فن کا ایک نظریہ
فن مصنوعی شے نہیں ہے۔ یہ غیر فطری پیداوار نہیں ہے جسے ہماری فطری ابتدائی تحریکوں کے غیرفطری انسداد کے ذریعہ وجود میں لایا جاتا ہے۔ یہ لازمی طور پر انسانی پیداوارہے۔ حیوانی دنیا میں اس کا کوئی مقام نہیں ہے اور یہ کلچر کا سب سے زیادہ قابل قدر جز ہے جسے انسان نے لازمی اور فطری انسانی ضرورتوں کی تسکین کے لئے تخلیق کیا ہے۔ فن سب سے زیادہ قدیم سوسائٹیوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ یعنی جہاں جہاں انسان نے عہد جہالت کو خیرباد کہا ہے اور تہذیب اپنائی ہے چاہے کتنی ہی قدیم کیو ں نہ ہو فن وہاں پایا جاتا ہے۔ ریڈؔ لکھتا ہے کہ ’’ہم ماضی طرف نظر کرتے ہیں اور فن اور مذہب کو قبل تاریخ کے مدھم گوشوں سے ساتھ ساتھ ظہور میں آتے دیکھتے ہیں۔‘‘ 1
ہم کہہ سکتے ہیں کہ فن انسانی فطرت کا اہم وجود ہے یا کم سے کم انسانی فطرت میں اس کا وجود اسی طرح تھا جس طرح پھول کا وجود بیج میں ہوتا ہے۔ مارٹن ٹرنل لکھتا ہے، ’’تاریخ شاہد ہے کہ فن ایک بے ساختہ عمل ہے۔ انتہائی قدیم سوسائٹیوں میں بھی ہمیں ایسے آدمی ملتے ہیں جو اپنے گرد ایک نئی دنیا کی تخلیق میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ اور ان کی کوششوں کو چاہے وہ کتنی ہی ناپختہ کیوں نہ ہوں ہمیشہ ناظرین مل جاتے ہیں۔ درحقیقت فن انسان میں بعض فطری ضرورتوں کو پوری کرتا ہے۔‘‘ 2 اس نکتے پر زور دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ حقیقت اتنی واضح ہے۔ ایسی صورت میں فن ایک فطری انسانی پیداوار ہے اور یہ ایک فطری انسانی ضرورت کو پوری کرتا ہے۔ یہ انسان کے عام تمدنی اعمال کا ایک ضروری جزو ہے۔
انسان صرف تمدنی زندگی ہی بسر کر سکتا ہے اور جیسا کہ میلینوسکیؔ نے کہا ہے انسان کا تمدنی کردار لازمی طور پر جانوروں کے فطری کردار سے مختلف ہوا کرتا ہے۔ میلینوسکیؔ لکھتا ہے، ’’انسان، چاہے اس کا تمدن کتنا ہی ادنیٰ کیوں نہ ہو، آلات، اوزار اور گھریلو اشیاء کا استعمال ترک کرتا ہے، ایک سماجی ماحول میں رہتا ہے جو اس کی مدد بھی کرتا ہے اور ساتھ ہی محاسبہ بھی۔ وہ زبان کے ذریعہ گفتگو کرتا ہے اور ایک قسم کا ساحرانہ اور معقول، مذہبی اور ساحرانہ تصورات قائم کر لیتا ہے۔ اس طرح انسان مادی اسباب کے ایک مجموعے کو ترک کرتا ہے، ایک قسم کی سماجی تنظیم میں رہتا ہے، زبان کے ذریعہ گفتگو کرتا ہے اور روحانی اقدار کے نظاموں کے ذریعہ متاثر ہوتا ہے۔ شاید یہی چار خاص شعبے ہیں جن کے تحت ہم انسان کی تہذیبی کامیابیوں کو تقسیم کرتے ہیں۔ فن روحانی اقدار کے نظاموں میں سے جو انسان کو متاثر کرتے ہیں، ایک ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں بس اتنا ہی جاننا ہے۔ فن کی ابتدا کے بارے میں قیاس آرائی کرنا غیر ضروری اور لاحاصل ہے۔ یہ بات ہم پر عیاں ہو جاتی ہے جب یہ ہمارے سامنے ایک تکمیل شدہ حقیقت میں سامنے آتا ہے۔
