Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

غالب اور حادثۂ اسیری: ایک معاصر شہادت اور قطعۂ تاریخ

گوپی چند نارنگ

غالب اور حادثۂ اسیری: ایک معاصر شہادت اور قطعۂ تاریخ

گوپی چند نارنگ

MORE BYگوپی چند نارنگ

     

    غالب کے واقعہ اسیری کے حالات پوری طرح سامنے نہیں ہیں۔ اس زمانے میں ذاتی وجاہت اور وضعداری کے آداب ہی کچھ ایسے تھے کہ انسانی کمزوریوں کو زیادہ سے زیادہ درپردہ رکھا جاتا تھا اور ہر بات میں ایک خاص رکھ رکھاؤ اور لیے دیے رہنےکے انداز کو ترجیح دی جاتی تھی۔ فن کا دامن شرافت اور معقولیت کے تصور سے کچھ اس طرح بندھا ہوا تھا کہ فن کار کی ذرا سی لغزش سے اس کی عظمت پر حرف آ سکتا تھا۔


    چنانچہ غالب بھی قید کے واقعہ کو اپنی بہت بڑی ’’بے آبروئی‘‘ تصور کرنے پر مجبور تھے۔ جہاں تک بن پڑا انھوں نے اس واقعہ کا ذکر نہیں کیا۔ غالب کے اولین سوانح نگار حالی نے بھی چونکہ وہ قدیم اخلاق وآداب کے دلدادہ تھے، غالب کی سیرت کے ان پہلوؤں کو تحقیق کی روشنی میں لانا پسند نہیں کیا بلکہ ان کی شخصیت کو زیادہ سے زیادہ مثالی بناکر پیش کرنے کی کوشش کی۔عام شہرت کے برخلاف غالب قمار بازی کے الزام میں ایک دفعہ نہیں، دو دفعہ معتوب ہوئے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سے پہلے بھی ایک بار غالب بابت عدم ادائیگی ادھار مئی ۱۸۳۷ء میں ماخوذ ہو چکے تھے۔ کالی داس گپتا رضا نے لکھا ہے، 

    ’’جام جہاں نما، کلکتہ بابت ۷جون ۱۸۳۷ء میں درج ہے کہ میرزا اسد اللہ خاں، یوسف خاں کی ملاقات کو جا رہے تھے کہ اثنائے راہ میں عدالت کے چپراسی نے دو سو پچاس روپے کی نالش کی بابت جو میکفرسن صاحب نے کی تھی، انھیں گرفتار کرکے ناظر کے مکان میں قید کر دیا۔ چنانچہ (نواب) امین الدین خاں نے چار سو روپیہ مع اصل وسود ادا کرکے رہا کرایا۔ میکفرسن مشہور شراب فروش انگریز تھے۔‘‘

    قماربازی کے الزام میں معتوب ہونے کا پہلا واقعہ ۱۸۴۱ء کا اور دوسرا ۱۸۴۷ء کا ہے۔ مرزا حیرت دہلوی نے اپنی کتاب ’چراغ دہلی‘ میں غالب کے حادثۂ اسیری کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے، ’’مرزا صاحب کے ساتھ بہت رعایت کی گئی۔ کسی قسم کی توہین نہیں ہوئی اور کسی نے انھیں ہاتھ نہیں لگایا بلکہ ضمانت پر رہا کر دیے گئے۔‘‘

    اس روایت میں ظاہر ہے کہ غالب کے پہلے واقعۂ گرفتاری کا ذکر کیا گیا ہے، کیونکہ دوسری بار تو باوجود کوششوں کے قید ہو ہی گئی۔ پہلے واقعۂ گرفتاری سے متعلق ہماری معلومات کا مستند ترین ماخذ ’دہلی اردو اخبار‘ ہے۔ اس میں غالب کی گرفتاری کی خبر ۱۵اگست ۱۸۴۱ء کو چھپی تھی۔ 1 یہاں سے اسے سب سے پہلے امداد صابری صاحب نے ’تاریخ صحافت اردو‘ میں نقل کیا۔ 2 لیکن انھوں نے غالب کی پہلی گرفتاری سے متعلق اس خبر کی اہمیت کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا۔ نیز انھوں نے ’دہلی اردو اخبار‘ کی تاریخ ۲۲ اگست لکھی ہے جو غلط ہے۔ غالب کی گرفتاری کی یہ خبر ۱۵ اگست ۱۸۴۱ء کے اردو اخبار میں شائع ہوئی تھی۔ اس خبر سے چونکہ آگے چل کر غالب کے دوسرے واقعۂ اسیری سے متعلق بعض اہم نتائج اخذ کرنے میں مدد ملے گی، اس لیے سب سے پہلے اسے ایک نظر دیکھ لینا ضروری ہے، 

    ’’سنا گیا ہے کہ ان دنوں تھانہ گزر قاسم خان میں مرزا نوشہ کے مکان سے اکثر نامی قمار باز پکڑے گئے۔ مثلاً ہاشم علی خاں وغیرہ کے۔۔۔ کہتے ہیں، بڑا قمار ہوتا تھا لیکن باسبب رعب اور کثرت مرداں کے یا کسی طرح سے، کوئی تھانہ دار دست انداز نہیں ہو سکتا تھا۔ اب تھوڑے دن ہوئے یہ تھانیدار قوم سے سید اور بہت جری سنا جاتا ہے، مقرر ہوا ہے۔ یہ پہلے جمعدار تھا۔ بہت مدت کا نوکر ہے۔ جمعداری میں بھی یہ بہت گرفتاری مجرموں کی کرتا رہا ہے، بہت بے طمع ہے۔ یہ مرزا نوشہ ایک شاعر نامی رئیس زادہ نواب شمس الدین قاتل ولیم فریزر صاحب کے قرابت قریبہ 3 میں سے ہے۔ 

    یقین ہے کہ تھانیدار کے پاس بہت رئیسوں کی سعی و سفارش بھی آئی لیکن اس نے دیانت کو کام فرمایا، سب کو گرفتار کیا۔ عدالت سے جرمانہ علیٰ قدر مراتب ہوا۔ مرزا نوشہ پر سو روپے، نہ ادا کریں تو چار مہینے قید، لیکن ان تھانیدار کی خدا خیر کرے۔ دیانت کو تو کام فرمایا انھوں نے لیکن اس علاقہ میں بہت رشتہ دار متمول اس رئیس کے ہیں۔ کچھ تعجب نہیں کہ وقت بےوقت چوٹ پھٹ کریں اور یہ دیانت ان کی وبال جان ہو۔ حکام ایسے تھانیدار کو چاہیے کہ بہت عزیز رکھیں، ایسا آدمی کم یاب ہوتا ہے۔‘‘

    حیرت ہے کہ اس واقعہ کا ذکر کسی دوسرے معاصر نے نہیں کیا۔ نہ ہی غالب نے اپنے اس طرح معتوب ہونے کی طرف کوئی اشارہ کیا۔ یادگار غالب بھی اس واقعہ سے خالی ہے۔ قیاس چاہتا ہے کہ خود غالب نے یا ان کے کسی بہی خواہ نے جرمانہ کی رقم فوراً داخل کر دی اور اس طرح وہ قید کی آفت ناگہانی سے بچ گئے۔ ’’دہلی اردو اخبار‘‘ کے اس بیان پر مندرجہ ذیل تنقیحات قائم ہوتی ہیں، 

    (۱) غالب کا مکان قمار بازی کا اڈا تھا۔

    (۲) اس میں بڑے بڑے نامی قمار باز شریک ہوتے تھے۔

    (۳) نیا تھانیدار جو قوم سے سید تھا، بہت بے طمع اور جری تھا۔

    (۴) تمام قمار باز گرفتار ہوئے اور عدالت سے علی قدر مراتب جرمانہ ہوا۔

    (۵) مزرا غالب پر سو روپے جرمانہ اور عدم ادائیگی کی صورت میں چار ماہ قید کی سزا ہوئی۔

    (۶) اس خبر میں غالب کے قید ہونے کا کوئی ذکر نہیں۔

    اس واقعہ کے چھ برس بعد غالب قمار بازی کی وجہ سے دوسری بار ۱۸۴۷ء میں معتوب ہوئے۔ اس دفعہ احباب واعزہ کی سعی وسفارش کے باوجود قید ہو ہی گئی۔ یہ واقعہ غالب پر بہت شاق گزرا۔ سردست اسی واقعۂ اسیری سے متعلق غالب کے ایک معاصر شاعر کا بیان اور قطعۂ تاریخ کا معروضی جائزہ لینا مقصود ہے۔ اس سے چونکہ بعض اہم معلومات حاصل ہوتی ہیں، ان کا صحیح تجزیہ کرنے کے لیے اس واقعہ سے متعلق خود غالب کے اور ان کے معاصرین کے بیانات کو سامنے رکھنا نہایت ضروری ہے۔ سب سے پہلے ان خبروں کو پیش کیا جاتا ہے جو غالب کے معاصر اخباروں میں ان کی گرفتاری کے بارے میں شائع ہوئی تھیں۔

    (الف) غالب کے واقعۂ اسیری سے متعلق سب سے پہلے خبر جو اس وقت ہماری اطلاع میں ہے، ماسٹر رام چندر کے اخبار فوائد الناظرین، دہلی میں مورخہ ۳۱ مئی ۱۸۴۷ء کو شائع ہوئی، 

    ’’خبر دہلی، ۲۵ مئی کو بیچ مکان جناب مرزا نوشہ اسد اللہ خاں صاحب کے قمار بازی ہو رہی تھی، چنانچہ کوتوال صاحب خبرپا کر وہاں گئے اور جناب مرزا صاحب کو معہ چند اور قمار بازوں کے گرفتار کرکے کوتوالی میں لے آئے۔ اب دیکھا چاہیے کہ صاحب مجسٹریٹ ان کے متعلق کیا حکم دیتے ہیں۔‘‘ 4  

    غالب کی گرفتاری کی تاریخ یعنی ۲۵مئی (۱۸۴۷ء) فقط اسی خبر سے معلوم ہوتی ہے۔ یہ خبر ان کی گرفتاری کے چھ روز بعد شائع ہوئی۔ مجسرٹیٹ نے اپنا فیصلہ نہیں سنایا تھا۔ ظاہر ہے یہ زمانہ انھوں نے حوالات میں گزارا ہوگا۔

    (ب) اس سلسلے کی دوسری خبر بمبئی کے ’’احسن الاخبار‘‘ کی ہے۔ اس اخبار میں دہلی اور دربار شاہی سے متعلق جو حالات چھپتے تھے، ان کا ترجمہ خواجہ حسن نظامی نے ’دہلی کا آخری سانس‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع کر دیا ہے۔ اس کتاب میں غالب کی گرفتاری کا ذکر ۲۵جون ۱۸۴۷ء کی خبروں میں یعنی گرفتاری کے پورے ایک ماہ بعد یوں آیا ہے، 

    ’’مرزا اسد اللہ خاں بہادر کو دشمنوں کی غلط اطلاعات کے باعث قمار بازی کے جرم میں قید کیا گیا۔ معظم الدولہ بہادر کے نام سفارشی چٹھی لکھی گئی کہ ان کو رہا کر دیا جائے۔ یہ معززین شہر میں سے ہیں اور جو کچھ ہوا ہے، محض حاسدوں کی فتنہ پردازی کا نتیجہ ہے۔ عدالت فوجداری سے نواب صاحب کلاں بہادر نے جواب دیا کہ مقدمہ عدالت کے سپرد ہے۔ ایسی حالت میں قانون سفارش کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔‘‘ 5

    ۲جولائی ۱۸۴۷ء کی خبروں میں پھر اس مقدمے کے فیصلے کا ذکر یوں آیا ہے، 

    ’’مرزا اسد اللہ خاں غالب پر عدالت فوجداری میں جو مقدمہ دائر تھا، اس کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ مرزا صاحب کو چھ مہینے قید بامشقت اور دو سو روپے جرمانے کی سزا ہوئی۔ اگر دو سو روپے جرمانہ ادا نہ کریں تو چھ ماہ قید میں اور اضافہ ہو جائےگا۔ مقررہ جرمانے کے علاوہ اگر پچاس روپے زیادہ ادا کیے جائیں تو مشقت معاف ہو جائےگی۔ جب اس بات پر خیال کیا جاتا ہے کہ مرزا صاحب عرصہ سے علیل رہتے ہیں، سوائے پرہیزی غذا قلیہ چپاتی کے اور کوئی چیز نہیں کھاتے تو کہنا پڑتا ہے کہ اس قدر مشقت اور مصیبت کا برداشت کرنا مرزا صاحب کی طاقت سے باہر ہے بلکہ ہلاکت کا اندیشہ ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ اگر سیشن جج کی عدالت میں اپیل کی جائے اور اس مقدمہ پر نظر ثانی ہو تونہ صرف یہ سزا موقوف ہو جائے بلکہ عدالت فوجداری سے مقدمہ اٹھا لیا جائے۔یہ بات عدل و انصاف کے بالکل خلاف ہے کہ ایسے باکمال رئیس کو، جس کی عزت وحشمت کا دبدبہ لوگوں کے دلوں پر بیٹھا ہوا ہے، معمولی جرم میں اتنی سزا دی جائے جس سے جان جانے کا قوی احتمال ہے۔‘‘ 6  

    (ج) منشی کریم الدین نے غالب کے واقعۂ اسیری کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے، 

    ’’ان ایام میں یعنی درمیان مئی ۱۸۴۷ء کے، ایک حادثہ ان پرجانب سرکار سے بڑا پڑا، جس کے سبب ان کو بہت رنج لاحق حال ہوا۔۔۔‘‘ 7  

    (د) حالی نے ’یادگارِ غالب‘ میں غالب کی گرفتاری کے حالات پوری طرح بیان نہیں کیے بلکہ ان الفاظ میں صفائی پیش کرنے کی کوشش کی ہے، 

    ’’مرزا کو شطرنج اور چوسر کھیلنےکی بہت عادت تھی اور چوسر جب کبھی کھیلتے تھے، برائے نام کچھ بازی بد کر کھیلا کرتے تھے۔‘‘ 8  

    (ہ) اس واقعہ سے متعلق کچھ اشارے سید ناصر نذیر فراق دہلوی کی کتاب ’لال قلعہ کی ایک جھلک‘ میں بھی ملتے ہیں، جس میں قلعہ کے بعض حالات وہاں کی ایک قدیم ملازمہ ننھی خانم کی زبانی لکھے گئے ہیں۔ اس کے مطابق مرزا غالب کا مقدمہ کنور وزیر علی خاں کی عدالت میں پیش ہوا اور قبل از وقت رہائی لاٹ صاحب یا کسی اور بڑے افسر کے اختیارات خاص کی وجہ سے ہوئی۔ گرفتار ی کی وجہ انھوں نے یوں بیان کی ہے، 

    ’’کان گنہگار ہیں۔ میں نے سنا کہ محبوب علی خاں خواجہ سرا اور شہر کے کئی اشراف آدمی مل کر راتو ں کو جوا کھیلتے تھے اور لاکھ لاکھ روپے کی بازی لگائی جاتی تھی اور جو شخص جیتتا تھا، محبوب خاں اس کی جیت کا روپیہ بہنگیوں میں لدوا کر اس کےگھر بھجوا دیتا تھا۔ مرزا نوشہ (غالب) کی حیثیت اتنی بھاری بازی لگانے کی نہ تھی مگر کر تو ڈر نہیں۔ کسی نہ کسی طرح مرزا صاحب اس صحبت میں پہنچ گئے۔ کوتوال جواریوں کی گھات میں لگا ہوا تھا۔ آج اس کا داؤ لگ گیا، اس نے سب کو پکڑ دھر لیا۔‘‘ 9  

    (و) اس سلسلے میں مفصل بیان سر امیر الدین کا ہے، جسے مولانا ابوالکلام آزاد نے غلام رسول مہر کو ایک نوٹ کی صورت میں لکھا تھا اور جوان کی کتاب ’غالب‘ میں شامل ہے۔ اس کے ضروری حصے یہاں نقل کیے جاتے ہیں، 

