Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جارج برنارڈشا

عبد اللہ ملک

جارج برنارڈشا

عبد اللہ ملک

MORE BYعبد اللہ ملک

    یہ سردیوں کی ایک رات تھی۔ برف باری ابھی شروع نہ ہوئی تھی۔ لیکن فضا میں برف باری کے آثار نمایاں تھے۔ ہوا سخت سرد تھی۔ چاروں طرف دھند ہی دھند نظر آرہی تھی اوراس دھند کی وجہ سے راستہ چلنا محال ہو رہا تھا۔ لندن کے من چلے سرشام ہی گلیوں، ہوٹلوں، ریستورانوں، سینماگھروں اور رقص و سرود کی دوسری محفلوں میں پناہ لینے کی غرض سے پہنچ رہے تھے۔ شراب اور کافی کے دور چل رہے تھے۔ ویسٹ اینڈ کے بانکے اور ایسٹ اینڈ کے چوڑی چھاتیوں والے محنت کش سبھی اپنی اپنی استطاعت کے مطابق شراب اور کافی سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ہنس رہے تھے، ناچ رہے تھے۔ دنیا و مافیہا سے بے نیاز دن کی تھکاوٹ اور کلفت کو کافی اور شراب کے چند جرعوں میں غرق کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن اس ’’ویسٹ اینڈ، ایسٹ اینڈ‘‘ ٹرافالکر چوک۔ ہائڈپارک کے لندن سے تھوڑی دور اپنے سینٹ لارنس کی بستی میں ایک آہنی دروازے اور اونچی اونچی دیواروں والے مکان میں کوئی قہقہہ نہ سنائی دیتا تھا۔ کوئی قمقمہ روشن نہ تھا۔ کوئی کافی اور شراب کا دور نہ چل رہا تھا۔ پیانو کی آواز بھی موجزن نہ تھی، پوری بستی خاموش اور پرسکون تھی، اس خاموشی سے موت کی سی وحشت محسوس ہوتی تھی۔ اس اونچی اونچی دیواروں، کشادہ کمروں اور آہنی دروازے والے مکان کے ایک کمرے میں زندگی کوئی حرکت کرتی ہوئی محسو س ہوئی تھی اور زندگی کی اس حرکت پر بھی موت کی پرچھائیاں لرز رہی تھیں۔ اس وسیع مکان کے ایک کمرے میں جس کی کھڑکی باہر کھلی ہوئی فضا میں کھلتی تھی۔ انگلستان ہی کا نہیں دنیا کا سب سے بڑا ڈراما نگار، سب سے بڑا سماجی طنز نگار ایک کونے میں پڑا موت سے دست وگریباں ہو رہا تھا اور باہر کھڑکی کے شیشوں کی اس طرف دھند اور تاریکی پھیلتی اور بڑھتی چلی جارہی تھی، اور اندر شیشوں کی اس طرف یہ ۹۴برس کا بوڑھا ڈراما نگار جارج برنارڈ شا کمرے میں چپ چاپ فرداودوش سے بے نیاز لیٹا تھا۔ اس سفید بالوں اور گھنی داڑھی والے انسان نے کئی بار موت کو ہرایا تھا لیکن آج خود یہ موت کے ہاتھوں نڈھال ہو رہا تھا اور جو جارج برنارڈ شا ساری عمرایسے کردار تخلیق کرتا رہا جو سرتا پا خردوہوش ہیں آج خود اپنے سینٹ لارنس کی ایک خاموش اور پرسکون بستی میں سردیوں کی ایک رات کو خردوہوش کھوچکا تھا۔ ۳/نومبرکی اس رات کو جب لندن کے کلبوں، ہوٹلوں، ریستورانوں، کیفوں، سینما گھروں، تھیٹر اور اوپرا کے ہالوں میں کھوے سے کھوا اچھل رہا تھا۔ جب رقص و سرود کی محفلیں پورے جوبن پر تھیں، جب شراب او ربیر کی بوخون میں حرارت پہنچا رہی تھی، جب زندگی اپنی تمام تلخیوں اور ناآسودگیوں کے باوجود ایک حسین خواب محسوس ہو رہی تھی، تو زندگی کا ایک لافانی پیامبر، ایک لازوال شاہکار موت کے ہاتھوں احساس و حرکت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو رہا تھا۔

    رات گزری جارہی تھی، شمعیں جھلملارہی تھیں، دھند اور تاریکی کی موٹی موٹی تہیں چھٹ رہی تھیں۔ صبح کی سپیدی آہستہ آہستہ نمودار ہو رہی تھی، اورکارنس پر پڑا ہوا بدھ کا مجسمہ اور دیوار پر لٹکی ہوئی اسٹالین کی تصویر۔ خاموشی سے اس تضاد بھرے ڈرامانگار کو جھانک رہی تھی۔ یہ تضادوں سے بھرپور ادیب جو اشتراکی تھا لیکن اشتراکی انقلاب کا حامی نہ تھا، جو مادہ پرست تھا، لیکن خیال کی فوقیت کو تسلیم کرتا تھا، جو ملحد تھا لیکن ایک نئے مذہب کی تلاش و جستجومیں عمر بھر مصروف رہا، جو کمیونزم کا حامی تھا لیکن کمیونسٹ پارٹی میں شامل نہیں ہونا چاہتا تھا۔ جو زندگی کے ارتقاءکے لیے خیال اور عمل دونوں کو ایک جیسا ضروری تصور کرتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود زندگی بھر اپنے ڈراموں میں ایک بھی کردار ایسا نہ پیش کرسکاجو عمل کا دھنی ہو۔ ۳/نومبر کی رات کو جب رات کی سیاہی چھٹنے والی تھی اور صبح کی آمد آمد تھی۔ تو یہ لافانی ادیب، لازوال ڈراما نگار جارج برنارڈ شا اس جہانِ رنگ و بو کو خیرباد کہہ گیا۔

    یہ وہی برنارڈ شا تھا جس نے انیسویں صدی میں جنم لیا اور بیسویں صدی کے پچاسویں برس میں زندگی کو خیرباد کہا۔ جس انیسویں صدی میں جارج برنارڈ شا پیداہوا وہ انیسویں صدی برطانوی شہنشاہیت کے لیے ترقی اور عروج کی صدی نہ تھی بلکہ تنزل، بحران اور اخلاقی اقدار کے دیوالیہ پن کی صدی تھی۔ اگر جارج برنارڈ شا انیسویں صدی کے پہلے نصف میں پیدا ہوا ہوتا تو وہ بالکل مختلف برنارڈ شا ہوتا اور اس کی موت پر شاید اتنی آنکھیں پرنم نہ ہوتیں اور فضا اتنی اداس اور خاموش نہ ہوتی۔ لیکن برنارڈ شا نے اس کے بالکل برعکس ۱۸۵۶ء میں جنم لیا۔ انیسویں صدی کے آخری نصف میں جب کہ سرمایہ داری نظام میں شگاف پڑنے شروع ہوگئے تھے اور یورپ کو ایک طرف انقلابات سے دوچار ہونا پڑ رہا تھا تو دوسری طرف غلام ممالک میں آزادی کی تحریکیں نہ سہی کم از کم احتجاج ضرور ابھر رہاتھا۔

    کون ہندوستانی اور پاکستانی ان مظالم کو فراموش کرسکتا ہے جو ڈھاکہ کی ململ کے صناعوں پر روا رکھے گئے! ان دستکاروں کو لامحالہ زراعت کی طرف توجہ کرنا پڑی۔ زمینوں پر بوجھ پہلے ہی زیادہ تھا۔ دوسری طرف ان سامراجی ممالک کو سستی خام اجناس پہلے ہی درکار تھیں۔ اس وجہ سے کسانوں کو بھی ان کے ظلم و ستم کا شکار ہونا پڑا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ غلام ممالک میں چاروں طرف آہ و بکا اور چیخ پکار نے ایک ہنگامہ بپا کردیا۔

    اس آہ و بکا اور نالہ وشیون نے نخلستان کے درمیانی طبقوں اور پڑھے لکھے حساس نوجوانوں کو ایک طرف اگر متاثر کیا تو دوسری طرف محنت کشوں کو اقتصادی بحران نے سیاسی شعور بخشا اور وہ بھی منظم ہونے لگے چنانچہ یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ یہ انیسویں کا آخری نصف ہی تھا جس میں کمیونزم کی سائنس ایجاد ہوئی اور سماجی انقلاب کی ضرورت کے بارے میں گفتگو ہر مجلس کا ایک اہم موضوع بن گئی۔ جب برنارڈ شا سن بلوغت کو پہنچا تو چاروں طرف شور ہی شور تھا، پرانی اقدار کھوکھلی معلوم ہو رہی تھیں پرانا اخلاق فرسودہ محسوس ہوتا تھا۔ تہذیبی اور اخلاقی اقدارمیں جگہ جگہ دراڑیں اور شگاف نظر آنے لگے تھے اور چاروں طرف سرمایہ داری تہذیب کی ننداہو رہی تھی۔ چنانچہ انہی دنوں ایک نقاد نے کہا تھا،

    ہماری دنیا میں کوئی دیو داخل ہوگیا ہے اور ہمارے اخلاق، ہماری تہذیب، ہمارے کلچر سبھی کو پانو تلے روند رہا ہے اور یہ کوئی نہیں جانتا کہ یہ دیو کون ہے، اس سے چھٹکارا کیسے حاصل کیا جاسکتاہے، اس دیو کو متشکل کرنا، اس کے اثرات کو زائل کرنا اور اس کے زہر کے لیے تریاق ڈھونڈنا ہی اس وقت ادیبوں، سائنسدانوں اور سماجی مفکروں کا سب سے مقدس فریضہ ہے۔

    چنانچہ اس زمانے میں صرف برنارڈشا ہی پہلا شخص نہ تھا جو اس دیو کے اثرات اور زہر سے نفرت کرتا ہو، اس وقت کے دانشوروں کی اکثریت اسی زہر کاعلاج ڈھونڈنے میں مصروف تھی۔ برنارڈشا کی اپنی زندگی میں ایسی بہت سی چھوٹی چھوٹی حقیقتیں جلوہ افروزہوئیں جنہوں نے سرمایہ داری نظام کی منافقتوں، مصیتوں، فریبوں اور جھوٹوں کو اس پر عیاں کردیا۔ جس گھرانے میں برنارڈ شا نے جنم لیا وہ گھرانا خود ایک عجیب اور غریب قسم کا چوں چوں کا مربہ تھا اور اس میں درمیانی طبقے کی تمام کمزوریاں موجود تھیں۔ مثلاً برنارڈشا کا باپ جارج کارشا عدالت میں ملازم تھا، وہاں سے جب اس نے پنشن حاصل کی تو وہ اس کی سالانہ آمدنی کسی طرح تین چار سو روپے سے زیادہ نہ تھی۔ لیکن اس کے اخراجات اس سے کہیں زیادہ تھے کیونکہ وہ اپنے آپ کو امراکے طبقے کا ایک فردتصور کرتا تھا۔ اس لیے اس نے اپنی ساری عمر اسی کشمکش میں گزاردی۔ ایک طرف امرا کی طرح کا رکھ رکھاؤ دوسری طرف قلیل آمدنی۔ اس کے علاوہ برنارڈشا کے باپ کی زندگی خود تصنع اور فریب کا ایک مجموعہ تھی۔ چنانچہ برنارڈشا اپنے باپ کے متعلق لکھتا ہے،

    بظاہر وہ بہت زاہد اور پاکباز شخص تھا لیکن خفیہ طور پر ایک عادی شرابی تھا۔

    اس کے علاوہ اس کے والدین کی شادی بھی ایک بے جوڑ شادی تھی۔ اس کی ماں اس کے باپ سے ۲۰برس چھوٹی تھی اور اس نے اس کے باپ سے شادی بھی صرف اس غرض سے کی تھی کہ وہ اپنی سوتیلی ماں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی تھی۔ چنانچہ شادی کے بارے میں جو پہلے تاثرات اس کے ذہن میں قائم ہوئے اس کاخام مواد اس کو اپنے ہی گھر سے میسر آیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں وہ مروجہ جنسی زندگی اور شادی شدہ زندگی کے سخت خلاف ہوگیا۔ کیونکہ اس کے نزدیک عورت اور مرد صرف ایک بنا پر رشتہ ہوناچاہیے اور وہ ہے آزادانہ محبت، لیکن یہ آزادانہ محبت سرمایہ دارانہ نظام اور طبقاتی سماج میں ایک ناممکن العمل شے ہے۔ چنانچہ اس نے اپنی بہت سی تخلیقات میں اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے اور اس سلسلے میں بہت حدتک انتہا پسند ہوگیاہے۔

    ایک جگہ خود لکھتا ہے،

    ’’جب تک ایک عورت اپنی نسوانیت کو خیرباد نہیں کہتی، خاوند کی غلامی سے انکارنہیں کرتی۔ اپنے بچوں کو خدا حافظ نہیں کہتی، قانون اور معاشرے کو رد نہیں کرتی جب تک وہ تمام دنیا کو سوائے اپنے رد نہیں کرتی اس وقت تک اسے آزادی حاصل نہیں ہوسکتی۔‘‘

    بیسویں صدی کے شروع تک وہ تمام جنسی پابندیوں اور شادی کو کوستارہا۔ چنانچہ اس نے جو ابتدائی ناول لکھے ان میں بھی وہ شادی کے بارے میں طبع آزمائی کرتا ہے۔ اس کاناول IRRATIONAL KNOT بھی ایک عجیب و غریب شادی کے متعلق ہے۔ اس میں ایک بجلی کا انجینئر Conolly ایک لڑکی سے اس کے والدین کی مرضی کے خلاف شادی کرلیتا ہے۔ کونولی کی بیوی امرا کے طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کے مقابلے میں کونولی خود ایک درمیانے طبقے کا فرد ہے۔ دونوں میں اختلافات رونما ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور کونولی کی بیوی اپنے ایک امیر کبیر سابق عاشق کی طرف رجوع کرتی ہے۔ کونولی خود بے نیاز ہوجاتا ہے اور خود کو بجلی کے کام اور موسیقی میں غرق کردیتا ہے۔ دوسری طرف لڑکی کو اس کا عاشق بھی چھوڑ دیتا ہے۔

    دوسرے ناول Love among the artists میں بہت سی عورتیں گانے والیاں، ناچنے والیاں، ایکٹرسیں دکھائی گئی ہیں۔ یہ دن رات اپنے آرٹ کو نکھارنے میں ہمہ تن مشغول رہتی ہیں۔ اس فضا میں ایک صحیح قوم کا مغنی آنکلتا ہے اور اس کے وجود سے شا نے اپنے اردگرد کے آرٹسٹوں کی کھوکھلی اور بے کار دنیا کا نقشہ پیش کیا ہے۔

    اس کا تیسرا ناول (an unsocial socialist) ہے، اس کی بیوی خوبصورت ہے۔ دونوں کی آپس میں شدید محبت ہے۔ لیکن ایک دن میاں کو یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ تمام دولت جس کی بدولت وہ عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتا ہے دراصل اس کے باپ کے کارخانے میں کام کرنے والے مزدوروں کی گاڑھی کمائی ہے۔ اس سے اس کو قلق ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ دنیا کو تیاگ کر دور ایک گاؤں میں چلا جاتاہے۔ اس کی بیوی اس کا پیچھا کرتی ہے لیکن وہ اس کو واپس بھیج دیتا ہے جہاں وہ اس کی فرقت میں تڑپ تڑپ کر مرجاتی ہے۔ اس کے بعد میاں خود بھی واپس آجاتا ہے اور امیرانہ ٹھاٹھ سے زندگی بسر کرنا شروع کردیتا ہے اوراس کے ساتھ ہی اپنے تمام رفیقوں کو بدنام کرتا ہے اور اس میں ایک خاص قسم کا حظ محسوس کرتاہے۔

    شاؔ کے ناول پسند نہیں کیے گئے بہرحال آخری ناول نے نقادوں کو تھوڑا بہت متوجہ کیا۔ چنانچہ ولیم موریس نے اپنے ماہانہ لیکچر میں اس کا تذکرہ کیا۔ مارکر نے کافی جلی حروف میں اس پر تبصرہ چھاپا۔ سٹیونسن نے اس کی بہت تعریف کی۔ Saturday Russian نے تو اسے عصرِ حاضر کے ناول کالقب دے دیا۔

    ان ناولوں کی ناکامیاں اور فنی خامیاں تسلیم، لیکن ان ناولوں سے ایک چیز کا پتہ چلتا ہے کہ برنارڈشا نے کبھی ادب برائے ادب کے نظریے کو قبول نہیں کیا۔ اس نے ان ناولوں میں بھی سماجی مسائل پر قلم اٹھایا، یہ الگ بات ہے کہ وہ ان ناولوں میں اپنی بات کہنے میں چنداں کامیاب نہ ہوسکا۔ اس کے ساتھ ان نظریات کو بھی سمجھ لینا چاہیے جنہوں نے برنارڈ شا کی کایا پلٹ کردی اور اسے ایک مقصدی ادیب بنادیا۔ یہ ۱۸۸۳ء کا قصہ ہے جارج برنارڈشا ایک جلسے میں گیا جہاں ہنری جارج تقریر کر رہا تھا۔ اس تقریر نے برنارڈشا کو سماج میں اقتصادیات کی اہمیت کا پہلی بار احساس دلایا۔ چنانچہ اس نے آکر ہنری جارج کی کتاب progress and poverty کو پڑھ ڈالا۔ لیکن اس کتاب نے تشفی کرنے کی بجائے تشنگی میں اور اضافہ کردیا۔ یہی تشنگی برنارڈشا کو مارکس کی کتابوں سے متعارف کرانے کا موجب ہوئی۔ چنانچہ مارکس کی شہرہ آفاق کتاب سرمایہ پڑھنے کے بعد ہی برنارڈ شانے کہا تھا،

    اب مجھے زندگی میں ایک نصب العین ملا ہے۔

    اس کے بعد برنارڈشا اپنی تمام کوتاہیوں خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود اشتراکیت کا بہت بڑا مبلغ رہا اور یہ کام اس نے کسی نہ کسی طرح پوری زندگی میں نبھایا۔ اس لیے برنارڈشا نے ناول نگاری کو بھی صرف اسی وجہ سے خیرباد کہا کہ ناول میں فنی حدود اس قدر ہوتی ہیں کہ سماجی تنقید کا فریضہ پوری طرح ادا نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ اس نے ناول کو خیرباد کہتے ہوئے کہا تھا،

    میں مروجہ آرٹ کا ذوق نہیں رکھتا، نہ ہی میں مروجہ اخلاقی اقدار کا احترام کرتاہوں، نہ ہی مروجہ مذہب میں یقین رکھتا ہوں، اور نہ ہی مروجہ سورماؤں اور بہادروں کی پرستش کرتا ہوں۔ بحیثیت آئرلینڈ کے باشندے کے نہ میں اس وطن کی پرستش کرتا ہوں جس کو میں نے خیرباد کہہ دیا ہے اور نہ ہی اس وطن کو پوجتا ہوں جس میں زندگی کے دن گزار رہاہوں۔ بحیثیت انسان میں تشدد اور قتل و غارت سے سخت نفرت کرتا ہوں خواہ یہ تشدد اور قتل و غارت میدانِ جنگ میں ہو، یا کھیل کے میدان میں یا قصاب کی دکان میں۔ میں ایک اشتراکی ہوں جو سماج میں نراجیت کو پسند نہیں کرتا اور چاہتا ہوں کہ دولت کے سلسلے میں یہ تفریق باقی نہ رہے۔

    ناول نویسی کو خیرباد کہنے کے بعد برنارڈشا نے صرف صحافت ہی نہیں کی بلکہ تنقید نگار کی حیثیت سے بھی زندگی گزاری اور سماجی خرابیوں کو دور کرنے کے لیے جگہ جگہ تقریریں بھی کیں۔ مختلف اشتراکی مجالس کا رکن بھی بنابالآخر Habiar Society کا رکن بن گیا۔