میلینوسکی نے وثوق کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ اڈیپس گرہ سماجی اور تہذیبی مظاہر کا (Vera causa) نہیں ہے۔ اس کے برعکس یہ تہذیب کا ماحصل ہے۔ اس لئے جنسیت تہذیب کا جوہر ہو سکتی ہے اور نہ فن کا۔ فن کا جوہر تجربہ ہے۔ کائنات کے کسی کونے میں ہونے والا رنگ و نور کا رقص فنکار کو بھا جاتا ہے اور اسے بولنے پر مجبور کرتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ بعض اندرونی ضرورت ایسی ہوتی ہے جو خارجی دنیا میں اپنے اظہار کے لئے فنکار کو مجبور کرتی ہے۔ جب یہ داخلی ضرورت جو اپنے اظہار پر مجبور کرتی ہے حسن کے ساتھ ہم آہنگ ہوتی ہے، اس میں ضم ہوتی ہے تو اس کا نتیجہ فنی تجربہ ہوتا ہے جو اپنا اظہار فن کی کسی شکل میں کرتا ہے۔ یہ تجربہ بنیادی طور پر ان غیر مطمئن تمناؤں سے مختلف ہوتا ہے جو، جیسا کہ تحلیل نفسی نے ثابت کیا ہے، ہمارے مریضانہ خواب بیداری کا سبب ہوتی ہیں۔ یہ تجربہ مریضانہ نہیں ہے جسے خلل اعصاب کی نشانی کہا جائے۔ یہ پوری طرح صحت مند اور فطری تجربہ ہے، اس میں وہ ذاتی عناصر نہیں ہوا کرتے جو ہمارے مریضانہ خواب بیداری میں دوسروں کے کانوں پر گراں گزرتے ہیں۔ یہ تجربے لاشخصی اور بے لوث ہوتے ہیں اور محدود، فوری اور ذاتی اہمیت والے معاملوں سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ فن کی سب سے زیادہ شخصی شکل میں بھی یہ لاشخصیت اور بے لوثی موجود رہتی ہے۔ ذاتی عنصر کو لے جایا جاتا ہے جہاں کم مائگی کاہلکا سا خاکہ تک نہیں ہوتا۔
جذبات وہ خالص خام شے ہے جسے لاشخصی طور سے اور آزادانہ استعمال کیا جاتا ہے۔ صرف اس غرض سے کہ اس عمیق تر معنی کو ظاہر کیا جا سکے جو فنکار نے اس میں دیکھا ہے اور اس خام شے کو ایک فن کی شکل دے دیا جاتا ہے جو خفیف ذاتی عنصر کے اثر کو ختم کرنے کا مزید کام کرتا ہے۔ یہ اس طرح ہوتا ہے کہ ذاتی ذاتی نہیں رہتا۔ وہ تجربے جن کا اظہار کسی نہ کسی شکل میں ہوا کرتا ہے اتنے متنوع اور پیچیدہ ہوتے ہیں کہ ماہر تحلیل کے علاوہ کوئی شخص بھی ان کے لئے ’’جنسی‘‘ کے عام نام کو استعمال کرنے کی ہمت نہیں کرے گا چاہے اس اصطلاح کی تعبیر کتنا ہی فیاضانہ طور سے کیوں نہ کیا جائے۔ کبھی کبھی تجربات جنسی نوع کے بھی ہو سکتے ہیں۔ لیکن ہمیشہ نہیں۔ وہ جنسی نہج کے نعم البدل نہیں ہوتے۔ یہ تجربے لازمی طور پر انسانی تجربے ہیں۔
فن کو تفریح کہا جاتا ہے۔ بظاہر یہ سراسر غیر منفعت بخش عمل ہے۔ فنکار زمین جوتنے یا گھر بنانے جیسا کوئی مفید کام صریحی طور پر نہیں کر رہا ہے۔ اس کے عمل کی عملی قدر و قیمت بہت خفیف سی ہے یعنی ایسی نہیں ہے جو آنکھوں کو فوراً بھلی لگے۔ اس کے باوجود یہ بالکل بے مصرف چیز نہیں ہے، ہم اسے یکسر رد نہیں کر سکتے۔ اس لئے ایسا بالواسطہ وسیلہ پا لیا گیا ہے جس کے ذریعہ اسے مفید بنایا جا سکتا ہے۔ کھیل کی طرح فن بھی زائد توانائی کے اخراج کا ایک ذریعہ ہے۔ میکڈوگلؔ لکھتا ہے، ’’کھیل ابتدائی شہوت (Primal Libido) یا حیاتی توانائی ہے جو جبلت کی خلیج میں بہتا نہیں بلکہ ابلتا رہتا ہے۔ حرکت کے لئے ایک مبہم خواہش پیدا کرتا رہتا ہے اور باری باری کسی ایک یا سبھی حرکی ساخت میں اخراج پاتا رہتا ہے۔‘‘
بچہ اپنی زائد توانائی بظاہر بے مقصد حرکات میں صرف کرتا ہے۔ فنکار فن کی تخلیق میں، ایسا سمجھا جاتا ہے، بعض زائد جذبات کا اظہار کرتا ہے جو کہ زائد ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ طاقتور بھی۔ جس کا نکاس عام زندگی کی حیاتیاتی اور کاروباری ضرورتوں میں نہیں ہوتا۔ رچرڈ لکھتا ہے کہ ’’جیسا کہ دوسرے بہت سے جمالیاتی نظریوں کے ساتھ ہے، یہ خیال کہ فن تفریح کی ایک شکل ہے یا تو بہت ہی سطحی یا بہت ہی زکی نظریے کی دلالت کرتا ہے۔ سب کچھ منحصر کرتا ہے۔ اس تصور پر جو کھیل کے بارے میں ذہن میں رکھا جاتا ہے۔‘‘ 3
یہ صحیح ہے کہ منحصر کرتا ہے۔۔۔ کھیل کے متعلق ہمارے تصور پر لیکن اس لفظ کے بعض افسوسناک تلازم ہیں اور یہ بہتر ہے کہ اس کے بغیر ہی کام چلا لیا جائے۔ کھیل کی قدر بھی جس کو ہم لوگوں نے تسلیم کر لیا ہے یعنی یہ کہ کھیل تہیج کی ابتدائی تنظیم اور نشوونما ہے ’’یا یہ کہ‘‘ یہ جو ہمیں نظام اعصاب کے بالکل مختلف عمل نظر آتے ہیں ان کے درمیان تعجب خیز بعید از کا رتفاعل کا ادراک ہے۔ اس اصطلاح کے استعمال کو بجا ثابت نہیں کریں گے۔
انسان میں دو لازمی حیوانی خصوصیات ہیں۔ بھوک اور جنسی بھوک۔ لیکن ان دونوں بھوک کی تسکین سے وہ مطمئن نہیں ہوتا۔ صرف زندہ رہنا اس کے لئے کافی نہیں ہے اور صرف اسی لحاظ سے وہ حیوان سے مختلف ہوتا ہے۔ ایک مختلف قسم کے وجود کے لئے اسے ایک داخلی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور اسی لئے وہ تہذیب کی تخلیق کرتا ہے۔ اس کی نظر میں وجود کا مطلب تمدنی وجود ہوتا ہے۔ تمدنی وجود کی احتیاج انسان کے لئے ویسی ہی حیاتیاتی ضرورت ہے جیسی کہ اس کی بھوک کی تسکین یا جنسی تہیج تسکین۔ فرائڈ یا اس کے پیروان جو بھی کہیں انسان مسرت کے اصول کا غلام نہیں ہے۔ وہ ایک بہتر اور زیادہ اطمینان وجود کا تصور کر سکتا ہے اوراس کے لئے کوشش کر سکتا ہے جو اس کی انسانی فطرت کے نشوونما اور تسلسل کی گنجائش پیدا کریں گے۔ اس کو اس تسکین سے محروم رکھنے کا مطلب اسے حیوانی سطح تک گھٹا دینا ہے۔ بغیر تمدن کے وہ زندہ رہےگا لیکن ایک انسان کی حیثیت سے نہیں۔ وہ ایک بار پھر حیوانی سطح تک پہنچ جائےگا جس سے وہ باہر نکلا ہے۔
انسان زندگی کو عزیز صرف زندگی کے لئے نہیں رکھتا بلکہ اس کی محتویات کے لئے عزیز رکھتا ہے۔ زندگی کو گراں قدر اس کی حالت تکمیل اور گہرائی و لطافت بناتی ہے۔ تمدن اس حالت تکمیل اور گہرائی و لطافت کو ممکن بناتا ہے۔ فن جسے ہم بغیر پس وپیش کے تمدن کا عروج کہہ سکتے ہیں اس حالت تکمیل اور گہرائی و لطافت کا جسے انسان اتنا عزیز رکھتا ہے سب سے اہم ذریعہ ہے۔ فن کے بغیر زندگی بے معنی اور مضحکہ خیز ہو جائےگی، جس میں صرف ہنگامے ہی رہیں گے کوئی معنی، یعنی یہ کوئی زندگی رہےگی ہی نہیں۔
کھیل کے اصول سے کام نہیں چلے گا۔ رچرڈس لکھتا ہے کہ ’’کھیل کے اصول پر اعتراض اس کی اس تجویز پر ہے کہ فن کے تجربات بعض لحاظ سے نامکمل اور اصل چیز کی نقل یا نعم البدل ہوا کرتے ہیں اور ان لوگوں کے لئے کافی ہوتے ہیں جو بہتر کے حصول میں ناکام رہتے ہیں۔‘‘ 4 ہم اس میں یہ بھی اضافہ کر سکتے ہیں کہ وہ بالکل بے سود ہوا کرتے ہیں۔ یہ پہلے ہی ثابت کیا جا چکا ہے کہ فن تصعید کی کوئی مشکل یا حفاظتی کھلمندن کی کوئی قسم نہیں ہے۔ ‘حفاظتی کھلمندن اصول‘ کے بظاہر معقول بہت سے حمایتی ہیں۔ ’’ہماری بدمستیاں تو ختم ہو گئی ہیں لیکن ان کی جگہ پر میرے پاس فن ہے۔‘‘ 5 یہ بھی ثابت کیا جا چکا ہے کہ فن کے تجربات نامکمل نہیں ہوتے۔ رچرڈس لکھتا ہے کہ ’’جو تجربات فنون پیش کرتے ہیں وہ کسی دوسری جگہ شاذ و نادر ہی مل سکتے ہیں۔ کاش وہ دوسری جگہ بھی ملتے! وہ نامکمل نہیں ہوتے۔ بہتر ہوتا کہ انہیں تکمیل شدہ عام تجربات کہا جاتا۔
وہ ایسے نہیں کہ کوئی بھی ذہنی اوصاف سے آراستہ شخص انہیں ترک کر دے اور نقصان اٹھائے بغیر رہ جائے اور یہ جو نقصان ہوگا وہ عارضی نہیں بلکہ متواتر اور مستقل ہوگا۔ ذہنی اوصاف سے سب سے زیادہ آراستہ وہ لوگ ہیں جو ان تجربات کی قدر کرتے ہیں۔ فن نہ تو ایسی چیز ہے، جیسا کہ بعض اوقات ضمنی طور پر کہا جاتا ہے، جس کا کام دنیا کی تاریخ کے صرف ابتدائی زمانے میں تھا اور سائنس کی ترقی کے ساتھ فرسودہ ہو گئی ہے۔ بہت ممکن ہے یہ روبہ تنزل ہو اور بالکل مفقود بھی ہو جائے، لیکن اگر ایسا ہو جاتا ہے تو یہ بڑا حیاتیاتی حادثہ ہوگا۔‘‘ 6
اس طرح یہ واضح ہے کہ فن ایک فضول عمل یا محض آرائشی چیز نہیں بلکہ ہمارا سب سے مفید گرانقدر عمل ہے۔ انسانی تمدن کی حفاظت اور تکمیل کے لئے یہ ضروری چیز ہے۔ فنکار فضول کام میں مشغول ہے مصرف ہونے کے بجائے ایک اہم شخصیت ہے جو سب سے گرانقدار سرگرمیوں میں مشغول ہے۔ اس کی سرگرمی بعض لحاظ سے زمین جوتنے یا مکان بنانے سے زیادہ قابل قدر ہے۔ وہ خلل اعصاب کا مریض یا اس طرح کی کوئی دوسری چیز نہیں ہوتا بلکہ صحت مند، صحیح الدماغ اور نارمل ہوتا ہے، اس حقیقت کا کہ فنکار نارمل ہوتا ہے یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ عام آدمی کی طرح ہوتا ہے۔ رچرڈس لکھتا ہے، ’’نارمل ہونے کا مطلب ہوتا ہے معیاری ہونا نہ کہ، جیسا کہ سمجھتا ہے اور اغلباً سمجھا جاتا رہےگا۔۔۔ عام ہونا۔ فنکار عام آدمی سے مختلف ہوتا ہے لیکن اور دوسرے لوگ بھی تو مختلف ہوتے ہیں۔ تاہم فنکار کا یہی اختلاف ان اسباب میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے ہم اس کے کارناموں کو قابلِ غور سمجھتے ہیں۔ 7
اس طرح فنکار نارمل تو ہوتا ہے لیکن عام آدمی کی طرح نہیں ہوتا۔ ایک عام آدمی عام اس لئے ہوا کرتا ہے کہ وہ ایسے تجربات کی استعداد نہیں رکھتا جو ذاتی قدر سے بڑھ کر ہوں۔ اس لئے فنکار نارمل آدمی ہوتا ہے مگر خدا داد صلاحیت کے ساتھ۔ جیسا کہ رچرڈس نے کہا ہے فنکار اپنے عہد میں ذہانت کے نقطہ اوج کی نمائندگی کرتا ہے۔ یا ہم ورڈس ؔورتھ کی مشہور و معروف تعریف کو لیں۔ وہ کہتا ہے۔ شاعر انسانوں سے گفتگو کرتا ہوا ایک انسان ہوا کرتا ہے۔ ایک ایسا انسان جس کے پاس زیادہ تر حس ہوتی ہے، زیادہ ولولہ اورنزاکت ہوتی ہے جسے انسانی فطرت کا زیادہ علم ہوتا ہے اور اس کی روح زیادہ جامع ہوتی ہے۔ بہ نسبت ان اوصاف کے جو عام لوگوں میں پائے جاتے ہیں۔ شاعر ایک ایسا انسان ہوتا ہے جو اپنی قوت ارادی اور جذبات سے خوش رہتا ہے اور اپنی موجِ زندگی سے خوش ہوتا ہے۔ کائنات کے افعال میں ویسے ہی جذبے اور قوت ارادی کی توقع میں خوشی محسوس کرتا ہے اور جہاں ان کی کمی دیکھتا ہے وہاں ان کی تخلیق کرنے پر فطرتاً مجبور ہوتا ہے۔ 8
یہ اصلاح پارینہ لگ سکتی ہے لیکن ورڈ سورتھ نے بعض نمایاں خصوصیات کا ذکر کیا ہے۔ شاعر ایک انسان ہے۔ اس کا مطلب صریحاً نارمل آدمی ہے۔ کوئی خلل اعصاب کا مریض نہیں۔ وہ نہ تو تحت الانسانی مخلوق ہے اور نہ بالکل مختلف نوع کی کوئی چیز۔ رچرڈسؔ کی طرح ورڈؔسورتھ بھی شاعر اور عام آدمی کے درمیان مشابہت اور فرق سے واقف ہے، شاعر عام آدمی کی بہ نسبت نازک ترین اور زیادہ پیچیدہ نظام کا مالک ہوتا ہے۔ ہر صورت حال میں اس کا ردعمل زیادہ حساس اور پرتکلف ہوتا ہے۔ وہ اس مفہوم کو دیکھ سکتا ہے جو عام آنکھوں سے اوجھل رہتا ہے۔ مختصر یہ کہ وہ زیادہ دور اور گہرائی تک دیکھ سکتا ہے۔ اس کے تجربات عام تجربات سے متنوع، وسعت، گہرائی اور قدر میں مختلف ہوتے ہیں۔ اس کا لطیف، حساس اور پیچیدہ نظام اس کے لئے زیادہ پرتکلف، بھرپور اور آزادانہ وجود ممکن بنا دیتا ہے۔ بےساختگی میں سالمیت، یہی اس کا مطمح نظر ہوتا ہے۔ جس کے لئے وہ کوشش کرتا ہے اور حاصل کر لیتا ہے۔
شاعر کو یہ خاص ملکہ کہاں سے ملتا ہے جو دوسری جگہ نہیں ملتا۔ جو کچھ ہم وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں وہی واضح چیز ہے کہ یہ ملکہ کسی خلل اعصاب کا نتیجہ نہیں ہوتے۔ شاعر کو خلل اعصاب کا مریض اور سماج کا ناکارہ رکن کہنے کے بجائے ہرشؔ کی مدح سرائی میں آواز ملانے کو ہمارا جی چاہتا ہے۔ عبقریت (اور شاعر عبقریت کی سب سے عمدہ قسم کی نمائندگی کرتا ہے) انسانیت کی رہنمائی کرتی ہے اور فیضان پہنچاتی ہے۔ نہ صرف انسان کے ماضی کو منور کرکے اور اس کے روحانی تعلقات میں نئی روح پھونک کر بلکہ زیادہ با معنی انداز میں ایک مستقبل کی علامت ہوتے ہیں۔ عبقری اپنے مخصوص حلقۂ اختیار میں محض ایک خالق نہیں ہوتا، بلکہ وہ ایک پیغمبر اچھی خبروں کا نقیب اور سنہرے مستقبل کی آمد کی خبر دینے والا ہوتا ہے۔ 9
اس وجد آفریں لہجہ کو ہم پسند نہیں بھی کر سکتے ہیں جو ہمیں شیلیؔ کی یاد دلاتا ہے، لیکن تعریف غیرمعقول نہیں ہے اور خلل اعصاب، دماغی عارضہ، جبر، گرہ، تصعید اور تلافی کے متعلق تحلیل نفسی کے تمام بے ضرورت لفاظیوں کے بعد ایک فرحت بخش اثر پیدا کرتا ہے۔ فنکار خلل اعصاب کے مرض میں مبتلا ہو سکتا ہے لیکن وہ محض ایک حادثہ ہوگا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے کہ وہ ایک ٹانگ سے لنگڑا پیدا ہو، لیکن خلل اعصاب اس کے فنکار ہونے کی حقیقت کی تشریح نہیں کر سکتا ہے۔ فنکار بہر حال ہماری طرح آدمی ہوتا ہے اور ان تمام برائیوں کا شکار ہو سکتا ہے جو کسی بھی عام آدمی کے لئے ممکن ہے۔ وہ کم ظرف، ذلیل، خود نما اور کینہ پرور بھی ہو سکتا ہے لیکن جب وہ تخلیق کے کام میں مصروف ہوتا ہے تو ان تمام ذاتی عناصر کو وہ پیچھے چھوڑ دیتا ہے اور اپنے پیش نظر مواد پر اور ان اصولوں اور طریقوں پر خود توجہ مرکوز کر دیتا ہے جو اچھے فن کا باعث ہوتے ہیں۔
اس کی کامیابی کا انحصار توجہ کے اسی ارتکاز پر ہے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے۔۔۔ کیونکہ فنکار بہر حال انسان ہے۔۔۔ کہ ذاتی عناصر حد سے زیادہ ضدی ہوتے ہیں اور وہ فن پارے پر زبردستی اثر انداز ہو جاتے ہیں جس میں شاعر مشغول رہتا ہے، لیکن ایسی مثالیں صرف یہ ظاہر کرتی ہیں کہ شاعر اپنی توجہ مرکوز کرنے میں ناکام رہا ہے، یا پھر یہ ہوتا ہے کہ فنکار بعض اوقات فنی تخلیق کو بعض کم پسندیدہ ترنگ کی تسکین کے ذریعہ کے طور پر قصداً استعمال کرتا ہے۔ ایسی حالت میں نتیجہ فنی نقطہ نگاہ سے غیر اطمینان بخش ہوگا۔ خلل اعصاب کے عنصر کی اس موجودگی کو جس سے فنکار واقف ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی، خود فنی تخلیق میں ایک نقص کی شکل میں پکڑا جا سکتا ہے اور ہمیں اسے ایک نقص ہی سمجھنا ہے اور اس ناکامی کے لئے فن کار کی مذمت بھی کرنی ہے۔ اس مخصوص خلل اعصاب کی نشان دہی کرنا جس میں فنکار مبتلا رہتا ہے اس کے بارے میں کسی قابل قدر بات کو تجویز نہیں کرتا۔
اپنی تصنیف ’’رپبلک‘‘ میں افلاطون نے شاعر کو بھلے کوئی مقام نہیں دیا ہو لیکن جس سماجی تنظیم سے اس کا تعلق ہوتا ہے اس کے ایک بہت قابل قدر رکن کی حیثیت سے فنکار کی اہمیت مسلم ہے۔ وہ اس لئے اہمیت رکھتا ہے کہ ہمیں اس سے ایسے تجربات حاصل ہوتے ہیں جو اس کے بغیر ممکن نہیں ہو سکے۔ ایسے تجربات جو ہماری زندگی کی آسودگی کو اس طرح دوبالا کردیتے ہیں جس طرح کہ دوسری کوئی چیز نہیں کر سکتی۔ وہ قدر کا سرچشمہ ہے اور ان اقدار کو بطور تبرک محفوظ رکھتا ہے۔ رچرڈسؔ لکھتا ہے،
’’فنون ہمارے محفوظ کردہ اقدار کے خزینہ ہیں۔ وہ خصوصی افراد کی زندگیوں میں لمحات سے پیدا ہوتے ہیں اور انہیں زندہ جاوید کر دیتے ہیں۔ جب تجربات پر ان کا اختیار اور قبضہ اپنے اوج پر ہوتا ہے، وہ لمحات جب وجود کے متنوع امکانات کو سب سے واضح طور پر دیکھا جاتا ہے اور مختلف افعال جو پیدا ہوتے ہیں انہیں سب سے زیادہ عمدگی سے ہم آہنگ کیا جاتا ہے، وہ لمحات جب مفادات کی فطری تنگی یا بے ترتیب بوکھلاہٹ کی جگہ پیچیدہ سکون لے لیتے ہیں۔ کسی فن پارے کی ابتدا، تخلیقی لمحات میں اور اس کے ذریعہ اظہار ہونے کے پہلو دونوں حالتوں میں فن اقدار کے نظریے میں ایک بہت اہم مقام دینے کا جواز مل سکتا ہے، تجربے کے اقدار کے متعلق ہماری سب سے اہم بصیرت کو وہ قلم بند کرتے ہیں۔‘‘ 10
اس طرح فنکار قیمتی تجربات ہوتے ہیں جن کو ہمارے لئے فن میں محفوظ کر دیتا ہے لیکن وہ کسی طرح ان تجربوں کا اظہار کرتا یا ہم تک پہنچاتا ہے؟ ظاہر ہے اسے ایک ایسا ذریعہ نکالنا پڑتا ہے جس سے کامیاب ترسیل ہوجائے۔ جس طرح فنکار فن کی تخلیق کرتا ہے، جو کہ اس کی تکنیک ہوتی ہے، وہ اتنی ہی اہم ہوتی ہے جتنا کہ خود تجربات، صرف قیمتی تجربات حاصل کرنا اس کے لئے کافی نہیں ہے۔ وہ انہیں فنی شکل دینے کی کوشش کرتا ہے اور اپنی ساری توانائی اس کام پر مرکوز کر دیتا ہے۔ ’’فن میں صحت مند تجربے کو شامل کرنا، ہم آہنگ کرنا اور ان کا تصور باندھنا جس پر اس کی قدر کا انحصار ہوتا ہے، فنکار کا اہم مشغلہ اور مشکل حالات میں ایک زوردار مشغلہ ہوتا ہے۔‘‘ 11 یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو ہلکے پھلکے طور پر لی جائے۔ فنکار نہایت سنجیدگی کے ساتھ اپنے کام پر پوری توجہ مرکوز کر دیتا ہے تاکہ کام بالکل ٹھیک طور پر انجام پاجائے۔ فنکار کی تکنیک کے معاملہ سے جب دوچار ہونا پڑتا ہے تو اسی وقت ماہر تحلیل نفسی خود کو بے بس پاتا ہے اور یہیں پر تنقید کی فتح ہوتی ہے۔
فرائڈؔ تسلیم کرتا ہے کہ تحلیل نفسی کے پاس فنکار کی تکنیک کے بارے میں کہنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے جبکہ تنقید ہمیں یہ دکھا سکتی ہے کہ فنکار کس طرح مطلوبہ اثرات حاصل کرتا ہے۔ ایک مثال سے یہ بات واضح ہو جائےگی۔ مثال کے لئے کیٹس کاسانیٹ ’’On first looking into chapman’s Homer‘‘ اور اس نظم پر مڈلٹن مرے (Middleton Murry) کی تنقید کو لیجئے۔ مڈلٹن مرے نظم کے اس تاثر کے مختصر خاکے سے شروع کرتا ہے جو ہم پر پیدا ہوتا ہے، ’’ہم پر جوش کا تاثر اتنا شدید ہوتا ہے کہ نظم کا اعلان کردہ اور حقیقی موضوع گویا تحلیل ہو جاتا ہے۔ اس میں جذبہ کا بلاواسطہ تعلق ہے جو تیز سے تیز تر ہوتا چلا جاتا ہے حتیٰ کہ کورٹز (Cortes) کی آخری تصویر میں، جو نیم مرئی اور نیم خیالی ہے، یہ تکمیل تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ تصویر نظم کی جذباتی اثر کے ذریعہ نہ صرف ہمارے ذہن پر منقش ہو جاتی ہے بلکہ یہ نظم کے جذباتی محتویات کو جمع کرتا ہے، اسے مستحکم کرتا ہے اور واضح بناتا ہے۔ کورٹزؔ کو اگر چوٹی پر رکھا جائے تو یہ سانٹ کا مکمل معراج ہے۔‘‘ 12
ہمیں یہ قابل تعریف وضاحت دینے کے بعد وہ اسی سانیٹ کا تجزیہ بہت ہی سرد اور بے لاگ طریقہ سے کرتا ہے۔ ’’ہم دیکھتے ہیں کہ تحقیق و تفتیش اور انکشاف کی تشبیہ کو شروع سے ہی قائم رکھا جاتا ہے۔ پہلی سطر سے ہی شاعر ایک سیاح، ایک کھوج لگانے والا ہے جو جزیروں میں سفر کرتا رہتا ہے اور سونے کے ملک کا انکشاف کرتا رہتا ہے۔ وہ سفر کے دوران ایک عظیم الڈوراڈو (El Diorado) کے متعلق مستقل افواہ اور رپورٹ سنتا ہے۔ ’’فاتحین‘‘ کا لفظ بڑا ہی معاون ہے۔ کیٹسؔ اپنے خیال میں اپنی نئی دریافت شدہ ملک کا چیپ مین کے ہومر کی طرح ایک فاتح تھا۔
سٹٹؔ کی ابتدائی دوسطروں میں تشبیہ کس قدر بدل جاتی ہے۔ وہ زمین کا بلکہ آسمان کی کھوج لگانے والا بن جاتا ہے۔ ایک ماہر فلکیات جس نے ایک نئے سیارے کی دریافت کر لیا ہو، لیکن یہ تبدیلی نظم کو کمزور بنانے کے بجائے اسے بالکل واضح طور پر استحکام بخشتی ہے اور اس کے لطف کو دوبالا کر دیتی ہے۔ یہ اس کی تخیلاتی گنجائش کو لا محدود وسعت بخشتی ہے۔ لا محدود زمین کے ساتھ لامتناہی آسمانوں کو ملا دیا جاتا ہے اور لفظ ’’Swims‘‘ کے نفیس استعمال کے ذریعہ لطیف سناٹے کا تاثر پیدا کیا جاتا ہے یعنی کہ بالکل تخیلی خلاؤں کاپس منظر جس کے سامنے اپنے اوج پر پہنچے۔ کورٹز کی تصویر مہیب اور ناہموار شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔
تشبیہ اور جذبے کا اتحاد قابل ذکر ہے۔ ثمن (Octave) میں سرگرم دریافت کا جذبہ اور تشبیہ ہے اور سدسہ (sesk1) میں بے جان انکشاف کا جذبہ اور شبیہ تشبیہ کا مناسب جذبے کے تناسب سے مطابقت رکھتا ہے، نہیں بلکہ قابل قدرلطافت کے ساتھ بالکل گھل مل گیا ہے۔ مدعا کے لئے پٹرارکن سانٹ (petrarcen sonnet) کی گنجائش کو اس سے زیادہ ماہرانہ طور پر پہلے بھی عمل میں نہیں لایا گیا ہے۔ ثمن اور مسدسہ دونو ں کا اپنا اپنا الگ صعودہے۔ پورے سانٹ کے جذبے اور تشبیہ کے تناسب کی دونوں حصوں میں تکرار کی گئی ہے۔ پہلے حصے میں مشتاقانہ توقع اور ضعیف قیاس کو دوسرے حصے میں۔ Till I heard Chapman speak out loud and bold کے ذریعہ کامیابی کے ساتھ ختم کردیا جاتا ہے۔ جہاں کے حقیقی اثر کی تکرار ناممکن ہے کیونکہ چیپ مین کے ہومرؔ کو دریافت کیا گیا ہے اور اس دریافت کو مٹایا نہیں جا سکتا ہے۔ تاہم اس کے مرادف کو وجدانی عبقریت اور تخیل نظیر کے ذریعہ احاطہ کیا گیا ہے۔ لامحدود خلائی خاموشی کا خیال پہلے ہی دلایا جاتا ہے اور اس مطلق خاموشی کے مقابل کورٹز کی خاموشی بادل کی گرج جیسی معلوم ہوتی ہے۔
یہ تجزیہ اس شکل میں آہنگی کو آشکار کرتا ہے جس کا ہم پر اتنا عجیب و غریب اثر ہوتا ہے۔ مڈلٹن مرےؔ Middleton Murry پہلے اس اثر کو بیان کرتا ہے جو پیدا ہوتا ہے اور اس کے بعد ان ذرائع کو جو کیٹسؔ اس اثر کو پیدا کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ یہاں پر جذبہ جوش کا ہے اور وہ جوش اس دریافت سے پیدا ہوتا ہے جو شاعر نے کیا ہے۔ اس لئے مستعملہ تشبیہ ہوئی کھوج اور دریافت کی اور یہ تشبیہ تناسب کے ساتھ مل کر اس شدید جوش کو ہم تک پہنچاتی ہے۔ کیٹسؔ نے چیپؔ مین کے ہومرؔ کو پڑھ کر جو باقاعدہ ذاتی تجربہ حاصل کیا ہے، اسے اس نظم میں شامل کرنے، تجربے سے ہم آہنگ کرانے اور تجربے کو بیان کرنے کے کام پر پوری توجہ مرکوز کردی ہے۔ اور چونکہ نظم بالکل موزوں ہے اس لئے وہ تجربہ کامیابی کے ساتھ قارئین تک پہنچ جاتا ہے کیونکہ عموماً کسی فن کی ترسیل تاثیر فنکار کی اپنی تسکین اور موزونیت کے شعور سے مطابقت رکھتا ہے۔ یہ خود اس کی اپنی باقاعدگی کی وجہ سے ہوتا ہے، کہا گیا ہے کہ فن در اصل اظہار کا ایک ذریعہ ہوتا ہے اور اظہار ہی ترسیل (Communication) ہے۔
کسی فنکار کی تکنیک اس کے فن کو تجربے کے بعینہ مطابق بنانے کا محض ایک ذریعہ ہوتا ہے، لیکن تجربے اور تکنیک کے درمیان یہ مطابقت قارئین پر اثر انداز کیوں ہوتی ہے؟ جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے فنکار ایک نارمل انسان ہوتا ہے۔ اس لئے اس کے تجربات بھی نارمل ہوا کرتے ہیں۔ اس کے تجربات ہمارے تجربات سے قدر میں مختلف ہوتے ہیں ماہیت میں نہیں۔ اس کی تحریکیں ہماری تحریکوں کے مشابہ ہوتی ہیں اور یہی بنیادی مشابہت ہے جو ترسیل کو آسان بنا دیتی ہے اور جو اس مسرت کی بنیاد بھی ہوتی ہے جو ہمیں فن پارے سے ملتی ہے۔ یہ پہلے ہی ثابت کیا جا چکا کہ آدمی صرف اپنے وجود سے مطمئن نہیں رہتا۔ وہ زندگی کی محتویات کی دلچسپی اور الملیت کو عزیز جانتا ہے اور اس دلچسپی اور الملیت کو جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے ممکن بناتے ہیں۔ فنون میں ہم اپنی ناکام خواہشوں کی مفروضہ تسکین نہیں تلاش کرتے بلکہ بھر پور زندگی اور روحانی سالمیت کی تلاش میں ہم فنون کے تہہ تک پہنچتے ہیں اور تکنیک کی اہمیت اس لئے ہے کہ تکنیک کی کامیابی پر فنکار کے تجربوں میں ہماری کامیابی شرکت اور روحانی سالمیت کی تسکین کا انحصار ہوتا ہے۔
حاشیے
(1) The meaning of art
(2) Poetry and crisis
(3) The Principles of Literary Criticism
(4) The Principles of Literary Criticism
(5) Havelock Ellis
(6) The Principles of Literary Criticism
(7) The Principles of Literary Criticism
(8) ’’Preface of the Lyrical Ballads‘‘
(9) Hirsch’’ Genious @ creative intelligence‘‘
(10) ’’The Principles of Literary Criticism‘‘
(11) ’’The Principles of Literary Criticism‘‘
(12) ’’Studies in keats‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.