    ’’غدر سے پہلے مرزا کی آمدنی کا وسیلہ صرف سرکاری وظیفہ اور قلعہ کے پچاس روپے تھے۔ 10 چونکہ زندگی رئیسانہ بسر کرنا چاہتے تھے، اس لیے ہمیشہ مقروض و پریشان حال رہتے تھے۔ اس زمانہ میں دہلی کے بےفکر رئیس زادوں اور چاندنی چوک کے بعض جوہری بچوں نے گزران وقت کے جو مشغلے اختیار کر رکھے تھے، ان میں ایک قمار کا بھی مشغلہ تھا۔ گنجفہ عام طور پر کھیلا جاتا تھا اور شہر کے کئی دیوان خانوں کی مجلسیں اس باب میں شہرت رکھتی تھیں۔ مرزا بھی اس کے شائق تھے۔ رفتہ رفتہ ان کے یہاں چاندنی چوک کے بعض جوہری بچے آنے لگے اور باقاعدہ جوا بازی شروع ہو گئی۔ قمار کا عام قاعدہ یہ ہے کہ صاحب مجلس (یا یوں کہا جائے کہ مہتمم قمار خانہ) کا ایک خاص حصہ ہر بازی میں ہوا کرتا ہے، جو بھی جیتے، فی صدی اتنا صاحب مجلس کا ہوگا۔ مرزا صاحب کے دیوان خانے میں مجلسیں جمنے لگیں تو وہ صاحب مجلس ہو گئے اور ایک اچھی خاصی رقم بے محنت و مشقت وصول ہونے لگی۔ وہ خود بھی کھیلتے تھے اور چونکہ اچھے کھلاڑی تھے اس لیے اس میں کچھ نہ کچھ مار ہی لیتے تھے۔‘‘ 

    ’’عرصہ تک شہر کے کوتوال اور حکام ایسے لوگ رہے جن سے مرزا غالب کی رسم وراہ رہتی تھی، اس لیے ان کے خلاف نہ تو کسی طرح کا شبہ کیا جاتا تھا نہ قانونی اقدام کا اندیشہ تھا۔ انھیں میں ایک کوتوال قتیل کا شاگرد مرزا خانی بھی تھا۔۔۔‘‘ 

    ’’لیکن غالباً ۱۸۴۵ء میں آگرہ سے تبدیل ہوکر ایک نیا کوتوال آیا۔ یہ مرزا خانی کی طرح نہ تو شاعر تھا نہ نثر طراز کہ غالب کا قدر شناس ہوتا، نرا کوتوال تھا۔ اس نے آتے ہی سختی کے ساتھ دیکھ بھال شروع کردی اور جاسوس لگا دیے۔ بالآخر ایک دن ایسے موقعہ پر کہ مجلس قمار گرم اور روپیوں کی ڈھیریاں چنی ہوئی تھیں، کوتوال پہنچا اور دستک دی اور لوگ پچھواڑے سے نکل بھاگے، صاحب مکان، یعنی مرزا دھر لیے گئے۔‘‘ 11  

    (ز) مندرجہ بالا شہادتوں کے بعد اب گھنشیام لال عاصی 12 کا وہ قطعۂ تاریخ نقل کیا جاتا ہے، جو اس سلسلے میں آج تک پیش نہیں کیا گیا۔ عاصی چونکہ غالب کے ہم عصر تھے اور دہلی کے رہنے والے تھے، غالب کے واقعۂ اسیری سے متعلق اس قطعۂ تاریخ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس قطعہ میں عاصی نے پانچ تاریخیں نکالی ہیں۔ پہلی فصلی، دوسری عیسوی، تیسری اور چوتھی ہجری اور پانچویں بکرمی سنہ کو ظاہر کرتی ہے، ملاحظہ ہو، 

    سرِ ابجد سے فصلی میں تو سب اظہار طوفاں ہے
                                  ۱۸۴۷ء۱۲۵۷فصلی

    اور اٹھارہ سو سینتالیس میں قیدِ غریباں ہے 
                                  ۱۲۶۳ھ

    قلق غالب نہ کیونکر موش اور گربہ کے دل پر ہو
    ۱۲۶۳ھ

    دبی بلی کٹاتی کان چوہوں سے بدنداں ہے

    رہائی روز بد سے میرزا نوشہ کی کیوں کر ہو
    زن غمخوار بن کر واں گیا فیض الحسن خاں ہے
    ۱۹۰۴ بکرمی

    سرِ بازو پکڑ کر شحنۂ تقدیر نے عاصی
    اسد کو جوتیوں سے گھیر کر ڈالا بزنداں ہے 13  

    اس قطعۂ تاریخ کی صراحت میں عاصی نے ایک عبارت بھی لکھی ہے، جس سے بعض اہم باتیں معلوم ہوتی ہیں، 

    ’’مرزا نوشہ جیسے شاعر بے بدل دہلی، رند مشرب، المتخلص بہ اسد وغالب سے فیض الحسن خاں کوتوال دہلی کو ناحق عداوت پیدا ہو گئی اور اس نے بعلت قمار بازی ان کو قید کرا دیا جس کی مندرجہ ذیل تاریخ نکالی گئی۔۔۔ بروقت گرفتاری کوتوال صاحب رتھ میں بیٹھ کر موقع پر گئے اور ظاہر کیا کہ سواریاں زنانی آئی ہیں۔ اس دھوکے سے اندر داخل ہو گئے اور اندر مکان کے ضربات جوتی باہم اس قدر ہوئیں کہ باہر تک آواز آتی تھی مگر زینہ کے اندر بہت جمعیت تھی اور کئی امدادی برقنداز پہنچ گئے۔ گرفتار کرکے قید کرادیا۔ بہت سے رئیس اور شرفا اس حرکت سے ناراض ہوئے اور عدالت میں برأت کے ساعی ہوئے مگر قید ہو ہی گئی۔

    ایک روز مسٹر راس صاحب سول سرجن دہلی قیدیاں جیل خانہ کو ملاحظہ کرتے کرتے حضرت کے پاس تک پہنچ گئے اور حال دریافت کیا۔ آپ نے فی البدیہہ فرمایا، 

    جس دن سے کہ ہم غم زدہ زنجیر پا ہیں 
    کپڑوں میں جوئیں بخیہ کے ٹانکوں سے سوا ہیں 

    اس وقت ڈاکٹر صاحب نے گورنمنٹ کو چھٹی لکھ کر رہا کرا دیا۔‘‘ 14  

    غور طلب امور
    مندرجہ بالا شہادتوں کی روشنی میں سب سے اہم مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی غالب قمار بازی کے جرم کے مرتکب نہیں ہوئے تھے؟ اس بارے میں پیش کردہ بیانات میں گہرا تضاد ہے۔ بیان ’’ج‘‘ میں گرفتاری کے اسباب کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اس لیے اس مسئلے میں وہ خارج از بحث ہے۔ بیان ’’ب‘‘ (احسن الاخبار) اور ’’د‘‘ (یادگار غالب) سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ غالب کا مکان قمار بازی کا اڈا بنا ہوا بنا ہوا تھا اور وہ خود بھی جوا کھیلتے تھے۔ ان متضاد بیانوں میں سے کون سا قرین صحت ہے۔ یہ فیصلہ کرنے کے لیے ان مختلف بیانات کی صحت اور استناد کا درجہ متعین کرنا ضروری ہے کہ ان میں کون سا بیان غیرجانبداری سے لکھا گیا ہے۔

    سب سے پہلےفریق صفائی یعنی ’’احسن الاخبار‘‘ اور حالی کے بیانات کو لیجئے۔ حالی کا بیان تاریخی اعتبار سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا کیونکہ واقعۂ اسیری کے زمانے تک ان کی غالب سے جان پہچان نہ تھی۔ 15 چنانچہ اس معاملے میں ان کی معلومات شخصی نہیں ہیں۔ رہی ان کے بیان کی تحقیقی حیثیت، وہ مولانا ابوالکلام آزاد سے سنیے، 

    ’’خواجہ حالی مرحوم نے اس واقعہ کی نسبت جو کچھ لکھا ہے، وہ حقیقت کے قطعاً خلاف ہے۔ خواجہ مرحوم سوانح نگاری کو مدحت طرازی سمجھتے تھے، اس لیے پسند نہیں کرتے کہ ناگوار واقعات کو ابھرنے دیا جائے۔ حیات جاوید میں بھی انھوں نے ہر جگہ ایسا ہی کیا ہے۔۔۔ خواجہ صاحب نے اس معاملے کو اس رنگ میں ظاہر کیا ہے کہ گویا کوئی بات نہ تھی۔ محض چوسر اور شطرنج کا شوق تھا۔ اس شوق کی تکمیل کے لیے برائے نام کچھ بازی بھی بدلیا کرتے تھے۔ کوتوال چونکہ دشمن تھا، اس لیے قمار بازی کا مقدمہ بنا دیا۔ حالانکہ اصلیت بالکل اس کے خلاف ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ پورا قمار بازی کا معاملہ تھا اور نواب امیر الدین مرحوم (والی لوہارو) کے لفظوں میں مرزا نے اپنے مکان کو جوابازی کا اڈا بنا رکھا تھا۔‘‘ 16  

    غالب کے سوانح نگار کی حیثیت سے حالی کی کوتاہیاں بیان کرنے کا یہ موقع نہیں۔ اتنا طے ہے کہ اس زمانےمیں غالب سے متعلق جو معلومات حاصل ہو سکتی تھیں، حالی نے ان سے پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔ اس وجہ سے نہ صرف غالب کے حالات زندگی میں بعض غلطیاں راہ پاگئی ہیں بلکہ ان کی سیرت وشخصیت کے بعض اہم پہلو بھی تشنہ رہ گئے ہیں۔ 17  

    حالی کی طرح احسن الاخبار نے بھی غالب کی قمار بازی کو تسلیم نہیں کیا۔ اس نے لکھا ہے کہ مرزا دشمنوں کی غلط اطلاعات کے باعث گرفتار ہوئے اور جو کچھ ہوا، محض حاسدوں کی فتنہ پردازی کی وجہ سے ہوا۔ احسن الاخبار کی شہادت بھی تحقیقی اور تاریخی دونوں اعتبار سے کمزور ہے۔ یہ اخبار دہلی سے نہیں، بمبئی سے نکلتا تھا۔ اس زمانے میں فاصلوں کی دوری اور سفر کی مشکلات کے باعث خبر رسانی واقعات کی رفتار کا ساتھ نہیں دے سکتی تھی، چنانچہ یہ خبر بھی غالب کی گرفتاری کے تیس دن بعد شائع ہوئی۔ اس میں بادشاہ کے سفارشی خط کا بھی ذکر ہے، جو ریزیڈنٹ کو لکھا گیا تھا۔ غالب کی گرفتاری، احباب اور اعزہ کی دوڑ دھوپ، بہادر شاہ کا خط لکھنا، ریزیڈنٹ کا کورا جواب دینا واقعات کا ایک سلسلہ ہے جس کا اثر دہلی کے عوام پر غالب سے ہمدردی کی صورت میں ظاہر ہوا ہوگا اور احسن الاخبار کے نامہ نگار کا اس سے متاثر ہونا خلاف قیاس نہیں۔ چنانچہ وہ غالب کو قطعاً بے قصور دکھاتے ہوئے ان کی گرفتاری کا باعث ’’دشمنوں کی غلط اطلاعات‘‘ قرار دیتا ہے۔

    احسن الاخبار میں اس واقعہ سے متعلق جو دوسری خبر شائع ہوئی ہے، اس میں بھی غالب سے گہری ہمدردی کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ اس کی آخری سطروں میں جو احتجاج کیا گیا ہے، اس میں بھی ’غالب کی طرفداری‘ کا رنگ نمایاں ہے۔ دوسری خبر میں احسن الاخبار نے غالب کے ’جرم‘ کو قبول تو کر لیا ہے لیکن وہ اسے ’معمولی‘ قرار دیتا ہے اور ان کی سزا میں رعایت فقط اس بنا پر طلب کرتا ہے کہ وہ ایک ایسے ’’باکمال رئیس ہیں، جن کی عزت اور حشمت کا دبدبہ لوگوں کے دلوں پر بیٹھا ہوا ہے۔‘‘ غرض حالی کی طرح احسن الاخبار کے بیان میں بھی غالب سے عقیدت و محبت کا جذبہ پایا جاتا ہے اور اس میں غالب کے دامن کو قمار بازی سے پاک دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔

    یہ معلوم کر لینے کے بعد کہ حالی اور احسن الاخبار کے بیانات تحقیقی اعتبار سے قابل اعتنا نہیں، اب گواہوں کے دوسرے فریق کی طرف آئیے جس نے غالب کو قمار بازی کا مرتکب بتایا ہے۔ اس فریق میں فوائد الناظرین، سر امیر الدین اور گھنشیام لال عاصی شامل ہیں۔ فوائد الناظرین وہ پہلا اخبار ہے جس نے غالب کی گرفتاری کی خبر شائع کی۔ گرفتاری کی تاریخ بھی فقط اسی خبر سے معلوم ہوتی ہے۔ یہ خبر اس زمانے کے حالات کے مطابق تاخیر سے بھی شائع نہیں ہوئی۔ ایڈیٹر یا نامہ نگار نے اس پر کوئی تبصرہ بھی نہیں کیا۔ اس کی نوعیت محض اطلاعی ہے اور اس میں کسی رنگ آمیزی کو دخل نہیں۔ اس حقیقت کے پیش نظر اس خبر کو صحیح تسلیم کرنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے۔

    مولانا ابوالکلام آزاد نے سر امیرالدین 18 کی زبانی جو روایت نقل کی ہے اس میں غالب پر صاف الفاظ میں قمار بازی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ اس روایت کے قوی نہ ہونے کی تین وجوہ ہیں، 

    (۱) غالب کے واقعۂ اسیری کے وقت امیرالدین پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ 19 اس لیے یہ روایت ہم تک ایک سے زیادہ واسطوں سے پہنچی ہے۔

    (۲) غالب کے قید ہونے کے بعد لوہارو خاندان کا طرز عمل نہایت افسوسناک تھا۔ 20 ان حالات میں سر امیرالدین کا بیان غیرجانبدارانہ نہیں ہو سکتا۔

    (۳) خود آزاد کے بیان میں حالی کی تردید کا شدید جذبہ پایا جاتا ہے، جس کے باعث وہ انتہا پسندی کا شکار ہو سکتے ہیں۔

    البتہ اس روایت کے حق میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مخاصمت میں خوبیوں پرتو پردہ پڑ سکتا ہے لیکن کمزوریاں بہ مبالغہ سہی، ضرور سامنے آ جاتی ہیں۔ اس واقعہ کا تعلق بھی چونکہ غالب کی ایک کمزوری سے ہے، اس سے متعلق لوہارو خاندان کے ایک فرد کا بیان، مبالغے سے قطع نظر اصلیت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ خصوصاً جب غالب کی قماربازی کی تصدیق فوئد الناظرین اور ایک دہلوی معاصر گھنشیام داس عاصی کے بیان سے بھی ہو جاتی ہے۔شیخ محمد اکرام نے ’’غالب نامہ‘‘ میں عاصی کی عبارت کو ’’قید‘‘ کے ذیل میں درج تو کیا ہے لیکن قطعۂ تاریخ پیش نہیں کیا۔ اس سے متعلق ان کی رائے یہ ہے، 

    ’’شاید عاصی، غالب کا دل سے قدرداں اور بہی خواہ نہ تھا۔ چنانچہ جو قطعۂ تاریخ اس نے لکھا ہے، اس سے غالب کی صریح توہین ہوتی ہے۔‘‘ 21  

    یہاں مصنف ’’غالب نامہ‘‘ غالب پرستی کا شکار ہو گئے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ عاصی کے قطعہ تاریخ سے غالب کی توہین ہوتی ہے، لیکن شاید اس میں امر واقعہ کے المیہ کا صحیح صحیح بیان ہو۔ یہ قید بجائے خود توہین آمیز تھی، غالب کے کسی قدر دان اور بہی خواہ سے یہ توقع عبث ہے کہ وہ حرف صداقت زبان پر لائےگا۔ واقعۂ قید سے متعلق حقیقت حال کا اظہار یا تو کوئی بے حد غیرجانبدار فریق کر سکتا ہے یا پھر مخالف ومنکر، گو دوسری حالت میں مبالغے کا قوی احتمال ہے۔

    ہمارے نزدیک عاصی کو غالب کا بدخواہ قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں۔ اپنے بیان میں وہ غالب کو ’’شاعر بے بدل‘‘ کہتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ دہلی میں اس وقت قدر دانی کے اعتبار سے، شاعروں کے دو خاص گروہ تھے۔ غالب ایک مخصوص حلقے میں پسند کیے جاتے تھے اور عوام زیادہ پرستار ذوق کے تھے۔ عاصی شاہ نصیر کے شاگرد تھے اور جب شاہ نصیر سے ذوق کے تعلقات کشیدہ ہوئے تو عاصی بھی ذوق کے مخالف ہو گئے۔ چنانچہ تیلیوں والے معرکہ خیز مشاعرے میں جو قدیم دلی کالج میں منعقد ہوا تھا، عاصی نے ذوق اور ان کے ہوا خواہوں کو نیچا دکھانے کی پوری کوشش کی تھی۔ 22  

    ذوق سے عاصی کی کشیدگی کے پیش نظر یہ ضروری تو نہیں کہ ان کے غالب سے اچھے تعلقات تھے، لیکن بغیر کسی ثبوت کے انھیں غالب کا بدخواہ یا مخالف قرار دینا بھی غلط ہوگا۔ ذوق سے ان کی ہنگامہ آرائی اور غالب سے متعلق قطعۂ تاریخ میں ان کے لہجے کی بیباک بیانی سے یہ نتیجہ ضرور نکالا جا سکتا ہے کہ وہ اگر غالب کے قدر دان نہ تھے تو ان کے مخالف بھی نہ تھے۔ ان حالات میں عاصی کا بیان خاصا غیرجانبدارانہ قرار پاتا ہے اور ایسے بیان کی تاریخی اور تحقیقی حیثیت کو نظرانداز کرنا مناسب نہیں۔

    غرض عاصی اور فوائد الناظرین کے بیانات کی روشنی میں یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ غالب قمار بازی کے مرتکب ہوئے تھے۔ اس سے ان کی عظمت پر کوئی حرف نہیں آتا بلکہ ان کی سیرت کا ایک پہلو سامنے آتا ہے۔ غالب اپنی ادبی عظمت کی وجہ سے محبوب ہیں اور رہیں گے، لیکن کسی محبوب شخصیت کا ہر لحاظ سے مثالی ہونا ضروری نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ایسی شخصیت کی انسانی کمزوریوں کو سامنے رکھنےکے بعد اس کی عظمت کا نقش اور بھی روشن ہو جاتا ہے۔ غالب اپنے معاشرے کے فرد تھے اور بطور فردان میں کم وبیش وہ تمام خوبیاں اور خامیاں تھیں جو اس زمانے کے معاشرے میں ہو سکتی تھیں، لیکن ان کمزوریوں کے باوجود وہ عظمت کی ان بلندیوں تک پہنچ گئے جہاں ان کا کلام صحیح معنوں میں حلقۂ شام وسحر سے نکل کر جادواں ہو چکا ہے۔ عاصی کے بیان سے غالب کے واقعۂ اسیری سے متعلق جن مزید امور پر روشنی پڑتی ہے، وہ یہ ہیں، 

    کوتوال سے دشمنی
    واقعۂ اسیری کے بارے میں غالب کی تصانیف سے زیادہ مدد نہیں ملتی۔ 23 انھوں نے چوراسی شعر کا ایک فارسی ترکیب بند، قید کی حالت میں لکھا تھا، جسے متفقہ طور پر ان کی بہترین نظموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ لیکن ان کے احباب وغیرہ نے اس خیال سے ’’حبسیہ‘ کو کلیات نظم میں شامل نہ کیا کہ اس سے غالب کی قید ہمیشہ کے لیے منظر عام پر آ جائےگی۔ گو بعد میں متفرق فارسی کلام میں مجموعہ ’’سبد چیں‘‘ میں شائع کر دیا گیا۔ 24  

    اس میں غالب نے اسیری کے حالات وجذبات تو بیان کیے ہیں لیکن قید کے اسباب وعلل کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا۔ حبسیہ کو کلیات نظم میں شامل نہ کرنےکے واقعہ سے شبہ ہوتا ہے کہ غالب کے ایسے خطوط کی اشاعت بھی روک لی گئی جن میں قید سے متعلق کوئی بات ہوگی۔ ایسے ہی فارسی خط کے اقتباس کا ترجمہ حالی نے پیش کیا ہے۔ یہ خط ان کے فارسی خطوط میں شامل نہیں۔ اس میں غالب نے اپنے قید ہونے کی وجہ کوتوال سے دشمنی کو قرار دیا ہے، 

     ’’کوتوال دشمن تھا اور مجسٹریٹ ناواقف! فتنہ گھات میں تھا اور ستارہ گردش میں۔ باوجود یکہ مجسٹریٹ کوتوال کا حاکم ہے، میرے باب میں وہ کوتوال کا محکوم بن گیا اور میری قید کا حکم صادر کر دیا۔‘‘ 25  

    مولانا آزاد اس سے متعلق فرماتے ہیں،

     ’’عرصہ تک شہر کے کوتوال اور حکام ایسے لوگ رہے، جن سے مرزا غالب کی رسم وراہ رہتی تھی۔۔۔ انھیں میں ایک کوتوال قتیل کے شاگرد مرزا خانی بھی تھے۔۔۔ لیکن غالباً ۱۸۴۵ء میں آگرہ سے تبدیل ہوکر ایک نیا کوتوال آیا۔ یہ مرزا خانی کی طرح نہ تو شاعر تھا نہ نثر طراز کہ غالب کا قدر شناس ہوتا۔ نرا کوتوال تھا۔‘‘ 26  

    یہ صحیح ہے کہ جب تک مرزا خانی دہلی میں تھے، غالب کو کسی قسم کا خطرہ نہ تھا، لیکن مولانا کا یہ بیان محل نظر ہے کہ نیا کوتوال غالباً ۱۸۴۵ء میں آگرہ سے تبدیل ہوکر آیا، جیسے کہ پہلے کہا گیا کہ غالب اس واقعہ سے چھ برس پہلے ۱۸۴۱ء میں بھی قمار بازی کے الزام میں معتو ب ہو چکے تھے اور دہلی اردو اخبار نے صاف الفاظ میں ان کی گرفتاری کو نئے تھانیدار کا کارنامہ قرار دیا تھا، 

    ’’اب تھوڑے دن ہوئے یہ تھانیدار قوم سے سید اور بہت جری سنا جاتا ہے، مقرر ہوا ہے۔ یہ پہلے جمعدار تھا، بہت مدت کا نوکر ہے۔ جمعداری میں بھی یہ بہت گرفتاری مجرموں کی کرتا رہا ہے۔‘‘ 27 

    اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مرزا خانی کے بعد نیا کوتوال بقول آزاد ۱۸۴۵ء میں نہیں بلکہ ۱۸۴۱ء میں یا اس سے کچھ پہلے مقرر ہوا۔ دوسرے یہ کہ تھانیدار آگرہ سے تبدیل ہوکر نہیں آیا، بلکہ دہلی میں ’’مدت کا نوکر‘‘ تھا اور ’’پہلے جمعدار تھا۔‘‘ دہلی اردو اخبار نے اس کا نام درج نہیں کیا۔ فقط یہی لکھا ہے کہ یہ قوم کاسید ہے۔ گھنشیام لال عاصی نے کوتوال کا نام اپنے قطعۂ تاریخ اور توضیحی عبارت میں ’’فیض الحسن خاں‘‘ بتایا ہے۔ احسن الاخبار مورخہ ۱۹ دسمبر ۱۸۴۵ء کی ایک خبر میں بتایا گیا ہے، 

     ’’گورنر جنرل نے دہلی میں ۱۷ کو دربار عام کیا تھا اور اس میں غالب کو خلعت ہفت پارچہ و سہ رقم جواہر اور فیض الحسن کوتوال کو ایک مثالی رومال عطا فرمایا۔‘‘ 28  

    ظاہر ہے کہ یہ اعزاز فیض الحسن کو جن خدمات کی بنا پر بخشا گیا اور وہ دربار کے انعقاد (۱۸۴۵ء) سے قبل دہلی میں اپنے کارگزاریوں کا ثبوت پیش کر چکا ہوگا۔ قیاس ہے کہ غالب کی پہلی گرفتاری بھی اسی کوتوال کے ہاتھوں عمل میں آئی ہوگی اور وہ برسوں غالب کے درپے رہا ہوگا۔ عاصی کے بیان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ’’غالب سے فیض الحسن خاں کوتوال دہلی کو ناحق عداوت پیدا ہو گئی۔‘‘ اس عداوت کا ذکر خود غالب کے محولہ بالا خط میں بھی ملتا ہے لیکن مولانا آزاد اسے نظرانداز کرتے ہوئے گرفتاری کی تمام تر وجہ غالب کی قمار بازی کو قرار دیتے ہیں، حالانکہ قمار بازی شہر کے دوسرے حصوں میں بھی ہوتی تھی اور بقول ان کے، 

    ’’شہر کی یہ رسم ٹھہر گئی تھی کہ رئیس زادوں کے دیوان خانے مستثنیٰ سمجھے جاتے تھے۔ گویا ان کی وہ نوعیت مان لی گئی تھی جو آج کل کے کلبوں میں برج کھیلنے کی ہے۔ انھیں از راہ تجاہل رئیسانہ تفریحوں میں تصور کیا جاتا تھا۔‘‘ 29  

    ان حالات میں کوتوال کا فقط غالب کو نشانۂ عتاب بنانا، غالب سے ذاتی عداوت ہی کی بنا پر سمجھا جا سکتا ہے اور عاصی کے بیان سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔

    گرفتاری کے حالات
    مولانا آزاد لکھتے ہیں، ’’ایک دن ایسے موقع پر کہ مجلس گرم اور روپیوں کی ڈھیریاں چنی ہوئی تھیں، م کوتوال پہنچا اور دروازے پر دستک دی اور لوگ تو پچھواڑے سے نکل بھاگے، صاحب مکان یعنی مرزا دھر لیے گئے۔‘‘ 30  

    لیکن عاصی نے گرفتاری کے جو حالات لکھے ہیں، وہ اس سے مختلف ہیں۔ ان کا بیان ہے کہ گرفتاری کے وقت کوتوال صاحب رتھ میں بیٹھ کر موقع پر گئے اور ظاہر کیا کہ سواریاں زنانی آئی ہیں۔ اس طرح دھوکے سے اندر داخل ہو گئے۔ مولانا کا یہ کہنا بھی صحیح نہیں کہ ’’اور لوگ تو پچھواڑے سے نکل بھاگے، صاحب مکان یعنی مرزادھر لیے گئے۔‘‘ اس کے برعکس عاصی لکھتے ہیں کہ ’’اندر مکان کے ضربات جوتی باہم اس قدر ہوئیں کہ باہر تک آواز آتی تھی مگر زینے کے اندر بہت جمعیت تھی اور کچھ امدادی برقند از پہنچ گئے۔‘‘ غرض غالب تنہا گرفتار نہیں ہوئے تھے بلکہ ان کے ساتھ دوسرے قمار باز بھی دھر لیے گئے تھے۔ فوائد الناظرین کی پیش کردہ خبر (الف) میں بھی صاف الفاظ میں اس کا ذکر موجود ہے۔

    ’’جناب مرزا صاحب کو معہ چند اور قمار بازوں کے گرفتار کرکے کوتوالی میں لے آئے۔‘‘ 

    متنازعہ فیہ شعر
    نظامی بدایونی نے شرح دیوان غالب میں لکھا ہے کہ قید خانے میں غالب کے کپڑوں میں جوئیں ہو گئی تھیں۔ ان کو چن رہے تھے کہ ایک رئیس نے جاکر پرسش مزاج کی، غالب نے فی البدیہ یہ شعر پڑھا، 

    جس دن سے کہ ہم خستہ گرفتار بلا ہیں 
    کپڑوں میں جوئیں بخیے کے ٹانکوں سے سوا ہیں 31  

    اس شعر سے متعلق غلام رسول مہر لکھتے ہیں، ’’میرا خیال ہے کہ یہ شعر غالب کا نہیں۔ اس سے قطع نظر شعرکی شان نزول قطعاً ناقابل قبول ہے۔۔۔ بے یاری اور درماندگی کی یہ حالت کیونکہ قرین قیاس سمجھی جا سکتی ہے کہ غالب کے کپڑوں میں جوئیں ہو گئی تھیں اور ایک رئیس ملاقات کے لیے آیا تو وہ جوئیں نکال رہے تھے۔۔۔ لہٰذا جو صورت اس شعر میں پیش کی گئی ہے وہ ہر اعتبار سے مستبعد ہے۔‘‘ 32  

    مہر غالباً شعر کی شعریت سے لطف اندوز ہونے کے لیے تیار نہیں۔ بات دراصل غالب کی ’’بے یاری‘‘ اور ’’درمانگی‘‘ کی نہیں، جیل خانے کے کپڑوں کی ہے۔ غالب کو جیل خانے میں آتے ہی اپنا لباس اتار کر جیل خانے کے کپڑے پہننے پڑے ہوں گے۔ اس زمانے میں ہندوستانی جیل خانوں کے کپڑوں کی جو حالت ہوگی، بآسانی قیاس کی جا سکتی ہے۔ مختلف قیدیوں کے استعمال کی وجہ سے، جن میں اکثر غلیظ اور میلے کچیلے رہنے کےعادی ہوتے ہیں، مجبوراً وہی کپڑے غالب کو بھی پہننے پڑے ہوں گے۔ چنانچہ شعر میں غالب نے جو حالت بیان کی ہے، وہ ہرگز مستبعد نہیں اور مہر صاحب کا یہ خیال کہ ’’یہ شعر غالب کا نہیں‘‘ تحقیقی طورپر صحیح نہیں۔ عاصی کے بیان سے بھی یہ شعر غالب ہی کا ثابت ہوتاہے۔ انھوں نے بالتصریح لکھا ہے، 

    ’’ایک روز مسٹر راس صاحب سول سرجن دہلی قیدیان جیل خانہ کا ملاحظہ کرتے کرتے حضرت کے پاس تک پہنچ گئے اور حال دریافت کیا۔ آپ نے فی البدیہ یہ فرمایا، 

    جس دن سے کہ ہم غمزدہ زنجیر بپا ہیں 
    کپڑوں میں جوئیں بخیے کے ٹانکوں سے سوا ہیں۔‘‘ 

    نظامی بدایونی کے ہاں اس شعر کا پہلا مصرع قدرے مختلف ہے (یعنی ’’غم زدہ زنجیر بپا‘‘ کی جگہ ’’خستہ گرفتار بلا‘‘ ) لیکن نظامی کی روایت پر عاصی کے بیان کو فوقیت حاصل ہے کیونکہ ایک تو یہ قدیم تر ہے اور دوسرے یہ بیان غالب کی زندگی میں دہلی میں لکھا گیا۔

    قبل از وقت رہائی
    سید ناصر نذیر فراق دہلوی نے غالب کے مقدمے کے جو حالات بیان کیے ہیں، ان میں لکھا ہے کہ ان کی قبل از وقت رہائی لاٹ صاحب یا کسی اور بڑے افسر کے اختیارات خاص کی وجہ سے ہوئی۔ ان کے الفاظ ہیں، ’’مرزا صاحب کو قید میں پڑے چند روز ہوئے تھے، جو ان کی خوش نصیبی سے لاٹ یا ان جیسا کوئی اور بڑا حاکم شاہجہاں آبادمیں آیا اور مرزا صاحب کے عزیزوں نے اس سے جاکر مرزا صاحب کی بپتا کہی اور اس نے اپنے اختیار سے مرزا صاحب کو فوراً چھوڑ دیا۔‘‘ 33  

    مگر غالب کا وہ بیان جو حالی نے نقل کیا ہے، اس کے برعکس ہے، ’’سیشن جج، باوجود یکہ میرا دوست تھا اور ہمیشہ مجھ سے دوستی اور مہربانی کےبرتاؤ برتتا تھا اور اکثر صحبتوں میں بے تکلفانہ ملتا تھا، اس نے بھی اغماض اور تغافل اختیار کیا۔ صدر میں اپیل کیا مگر کسی نے نہ سنا اور وہی حکم بحال رہا۔ پھر معلوم نہیں کیا باعث ہوا کہ جب آدھی میعاد گزر گئی تو مجسٹریٹ کو رحم آیا ور صدر میں میری رہائی کی رپورٹ کی اور وہاں سے حکم رہائی کا آ گیا۔‘‘ 34  

    غالب کے یہ الفاظ کہ ’’پھر معلوم نہیں، کیا باعث ہوا جب آدھی میعاد گزر گئی تو مجسٹریٹ کو رحم آیا‘‘ غور طلب ہیں۔ گویا خود غالب کو اپنی قبل از وقت رہائی کے اسباب کا صحیح علم نہ تھا۔ مجسٹریٹ کو ’’رحم‘‘ آنا بھی معنی خیز ہے۔ حالانکہ مجسٹریٹ کے رحم وکرم کو پوری طرح آزمایا جا چکا تھا اور بادشاہ سے سفارش کروانے اور صدر میں اپیل کے باوجود قید کی سزا برقرار رہی تھی۔ ایسے حالات میں ملزم کی رہائی محض مجسٹریٹ کے رحم کی بنا پر عمل میں نہیں آ سکتی۔ مجسٹریٹ نے اگر حکام صدر کو رہائی کی رپورٹ کی ہوگی تو وہ بغیر قانونی حیلے اور دلیل کے نہ ہوگی۔ یہ دلیل کیا ہو سکتی ہے، اس سلسلے میں بھی عاصی کا بیان صحیح رہنمائی کرتا ہے۔

    عاصی کی عبارت سےمعلوم ہوتا ہے کہ جب غالب نےسول سرجن کے پوچھنے پر اپنی ناگفتہ بہ حالت کا سخن گسترانہ اظہار کیا تو ’’اسی وقت ڈاکٹر صاحب نے گورنمنٹ کو چٹھی لکھ کر رہا کروا دیا۔‘‘ غرض مسٹر راس 35 نے غالب کی رہائی کی سفارش کرکے اپنا فرض بطریق احسن انجام دیا، لیکن اس نیک نہاد شخص نے اپنا احسان جتانے کی کوئی کوشش نہیں کی، ورنہ غالب اپنی رہائی کو مجسٹریٹ کے رحم پر محمول نہ کرتے۔

    واقعہ قید کے ایام میں غالب کی تندرستی خراب رہنے کا ذکر احسن الاخبار میں بھی ملتا ہے، ’’مرزا صاحب عرصہ سے علیل رہتے ہیں، سوائے پرہیزی غذا قلیہ چپاتی کے اور کوئی چیز نہیں کھاتے۔۔۔ اس قدر مشقت اور مصیبت کا برداشت کرنا مرزا صاحب کی طاقت سے باہر ہے بلکہ ہلاکت کا اندیشہ ہے۔‘‘ (۳۹) 

    ان بیانات کے مدنظر غالب کی قبل از وقت رہائی کا مسئلہ پوری طرح حل ہو جاتا ہے، یعنی گرفتاری کے وقت ان کی صحت اچھی نہ تھی۔ تقریباً نصف سزا کاٹ چکنے کے بعد ان کی تندرستی مزید خراب ہو گئی اور جب مسٹر راس سول سرجن نے ان کی ناگفتہ بہ حالت دیکھی تو وہ رہائی کی رپورٹ کرنے پر مجبور ہو گئے۔ غرض غالب خرابیٔ صحت کی وجہ سے قبل از وقت رہا کر دیے گئے اور اس میں مجسٹریٹ کے ’’رحم‘‘ کو مطلق کوئی دخل نہ تھا۔

    حواشی
    (۱) دیوان غالب کامل، بمبئی ۱۹۸۸ء/۱۹۹۵ء، ص، ۱۱۱۔
    (۲) چراغ دہلی، حیرت دہلوی، ص، ۳۲۷
    (۳) دہلی اردو اخبار، مورخہ ۱۵اگست ۱۸۱۱ء، مخزونہ نیشنل آرکائیوز آف انڈیا، نئی دہلی۔
    (۴) تاریخ صحافت اردو، امداد صابری، دہلی، جنوری ۱۹۵۳ء، ص، ۱۴۰۔
    (۵) یہ جملہ غور طلب ہے۔ بظاہر یہاں ’’قاتل ولیم فریزر کے قرابت قریبہ‘‘ کا کوئی محل نہ تھا لیکن اس کے بین السطور میں جو مفہوم جھانک رہا ہے وہ خاصا اہم ہے۔
    (۶) دہلی اردو اخبار مؤرخہ ۱۵ اگست ۱۸۴۱ء مخزوانہ نیشنل آرکائیوز آف انڈیا، نئی دہلی۔
    (۷) ص، ۸۰، شمارہ، ۱۰، بحوالہ ’قدیم اخبارات کی کچھ جلدیں‘، امتیاز علی عرشی، نوائے ادب، اپریل ۱۹۵۸ء۔
    (۸) دہلی کا آخری سانس، خواجہ حسن نظامی، ص، ۱۷۱۔
    (۹) دہلی کا آخری سانس، خواجہ حسن نظامی، ص، ۱۷۴، ۱۷۵۔
    (۱۰) کریم الدین، تذکرہ طبقات شعرائے ہند، ۱۸۴۷ء، صفحہ ۳۷۸۔
    (۱۱) یادگار غالب، حالی، طبع لاہور، ص، ۲۷۔
    (۱۲) لال قلعہ کی ایک جھلک، سید ناصر نذیر فراق دہلوی، طبع دہلی، ص، ۳۵۔۳۴۔
    (۱۳) مولانا آزاد کا یہ بیان غالب کے دوسرے واقعۂ اسیری یعنی ۱۸۴۷ء سے متعلق ہے لیکن اس وقت قلعہ کے پچاس روپے کہاں تھے۔ مولانا سے تسامح ہوا ہے۔ غالب تو گرفتاری کے تین برس بعد ۱۸۵۰ء میں قلعہ کے ملازم ہوئے (ذکر غالب، مالک رام، ص، ۶۷۔) 
    (۱۴) غالب، غلام رسول مہر، ص، ۱۸۶۔
    (۱۵) منشی گھنشیام لال عاصی دہلی کے کایستھ ماتھر تھے۔ ان کے والد رائے چنی لال شاہ عالم ثانی اور اکبر شاہ ثانی کے زمانے میں دیوانی کے عہدوں پر سرفراز تھے۔ بہادر شاہ کے میر منشی مکند لال، انھیں کے بھتیجے تھے۔ یہ خود اکبر شاہ ثانی کے عہد میں مرزا بابر خلف اکبر شاہ کے ملازم رہے۔ خوشنویسی اور موسیقی سے گہرا لگاؤ تھا۔ شاعری میں شاہ نصیری کے تربیت یافتہ تھے اور انھیں کی طرح سنگلاخ زمینوں کو پانی کرنا شعر گوئی کی معراج سمجھتے تھے۔ صنائع بدائع پر جان چھڑکتے تھے اورساری توجہ چست بندشوں، خوشنما ترکیبوں اور الفاظ کی شعبدہ بازی پر صرف کرتے تھے۔ طبیعت تیز طرار پائی تھی۔ دو غزلے، سہ غزلے لکھ کر اپنی قادر الکلامی کا لوہا منوا لیتے تھے۔ تاریخ گوئی میں بھی طاق تھے۔ ان کا انتقال ۶۷ برس کی عمر میں ۱۸۶۵ ء میں ہوا۔ ان کے دیوان کا قلمی نسخہ ان کے پوتے منشی بنس گوپال المتخلص بشاعر کے پاس محفوظ تھا، جسے انھوں نے موہن لال ماتھر دہلوی کے مقدمے کے ساتھ کایستھ سبھا دہلی سے شائع کر دیا ہے۔
    عاصی کے نواسے منشی بہاری لال مشتاق غالب کے شاگرد تھے۔ اردو فارسی دونوں میں شعر کہتے تھے۔ ان کے چھوٹے بھائی گوری شنکر قیصر بھی صاحب دیوان تھے۔ ان دونوں کے انتخابات دہلی سے شائع ہو چکے تھے۔
    (مقدمہ کلام عاصی تلامذۂ غالب، ص، ۲۵۹، دیباچہ دیوان مشتاق، دیباچہ دیوان قیصر، تذکرہ بہار سخن، ص، ۲۷۲، نیز سخن شعرا نساخ، ص، ۳۲۱۔)
    (۱۶) کلام عاصی، ص، ۲۶۳، اس قطعۂ تاریخ کے علاوہ عاصی کے دیوان میں ’’غدر دہلی‘‘ ’’قتل ولیم فریزر‘‘ شادی حضرت بہادر شاہ ہمراہ زینت محل، وفات نرائن داس ضمیر (جدّ پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی) کی تاریخیں بھی ملتی ہیں۔
    (۱۷) کلام عاصی، ص، ۲۶۳، ۲۶۴۔
    (۱۸) تذکرہ حالی از اسماعیل پانی پتی میں لکھا ہے کہ غالب سے حالی کے تعلقات کا آغاز ہنگامہ سنہ ستاون کے بعد شیفتہ کی ملازمت سے پہلے ہوا۔ نیز ملاحظہ ہو ’’راقم الحروف کا مضمون‘‘ یادگار غالب، سالنامہ پگڈنڈی، امرتسر ۱۹۵۶ء۔
    (۱۹) نقش آزاد، مرتبہ غلام رسول مہر، دہلی، ص، ۲۷۹، ۲۸۰۔
    (۲۰) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، ’’یادگار غالب کا تحقیقی مطالعہ‘‘ ڈاکٹر وحید قریشی، سویرا، لاہور، ۲۲۔
    (۲۱) پورا نام نواب سر امیر الدین احمد خاں، فرخ مرزا۔ یہ بیٹے تھے نواب علاؤ الدین احمد خاں علائی کے، جنھیں مرزا غالب نے اپنا خلیفہ ثانی بنایا تھا۔ وہ نواب امین الدین احمد خاں رئیس لوہارو کے بڑے صاحبزادے تھے جن کے والد نواب احمد بخش خاں غالب کے خسر نواب الٰہی بخش خاں معروف کے بھائی تھے۔
    (۲۲) ’’سر امیر الدین غالب کی وفات کے وقت زیادہ سے زیادہ آٹھ برس کے ہوں گے۔‘‘ ان کے نام غالب کا خط غالباً ۱۸۶۸ء کا واقعہ ہے۔‘‘ مہر، خطوط غالب صفحہ ۴۷، اور ۱۱۱۔ غالب ابتلائے اسیری کے ۲۲ برس بعد تک زندہ رہے۔ اس طرح امیر الدین کی پیدائش تقریباً ۱۸۶۱ء یعنی واقعہ قید کے ۱۳ یا ۱۴ برس بعد ہوئی۔
    (۲۳) غلام رسول مہر، غالب، ص، ۱۸۷، ۱۸۸۔
    (۲۴) غالب نامہ، شیخ محمد اکرام، طبع لکھنؤ ص، ۱۰۵۔ ذکر غالب (مالک رام، دہلی ۱۹۵۰ء، ص، ۶۳) میں بھی عاصی کا ذکر ہے لیکن نہ تو عبارت ہی درج کی ہے نہ قطعۂ تاریخ۔ امتیاز علی خاں عرصی نے شعر ’۔۔۔ٹانکوں سے سوا ہیں‘ درج کیا ہے، لیکن کوتوال کا رتھ میں بیٹھ کر آنا، ظاہر کرنا زنانی سواریاں آئی ہیں اور دھوکے سے زبردستی اندر داخل ہونا، یہ ساری عبارت نقل نہیں کی، نہ ہی قطعہ تاریخ درج کیا ہے۔ (دیوان غالب، نسخہ عرصی، ۱۹۸۵ء/۱۹۸۲ء، ص، ۴۱۶، ۴۱۵۔
    (۲۵) محمد حسین آزاد نے ’آب حیات‘ میں اس معرکے کا ذکر یوں کیا ہے، ’’جن دنوں شاہ صاحب سے (ذوق کے) معرکے ہوئے تھے، منشی فیض پارسا دہلی کالج میں مدرس حساب تھے۔۔۔ انھوں نے مدرسہ میں بڑی دھوم دھام سے مشاعرہ کیا۔۔۔ ان دنوں میں مدرسہ اجمیری دروازہ کے باہر تھا۔ شہر کے دروازے ۹بجے بند ہو جاتے تھے۔ گڑھ کپتان سے اجازت لی کہ مشاعرہ کے دن دو بجے رات تک اجمیری دروازہ کھلا رہا کرے۔ غرض مشاعرہ مذکور اس شان و شکوہ سے جاری ہوا کہ پھر کوئی ایسا مشاعرہ دلی میں نہیں ہوا۔ شہر کے رؤسا اور تمام نامی شاعر موجود ہوتے تھے۔ 
    سب کی نگاہیں شاہ صاحب اور شیخ صاحب کی طرف ہوتی تھیں۔ چنانچہ ایک مشاعرہ میں شاہ صاحب نے غزل، قفس کی تیلیاں، خس کی تیلیاں پڑھیں۔ دوسرے مشاعرے میں یہی ’طرح‘ ہو گئی۔ سب غزلیں کہہ کر لائے۔ شیخ مرحوم نے دو غزلہ لکھا اور اس پر کچھ تکرار ہوئی۔ اس پر جوش میں آکر فرمایا کہ برس دن تک جو مشاعرہ ہو، اس میں سوائے غزل طرحی کے ایک غزل اس زمین میں ہوا کرے۔ چنانچہ دو مشاعروں میں ایسا ہوا۔ ایسے معرکے میں عوام الناس بھی شامل ہوتے تھے۔ تیسرے جلسے میں جب انھوں نے غزل پڑھی تو بعض شخصوں نے کچھ کچھ چوٹیں کیں، جنھیں شیخ صاحب کے طرف دار سمجھے کہ شاہ صاحب کے اشارے سے ہوئیں۔ زیادہ تر یہ کہ شاہ وجیہ الدین منیر یعنی شاہ صاحب کے صاحبزادے نے یہ شعر بھی پڑھ دیا، 

    گرچہ قندیل سخن کو منڈھ لیا تو کیا ہوا
    ڈھانچ میں تو ہیں وہی اگلے برس کی تلیاں 

    اس پر تکرار زیادہ ہوئی اور مشاعرہ بند کر دیا گیا کہ مبادا زیادہ بے لطفی ہو جائے۔‘‘ (آب حیات، طبع پا نزدہم، ص، ۴۶۷)

    آزاد نے جس شعر کا حوالہ دیا ہے، وہ منیر کا نہیں، بلکہ گھنشیام عاصی کا ہے۔ ان کے کلیات میں منجملہ اس شعر کے پوری غزل موجود ہے۔ اس مشاعرے میں چونکہ ذوق کا پلہ نیچا رہا تھا، آزاد نے نہ صرف باقی روئداد کو حذف کر دیا بلکہ عاصی کے شعر کو بھی منیر کے نام سے لکھ دیا۔ جب لوگوں نے اس غلطی پر اعتراض کیا تو آزاد نے حاشیے میں فقط اتنا لکھا، ’’بعض بزرگوں سے سنا کہ لالہ گھنشیام داس، (لال) عاصی نے پڑھا تھا۔ وہ بھی شاہ نصیر کے شاگرد تھے۔‘‘ (آب حیات، ص، ۴۶۸) واقعہ یہ ہے کہ مشاعرہ میں شاہ نصیر کی غزل پر اعتراضاً ذوق نے اپنے تلمیذ بہادر شاہ ظفر کی غزل میں چند اشعار پڑھے تھے۔ مطلع یہ تھا،

    قافیہ میں گر نہ تھیں حضرت کے بس کی تیلیاں 
    یار کی چلون میں ہوں پائے مگس کی تیلیاں 

    اس پر آئندہ مشاعرہ معرکے کا قرار پایا۔ عاصی نے اس مشاعرے میں طرحی غزل سے پہلے ’’چھیڑ کی غزل پڑھی‘‘ اس کے آخری دو شعری یوں تھے، 

    کل شیخ جی ہرن کی طرح بھولے چوکڑی
    سیدھی سڑک بھی چل کے نہ متھرا پہنچ سکے

    عاصی وہ تیلیوں کی غزل اب کرو رقم
    جس کو نہ سلک گوہر یکتا پہنچ سکے

    اس کے بعد عاصی نے ۲۴ اشعار کی بڑی سیر قوافی غزل پیش کی، جسے سن کر سامعین نے ’’ایماناً کہا کہ عاصی کی غزل لاجواب اور قابل تحسین ہے۔ 
    اور ذوق پر فوقیت رکھتی ہے۔‘‘ یہ غزل عاصی کے کلیات میں موجود ہے اور اس کے بعض قوافی یہ ہیں، عبس، عط چرس، کوہ ہوس، انفاس نوس، عاشق بے دسترس، بید قرس، سرس، ولس، ترس وغیرہ (کلام عاصی، ص، ۱۴۴-۱۴۸) 

    (۲۶) منشی گوپال تفتہ کے نام ۱۰ دسمبر ۱۸۵۳ء کے ایک خط میں فقط اتنا لکھا ہے، ’’سرکار انگریزی میں بڑا پایہ رکھتا تھا۔ رئیس زادوں میں گنا جاتا تھا۔ پورا خلعت پاتا تھا۔ اب بدنام ہو گیا ہوں اور ایک بہت بڑا دھبہ لگ گیا ہے۔‘‘ (اردو، طبع لاہور، ص، ۸۲) 
    (۲۷) سبد چیں، ص، ۲۴-۳۰ نیز ملاحظہ ہو، ’’یوسف ہندی قید فرنگ میں‘‘ مطبوعہ حیدرآباد۔
    (۲۸) یادگار غالب، ص، ۲۷۔
    (۲۹) نقش آزاد، ص، ۲۸۱۔
    (۳۰) دہلی اردو اخبار، مورخہ ۱۶ اگست، ۱۸۱۱، مخزونہ نیشنل آرکائیوز آف انڈیا، نئی دہلی۔
    (۳۱) حوالہ ما سبق، نوائے ادب، اپریل ۱۹۵۸ء
    (۳۲) نقش آزاد، ص، ۲۸۱
    (۳۳) ایضاً، ص، ۲۸۲
    (۳۴) دیوان غالب مع شرح نظامی، طبع ششم، ص، ۲۱۸
    (۳۵) مہر، غالب، ص، ۱۸۴
    (۳۶) لال قلعہ کی ایک جھلک، ص، ۳۵
    (۳۷) یادگار غاب، ص، ۲۷
    (۳۸) ’’احسن الاخبار‘‘ کے ایک پرچے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسٹر راس جولائی ۱۸۴۶ء میں دہلی میں تھا۔ (نوائے ادب، اپریل ۱۹۵۸ء) 

     

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے