غدر کی تصویر
اللہ اللہ! زمانہ کے نشیب و فراز میں کتنے پر حسرت نظارے ہیں۔ یہی دہلی جو اپنی گود میں ہزاروں ارمان بھرے دلوں کا خون بہتا دیکھ چکی ہے، رہ رہ کے پلٹے کھاتی اور رنگ دکھاتی ہے۔ ایک دن وہ تھا کہ بابر کی تلوار نے ابراہیم لودھی کا خون دہلی کے ریگستان کو پلایا اور اس کے اہل و عیال کو حسرت و یاس کی مجسم تصویر بنا ہوا سامنے دست بستہ کھڑا دیکھا یا ایک دن ایسا آیا کہ اسی کی اولاد اپنے اعمال کی بدولت ان بیکسوں کا نمونہ بنی۔
آہ! دہلی دربار کی نمائش گاہ میں داخل ہوتے ہی ایک تصویر پر نظر پڑی، جس میں بزم تیموری کی گل ہونے والی شمع ابو ظفر بہادر شاہ مقبرہ ہمایوں میں میجر ہارسن کے ہاتھوں گرفتار کیے جا رہے ہیں۔ پشت پر ہمایوں کا مقبرہ نظر آتا ہے، جس پر کچھ عجیب دلگیر افسردگی چھائی ہوئی ہے۔ بہادر شاہ عبا پہنے ہوئے کھڑے ہیں۔ ہاتھ میں عصا ہے۔ چہرہ پر غم و الم میں ڈوبا ہوا بڑھا پے کا رنگ اور متحملا نہ یاس کا عالم ہے۔ میجر ہارسن سرخ و ردی پہنے بادشاہ کا دامن پکڑ کر کھڑے ہیں اور ان کے دو ہمراہی بادشاہ کی پشت پر نظر آتے ہیں۔ میجر ہارسن کی اس بیباکانہ جرأت پر بہادر شاہ کا ایک بوڑھا جاں نثار تلوار سوت کر لپکتا ہے۔ ہاتھ میں ڈھال ہے مگر بشرہ نڈھال۔ قریب پہنچتے پہنچتے برابر والا سولجر پستول سامنے کر کے اس کا بڑھا ہوا حوصلہ پست اور جوش انتقام سرد کر دیتا ہے۔
افسوس ہے کہ دنیا کے اس مصیبت خیز انجام پر بھی لوگوں کو اس کی ہوس باقی ہے۔ چلتے وقت ’’دیوان ِ حافظ‘‘ کا دم بخود کھلا ہوا ایک ورق نظر پڑا، جس کی پہلی سطر تھی،
آخر نظر بسوئے ما کن
اے دولت و حسرت عام
یہ پڑھتا ہوا باہر آیا اور اس مرقع کو مخاطب کر کے اس شعر کو دہرایا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.