فنکار اور لاشعور
فرائڈؔ لکھت اہے کہ ’’آپ التباس کے شکار ہیں کہ آپ کو نفسی آزادی حاصل ہے اورآپ اس سے دست بردار ہونا نہیں چاہتے۔ مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ یہاں پرآپ کے نظریے میں مجھے اختلاف ہے۔‘‘ 1 دبستانِ فرائڈ آزادی کو مسترد کرتا ہے اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے نفسی عقیدۂ جبر کو بہت وثوق کے ساتھ پیش کر دیا ہے۔ تحلیل نفسی نے درحقیقت جن چیزوں کی تشریح کرنے کی کوشش کی ہے، وہ ناکام کوششیں خواب اور اعصابی علامات جیسے مظاہر ہیں۔ ڈلبیز لکھتا ہے، ’’کون ذی فہم شخص ایسا ہے جس نے یہ انکار کیا ہو کہ حقائق مذکور طے شدہ ہیں اور اس سلسلے میں ان کا تعلق اختیار سے ہوتا ہے؟‘‘ 2یہ حقیقت کہ اعصابی مریض کے حرکات کا تعین اس کے مخصوص گرہ (Complex) کے ذریعہ ہوتا ہے، اس بات کو ثابت نہیں کرتی کہ نارمل آدمی کو آزادیٔ عمل نصیب نہیں ہوتی۔
خود فرائڈؔ یہ تسلیم کرتا ہے کہ نفسی عقیدۂ جبر کی حقیقت کو تحلیل نفسی کے نتائج کے ذریعہ تجربے کی رو سے ثابت نہیں کیا جا سکتا، جیسا کہ فرائڈؔ نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ خلقی اخلاق جیسی چیزنہ بھی ہو سکتی ہے لیکن اس سے یہ انکار کا جواز نہیں ہوتا کہ اچھے اور بُرے کے درمیان تمیز کرنے کی طبع زاد اور فطری صلاحیت ہمارے پاس نہیں ہے، اس صلاحیت کی موجودگی کو قبول نہ کرنا اتلاف عقل کا مترادف ہوتا ہے۔ ڈالبیزؔ لکھتا ہے کہ، ’’یہ عجیب وغریب ہے کہ کوئی اس چیز سے انکار کر سکتا ہے کہ انسان محض اس وجہ سے وہ اپنی ذہانت کو استعمال کرتا ہے، یہ محسوس کرنے کا اہل ہوتا ہے کہ دومختلف اطوار کی قدر مختلف ہوتی ہے۔ ہم ایک معمولی مثال لیں۔ یہ احساس کرنے کے لئے خود کو دھوکا دینے سے دھوکا نہ دینا زیادہ بہتر ہے۔ ابتدائی ذہانت سے زیادہ کسی اور چیز کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ 3 اور وہی ابتدائی ذہانت یہ بھی اندازہ کر سکتی ہے کہ خود کو دھوکا دینے یا اس سے باز رہنے کے لئے ہم آزاد ہیں۔ مطلب یہ کہ ہم لاشعور کے ہاتھوں میں محض ایک مجبور شکار نہیں ہیں۔
ماہرین تحلیل نفسی اسے اس طرح لیتے کہ سبھی انسان ایک نفسیاتی عقیدۂ جبر کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں اور اس عقیدۂ جبر میں محرکات لاشعور میں بحفاظت پڑے رہتے ہیں۔ رچرڈ مارچ لکھتا ہے کہ، ’’اگر ایسا ہوتا تو تمام اقدار اور فیصلے کو نفسیاتی تعین کنندگان کے حوالے کردینا پڑتا اور ان تعین کنندگان کی سمت، مقصد اور مقصود (اگر لاشعور کی نسبت سے مقصد کے متعلق بات کرنا ممکن ہو۔ ) اجنبی اور بظاہر ناقابل ادراک ہیں؟‘‘ 4 اس طرح ہمیں لا ینحل مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انسان اپنے افعال کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس ذمہ داری میں یقین کرنے سے انکار کا مطلب زندگی کو بے معنی بنا دیتا ہے۔ یہ نفسیاتی عقیدۂ جبر تحلیل نفسی کا ایک مفروضہ ہے اور انسانی ذہانت کی صریح نفی اور ہمارے تجربے کی تردید ہے۔
عام انسانی ذمہ داری کا یہ مسئلہ فنکاری کی ذمہ داری کے مسئلہ کے ساتھ وابستہ ہے اور اسی سے ہمارا فوری سروکار ہے۔ ماہرین تحلیل نفسی کے مطابق یہ نفسیاتی عقیدۂ جبر فنکار پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ ایک انسان کی حیثیت سے فنکار کے افعال پر اور فنکار ہونے کے ناطے اس کے محرکات پر بھی یہ اثرانداز ہوتا ہے۔ اس کی ذمہ داری فنکار پر عائد نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ اپنے نفس میں عمل کرنے والی قوتوں سے حقیقی طور پر ناواقف ہوتا ہے۔ ’’عقل سے وہ یہ سمجھ سکتا ہے کہ اس کی مراد کیا ہے لیکن جذباتی طور پر اسے اس کا کوئی علم نہیں ہو سکتا کہ وہ کسی خاص سمت میں کیوں جانا چاہتا ہے یا یہ کہ اس کے نفس میں وہ کیا چیز ہے جو اسے ایسا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اسے اس کا علم ہو بھی نہیں سکتا ہے کیونکہ یہ مجبوری اس کے شعور کی گہرائی میں پوشیدہ رہتی ہے اور اسے اس کے فہم وادراک سے باہر ہی رہنا چاہئے۔ یہی وہ خفیہ لاشعوری محرک ہے جو اس کے خیال اور احساس کو تخلیق کرتے وقت اور اس کی روزانہ زندگی کے افعال کو متعین کرتا ہے اور اس دلیل کے مطابق ماہر تحلیل نفسی کو اسی بات کی تائید کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے کہ فنکار اپنی فنی تخلیق کے لئے اخلاقی طور پر ذمہ دار نہیں ہوتا اور یہ کہ وہ گویا اس رویہ کو اپنانے پر مجبور ہوتا ہے۔‘‘ 5
فنکار کی غیرذمہ داری کے اس رویہ کو قبول نہیں کیا جا سکتا ہے۔ فنکار اعلیٰ ذہانت کی علامت ہوتا ہے، اس لئے وہ بہت زیادہ ذمہ دار ہوتا ہے۔ فرائڈؔ انسانی فطرت میں الملیت کی تحریک کی موجودگی سے انکار کرتا ہے۔ ’’ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لئے اس اعتقاد سے کنارہ کشی مشکل ہوگی کہ خود انسان کے اندر الملیت کے لئے یہ تحریک موجود رہتی ہے جو اسے ذہنی قوت اور اخلاقیاتی تصعید کی موجودہ بلندی پر لے آتی ہے لیکن ایسی کسی داخلی تحریک کے وجود پر یقین نہیں کرتا اور اس خوش کن التباس کو قائم رکھنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔‘‘ 6 الملیت کی طرف تحریک کی موجودگی کوئی خوش کن التباس نہیں ہوتا۔ یہ خوش کن ضرور ہے لیکن التباس نہیں۔ یہ تحریک کوئی التباس نہیں ہے۔ اس کا ثبوت ثقافتی حالت کے لئے انسانی خواہش سے ہی مل جاتا ہے۔ الملیت کے لئے ہماری خواہش کی ٹھوس شکل ہوتی ہے۔ وہ فنون جو ثقافتی حالت میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں، وہ اکملیت کی طرف اس تحریک کی حقیقی نوعیت کا کافی ثبوت مہیا کر دیتے ہیں۔۔۔ ’’اچھا فن میں، چاہے وہ کسی عہد یا ملک کا ہو، یہ اہم ترین خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ مواد کو نامکمل حالت سے تکمیل کی حالت میں تبدیل کرنے کی فنکار کی جدوجہد کا صریحی ثبوت ہوتا ہے۔‘‘ 7 یہ فطرت انسانی میں اکملیت کی طرف تحریک کی موجودگی کا بھی صریحی ثبوت ہوتا ہے۔
