Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

غزل اور جدید اردو غزل

وزیر آغا

غزل اور جدید اردو غزل

وزیر آغا

MORE BYوزیر آغا

    آج سے کم وبیش ۳۳ برس قبل جب میں نے ’’اردو شاعری کا مزاج‘‘ لکھی تواس میں ایک پورا باب غزل کے مزاج کو دریافت کرنے کے لیے مختص کیا۔ ’’گیت، غزل اور نظم‘‘ کی مثلث میں مجھے غزل کا ایک ایسا مقام دکھائی دیا جو گیت کی بت پرستی اور نظم کی بت شکنی کے عین درمیان کہیں موجود تھا۔ ایک ایسا مقام جہاں وابستگی اور انحراف کے میلانات بیک وقت کارفرما تھے۔ میرے الفاظ یہ تھے،

    ’’غزل بت پرستی کی ایک صورت بھی ہے اور بت شکنی کا ایک عمل بھی۔ اس میں جزو کی بے قراری بھی ہے اورکل کا تھپک کر سلا دینے والا ہاتھ بھی۔ غزل میں ان دونوں پہلوؤں کا وجود ضروری ہے۔ جہاں ایسا نہیں ہوتا اور وہ کسی ایک پلڑے کی طرف واضح طورپر جھک جاتی ہے تواس سے غزل کا مزاج بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ اردو غزل کے تدریجی ارتقا میں ایسے ادوار بھی آئے ہیں جن میں غزل توازن کی اس صفت کو برقرار نہیں رکھ سکی اوراسی لیے خاص بت پرستی یا خالص تخیل پسندی کی رو میں بہہ گئی ہے۔ تاہم بحیثیت مجموعی اس نے اپنی بنیادی صفت سے انحراف نہیں کیا۔‘‘

    غزل کی اس بنیادی صفت کو اجاگر کرنے کے لیے میں نے ’’اردوشاعری کا مزاج‘‘ میں غزل کے تینوں اہم موضوعات یعنی آزادہ روی کا رجحان، تصوف اور عشق کا ذکر کیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ان تینوں موضوعات میں غزل کے خاص مزاج ہی نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ مثلاً آزادہ روی کے تحت غزل میں زاہد، محتسب یا ملّا کوطنز کا نشانہ بنانے اور قواعد وضوابط کوزنجیریں اورسلاسل قرار دینے کی روش وجود میں آئی ہے۔ یہ نہیں کہ غزل قواعد وضوابط کومسترد کرتی ہے بلکہ وہ اس صورت حال سے انحراف کرتی ہے جس میں قواعد وضوابط لچک سے ناآشنا ہوکر محض رسمی یا آرائشی روپ دھار لیتے ہیں۔ ایسے دور میں سوسائٹی گہری کھائیوں میں چل رہی ہوتی ہے۔ رہنے سہنے کے آداب، میل جول کے مظاہر، سوچنے سمجھنے کے زاویے، اظہار وبیان کے وظائف، ان سب پر ظواہر پرستی کی چھاپ لگ جاتی ہے۔

    دوسرے لفظوں میں اجتہادی عمل پر کلیشے کی گرفت سخت ہوجاتی ہے یعنی سوسائٹی کے ضوابط کا اسٹرکچر توقائم رہتا ہے لیکن اس اسٹرکچر کا انفرااسٹرکچر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔ غزل اس صورت حال پر گرفت کرتی ہے اوریہی اس کی آزادہ روی کی اہم ترین صورت ہے۔ موجودہ دور میں اس نے سیاسی صورت حال میں ظاہر ہونے والی منافقت کو بے نقاب کرنے کی جو کوشش کی ہے، وہ بھی غزل کے اس مخصوص رجحان ہی کا اعلامیہ ہے۔ گویا غزل نے سوسائٹی کے تصنع، منافقت اور فردکو اپنا تابع مہمل بنانے کی روش کو ہمیشہ مسترد کیا ہے۔

    غزل کا دوسرا موضوع تصوف ہے۔ تصوف ’’حقیقت‘‘ کے جزو اور کل میں تقسیم ہونے کے موضوع پر غور وخوض کرتا ہے۔ بقول نکلسن تصوف کی ساری تاریخ اس احتجاج کو پیش کرتی ہے جو خدا اور بندے کے فراق پر معرض وجود میں آیا تھا۔ خدا کی صفت اس کی یکتائی ہے اور بندے کی امتیازی صفت اس کی جزویت۔ تصوف یا توبندے کو یہ راہ دکھاتا ہے کہ وہ اپنا آئینہ دل صاف کرے تاکہ اس میں خدا کا نور منعکس ہونے لگے یا بندے کو خدا میں جذب ہونے پر مائل کرتا ہے۔ غزل بھی جز و کل کے رشتے ہی کو بہ انداز دیگر پیش کرتی ہے۔ اس میں کل (ماں یا سوسائٹی) سے منسلک رہنے کا میلان بھی ابھرتا ہے اور جزو (فرد) کے اثبات ذات کا رویہ بھی مگرنہ اس قدر کہ وہ انقطاع پر منتج ہو۔

    یہ بات غزل کی ہیئت میں بھی ملاحظہ کی جاسکتی ہے کہ غزل کا ہر شعر پوری غزل سے ہٹ کر اپنے وجودکا اعلان کرتا ہے۔ چنانچہ ضروری نہیں کہ غزل کے کسی ایک شعر میں پیش کیا گیا خیال، غزل کے باقی اشعار میں پیش ہونے والے خیالات سے منطقی یا موضوعی اعتبار سے منسلک بھی ہو۔ موڈ کی بات اورہے۔ جدید غزل موڈ کو اہمیت دے رہی ہے اوراسے ایک ایسا Matrixقرار دیتی ہے جس کے اندر اس کے تمام اشعار متحرک ہوتے ہیں۔ مگر کلاسیکی غزل میں یہ بات نہیں تھی۔ چنانچہ کلاسیکی غزل میں ایک آدھ شعر ملایا زاہد پر طنز کرنے کے لیے مختص ہوتا۔ ایک آدھ میں معاملہ بندی کا مظاہرہ ہوتا۔ اسی طرح کسی شعر میں تصوف کی کوئی رمز یا زبان کا کوئی جلوہ دکھانے کی کوشش کی جاتی مگرجدید غزل نے موڈ کو قائم رکھنے کو اچھی غزل کا امتیازی وصف قرار دیا ہے۔ اس کے باوجود غزل کی بنیادی صفت کہ اس کا ہر شعر غزل سے عارضی طورپر الگ ہوکر بات کرتا ہے، جدید غزل میں بھی قائم ہے۔

    غزل کی ہیئت بھی جزو اورکل یعنی پوری غزل اور ’’غزل کے ایک شعر‘‘ کے اس رشتے ہی کو پیش کرتی ہے جو غزل کے مزاج کا حصہ ہے۔ مثلاً یہ کہ غزل کے تمام اشعار ردیف اور قافیہ (اور جدید غزل کے حوالے سے ایک ہی موڈ) کے تابع ہوتے ہیں مگراس کے باوصف غزل کا ہر شعر اپنی انفرادیت کا اعلان بھی کرتا ہے مگر یہ اعلان عارضی اورہنگامی ہوتا ہے کیونکہ وہ ساتھ ہی ردیف قافیہ کی زنجیر تھام کر دوبارہ غزل کے کل سے ہم رشتہ بھی ہوجاتا ہے۔ ’’اردو شاعری کا مزاج‘‘ میں اس بات کو ماں اور بچے کے رشتہ کی صورت میں پیش کرتے ہوئے یہ کہا گیا تھا کہ غزل کا ہر شعر بچے کی طرح ماں کی انگلی تھامے ہوتا ہے کہ اچانک وہ ماں سے ہاتھ چھڑاکر کسی نئی شے کو دیکھنے کے لیے لپکتا ہے مگرپھر بھرے میلے میں گم ہوجانے کے ڈر سے دوڑ کر دوبارہ ماں کی انگلی (قافیہ، ردیف) کو تھام لیتا ہے۔

    غزل کا تیسرا موضوع ’’عشق‘‘ ہے، جو ’’محبت‘‘ سے قدرے مختلف شے ہے۔ محبت ایک نسبتاً محدود عمل ہے جس میں ایک فرد ایک خاص ہستی سے پیار کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں عشق ایک وسیع تر کیفیت ہے، جس میں معشوق شخصی حیثیت کے بجائے عمومی حیثیت سے ابھرتا ہے۔ چنانچہ خودعشق ارضی صفات کے بجائے عمومی صفات کا حامل قرار پاتا ہے۔ معشوق کے بیان میں بھی غزل نے کسی خاص گوشت پوست کی ہستی کا ذکر نہیں کیا بلکہ معشوق کے لفظ کوایک علامت کے طورپر استعمال کیا ہے۔ چنانچہ غزل میں سراپا نگاری کی روایت بھی بعض ایسی صفات کے بیان پر مشتمل نظرآتی ہے جو غزل کے معشوقوں کا مشترکہ سرمایہ ہیں۔ یعنی ہرغزل گوشاعر کا محبوب بعض مشترک ارضی صفات ہی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ غزل کے محبوب میں شخصی خصوصیات کے بجائے عمومی صفات کی نمود غزل کے بنیادی رجحان کا ایک منطقی نتیجہ ہے، وہ یوں کہ غزل اپنی داخلیت کے باوصف ایک ایسا آئینہ ہے جس میں زندگی کا مجموعی نقش منعکس ہوتا ہے یعنی غزل گوشاعر تفصیل پسندی کے بجائے اجمالی نظر کا قائل ہوتا ہے۔

    نتیجہ یہ کہ غزل کے شعر میں بڑی سے بڑی حقیقت اور طویل سے طویل کہانی بھی محض ایک استعارے میں بیان ہوجاتی ہے اور شاعر کم سے کم الفاظ میں اپنے مافی الضمیر کو دوسروں تک پہنچانے کی سعی کرتا ہے۔ وہ صداقت کی تلاش میں حقیقت کو ٹکڑوں میں تقسیم نہیں کرتا بلکہ ایک مجموعی تاثر کو ترتیب دیتا ہے۔ گویا غزل کے زیراثر زندگی کے مظاہر ثابت حقیقتوں کی صورت میں دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غزل کا محبوب کسی ایسے کردار کی صورت میں ظاہر نہیں ہوا جس کی بعض شخصی خصوصیات اسے دوسرے کرداروں سے ممیز کرسکیں بلکہ اس نے ایک روایتی پیکر یا نمونے کی صورت اختیار کی ہے اوراس میں ہمیشہ نہ صرف زمانے کے مقبول عام محبوب کے خصائص یکجا ہوئے ہیں بلکہ زمانے کے عالمگیر رجحانات بھی سمٹ آئے ہیں۔

    اس سے مراد یہ ہرگز نہیں کہ غزل کا ’’عشق‘‘ محبت کی ارضی اساس سے لاتعلق ہوتا ہے اصلاً عشق کا مجازی ہونا بہت ضروری ہے ورنہ وہ تجربے سے محروم ہوجائے گا اور شاعری اگرتجربے کے رس سے محروم ہوجائے تو وہ فلسفہ توبن سکتی ہے مگر شاعری نہیں رہتی۔ غزل کے عشق کا بھی یہی حال ہے کہ یہ زخم لگنے ہی سے پھوٹتا ہے مگرپھر دائرہ در دائرہ پھیلنے لگتا ہے اور محبت کے حسی اجزاء کو تجرید کے پھیلاؤ سے ہم آہنگ کردیتا ہے آخر آحر میں توعشق محبوب تک پہنچنے کا ذریعہ بھی نہیں رہتا بلکہ مقصود بالذات بن جاتا ہے۔ تاہم اسے کھولیں تواس کے مرکزہ میں محبت لہو کی ایک گرم بوند کی طرح صاف نظرآجائے گی۔ یہی غزل کی خاص بات بھی ہے کہ وہ گیت کے ’’عاشق‘‘ کے تتبع میں شاعر کوایک جان ہاری پجاری نہیں بنا دیتی بلکہ اسے جذب کی بوجھل کیفیات سے اوپر اٹھنے پر مائل کرتی ہے۔ یہ جبھی ممکن ہے کہ محبوب محض ایک گوشت پوست کا پیکر نہ رہے بلکہ صفات اور کیفیات کا آمیزہ بن جائے۔ غزل کا عشق تجسیم اور تجرید کے نقطہ اتصال پر جنم لیتا ہے اور یوں اس میں بت پرستی کی زیریں لہر کے ساتھ ساتھ بت شکنی کی بالائی لہر بھی صاف دکھائی دیتی ہے۔

    ’’اردو شاعری کا مزاج‘‘ کے کم وبیش ۲۷ برس بعدجب میں نے امیش جوشی کی اس مشہور انگریزی کتاب کا ’’پیش لفظ‘‘ لکھا جس میں غالب کے غزلیہ اشعار کو انگریزی میں ڈھالا گیا ہے ہے تو میں نے انگریزی دان طبقے کے لئے غزل کے مزاج کو واضح کرنے کی بطور خاص کوشش کی۔ اس ’’پیش لفظ‘‘ سے یہ دواقتباسات پیش کرنا ضروری ہیں تاکہ غزل کے بارےمیں جو کچھ میں نے تین دہائیوں میں سوچا ہے اس کی تلخیص سامنے آسکے،

    A verse of Ghazal is not a labyrinth of form. Rather it is a simple structure of just two lines actually, however, each verse has to be enjoyed with reference to the

    Ghazal to which it belongs. This relatedness is not due to any commonality of thought Pattern nor, for that matter, the result of a mutually held philosophic or ideological stance running, through the warp and woof of that Ghazal. It is a blood —relationship and yet each verse, like an infant is intrinsically an entity quite different from the mother Ghazal to exist it must feed on the “rhythmic flow of us mother's milk and yet, to develop into an autonomous whole it has to stand on its own legs. Hence a verse of Ghazal is fully enjoyed only when the reader, while recognizing its individual traits is at the same time aesthetically activated by the cumulative rhythm of the Ghazal to which at is attached”

    “Both Haiku and the Ghazal lave shown the same “opening” or gap known to the deconstructive critics as ‘rupture’ Earlier, Sartre also called it a rupture in the “in-itself The Haiku when transformed into an icon somehow creates a gap within its fold that has to be appropriated and filled by the uncanny reader, A Haiku is like “desire” which is essentially a void. However, it is not ‘nothingness’ it is replete with possibilities, It creates a vacuum that sucks in the reader who eventually fills it, getting aesthetic pleasure in the bargain The same is true of the Ghazal Each verse of Ghazal is like two adjacent steps of a ladder, But the two steps are so structured that one step -S higher than the other Consequently when the reader heaves himself up the kidders, he pumps over the gap or the abyss between the two steps As every verse of Ghazal is composed of two lines (steps! this leap ts more natural and remunerative That one accounts for the great difficulty in translating verse of Ghazal because the leap i so delicately pored thot at refuses 10 be rendered Mao a forum Lanwuawe Actually the leap Burns rhythmic in its import. it is rhMficult even to feel its touch unless one is able ao / frolic aesthetically alone the bond of its spoctsyn .

    ان اقتباسات کی روشنی میں غزل کی جو ساخت ابھری ہے اس کے کئی ابعاد ہیں۔ ایک یہ کہ غزل کا ہر شعر غزل کے باقی اشعار سے نہ صرف ردیف اورقافیہ کے حوالے سے ہم رشتہ ہوتا ہے بلکہ اگرپوری غزل کو دل کی دھڑکن یا تال کی ضرب کے حوالے سے دیکھا جائے تویہ خود بھی اس تسلسل میں دھڑکن یا تال کی ضرب ہی نظرآتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ غزل کے بعض اشعار اڑنے والے اشعار کا درجہ بھی حاصل کرلیتے ہیں اور غزل سے منقطع ہوکر اپنی زندگی آپ بسر کرنے لگتے ہیں حتیٰ کہ بعض اوقات اپنے خالق یعنی شاعر کے نام سے بھی دست کش ہوکر عوامی دانش کا حصہ بن جاتے ہیں مگرایک توایسا کبھی کبھار ہی ہوتا ہے دوسرے غزل کا اچھا شعر جب غزل کی نبض کے تابع ہوکر دھڑکن کا مظاہرہ کرتا ہے تواس کا لطف ہی کچھ اورہوتا ہے اسی لئے غزل کا مطلع عام طورسے بہت زوردار ہوتا ہے اس میں قافیہ کی تکرار کی وجہ سے غزل کی دوہری دھڑکن شامل ہوجاتی ہے اس نکتے کو پیش کرنے کا مقصد یہ کہتا ہے کہ غزل کا بنیادی مزاج کہ وہ کل سے منقطع ہونے کے باوجود اس سے منسلک بھی رہتی ہے غزل کے اندر ہونے والی تمام تر تبدیلیوں کے باوجود آج تک اپنی جگہ قائم ہے۔

    مندرجہ بالا اقتباسات سے ایک اورنکتہ یہ ابھرتا ہے کہ غزل کی ساخت عمودی طورپر ہی تہہ درتہہ نظرنہیں آتی بلکہ افقی طورپر بھی اس کا ہر شعر دوئی کامظاہرہ کرتا ہے مگراس طور کہ ہر شعر کے دونوں مصرعوں میں ایک وقفہ یا Gapنمودار ہوتا ہے جسے قاری عبور کرتا ہے وہ اشعار جن میں یہ وقفہ نمودار نہیں ہوتا ’’بیانیہ‘‘ کی صورت اختیار کرکے غزل کے مخصوص مزاج سے الگ ہوجاتے ہیں۔ جس طرح زینے کے دو قدموں کے درمیان ایک خلا ہوتا ہے جسے زینے پر چڑھنے والا پھلانگتا ہے۔ اسی طرح غزل کے اندر کے خلا کو بھی قاری پھلانگتا ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ پھلانگنا نچلی سطح سے اوپر والی سطح کی طرف ہوتا ہے۔ چنانچہ شعر سے لطف اندوز ہونے کے لئے ایک تخلیقی جست بھرنا لازمی قرار پاتا ہے۔ تاہم یہ بات واضح رہے کہ ایسا جبھی ممکن ہے کہ خودغزل کے شعر کے اندر بھی تخلیقی جست موجود ہو اگرشعر بیانیہ کی ذیل میں آچکا ہوگا یا اس میں موجود تخلیقی جست کمزور ہوگی تواسی اعتبار سے قاری کا تخلیقی عمل بھی متاثر ہوگا۔

    غزل کے مزاج کے پوری طرح آشنا ہونے کے لئے اس ایک بات پر غور کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ تاحال انسان اور کائنات کے باہمی رشتے نے تین صورتیں اختیار کی ہیں۔ پہلی صورت وہ ہے جس میں I THOUکارشتہ ابھرتا ہے۔ انسان محسوس کرتا ہے کہ وہ خود بھی فطرت کا ایک روپ ہے اور فطرت میں جذب ہونا ہی اس کی عزیز ترین منزل ہے یہ صورت حال شاعری کے حوالے سے گیت میں اور فکر کے اعتبار سے اس صوفیانہ مسلک میں دیکھی جاسکتی ہے جو انسان اورکائنات میں کوئی تفریق نہیں کرتا۔ قدیم قبائل میں مینا Manaکا جو تصور رائج تھا وہ اس صورت کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔ قدیم قبائل کا یہ عقیدہ تھا کہ تمام اشیاء ایک ایسی قوت کے اندر موجود ہیں جو دھند کی طرح ہر طرف پھیلی ہوئی ہے مگر یہ دھند کہیں کہیں اکٹھی بھی ہوجاتی ہے۔ مثلاً کسی درخت، دریا، پہاڑ، غار یا شیمن میں اور وہ متبرک قرار پاتا ہے۔ انسان اور کائنات کا یہ رشتہ مشابہتوں اورممااثلتوں کی اساس پر استوار ہے اور فلسفے کے حوالے سے افلاطونی اعیان کی طرف بھی ذہن کو متوجہ کرتا ہے جو کائنات کا بلیوپرنٹ ہیں۔ ویدانت اور تصوف نے بھی نظرآنے والی کائنات کو مایا یا سراب قرار دیا ہے اور اصل کی یکتائی کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا۔ گیت اس یکتائی کا اقرار یوں کرتا ہے کہ محبوب کی ذات میں فنا ہوجانے ہی کو اصل منزل گردانتا ہے۔

    انسان اورکائنات کے رشتے کی دوسری صورت I and Youکی ہے جس میں قربت کا منظرابھرتا ہے۔ اب عاشق محبوب کی ایک ذات میں فنا نہیں ہوتا بلکہ انتہائی جذب کے عالم میں بھی درمیانی فاصلہ برقراررکھتا ہے۔ گویا ’ایک‘ کے اندر سلوٹ یا لکیر توابھرتی ہے مگریہ لکیر ایک کو ’دو‘ میں تقسیم نہیں کرتی جیسے مقراض سے کاغذ کو دو حصوں میں بانٹ دیا جاتا ہے۔ اصلاً I and Thou اور I and You ایک ہی رشتہ ہے مگر لکیر یا سلوٹ کے ابھر آنے کے باعث ان دونوں کا فرق واضح ہوجاتا ہے۔ I and Thou کے رشتے میں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ Iمحض فریب نظر ہے۔ قائم ودائم ہستی صرف Thou ہے جبکہ I and You کے رشتے میں یہ بات ابھرتی ہے کہ دونوں اپنی اپنی جگہ موجود ہیں مگر ان میں وہی ماں اور بچے کا رشتہ موجود ہے جو غزل کی اساس ہے جب تک بچہ رحم مادر میں تھا تو دونوں میں رشتہ I and Thouکا تھا مگرجب بچہ ماں کے وجود سے الگ ہوا تو یہ رشتہ I and You میں تبدیل ہوگیا۔ یعنی ایک ایسے رشتے میں ڈھل گیا جو انضمام کے بجائے ہم رشتگی کا آئینہ دار تھا۔ انضمام میں فرق کی نفی ہوجاتی ہے۔ مگرہم رشتگی میں دونوں فریق ایک دوسرے سے جڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ غزل میں ہم رشتہ ہونے کی یہی صورت ابھری ہے یہاں قطرہ دجلہ میں جذب نہیں ہو رہا بلکہ جزو کل کی ہمہ جہتی اور ہمکناری کے روبرو کھڑے ہوکر اپنی ذات کا اثبات کرتا ہے۔

