غالب کا جذبۂ حب الوطنی اور واقعات سنہ ستاون
مرزا غالب سنہ ستاون کے ہنگامہ میں شروع سے آخر تک دہلی میں رہے۔ اس زمانے کے حالات ۱۱مئی ۱۸۵۷ء 1 سے سے ۲۱ جولائی ۱۸۵۸ء 2 تک انھوں نے اپنی فارسی کتاب ’’دستنبو‘‘ میں لکھے ہیں۔ ہنگامے کے دنوں میں غالب پر جو گزری، اس کا ذکر دستنبو کے علاوہ ان کے خطوط میں بھی ملتا ہے جو نسبتاً زیادہ آزادی اور بے باکی سے لکھے گئے ہیں۔ غالب کی وطن دوستی یا انگریزوں کے تئیں ان کے سچے جذبات معلوم کرنے کے لیے صرف دستنبو کے بیانات پر نظر رکھنا کافی نہیں، بلکہ غالب کی شخصیت، ان کے مزاج اور ان کے مخصوص حالات کو جاننا بھی ضروری ہے، نیز وہ خطوط اس بارے میں بے حد اہم ہیں جو انھوں نے اپنے خاص خاص دوستوں کو لکھے ہیں اور جن میں ان کا پیمانۂ دل بے تابانہ چھلک گیا ہے۔
مرزا غالب ہنگامہ سنہ ستاون میں اہل وعیال سمیت اپنے گھر میں رہے۔ 3 ایک خط میں لکھتے ہیں، ’’میں مع زن وفرزند ہر وقت اس شہر میں قلزم خوں کا شناور ہوں۔ دروازہ سے باہر قدم نہیں رکھا، نہ پکڑا گیا، نہ نکالا گیا، نہ قید ہوا، نہ مارا گیا۔‘‘ 4 لیکن دہلی پر انگریزوں کا دوبارہ تصرف ہو جانے کے بعد غالب پر پے در پے مصیبتیں نازل ہونا شروع ہوئیں۔ اس وقت وہ محلہ بلی ماران میں حکیم محمد حسن خاں کے مکان میں رہتے تھے۔ فتح شہر کے بعد پانی وغیرہ کا سلسلہ بھی بند ہو گیا اور دو دن بے آب ونان بسر کرنا پڑے۔ 5
تیسرے روز حکیم محمود خاں کے خاندانی مکانوں کی حفاظت کرنے کے لیے مہاراجہ پٹیالہ کے بھیجے ہوئے سپاہی آ پہنچے اور ان کی وجہ سے مرزا کا گھر تو لوٹ سے بچ گیا۔ 6 لیکن جو قیمتی سامان اور زیورات ان کی بیگم نے حفاظت کے خیال سے کالے میاں صاحب کے تہہ خانے میں رکھوائے تھے، انھیں فتح مند فوج نے لوٹ لیا۔ 7 چند گورے غالب کے گھر میں بھی داخل ہوئے اور انھیں گرفتار کرکے کرنل برن 8 کے سامنے پیش کیا جو قریب ہی حاجی قطب الدین سوداگر کے گھر میں مقیم تھے۔ باز پرس ہوئی۔ 9 زندگی باقی تھی کہ مرزا بچ گئے۔ 10
ادھر ۳۰ ستمبر کے لگ بھگ کچھ فوجی ان کے بھائی مرزا یوسف کے گھر میں گھس گئے اور سب کچھ لے گئے۔ 11 یہ تیس سال کی عمر سے دیوانے تھے۔ 12 ۱۹ اکتوبر کو مرزا یوسف کا بوڑھا دربان خبر لایا کہ مرزا یوسف پانچ دن کے مسلسل بخار کے بعد رات کو گزر گیا۔ 13 اس وقت نہ کفن کا کپڑا مل سکتا تھا، نہ غسّال میسر تھا اور نہ گورکن۔ غالب کے ہمسایوں نے ان کی بے کسی پر رحم کھایا اور پٹیالہ کے سپاہیوں میں سے ایک کو ساتھ لے جاکر مرزا یوسف کی تجہیز و تکفین کی۔ 14 مرزا نے اپنے ایک خط میں ان کی وفات اور ان کے بیوی بچوں کی تباہ حالی کا ذکر یوں کیا ہے،
’’حقیقی میرا ایک بھائی دیوانہ مر گیا، اس کی بیٹی، اس کےچار بچے، اس کی ماں یعنی میری بھاوج جے پور میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان تین برس میں ایک روپیہ ان کو نہیں بھیجا، بھتیجی کیا کہتی ہوتی کہ میرا بھی کوئی چچا ہے۔ یہاں اغنیا اور امرا کے ازواج و اولاد بھیک مانگتے پھریں اور میں دیکھوں، بس مصیبت کی تاب لانے کو جگر چاہیے۔‘‘ (بنام یوسف مرزا، اردوئے معلی، ص، ۲۵۵)
لڑائی کے دوران غالب کے دوستوں، عزیزوں اور شاگردوں میں سے کئی قتل ہوئے، کئی انگریزوں کے معتوب ٹھہرے اور کئی خانماں برباد دہلی سے نکل گئے۔ مولوی فضل حق خیرآبادی کو کالے پانی کی سزا ہوئی، شیفتہ کو حبس ہفت سالہ کاحکم سنایا گیا، صدر الدین آزردہ کی ملازمت موقوف، جائداد ضبط۔ نواب ضیاء الدین اور نواب امین الدین، دہلی پر انگریزوں کے غلبے کے بعد لوہارو جانے کے لیے روانہ ہوئے، ابھی مہرولی تک پہنچے تھے کہ لٹیروں نے لوٹ لیا۔ ادھر دلی میں ان کا گھر تاراج ہوا اور تقریباً ’’۲۰ ہزار روپئے کی مالیت کا کتب خانہ‘‘ لٹ گیا۔ (اردوئے معلی، ۱۵۱، ۱۵۳، ۱۹۳ اور ۲۴۳)
مرزا کا فارسی اور اردو کلام ان کے ہاں جمع ہوتا تھا وہ بھی ضائع ہو گیا۔ مظفر الدین حیدر خاں اور ذوالفقار الدین حیدر خاں (حسین مرزا) پر اس سے بھی بڑھ کر گزری۔ نہ صرف ان کے گھروں پر جھاڑو پھر گئی بلکہ پردوں اور سائبانوں میں ایسی آگ لگی کہ گھر کا گھر پھک گیا۔ یوسف مرزا کو خط لکھتے ہوئے ان مصیبتوں کا ذکر یوں کیا ہے،
’’میرا حال سوائے میرے خدا اور خداوند کے کوئی نہیں جانتا۔ آدمی کثرت غم سے سودائی ہو جاتے ہیں عقل جاتی رہتی ہے۔ اگر اس ہجوم غم میں میری قوت متفکرہ میں فرق آ گیا ہو تو کیا عجب ہے بلکہ اس کا باور نہ کرنا غضب ہے۔ پوچھو کہ غم کیا ہے، غم مرگ، غم فراق، غم رزق، غم عزت۔ غم مرگ میں قلعۂ نامبارک سے قطع نظر کرکے اہل شہر کو گنتا ہوں، مظفر الدولہ میر ناصرالدین، مرزا عاشور بیگ میرا بھانجہ، اس کا بیٹا احمد مرزا انیس برس کا بچہ، مصطفی خاں ابن اعظم الدولہ، اس کے دو بیٹے ارتضیٰ خاں اور مرتضیٰ خاں، قاضی فیض اللہ، کیا میں ان کو اپنے عزیزوں کے برابر نہیں جانتا تھا۔ اے لو بھول گیا۔ حکیم رضی الدین خاں، میر احمد حسین میکش، اللہ اللہ! ان لوگوں کو کہاں سے لاؤں۔‘‘ (اردوئے معلی، ص، ۲۵۵)
ایک اور خط میں لکھتے ہیں، ’’یہ کوئی نہ سمجھے کہ میں اپنی بے رونقی اور تباہی کے غم میں مرتا ہوں، انگریز کی قوم میں سے جوان روسیاہ کالوں کے ہاتھ سے قتل ہوئے اس میں کوئی میرا امیدگاہ تھا اور کوئی میرا شفیق اور کوئی میرا دوست، کوئی میرا یار اور کوئی میرا شاگرد۔ ہندوستانیوں میں کچھ عزیز، کچھ دوست، کچھ شاگرد، کچھ معشوق سو وہ سب کے سب خاک میں مل گئے۔ ایک عزیز کا ماتم کتنا سخت ہوتا ہے، جو اتنے عزیزں کا ماتم دار ہو اس کی زیست کیونکر نہ دشوار ہو۔ ہائے اتنے یار مرے کہ جواب میں مروں گا تو میری کوئی رونے والا بھی نہ ہوگا۔‘‘ (بنام تفتہ، اردوئے معلی، ص، ۹۱)
دستنبو میں غالب لکھتے ہیں، ’’دریں ماتم آور جادر۔۔۔ اگر جز گرستن بہ نگرستن سری داشتہ باشد، رَوزن دیدہ بخاک انباشتہ باد۔ جز روز سیاہ ہیچ نیست کہ گویم، دیدہ آن دیدہ و برش دید ازیں پندار، روز سیاہ خود چیزی است کہ در تاریکی آن ہیچ نتواں دید۔۔۔ ازیں درد ہای دار و مگزیں، وزخم ہای مرہم پذیر، آں می بایدم اندیشید، کہ من مردہ ام۔‘‘ 15
(۲)
شخصی صدموں اور چند دوسری وجہوں سے غالب ’’غدر‘‘ کو اچھے لفظوں میں یاد نہیں کرتے تھے۔ دستنبو میں غالب نے غدر کی جی بھر کے مذمت کی ہے۔ انھوں نے غدر کی تاریخ ’’رستخیز بے جا‘‘ سے نکالی تھی۔ 16 دستنبو میں انھوں نے انگریزوں کے خلاف لڑنے والے اپنے ہم وطنوں کو ’’نمک حرام‘‘، ’’خبیث وآوارہ‘‘، ’’بندہ ہائے بے خداوند‘‘، ’’سیاہ باطن‘‘، ’’بے رحم قاتل‘‘، ’’گمراہ باغی‘‘، ’’سیہ کار رہزن‘‘ اور ’’سیاہ رو جنگ جو‘‘ کے خطابات سے یاد کیا ہے۔ 17 میرٹھ کی فوج کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے، ’’بخت بر گشتہ و سرگشتۂ چند از سپاہ کینہ خواہ میرت (میرٹھ) بشہر درآمدند، ہمہ بی آزرم وشور انگیز وبخداوند کشی تشنۂ خون انگریز۔۔۔‘‘ 18
ایک اور جگہ لکھا ہے، ’’دلی کہ خون باد۔۔۔ دوستی کہ بریز اد۔۔۔‘‘ 19
لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں کہ غالب نے ’’دستنبو‘‘ میں غدر کی مخالفت اور باغیوں کی جی بھر کے مذمت کی ہے بلکہ انگریزوں کی مدح وستائش کا بھی کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ غالب نے انھیں ’’حاکمان عادل‘‘، ’’اختر تابندہ‘‘، ’’شیر دل فاتحین‘‘، ’’پیکر علم وحکمت‘‘ اور ’’خوش اخلاق ونیک نام حاکم‘‘ کہہ کر یاد کیا ہے۔ 20 اس سلسلے میں دستنبو کے یہ اقتباسات ملاحظہ ہوں، ’’ہندیاں دامن داد گراں از دست دادند و در شکنجۂ دام ہمدمی دراں افتادند۔‘‘ 21
’’داد آنست کہ آرامش جز در آئین انگریزاز آئین ہای دگر چشم داشتن کوری است۔‘‘ 22
’’ہرکہ گردن از فرماندہان پیچد، سرش درخور کفش است۔۔۔ جہانیاں را سزد کہ با خداوندان بخت خدا داد، بہ خوشنودی سرفرود آرند وبردن فرمان جہانداران را پزیر فتن فرمان جہان آفرین انگارند۔‘‘ 23
غدر کے بعد دہلی کے جو حالات تھے، جس طرح جگہ جگہ پھانسیاں لگی ہوئی تھیں اور جس طرح باشندگان دہلی کے قتل و خون کا بازار گرم تھا، 24 ان حالات میں غالب سے بغاوت کی موافقت یا انگریزوں کی مخالفت کی توقع تو نہیں کی جا سکتی لیکن غالب نے جس طرح بڑھ چڑھ کر انگریزوں کی مدح وستائش کی ہے، وہ خاصی معنی خیز ہے۔ آخر ایسی کیا بات تھی کہ غالب اس درجہ تعریف پر مجبور تھے؟ اس سوال کے جواب میں مندرجہ ذیل حالات کا علم دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔
۱۸۵۵ء میں غالب نے ملکہ وکٹوریہ کی تعریف میں ایک فارسی قصیدہ لکھ کر لارڈ کیننگ کی معرفت ولایت بھجوایا تھا۔ اس کے ساتھ ایک عرضداشت تھی کہ روم اور ایران کے بادشاہ شاعروں پر بڑی مہربانیاں کرتے ہیں اور اگر برطانیہ کی ملکہ مجھے خطاب، خلعت اور پنشن سے سرفراز کرے تو بڑی عنایت ہوگی۔ غالب کو جنوری ۱۸۵۷ء میں لندن سے جواب ملاکہ درخواست پر تحقیق کے بعد حکم صادر ہوگا۔ 25 اس جواب کو پاکر مرزا ’’کوئین پوئٹ‘‘ ہونے کا خواب دیکھ رہے تھے کہ تین ماہ بعد غدر ہو گیا۔
غدر کے ایام میں ایک جاسوس گوری شنکر نے انگریزوں کو خفیہ اطلاع دی کہ ۱۸جولائی ۱۸۵۷ء کو جب بہادر شاہ نے دربار کیا تو مرزا غالب نے سکہ کہہ کر گزرانا۔ 26 چنانچہ امن قائم ہونے کے بعد جب غالب نے پنشن اور دربار بحال کیے جانےکے لیے سلسلہ جنبانی کی تو انھیں صاف صاف کہا گیا کہ وہ غدر کے دنوں میں باغیوں سے اخلاص رکھتے تھے۔ 27 اور اس بناپر ان کی پنشن اور دربار موقوف رہا۔ عبد الغفور سرور کو لکھتے ہیں، ’’سکہ کا وار تو مجھ پر ایسا چلا جیسے کوئی چھرا یا کوئی گزاب، کس کو کہوں، کس کو گواہ لاؤں۔‘‘ 28
اس الزام میں جو سکہ غالب سے منسوب کیا جا رہا تھا،
بزر زد سکۂ کشور ستانی
سراج الدیں بہادر شاہ ثانی
اس کے بارے میں غالب کا خیال تھا کہ یہ ذوق نے ۱۸۲۷ء میں بہادر شاہ کی تخت نشینی کے موقع پر کہہ کے پیش کیا تھا۔ 29 اس لیے دوستوں سے ۱۸۲۷ء کے اخبار اور خصوصاً ’’دہلی اردو اخبار‘‘ مانگتے تھے۔ 30 یہ اخبار محمد حسین آزاد کے والد مولوی محمد باقر تھا، جن کے ذوق سے گہرے مراسم تھے اور ذوق کے کہے ہوئے سکے کا اس اخبار میں ملنا یقینی تھا۔ یوسف مرزا کو ایک خط میں لکھتے ہیں،
’’وہ دلی اردو اخبار کا پرچہ اگر مل جائے تو بہت مفید مطلب ہو ورنہ خیر کچھ محل خوف وخطر نہیں ہے۔ حکام صدر ایسی باتوں پر نظر نہ کریں گے۔میں نے سکہ کہا نہیں، اگر کہا تو اپنی جان اور حرمت بچانے کو کہا۔ یہ گناہ نہیں اور اگر گناہ ہے بھی تو کیا ایسا سنگین ہے کہ ملکہ معظمہ کا اشتہار بھی اس کو نہ مٹا سکے۔ سبحان اللہ! گولہ اندازکا بارود بنانا اور توپیں لگانی اور بنک گھر اور میگزین کا لوٹنا معاف ہو جائے اور شاعر کے دو مصرعے معاف نہ ہوں۔‘‘ 31
یہاں اصل بیان صرف اتنا نہیں کہ ’’میں نے سکہ کہا نہیں‘‘ جیساکہ مالک رام کا خیال ہے۔ 32 بلکہ اس کا دوسرا حصہ یعنی ’’اگر کہا تو اپنی جان اور حرمت بچانے کو کہا‘‘ اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ پہلا حصہ۔ اور اس کے بعد کے تمام جملے اعتذار کا انداز رکھتے ہیں جنھیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان جملوں سےغالب کے دل کاچور صاف ظاہر ہے۔ اس کا قوی امکان ہے کہ غالب نے سکہ کہا تھا اور اسے بہادر شاہ کے حضور میں پیش بھی کیا تھا۔ اتفاق کی بات ہے کہ ماہرین غالبیات کی کوششوں سے اس سکہ شعر کا سراغ بھی مل چکا ہے جو واقعتاً غالب نے کہا تھا۔ اس سکہ کا ذکر دراصل انگریزوں کے ایک اور جاسوس جیون لال نے اپنے روزنامچہ میں کیا ہے۔ اس روزنامچہ کا انگریزی ترجمہ مٹکاف نے کیا تھا اور خواجہ حسن نظامی نے اسے مع ایک اور روزنامچہ کے انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرکے ’’غدر کی صبح وشام‘‘ کے نام سے شائع کیا تھا۔
جیون لال نے ۱۹مئی کے دربار کا ذکر کرتے ہوئے جہاں دوسرے کئی شاعروں کے سکے نقل کیے ہیں، وہاں غالب کا سکہ درج کرتے ہوئے بجائے ان کا پورا نام لکھنے کے محض ’’مرزا نوشہ‘‘ لکھنے پر اکتفا کی ہے۔ مٹکاف غالباً اس نام سے واقف نہیں تھا۔ اس کے انگریزی ترجمے میں یہ نام حذف ہو گیا۔ خواجہ حسن نظامی نے چونکہ انگریزی ترجمے سے ترجمہ کیا تھا، یہ نام ان کے ترجمے سے بھی غائب ہو گیا۔ ڈاکٹر خواجہ احمد فاروقی نے جیون لال کا قلمی روزنامچہ لندن میں تلاش کیا۔ اس میں مرزا نوشہ یعنی غالب سے منسوب یہ سکہ شعر یوں درج ہے،
بر زر آفتاب و نقرۂ ماہ
سکہ زد در جہاں بہادر شاہ
البتہ گوری شنکر نے غالب سے جو سکہ منسوب کیا تھا (بزر زد سکہ کشور ستانی، سراج الدیں بہادر شاہ ثانی) 33 وہ غالب کا نہیں تھا۔ مالک رام نے صادق الاخبار کے حوالے سے حتمی طور پر ثابت کر دیا ہےکہ وہ سکہ حافظ غلام رسول ویراں تلمیذ ذوق کا تھا اور ان کے نام سے صادق الاخبار کے ۶جولائی ۱۸۵۷ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا اور یہ اخبار نیشنل آرکائیوز نئی دہلی میں محفوظ ہے۔ 34
بیشک جو سکہ غالب سے منسوب کیا جا رہا تھا، وہ غالب کا نہیں تھا، لیکن غالب اس الزام سے بری نہ ہو سکے۔ قلعہ کی تنخواہ تو گئی ہی تھی، پنشن اور دربار کے معاملہ میں بھی زک اٹھانی پڑی اور ’’کوئین پوئٹ‘‘ بننے کا خواب بھی ادھورا رہا۔ اس زمانےمیں غالب کی مالی حالت بے حد خراب ہو گئی تھی۔ ’’دستنبو‘‘ میں اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے، ’’دیریں پنسنِ سرکار انگریزی راسر رشتۂ باز یافت گم است، بفروختن گستردنی و پوشیدنی جان و تن ہمی پرورم، گوئی دیگراں نان میخورند و من جامہ ہمی خورم، ترسم کہ چوں پوشیدنی ہمہ خوردہ ہاشم، در برہنگی از گرسنگی مردہ باشم۔‘‘ 35
اس وقت غالب کی سب سے بڑی ضرورت پنشن کا اجرا تھا اور یہ انگریزوں کو اپنی وفاداری کا یقین دلائے بغیر ممکن نہ تھا۔ اس کے لیے فتح دہلی کے بعد غالب نے ملکہ وکٹوریہ کی تعریف میں ایک فارسی قصیدہ لکھا، جس میں انگریزوں کو فتح ہند کی مبارکباد دی گئی تھی۔ غالب نے اسے حکام بالاکو بھجوا دیا۔ جواب ملا کہ چیف کمشنر کے ذریعے بھجوایا جائے۔ غالب نے ایسا کیا۔ اس پر جواب ملا جس خط میں تہنیت کے سوا کچھ نہیں ہے، اس کے بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے۔ 36 یہ جواب بڑا دل شکن تھا۔ ان حالات میں جو کام قصیدوں سے نہ ہو سکا، غالب نے اسے ’’دستنبو‘‘ سے لینا چاہا۔ ہرگوپال تفتہ کو، جن کی نگرانی میں دستنبو چھپ رہی تھی، غالب ایک خط میں لکھتے ہیں،
’’اس تحریر (دستنبو) کو جب دیکھوگے تب جانو گے۔۔۔ ایک جلد نواب گورنر جنرل بہادر کی نذر بھیجوں گا اور ایک جلد بذریعہ ان کے جناب ملکۂ معظمہ انگلستان کی نذر کروں گا۔ اب سمجھ لو کہ طرز تحریر کیا ہوگی۔‘‘ 37
اس بیان سے ظاہر ہے کہ ’’دستنبو‘‘ کی طباعت بعض مصلحتوں کے پیش نظر تھی۔ دلی پر باغیوں کا قبضہ کچھ اوپر چار ماہ رہا۔ غالب نے اس کا ذکر صرف پانچ چھ صفحوں میں کیا ہے۔ بیشتر محققین اس بات پر متفق ہیں کہ مرزا نے ان ایام کے حالات شروع میں تفصیل سے لکھے ہوں گے لیکن فتح دلی کےبعد ان کی اشاعت مناسب نہ سمجھی ہوگی۔ ’’دستنبو‘‘ دراصل صاحبان انگلستان کو نذر کرنے کے لیے چھپوائی گئی تھی، جس کا سبب غالب کے لفظوں میں یہ تھا، ’’سائل محکمۂ ولایت کو یاد دہی کرتا ہے اور گورنمنٹ سے تحسین طلب ہے۔‘‘ 38
’’دستنبو‘‘ میں غالب نے ملکہ وکٹوریہ والا فارسی قصیدہ (شمار یافت، روزگار یافت) بھی شامل کردیا اور آخر میں اپنی خواہش کو صاف الفاظ میں یوں ظاہر کیا، ’’کاش دربارۂ آں خواہشہای سہ گانہ ہمانا مہرخوان، وسراپای، وماہانہ، چنانکہ ہمدریں نگارش از آن گزارش آگہی دادہ ام واینک چشمِ نگراں بداں دوختہ ودل پرامید بداں نہادہ ام۔۔۔‘‘ 39
دستنبو میں غالب نے بہادر شاہ ظفر کا، جن کے وہ وظیفہ خوار تھے اور استاد بھی تھے، سرے سے نام ہی نہیں لیا۔ شہزادوں کا ذکر کیا ہے، لیکن سرسری طور پر اور تو اور فضل حق خیرآبادی اور صدر الدین آزردہ کا بھی (جنھوں نے انگریزوں کے خلاف جہاد کے فتویٰ پر دستخط کیے تھے اور جس کی پاداش میں فضل حق خیرآبادی کو کالے پانی کی سزا ہوئی تھی اور آزردہ کی ملازمت موقوف اور جائداد ضبط کر لی گئی تھی) جو دونوں غالب کے گہرے دوست تھے، غالب نے ان کا ذکر بھی نہیں کیا اور اگر کیا تو فقط حکیم احسن اللہ خاں 40 جو انگریزوں سے ملے ہوئے تھے اور جن کا نام غداروں کی فہرست میں سب سے اوپر تھا۔
دستنبو کا یہ پہلو بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ غالب نے غدر کی ساری ذمہ داری ’’نمک حرام‘‘ سپاہیوں اور ’’خبیث وآوارہ‘‘ فوجیوں پر ڈالی ہے، اگرچہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ہندوستانیوں نے اپنی ضائع ہوتی ہوئی سلطنت کو بچانے کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دی تھی۔ غالب نے دہلی کے گرد ونواح کے سات حکمرانوں اور لکھنؤ، بریلی، مراد آباد، گوالیار اور فرخ آباد کے مجاہدوں کا ذکر خاصی تفصیل کےساتھ کیا ہے۔ 41 لیکن غدر کی ذمہ داری وہ حکمراں طبقے یاطبقہ اشرافیہ پر ڈالنے کے لیے ہرگز تیار نہیں تھے، شاید اس لیے کہ خود ان کا تعلق طبقۂ اشرافیہ سے تھا!
اس مقالہ کے باقی حصہ میں اب ہم اس سوال کو لیں گے کہ غدر کے بارے میں غالب کا اصل رویہ کیا تھا؟ کیا واقعی وہ انگریزوں کی حکومت کو ہندوستان کے لیے نعمت سمجھتے تھے اور جس طرح ان کے ہم وطنوں نے ملک وقوم کی آزادی کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دی تھی، کیا واقعی غالب اسے اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے اور ان سے انھیں مطلق کوئی ہمدردی نہیں تھی۔
اس سوال سے بحث کرتے ہوئے غالب کی سیرت کو بھی نظر میں رکھنا ضروری ہے۔ غالب سچے معنوں میں مغل تھے جو بقول محمد اکرام ’’سازگار حالات میں میر کارواں بن جاتا ہے، لیکن شہید ہونے سے گھبراتا ہے۔‘‘ 42 غالب کی طبیعت کا تمام رجحان خیال پرستی نہیں بلکہ واقعیت پرستی کی طرف تھا۔ یہ بات ان کی وراثت، ماحول، حالات زندگی اور اردو اور فارسی کلام کو سامنے رکھنےسے بخوبی صاف ہو جاتی ہے۔ مرزا ترکی نسل سے تھے اور ا ن کی رگوں میں وہی خون موجزن تھا جو مغل بادشاہوں کی رگوں میں تھا، چنانچہ جاہ وجلال اور ثروت وحشمت کی خواہش ان کی گھٹی میں پڑی تھی۔ گو قدرت سے انھیں یہ چیزیں میسر نہ آئیں۔ لیکن جہاں تک بن پڑا، انھوں نے انھیں نبھانے کی کوشش کی۔
وہ شروع ہی سے وضعداری اور ذاتی وجاہت کے قائل تھے۔ اس کے لیے انھوں نے سفر بھی کیے، دکھ بھی سہے اور مقدمے بھی لڑے۔ ان کا ظرف بڑا تھا اور بقدر حسرت بادہ پا نے کی تمنا ساری عمر رہی۔ بقول خود وہ ’’شہد کی مکھی‘‘ بننےکے خلاف تھے، ’’مصری کی مکھی‘‘ ہونے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ 43
غالب کی نظر انگریزوں کے علم و آئین اور داد ودانش پر ضرور تھی، لیکن اس کے ساتھ ہی ان کی نظر مستقبل پر بھی تھی۔ مرزا کی پنشن حکومت انگلشیہ کا عطیہ تھی۔ بہادر شاہ ظفر اور قلعے کی محفلوں کو وہ چراغ سحری سمجھتے تھے۔ 44 اس سے انھیں کوئی گہری وابستگی نہ تھی۔ اس کے برعکس کئی انگریزوں مثلاً اسٹرلنگ، میجر جان کوب، سرجان میکوڈ، مٹکاف اور ٹامس سے ان کے مخلصانہ تعلقات تھے۔ وہ نہ صرف انگریزوں کے مداح تھے بلکہ انگریزی آئین کو بھی مغلیہ نظام پر ترجیح دیتے تھے۔
چنانچہ جب سرسید نے آئین اکبری کی تصحیح کرکے مرزا کی رائے طلب کی تو انھوں نے جو مثنوی لکھی، اس میں بجائے تعریف کے تعریض کا پہلو نمایاں تھا، اس لیے سرسید نے اسے کتاب کے ساتھ شائع نہ کیا، نیز غدر سے دو سال پہلےجب فیصلہ ہوا کہ بہادر شاہ ظفر کے بعد شاہی سلسلہ ختم ہو جائےگا تو غالب نےبھی اپنے مستقبل کو انگریزوں سے وابستہ کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ چنانچہ ملکہ وکٹوریہ کی تعریف میں لارڈ کیننگ کی معرفت ولایت بھجوایا گیا فارسی قصیدہ اسی کا نتیجہ ہے۔
غدر سے کچھ پہلے انگریزوں کی غاصبانہ کارروائیوں کے خلاف ملک میں نفرت اور بے چینی کی جو لہر اونچی اٹھ رہی تھی، ایسا نہیں کہ غالب اس سے بے خبر تھے۔ اس سلسلے میں غالب کے ان خطوط کا ذکر ضروری ہے جو انھوں نے نواب یوسف علی خاں والی رامپور کو لکھے تھے اور بعد میں غالب کی ہدایت پر چاک کر دیے گئے۔ مکاتیب غالب میں ۱۵ فروری ۱۸۵۷ء کا خط موجود ہے، لیکن اس کے بارے میں مرتب مکاتیب غالب کا بیان ہے، مثل میں اس کا صرف لفافہ شامل ہے اور اس کی پشت پر تحریر ہے، ’’وعرضی حسب الحکم چاک نمودہ شد۔‘‘ 45
عرشی صاحب نے مزید لکھا ہے، ’’مرزا صاحب نے یکم اپریل ۱۸۵۷ء کو ایک اور عریضہ ارسال کیا تھا۔۔۔ مثل میں اس کابھی صرف لفافہ شامل ہے اور اس کی پشت پر تحریر ہے، عرضی از دست مبارک چاک شدہ۔۔۔‘‘ 46 حواشی مکاتیب غالب میں عرشی صاحب نے نواب رامپور کا ۲۳ مارچ ۱۸۵۷ء کا وہ خط بھی نقل کیا ہے جس میں انھوں نے غالب کو یقین دلایا تھاکہ ان کے لکھنے کے مطابق ان کا خط ضائع کر دیا گیا۔ ’’صحیفۂ مسرت آگیں۔۔۔ مشعر رسید رقیمۃ الوداد واینکہ صحائف شرائف عبارت اردو بعد ملاحظہ چاک شدہ باشند۔۔۔ وصول نشاط شمول گردیدہ۔۔ ۔مشفقا! حسب الارقام سامی صحیفۂ موصوفہ بعد استفاضۂ مضمونش چاک نمودہ شد وآئندہ ہم دربارۂ ہمچو مکاتیب تعمیل ایمائی سامی ملحوظ خواہد ماند۔‘‘ 47
ظاہر ہے کہ یہ خط وکتابت بصیغۂ راز تھی اور ایسے تمام خطوط غالب کے حسب ہدایت چاک کر دیے گئے۔ اس ہدایت کی کیا وجہ ہو سکتی تھی؟ عرشی صاحب کا خیال ہے ’’اس ہدایت کی وجہ بجز اس کے اور کچھ سمجھ میں نہیں آتی کہ ان تحریروں کا مضمون سیاسیات سے متعلق تھا۔‘‘ 48 مولانا ابوالکلام آزاد نے غلام رسول مہر کی کتاب پر حواشی لکھتے ہوئے ان خطوں کے بارے میں لکھا ہے کہ دہلی میں غدر سے دو ماہ پہلے پولیٹکل انقلاب اور فوجی بغاوت کے چرچے شروع ہو گئے تھے اور ’’عجب نہیں کہ مرزا غالب نے ان امور کی طرف لکھا ہو، اور اس لیے احتیاط متقاضی ہو کہ یہ خظوط چاک کر دیے جائیں۔‘‘ 49
ابھی رامپور سے یہ خط وکتابت ہو رہی تھی کہ غدر کی آگ بھڑک اٹھی۔ غالب نے بہ تقاضائے ہوش مندی ہنگامہ کے دوران میں قلعہ والوں سے برابر بنائے رکھی۔ ان کا یہ بیان کہ غدر کے دنوں میں انھوں نے آنا جانا موقوف کر دیا اور دروازے سے باہر قدم نہیں رکھا، 50 صحیح نہیں۔ جاسوس جیون لال نے اپنے روزنامچے میں ۱۳جولائی کے دربار کا ذکر کرتے ہوئے واضح طور پر لکھا ہے کہ مرزا نوشہ اور مکرم علی خاں نے آگرہ میں انگریزوں پر فتح پانے کی خوشی میں قصائد پڑھ کر سنائے۔ آگرہ کے اخبار عالم تاب کی سند بھی موجود ہے کہ غدر کے دوران غالب قلعہ میں قصیدے پڑھتے رہے۔ نیز اگرچہ جو سکہ غالب سے منسوب کیا جا رہا تھا، وہ ان کا نہیں تھا، لیکن کم از کم جاسوس جیون لال کی شہادت موجود ہے کہ غالب نے سکہ کہا تھا، اور وہ دربار آتے جاتے رہے تھے۔ 51
غدر سے پہلے غالب کا انگریزوں کا طرفدار رہنا، غدر کے دوران میں ان کا قلعہ والوں سے بنائے رکھنا اور فتح دہلی کے بعد فتح مند انگریزوں کا ساتھ دینا ایک اورفقط ایک چیز کو ظاہر کرتا ہے، وہ یہ کہ غالب انتہائی ’’واقعیت پسند‘‘ انسان تھے اور بدلے ہوئے حالات کا رخ دیکھ کر اپنی منفعت کے لیے اقدام کرنا چاہتے تھے۔ یہ بات بھی نظر میں رہنی چاہیے کہ غدر سے چند ہی ماہ قبل غالب ریاست رامپور سے وابستہ ہوئے تھے۔یہ ریاست غدر میں باغیوں کے خلاف انگریزوں کی حامی و مددگار رہی تھی۔ چنانچہ غالب کو مسلسل یہ خطرہ لگا ہوا تھا کہ اگر ان کے خلاف ذرا سا بھی شبہ ہو گیا تو رامپور سے تعلقات منقطع ہونے سے ان کے کئی کام بند ہو جائیں گے، اسی لیے تو غدر کے بعد رامپور سے مراسلت کرتے ہوئے بھی غالب نے سب سے زیادہ زور اسی بات پر دیا کہ غدر میں وہ گوشہ گیر رہے اور انگریزوں کے دل وجان سے خیرخواہ ہیں۔ 52
نیز غدر کے دوران اپنی مصلحتوں کے پیش نظر انھوں نے جو روش اختیار کی تھی، نواب رامپور کے نام ۱۴جنوری ۱۸۵۸ء کے ایک خط میں اس کا اعتراف صاف الفاظ میں یوں کیا ہے، ’’دریں ہنگام (غدر) خود را بکنار کشیدم وبدیں اندیشہ کہ مبادا، اگر یک قلم ترکِ آمیزش کنم، خانۂ من تاراج رود و جان در معرض تلف افتد، بباطن بیگانہ و بظاہر آشنا ماندم۔‘‘ 53
غالب نے غدر کو برے لفظوں سے اسی لیے یاد کیا ہے کہ علاوہ دوسری مصیبتوں کے اس کی وجہ سے ان کے مستقبل کا نقشہ بگڑ گیا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اپنے ہم وطنوں کا یا ہندوستان کا درد ان کے دل میں نہیں تھا۔ ’’دستنبو‘‘ میں ایک جگہ اپنے خاص بالواسطہ اسلوب تحریر میں لکھا ہے، ’’دل است سنگ و آہن نیست چرا نہ سوزد، چشم است رخنہ و روزن نیست، چوں نگرید، آری ہم بداغ مرگ فرماند ہاں باید سوخت، وہم برویرانی ہندوستان باید گریست۔‘‘ 54
لیکن غدر اور انگریزوں کے ظلم سے متعلق ان کے اصل رویے کے لیے دستنبو سے نہیں، ان کے خطوط سے رجوع کرنا چاہیے جو رازداری میں دوستوں کو لکھے گئے ہیں۔ ان میں کسی مصلحت کا دباؤ نہیں اور دل کی بات جگہ جگہ بڑی حد تک زبان پر آ گئی ہے۔غدر سے چند ماہ پہلے اودھ کے الحاق کے بارے میں ایک دوست کو خط لکھتے ہوئے کہتے ہیں، ’’آپ ملاحظہ فرمائیں، ہم اور آپ کس زمانےمیں پیدا ہوئے۔۔۔؟ تباہی ریاستِ اودھ نے با آنکہ بیگانۂ محض ہوں، مجھ کو اور بھی افسردہ کر دیا، بلکہ میں کہتاہوں کہ سخت ناانصاف ہوں گے وہ اہل ہند جو افسردہ دل نہ ہوئے ہوں گے۔‘‘ 55
جب غالب کو معلوم ہوا کہ مہاراجہ الور کو پورے اختیار کے ساتھ بحال کیا جا رہا ہے تو غالب جو جبر کے عقیدے میں یقین رکھتے تھے، ایک خط میں طنزیہ لکھتے ہیں، ’’تمام عالم کا ایک سا عالم ہے۔ سنتے ہیں کہ نومبر میں مہارجہ کو اختیار ملےگا مگر وہ اختیار ایسا ہوگا جیسا کہ خدا نے خلق کو دیا ہے۔ سب کچھ اپنے قبضۂ قدرت میں رکھا، آدمی کو بدنام کیا ہے۔‘‘ 56
غدر کے بعد انگریزوں نے ہندوستانیوں پر جو مظالم ڈھائے تھے، غالب کو ان کا احساس تھا۔ ہم وطنوں کی پامالی اور شہر کی ویرانی کا جو تذکرہ غالب کے ہاں ملتا ہے، بڑا ہی دردناک ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اس سلسلے میں انھوں نے دہلی کے بعض دوسرے شعرا کی طرح کوئی شہر آشوب یا طویل نظم نہیں کہی، لیکن ان کے خطوط میں دہلی اور اہل دہلی کی تباہی اور بربادی کی جو اہم تفصیل ملتی ہے، غدر کا کوئی بھی مؤرخ اسے نظرانداز نہیں کر سکتا۔ دہلی پر انگریزوں کے غلبے کے بعد کس کی ہمت تھی کہ انگریزوں کے خلاف ایک لفظ بھی کہہ سکے، پھر بھی مرزا کے خطوط میں انگریزوں کی زیادتیوں اور سختیوں کی طرف بڑے معنی خیز اشارے ملتے ہیں۔ اگرچہ انھوں نے یہ تمام حالات ڈر ڈر کے لکھے ہیں، 57 پھر بھی ان خطوں میں بہت کچھ کہہ دیا ہے۔
’’یہاں کا حال سن لیا کرتے ہو۔ اگر جیتے رہے اور ملنا نصیب ہوا تو کہا جائےگا، ورنہ قصہ مختصر، قصہ تمام ہوا۔ لکھتے ہوئے ڈرتاہوں۔‘‘ 58
۲۶دسمبر ۱۸۵۷ء کے ایک خط میں حکیم غلام نجف خاں کو لکھتے ہیں، ’’انصاف کرو، لکھوں تو کیا لکھوں، کیا کچھ لکھ سکتا ہوں یا لکھنے کے قابل ہے؟ بس اتنا ہی ہے کہ اب تک تم ہم جیتے ہیں، زیادہ اس سے نہ تم لکھوگے نہ میں لکھوں گا۔‘‘ 59
میر مہدی مجروح کو لکھتے ہیں، ’’اگر زندگی ہے اور پھر مل بیٹھیں گے تو کہانی کہی جائےگی۔‘‘ 60
۹جنوری ۱۸۵۸ء میں حکیم غلام نجف خاں کو پھر لکھتے ہیں، ’’جودم ہے غنیمت ہے، اس وقت تک مع عیال واطفال جیتا ہوں، بعد گھڑی بھر کے کیا ہو، کچھ معلوم نہیں، قلم ہاتھ میں لیے پرجی بہت کچھ لکھنے کو چاہتا ہے مگر کچھ لکھ نہیں سکتا۔ اگر مل بیٹھنا قسمت میں ہے تو کہہ لیں گے ورنہ انا للہ وانا الیہ راجعون۔‘‘ 61
ایک اور خط میں لکھاہے، ’’میں جس شہر میں ہوں اس کا نام بھی دلی اور محلہ کا نام بلیماران کامحلہ ہے۔ لیکن ایک دوست اس جنم کے دوستوں میں سے نہیں پایا جاتا۔ مبالغہ نہ جاننا امیر غریب سب نکل گئے، جو رہ گئے تھے وہ نکالے گئے۔۔۔ گھر کے گھر بے چراغ پڑے ہیں۔‘‘ 62
ایک خط میں ان مصیبتوں کو جو غدر میں اہل دہلی پر گزریں، ایک ایک کرکے گنایا ہے۔ ایک سطر انگریزوں کے مظالم کے بارے میں بھی ہے لیکن دیکھیے کہ کتنی شدت اور بے باکی سے حقیقت کا اظہار کیا ہے، ’’پانچ لشکر کا حملہ پے در پے اس شہر پر ہوا۔ پہلا باغیوں کا لشکر اس میں اہل شہر کا اعتبار لٹا، دوسرا لشکر خاکیوں کا، اس میں جان ومال وناموس و مکان ومکیں وآسمان وزمین و آثار ہستی سراسر لٹ گئے۔۔۔‘‘ 63
فتحِ شہر کے بعد دہلی میں سرکار کے حکم سے جو مکانات ڈھائے گئے، ان کے متعلق میر مہدی مجروح کو لکھتے ہیں، ’’مسجد جامع سے راج گھاٹ دروازہ تک بلامبالغہ ایک صحرا لق و دق ہے۔ اینٹوں کے ڈھیر جو پڑے ہیں وہ گر اٹھ جائیں تو ہو کا مکان ہوجائے۔‘‘
’’قصہ مختصر، شہرصحرا ہو گیا اور اب جو کوئیں جاتے رہے اور پانی گوہر نایاب ہوگیا تو صحرا صحرائے کربلا ہو جائےگا۔ اللہ اللہ دلی والے اب تک یہاں کی زبان کو اچھا کہتے ہیں۔ واہ رے حسنِ اعتقاد، بندۂ خدا، اردو بازار نہ رہا، اردو کہاں، دلی کہاں؟ واللہ اب شہر نہیں، کیمپ ہے، چھاؤنی ہے۔ نہ قلعہ، نہ شہر، نہ بازار، نہ نہر۔‘‘ 64
ایک اور خط میں لکھاہے، ’’بھائی کیا پوچھتے ہو، کیا لکھوں۔ دلی کی ہستی منحصر کئی ہنگاموں پر ہے۔ قلعہ، چاندی چوک، ہر روز مجمع جامع مسجد کا، ہر ہفتہ سیر جمنا کے پل کی، ہر سال میلہ پھول والوں کا، یہ پانچوں باتیں اب نہیں، پھر کہو دلی کہاں۔۔۔ ہاں کوئی شہر قلم رو ہند میں اس نام کا تھا۔‘‘ 65
علاء الدین احمد خاں کو لکھتے ہیں، ’’اے میری جان یہ وہ دلی نہیں جس میں تم پیدا ہوئے ہو، وہ دلی نہیں ہے۔۔۔ جس میں تم شعبان بیگ کی حویلی میں مجھ سے پڑھنے آتے تھے۔وہ دلی نہیں ہے، جس میں سات برس کی عمر سے آتا جاتا ہوں۔۔۔ ایک کیمپ ہے۔۔۔ معزول بادشاہ کے ذکور جو بقیۃ السیف ہیں، وہ پانچ پانچ روپیہ مہینہ پاتے ہیں، اناث میں سے جو پیر زن ہیں وہ کٹنیاں اور جوانیں کسبیاں۔‘‘ 66
قدیم تمدن کے مٹنے اور ایک سلطنت کے معدوم ہو جانے کا نقش غالب کے دل پر گہرا تھا۔ تفتہ کی سنبلستان اچھی نہیں چھپی تھی۔ اسے دیکھتے ہی بے اختیار کہہ اٹھے، ’’اس کاپی کی مثال جب تم پر کھلتی کہ تم یہاں ہوتے اور بیگمات قلعہ کو پھرتے چلتے دیکھتے، صورت ماہ دو ہفتہ کی سی اور کپڑے میلے، پائچے لیرلیر، جوتی ٹوٹی۔‘‘ 67
مولوی عزیزالدین خاں سے ایک خط میں دلی کے اجڑنے کی داستان یوں بیان کی ہے، ’’صاحب، دلی کو ویسا ہی آباد جانتے ہو جیسا آگے تھی۔ قاسم جان کی گلی۔۔۔ بےچراغ ہے۔ ہاں آباد ہے تو یہ ہے کہ غلام حسین خاں کی حویلی ہسپتال ہے اور ضیاء الدین خاں کے کمرے میں ڈاکٹر صاحب رہتے ہیں اور کالے صاحب کے مکانوں میں ایک اور صاحب عالیشان انگلستان تشریف رکھتے ہیں۔۔۔لال کنویں کے محلہ میں خاک اڑتی ہے۔ آدمی کا نام نہیں۔‘‘ 68
عبد الغفور سرور کو لکھتےہیں، ’’بڑے بڑے نامی، خاص بازار اور اردو بازار اور خانم کا بازار کہ ہر ایک بجائے خود ایک قصبہ تھا، اب پتہ بھی نہیں کہ کہاں تھے۔ صاحب امکنہ اور دکانیں نہیں بتا سکتے کہ ہمارا مکان کہاں اور دکان کہاں تھی۔ برسات بھر مینھ نہیں برسا۔ اب تیشہ و کلند کی طغیانی سے مکانات گر گئے۔ غلہ گراں ہے، موت ارزاں ہے، میوے کے مول اناج بکتا ہے۔‘‘ 69
انگریزوں نے بعض امرا کی حویلیوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ غالب نے اسے ایک جگہ ’’شہ زور اور پیل تن بندر کی زیادتی‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ لکھتے ہیں، ’’واہ رے بندر! یہ زیادتی اور شہر کے اندر۔‘‘ 70 یہاں انگریزوں کو بندر کہنا لطف سے خالی نہیں!
یہ صحیح ہے کہ غالب کے ہاں وطن پرستی کا وہ تصور نہیں ہے جو بعد میں سیاسی اور تاریخی حالات کے تحت اور نئی تعلیم کے اثر سے انیسویں صدی کے اواخرمیں پیدا ہوا۔ ہاں اگر اپنے تہذیب وتمدن سےمحبت کرنا، اپنے ہم وطنوں سے ہم دردی رکھنا اور ان کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنا وطن پرستی کہا جا سکتا ہے تو غالب بھی وطنیت کے اس جذبے سے عاری نہ تھے۔ ان کے خطوط سے ان کے نہاں خانۂ دل کے جو راز ہم پر ظاہر ہوئے ہیں، ان میں ایک یہ بھی ہے کہ دلی اور دلی والوں کی بربادی کا انھیں گہرا دکھ تھا۔ غدر کے بعد مسلمانوں پر جو شدت روا رکھی گئی تھی، اس کا انھیں دلی صدمہ تھا اور ایسی شکایتوں سے ان کے خط بھرے ہوئے ہیں۔ 71
جنوری ۱۸۵۸ء میں دلی میں ہندوؤں کے آباد ہونے کا حکم ہو گیا تھا لیکن مسلمانوں کو ایک مدت تک شہر میں رہنےکی اجازت نہ تھی۔ بعد میں حکم ہوا کہ جو مسلمان حاکم شہر کی مرضی کے مطابق جرمانہ ادا کرے اور ٹکٹ حاصل کرے، وہ شہر میں داخل ہو سکتا ہے۔ دیکھیے، انگریزوں کی اس غاصبانہ کارروائی پر غالب کیسا گہرا طنز کرتے ہیں، ’’جو مسلمان شہر میں اقامت چاہے، بقدر مقدور نذانہ دے۔ اس کا اندازہ قرار دینا حاکم کی رائے پر ہے۔ رویپہ دے اور ٹکٹ لے۔ گھر برباد ہو جائے، آٖ شہر میں آباد ہو جائے۔‘‘ 72
غدر کے بعد مسلمانوں پر مصائب اور آلام کے جو پہاڑ ٹوٹے تھے، غالب نے وہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ چنانچہ اس قطعے میں جو انھوں نے دلی کی تباہی سے متاثر ہوکر نواب علاء الدین کو ایک خط میں لکھا تھا، مسلمانوں کی زبوں حالی کا خاص طور پر ذکر کیا ہے،
بس کہ فغالِ مایرید ہے آج
ہر سلحشور انگلستاں کا
گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے
زہر ہوتا ہے آب انساں کا
چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے
گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا
شہر دہلی کا ذرہ ذرۂ خاک
تشنۂ خوں ہے ہر مسلماں کا
کوئی واں سے نہ آ سکے یاں تک
آدمی واں نہ جا سکے یاں کا
میں نے مانا کہ مل گئے پھر کیا؟
وہی رونا تن و دل و جاں کا
گاہ جل کر کیا کیے شکوہ
سوزش داغہائے پنہاں کا
گاہ رو کر کہا کیے باہم
ماجرا دیدہ ہائے گریاں کا
اس طرح کے وصال سے یا رب
کیا مٹے دل سے داغ ہجراں کا 73
غرض غدر سے متعلق غالب کا اصلی رویہ معلوم کرنے کے لیے دستنبو سے نہیں، بلکہ ان کے خطوط سے رجوع کرنا چاہیے۔ دستنبو کو زیادہ سے زیادہ غالب کا پوری محنت سے تیار کیا ہوا ’’مرافعہ‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ جس مقصد کے لیے اس مرافعے کو تیار کیا گیا، وہ اس سے پورا نہ ہوا، یعنی پنشن تو نواب رامپور کی کوششوں سے مئی ۱۸۶۰ء میں جاری ہو گئی 74اور دربار کا اعزاز ۱۸۶۳ء میں بحال ہو گیا لیکن ’’کوئین پوئٹ‘‘ بننے کا غالب کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ یہ غالب کی شخصی اور ذاتی ضرورتیں تھیں جن کی وجہ سے وہ انگریزوں کی خوشامد پر مجبور تھے، نیز انگریزوں کے اثرات سے علم و آئین کی جو نئی کرن پھوٹ رہی تھیں، غالب اس کا خیر مقدم کرتے تھے کیونکہ ان ترقیوں کے مقابلے میں انھیں مغلیہ نظام از کار رفتہ اور بوسیدہ معلوم ہوتا تھا اور وہ ان کی نظروں کے سامنے پارہ پارہ بھی ہو رہا تھا۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ ملک وقوم کی بربادی اور اپنی سلطنت اور حکومت کے جاتے رہنے پر ان کا دل کڑھتا بھی تھا، اور اپنے ہم وطنوں کی تباہی اور بالخصوص شہر دہلی کی ویرانی وبربادی پر انھوں نے اپنے خطوں میں خون کے آنسو بھی بہائے ہیں۔ انگریزوں کی مدح کرنے اور ملک وقوم کی تباہی پر غم زدہ ہونے کی ان دونوں کیفیتوں میں بظاہر تضادہے۔ غالب کے یہاں یہ تضاد مسلسل ایک تخلیقی کشاکش میں ڈھلتا رہا ہے۔ وہ چونکہ واقعیت پسند تھے، ان کی واقعیت پسندی انھیں مجبور کرتی تھی کہ جہاں وہ انگریز کو نئی ترقیوں کا استعارہ سمجھ کر قبول کریں وہاں اپنے ہم وطنوں کی تباہی و بربادی کاماتم بھی کریں، یعنی انھوں نے اپنے عہد کی ان دونوں متصادم صداقتوں میں کسی ایک سے بھی نظر نہیں چرائی بلکہ دونوں کو ان کی پوری تاریخی وتہذیبی کشاکش کے ساتھ قبول کیا اور برتا۔ ان کا یہ تخلیقی ڈائلیما موج تہ نشیں کی طرح ان کی شاعری میں جاری و ساری ہے،
ایماں مجھے رو کے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
حواشی
(۱) دستنبو، ص۹
(۲) دستنبو، ص ۷۹
(۳) دستنبو، ص ۳۴، ۲۷، ۶۶، ۱۱
(۴) بنام عبدالغفورسرور، اردوئے معلی، ص ۱۰۴
(۵) دستنبو، ص۳۲
(۶) دستنبو، ص۳۳
(۷) دستنبو، ص۷۳، ۷۴
(۸) کرنل برن کا پورا نام Henry Pelham Burn تھا۔ یہ اس وقت دہلی کے ملٹری گورنر تھے۔
(۹) دستنبو، ص ۴۵
(۱۰) اس واقعہ کی تمام تفصیلات خود مرزا غالب نے اپنی نظم و نثر کے اس انتخاب میں لکھی ہیں جو انہوں نے سر جان میکلوڈ کے لیے مرتب کیا تھا۔ ان کا بیان ہے کہ جب گورے انہیں اپنے ساتھ لے چلے تو راہ میں ایک سارجنٹ آ ملا۔اس نے مرزا کی انوکھی وضع دیکھ کر کہا، ’’ویل تم مسلمان۔‘‘ مرزا نے کہا، ’’آدھا مسلمان۔‘‘ سارجنٹ نے کہا، ’’آدھا مسلمان کیا؟‘‘ غالب نے جواب دیا، ’’شراب پیتا ہوں، سور نہیں کھاتا۔‘‘
اس کے بعد جب انہیں کرنل برن کے پاس لے جایا گیا تو انہوں نے کرنل کو ملکہ معظمہ سے اپنی خظ و کتابت دکھائی اور اپنی وفاداری کا یقین دلایا تو کرنل نے پوچھا، ’’تم دلی کی لڑائی کے وقت پہاڑی پر کیوں نہ آئے جہاں انگریزی فوجیں اور ان کے طرف دار جمع ہو رہے تھے۔‘‘ مرزا نے جواب دیا، ’’تلنگے دروازے سے باہر آدمی کو نکلنے نہیں دیتے تھے، میں کیوں کر آتا۔ اگر کچھ فریب کرکے کوئی بات کرکے نکل جاتا، جب پاوٹی کے قریب پہنچتا تو پہرے والا گورا مجھے گولی مار دیتا۔یہ بھی مانا کہ تلنگے باہر جانے دیتے، گورے گولی نہ مارتے، میری صورت دیکھیے اور میرا حال معلوم کیجیے۔ بوڑھا ہوں، پاؤں سے اپاہج اور کانوں سے بہرا، نہ لڑائی کے لائق نہ مشورت کے قابل۔ ہاں دعا کرتا، سو یہاں بھی دعا کرتا رہا۔‘‘
(انشائےغالب قلمی، ص ۲۵، ۲۶)
(۱۱) دستنبو، ص ۴۹، ۴۸
(۱۲) دستنبو، ص ۵۱
(۱۳) اردوی، ص۲۴۳، ۱۹۳، ۱۵۳، ۱۵۱
(۱۴) دستنبو، ص۵۴
(۱۵) بنام یوسف مرزا، اردوی ص۲۵۵
(۱۶) بنام ہرگوپال تفتہ، اردوی، ص۹۱
(۱۷) دستنبو، ص۴۶
(۱۸) دستنبو، ص۹
(۱۹) دستنبو، ص۵۸، ۱۵، ۳۰، ۱۲، ۱۴، ۲۷، ۱۳
(۲۰) دستنبو، ص۹
(۲۱) دستنبو، ص۴۵
(۲۲) دستنبو، ص۱۱، ۲۷، ۵۸، ۶۶
(۲۳) دستنبو، ص۶
(۲۴) دستنبو، ص۶
(۲۵) دستنبو، ص۶۳
(۲۶) ایک عام اندازہ کے مطابق دہلی میں ۲۷۰۰۰ آدمیوں کو گولی مار دی گئی یا پھانسی پر چڑھایا گیا۔ (ڈاکٹر محمد اشرف، حواشی ۴)
(۲۷) ذکر غالب، ص ۹۲
(۲۸) ذکر غالب، ص ۸۰
(۲۹) اردوی، ص ۲۱۱
(۳۰) اردوی، ص۱۰۲
(۳۱) ذکر غالب، ص ۸۱
(۳۲) اردوی، ص۹۹، عود ہندی، ص۱۹
(۳۳) اردوی، ص۲۴۹
(۳۴) غالب سے منسوب دوسرا سکہ، مشمولہ فسانہ غالب، از مالک رام، ص ۱۳۹۔ ۱۳۶
(۳۵) غالب کا سکہ شعر، رسالہ معارف، ج۸۲، نمبر۵، نومبر۱۹۵۸، ص ۳۸۸۔ ۳۹۴
(۳۶) غالب پر سکہ کا الزام اور اس کی حقیقت، رسالہ معارف، ج۸۳ نمبر۲، فروری ۱۹۵۹، ص ۱۴۱۔ ۱۵۰ (مالک رام)
(۳۷) دستنبو، ص ۷۴
(۳۸) دستنبو، ص۶۲
(۳۹) اردوی ص ۴۱
(۴۰) بنام منشی غلام غوث بے خبر، عود ہندی، ص ۱۱۴
(۴۱) دستنبو، ص ۷۶
(۴۲) دستنبو، ص ۵۵
(۴۳) دستنبو، ص۲۱
(۴۴) دستنبو، ص ۲۲، ۶۷، ۶۶، ۲۳، ۵۸، ۲۴، ۵۳
(۴۵) آثار غالب، ص ۳۷۷
(۴۶) خطوط غالب، جلد ۱، ص ۲۴۷
(۴۷) قلعہ میں شہزادگان تیموریہ جمع ہو کر غزل خوانی کر لیتے ہیں۔ٰیہ صحبت خود چند روزہ ہے، اس کو دوام کہاں؟ کیا معلوم ہے، ابھی نہ ہو، اب کے ہو تو آئندہ نہ ہو۔ (بنام قاضی عبد الجلیل جنون، عود ہندی، ص ۱۵۴)
(۴۸) مکاتیب غالب (متن) ص
(۴۹) ایضاً
(۵۰) مکاتیب غالب (حواشی) ص ۱۲۱
(۵۱) مکاتیب غالب (مقدمہ) ص۸۰
(وسکانسن یونیورسٹی، ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں جہاں اس مضمون کے کچھ حصے لکھے گئے، مکاتیب غالب دستیاب نہیں تھی۔ میری فرمائش پر اس کے حوالے ڈاکٹر مختار الدین احمد آرزو صاحب نے علی گڑھ سے لکھ بھیجے، جس کے لیے ان کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے۔)
(۵۲) غالب اور ابوالکلام، ص ۱۵۴۔ ۱۵۵
(۵۳) خطوط غالب، ج۲، ص ۱۹۹، دستنبو، ص ۴۶
(۵۴) معارف جلد ۸۲ نمبر۵، ص ۳۸۸۔ ۳۹۴
(۵۵) مکاتیب غالب (مقدمہ) ص۱، (متن) ص۸۶
(۵۶) ایضاً
(۵۷) دستنبو، ص۱۴
(۵۸) بنام غلام حسین قدر بلگرامی، اردوی، ص ۴۰۳
(۵۹) عود ہندی، ص ۹۳
(۶۰) مفصل حالات لکھتے ہوئے ڈرتا ہوں ملازمان قلعہ پر شدت ہے اور باز و پرس و دارو گیر میں مبتلا ہیں (بنام تفتہ، اردوی، ص ۵۸)
(۶۱) بنام شہاب الدین، اردوی، ص۲۱۷
(۶۲) خطوط غالب، ج ۲، ص ۶۷
(۶۳) خطوط غالب، ج ۱، ص ۲۹۶
(۶۴) خطوط غالب، ج ۲، ص۶۸
(۶۵) اردوی، ص ۵۸
(۶۶) بنام انور الدولہ سعدالدین، شفق، اردوی، ص ۲۲۶، عود ہندی، ص ۵۲
(۶۷) اردوی، ص ۱۳۷، عود ہندی، ص ۸۲
(۶۸) بنام مجروح، اردوی، ص ۱۳۶
(۶۹) اردوی، ص ۳۱۸
(۷۰) اردوی، ص۵۱
(۷۱) اردوی، ص۱۶۱، عود ہندی، ص ۱۶۰
(۷۲) اردوی، ص۱۰۳، عود ہندی، ص ۲۷
(۷۳) اردوی، ص ۲۲۸
(۷۴) اردوی، ص ۵۸، ۶۱، ۱۳۶، ۱۴۴، دستنبو، ص ۵۶، ۶۰
(۷۵) بنام مجروح، اردوی، ص۱۴۵
(۷۶) اردوی، ص ۳۰۳
(۷۷) ذکر غالب، ص ۵۸
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.