غالبؔ کی حق گوئی اور بے باکی
غالب کا اردو شاعری میں جو مرتبہ اور مقام ہے اس میں آج تک ان کا حریف اور مقابل پیدا نہیں ہوسکا۔ ان کی شاعری اتنی تہہ دار ہے کہ ہر بار جب ان کی شاعری کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو ایک نئے غالب سے آشنائی ہوتی ہے۔ ان کی شاعری اور شخصیت کے نئے نئے پہلو سامنے آتے ہیں اور پڑھنے والے انکشافاتِ نوبہ نوسے آشنا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ بہت سے پہلو تو محققین اور ناقدین کی گرفت میں آچکے ہیں لیکن بہت سارے پہلو ہنوز پس منظر میں ہیں۔
ابتداء میں تو مجھے غالب کی چند غزلیں ہی سمجھ میں آتی تھیں۔ رفتہ رفتہ غالبؔ کو پڑھتا گیا اور سمجھتا گیا۔ پھر مضامین لکھنے شروع کردیئے۔ میں نے ان کے اشعار سے ان کی انانیت اور ریب و تشکیک کا پتہ لگایا۔ یہ ایک نفسیاتی تنقید تھی۔
اس مطالعے کے دوران مجھے یہ احساس ہوا کہ غالب کے یہاں حق گوئی اور بے باکی بھی ہے۔
غالب اپنے دوستوں شاگردوں کو خط میں بلا جھجھک اپنی کمیاں اور کمزوریاں کھل کے لکھتے تھے۔ اپنی تباہی، مالی کسمپرسی اور دشواری نے ان کو آزمائش میں ڈال رکھا تھا۔ امتدادِ زمانہ، زیادہ عمر نے ان کو کمزور اور لاغر کردیا تھا۔ اسی طرح اپنی شاعری میں بھی انہوں نے جگہ جگہ اپنی ناکام، شکست خوردہ اور مایوس ذہن کا ذکر کیا ہے۔ پے در پے پڑنے والی حالات کی ان چوٹوں نے انھیں ہلاکر رکھ دیا تھا۔ محرومیوں اور ناکامیوں کے زخم کو چھپانے کے بجائے انہوں نے لوگوں کے سامنے رکھ دیا اور اس بات کی بالکل پرواہ نہیں کی کہ آنے والا وقت ان کی ان باتوں کو پڑھ کر انہیں حقیر سمجھے گا، ان سے فائدہ اٹھائے گا۔ رازداری کے تعلق سے بہت ساری باتیں عام ہیں۔ دنیا ادھر سے ادھر ہوجائے مگر حرفِ تمنا زبان پر لانا نہیں چاہئے۔ اپنا بھید کسی سے نہیں کہنا چاہئے۔ بات جو حلق سے نکلی وہ پرائی ہوگئی اور آدمی اپنا بھید دوسرے کو کہہ کر روتا ہے۔ یہ تمام باتیں غالب تو جانتے ہی تھے مگر پھر بھی انہوں نے اس کی پرواہ نہ کی اور اپنا راز کھلے عام لوگوں پر عیاں کردیا۔یہ دنیا سے بے زاری نہیں ہے یہ دیدہ دلیری ہے، یہ حق گوئی ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ انھیں شہرت ان کے اشعار سے ملے نہ کہ ان کی سیرت سے۔
آج بھی ہر آدمی چاہے چھوٹا ہو یا بڑا ہو اپنے مقابل کو اپنی کوئی بات بتاتا ہے تو ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ اس کی زبان سے کوئی ایسی بات یا راز فاش نہ ہوجائے جس سے لوگ ان کو کسی تکلیف یا پریشانی میں مبتلا کردیں۔ مگر غالب کا معاملہ ہی دوسرا تھا۔ انہیں تو عام لوگوں سے بھی اس بات کی طرف زیادہ دھیان دینا چاہئے تھا۔ ان کے اشعارسے ان کی کسی محرومی یا نارسائی کے ذکر سے ان کا قد چھوٹا ہوجائے انہیں اس کی پرواہ نہیں تھی۔ وہ اپنے قد کو خوب جانتے تھے۔ یہ ان کی حق گوئی اور بے باکی ہے۔ غالب خود کہتے ہیں ؎
کھلتا کسی پہ کیوں میرے دل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
یعنی جیسا مزاج شاعر کا ہوگا وہ اسی طرح کے شعر کہنا پسند کرے گا۔ یعنی غالب اپنے ہی اشعار سے اپنا پول کھول دیتے ہیں۔ دوسروں کو برا بھلا کہنا، احساسِ کمتری کی پہچان ہے اور یہ انانیت اور خود سری کی علامت بھی ہے۔ اس کا سبب غالب کا وہ مریض ذہن تھا جسے وہ جھنجھلاہٹ میں احساس برتری میں بدل کر دکھانا چاہتے تھے۔
دیر و حرم آئینہ تکرار تمناّ
واماندگیٔ شوق تراشے ہیں پناہیں
دیر و حرم اس کے سوا کچھ اور نہیں کہ تمنا کا آئینہ ہیں۔ شوق کی یہ وہ پستی ہے جس نے ان میں پنائیں تراش لی ہیں۔
غالبؔ کا ایک شعر ہے :
یہ مسائلِ تصوف یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
ہر آدمی جانتا ہے کہ بادہ خوار کبھی ولی نہیں ہوسکتا۔ اس شعر کو جب غالب نے بہادر شاہ ظفر کے مشاعرے میں سنایا تو بادشاہ سلامت جو خود بھی ایک اچھے شاعر تھے ان کے چار دیوان شائع ہوچکے تھے، نے کہا مرزا اس کے بعد بھی ہم آپ کو ولی نہیں سمجھتے۔ یہ بات تو غالبؔ سمجھتے تھے کہ ایسے اشعار سن کر لوگ ان کا مذاق اڑائیں گے۔ غالب شراب پیتے تھے جوا کھیلتے تھے مذہب بے زار تھے۔ اس کا اعتراف انہوں نے جگہ جگہ کیا ہے، کھلے عام کیا ہے۔
گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے
ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہوگئیں
ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں جاتی
ایسے اشعار کو سننے کے بعد ہر کوئی ان کا مذاق اڑا سکتا ہے۔ غالب نے خود کہا:
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
اور اپنے ہی دور کے ایک ہمعصر آغا جان عیشؔ نے ان کے لیے کہا تھا :
زبان میر سمجھے اور کلام مرزا سمجھے
مگر ان کی زبان وہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے
اگر اپنا کہا تم آپ ہی سمجھے تو کیا سمجھے
مزا کہنے کا جب ہے ایک کہے اور دوسرا سمجھے
کلیاتِ عیش م ۵۴
خود داری اور انانیت کو بھی دیکھتے چلیں۔
بندگی میں بھی وہ آزادہ و خود بیں ہیں کہ ہم
الٹے پھر آئے درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا
بازیجۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
اک کھیل ہے اورنگِ سلیماں مرے نزدیک
اک بات ہے اعجاز مسیحا مرے آگے
لازم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں
مانا کہ اک بزرگ ہمیں ہم سفر ملے
ان اشعار میں خاص کر شعر نمبر 1کی روشنی میں غالب کے واقعے کو بھی سن لیں۔ غالب کو شہرت ان کی اردو کی وجہ سے ملی مگر ان کی فارسی دانی بھی کم نہیں تھی۔
۱۸۴۲۔ء میں ٹامسن صاحب دہلی کالج کے سکریٹری ہوئے۔ وہ چاہتے تھے کہ غالب جیسا فارسی داں اس کالج کے مدرسین میںشامل ہوجائیں۔ وقت مقررہ پر غالب اپنی پالکی سے کالج کے گیٹ پر پہنچے اور اپنے آنے کی خبر ٹامسن صاحب کو بھجوادی اور انتظار کرتے رہے کہ ٹامسن صاحب ان کو خیر مقدم کرنے گیٹ تک آئیں گے۔ مگر وہ نہیں آئے۔ غالب واپس ہوگئے۔
میرے خیال میں غالب نے تھوڑی سی سمجھداری سے کام لیا ہوتا تو ان کا یہ واقعہ اتنا مضحکہ خیز نہیں ہوتا اور زمانے کو اتنا کہنے کا موقع نہیں ملتا۔
اردو شاعری میں میرؔ سے اب تک کے شاعروں نے ان کے اوپر ظلم کرنے والے، ستانے والے، بے وفا عاشق اور رقیب کو کوسہ ہے، بددعا دی ہے کہ اس کے رقیب نے اسے رسوا کیا ہے تو وہ بھی رسوا ہو ذلیل ہو۔ جس نے اس کا آشیاں اجاڑا ہے۔ اس پر آسمان ہی ٹوٹ پڑے۔ معشوق نے اگر انتظار کروایا اور وہ نہ آیا تو عاشق نے بد دعا کر دی۔ میں جس طرح جلا ہوں اسی طرح تو بھی جَلا کرے گا۔ مگر غالب کے یہاں ایسی بات نہیں ہے۔ وہ صبر کرتے ہیں اور اعتراف کرتے ہیں کہ آنے والا وقت ہی ایسی حالت میں ان کے معشوق کو ان کا ہمنوا بنائے گا۔ اعتدال پسندی دیکھیں :
طرز بیدلؔ میں ریختہ کہنا
اسداللہ خاں قیامت ہے
ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالب دشمن آسماں اپنا
قسمت بری سہی پہ طبیعت نہیں بری
ہے شکر کی جگہ کہ شکایت نہیں مجھے
سفینہ جب کہ کنارے پہ آلگا غالبؔ
خدا سے کیا ستم و جورِ ناخدا کہئے
غالبؔ اپنے ارمانوں کے جلتے ہوئے طوفان کو تھنڈا بھی کرتے رہے ہیں۔ یہ بھی ایک حق پرستی ہے جو انہیں خیر کی طرف لے جاتی ہے۔ ان کے ایک ہونہار شاگرد الطاف حسین حالیؔ نے ’’یادگار غالبؔ‘‘ لکھا۔ یہ کتاب غالب کے حالات جاننے کے لیے بہت اہم ہے۔
مولانا حالیؔ اپنے استاد سے کافی قریب رہے۔ وہ حق پرستی کے عنوان سے لکھتے ہیں:
’’مرزا کے کلام پر اگر کوئی ٹھیک (درست) اعتراض کرتا تھا یا کوئی عمدہ تصرف ان کے شعر میں کرتا تھا۔ اس کو فوراً تسلیم کرلیتے تھے اور شعر کو بدل ڈالتے تھے۔‘‘
اس کے بعد حالی نے کئی واقعات بیان کئے ہیں۔ جن سے غالب کی حق گوئی اور راست گوئی کا پتہ چلتا ہے۔
ایک جگہ عید قرباں کی جگہ عیدالاضحی لکھنا چاہئے۔ اعیانِ ثابتہ کے لیے ’’نمود‘‘ کا لفظ نامناسب ہے اس لیے غالب نے مولانا فضل حق کے مشورے پر اُسے ’’ثبوت کردیا۔ اس ضمن میں مولانا حالیؔ نے چند جملے بطور سند لکھے ہیں وہ بھی دیکھتے چلیں
’’…ان باتوں کے بیان کرنے سے مرزا کی لغزشیں خلقت کو دکھانا مقصود نہیں۔ بلکہ انصاف اور حق پسندی کی شریف خصلت اور وہ ملکہ جس کے بغیر انسان بھی ترقی نہیں کرسکتا:
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
مومنؔ کے اس شعر کو سننے کے بعد غالبؔ نے اس شعر کے بدلے اپنا پورا دیوان دینے کی بات کی تھی۔ یہ ان کی حق گوئی ہے ورنہ غالب کے ہمعصروں میں غالب کے شعر سے کون واقف نہیں تھا۔ کیا غالب کے پاس اس سے اچھا شعر نہیں تھا۔ بہت سارے اشعار کہے۔ غالب کی پوری شاعری ہی مومنؔ کے مقابلے میں بہتر سمجھی جاتی ہے۔ ان کی ایسی کیفیت ذوقؔ، داغؔ اور مختلف شعراء کے اشعار کو سنتے ہی ہوجاتی تھی۔ حالانکہ ان میں سے کئی ایک کے ساتھ معاصرانہ چشمک بھی تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.