شاعری کا وجدان واہمہ کی دنیا یعنی لاشعور سے آتا ہے۔ اے ڈبلیو را مسے لکھتا ہے، ’’کوئی عظیم شاعری اس وقت تحریر میں نہیں آ سکتی ہے جب تک کہ شاعر کی زندگی کی عظیم قوتِ عمل میں سے کچھ یا کم سے کم ایک لاشعوری حالت میں نہ ہوں۔ لاشعوری قوتوں کا اخراج ضروری ہے اور بعض دماغوں سے ان کا اخراج شاعری کی شکل میں ہوتا ہے۔۔۔‘‘ زیادہ تر شاعری انفرادی لاشعور سے پیدا ہوتی ہے لیکن رزمیہ شاعری نسلی لاشعور سے پیدا ہوتی ہے اور ان کی تخلیق کے لئے قریبی اجتماعی اتحاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک تنہا فرد رزمیہ نہیں لکھ سکتا ہے۔ ہومر جیسے خیالات کے لئے اشتراکی تصنیف کی میں وکالت نہیں کر رہا ہوں۔ اجتماعی یا نسلی لاشعور کا اظہار کسی ایک فرد کے ذریعہ بھی ہو سکتا ہے لیکن یہ اس کا اجتماعی احساس ہوتا ہے جس کا اظہار ہوتا ہے، اس کی انفرادیت کا نہیں۔ عہد جدید کا آخری رزمیہ پیرائائز لوسٹ (Paradise Lost) کا تعلق اسی زمرے سے ہے۔ یہ اجتماعی مذہبی جذبہ کا اظہار تھا جو اس وقت انگلستان اور اس کا چستان کی قومی زندگی میں ہلچل مچائے ہوئے تھا۔‘‘ 8
فنی تخلیقی میں لاشعور اور اجتماعی لاشعور کا جو کردار ہے، اس کا سیدھے سادے انداز میں یہاں پر ذکر ملتاہے۔ اب یہ ہماری غرض ہے کہ فنی تخلیقات میں لاشعور اور نام نہاد اجتماعی لاشعور کے کردار کا جائزہ لیں۔ ماہر تحلیل نفسی کا معمول ہے کہ اپنے اصولوں کی حمایت کے لئے خود ایسے فنکاروں سے اقتباسات پیش کرتے ہیں جو کم ذمہ دارانہ لمحات میں ایسی باتیں کرتے ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے گویا بعض ایسا پراسرار کارند یا وسیلہ ہے جو ان کے لئے ان کا کام کر دیتا ہے۔ مثلاً سائرل برٹ 9 (Cyril Burt) نے ایسے کچھ اقتباسات کو جمع کیا ہے،
اسٹیونسنؔ (Stevenson)، ’’میرا اصلی کام بعض نادیدہ شریک کار کرتا ہے جسے میں اپنے دماغ میں مقفل کرکے رکھتا ہوں۔۔۔ یعنی دماغ کی وہ ننھی مخلوقات میرے لئے آدھے کام کو اس وقت کر دیتے ہیں جب میں سوتا رہتا ہوں اور بہر امکان بقیہ نصف اس وقت کر دیتے ہیں جب میں بالکل جگا رہتا ہوں۔۔۔ اور غفلت میں میں یہ سمجھتا ہوں کہ میں نے یہ کام خود کیا ہے۔ اپنے لئے۔۔۔ جسے میں کہتا ہوں، میرا شعوری ایغو، ہیٹ اور بوٹ والا آدمی، وہ آدمی جس کا ضمیر اور اوجھل ہوتا ہو توازن رکھنے کی میز پر ہوتا ہے۔ میرا یہ فرض کرنے کو جی چاہتا ہے کہ وہ فنکار بالکل نہیں ہے بلکہ ایک مخلوق ہے جو ایسا بے ذوق ہے جیساکہ پنیر فروش یا خود پنیر۔‘‘
والٹیرؔ (Voltaire)، ’’کیا وہ میں تھا جس نے اسے لکھا ہے؟‘‘
جارج الیٹؔ (George Eliot)، اس نے یہ اقرار کیا تھاکہ جب وہ آدم بیدی (Adam bede) لکھ رہے تھے تو ایسا لگ رہا تھا، ’’گویا کسی دوسرے دماغ نے اس کے قلم کو لے لیا تھا اور اس کی رہنمائی کر رہا تھا۔‘‘
اے۔ ایؔ ہاوسمین (A. E. Housman)، میرے خیال میں شاعری کی تخلیق معروف سے زیادہ ایک مجہول اور غیرارادی عمل ہے۔۔۔ لنچ میں ایک پاٹ بیر شراب پی کر۔۔۔ بیئر دماغ کے لئے مسکن ہے اور میری سہ پہریں میری زندگی کا سب سے کم ذی فہم حصہ ہوا کرتا ہے۔ میں گھومنے چلا جاتا ہوں، جیسے ہی میں چلتا جاتا ہوں، کسی خاص چیز کے متعلق سوچے بغیر، اس وقت میرے ذہن میں اچانک اور ایک عجیب جذبہ کے ساتھ، بعض اوقات ایک یا دو مصرع اور بعض اوقات ایک ساتھ پورا بند چلا آتا ہے، جو کوئی پوری نظم نہیں ہوتی۔ اس کے بعد عموماً خاموشی ہو جاتی ہے اور شاید پھر چشمہ ابلنے لگتا ہے۔ میں ابلنا اس لئے کہتا ہوں کیونکہ تحریکوں کا سرچشمہ جو دماغ میں ترقی پاتا ہے قمر ہوتا ہے۔‘‘
ایسے اقتباسات آسانی کے ساتھ بکثرت پیش کئے جا سکتے ہیں۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ بلیکؔ (Blake) نے اپنی عظیم ترین تصویر ’’خواب بیداری کی حالت میں بنائی۔‘‘ اور گوئٹےؔ نے اپنا بہترین ناول ’’حالت نوم‘‘ میں لکھا جس کا موازنہ وہ خواب خرام سے کرتا ہے اور کالرجؔ نے پوری نظم کبلا خاں خواب میں دیکھا وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اس نام نہاد شہادت پر غور کرنے سے قبل اس شہادت کے مقابلہ میں دوسری قسم کی شہادت پیش کرنا باعث دلچسپی ہوگا۔ اور وہ ہے الیٹ کے مضامین سے ایک عبارت۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ الیٹؔ محض ایک فنکار نہیں ہے، ایک ناقد بھی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ فنی تخلیق کے اس مسئلہ کے بارے میں اس نے فکر واحتیاط سے غور کیا ہے۔ یہ ہے وہ عبارت جو لمبی تو ضرور ہے لیکن تفصیلاً اقتباس کرنے کے لائق ہے،
’’فن کی تخلیق میں مصنف کی مشقت غالباً تنقیدی مشقت ہوا کرتی ہے۔ چھان بین کرنے، ملانے، قربت کرنے، درست کرنے، تصحیح کرنے اور پرکھنے کی مشقت۔ یہ پریشان کن مشقت جتنی تخلیقی ہوتی ہے، اتنی ہی ناقدانہ بھی ہوا کرتی ہے لیکن فنکار کی اس ناقدانہ مشقت کی عیب جوئی کرنے اور اس نظریہ کو پیش کرنے کا رجحان پایا جاتاہے کہ بڑا فنکار وہی ہے جو لاشعوری فنکار ہو اور جو لاشعوری طورپر اپنے پرچم پریہ الفاظ ’’تیر تکے سے کام چلاتا‘‘ لکھ لیتا ہے، ہم میں سے جو اندرونی طور سے گونگے اور بہرے ہوتے ہیں، انہیں منکسر ضمیر کے ذریعہ اس کا بدل مل جاتا ہے جو الہامی مہارت کے بغیر ہمیں وہ کرنے کا مشورہ دیتا ہے جسے ہم بہترین طور پر انجام دے سکتے ہیں اور ہماری یاد دہانی کراتا ہے کہ ہماری تخلیق کو نقائص سے حتی الامکان پاک رہنا چاہئے (وجدان کی کمی کی تلافی کے لئے) اور مختصر یہ کہ ہمارے بہت سارے وقت کو برباد کرا دیتا ہے۔ ہمیں اس کا علم ہے کہ تنقیدی شعور نے جو ہمیں مشکل سے دستیاب ہوتی ہے، زیادہ خوش قسمت اشخاص سے تخلیق کی گرمی کو اچانک بھڑکایا ہے۔۔۔ اور ہم یہ فرض نہیں کرتے کہ تخلیق میں چونکہ ظاہری تنقیدی کوشش نہیں کی گئی ہے اور اس لئے اس میں کوئی تنقیدی مشقت ہے ہی نہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ سابقہ محنت کشوں نے کیا تیار کیا ہے یا خالق کے ذہن میں تنقید کی طرح ہمہ دم کیا ہوتا رہتا ہے۔ 10
یہاں ہمیں ایسی سند ملتی ہے جو قطعی طور پر دوسری سندں کی تردید کرتی ہے اور چونکہ یہ کافی سوچ بچار کے پیش کی گئی ہے، اس لئے دوسری سندوں کے مقابلے میں جنھیں نسبتاً کم غوروفکر کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، زیادہ گراں قدر ہے۔ فنکار کو محنت کرنی پڑتی ہے اور سخت محنت کرنی پڑتی ہے۔ اس کی ساری پریشان کن مشقتیں شعوری ہوا کرتی ہیں، لاشعوری نہیں۔ وہ کوئی ساز ہوائی نہیں ہوتا جس کو لاشعور کی ہوا بجاتی ہے اور لافانی نغمات پیدا کرتی ہے۔ وہ کوئی مجہول عامل نہیں جو لاشعور کے حکم کی تعمیل کر رہا ہو۔ اس کا کام شعوری اور عمدی نوعیت کا ہوتا ہے جسے بعض اصولوں کے مطابق عمل میں لایا جاتا ہے ۰ تہیج، تشبیہات، تلازمات، علامات، احساسات، الفاظ کی ابتری کو ترتیب میں لایا جاتا ہے اور اس بے شکل چیز کو ایک مربوط شکل دی جاتی ہے اور یہ صرف شعوری طور پر کیا جا سکتا ہے۔ جانچ پڑتال کرنے، ملانے، مرتب کرنے، قلمزد کرنے، تصحیح کرنے اور جانچنے کی مشقت فنکار کی شعوری ذہنی مصروفیت ہوتی ہے، جس کی ہدایت اس کے کام کو صحیح ڈھنگ سے کرنے کی خواہش سے ملتی ہے۔
کام کو صحیح طور پر کرناہی زیادہ قابل لحاظ ظاہر امر ہوتا ہے اور دوسرے تمام امور کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔۔۔ کم سے کم وقتی طور پر۔ جب فنکار اپنی توجہ کام پر مرکوز کرتا ہے تو اس وقت وہ دوسرے تمام امور سے غافل ہو جاتا ہے۔ گوئٹےؔ کی خوابیدہ بے خودی یا بلیکؔ کی فاعلانہ نیند کی حالت غالباً یہی برتر ارتکاز توجہ تھی، کوئی حقیقی بے خودی یا نیند نہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بعض فنکاروں کے لئے ظاہری کوشش کی مدت طویل نہ ہو۔ شعور کی صرف ایک جھلک ہو، لیکن ہمیں یہ نہیں معلوم کہ کسی فن کی تخلیق میں کیا کیا سابقہ کوششیں کارفرما رہی ہیں۔ ماہرین تحلیل نفسی بھی مجھے کسی قدر خشک ذہن لوگ معلوم ہوتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اسٹیونسنؔ، والٹیرؔ، جارجؔ، الیٹ نے یہ خواب بھی نہیں دیکھا ہوگا کہ ان کی تخلیقات کو سطحی طور پر لیا جائےگا۔ یہ ظاہر ہے کہ وہ لوگ مجازی طرز میں اور کسی قدر مبالغہ کے ساتھ گفتگو کر رہے تھے۔
والٹیئرؔ کے یہ کہنے کا مطلب ہے کہ ’’کیا حقیقتاً وہ میں تھا جس نے وہ کتاب لکھی ہے‘‘ یہ نہیں تھا کہ وہ سمجھتا تھا کہ وہ کتاب اس نے نہیں، بلکہ کسی لاشعوری قوت نے لکھی تھی۔ یہ محض اس اطمینان کا اظہار ہے جس کا احساس فنکار کو اس وقت ہوتا ہے جب اس کی تخلیق خصوصی طور پر اچھی ہوتی ہے۔ یعنی ایک ایسا اطمینان جس میں قدرے تعجب کے عنصر کی بھی آمیزش ہوتی ہے۔ اس میں خودستائی کی بھی علامت ہوتی ہے یعنی ایک قسم کی مطمئن بالذات بناوٹی ہنسی یا شاباشی جو مترادف ہوتی ہے، یہ کہنے کی کہ ’’میں ایک حیرت انگیز شخص ہوں۔‘‘
’’ہمیں لاشعور کو اس لئے تسلیم کرنا ہے کیونکہ عملی شہادت کی بنیاد پر یہ ایک ناگزیر مفروضہ کا کام دیتا ہے، جس سے نفسی اعمال سلجھایا جاتا ہے۔‘‘ 11 لیکن لاشعور خواہ مخواہ دخل دینے والا زبردست ظالم نہیں ہے جیسا کہ ماہرین تحلیل نفسی نے اسے سمجھ رکھا ہے۔ لاشعور ملٹنؔ کے تصور ہیولیٰ کی طرح کا کوئی خوفناک شہنشاہ نہیں ہوتا ہے جو شعور کی چھوٹی اور کمزور سلطنت پر حملہ کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہوتا کہ ہر طرح ہلچل برپا ہو جائے۔ یہ کوئی چالاک آدمی بھی نہیں ہے جو پردے کے پیچھے سے کٹھ پتلیوں کی ڈور کھینچ رہا ہو اور آزادانہ وارادی حرکت وعمل کا فریب پیدا کر رہا ہو جبکہ درحقیقت کوئی حقیقت آزادی نہ ہو، ہم کہہ سکتے ہیں کہ شعور کی تخلیق ہر فرد بشر اپنے مطابق کرتا ہے۔ یہ اس چیز سے بنتاہے جس کو فرد شعوری اور پورے طور پر عمل میں لانے، سلوک کرنے اور طے کرنے میں ناکام رہا ہو۔
احساسات، نقوش، محسوسات، حالات، خیالات الغرض وہ چیزیں جو دیکھی گئی، سنی گئی اور تجربے میں آئی ہیں، لیکن جنھیں شعور نے قطعی اور اطمینان بخش طور پر نہیں نبٹایا ہے، وہی وہ چیزیں ہیں جن سے انفرادی شعور کی تخلیق ہوتی ہے۔ ہمیں تصور کرنا ہے کہ شعور ان چیزوں کے سیلاب میں گویا غرق ہو گیا ہے جنھیں وہ اپنی شعوری زندگی کے مفاد میں استعمال نہیں کرسکتا ہے اور اس لئے یہ بہت سی چیزوں کو لاشعور میں ڈال دینے پر مجبور ہوتا ہے جن کا ہم کباڑخانہ سے موازنہ کرسکتے ہیں۔ ان میں سے بعض چیزوں کی ضرورت مستقبل میں پڑ سکتی ہے یہ چیزیں، اگر ضرورت واقعی پڑی اور فوری ہو، وہ استعمال کر سکتا ہے، باقی دوسرے ممکن ہے دوبارہ باہر نکل ہی نہ سکیں اور ہمیشہ کے لئے اس کباڑ خانہ میں بے مصرف پڑے رہیں اور ممکن ہے ان میں سے بعض چیزیں جن کو اس نے پس انداز کر دیا ہے، اشتعال پذیر ماہیت کے ہوں اور انہیں بے احتیاطی سے پس انداز کر دی اگیا ہے تو بہرحال امکان کم وبیش بڑے پیمانے پر آتش زدگی ہو سکتی ہے جو شعور کی عمارت کو جسے اتنے احتیاط کے ساتھ تعمیر اور آراستہ کیا گیا ہے، خاک کے ڈھیر میں تبدیل کردے۔ لیکن یہ آتش زدگی چاہے وہ کتنی ہی سنگین کیوں نہ ہو اور بعض مواقع پر یہ بہت ہی سنگین بھی ہو سکتی ہے، یہ ثابت نہیں کرتی کہ کباڑ خانہ بقیہ عمارت سے زیادہ اہم ہے۔
میرا مقصد یہ نہیں کہ کباڑ خانہ سے موازنہ کو حقیقی معنوں میں لیا جائے۔ میں محض یہ بتا رہا ہوں کہ وہ چیز جسے فرد کا شعور چھوڑ دیتا ہے، اس کے لاشعور کی تخلیق کرتی ہے، لیکن یہ کباڑ خانہ اس چیز کی موزوں تشبیہ نہیں معلوم ہوتی ہے جسے فرائڈؔ ماقبل شعور کہتا ہے۔ فرائڈؔ کے مطابق لاشعور کی دو قسمیں ہیں، ’’ہمارا شعور دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک وہ جو مخفی ہوتا ہے لیکن شعور بننے کی صلاحیت رکھتا ہے اور دوسرا وہ جو دبا رہتا ہے اور عام طور سے شعور بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔۔۔ جو مخفی رہتا ہے اور محض توضیحی معنوں میں لاشعور رہتا ہے، اسے ہم ماقبل شعور کہتے ہیں۔ لاشعور کی اصطلاح کو ہم حرکی طورپر لاشعور کے لئے مخصوص رکھتے ہیں۔‘‘ 12
فنکار کا تعلق ماقبل شعور سے ہوتا ہے جو ان خیالات اور تشبیہات کے لئے مخزن بن جاتا ہے جنہوں نے اسے اس وقت راغب کیا ہوگا، جب ان سے پہلی مڈبھیڑ ہوئی ہوگی لیکن فوری استعمال کی ضرورت پیش نہیں ٓئی۔ جب وہ کسی بااثر تہیج سے متاثر ہوتا ہے تو یہ چھوڑے ہوئے خیالات اور تشبیہات تاریک گوشے سے باہر آ جاتے ہیں اور اس کے شعور کو دستیاب ہو جاتے ہیں۔ سارے خیالات اور تشبیہیں نہیں جنھیں پس انداز کر دیا گیا تھا بلکہ صرف وہی جو ایک دوسرے کے ساتھ کسی پراثر مماثلت کے ذریعہ مربوط رہتے ہیں۔ دوسری قسم کے شعور سے یعنی حقیقی لاشعور سے ہمارا کوئی کام نہیں ہے جو کہ خیالات کا خزانہ ہوتا ہے اور تعریف کے لحاظ سے ماہر تحلیل نفسی کی مدد کے بغیر شعور بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
فرائڈؔ لکھتا ہے کہ ’’ہم نے دیکھا ہے یعنی ہم ماننے پر مجبور ہوئے ہیں کہ بہت سے قوی ذہنی اعمال یا خیالات ہوتے ہیں جو خود شعوری ہوئے بغیر دماغوں میں ایسے اثرات پیدا کرسکتے ہیں جو عام خیالات پیدا کرتے ہیں۔‘‘ 13 اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ یہ خیالات وجود رکھتے ہیں تو ان کا وجود ہمارے نقطۂ نظر سے غیرمناسب ہے کیونکہ فرض کیا جاتا ہے کہ یہ خیالات لاشعوری رہتے ہیں اور اسی لئے فنکار کے لئے یہ کسی کام کے نہیں ہوتے کیونکہ جیسا کہ ہم نے بار بار زور دیا ہے، فنکار اپنے مواد کو شعوری طور سے بعض شعوری فنکارانہ مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے۔ وہ کسی بھی ایسے مادے کو استعمال نہیں کر سکتا ہے۔ وہ خیال یا شبیہ کہاں سے آتی ہے، اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ The Rime of the Ancient Mariner اس کی ایک برمحل مثال ہے۔
لیونگسٹنؔ لوز (Livingston Lowes) نے (The Road to a xanadu میں وثوق کے ساتھ یہ دکھایا ہے کہ کس طرح کالرجؔ نے نظم میں پائی جانے والی اہم چیزوں کو ان کتابوں سے مستعار لیا ہے جنھیں وہ شدت سے پڑھا کرتا تھا اور کس طرح علیحدہ تشبیہیں اور خیالات ذہن سے باہر نکلنے اور نظم میں استعمال کئے جانے سے قبل اس کے لاشعور میں پڑے رہے۔ یہ خیالات اور تشبیہیں پہلے شعوری تھیں اور شاعر کی ضرورت پر دوبارہ شعوری شکل میں آنے سے قبل لاشعور میں ڈال دی گئی تھیں۔ لاشعور یا گہرے کنویں میں جیسا کہ Livingstone Lowes اسے کہتا ہے، یہ چیزیں محض خوابیدہ نہیں رہتیں۔ اس کے مطابق بعض قسم کی حرکتیں ہوتی رہتی ہیں جنھیں وہ Poincare کے الفاظ میں اس طرح بیان کرتا ہے، ’’وہ مچھروں کے جھنڈ کی طرح یا اگر ہم زیادہ عالمانہ مشابہت پسند کریں تو گیسوں کی حرکی نظریے میں گیس کے سالموں کی طرح فضا میں ہر طرح تیرتے پھرتے ہیں۔۔۔‘‘
’’ان کے باہمی تصادم سے نئے التصاد پیدا ہو سکتے ہیں۔‘‘ لیکن اس لاشعوری کام کا نتیجہ کوئی فن پارہ نہیں ہو سکتا ہے۔ فن پارے میں ضرورت ہوتی ہے حسن ترتیب، توجہ، قوت ارادی اور بالآخر شعور کی۔ The Ancient Mariner کے تفصیلی تجزیئے کے بعد لیونگسٹنؔ لیوس ہمارے سامنے اپنے نتائج پیش کرتا ہے The Rime of Ancient Marine کے پیچھے تاثرات کی کثرت ہے جن کی لطافت اور تنوع پر یقین نہیں ہوتا۔ اس میں شک وشبہات کی کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن یہ نظم تاثرات کا ویسا مجموعہ نہیں ہے جس طرح کہ ہیرے کے ذروں کا مجموعہ اس درخشاں ذرات کا مجموعہ ہوا کرتا ہے اور نہ ہی شاعر محض ان تاثرات کے تسلیم وترسیل کا سریع التاثیر ذریعہ ہوتا ہے۔ اس نظم کی تہہ میں تاثرات کے امتزاجات اور آمیزشوں کی لاتعداد مرکبات بھی ہیں جنھیں شعوری ذہنی افعال کی سطح کے نیچے لایا گیا ہے۔ اس میں بھی اعتراض کی گنجائش نہیں ہے لیکن یہ نظم لاشعوری طور سے ظاہر ہونے والی شبیہوں کا سنگم نہیں ہے جیسا کہ پانی کا تالاب منتشر قطروں کے اتصال سے بنتا ہے اور نہ ہی شاعر خفی دنیا میں کوئی خواب خرام ہے۔ نہ تو شعوری تاثرات اور نہ ہی ان کے لاشعوری تعبیرات نظم کی تشکیل کرتے ہیں۔ وہ اس سے جدا نہیں نہیں ہیں لیکن یہ ایک ایسی ہستی ہے جس کی تخلیق وہ نہیں کرتے۔
اس کے برعکس ہر تاثر ایک کل کا جز ہے جسے ہر اہم حصے میں ایک کل کی شکل میں قبل سے دکھایا گیا ہے۔۔۔ ایسا کُل جو موثر تخیلی خاکے سے بنا ہے۔ اس نظم کا بہترین عنصر اس کی شکل (Form) اور وہ شکل انتخاب کی دستکاری، رہنما ذہنیت اور اختراعی دماغ کی عرق ریزی ہوتی ہے۔ میرے ذہن میں جو چیز ہے وہ ہے اس مبہم مگر قوی اثر کو کم سے کم کرنا لیکن جس توانائی نے اس نظم کو چمکدار تشبیہوں کے اجتماع کے بجائے نظم بنایا ہے وہ ابتری کے درمیان کے سوچنے کی انسانی دماغ کی صلاحیت اور اس کے پیچھے ابتری کو وضاحت دینے کی پرزور قوت تھی اور درخشاں تاثرات اور ان کے خفی سنگم پردہ ’’دن کی طرح چھا جاتی ہے، جیسے کہ ایک آقا اپنے غلام پرچھا جاتا ہے۔‘‘
ساخت کی زبردست قوت، ترکیبی تشبیہوں کو چاہے ان کا مبنع جو بھی ہو، ایک ایسی ترتیب کے مطابق بنادیا جاتا ہے جس کا تعین اس تصور کے دریعہ ہوتا ہے جو نظم کی تخلیق کرتا ہے۔ وہ تشبیہات جو نظم میں ستارے بھر دیتی ہیں، ان کا معنی اور حسن اس شکل کی وجہ سے ہوتا ہے جو کسی منصوبہ کے ارتقاء کی بنا پر اس کے اپنے ہوتے ہیں۔ آرنلڈؔ کے مطابق ’’کولرجؔ نے اسلوب بیان کو اپنے مقصود کے تابع کر دیا ہے۔‘‘ 14
یہ تقریباً صداقت ہے۔ فن میں اسلوبِ بیان کو ہمیشہ عمداً اس چیز کا تابع کر دیا جاتا ہے جس کا اظہار مقصود ہوتا ہے، جیساکہ ہم نے کہا کہ فنکار ابتری کو ترتیب بخشتا ہے۔ وہ بے میل عناصر کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرتا ہے اور وہ ایسا اس لئے کر سکتا ہے کیونکہ وہ اپنے فن کا مالک ہوتا ہے۔ کوئی بے یار ومددگار غلام نہیں لیکن ماہرین تحلیل نفسی کے پاس کبلا خاں یعنی خواب کی نظم جس کی تخلیق کالرجؔ نے خواب میں کی ترپ کا ایک پتّا ہے۔ لیونگسٹنؔ بھی یہ تسلیم کرتا ہے کہ یہ نظم ایک استثناء لگتی ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ ’’کبلا خاں میں مربوط اور باہم وابستہ تشبیہات ایسے لاابالی پن اور عزم وجلال کے ساتھ لہراتی ہیں جیسے جنبش کرتے ہوئے اور لڑکھڑاتے ہوئے انگلستان کے جھنڈے اور ان کے جلوس جتنے بے مقصد ہیں اتنے ہی شاندار بھی ہیں۔ Ancient Mariner میں فکر شان وشوکت کے ساتھ موجود ہے۔ کبلا خاں میں اس کا کنٹرول ختم ہو گیا ہے۔‘‘ 15
یہاں ہمارے پاس فن کا ایسا نمونہ ہے جس کی تخلیق بغیر کسی شعوری ضبط کے کی گئی تھی جبکہ فکر نے اپنی اصول پسند قوت ترک کر دی اور جب انضباط توجہ اور خواہش یعنی کہ شعور موجود نہیں تھا، لیکن یہ نظم کوئی استنثاء نہیں ہے۔ جب ہم سوتے ہیں تو یہ شاذ ونادر ہی ہوتا ہے کہ ہم ایک قدم میں شعور سے لاشعور میں چلے جاتے ہیں۔ سونے اور چلنے کے درمیاں دھندلکے کی سی ایک کیفیت ہوتی ہے جب کہ ہم خوابیدہ نظر آ سکتے ہیں لیکن شعوری دماغ اپنی قوتوں کو ترک نہیں کرتا۔ سونے کے بعد مکمل طور سے جاگنے سے قبل ایسے ہی دھندلکے کی سی کیفیت میں رہتے ہیں۔
میرے خیال میں یہ ہر آدمی کے تجربے میں آتا ہے کہ اس دھندلکے کی سی کیفیت میں دماغ کام کرتا رہتا ہے۔ خاص کر سونے سے قبل ہم اگر بعض چیزوں کے خیال میں مصروف رہے یا اگر کوئی چیز ہمیں شدت سے متاثر کر گئی یا پسند آگئی ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ دھندلکے کی اس کیفیت میں دماغ بہت تیزی کے ساتھ کام کرتا ہے، بہت بے قراری کے ساتھ گویا یا ہماری زندگی کا ہی انحصار اس سرگرمی پر ہو۔ دماغ پر ننھی ہتھوڑی کی آواز کو کوئی بھی تیزی سے چلتے ہوئے سن سکتا ہے۔ دماغ کام کر سکتا ہے اور یکسانیت کے ساتھ کام کرتا ہے لیکن ذہنی عمل کی غضب ناک اور بظاہر شدت کے مقابلے میں نتیجہ بہت ہی تھوڑا برآمد ہوتا ہے۔
اس حالت میں ایک آدمی کسی مسئلہ کا حل نکالنے کی کوشش کرتا ہے، تقریر تیار کر سکتا ہے یا فن پارے کی تخلیق بھی کر سکتا ہے لیکن پوری طرح جاگنے کے بعد جو کچھ ہوتا رہا ہے اس کا محض ایک مبہم خاکہ باقی رہ جاتا ہے لیکن اثر جو کہ بہت واضح ہوتا ہے، بہت جلد ماند پڑجاتا ہے۔ غالباً اپنی وضاحت اتنے عرصہ کے لئے بھی قائم نہیں رکھ سکےگا کہ کوئی تفصیلاً لکھنا شروع کرے اور جو کام اسے منتج ہوگا وہ ذہنی عمل کی ظاہری شدت کے باوجود، بے قاعدہ، بے ترتیب اور نامکمل ہوگا۔ کالرجؔ کے ساتھ جو ہوا وہ یہ تھا۔ وہ مسکن دوا کے زیر اثر سو گیا تھا اور جب دوا کا اثر ختم ہو گیا تو وہ شعور اور لاشعور کے درمیان دھندلکے کی سی کیفیت میں پڑا تھا اور اس کے دماغ نے تیزی کے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا۔ اس کا دماغ Purcha’ss Pilgrinage کے اس جملے سے سرگرم عمل ہو گیا۔
یہاں کبلا خاں نے ایک قلعہ تعمیر کرنے اور اس کے اندر ایک پُرشکوہ باغ لگانے کا حکم دیا اور اس طرح دس میل لمبی زرخیز زمین کو چہاردیواری سے گھیر دیا گیا۔‘‘ اور اس کا نتیجہ ایک نظم کی صورت میں نکللا۔ یہ سمجھنا آسان ہے کہ کوئی ہیجان یا سعی کا شعور کیوں نہیں ہے۔ اس حالت میں ذہنی سرگرمی تقریباً خودکار، بلاشرکت سعی، انضباط یاقوت ارادی معلوم ہوتی ہے۔ نظم کی وضاحت۔ ’’شبیہیں اس کے سامنے چیزوں کی طرح ابھریں۔ یاد داشت کی صراحت اور اس کا جلد مدھم ہو جانا یہ سب چیزیں ویسی ہی ہیں جیسا کہ ہونا چاہئے اور یہ اضافہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر کالرجؔ کو Porlock کا وہ شخص نہ بھی للکارتا تو وہ پوری نظم لکھنے کے قابل نہ ہوتا۔ آخر میں کچھ ماند پڑنے کا عمل ضرور واقع ہوا ہوگا، جو کیفیت میں نے ابھی بیان کی ہے وہ اس ٹکڑے کی خوبیوں سے مطابقت رکھتی ہے۔ ٹکڑے سے ادھورے پن کا خیال پیدا ہوتا ہے لیکن یہ ادھورا پن کسی حادثہ کا نتیجہ نہیں ہے۔ پورالک (Porlock) کا وہ آدمی اتنا قابل الزام نہیں تھا جیساکہ ناقدین کہتے ہیں۔ یہ ادھوراپن نظم میں خلقی ہے۔ ایک بے لوث قاری کو نظم بے ربط معلوم ہوتی ہے۔ مختلف حصے ڈھیلے ڈھالے طور پر منسلک ہیں اور فنکارانہ نہج پر نظم کی مزید ترقی ناممکن نظر آتی ہے۔
ایک نظم کُل ہونے کے بجائے یہ نظم تصویروں، ڈھیلے ڈھالے طورپر منسوب تصویروں کا ایک سلسلہ ہے اور آخری حصے میں روانی کی شدت میں نمایاں کمی ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ ذہنی عمل آہستہ آہستہ کم ہوتا گیا۔ تشبیہات کی مخصوص نوع۔ ان کی شدید وضاحت اور جس طرح ان میں سے ہرایک جدا نظر آتی ہے اور قارئین کی توجہ اپنی طرف کھینچی ہے، الگ الگ توضحیح فقروں کی جاذب توجہ اور یاد رکھنے کے قابل صفت ’’منور تفریحی گنبد‘‘ ، ’’برف کے غار‘‘ ، ’’رومانی غار‘‘ ، بے کاراں کھوہ‘‘ ، ’’تاریک سمندر‘‘ ، ’’لہر دار چشموں کے باغات‘‘، ’’خوشبو پیدا کرنے والے درخت‘‘ ، ’’پہاڑوں جیسے قدیم جنگلات‘‘ ، ’’ہریاول کے سورج سے منور خطے۔ تشبہیات اورروانی، اپنے رواں اور بعض اوقات بے کل اثر کے ساتھ ایسا ظاہر کرتی ہیں کہ اس نظم کی تخلیق اس نیم شعوری حالت میں کی گئی تھی جب بظاہر شدید سرگرمی اور تناؤ کی حقیقی دھیماپن کا تناقص موجود ہے۔
The Ancient Mariner کے ترمیم شدہ ایڈیشن میں کالرجؔ نے ایک ذیلی عنوان کا اضافہ کیا ’’ایک شاعر کی محویت‘‘ (A Poet’s Reveris)) اس ذیلی عنوان کو دینے میں کالرجؔ نے حقائق کو نظرانداز کر دیا تھا۔ لیونگسٹنؔ لوس زور دے کر کہتا ہے کہ اگر۔ The Ancient Mariner میں کوئی ایسی چیز ہے جو بالکل نہیں ہے تو وہ ہے محویت 16 لیکن یہ ذیلی عنوان ’’کبلا خاں‘‘ کی بہت ہی اچھی تعریف ہوگا۔ لک Locke کہتا ہے کہ ’’جب ہمارے ذہن میں خیالات بغیر کسی تفکر کے امنڈنے لگتے ہیں تو یہی وہ چیز ہوتی ہے جسے فرانسیسی میں Reavery کہتے ہیں۔‘‘
خیالات کا سیلاب تو ہر شاعر کے ذہن میں ہوتا ہے لیکن شاعری میں وہ امنڈنا ختم ہو جاتا ہے۔ ’’کبلا خاں‘‘ میں وہ گبند انبساط کے سائے کی طرح تیرتے ہیں۔ متحرک اور جمے ہوئے خیالات اور شبیہ کے درمیان یہی فرق ان وجوہات میں سے ایک ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ادھیڑبن اور واہمہ کسی فن پارے یا اس کی اصل کی مناسب تعریف نہیں ہو سکتی ہے۔ فن پارے میں خیالات اور شبیہ کے متزلزل اور متناقص رو کے درمیان ایک منضبط کرنے والی شعوری توانائی کام کرتی رہتی ہے، جو انہیں قبول کرتے، مسترد کرتے ہوئے ایک دوسرے سے ہم آہنگ کرتی ہے اور ایک واضح شکل میں ڈھال دیتی ہے۔‘‘ 17 ان میں ادھیڑ بن سے مختلف نہ صرف آمیزش ہوتی ہے بلکہ مختلف عناصر کا اتحاد ہوتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں یہ مناسب طور پر ثابت کیا جاچکا ہے کہ ’’کبلا خاں‘‘ ترپ کا پتہ اس قدر نہیں ہے جتنا کہ اسے سمجھا گیا ہے۔ صحیح معنوں میں یہ رویائی نظم بھی نہیں ہے اور کسی بھی صورت میں یہ اس کا ثبوت بھی نہیں ہو سکتی کہ فنکارانہ عمل لاشعوری عمل ہوتا ہے اور یہ کہ فنکار اپنے مواد پر کوئی شعوری ضبط نہیں رکھتا ہے۔
انفرادی لاشعور کا وجود ہمارے لئے ایک مفید مفروضے کی حیثیت سے قابل قبول ہے۔ یہ مفید اس لئے ہے کہ اعصابی خلل کے شکار اشخاص کے سلسلہ میں یہ بعض مبہم نفسی اعمال کی تشریح کرتے ہیں اور اس لئے بھی کہ یہ کسی فن پارے کے بعض خصوصیات کی تشریح میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ لیکن اس میں وہ قوت نہیں ہوتی جو ماہرین تحلیل نفسی اس سے منسوب کرتے ہیں۔۔۔ کم سے کم فن پارے کی تخلیق میں تو اس کا اثر ہی نہیں ہوتا ہے، چاہے اعصابی خلل کے شکار اشخاص میں اس کا اثر کہنا ہی قوی کیوں نہ ہو اور خلل اعصاب میں مبتلا اشخاص کے ساتھ بھی اس کا اثر اس لئے ہوتا ہے کہ وہ لوگ شعور اور اپنی جبلت سے حاصل شدہ مواد کا استعمال اطمینان بخش طور پر کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ان کی نفسی زندگی میں جو پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں، وہ اس ناکامی کے براہ راست نتائج ہوتے ہیں۔ بعض ناخوشگوار حالات سے ان کا مقابلہ ہوتا ہے یعنی کہ بعض خواہشات جو ذاتی یاسماجی طورپر ناقابل قبول ہوتے ہیں۔۔۔ اور ان حقائق کو خود سے تسلی کرنے اور انہیں ہمت کے ساتھ سلجھانے کے بجائے وہ اخلاقی رو سے بزدلانہ طور پر حرکت کرنے لگتے ہیں، یہ ماننے سے انکار کر دیتے ہیں کہ ان کا وجود بھی ہے۔ بعد میں ان پر انتقام سوار ہو جاتا ہے اور وہ انہیں گناہ کی طرح پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اجتماعی لاشعور کے دوسرے مفروضے کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ماہرین نفسیات اس کی حمایت میں جو شہادت یا ثبوت پیش کرتے ہیں، وہ بہت معقول نہیں ہے۔ میلونووسکیؔ Malinowiski اس مفروضے پر اعتراض کرتا ہے اور اسے غلط ٹھہراتا ہے۔ اور میلونووسکیؔ ینگؔ کے مقابلہ میں زیادہ معقول ہے اور ہرحالت میں یہ مفروضہ ہم لوگوں کے مقصد کے لئے غیرمناسب ہے۔ یہ بتایا جا چکا ہے کہ فنکار اپنے لاشعور کا مجبور غلام نہیں ہوتا ہے۔ وہ ایک مجہول آلہ نہیں ہو سکتا ہے محض اس لئے کہ وہ ایک فنکار ہے۔
کسی فن پارے میں، خصوصاً عظیم فن پارے میں، ہمیں زندگی کے پیش نظر کے تجربات یعنی فنکار کے انفرادی شعوری تجربات نہیں ملتے بلکہ وہ خلقی تجربات ہوتے ہیں جیساکہ ہمیں بتایا جاتا ہے۔ ینگؔ لکھتا ہے کہ ’’تجربہ جو فنکارانہ اظہار کے لئے مواد فراہم کرتا ہے وہ ایک عجیب چیز ہوتا ہے، جو انسانی دماغ کے عقب میں پیدا ہوتا ہے۔ وقت کے اس عمق کا خیال دلاتا ہے جو ہمیں ماقبل انسانی ادوار اسے الگ کرتا یا روشنی اور تاریکی کے امتزاج سے پیدا مافوق انسانی دنیا پیش کرتا ہے۔ یہ خلقی تجربہ ہے جو انسانی فہم پر سبقت لے جاتا ہے۔ یہ لامتناہی عمق سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ خارجی سرد مہر، متنوع، آسیبی اور بےتکا ہوتا ہے۔
خلقی تجربات اس پردے کو سزا یا پارہ کر دیتے ہیں جس پر ایک سلجھی ہوئی اور آراستہ دنیا کا نقشہ کھنچا جاتا ہے اور جو کچھ کہ ہونے والا ہے اس کی لامحدود گہرائی میں جھانکنے کی اجازت دیتے ہیں۔ کیا یہ دوسرے عائین کا یا روح کے مبہم ہونے کا یا انسانی دور سے پہلے کی چیزوں کی ابتدا کا یا مستقبل کی نوزائیدہ نسلوں کا رویا ہوتا ہے؟ ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ وہ ان میں سے کوئی یا کوئی بھی نہیں ہے۔ خلقی تجربہ ہی فنکار کی خالقیت کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ اس کی پیمائش نہیں ہو سکتی ہے، اس لئے اسے کوئی شکل دینے کے لئے اساطیری تصورات کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ خود کوئی الفاظ یا شبیہ نہیں پیش کرتا کیونکہ اس کی شکل دھندلکی ہوتی ہے۔ یہ محض ایک پیش اندیشگی ہوتی ہے جو اپنے اظہار کی کوشش کرتی ہے۔ یہ اس گرد بار کی طرح ہوتا ہے جو ہر اس چیز کو جو دسترس میں ہوتی ہے پکڑ لیتا ہے اور اسے اوپر لے جاکر ایک مرئی شکل اختیار کر لیتا ہے۔۔۔ جو چیز رویت میں آتی ہے وہی اجتماعی لاشعور ہے۔‘‘ 18
یہ اقتباسات ینگؔ کے نظریہ کا خاصا واضح نقشہ پیش کرتے ہیں۔ یہ اجتماع لاشعور ہوتا ہے جو فنکار کی خالقیت کا منبع ہوتا ہے اور فنکار کو ایسے تجربے فراہم کرتا ہے جو خود فن پارے میں شامل ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ اجتماعی لاشعور ایک محرک شۓ ہے، ایک گردبار ہے جو اظہار چاہتا ہے اور اس میں کامیاب ہوتا ہے اور فنکار کومجبور کرتاہے کہ وہ اسے ایک جسمانی شکل دے۔ فنکار اس خلقی تجربے کو سمجھ نہیں سکتا ہے کیونکہ اس کی گہرائی تک پہنچنا مشکل ہے لیکن اس کی فطرت اور اہمیت کو سمجھے بغیر فنکار اس کو ایک کامیاب فنی شکل دے دیتا ہے اور چونکہ یہ اس کے عام تجربے سے مختلف ہوتا ہے، یعنی ان تجربات سے جو زندگی کے پیش نظر کے ہوتے ہیں، اس لئے فنکار اسے ایک شکل دینے کے لئے اساطیری تشبہیات کو اختیار کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔
ینگؔ اس معاملے میں فنکار کی مجبوری پر بار بار زور دیتا ہے کہ وہ ایک ایجنٹ، ایک آلہ کار، اجتماعی لاشعور کا غلام بن جاتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ ’’جب کبھی تخلیقی قوت غالب آتی ہے تو انسانی زندگی پر فعال خواہش کے مقابلے میں لاشعور کی حکمرانی ہو جاتی ہے اور وہ اسی طرح ڈھل جاتی ہے اور شعوری ایغو خفیہ دھار میں بہہ جاتا ہے اور واقعات کا مشاہدہ کرنے والے کے علاوہ کچھ نہیں رہتا۔ زیر عمل کام شاعر کا مقدر بن جاتا ہے اور اس کے نفسیاتی نشوونما کو متعین کرتا ہے۔
فاؤسٹؔ کی تخلیق گوئٹےؔ نہیں کرتا بلکہ گوئٹےؔ کی تخلیق فاؤسٹؔ کرتا ہے۔ یہ کہنا گوئٹےؔ نے فاؤسٹؔ کی تخلیق نہیں کی بلکہ فاؤسٹؔ نے گوئٹےؔ کی تخلیق کی ہے اور اسے ایک سنجیدہ اور سائنسی ادعا کے طورپر پیش کرنا محض حماقت ہے۔ یہ قطعی طور پر گوئٹےؔ ہے جس نے فاؤسٹؔ کی تخلیق کی ہے۔ بجز اس کے اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ انضباط، توجہ اور ارادہ کے بغیر کوئی فن یا کوئی بھی تعمیری کام ممکن ہیں اور یہ صفات۔ یعنی انضباط، توجہ اور ارادہ۔ شاعر کے شعور سے آتے ہیں۔
ینگؔ ہمیں مزید بتاتا ہے کہ فنکار اجتماعی نفس کی شفا، بخش اور نجات دہندہ قوت سے استنباط کرتا ہے جو شعور کی بنیاد ہوتی ہے اور وہ زندگی کے اس منشاکو تاڑ لیتا ہے جو ہر آدمی میں موجود ہے اور ہرانسانی وجود کو مشترک تناسب عطا کرتا ہے۔ 19 وہ اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ فنی تخلیق اور فنی تاثیر کا راز تجربے کی اس سطح پر واپس کر آکر ملےگا جہاں فرد نہیں بلکہ بنی نواع انسان رہتا ہے اور جہاں کسی ایک شخص کا رنج وراحت نہیں بلکہ انسانی وجود کی اہمیت ہوتی ہے۔ 20
میں نے ینگؔ کے اصول کا تفصیلاً ذکر کیا ہے کیونکہ یہ ایک لحاظ سے دلچسپ اصول ہے لیکن سراسر ناقابلِ قبول۔ ’اجتماعی لاشعور‘، ’اجتماعی نفس‘، ’اجتماعی یاد داشت‘، ’اجتماعی انسان‘، ’ابتدائی شبیہ‘، ’ابتدائی مہملات‘! ڈاکٹر جانسنؔ حقارت سے چلّا اٹھتا۔ ابتدائی تجربہ۔ یہ اور ایسے دوسرے مفروضے ناکافی شہادت پر گھڑ لئے جاتے ہیں۔ ان میں ہمیں کوئی نئے حقائق نہیں ملتے، صرف اصطلاح نئی ہے۔ قدیم نظریۂ الہام کو بہ ظاہر ہر سائنسی شکل میں دوبارہ بیان کر دیتے ہیں۔ ہمیں قبل بتایا گیا تھا کہ شاعر کو قدرت کی طرف سے الہام ہوتا تھا۔ شاعر ساز ہوائی ہوا کرتا تھا جس کو الہام کی ہوا چھیڑ کر سریلے نغمے پیدا کرتی تھی۔
اور جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ بادِ الہام وہیں چلتی ہے جہاں اس کا جی چاہتا ہے۔ شاعر خوابوں میں دیکھنے والا، خدائی پیغامبر اور سنہرے مستقبل کا نقیب ہوتا تھا۔ قدیم اور جدید کے درمیان مشابہت واضح ہے۔ صرف اب اجتماعی لاشعور نے الوہیت کی جگہ غصب کر لیا ہے۔ یہ بآسانی ثابت کیا جا سکتا ہے کہ میں ماہر تحلیل نفسی کی طرف سے وہمی نہیں ہو رہا ہوں اور نہ اس کے ساتھ نانصافی کر رہا ہوں۔ تحلیل نفسی کا مداح ریڈؔ لکھتا ہے کہ ’’فن پارہ اپنی توانائی نامعقولیت اور پراسرار قوت اِڈ (Id) سے حاصل کرتا ہے جسے الہام کا منبع سمجھا جانا چاہئے۔ لفظ الہام کے پیچھے جو قدیم استعارہ ہے وہ اس حد تک ثابت ہو جاتا ہے کہ دماغ کے اس تاریک حصے سے جسے ہم Id کہتے ہیں الفاظ، آوازوں اور شبہیوں کی تحریک اٹھتی ہے جس سے فنکار اپنے فن کی تخلیق کرتا ہے۔‘‘ 21 اس پر کوئی تبصرہ ضروری نہیں ہے۔
یہ بعض اوقات مان لیا جاتا ہے کہ بہت سے نام نہاد سائنسی انکشافات درحقیقت نئے نہیں ہوتے، جن چیزوں کو پہلے غیرسائنسی طور پر پیش کیا گیا تھا، انہیں محض سائنسی انداز میں دہرادیتے ہیں یا جس چیز کا وجدانی طور پر درک کیا گیا تھا، ان کی تشریح سائنسی ڈاٹا (Data) کی بنیاد پر کر دیا جاتا ہے، تاہم محض حقیقت کہ یہ انکشافات اتنے نئے نہیں ہیں جتنا کہ انہیں سمجھا جاتاہے۔ انہیں باطل نہیں کرتے اور نہ ان کی اہمیت کو کسی طرح کم کرتے ہیں۔ اجتماعی لاشعور اور دوسرے متعلقہ معاملے کے متعلق تحلیل نفسی کے انکشافات بالکل مختلف ہیں۔ وہ ناقابل تردید سائنسی حقائق پر مبنی نہیں ہوتے بلکہ وہ قیاس ہوتے ہیں، دلچسپ اور انوکھے مفروضے ہوتے ہیں جو ناکافی ڈاٹا پر مبنی ہوتے ہیں اور اسی لئے انہیں نظریۂ الہام خداد داد سے زیادہ قابل قدر یا سائنٹفک نہیں سمجھا جا سکتا ہے۔
فنکار کا تعلق نوع انسانی سے ہوتاہے اور اسی لئے اس میں اس نوع کی تمام نمائندہ خصوصیات موجود رہتی ہیں۔ اس کی جبتلیں، تحریک، احساسات، ادراک، خیالات، جذبات اور سبھی نفسی اعمال عادتاً انسانی ہیں اور یہی چیزیں اس کی تخلیق میں عالمگیر جاذبیت کا باعث ہوتی ہیں اور یہ خصوصاً اس لئے ہوتا ہے کہ وہ اپنے تجربات سے ان ذاتی عناصر کو ہٹا سکتا ہے جو دوسروں کو بُرے معلوم ہوں۔
بقول یونگؔ اس میں Participation mystique کی حالت کی طرف واپسی نہیں ہوتی۔ فن میں اس لا شخصیت کی وجہ کہیں اور ڈھونڈنی ہوتی۔ اگر فنکار اجتماعی شخص ہوتا ہے تواسی معنی میں کہ وہ اپنے نوع کا سب سے ذہین اور حساس نمائندہ ہوتا ہے اور اس لئے وہ لطیف تر نظام اور زیادہ پیچیدہ فراست کا حامل ہوتا ہے اور دوسرے آدمیوں کے مقابلہ میں زیادہ موثر طریقے سے محسوس کر سکتا ہے اور غائر نظر سے دیکھ سکتا ہے لیکن اس کے تجربے انفرادی ہوتے ہیں، اجتماعی نہیں اور فن کی تخلیق میں وہ ان تجربات کا استعمال شعوری طور پر کرتا ہے۔
اس بات سے انکار نہیں کہ فن کی تخلیق میں لکاشعوری اعمال بھی کار فرما رہتے ہیں لیکن ان لاشعوری اعمال سے کسی شائستہ فن کی تخلیق نہیں ہوتی ہے۔ وہ صرف خام موادفراہم کرتے ہیں جن پر فنکار شعوری طور پر کام کرتا ہے۔ فن کے پیچھے کام کرنے والے لاشعوری اعمال نقاد کی نظر میں بہت اہمیت کے حامل نہیں ہوتے کیونکہ ناقد کا سروکار تکمیل شدہ فن سے ہوتا ہے۔
رجرڈسؔ لکھتا ہے کہ، ’’ماہرین تحلیل نفسی کا دعویٰ جو بھی ہو شاعر کے ذہنی افعال بہت سود مند میدانِ تفتیش نہیں ہوتے۔ وہ ناقابلِ ضبط قیاسی تادل کے جولان گاہ بن جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نظم کی تخلیق میں جو چیز سب سے زیادہ کام آتی ہے، وہ لاشعور ہے۔ غالباً لاشعوری اعمال شعوری اعمال کے مقابلہ میں زیادہ اہم ہوتے ہیں (ہم لوگوں کا بہرحال یہ خیال نہیں ہے) ذہن کس طرح کام کرتا ہے اور اس کے متعلق ہم جو کچھ جانتے ہیں اگر اس سے کہیں زیادہ بھی جان لیں تو بھی فنکار کے دماغ کے داخلی اعمال کو محض اس کے فن کی شہادت پر دکھانے کی کوشش بہت سنگین خطرات کا اندیشہ بن سکتی ہے اور لیونارڈوؔ وڈانچی پر فرائڈؔ یا گوئٹےؔ پر ینگؔ کے مطبوعہ تصنیفات پر رائے قائم کرنے سے ماہرین تحلیل نفسی مخصوص طور پر مہمل ناقد معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ 22
حاشیے
1. ’’Introductory lectures on Psycho-analysis‘‘
2. ’’Psycho-analytical method and the doctrine of Fraud‘‘
3. Ibid
4. Scrutiny” June 1936‘‘
5. Ibid
6. Beyond the pleasure Principle
7. Scrutiny” June 1936‘‘
8. ”Psychology and Criticism‘‘
9. ’’How the mind works‘‘
10. ’’Selected Essays‘‘
Richard March “Scrutiny” June-1936 .11
12. ’’The Ego and the Id‘‘
13. Ibid
14. Road of xanadu
15. Ibid
16. Road to xanadu
17. Ibid
18. Modern Man in searchof Soul
19. Ibid
20. Ibid
21. Collected Essays
22. The Prinicples of Literary Criticism
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.