    اس کی اپنی زندگی کی یکسانیت نے بھی اسے اس نظام سے بغاوت پر مجبور کیا۔ وہ ڈبلن میں دفتر میں ملازم تھا، صبح سے شام تک ایک ہی قسم کی کلرکی، اس میں نہ کوئی تنوع، نہ غور و فکر، مشین کی طرح کام کرنے نے اسے زچ کردیا اور اس نے ملازمت چھوڑدی، اس کے بعد وہ مختلف کام کرتا رہا۔ اخباروں میں کام کرتا رہا۔ موسیقی کے متعلق تنقیدی کالم لکھتا رہا۔ موسیقی کا علم اس نے اپنی ماں سے حاصل کیا تھا، اس کی ماں خود بہت اچھی موسیقار تھی جو برنارڈشا کے باپ کے انتقال کے بعد لندن میں لڑکیوں کے ایک اسکول میں موسیقی کی تعلیم دیتی رہی۔ برنارڈشاکی ایک بہن بھی بہت مشہور موسیقار گزری ہے اور اس کی کئی ایک کتابیں بھی چھپ چکی ہیں۔

    انیسویں صدی کے چل چلاؤ کے زمانے میں سب سے زیادہ اگر ادب کی کسی صنف میں تلاطم بپا ہوا ہے تو وہ ڈراما ہی ہے۔ ڈراما اور اسٹیج جو سالہا سال سے تنزل کی طرف جارہے تھے ان میں یک دم تبدیلی ہوگئی۔ چنانچہ ا سٹیج ازسرنو زندہ ہونے لگی اور پورے یورپ میں تھیٹر بینی کا مذاق بڑھ گیا۔

    پیرس میں ANTOINE کے تھیٹر LIBRE اور LAOGN POE کے تھیٹر LAEORVE کو انہی دنوں میں شہرت حاصل ہوئی تھی، برلن میں FREIE BOONE کے تھیٹر کا طوطی بول رہا تھا۔ دراصل اس نئے تھیٹر اور نئے ڈرامے کا سہرا صرف ایک شخص کے سرپر تھا اور وہ تھا ناروے کا شہرہ آفاق ڈراما نگار البن، اگر البن ڈرامے کی دنیا میں جنم نہ لیتا اور مسلسل جدوجہد سے نئی راہیں تلاش نہ کرتاتو ڈراما کبھی یورپ میں مقبول نہ ہوتا، البن نے نئی راہیں، نئی تکنیک اور نئے موضوع تلاش کیے اور انہی کی وجہ سے وہ یورپ پر چھا گیا۔

    ناروے سے نکل کر البن اپنا سکہ جرمنی اور فرانس سے بھی منواچکا تھا۔ انگلستان میں بھی اس کے معتقدین کی ایک جماعت پیدا ہو رہی تھی۔ چنانچہ نئے ڈرامانویسوں، سٹیج کے ماہروں اور ایکٹروں نے اس نئے ڈراما نگار کی حقیقت پسندی کو اپنانا شروع کیا۔ ڈرامے میں نئے تجربات کے لیے راہیں کھلیں۔ لیکن ڈرامے کے نقادوں نے ناک بھوں چڑھائی۔ نئے لکھنے والوں، ایکٹروں اور اسٹیج کے ماہروں کے خلاف ایک طوفا نِ بدتمیزی بپا ہوگیا۔ تماشائیوں نے آوازسے کسے اور نئے ڈراما نویسوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ پرانے طرز کے ڈرامے لکھیں۔ چنانچہ تھوڑے سے وقفہ کے بعد ڈوما کے ڈراموں اور AUGIER کی قسم کے ڈرامے کھیلے جانے لگے۔ اس وقت کے تنقید نگاروں کے نزدیک مرد اور عورت کا تصادم، جذبات اور خواہشات کاٹکراؤ لازمی اور لابدی سمجھاجاتا تھا لیکن اگر کوئی ڈراما نگار اپنی روش پر قائم رہا اور اس نے البن کی تمام خوبیوں کو اپنایا تو وہ برنارڈشا تھا۔

    برنارڈ شا کو اپنے فن کے منوانے میں پورے بارہ برس لگے۔ بارہ برس کے بعد کہیں جاکر انگلستان کے تماشائی برنارڈشا کے ڈرامے تکنیک اور اس کے طنزیہ انداز سے مانوس ہوئے۔ گو اس عرصے میں وہ جرمنی اور امریکہ میں پوری طرح مقبول ہوچکا تھا۔ انگلستان میں اس کے کھیل ناکام رہے۔ لیکن اس ناکامی کے باوجود وہ مختلف مجالس، کلبوں، ڈرائنگ روم اور ریستورانوں میں بیٹھنے والوں کا موضوع بن گیا۔

    برنارڈ شا کو سب سے پہلے البن کے فن سے متعارف ہونے کا موقع ۱۸۸۹ میں ملا۔ اس سال لندن کے شہرہ آفاق تھیٹر INDEPENDENT میں بس کا معرکہ آرا ڈراما A DOLLS HOUSE دکھایا گیا تھا۔ اس کھیل نے شا کو شدید طور پر متاثر کیا۔ چنانچہ ۱۸۹۱ میں برنارڈشا نے البن کے فن کے متعلق ایک کتاب QUINTENDENCE OF IBSENISM کے نام سے لکھی اس میں البن کو عصرِ حاضر کا سب سے اہم ڈراما نگار تسلیم کیا گیا تھا۔ اس وقت تک انگلستان کے اس مشہور تھیٹر میں صرف البن کی قسم کے شہرہ آفاق ڈراما نگاروں کے ڈرامے ہی کھیلے جاسکتے تھے۔ ۲سال تک اس تھیٹر کا منیجر کسی انگریز ڈراما نگار کی تلاش میں رہا۔ چنانچہ اس واقعہ کے متعلق خود برنارڈشا اپنے ایک دیباچے میں لکھتا ہے،

    ’’بالآخر میں نے خود ہی اس سے کہا۔

    اس قومی نقصان کی تلافی بالآخر مجھے خود ہی کرنی پڑے گی اس لیے آپ اپنے تھیٹر میں میرا ڈراما ہی کھیلنے کاانتظار کیجیے۔

    برنارڈشا کا پہلا ڈراما WIDOWERS HOUSE ۱۸۹۲ میں اسی تھیٹر میں کھیلا گیا۔ اس کے متعلق خود شا ایک جگہ لکھتا ہے،

    اس کھیل نے خوبیوں اور خرابیوں کے باوجود لندن کے ادبی حلقوں میں سنسنی پھیلادی اور میں یک دم بطور ڈراما نویس مشہور ہوگیا۔ اشتراکیوں اور آزاد خیالوں نے اصول کی بنا پر میری ہمت افزائی کی۔ عام تماشائیوں نے خوب آوازے کسے اور کافی لعن طعن کی۔ اور میں چونکہ ان دنوں تقریر بازی میں کافی مشاق تھا اس لیے میں نے کھیل شروع ہونے سے پہلے ایک تقریر جھاڑدی، اخباروں اور رسالوں میں پورے دو ہفتے اس کھیل کاتذکرہ ہوتا رہا۔ صرف مزاحی کالموں میں ہی نہیں بلکہ اس کھیل کے بارے میں افتتاحیہ مقالے بھی لکھے گئے۔ حتی کہ ڈرامے کا پورا متن بھی شائع کیاگیا۔ میں کامیابی تو مکمل طور پر حاصل نہ کرسکا لیکن میں موضوعِ گفتگو ضرور بن گیا اور اس چیز سے مجھے اتنا لطف حاصل ہوا کہ میں نے اور ڈرامے لکھنے کا تہیہ کرلیا۔

    پہلے کھیل میں ان سرمایہ داروں کی تصویر کھینچی گئی ہے جو غریب مزدوروں کی جھونپڑیوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ یاد رہے یہ اس وقت لکھا گیا تھا جب اقتصادیات کے بڑے بڑے ماہر سرمایہ دار طبقے کی اقتصادی لوٹ کھسوٹ پر پردہ ڈال رہے تھے اس وقت برنارڈشا نے اپنے قلم سے ان پردوں کو پھاڑا اور اس طبقے کے مظالم کو بے نقاب کیا۔

    دوسرے ڈرامے MRS WARREN’S PROFESSION میں ایک بہت عجیب و غریب موضوع پر قلم اٹھایا گیا ہے۔ ایک نوجوان لڑکی کو جو کیمبرج یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتی ہے اور نہایت آرام سے زندگی بسر کر رہی ہے یک دم پتہ چلتا ہے کہ اس کی ماں متعدد چکلوں کی مالکہ ہے۔ اور انہی چکلوں کی لوٹ گھسوٹ سے وہ تعلیم حاصل کر رہی ہے۔

    سرمایہ داری نظام پر اس سے بڑی طنز کیاہوسکتی تھی۔ چنانچہ یہی وجہ تھی کہ حاکموں نے اس ڈرامے کو اس وقت کھیلنے کی ممانعت کردی۔

    ۱۸۹۸ میں اس کے ڈراموں کی پہلی جلد شائع ہوئی اس کا نام PLAYS PLEASANT AND UNPLEASANT تھا۔ اس کے بعد ۱۹۰۱ء میں اس کے ڈراموں کی ایک جلد THREE PLAYS FOR PUKITANS کے نام سے شائع ہوئی۔ اس میں سیزر اور کلوپیٹرا بھی شامل تھا۔ ۱۹۰۳ء میں MAN AND SUPERMAN شائع ہوا۔ نقاد کہتے ہیں کہ اس ڈرامے نے برنارڈشا کو ایک کتابچہ نویس بناڈالا۔ آج ہم اپنے دور میں بھی بہت سے نقادوں کی زبانی اس قسم کی آرا سنتے ہیں۔ لیکن سرمایہ دارانہ سماج میں جب بھی کوئی تخلیق ایسی ہوگی جس میں عام انسانوں کو متاثر کرنے کی طاقت ہوگی، جو سرمایہ دارانہ سماج اور اس کی اقدار پر زیادہ سے زیادہ چوٹ لگائے گی تو نقاد اسی قسم کی رائے کا اظہار کریں گے کیونکہ اس رائے سے ان کا مقصد اس شہ پارے کو لوگوں کی نظروں میں گرانا اور اس کی اہمیت کو کم کرنا ہوتا ہے۔ چنانچہ MAN AND SUPERMAN کے بارے میں یہی ہوا۔ کیونکہ اس میں کہا گیا ہے۔

    ’’میرا نام میندون ہے، میں ایک ڈاکو ہوں، میں امیروں کو لوٹتا ہوں، اور یہی میری زندگی کا شغل ہے۔‘‘

    ’’میرا نام ٹینر ہے، میں ایک نہایت شریف انسان ہوں، میں غریبوں کو لوٹتا ہوں اور یہی میری زندگی کا شغل ہے۔‘‘

    ہاتھ ملاؤ دوست!

    اسی ڈرامے میں ایک کردارکہتاہے،

    موت اہمیت نہیں رکھتی۔ بلکہ اصل اہمیت موت کے احساس میں پنہاں ہے۔ انسان مرنے مارنے سے ذلیل نہیں ہوتا بلکہ اصل ذلت اس زندگی میں پنہاں ہے جس کی وجہ سے ہم یہ قلیل اجرت تسلیم کرتے ہیں اور منافع اندوزی کو جائز تسلیم کرتے ہیں، دس انسانوں کی موت اس سے بہتر ہے کہ ایک انسان غلامی اور ذلت کی زندگی بسر کرے۔ انسان بیدار ہوگا، باپ، بیٹے کے خلاف، بھائی، بھائی کے خلاف، تاکہ ایک عظیم مقصد۔ غلامی سے نجات۔ حاصل ہوسکے۔

    برنارڈشا نے بہت لکھا ہے۔ پچاس کے قریب ڈرامے ہیں۔ ایک مضمون میں اس کے تمام ڈراموں کے بارے میں فرداً فرداً کچھ کہنا ناممکن ہے، نہ ہی الگ الگ ان کے محاسن اور عیوب گنوائے جاسکتے ہیں۔ جہاں تک شاؔ کے ڈراموں کامجموعی طور پر تعلق ہے اس کے متعلق AUGUST HAMON لکھتا ہے۔

    شا کا ڈراماخواہ دیکھا خواہ کتابی صورت میں پڑھا جائے اس کا پہلااثر خط کا ہوتا ہے۔ یہ قاری یا تماشائی کو پہلے تو محظوظ کرتاہے لیکن ایسا خط جس میں حیرانی اور تحیر کی چاشنی بھی ملی ہو اور بعض دفعہ خط میں صرف حیرانی اور تحیر کی چاشنی ہی نہیں ہوتی بلکہ ایک دھکا سا بھی محسوس ہوتاہے۔ مجموعی طور پر انسانی ذہن ایک خاص قسم کی ناآسودگی محسوس کرتا ہے۔ لیکن ایسی ناآسودگی جو بارِ خاطر نہ ہو۔

    برنارڈشا کے ڈراموں میں کامیڈی کا عنصر بہت زیادہ ہوتا ہے۔ وہ قاری اور تماشائی کو صرف مسکرانے کا ہی موقع نہیں دیتا بلکہ بعض اوقات تو قہقہوں پر بھی مجبور کردیتاہے۔ لیکن بنیادی طور پر اس کی کامیڈی کاانحصار بھی گہرے افکار پر ہوتاہے جیسا کہ You never Can Tell میں فلپ اور دولی وزیجے اپنی ماں کو نہایت ناصحانہ انداز میں لیکچر دیتے دکھائے جاتے ہیں، یا THE DEVILS DESCIPLE میں جپرڈ ایک ملزم ہے جو جج کو عدالت کے کمرہ میں نہایت رعب سے نصیحت دیتا دکھایا گیا ہے، بعض جگہ شاؔ اپنے کرداروں کے غلط ملط سے بھی مزاح پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

    برگسان نے کہا ہے کہ ہنسی ایک سوشل آرٹ ہے اور شا اپنے ڈراموں میں جس قسم کی ہنسی کے لیے فضا پیدا کرتا ہے اس پر یہ تعریف ہوبہو صادق آتی ہے۔ شاؔ اپنے ڈراموں میں سماج کی غیرعقلی منافقت اور دغابازی پر سے آہستہ آہستہ پردہ اٹھاتا ہے اورجیسے جیسے یہ پردہ اٹھتا ہے ویسے ہی معاشرہ کا تمسخر انگیز چہرہ نیچے سے ابھرتا آتا ہے اور ہنسی اور دھمک بیک وقت محسوس ہوتا ہے۔ چنانچہ برنارڈشا اپنے Bull’s other Island کے ایک کردار پیئرگیگن کی زبان سے کہلواتا ہے۔

    ’’میرا مذاق کرنے کا طریقہ بالکل انوکھا ہے اور وہ ہے کہ میں سچی اور کھری کھری باتیں کہتا ہوں۔ اس سے زیادہ ظالم مذاق اس روئے زمین پر اور کوئی نہیں ہوسکتا۔‘‘

    البتہ شاؔ کی کامیڈی کی ایک اور خصوصیت بھی ہے وہ ہے کہ یہ اپنے اندر ایک غم انگیز عنصر بھی چھپائے ہوئے ہوتی ہے۔ جیسے جیسے سماج کے نامور بے نقاب ہوتے جاتے ہیں، ویسے ہی ہنسی کے ساتھ ایک غم کی کیفیت بھی ظاہرہوتی جاتی ہے۔ اسی لیے تو برنارڈشا کے ڈرامے کھیلنے والے ایکٹروں کو بہت زیادہ محتاط ہونا پڑتا ہے، کیوں کہ یہ ایکٹر بذات خود یا ڈرامے کے پارٹ میں غمگین نظر نہیں آتے اور نہ ہی انہیں ایسے انداز میں نظر آنا چاہیے، بلکہ بعض اوقات تو ان کرداروں کو مسکرانا پڑتا ہے، قہقہے لگانے پڑتے ہیں۔ لیکن ان کے قہقہوں، ان کی مسکراہٹ میں ایسا انداز ہونا چاہیے کہ تماشائی اس سے غم کی کیفیت حاصل کرے اور یہ غم انگیز کیفیت تماشائی کو بالکل اپنے طور پر محسوس کرنی ہوگی نہ کہ کردارکو اپنی حرکات سے اسے نمایاں کرنا ہوگا۔

    برنارڈشا زبردست حقیقت پسند ہے لیکن اس نے سرمایہ داری دور کی حقیقت پسندی کو اپنایا ہے۔ وہ صرف سماج کے چہرے بے نقاب کرتاہے، وہ ناسوروں کودکھاتا ہے۔ وہ پیپ بھی دکھاتا ہے، وہ تمام گندگیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے لیکن وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس سرانڈ سے چھٹکارا کیسے حاصل کیا جائے۔ لیکن اس کمزوری کے باوجود سرمایہ دارانہ دور کے حقیقت پسندوں میں اس کا درجہ بہت بلند ہے، وہ بہت حدتک کرداروں کی اندرونی تبدیلیوں اور کیفیتوں کو بھی پہچانتا ہے اور ان کا اظہار صرف مکالموں کے ذریعے کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کے کردار صرف نیکی یا بدی کے پتلے نہیں ہوتے۔ بلکہ وہ بیک وقت نیک بھی ہیں اور بد بھی، خودغرض بھی ہیں اور قربانی کرنے والے بھی، سخی بھی ہیں اور کنجوس بھی، وہ بہادر بھی ہیں اور بزدل بھی، وہ قابل نفرت بھی ہیں اور قابل پرستش بھی۔

    اس کے علاوہ برنارڈشا کے ڈراموں میں مروجہ روایات کے مطابق نہ کوئی ہیرو ہوتا ہے نہ ولن، بلکہ یہ سیدھے سادھے انسان ہوتے ہیں جن میں ہیرو اور ولن کی خصوصیات بیک وقت ہوتی ہیں۔

    لیکن شاؔ کے کرداروں میں قاری یا تماشائی نے اپنی جھلک کبھی نہیں دیکھی، یہ تمام کردارکسی ایسی دنیا کے کردار ہوتے ہیں جس میں صرف فکر ہی فکر ہوتا ہے اور وہ اپنے نظریات و خیالات کو صرف برائے نام جسموں کے ذریعے ادا کرتا ہے ورنہ اگر ممکن ہوتا تو شاید شاؔ صرف ہوا میں جھونکوں کے ذریعہ اپنے ڈرامے کہلوادیتا۔

    یہ ناکامی اس کے فیبین نظریات کی وجہ سے ہے کیونکہ اس کاخیال تھا کہ سماج کی تمام لوٹ کھسوٹ صرف فکری اصلاح سے دور ہوسکتی ہے اس کے نزدیک عمل کے بغیر فکر ہی سے یہ جنگ جیتی جاسکتی ہے۔ چنانچہ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ اس کے کردار تخیلی کردار ہوکر رہ گئے ہیں۔۔۔ اسی کے متعلق کراسٹوفر کاڈویل نے کہاہے،

    برنارڈشاؔ تمام دنیا سے الگ تھلگ رہ کر ذہنی کرداروں کی تخلیق کرتا ہے، اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ اس کے اکثر کردار اور ڈرامے انسانیت کی گرمی کھوبیٹھتے ہیں کیونکہ ان ڈراموں میں انسان کو صرف ایک غور و فکر کرنے والا آلہ تصور کیا گیا ہے جس کی خصوصیت صرف اتنی ہے کہ وہ چلتا پھرتا ہے، حالانکہ یہ انسان کی خوش قسمتی ہے کہ وہ ایسانہیں ہے۔ ورنہ مدتوں پہلے انسانی نسل ختم ہوچکی ہوتی۔ انسانی شعور ولاشعور کاایک اتھاہ سمندر ہے جس میں جذباتی پسندیدگی اور ناپسندیدگی ہے۔ زندگی کی چھوٹی چھوٹی اور صاف ستھری حقیقتیں ہیں اور اس سمندر کی سطح پر بعض دفعہ شعور اور غور و فکر کے بلبلے بھی تیرتے نظر آتے ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے