانوں کے قتل عام کا سلسلہ شروع ہوا ہے، مجھے اس روزنامچے کے مختلف اجزا پڑھنے کو مل گئے۔ جس قسم کے خارجی حالات ژید کے لکھتے وقت تھے اس سے بھی تشویش ناک میرے پڑھتے وقت تھے۔ مگر میرے سامنے ایک بڑی ٹھوس حقیقت یہ بھی تھی کہ ژید کے ذہنی سکون میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا تھا۔ ان کے لب و لہجے میں کسی طرح کا اضطرار نہیں آیا تھا۔ غالباً ژید نے اتنی حسین نثر عمر بھر میں کبھی نہیں لکھی۔ شاید انہوں نے خارجی حقیقت سے اتنا شدید تاثر کبھی حاصل نہیں کیا۔ ژید کا ذہن وقتی انتشار اور اضطراب پر حیات محض کو ترجیح دے رہا تھا۔ اس نے ماحول کی ناامیدی اور خوف و ہراس سے مغلوب ہونا گوارا نہیں کیا تھا۔ بلکہ ان حالات میں بھی حیات اندوزی میں لگا ہوا تھا۔ کیا اپنے اندر اس توازن کی صلاحیت رکھنا اور دوسروں میں یہ صلاحیت پیدا کرنا انسانیت کی خدمت نہیں ہے؟ کیا زندگی کی طاقتوں کو کمزور پڑنے دینا ٹھوس کارنامہ نہیں ہے؟ کیا اس رویے سے زندگی پر غیر مشروط یقین کا اظہار نہیں ہوتا؟
جس روایت کی ابتدا فن برائے فن کے نظریے سے ہوئی، اس سے تعلق رکھنے والے فنکاروں کے یہاں ادھر ادھر جو غیر صحت مندعناصر بھی ملتے ہوں، ان سے مجھے انکار نہیں البتہ اس سے انکار ہے کہ یہ روایت مجموعی حیثیت سے عوام یا بہتر زندگی یا حیات محض کی دشمن ہے اور انسانیت کو انحطاط یا موت کی طرف لے جاتی ہے۔ اس کے برخلاف یہ روایت ایک عظیم الشان تحقیقی مہم کی حیثیت رکھتی ہے جو زندگی اور زندگی کے بنیادی لوازمات کو ڈھونڈنے نکلی ہے اور اس ہمت اور خود اعتمادی کے ساتھ کہ کسی بنے بنائے تصور کا سہارا تک نہیں لیا۔
یہ تحریک خیر اور صداقت کے بنیادی وجود سے منکر نہیں ہے بلکہ ان کا مکمل اثبات چاہتی ہے۔۔۔ ایسا اثبات جو شاید انسان سے ممکن بھی نہیں ہے۔ انسان کا اعصابی نظام جتنا کرب اور اذیت برداشت کرسکتا ہے اسے فن فنکاروں نے آگے بڑھ کر قبول کیا ہے تاکہ انسانیت کو حقیقت سے روشناس کرا سکیں اور اس لگن میں انہوں نے آسانیاں نہیں ڈھونڈیں، کسی مفاد سے سمجھوتہ نہیں کیا، مکمل صداقت کے علاوہ کسی اور چیز کو قابل اعتنا نہیں سمجھا۔ ممکن ہے بعض کوششوں میں یہ بالکل ناکام رہے ہوں۔ مگر فن سیاست کا میدان نہیں۔ یہاں فیصلہ کامیابی اور ناکامی کے حساب سے نہیں ہوتا۔ یہاں چلنا ہی سب کچھ ہے۔ پہنچنا نہ پہنچنا سب برابر ہے۔
یورپ کا شعور زندگی سے بیگانہ ہوتاجارہاتھا۔ انہوں نے جہاں تک ہوسکا زندگی کو قائم رکھا۔ انہوں نے اپنے فرض سے جان نہیں بچائی۔ اپنا کام بے دلی سے نہیں کیا۔ انسانیت کو گرم رکھنے کے لئے آسمانوں سے آگ لانے کی دھن میں برابر لگے رہے۔ ان لوگوں میں جو تحریک بنیادی طور سے کام کر رہی تھی وہ یہی تھی۔ اس کا لحاظ رکھے بغیر انہیں نہیں جانچا جا سکتا۔ زمان اور مکان کی کیفیتوں نے جو کام ان کے ذمہ ڈالا تھا اسے انہوں نے ادھورا نہیں چھوڑا۔ تے زے کی طرح ان کا بھی شہر بن گیا ہے اور دوزخ ان پر حرام ہو گئی ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.