    انسان اور کائنات کے رشتے کی تیسری صورت I and It کے رشتے میں اجاگرکرتی ہے۔ یہ صورت جدید دور میں ابھری ہے جہاں “I”نے اپنے مقابل کوعزیز ترین منزل قرار دینے کے بجائے اسے ایک ایسی بے جان موجودگی قرار دیا ہے جس سے متصادم ہونا اورجس کو فتح کرنا انسان کا مقصد حیات ہے۔ نیچراور کلچر کے متذکرہ بالا رشتوں کے حوالے سے دیکھیں تو انسانی کلچر یا تو نیچر کا عکس بن کر نمودار ہوتا ہے یا اس کا انگ بن کر ظاہر ہوتا ہے مگر I and It کے رشتے میں انسانی کلچر اور نیچر کے درمیان Polarization یا تصادم وجود میں آجاتا ہے اب “I”ایک خودمختار خودکفیل اور مقصود بالذات ہستی ہے جو کائنات پر غالب آنا چاہتی ہے۔ انفرادیت سے عبارت ایک قطعاًالگ وجود بن کر نمودار ہونے کا یہ رویہ واضح طورپر نظم میں دکھائی دیتا ہے۔ غزل کی ہیئت میں دوپرتوں (مصرعوں) کو جوڑنے کا عمل ملتا ہے مگریہ جوڑ ڈھیلا ہے اور جابجا Gapsچھوڑ جاتا ہے۔ دوسری طرف نظم کی بنت کاری گنجان ہے لہٰذا اس کی ہیئت میں تو Gaps نہیں ابھرتے۔ البتہ اس کے وجود اور باہر کی کائنات میں جابجا Gaps نظرآتے ہیں جنہیں بھرنے کی کوشش میں شاعری لطیف ترین کیفیات کو جنم دیتی ہے۔ اصلاً نظم ایک ہی ایسی فلم کی طرح ہے جو تسلسل کے تابع ہے۔ جبکہ غزل اس فلم کی طرح ہے جو Discontinuitiesسے عبارت ہے یعنی جو مختلف Scencesکے ٹکڑوں اور قاشوں میں بٹ کر اس طورپیش ہوتی ہے کہ نامیاتی تسلسل کہیں بھی نظرنہیں آتا مگر فلم کی کتربیونت کے پیچھے کہانی کا اسٹرکچر موجود ہوتا ہے۔ غزل کے عقب میں ردیف قافیہ کا اسٹرکچر موجود ہے مگر غزل کا ہر شعر Discontinuity کا اعلامیہ بن کر نمودار ہوتا ہے۔ یہ ہر قدم پر ملنے اور بچھڑنے کا منظر دکھاتا ہے۔ دوسری طرف نظم ایک مربوط اکائی کے طورپر ابھرتی ہے۔ نظم کے Gaps اس کی ساخت اور ہیئت میں نہیں ہوتے بلکہ I and It کے درمیان ہوتے ہیں جنہیں بھرنے کی کوشش میں نظم کبھی توخارج کی تہہ میں اترجاتی ہے اورکبھی داخل کے گہراؤ میں اتر کر Palimpsect Text کی صورت میں نظرآنے لگتی ہے۔

    پچھلی نصف صدی کے دوران اردو غزل نے زمانے کی بدلتی ہوئی ترجیجات، نئے رویوں اور کروٹوں کے باوجود اپنے اصل مزاج سے روگردانی نہیں کی۔ غزل کا بنیادی وصف کہ وہ یکسر ضم ہونے کے بجائے روبرو آنے کو زیادہ پسند کرتی ہے، پچھلے پچاس برس کی غزل میں بھی بدستور دکھائی دیتا ہے۔ روبرو آنے کا مطلب یہ ہے کہ کل اور جزو کو ایک دوسرے سے جدا کرنے والی لکیر تو روشن ہوکر دونوں ایک ودسرے سے منسلک اور جڑے ہوئے بھی رہیں۔ جڑنا اوراسی حوالے سے قربت یعنی Contiguity کو اہمیت دینا غزَ کا ایک خاص پہلو ہے۔ ہر زمانے میں غزل نے اپنے دور کی اشیاء اور مظاہر سے خودکو جوڑے رکھا۔ مثلاً اٹھارہویں انیسویں صدی کی اردوغزل میں ایک طرف درباری کلچر سے امیجری اخذ ہوئی ہے تو دوسری طرف طوائف کے کوٹھے سے اسی طرح سپاہ گری کے مظاہر نے بھی غزل کی امیجری کو متاثر کیا ہے۔ اردگرد کے ارضی ماحول سے منسلک ہونے کا یہ انداز پچھلے پچاس برس کی غزل میں بھی موجود ہے۔ تاہم غزل سے مس ہوتے ہی اردگرد کے ماحول کی اشیاء، میلانات اور کروٹیں اپنی مادی سطح سے اوپر اٹھتی ہوئی بھی نظرآتی ہیں۔ پچھلے پچاس برس کے دوران اردو غزل کے کلاسیکی دور کی اشیاء اور مظاہر کی امیجری کو ترک کرکے جس نئی امیجری کو اپنا یا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اردو غزل میں منسلک ہونے یا اپنے ماحول کے قریب آنے کا میلان بدستور موجود ہے۔ بے شک ایسے شعراء بھی ہیں (اور خاصی بڑی تعداد میں موجود ہیں) جو ابھی تک قدیم انداز بیان اور اس کی قدیم تر امیجری کو (جو مے و مینا، قاتل، تلوار و سناں، تیروکماں، ساتی، دربان، رقیب، قاصد، مسیحا، شمع، پروانہ، گل وبلبل، قیس و فرہاد وغیرہ سے بھری پڑی ہے) استعمال کرنے پر راغب نظرآتے ہیں، مگر جدید غزل کے شعراء نے پرانی طرز کو ترک کرکے نئے زمانے میں نمایاں ہونے والی اشیاء اور مظاہر سے منسلک ہونے کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس ضمن میں ’’اردو شاعری کا مزاج‘‘ سے یہ اقتباس بات کی پوری طرح وضاحت کرسکتا ہے،

    ’’جدید غزل میں پیڑ، جنگل، پتھر، برف، گھر، شہر، پتے، شاخیں، دھوپ، سورج، دھواں، زمین، آندھی، کھڑکی، دیوار، منڈیر، گلی، کبوتر، دھول، رات، چاندنی اور درجنوں دوسرے الفاظ اپنے تازہ علامتی رنگوں میں ابھر آئے ہیں۔ ان لفظوں کی اہمیت اس بات میں ہے کہ یہ اپنے ماحول کے عکاس ہیں اور زمین کے باس، رنگ (اور ذائقہ) کو قاری تک پہنچاتے ہیں۔

    یہ نہیں کہ کلاسیکی دورمیں یہ چیزیں موجود نہیں تھیں یقیناً موجود تھیں مگر چونکہ اس دور میں غزل زیادہ تر ایک بندشہری معاشرہ سے آشنا ہوئی تھی جس میں طوائف سپاہی اور دربار کے اثرات قوی تھے اس لئے اس دورکی غزل نے بھی اپنی امیجری زیادہ تر ان اداروں سے اخذ کی۔ جدید دور میں صنعت، مشین، شہروں کے بڑا ہونےبین الاقوامیت اور دیگر نئے مظاہر اورمیلانات کے روبرو آنے سے جو منظرنامہ ابھرا ہے وہ پہلی صورت حال سے ایک بڑی حد تک مختلف ہے۔ چونکہ غزل میں اشیاء اور مظاہر کو مس کرنے کا میلان قوی ہے لہٰذا اس نے اس نئے منظرنامے سے بھی خودکو جوڑا ہے جس کے نتیجے میں نئی امیجری کی تخلیق ہوئی ہے۔

    پچھلی نصف صدی کے دوران اردو غزل نے یکے بعددیگرے تین کروٹیں لی ہیں پہلی کروٹ تقسیم کے لگ بھگ اس وقت نمودار ہونا شروع ہوئی جب ترقی پسند شعراء نے (جو پہلے غزل کے مخالف تھے) غزل کوقبول کرلیا۔ غالباً انہیں اس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ غزل کی رسائی عوام تک نسبتاً زیادہ ہے لہٰذا وہ اس کے ذریعے اپنے پیغام عوام تک باآسانی پہنچا سکتے ہیں۔ غزل کی اس کروٹ کا نمائندہ شاعر فیض تھا۔ فیض نے یہ کیا کہ کلاسیکی غزل کی لفظیات، امیجری اور تلمیحات کو قبول کرلیا مگر انہیں ذرا سا Twist دے کر ان کا رخ سیاسی اورمعاشرتی مسائل کی طرف موڑ دیا۔ یوں وہ کلیشے کی دست برد سے محفوظ ہوگیا۔ یہی کام فیض سے پہلے اقبال نے کیا تھا۔ اقبال نے بھی کلاسیکی غزل کی لفظیات اور امیجری کا رخ موڑ دیا تھا۔ تاہم ان دونوں میں فرق یہ تھا کہ فیض نے ایک خاص سیاسی، معاشی اور معاشرتی صورت حال کو منقلب کرنے کے لئے ایسا کیا جبکہ اقبال نے داخلی منطقوں کو وسیع کرنے اور نقاب اندر اندر حقیقت کا عرفان حاصل کرنے کے لئے غزل کے پیمانے کو استعمال کیا۔ فیض اپنے زمانے کے آدمی کی مادی اور سماجی حیثیت کوایک خاص بلیوپرنٹ کے مطابق از سرنو صورت پذیر کرنے کا آرزومند تھا جبکہ اقبال اپنے زمانے کے ’’انسان‘‘ کو ایک روحانی نشاۃ الثانیہ سے متعارف کرنے کے متمنی تھے۔ فیض کے ہاں فرد کے مقابلے میں ایک یوٹوپین سماج کو زیادہ اہمیت حاصل تھی جس کے ساتھ فرد کا وہی رشتہ تھا جو پرزے کا مشین سے ہوتا ہے جبکہ اقبال فرداور سماج کے ایک ایسے متوازن رشتے کے علمبردار تھے جو صنوبر کے بیک وقت آزاد اورپابہ گل ہونے کی صورت میں انہیں نظرآیا تھا۔ فیض مادی ہمہ اوست کا قائل تھا جبکہ اقبال بے خودی کے علی الرغم خودی کی نشوونما کے حامی تھے۔ مختصر یہ کہ فیض کے ہاں فرد کی حیثیت دب گئی تھی۔ فیض کا فرد زیادہ سے زیادہ ایک باغی تھا تاہم وہ ایک ذریعہ تھا جس کا مقصد معاشرے کے نشیب وفراز کو ہموار کرکے خودختم ہوجاتا تھا۔ اس کی اپنی کوئی دائمی حیثیت نہیں تھی۔ جبکہ اقبال کے ہاں ’’فرد‘‘ ایک ایسے نئے روپ میں ابھرا جو نہ توباغی کا روپ تھا اور نہ تابع مہمل کا! بہرکیف جہاں تک پچھلی نصف صدی کی اردوغزل کا معاملہ ہے تواس میں اولین کروٹ فیض ہی نے مہیا کی جب اس نے غزل کی مستعمل لفظیات اورامیجری کوبعض سیاسی سماجی تقاضوں سے ہم آہنگ کردیا۔ اسی حوالے سے فیض کی غزل میں رہبر، رہزن، غم دوراں، غم جاناں، دار، میخانہ، زنجیر، سلاسل، گلشن اور متعدد دوسرے الفاظ استعمال کئے گئے۔ اس ضمن میں فیض نے زیادہ اثرات غالب سے قبول کئے مگریہ اثرات زیادہ ترغالب کے لہجے اور خاص الفاظ کی تکرار کے حوالے سے تھے۔ غالب کے خیال کی جست، فرد کا محشر خیال بننا اور تناظر کا پھیلاؤ فیض کو نصیب نہ ہوا اور وہ اپنی زندگی کے واقعات کے حوالے سے عوام کے سیاسی اور سماجی شعور کی آبیاری میں ہمہ تن مصروف رہا۔ غزل میں فیض کی یہ جہت عوامی اپیل رکھتی تھی۔ اسی لئے بہت مقبول ہوئی۔ مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ فیض کے اشعار کو اس کی زندگی کے واقعات کی روشنی میں نیز عو امی آدرشوں کے حوالے سے پڑھا گیا۔ فیض کے معاصرین (بالخصوص ترقی پسند شعرا) بھی اس کے اسلوب، امیجری اور سیاسی سماجی جہات سے متاثر ہوئے (بعض نے توکھلم کھلا فیض کی تقلید بھی کی حتیٰ کہ فیض کی کتابوں کے عنوانات کو بھی معمولی سی تبدیلی کے ساتھ قبول کرلیا) دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ فیض نے اپنے زمانے کی لفظیات کے مقابلے میں کلاسیکی غزل کی لفظیات کو زیادہ استعمال کیا تاہم ایک تو (جیسا کہ میں نے اوپر کہا) اسے Twistدے کر تبدیل کردیا۔ دوسرے فیض نے اپنے زمانے کی سیاسی اور سماجی تحریکات کو براہ راست مس کیا اوریوں غزل کے اس پہلو کو قائم رکھا جو Contiguity سے عبارت ہوتا ہے۔

    پچھلے پچاس برسوں کے دوران غزل میں نمودار ہونے والی دوسری کروٹ کا محرک ناصرکاظمی تھا۔ جہاں فیض، غالب کے لہجے سے متاثر تھا وہاں ناصر کاظمی میرکا والہ وشیدا تھا۔ ناصرکاظمی نے میر کے لہجے کو اپنایا جس میں سلاست، دردمندی اور زمین سے منسلک ہونے کا میلان قوی تھا۔ غالب گلشن ناآفریدہ کا عندلیب تھا اور اس کے ہاں تخیل کی کارفرمائی توانا اور سوچ کے امکانات وسیع تھے۔ جبکہ میر کے ہاں زمین اوراس کے مظاہر سے قربت زیادہ تھی۔ ناصرکاظمی جب میرسے متاثر ہوا تواس نے میر کی تقلید میں اپنے اردگرد پھیلی ہوئی زمین اوراس کے مظاہر کو دیکھا جس کے نتیجے میں سامنے کی گری پڑی چیزیں اسے صاف دکھائی دینے لگیں۔ کلاسیکی غزل، فارسی غزل کے بطن سے پیدا ہونے کے باعث ایران کی سطح مرتفع اور اس کے صحراؤں اور باغوں کی فضا سے زیادہ متاثر تھی۔ ناصرکاظمی نے اپنا رشتہ غزل کے اس تناظر سے توڑکر جب اپنی زمین اوراس کے مظاہر سے جوڑا تواردوغزل میں ایک نئے دور کاآغاز ہوگیا۔ اس کی مثال لفظ ’سرو‘ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ مثلاً سروقد یا سرورواں وغیرہ مگرناصر کاظمی نے سرو کو بطور ایک بلند بالا درخت پیش کرتے ہوئے اس کی چوٹی پر بیٹھی ہوئی ’’فاختہ‘‘ کی چپ یا Apathyکے بارے میں سوال کیا ہے اور یوں انبوہ میں رہتے ہوئے فرد کی تنہائی کواجاگر کردیا ہے۔ سرو میں افقی پھیلاؤ کے بجائے عمودی اٹھان کی صورت موجود ہوتی ہے جو معاشرے سے کٹے ہوئے فرد کی ذہنی حالت کو پوری طرح پیش کرتی ہے۔ ناصرکاظمی نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے۔ ناصر کاظمی نے اسی طرح درختوں، اینٹوں، دیواروں، گلیوں، بارشوں اور کھیتوں سے اخذ کردہ امیجری میں فرد کی تنہائی کواجاگر کیا ہے۔ فیض کے پیش کردہ ’’طاقتور شخص اور معاشرے‘‘ کے رشتے میں عوام یعنی عام لوگوں کا اجتماع مظلوم ہے جبکہ طاقتورمحض شخص چاہے وہ سیاسی آمریت کا علمبردار ہے۔ بعض اوقات معاشی یا سماجی مفادات کے لئے ایسے لوگ یا جماعت کام کرنے لگتے ہیں چنانچہ فیض نے اس قسم کی ظالم جماعتوں کے مقابلے میں معصوم عوام کو پیش کرکے معاشرتی اور معاشی تضاد کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ مجموعی اعتبار سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ فیض کے سامنے شخص یا اشخاص کی ایک جماعت ہے جو معاشرے پر غالب آنا چاہتی ہے۔ جبکہ بقول فیض عوام کی حکمرانی ہونی چاہئے۔ دوسری طرف اقبال کے مطابق فرد اورمعاشرے میں توازن قائم ہونا ضروری ہے۔ اصلاً ناصر کاظمی، اقبال کے موقف کا حامی نظرآتا ہے کیونکہ اس نے بھی فرد اور سماج میں غالب اور مغلوب کارشتہ نہیں دیکھا بلکہ ہزار سطحوں پر فرد اور سماج کے لین دین یا Interactions کو اجاگر کیا ہے تاہم اس آویزش میں فرد کے ہاں تنہائی، اعصابی تناؤ، بے معنویت اور بحران کی جو صورت ابھری ہے وہ نئے قومی اور بین الاقوامی تناظر کے حوالے سے ہے جبکہ اقبال کے ہاں فرد اور سماج کے مثالی رشتے کی تلاش اور قیام پر زیادہ زور ہے۔ فرد کی یہ تنہائی ناصر کاظمی اور اس کے بعد آنے والی نئی نسل میں سب سے نمایاں موضوع ہے۔ اس پر کچھ اثرات تونفسیات کے مرتب ہوئے ہیں جس نے فرد کو ’اڈ‘ اور سپر ایغو کی بھاری چٹانوں کے عین درمیان پستا ہوا دیکھا اور کچھ موجودیت کے جس نے فرد کی تنہائی، بے معنویت، متلی کی کیفیت اور بحران کو نمایاں کیا نیز بطور for-itself اسے in-itself کے روبرو آنے اور یوں ایک ایسے لمحے سے آشنا ہونے کا موقعہ عطا کیا جو اصلاً آزادی کا وہ لمحہ تھا جو انتہائی بحران کی حالت ہی میں نمودار ہوتا ہے۔

    ناصرکاظمی سے نئی غزل کا باقاعدہ آغاز ہوا گو ناصرکاظمی سے پہلے ہی یہاں وہاں غزل گو شعرا کے ہاں نئے زمانے کے شواہد نظر آنے لگے تھے۔ بہرحال ناصر کاظمی کی اٹھان کے کچھ ہی عرصہ بعد غزل کا یہ نیا رجحان تین ایسے غزل گوشعراء کے ہاں دکھائی دیا جن میں سے ایک کو وقت نے زیادہ دیر تک مطلع ادب پر رہنے کی اجازت نہ دی۔ دوسرا جو جلد ہی اپنا رخ بدل کر شعوری تجربات کی طرف راغب ہوگیا اور تیسرا جس نے غزل کے جدید اسلوب میں اپنے باطن کو بے نقاب کرنے کی روش اختیار کئے رکھی۔ پہلا شاعر شکیب جلالی تھا جس نے ایک ایسے حساس فرد کی کہانی لکھی جو سوسائٹی کے بوجھ تلے پس کر آخرکار خودکو فنا کردینے کے درپے ہوتا ہے اور فرد کی تنہائی اور بے معنویت کوسوسائٹی کے آگے سینہ سپر ہونے کے ایک کربناک لمحے میں اجاگر کرتا ہے۔ یہی کچھ شکیب جلالی نے کیا۔ دوسری طرف ظفراقبال نے بھی فرد کی بے معنویت کواجاگر کیا۔ جب اس نے فردکو ایک ایسے شخص کی صورت میں دیکھا جس نے کاغذ کا لباس زیب تن کر رکھا تھا جسے شہر سے نکلتے ہی بارش نے آلیا تھا۔ فرد اورمعاشرے کی آویزش میں یہ وہ کربناک لمحہ تھا جب فرد کا سارا مدافعتی نظام ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے اور وہ بھرے میلے میں مادرزاد برہنہ ہوجاتا ہے۔ تیسرا شاعر شہزاداحمد تھا جس نے فرد اورمعاشرے کی جنگ میں فرد پر بیتنے والے کربناک لمحات کو نئے نئے زاویوں سے دیکھا اور تادیر دیکھتا چلا گیا۔ شہزاداحمد کا اصل موضوع بھی فرد کی آزادی تھا۔ آزادی صرف سیاسی یا سماجی مشین کے ہاتھوں ہی سلب نہیں ہوتی، ذہنی اور نفسیاتی سطحوں پر ہونے والی سردجنگ سے بھی لرزہ براندام ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں کائنات کے حوالے سے فرد کے ہاں بے وقعت ہونے کا جو احساس ابھرا ہے وہ بھی اس کے اشرف المخلوقات ہونے کے عقیدے پر کاری ضرب لگاتا ہے۔ متذکرہ بالا دونوں شاعروں کے مقابلے میں شہزاداحمد کا داخلی منطقہ زیادہ کشادہ تھا اور طبیعات میں دلچسپی لینے کے باعث اس کے ہاں فرد اور سوسائٹی کا رشتہ ’’فرد اور کائنات‘‘ کے رشتے کی صورت اختیار کرگیا تھا لہٰذا اس کی غزل میں فرد کے ہاں تنہائی اور بے معنویت اور حصول آزادی کی جو روش وجود میں آئی وہ نوعیت کے اعتبار سے مختلف تھی۔

    ناصر کاظمی کی جلائی ہوئی شمع اوراس کے بعد تین اہم غزل گوشعرا کی آمد سے نئی غزل کا جو انداز اور رنگ نمایاں ہوا وہ وقت کے ساتھ روشن تر ہوتا چلا گیا ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ جدید غزل لکھنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوچکی ہے کہ ایک ہی مضمون میں ان سب کا ذکر بے حد مشکل نظرآتا ہے۔ ان میں منیر نیازی، ناصر شہزاد، کرشن ادیب، باقی صدیقی، ریاض مجید، افتخارنسیم، شہریار، انورشعور، بانی، محمدعلوی، آزاد گلانی، مظفرحنفی، ہیرانندسوز، صبااکرم، اکبرحمیدی، شاہد شیدائی، عباس رضوی، اقبال ساجد، حیدرقریشی، اسلم کولری، احمدمشتاق، نصیراحمد ناصر، افتخار عارف، جلیل عالی، انورسدید، حامدی کاشمیری، نسیم سحر، حسنین مجروح، منیرسیفی، غلام جیلانی اصغر، خورشیدرضوی، رفیق سندیلوی، اظہار شاہین، مبین مرزا، اظہرنفیس اور اخترہوشیار پوری کے نام فوری طورپر ذہن میں آتے ہیں مگران کے علاوہ بھی ایک خاصی بڑی تعداد ایسے شعراء کی ہے جو معیار کی بلندی اور موضوعات کے تنوع کے حوالے سے کسی طورپر بھی ان سے کم مرتبہ نہیں ہیں۔ علاوہ ازیں ایک بڑی تعداد بالکل نئے لکھنے والوں کی بھی ہے جو نئی غزل کے مزاج سے آشنا ہیں اور نسل متمنع کی سطح پر آج کے اس ’فرد‘ کے داخلی کرب کو بیان کر رہے ہیں جس کے سامنے اکیسویں صدی ایک بہت بڑے in-itself کی صورت ابھر آئی ہے اور اب اسے اپنے نیٹ میں پھانس لینے کے درپے ہے۔ گویا جدید ترین غزل میں بھی ’’آزادی‘‘ کا وہی مسئلہ موجود ہے جو اول اول ناصر کاظمی کی غزل میں ابھرا تھا مگر صورت حال کے بدل جانے کے باعث یہ مسئلہ اب بہت زیادہ گمبھیر ہونے لگا ہے۔

    ناصر کاظمی سے لے کر آج کے نئے نئے لکھنے والوں تک جدید غزل کا جو پیکرنمایاں ہوا ہے اس کی پہلی خصوصیت فرد کی تنہائی اور بے معنویت ہے دوسری خصوصیت ’لمحہ آزادی‘ کے روبرو آتا ہے مگر یہ آزادی محض سیاسی یا معاشی نوعیت کی نہیں۔ اس آزادی کے نفسیاتی، موجودی اور آفاقی پہےلو بھی ہیں جن کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ تیسری خصوصیت یہ ہے کہ نئی غزل کو ایک ’نئے پیکر‘ کے وجود میں آنے کا احساس بھی ہونے لگا ہے۔ نفسیات کی زبان میں اس نئے پیکر کو شاید Wise Old Man کا نام ہے مگر میں اسے ’’دوسری ہستی‘‘ کہتا ہوں۔ جدید اردو غزل کے یہ چند اشعار ملاحظہ ہوں جو اس ’’دوسری ہستی‘‘ کی موجودگی کا اعلامیہ ہیں،

    ذہن کے تاریک گوشے سے اٹھی تھی اک صدا

    میں نے پوچھا کون ہے اس نے کہا کوئی نہیں

    میرے اندر بیٹھا کوئی میری ہنسی اڑائے

    ایک پلک کو اندر جاکر باہر بھاگا آؤں

    یوں رات کو ہوتا ہے گماں دل کی صدا پر

    جیسے کوئی دیوار سے سر پھوڑ رہا ہے

    یونہی بے آباد لگتا ہے یہ بوسیدہ مکاں

    ورنہ کس نے جھانک کر دیکھا ہے اندر کی طرف

    گھر سے چلا تو چاند مرے ساتھ ہو لیا

    پھر صبح تک وہ میرے برابر چلا گیا

    مجھے پہچان لو اس خاک و خوں میں

    میں صدیوں بعد پھر ظاہر ہوا ہوں

    شہر میں ہے کون واقف میرے خد وخال سے

    کس نے دیکھا میرا چہرہ میری مٹھی کھول کر

    ترچھے سورج کی شعاعیں دے گئیں اک ہم سفر

    میرا سایہ ہی میرے قد کے برابر ہوگیا

    سائے کی طرح ساتھ چلے گی کوئی صدا

    سنسان جنگلوں میں اکیلے بھی جاکے دیکھ

    مجھ میں جو رہتا ہے اپنی فکر کرے وہ

    میرا کیا ہے میں تو اک دن مر جاؤں گا

    کنار آب کھڑا خود سے کہہ رہا ہے کوئی

    گماں گزرتا ہے یہ شخص دوسرا ہے کوئی

    دل کے ملبے میں دبا جاتا ہوں

    زلزلے کیا میرے اندر آئے

    وہ تو سمندروں کی طرح شانت ہوگیا

    گہرائی کا اب اس کی ہمیں کیا پتہ چلے

    مجھ کو اک قطرہ بے فیض سمجھ کر نہ گزر

    پھیل جاؤں گا کسی روز سمندر کی طرح

    آنگن آنگن سناٹا ہے گلی گلی سنسان

    کس آسیب کے سائے سے ہے ہر بستی ویران

    سہج سہج انگنائی میں

    ننگے پیر ٹہلتی دھوپ

    بدن دریدہ میں جب جنگ جیت کر لوٹا

    تو مجھ کو دیکھ کے دربند کر لیا اس نے

    صاف لگتا ہے کہ نئی غزل کا شاعر کسی ایسی دوسری ہستی (The Other) کا ذکر کر رہا ہے جو ابھی پوری طرح ابھرکر تواس کے سامنے نہیں آئی لیکن جس نے ایک آسیب کی طرح اس کے ’’گھر‘‘ پر قبضہ ضرور کرلیا ہے اور اب کبھی تو اس کے وجود کے اندر زلزلے لاتی ہے، کبھی اس کے سینے کی دیوار سے اپنا سر پھوڑتی ہے، کبھی سائے کی طرح سنسان جنگلوں میں اس کا پیچھا کرتی ہے کبھی چاند کی طرح صبح تک اس کے برابر چلتی ہے۔ کبھی آب رواں کے آئینے میں اسے دکھائی دیتی ہے اورکبھی برملا کہہ اٹھتی ہے کہ مجھے پہچانو، میں صدیوں تک چھپی رہی لیکن اب ظاہر ہوگئی ہوں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نئی غزل میں یہ جو ’’دوسری ہستی‘‘ ظاہر ہوئی ہے یا کم سے کم جس کے مخفی ہاتھ کا دباؤ شاعر نے اپنے شانے پر محسوس کیا ہے، کون ہے؟ اس کی بے قراری اورکسمساہٹ کی نوعیت کیا ہے؟ نیز اس کی آواز میں وہ کون سا کرب ہے جس نے شاعر کی ذات کو محض دونیم نہیں بلکہ ریزہ ریزہ کردیا ہے۔ جس طرح Three Faces of Eve میں جب ایک شخصیت کے اندر سے دوسری شخصیت برآمد ہوتی تھی تو پہلی شخصیت از خود بجھ جاتی تھی بالکل اسی طرح نئی غزل میں اس دوسری شخصیت نے اپنے وجودکا اعلان کرکے پہلی شخصیت میں دراڑیں سی پیدا کردی ہیں اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوکر زمین پر گرنے لگی ہے۔ ٹوٹ پھوٹ کے اس منظر کو کسی بھی نئی غزل میں دیکھا اور دکھایا جاتا ہے۔ یوں کہنا بھی غلط نہیں کہ پہلی شخصیت شاعر کی ذات کا وہ اجتماعی رخ ہے جو صدیوں کے مدوجزر کے بعدایک اکائی کی صورت میں مرتب ہوا تھا اور جو اب نئے زمانے کی بے پناہ کلبلاہٹ کی زد پر آکر جگہ جگہ سے تڑخنے لگا ہے چونکہ شاعر ایک نہایت حساس ہستی ہے اس لئے اس نے دوسروں سے کہیں پہلے اس شکست وریخت کا نظارہ کرلیا ہے۔ معاً اسے محسوس ہوا ہے کہ وہ تواپنی ذات کا اصل رخ ہی نہیں رہا بلکہ محض ایک نقاب (Mask) کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ شخصیت کے بجائے نقاب بن جانے کے اس کربناک احساس نے آج کے نئے غزل گوشاعر کے وجود کو توڑپھوڑ کر رکھ دیا ہے اور وہ بے پتوار کشتی کے مانندبری طرح ڈولنے لگا ہے مگراصل بات شاید یہ نہیں کہ خول یا نقاب ٹوٹ یا پھٹ رہا ہے بلکہ یہ اندرکی ہستی باہر آنے کے لئے بے تاب ہوگئی ہے اوراپنے زور میں باہر کے نقاب کو تار تار کر رہی ہے۔ ایک مثال سے اس کی وضاحت کچھ یوں ہوگی کہ درخت کی بیرونی چھال جگہ جگہ سے تڑخ سی گئی ہے کیونکہ بہار کا پیغام پاتے ہی اس کے اندر سے ایک نئی اور تازہ چھال ابھرنے لگی ہے جو اپنے زور نمو میں پرانی چھال کو ٹکڑے ٹکڑے کر رہی ہے۔

    آج کے نئے شاعر نے تخلیق کے اسی نازک مقام پر کھڑے ہوکر غزل کہی ہے ایک طرف تو وہ چھال (اجتماعی رخ یا معاشرہ) کے ٹوٹنے کا منظر دکھاتا ہے اوراس کے لئے دھوپ، صحرا، زلزلہ، سوکھی دھرتی، پت جھڑ، راکھ کا ڈھیر، کھڑکتے پتے، ترچھا سورج اور لاتعداد دوسرے مظاہر کو علامت کے طورپر استعمال کرتا ہے اور دوسری طرف وہ بار بار اپنے اندر کی کسمساہٹ اور بے قراری کا ذکر کرتا ہے او رآسیب زدہ مکان یا اندھے کنویں میں جھانک کر اورجنگل یا صحرا کی جانب مراجعت کرکے اپنی تلاش کرنے لگتا ہے۔ تیسری طرف وہ اس ’نئی ہستی‘ کے ظہور کا احساس دلاتا ہے جو اندھے کنویں، جنگل یا آسیب زدہ مکان سے رہائی پانے کے لئے بے تاب ہے۔ واضح رہے کہ یہ ’نئی ہستی‘ شاعری کی ذات کے اجتماعی رخ کے پیچھے سے ابھر کر باہر کو لپک رہی ہے اوراس کی یہ لپک غزل کی اس بنیادی جہت سے پوری طرح ہم آہنگ ہے جس کا رخ ہمیشہ اندر سے باہر کی طرف رہا ہے۔

    یوں دیکھئے تو نئی غزل کا شاعر ایک بے پناہ تخلیقی کرب کی زد پر دکھائی دیتا ہے اس کے وجود کے اندر کلبلاہٹ اورکہرام سا مچا ہے، وہ خودٹوٹ پھوٹ رہا ہے اوراس کے اندر سے ایک نیا پیکر (دوسری ہستی) برآمد ہونے کے لئے بے تاب ہے۔ ابھی ابھی میں نے غزل کی اس ’’دوسری ہستی‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ مزید یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے یہ ہستی قوت اور تازگی کا مظہر دکھائی دی ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اکثر وبیشتر مجھے شاعر کے اجتماعی رخ کی وساطت ہی سے اس ’’دوسری ہستی‘‘ کی کلبلاہٹ اور بے قراری کا احساس ہوا ہے تاہم کبھی کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ یہ ہستی اپنے میڈیم کو عبور کرکے اپنی آواز میں بھی باتیں کرنے لگی ہے اس آواز میں جواعتماد، قوت اور تازگی ہے اس کے ثبوت میں نئی غزل کے وہ اشعار پیش کئے جاسکتے ہیں جن میں شعراء نے تعلی سے کام لیا ہے مگر یہ تعلی رسمی اور روایتی نہیں بلکہ انوکھی اور فطری ہے۔ اس قسم کی باتیں کہ،

    پھیل جاؤں گا کسی روز سمندر کی طرح

    خود اپنی دید سے اندھی ہیں آنکھیں

    خود اپنی گونج سے بہرا ہوا ہوں

    وہ تو سمندروں کی طرح شانت ہوگیا

    وغیرہ۔ اس ہستی کی نورانی صورت اوراس کی پراعتماد آواز کی پوری طرح مظہر ہیں۔ نئی ہستی کے جنم کے حوالے سے دیکھیں تو شاید یہ پہلا موقع ہے کہ اردو غزل اتنے بڑے پیمانے پر تخلیقی کرب سے آشنا ہوئی ہے۔ بیسویں صدی کے فرد کی حساس طبیعت اور پلک جھپکنے میں بات کی تہہ تک پہنچ جانے کی صلاحیت نے اس کے ہاں زمانے کی مخفی کروٹوں کا نباض بننے کی جو روش پیدا کی تھی اصناف ادب میں اس کا بہت عمدہ اظہار نئی غزل میں ہورہا ہے۔ یوں بھی غزل وہ واحد صنف سخن ہے جو مزاجاً معاشرے کی کروٹوں کی گرفت میں لینے کا سب سے زیادہ اہتمام کرتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اسے بیسویں صدی کے فرد کی باریک بینی اور ذہنی و احساسی قوت بھی حاصل ہوگئی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ غزَ نے ’’اندر والے‘‘ کی کلبلاہٹ اور اس کے باہر کی طرف امڈ آنے کے عمل ہی کی عکاسی نہیں کی بلکہ باہر کی نقاب کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا منظر بھی دکھایا ہے اور یہ ایک ایسا کارنامہ ہے جو ادب کی دنیا میں کبھی کبھی ہی انجام پاتا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے