Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گاندھی جی کی شخصیت اور کارنامے

سید عابد حسین

گاندھی جی کی شخصیت اور کارنامے

سید عابد حسین

MORE BYسید عابد حسین

    ایک شخص شراب کو چکھ کر پرکھنے سے کمال رکھتا تھا۔ شراب کی ان گنت قسموں میں کوئی ایک قسم ہو یا کئی قسمیں ملی جلی ہوں، وہ آنکھ بند کیے ہوئے دو چار قطرے زبان پر رکھتا اور بتا دیتا کہ یہ فلاں شراب ہے یا فلاں فلاں شراب کا مرکب ہے۔ ایک بار کسی نے مذاق میں ایک سیال چیز چکھائی اور پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ وہ چکر میں پڑ گیا۔ بہت سر مارا مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ بچارا کیا کرتا۔ اس سے پہلے پانی کبھی چکھا ہی نہ تھا۔

    گاندھی جی کی شخصیت کو سمجھنے میں جو الجھنیں آج کل کے سیانے یوروپیوں، امریکیوں اور خود ہندوستان یوں کو پیش آئی ہیں، وہ کچھ اسی قسم کی ہیں۔ وہ انسانی سیرت کے مطالعے میں تحلیل نفس (سائیکونالسیس) کی پیچیدہ گتھیاں سلجھانے کے عادی ہیں۔ جب اسے ایک سیدھی سادی سلجھی ہوئی طبیعت سے سابقہ پڑتا ہے تو گھبرا جاتے ہیں، کہ یہ کیا گورکھ دھندا ہے، جس میں اس سرے سے اس سرے تک کوئی بیچ ہی نہیں، ہونہ ہو اس میں کوئی چھپی ہوئی کہانی ضرور ہے، اور وہ اس فرضی کہانی کی تلاش میں کھو کر رہ جاتے ہیں۔ کھلے ہوئے قفل کو کھولنے کے لیے طرح طرح کی کنجیاں آزماتے ہیں اور جب کوئی کام نہیں دیتی تو ان کی الجھن بدحواسی کی حد تک پہنچ جاتی ہے۔

    ظاہر ہے کہ اس گمراہی کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہے، ورنہ اتنے بہت سے آدمی اس میں مبتلا نہ ہوتے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سی وجہ ہے ؟ ذیل کی سطروں میں اس کا جواب دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔

    در اصل سادگی دو طرح کی ہوتی ہے، ایک تو بچے کی یا ابتدائی، انسان کی سادگی جس کی فکر کا سرمایہ چند انے گنے تصورات اور جس کے عمل کے محرک چند ان گنی جبلتیں ہیں۔ اس قسم کی طبیعتوں میں خیالات کی ترتیب اور بیرونی اثرات کے عمل و رد عمل کی چند محدود اور مقررہ صورتیں ہوتی ہیں، جن کو ہر دیکھنے والا بغیر کسی کوشش کے آسانی سے سمجھ سکتا ہے، دوسرے حکیم یا عارف کی سادگی جس میں خیالات، جذبات اور مقاصد کی فراوانی اور گوناگونی، عقل یا عقیدے کے سانچے میں ڈھل کر سادہ اور سڈول بن جاتی ہے۔

    ان دونوں قسموں میں بہت فرق ہے۔ پہلی بھولے پن کی ایک آہنگی بے خبری کی سادگی ہے جیسے گوالے کے گیت میں ہوتی ہے۔ دوسری پختگی، ضبط کی سادگی ہے، جیسی کلاسیکی سادگی میں پائی جاتی ہے۔ بعض لوگ اس تفریق سے واقف نہیں ہیں۔ وہ سادگی کی ایک ہی قسم کو جانتے ہیں‘‘ یعنی طفلانہ سادگی۔ یہ حضرات جب سنتے تھے کہ مہاتما گاندھی ایک مذہبی آدمی ہیں اور انتہائی سادگی کی زندگی بسر کرتے ہیں تو ان کے ذہن میں ایک سادھو کی تصویر آ جاتی تھی جو پرلوک کے دھیان میں اس طرح ڈوبا ہوا ہے کہ اسے اس دنیا کے معاملات کی ذرا بھی سدھ نہیں۔ لیکن جب وہ اس سادھو سے ملتے تھے یا اس کے لیکھ پڑھتے تھے تو یہ دیکھ کر حیرت میں پڑ جاتے تھے کہ یہ شخص تو اعلا درجے کا معاملہ فہم، مردم شناس اور مصلحت اندیش ہے۔ ان کے دل کو بڑا سخت دھچکا لگتا تھا کہ جسے معصوم فرشتہ سمجھتے تھے۔ وہ لندن کی انس آف کورٹ کا بیرسٹر نکلا۔ ان کی عقیدت کا طلسم ٹوٹ جاتا تھا۔ معصومیت کے پردے میں عقل سیاسی کی جھلک دیکھ کر ان کے دل میں شکوک و شہبات کا سوتا کھل جاتا تھا۔ ان بے چاروں کو یہ خبر نہیں تھی کہ اگر عقل سیاسی حق کو اپنے مقصد، اسی کو اپنا ذریعہ اسی کو اپنی منزل اور اسی کو اپنی راہ بنا لے تو حکومت بن جاتی ہے، جو معصومیت کی ایک برتر شکل ہے۔

    یہ تو ان سادہ لوح خوش اعتقاد لوگوں کا ذکر ہے جو اگلے وقتوں کی یادگار ہیں۔ اب رہے جدید زمانے والے جن کی آنکھوں سے پردے اٹھ چکے ہیں، جو انسانی فطرت کی باریکیوں کو عقیدت کے دھندلے چشمے سے نہیں بلکہ انفرادی نفسیات خصوصاً تحلیل نفس کی قوی خرد بین سے دیکھتے ہیں، ان کی پریشانی کا کچھ اور ہی سبب ہے ’’وہ سمجھتے ہیں کہ انسان کا نفس ایک نازک مشین ہے، جس کے بعض پرزے نظر آتے ہیں اور بعض چھپے ہوئے ہیں۔ بظاہر اس مشین کا عمل بہت پیچیدہ بلکہ الجھا ہوا ہے‘‘ لیکن ان کا خیال ہے کہ وہ کھلے ہوئے پرزوں سے چھپے ہوئے پرزوں کو چلا سکتے ہیں اور ان کے باہمی تعلق کو معلوم کر سکتے ہیں۔ رفتہ رفتہ اس بے ربط اور بے معنی الجھیڑے میں سے ایک معقول، مرتب اور مقابلتاً سادہ نقشہ نمودار ہوتا ہے۔

    دبی ہوئی جبلتوں اور رکے ہوئے جذبات سے نفس میں گہرا نقش پڑ جانا، لاعقلی کی حرکتیں اور ان کی عقلی تاویل، ذاتی مشاہدۂ نفس کے ذریعے یا کسی ماہر کی مدد سے نفسی عقدوں کا شعور اور ان کو حل کرنے کی کوشش۔ اس زاویۂ نگاہ سے ہمارے عہد جدید کے تعلیم یافتہ انسانی سیرت کو دیکھتے ہیں اور اپنے نزدیک بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر گاندھی جی کی طرح کوئی شخص اس بنے بنائے نقشے سے مطابقت نہ رکھتا ہو تو وہ بڑی مشکل میں جاتے ہیں۔ اپنے علمی عقیدے میں کسی غلطی یا نقص کو مان لینا تو عہد جدید کے لوگوں کے لیے اسی طرح ناممکن ہے، جیسے عہد وسطیٰ کے لوگوں کے لیے مذہبی عقیدے میں کسی خامی کو تسلیم کرنا تھا۔ ناچار انھیں یہ کہنا پڑتا ہے کہ گاندھی جی کی سیرت غیر معمولی طور پر پیچیدہ واقع ہوئی تھی یا پھر وہ جان بوجھ کر لوگوں کو چکر میں ڈالنے کی کوشش کرتے تھے۔

    نفسیات جدید کے بتائے ہوئے راستے سے گاندھی جی کا بڑا انحراف تو یہی تھا کہ وہ اپنے قول اور عمل کی عقلی تاویل کی کوشش نہیں کرتے تھے بلکہ اس کے برعکس بعض اوقات تو اپنی باتوں کو جو بظاہر اچھی خاصی ’’معقول‘‘ ہوئی تھیں، اخلاقی یا روحانی تاویل کر کے ان کی قدر و قیمت کو ’’عملی‘‘ آدمیوں کی نظر میں مشتبہ بنا دیتے تھے۔ مثلاً ان کی عدم تشدد کی پالیسی جو ارباب سیاست کو ہندوستان کے موجودہ حالات میں بہت مفید اور قرین مصلحت معلوم ہوئی تھی۔ سیدھی سی بات ہے کہ ایک غیر مسلح ملک اپنی آزادی کی کوشش میں سول نافرمانی جیسے حربوں ہی سے کام لے سکتا ہے۔ لیکن گاندھی جی نے اس کی اخلاقی توجیہ کر کے، اسے ستیہ گرہ کا فلسفہ بنا دیا۔ تو معاملہ پیچیدہ ہو گیا۔ اس لیے سیاسی چال ہم لوگوں کے نزدیک صاف، سادہ اور قابل فہم چیز ہے اور اخلاقی اصول ایک غیر ضروری پیچیدگی ہے۔ خیر یہاں تک بھی غنیمت ہے اخلاقی مصلح کا ٹائپ نہایت غیر معمولی بلکہ غیر طبعی سہی پھر بھی اس کے کچھ نمونے زمانۂ جدید میں، دنیا کے مختلف حصوں میں، یہاں تک کہ یورپ میں بھی مل جاتے ہیں۔ مثلاً تالستائی مگر مصیبت تو یہ ہے کہ گاندھی جی اخلاقی مصلح کے رسمی ٹائپ سے بھی پوری مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ قاعدے کی رو سے انھیں ایک نظریہ پرست و غیر علمی انسان ہونا چاہیے تھا۔ حالات اور واقعات کا لحاظ کیے بغیر اپنے اصول کے ایک ایک حرف کی پابندی پر اصرار کرنا چاہیے تھا، مگر وہ تو تصور کو حقیقت کا جامہ پہناتے وقت پیکر الفاظ کو روح معنی پر قربان کر دینے کے لیے تیار رہتے تھے، مثلاً یہی ستیہ گرہ کا اصول اس وقت تک حکومت کے نقطۂ نظر سے بڑا کھرا اور بے لاگ تھا۔ جب تک گاندھی جی ان ہنگاموں کی وجہ سے، جو سول نافرمانی کی تحریک کے دوران میں بہت موقع سے اٹھ کھڑے ہوئے تھے، اس تحریک کو بند کردیا کرتے تھے، مگر آگے چل کر وہ اس طرح کی باریکیاں نکالنے لگے، کہ ستیہ گرہی اپنے فعل کا ذمہ دار ہے، دوسرے کے فعل کا نہیں، اس لیے حکومت کے سانچے میں ڈھلے ہوئے دماغ کو ستیہ گرہ ایک ٹیڑھی میڑھی پالیسی معلوم ہوئی تو کون سی تعجب کی بات ہے۔

    ایک اور چیز جو گاندھی جی کے کردار کو پیچیدہ بنا دیتی ہے یہ ہے کہ ان کی تحریر و تقریر ہو یا علمی تجویز عام طور پر کبھی آخری اور قطعی نہیں ہوتی۔ جب وہ کوئی بیان دیتے تھے یا کوئی اسکیم بناتے تھے تو لوگوں کے رد عمل کو غور سے دیکھتے تھے۔ مخالف اور موافق تنقید پر دھیان دیتے۔ معاملے کو نئے پہلوؤں پر جو ابتدا میں ان کے ذہن میں نہ تھے نظر ڈالتے اور ان سب چیزوں کو ملحوظ رکھ کر اس کی تشریح کرتے وہ اعتراضات کا جواب دیتے، غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے، ضرورت ہو تو اپنے بیان یا تجویز میں ترمیم کر دیتے بلکہ کبھی کبھی تو یہ غضب کرتے کہ اپنی بات سرے سے غلط مان کر، دوسرے کی بات تسلیم کرنے پر تیار ہو جاتے اور پھر اس نکتے کو سمجھانے کا خاص اہتمام کرتے کہ یہ مختلف قدم جو انھوں نے اٹھائے ہیں، ان کے اصل اصولوں سے پوری طرح مطابقت رکھتے ہیں۔

    یہ طریقہ اس وقت اور الجھا ہوا اور پیچیدہ معلوم ہوتا ہے، جب ہم اس کا مقابلہ ان کے مستقل حریف ہندوستان کے برطانوی عامل کے صاف، سیدھے دوٹوک طرز عمل سے کرتے ہیں۔ سلطنت برطانیہ کے مقبوضات اور نو آبادیوں کا انتظام کرنے والے طبقے نے جس میں بہت سے نیک نیت، نیک نفس ’’عالی منش‘‘ افراد شامل ہیں۔ اپنے ضمیر کو ان ناگوار باتوں سے بچانے کے لیے جو اسے دیکھنی پڑتی ہیں اور خود کرنی پڑتی ہیں، مفیدیت کا ایک آرام دہ فلسفہ بنا لیا ہے، جو افادیت سے بھی زیادہ سہل اور سادہ ہے۔ افادیت تو صرف اتنا ہی کہتی ہے کہ جس کام میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کا فائدہ ہو، وہی اچھی ہے۔ مفیدیت کا دعویٰ ہے کہ جوبات مفید ہے وہ صرف اچھی ہی نہیں بلکہ سچی بھی ہے، یعنی افادۂ حق کا معیار ہے۔ ہمارے برطانوی حاکموں نے اس میں اتنی ترمیم اور کردی ہے کہ ایک خاص وقت میں جو چیز ان کے لیے مفید ہو، اس وقت وہی اچھی اور سچی ہے۔ اس سے معاملہ اور بھی آسان ہو جاتا ہے۔ ہر قسم کی متضاد باتیں اپنے اپنے وقت پر بالکل صاف واضح اور قطعی طور پر صحیح مانی جا سکتی ہیں، اس لیے کہ وہ قرینِ مصلحت ہیں۔ یہاں شک اور شبہ کی گنجایش نہیں، تاویل اور توجیہ کی کوئی ضرورت نہیں، اسے فلسفۂ مفیدیت کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو گاندھی جی کا تردد اور تاویل و استدلال خصوصاً اپنی رائے کی غلطی کو تسلیم کرنا اور اسے بدل دینا بڑی الجھن اور پریشانی کا باعث ہوتا ہے۔

    مگر سب سے زیادہ شبہ اور چکر میں ڈالنے والی بات یہ ہے کہ عام طور پر گاندھی جی معاملات کو طے کرنے میں، خصوصاً اپنے حریفوں سے گفت و شنید کرنے میں بڑی چھان بین غور و تامل اور احیتاط سے کام لیتے، ہر لفظ سوچ کر کہتے، ہر قدم دیکھ بھال کر اٹھاتے، لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ وہ دفعتاً وضع و احتیاط کو چھوڑ کر بظاہر گریبان مصلحت چاک کر دیتے تھے۔ حریف پر آنکھ بند کر کے بھروسا کر لیتے اور اس بھروسے کی بنیاد پر بڑے بڑے جھگڑوں کو دم بھر میں نبٹا دیتے تھے۔ گاندھی اسٹمس سمجھوتہ اور گاندھی ارون معاہدہ اس کی نمایاں مثالیں ہیں، جس میں سے پہلے کو لوگ عام طور پر گاندھی جی کی کامیابی اور دوسرے کو ان کی ناکامی قرار دیتے ہیں۔ خود گاندھی جی سمجھتے تھے کہ وہ دونوں بار حق پر تھے اور حق ان کے نزدیک عین کامیابی ہے۔ لیکن جدید حکمت علمی جو اپنوں پر بھروسہ کرنے کو بھی تیار نہیں، اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ کوئی ذمہ دار لیڈر غیر قوم اور ملک کے افراد پر جن سے ایک مدت تک اس کی مخالفت رہی ہو، ایک دم سے کیوں کر بھروسہ کر سکتا ہے۔

    1891جب گاندھی جی بیرسٹر بن کر لندن سے لوٹے تو انھوں نے زندگی کی راہ میں سچائی اور محبت کی دوسری منزل میں قدم رکھا۔ اب تک سچائی اور محبت کی جھلک انھوں نے اپنے وچن کو نباہنے اور اپنے فرض کو پورا کرنے کے روپ میں دیکھی تھی۔ اب وہ زمانہ آ رہا تھا۔ جب انھیں حق کا جلوہ خدا سے لو لگانے میں اور محبت کا جلوہ اس کے بندوں کی سیوا کرنے میں نظر آیا۔

    مذہب کی پرانی لیکھ پر گاندھی جی بچپن سے چل رہے تھے۔ لندن کے قیام کے زمانے میں انھوں نے نئی راہوں کو آزمانا شروع کیا۔ بھگوت گیتا کے مطالعے کے ساتھ ساتھ انھوں نے مہاتما بدھ اور حضرت عیسیٰ کی تعلیم پر بھی دھیان دیا۔ ان تینوں دھاگوں کو ملا کر گیان، کرم اور بھکتی یا علم، عمل اور عشق کا ایک نیا ڈورا بٹنے کی کوشش کی۔ اس کا مجموعی اثر ان کے دل پر یہ ہوا کہ دنیا کو تج دینا مذہبی زندگی کا سب سے اونچا درجہ ہے، مگر جب وہ لندن سے بمبئی واپس آئے تو ان کی ملاقات ایک جوہری، رائے چندر بھائی سے ہوئی جنھیں دیکھ کر ان پر یہ حقیقت کھلی کہ آدمی کے دل میں محبت کی سچی لگن ہو تو وہ دنیا کے دھندوں میں لگ کر بھی دنیا سے الگ تھلگ رہ سکتا ہے۔

    بمبئی آتے ہی گاندھی جی کو یہ خبر ملی کہ ان کے پیچھے ان کی پیاری ماں دنیا سے رحلت کر چکی ہیں۔ یہ پہلا دھچکا تھا جو انھیں ہندوستان آکر لگا۔ اس کے بعد کئی ناگوار باتیں پیش آئیں، جن کی وجہ سے ان کا دل راجکوٹ اور بمبئی سے اچاٹ ہو گیا۔ ایک تو سمندر پارجانے کے بدلے وہ برادری سے الگ کر دیے گئے تھے۔ پھر انھیں یہ معلوم ہوا کہ نئے بیرسٹر کی وکالت چلنا مشکل ہے اور جب وہ دلالوں سے کام لینے کو دھرم کے خلاف سمجھتا ہو تو اور بھی مشکل ہے۔ چاہا کہ انگریزی پڑھانے کی نوکری مل جائے تو قابلیت کو کسی نے نہ پوچھا، بی، اے، کی سند مانگی گئی اور وہ ان کے پاس نہیں تھی۔ ایسی حالت میں جب جنوبی افریقہ کے ایک مسلمان تاجر نے انھیں اپنے مقدمے کی پیروی کے لیے وہاں بلایا تو وہ خوشی سے تیار ہو گئے۔

    جنوبی افریقہ میں انھوں نے دیکھا کہ وہاں کے یورپین جن کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور تھی، دیسی لوگوں کو اور ہندوستان یوں کو نیچ اور اچھوت سمجھ کر ان سے دور دور رہتے ہیں اور انھیں طرح طرح سے ذلیل کرتے ہیں۔ خود گاندھی جی پر ایک واردات ایسی گزری جس نے انھیں اپنے ہم وطنوں کے حال زار کا احساس دلا کر ان کی زندگی کے دھارے کو بدل دیا۔ وہ ڈربن سے پریٹوریا جا رہے تھے کہ رات کے وقت ایک اسٹیشن پر یورپین گارڈ نے انھیں فرسٹ کلاس کے ڈبے سے باہر نکال دیا، اس لیے کہ یورپین کے سوا کسی کو اس کلاس میں سفر کرنے کی اجازت نہ تھی۔ اس حقارت کے برتاؤ سے گاندھی جی کے دل کی دنیا میں ہل چل مچ گئی، انھیں محسوس ہوا کہ ظلم و جبر کی قوتوں نے ساری ہندوستانی قوم کو بلکہ ساری انسانی برادری کو ذلت کے گڑھے میں ڈھکیل دیا ہے، مگر مرد خدا کی شان یہ ہے کہ اسے اپنی اتنی فکر نہیں ہوتی جتنی خلق خدا کی، فرماتے ہیں ’’میں نے اپنے دل میں سوچا، اب میرا فرض کیا ہے؟ میں ہندوستان جاؤں یا خدا کی مدد پر بھروسا کر کے آگے قدم بڑھاؤں اور راہ میں کتنی ہی مشکلیں کیوں نہ ہوں، ان کا مقابلہ کروں؟ میں نے دل میں ٹھان لی کہ میں یہیں رہوں گا اور دکھ سہوں گا، میری عملی اہنسا اسی دن سے شروع ہوتی ہے۔‘‘

    آگے چل کر انھیں معلوم ہوا کہ سچ مچ ساری ہندوستان ی برادری کو جو جنوبی افریقہ میں رہتی ہے، بڑی ذلت و خواری کی زندگی بسر کرنی پڑتی ہے۔ خصوصاً وہ ہندوستانی مزدور جو معاہدے کے ذریعے ایک خاص مدت تک کام کرنے کے پابند ہیں۔ جانوروں سے بدتر حالت میں رہتے ہیں۔ انھوں نے اپنے آپ کو اس مقدس مشن کے لیے وقف کر دیا کہ انھیں بنیادی انسانی حقوق دلا کر رہیں گے۔ وہ ایک تاجر کے مقدمے کی پیروی کرنے ایک سال کے لیے جنوبی افریقہ آئے تھے۔ مگر اب ہندوستان یوں کا ان کی عزت و وقار کا مقدمہ لڑنے کے لیے یہیں رہ پڑے، اور چوبیس سال تک پہلے ڈربن میں اور پھر جوہانسبرگ میں وکالت کرتے رہے۔ بیچ میں انھیں انگلستان اور ہندوستان جانا پڑا، مگر مستقل قیام جنوبی افریقہ میں رہا۔

    یوں تو گاندھی جی نے جنوبی افریقہ کے قیام کے زمانے میں سچائی اور محبت کی پیاس عیسائی مذہب، اسلام اور ہندو دھرم کے چشموں سے بجھائی، لیکن امرت کا کام ان کے لیے اس روحانی و واردات نے دیا، جو ان پر بے نفس کے ساتھ اپنے ہم وطنوں کی خدمت کرنے اور بے جگری کے ساتھ ان کی بنیادی حقوق کے لیے لڑنے کے سلسلے میں گزری۔ بے غرضی اور محبت کا سبق انھیں سب سے زیادہ گیتا سے ملا اور اسی کو انھوں نے اپنے لیے شمع ہدایت بنا لیا۔ گیتا کی تعلیم میں صرف اپری گرہ یعنی ہر قسم کی ملکیت کو تج دینا ایک ایسی چیز تھی جو ایک مدت تک ان کی سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ وہ سوچتے تھے کہ یہ کیوں کر ممکن ہے کہ آدمی دنیا میں رہے اور اس کے پاس مال دنیا میں سے کوئی چیز نہ ہو۔ آخر اس مشکل کو انھوں نے امانت کے اصول کے ذریعہ حل کیا۔ انھوں نے گیتا کے لفظوں کی تاویل اس طرح کی کہ مال و دولت کے ہونے میں کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ آدمی انھیں اپنی ملکیت نہیں بلکہ دوسروں کی امانت سمجھے، اپنے اوپر اتنا ہی خرچ کرے، جس سے اس کی شدید اور جائز ضروتیں پوری ہو جائیں، باقی کو خلق خدا کے فائدے کے لیے وقف کر دے۔

    ایک مدت تک گاندھی جی ان مقدموں کی، جو ہندوستان یوں خصوصاً ہندوستانی مزدوروں کی طرف سے لڑتے تھے، معقول فیس لیتے رہے، یہ رقم غریبوں کا پیٹ کاٹ کر نہیں لی جاتی تھی، بلکہ امیروں کے چندے سے جمع ہوتی تھی۔ خود گاندھی جی کا خاصا اجلا خرچ تھا مگر اپنی آمدنی کا بڑا حصہ وہ قومی کاموں میں اور محتاجوں کی مدد میں خرچ کرتے تھے۔ آگے چل کر دیکھا کہ ان کی آمدنی اس کے لیے کافی نہیں ہوتی کہ ڈربن جیسے بڑے شہر میں بیرسٹر کی شان سے رہ سکیں اور اسی کے ساتھ ساتھ قومی کاموں میں دل کھول کر چندہ دیا کریں، یوں بھی تالستائی اور سکن کی کتابوں کے اثر سے اور کچھ غریب مزدوروں کی محبت اور ہمدردی میں ان کا جی چاہتا تھا کہ خود بھی کسان اور مزدور کی سی زندگی بسر کریں۔ چنانچہ انھوں نے ڈربن کے قریب فینکس میں ایک آشرم بنایا اور اپنے کچھ ساتھیوں سمیت جنھیں سماجی خدمت کا شوق تھا بڑی سادہ زندگی بسر کرنے لگے۔ ان میں سے ہر شخص تین پونڈ مہینے پر کھیتی اور چھاپہ خانے کی مشین چلانے کا کام کرتا تھا۔

    کچھ عرصے سے گاندھی جی سوچ رہے تھے کہ خلق خدا کی محبت اور دولت اور املاک سے منہ موڑنے کے بجائے خواہش نفس پر قابو پانا بھی ضروری ہے۔ آخر 1906ء میں انھوں نے ہندوستان یوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ جو قانون بے انصافی پر بنی ہیں ان کی خلاف ورزی کریں۔ یہ تحریک ستیہ گرہ کہلائی اور تھوڑے وقفے سے سات برس تک جاری رہی۔ اس درمیان میں ایک بار گاندھی جی انگلستان گئے، جہاں انھیں بہت سے دیش بھگت ہندوستان یوں سے نہ صرف جنوبی افریقہ کی ستیہ گرہ کے بارے میں بلکہ ہندوستان کی تحریک آزادی کے بارے میں بھی بحث کرنے کا موقع ملا۔ وہاں سے واپس آکر انھوں نے ایک چھوٹی سی کتاب ’’ہندو سوراج‘‘ کے نام سے لکھی، جس میں ہندوستان کی آزادی کے بارے میں اپنے اچھوتے اور انوکھے خیالات پیش کیے۔

    سولہ سال جنوبی افریقہ میں رہ کر انھیں جو تجربہ ہوا تھا اس سے وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ ساری خرابیوں کی جڑ اس زمانے کی مغربی تہذیب ہے، جو مادی قدروں پر زور دیتی ہے، یہی یورپ کی قوموں کو اس پر ابھارتی ہے کہ ہندوستان جنوبی افریقہ اور دوسرے ملکوں کا غلام بنا کر رکھیں اور انھیں لوٹ کھسوٹ کر کنگال کردیں۔ اگر ہندوستانی انھیں مادّی ہتھیاروں سے کام لے کر انگریزوں سے لڑنا چاہیں تو کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے، اور اگر ہو بھی جائیں تو ان کی آزادی جھوٹی آزادی ہوگی اور وہ خود انگریزوں کی طرح اپنے بھائیوں کو دبانا اور لوٹنا شروع کر دیں گے۔ سچی آزادی کی راہ ’’ہند سوراج‘‘ میں یہ بتائی گئی کہ ہندوستانی پہلے اپنے ذہنوں کو مغربی تہذیب کے تلسط سے آزاد کریں اور ان سب چیزوں کو جو مادّی ترقی کی علامتیں سمجھی جاتی ہیں، چھوڑ کر کسانوں اور مزدوروں کی سادہ زندگی بسر کریں۔ اس سے ان میں وہ تازہ اخلاقی، روحانی اور جسمانی قوت پیدا ہو جائے گی کہ وہ جسمانی قوت کے بجائے سچائی اور محبت کے ہتھیاروں سے دنیا کی سب سے بڑی سلطنت سے لڑیں اور اپنی کھوئی ہوئی آزادی حاصل کریں۔

    گاندھی جی کی بڑائی کا راز یہ تھا کہ جو کچھ وہ کہتے تھے وہ کر کے دکھا دیتے تھے۔ ستیہ گرہ کی تحریک انھوں نے ٹرانسوال کے شہر جوہانسبرگ میں شروع کی تھی۔ شہر کے قریب دیہاتی علاقے میں انھوں نے تالستائی فارم کے نام سے بستی بسائی، جس میں ہندوستان کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے ہندو، مسلمان، پارسی، عیسائی جو مغربی افریقہ میں رہتے تھے اور اپنے جائز حقوق کی حفاظت اور اپنے دیش کی عزت بچانے کے لیے ہر طرح کے دکھ اٹھانے کو تیار تھے، آن کر جمع ہو گئے۔ یہ سب لوگ کھیتی اور دستکاری کے ذریعے سے اپنی ضرورت کی اکثر چیزیں خود ہی پیدا کر لیتے تھے۔ کچھ لوگ اپنے بال بچوں کو بھی ساتھ لے آئے تھے، ان کے لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اسکول کھولا گیا، جس میں خود گاندھی جی اور ان کے کچھ اور ساتھی پڑھاتے تھے۔ اس تعلیمی تجربے سے گاندھی جی کے مذہبی اور اخلاقی خیالات کی نشو و نما میں بڑی مدد ملی۔ ان کے اسکول میں مختلف مذہب کے لوگوں کے بچے پڑھتے تھے، ان کے لیے مذہبی تعلیم کا ایک مشترک نصاب بنانے کی کوشش کے سلسلے میں گاندھی جی پر یہ حقیقت کھلی کہ ہر مذہب کی تعلیم کا نچوڑ چند اخلاقی اصول ہیں، جنھیں سب ہی انسان مانتے ہیں، یہیں سے گاندھی جی کے دل میں مذہب انسانیت کا خیال پیدا ہوا، جسے انھوں نے چھوٹی سی کتاب ’’نیتی دھرم‘‘ میں ظاہر کیا۔ ان کے نزدیک روح سب مذہبوں کی ایک ہے، یعنی سچائی اور محبت، پاکدامنی اور پرہیز گاری البتہ ان کے ڈھانچے یعنی عبادت کے طریقے الگ الگ ہیں۔ یہ بھی اپنی جگہ بڑی اہمیت رکھتے ہیں، اس لیے کہ ہر شخص کی روحانی تربیت اسی طریقے الگ الگ ہیں۔ یہ بھی اپنی جگہ بڑی اہمیت رکھتے ہیں، اس لیے کہ ہر شخص کی روحانی تربیت اسی طریقے سے ہو سکتی ہے، جو اس نے بچپن سے اپنے بزرگوں سے سیکھا ہے اور اسی کے ذریعہ سے وہ مذہب کی اصلی روح تک پہنچ سکتا ہے۔ تالستائی فارم کے آشرم میں گاندھی جی نے ستیہ گرہیوں کی ایک جماعت تیار کی، جس نے محبت کے سوز اور اہنسا کی آنچ سے یوریپنوں کے پتھر کی طرح سخت دلوں کو موم کی طرح نرم کر دیا اور ہندوستان یوں کو بہت سے شہری حقوق دلوا دیے، جنھیں جنوبی افریقہ کی موجودہ حکومت آج پھر چھین رہی ہے۔

    1891ء میں گاندھی جی پردیس میں روپے پیسے کی دولت کمانے آئے تھے، جس سے اپنے خاندان کی مالی حالت سدھاریں، چوبیس برس بعد جب اپنے دیس کو لوٹے تو ایسی دولت لے کر آئے، جس سے انھوں نے اگلے چونتیس سال میں پوری ہندوستانی قوم کی سماجی اور سیاسی حالت کو سدھارا ہی نہیں بلکہ اس کی کایا پلٹ کردی، یہ سچائی اور محبت ستیہ اور اہنسا کی دولت تھی۔ یہ دونوں چیزیں پہلے بھی ان کے پاس تھیں۔ مگر اب ان کی کچھ اور ہی شان ہو گئی تھی۔ سچائی جو پہلے ایک عادت تھی، اب ایک مذہب، ایک فلسفۂ زندگی بن چکی تھی۔ اہنسا جو پہلے محض ایک روایت تھی، اب جیتے جاگتے عمل کے سانچے میں ڈھل چکی تھی۔

    جنوبی افریقہ میں ستیہ گرہ کے منتر سے گورے حکمرانوں کے دلوں کو موہ کر اور نوآباد ہندوستان یوں کے ماتھے سے ذلت کا دھبہ مٹا کر گاندھی جی 1916ء میں اپنے سیاسی گورو گوکھلے کے حکم سے ہندوستان واپس آئے۔ یہاں انھیں بڑے پیمانے پر وہ تجربہ کرنا تھا، جو چھوٹے پیمانے پر جنوبی افریقہ میں کر چکے تھے۔ یہ تجربہ کیا تھا؟ یہی کہ محبت کے ذریعے حقیقت کا عرفان کیوں کر حاصل کریں۔ اپنی آپ بیتی ’’تلاش حق‘‘ جو 1935ء میں شائع ہوئی لکھتے ہیں،

    ’’وہ چیز جس کی مجھے تلاش ہے، جس کی آرزو اور سعی میں، میں تیس سال سے بے چین ہوں، معرفت نفس، دیدار الٰہی اور موکش پانا ہے، یہی تلاش یہی کوشش میرا اوڑھنا بچھونا ہے۔ یہی مری زندگی ہے۔‘‘ گاندھی جانتے تھے کہ حق کی معرفت کے دو راستے ہیں۔ ایک گوشۂ خلوت میں خدا سے لو لگانے کا، دوسرا میدان عمل میں خلق خدا کی خدمت کرنے کا۔ انھوں نے دونوں کو آزمایا۔ پہلے راستے میں جو کچھ بیتی وہ دل کی بات تھی، دل ہی میں رہی۔ خود فرماتے ہیں، ’’بعض معاملے بندے اور خدا کے درمیان ایسے ہوتے ہیں، جن کی کسی اور کو خبر نہیں ہوتی۔ ظاہر ہے کہ یہ چیزیں بیان میں نہیں آ سکتیں۔‘‘

    دوسرے راستے پر چلنے کی داستان کچھ انھوں نے اپنی کتاب ’’تلاش حق‘‘ میں کہی اور کچھ بن کہی رہ گئی۔ یہ اہنسا کے زور ظلم اور ناانصافی کا مقابلہ کرنے اور ستیہ گرہ کے بل پر دیس کو بدیسی حکومت کی غلامی سے آزاد کرانے کی کہانی ہے، جو رہتی دنیا تک تاریخ کے صفحوں پر سنہری حرفوں میں لکھی رہے گی۔

    ہندوستان پہنچ کر پہلے گاندھی جی نے سارے دیس کو گھوم پھر کر دیکھا۔ اس سے انھیں یہ اندازہ ہوا کہ غلامی اور غریبی سے عام لوگوں خاص کر کسانوں کی حالت کس قدر ابتر ہوگئی ہے۔ انھیں اس بات کا بڑا دکھ ہوا کہ ان کے ساتھ بدیسی حکومت اور اس کے دیسی پٹّھو طرح طرح کی زیادتیاں کرتے ہیں اور یہ بیچارے اتنے بے کس ہیں کہ دم بھی نہیں مار سکتے۔ دیس کے پہلے دورے سے نپٹ کر گاندھی جی نے احمد آباد کے پاس سابرمتی میں ستیاگرہ آشرم قائم کیا تاکہ جنوبی افریقہ کی طرح یہاں بھی ان کے ساتھی تپسیا کی آنچ میں تپ کر ستیہ کے سپاہی بن جائیں اور مظلوموں کی حمایت میں ظلم کی تلوار اہنسا کی ڈھال سے روکیں۔

    سچائی اور محبت کی یہ لڑائی جو گاندھی جی ایک تہائی صدی تک ظلم اور نفرت کی قوتوں کے خلاف لڑتے رہے، ان کے لیے محض سیاسی کشمکش نہیں بلکہ حق و باطل کی جنگ تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ اپنے دیس کو غلامی، غریبی، چھوت چھات اور فرقہ پرستی کی لعنت سے نجات دلانا حق کی معرفت حاصل کرنے کا سیدھا راستہ ہے۔ ’’تلاش حق‘‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں،

    ’’حق وہ روحِ کل ہے جو کائنات میں جاری و ساری ہے۔ انسان اس کے جلوے کی تبھی تاب لا سکتا ہے جب اوہ ادنیٰ سے ادنیٰ مخلوق کو اپنی جان کے برابر عزیز رکھتا ہو، جسے اس کا حوصلہ ہو وہ زندگی کے کسی شعبے سے بے تعلق نہیں رہ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ حق کی جستجو مجھے سیاست میں کھینچ لائی ہے۔‘‘

    سیاست کی راہ سے معرفت کی منزل تک پہنچنے میں جس طرح گاندھی جی نے ہر قدم پر ناحق سے ٹکر لی اور حق کا بول بالا کیا، اس کی چند مثالیں ان کی زندگی کی حاصل اور ان کے پیام کا نچوڑ ہیں۔

    1916ء میں گاندھی جی کانگریس کے جلسے میں شریک ہونے لکھنؤ گئے تو وہاں انھیں بہار کے ایک سچے سیدھے کا شتکار راجکمار شُکل سے معلوم ہوا کہ چمپارن ضلع کے کسان بڑی مصیبت میں ہیں۔ انھیں ’’تنکھیا‘‘ کے قانون کے تحت اپنی زمین کے بیس حصوں میں سے تین حصے میں زبردستی نیل کی کاشت کرنی پڑتی تھی۔ جسے نیل کی کوٹھی کے یورپین مالک سستے داموں میں خرید کر خود نفع کماتے تھے۔ گاندھی جی کی آنکھوں میں دردِ محبت کی جھلک دیکھ کر راج کمار شُکل ان کے پیچھے پڑ گئے اور ان کو کھینچ کر چمپارن لے گئے۔ وہاں کے غریب کسانوں سے مل کر گاندھی جی پر جو اثر ہوا، اسے ان کی زبان سے سنیے،

    ’’بے چارے کسانوں کو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ چمپارن کے باہر بھی دنیا آباد ہے۔ اس کے باوجود انھوں نے مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ گویا میں ان کا برسوں کا دوست تھا۔ اگر میں یہ کہوں تو مبالغہ نہ ہوگا کہ ان کسانوں کے سابقے میں مجھے خدا کا نور، اہنسا اور ستیہ کا جلوہ نظر آگیا۔‘‘ اس سے اندازہ کیجیے کہ جب انھوں نے کسانوں کے ساتھ لے کر اہنسا کی لڑائی لڑی اور جیتی اور ’’تن کھیا‘‘ کا قانون منسوخ ہو گیا، اس وقت ان غریبوں کے کھلے ہوئے چہرے اور ہنستی ہوئی آنکھوں میں گاندھی جی کی سچائی اور محبت کے کیا کیا جلوے نظر آئے ہوں گے۔ چمپارن کی مہم کے ختم ہوتے ہی گاندھی جی کو سچائی اور محبت کے ہتھیاروں کی آزمایش دو معرکوں میں کرنی پڑی انھیں معلوم ہوا کہ گجرات کے کھیدان ضلع میں فصل ماری گئی ہے۔ کسانوں کی حالت ابتر ہے مگر حکومت کی طرف سے لگان کا تقاضا بڑی سختی سے کیا جا رہا ہے۔ ادھر احمد آباد میں کپڑے کے مل لڑائی کے زمانے میں جی بھر کے نفع کمار ہے ہیں۔ مگر مزدوروں کو اتنی مزدوری نہیں ملتی کہ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھر سکیں۔ گاندھی جی جن کے دل میں سارے جہان کا درد تھا یہ سنتے ہی بے چین ہوگئے اور فوراً گجرات پہنچے۔ احمد آباد میں انھوں نے مل مزدوروں کا واجبی مزدوری حاصل کرنے کے لیے ہڑتال پر آمادہ کیا اور کھیدان میں کسانوں کو یہ مشورہ دیا کہ وہ حکومت سے لگان کی وصولی اگلے سال تک ملتوی کرنے کی درخواست کریں اور اگر یہ منظور نہ ہو تو وہ کسان بھی جو پورا لگان دے سکتے ہیں، اس کے ادا کرنے سے انکار کردیں چاہے ان کی زمینیں ضبط ہو جائیں اور انھیں جیل جانا پڑے۔

    ہڑتالیں تو دنیا میں بہت ہوا کرتی ہیں اور ہندوستان میں بھی اس سے پہلے ہو چکی تھی، لیکن گاندھی جی کی تحریک پر جو ہڑتال ہوئی اس کی شان کچھ اور ہی تھی۔ انھو ں نے مزدوروں سے چار شرطیں کیں۔ ایک تو یہ کہ بھول کر بھی تشدد سے کام نہ لیں۔ دوسرے جو مزدور ان کا ساتھ چھوڑ کر کام پر واپس جانا چاہیں انھیں نہ ستائیں، تیسرے خیرات کا پیسہ ہرگز نہ لیں۔ چوتھے ہڑتال کتنے ہی دن چلے، استقلال کو ہاتھ سے نہ جانے دیں اور کسی جائز طریقے سے روزی کما کر کھائیں، ان شرطوں میں گاندھی جی کا یہ اصول جھلکتا تھا کہ اچھے مقصد کے لیے جو وسائل اختیار کیے جائیں، وہ بھی اچھے اور پاک ہونے چاہئیں۔ بیچ میں بہت سے اتار چڑھاؤ آئے، مگر آخر میں ہڑ تال کامیاب ہوئی اور اس طرح ہوئی جیسے گاندھی جی چاہتے تھے، یعنی صلح و آشتی کی فضا میں۔

    اب رہی کھیدان کی تحریک تو شاید وہ ہمارے دیس میں سول نافرمانی کی پہلی مثال تھی۔ اس میں گاندھی جی نے یہ پابندی عائد کی تھی کہ کسان کی طرف سے کسی قسم کا تشدد بے عنوانی نہ ہو، ورنہ تحریک کی اخلاقی شان باقی نہ رہے گی۔ گاندھی جی کے الفاظ یہ ہیں،

    ’’اگر انھوں نے ذرا بھی بدتمیزی کی تو ستیہ گرہ کی ساری خوبی جاتی رہے گی۔ جس طرح سنکھیا کے ایک قطرہ سے سارا دودھ زہریلا ہو جاتا ہے۔‘‘ یہاں بھی ستیہ گرہیوں کو اسی خوشی سے ضبط اور امن کے ساتھ دکھ اٹھاتے دیکھ کر بدیسی حکومت کا دل پسیجا اور غریب کسانوں سے لگان کی وصولی ملتوی کر دی گئی۔

    چھوٹے پیمانے پر ستیہ گرہ کے کئی تجربے کرنے کے بعد گاندھی جی کو یہ بھروسا ہو گیا تھا کہ ضرورت کے وقت یہ مہم بڑے پیمانے پر چلائی جا سکتی ہے۔ یہ ضرورت کا وقت بہت جلد آ گیا۔ مارچ 1919ء میں بدیسی حکومت نے رولٹ ایکٹ کے نام سے ایک قانون پاس کیا، جس کی رو سے سیاسی جد و جہد اور اظہار رائے کی تھوڑی بہت آزادی جو ہندوستان یوں کو اب تک حاصل تھی ان سے چھین لی گئی۔ گاندھی جی کے نزدیک قول اور عمل کی آزادی کے بغیر نہ صرف انسان کا ذہن بلکہ اس کی روح بھی گھٹ کر رہ جاتی ہے، اس قومی ذلت کو کسی طرح گوارا نہیں کر سکتے تھے۔ انھوں نے اس قانون کے خلاف ستیہ گرہ کی تحریک شروع کی جو سارے دیس میں اس سرے سے اس سرے تک پھیل گئی۔ 16 اپریل کا دن جب رولٹ ایکٹ کے خلاف عام احتجاج کیا گیا، ہمارے تاریخ میں یاد رہے گا۔ اس دن ملک کے ہر حصے میں ہر ایک ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی کے سینے میں ایک ہی دل دھڑک رہا تھا۔ یہ ہندوستانی قوم کا دل تھا، جس میں اتحاد کی مہک تھی۔ آزادی کی تڑپ تھی۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے گاندھی جی جو عام طور پر اپنے مدھم سروں میں جذبات ظاہر کرتے ہیں، بڑے جوش سے لکھتے ہیں،

    ’’اس دن ہندوستان کے ایک ایک شہر میں، ایک ایک گاؤں میں مکمل ہڑتال ہوئی، کتنا شاندار تھا وہ منظر۔‘‘ بدیسی حکومت گھبرائی کہ کہیں یہ زلزلہ اس کی جڑوں کو ہلا کر نہ رکھ دے اور اس نے طے کر لیا کہ ستیہ گرہ کی تحریک کو اپنی پوری قوت سے کچل دے۔ دہلی کے چاندنی چوک میں، امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں نہتے اور پرامن جلوس پر گولیاں چلائی گئیں۔ بمبئی میں پولیس نے اینٹوں کا جواب نیزوں سے دیا اور انھیں گھوڑوں کی ٹاپوں سے روندا۔ احمد آباد اور اس سے بھی زیادہ لاہور مں عوام قابو سے باہر ہوگئے اور حکومت نے مارشل لاء کے ذریعے دل کھول کر اس کا اتقام لیا۔ گاندھی جی کی اخلاقی جرأت کا کیا ٹھکانا ہے! انھوں نے کھلے ہوئے لفظوں میں اقرار کر لیا کہ عوام کو تربیت دینے سے پہلے ستیہ گرہ شروع کر کے انھوں نے بھول کی ہے۔ دل میں ٹھان لیا کہ اس کمی کو پورا کرنے کی دل و جان سے کوشش کریں گے۔ اس فیصلے کو وہ اپنے لفظوں میں یوں بیان کرتے ہیں،

    ’’میں ضروری سمجھتا ہوں کہ عام سول نافرمانی شروع کرنے سے پہلے آزمائے ہوئے پاک نفس رضاکاروں کی ایک جماعت تیار کی جائے، جو ستیہ گرہ کے اصولوں کو پوری طرح سمجھتی ہو۔ یہ رضا کار عوام کو ان اصولوں کی تعلیم دیں اور ہر وقت چوکس رہیں کہ لوگ راہ راست سے ہٹنے نہ پائیں۔‘‘

    اگلے دو سال میں گاندھی جی نے ستیہ گرہ آشرم میں ایسے پاک نفس رضاکاروں کی ایک جماعت تیار کی اور تحریر و تقریر کے ذریعے عوام کو ستیہ گرہ کے اصولوں کی تعلیم دی۔ اب انھیں یہ امید ہوگئی تھی کہ ہندوستان میں ستیہ گرہ کی تحریک پرامن طریقے سے چلائی جا سکتی ہے۔ ستیہ گرہ کے لیے اب تک ہڑتال اور سول نافرمانی سے کام لیا گیا تھا۔ اب گاندھی جی نے ایک انوکھا طریقہ سوچا جو اس وقت دنیا میں کہیں آزمایا نہیں گیا تھا۔ یعنی نان کو آپریشن یا عدم تعاون۔ ان کا خیال تھا کہ مٹھی بھر بدیسی ہمارے دیش میں اپنی حکومت محض اس وجہ سے چلا سکتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ مختلف طریقے سے تعاون کرتے ہیں۔ اگر ہم ان کی ملازمت چھوڑ دیں، اپنے بچوں کو ان کے اسکولوں اور کالجوں میں نہ پڑھائیں، ان کی عدالتوں میں نہ جائیں تو ان کے لیے حکومت کرنا مشکل ہوجائے گا۔ گاندھی جی چاہتے تھے کہ حکومت سے اپنی مانگوں کو منوانے کے لیے ساری قوم مل کر پرامن طریقے سے نان کوآپریشن کے پروگرام پر عمل کرے۔ قوم کی مانگوں میں بڑی مانگ یہی تھی کہ اسے سوراج یعنی اپنے اوپر آپ حکومت کرنے کا حق دیا جائے۔ مگر اس کے علاوہ دو اور مسئلے تھے، جنھیں حل کرنا تھا۔ پنجاب کے مارشل لا میں جو زیادتیاں ہوئی تھیں ان کی تلافی اور خلافت کا مسئلہ جس سے مسلمانوں کو بڑی گہری دلچسپی تھی۔ گاندھی جی ان تینوں کو اہم سمجھتے تھے، مگر سب سے اہم بات ان کے نزدیک یہ تھی کہ ہندوستان ی قوم ان کے حل کرنے کے لیے ایسے طریقے سے کام لے، جس میں تشدد، فریب، غصے اور نفرت کا نام تک نہ ہو۔ ان کی زندگی کا وہ سنہری دن تھا، جب کلکتے میں آل اندیا نیشنل کانگریس کا ایک اجلاس ستمبر 1929ء میں مولانا ابو الکلام آزاد کی صدارت میں ہوا اور اس میں یہ ریزولیوشن پاس کیا گیا کہ اگر حکومت، ملک کی ان تینوں مانگوں کو منظور نہ کرے تو باامن عدم تعاون کی تحریک شروع کی جائے۔ اسی سال دسمبر میں نیشنل کانگریس کے معمولی سالانہ جلسے میں جو ناگپور میں ہوا، گاندھی جی نے نیا دستور منظور کیا، جس میں کانگریس کا نصب العین یہ رکھا گیا،

    ’’سوراج حاصل کرنا، اگر ممکن ہو تو سلطنت برطانیہ کے اندر۔ ورنہ اس کے باہر۔‘‘ اور اس کے ساتھ یہ شرط لگائی گئی، ’’سوراج حاصل کرنے کے باامن اور جائز ذریعے استعمال کیے جائیں۔‘‘ اسی کانگریس میں ہندو مسلم اتحاد، کھادی کی حمایت اور چھوت چھات کی اصلاح کے ریزولیوشن بھی پاس ہوئے۔ یہ گاندھی جی کی حیرت انگیز کامیابی تھی۔ جنوبی افریقہ سے واپسی کے سات برس کے اندر انھوں نے قومی آزادی کی تحریک کوان اخلاقی اصولوں کا پابند بنا دیا تھا، جس پر ان کے نزدیک مذہب انسانیت جسے وہ ’’نیتی دھرم‘‘ کہتے تھے، مبنی تھا۔ گاندھی جی کے نیتی دھرم کے اصول یہ تھے، ۱۔ اس بات پر عقیدہ رکھنا کہ دنیا میں سچائی اور محبت کے قانون کا راج ہے۔ ۲۔ اس قانون کے مطابق زندگی بسر کرنا۔ ۳۔ سب مذہبوں کو بنیادی طور پر ایک سمجھنا اور سب کا یکساں احترام کرنا۔

    انہی اصولوں کی روشنی میں گاندھی جی قومی تحریک کو چلانا چاہتے تھے اور انھی کے سانچے میں قومی مزاج کو ڈھالنا چاہتے تھے۔ ناگپور کانگریس میں ہندوستانی قوم کا یہ فیصلہ کہ وہ سوراج حاصل کرنے کے لیے صرف جائز اور باامن طریقوں سے کام لے گی۔ گاؤں کی مردہ صنعتوں کو زندہ کرنے اور غریبوں کی تھوڑی سی آمدنی میں تھوڑا سا اضافہ کرنے کے لیے کھادی کو فروغ دے گی۔ بھائی بھائی کا جھوٹا فرق مٹانے کے لیے چھوت چھات کو دور کرے گی۔ سچائی اور محبت کے قانون کے آگے سر جھکانا اور ہندو مسلم اتحاد پر زور دینا گویا اس بات کو تسلیم کرنا تھا کہ مذہبوں کے بیچ میں جو دیواریں آتی ہیں، وہ محض خیالی ہیں۔ در اصل سب مذہب ایک ہیں اور یکساں قابل احترام ہیں۔

    اب گاندھی جی کی زندگی کا آدھا مشن انجام پا چکا تھا۔ ہندوستانی قوم نے ان کا پیام سن لیا تھا اور مان لیا تھا۔ اگلی چوتھائی صدی میں انھیں مشن کو پورا کرنا تھا اور جو باتیں اصولاً مانی جا چکی تھیں، ان پر عمل کرا کے، ہندوستان کو آزاد کرانا تھا۔ 30 جنوری 1948کو جب ان کی آنکھیں بند ہوئیں۔ ان کا کام ایک حد تک پورا ہو چکا تھا۔ ان کی قوم نے جائز اور باامن طریقے سے سوراج حاصل کر لیا تھا۔ مگر کام کا ایک بڑا حصہ باقی رہ گیا تھا۔ معاشی سوراج ابھی حاصل نہیں ہوا تھا۔ گاؤں کی صنعتوں کو ابھی نئی زندگی نہیں ملی تھی، غریبی اور چھوت چھات ابھی پوری طرح دور نہیں ہوئی تھی، ہندو، مسلم اتحاد ابھی پوری طرح قائم نہیں ہوا تھا۔ 30 جنوری 1948ء کو گاندھی جی کا جسم ٹھنڈا ہو گیا، ان کی زبان بند ہو گئی، مگر ان کا پیام زندہ ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے