غزل میں محبوب کا بدلتا کردار
اصناف ادب میں سے بعض ایسے سخت جان اور لچکدار ہوتے ہیں کہ مخالفت کے باوجود کبھی شکل اور کبھی رنگ بدل کر اپنی زندگی کا یقین دلاتے رہتے ہیں۔ اردو غزل کا بھی یہی حال ہے۔ اس کا سدا بہار حسن یونانی دیو مالا کی ان پریوں کی یاد دلاتا ہے جو کبھی بوڑھی نہیں ہوتیں۔ غزل کے اشعار میں تہہ در تہہ اتنے خارجی اور داخلی بناؤ ہوتے ہیں کہ اس کو دلچسپی کی نظر سے دیکھنے والے حسن و لطافت کے انداز میں ڈھونڈھ ہی لیتے ہیں۔ اس کی دلکشی کے بہت سے پہلو، حسن زیرنقاب، کی سی کیفیت رکھتے ہیں۔ کچھ ’عریاں‘ ہوکر دلنوازی کھو دیتے ہیں۔ کچھ رمز و کنایات کے پردے میں چھپ کر دل کو کھینچتے ہیں۔
تشبیہوں اور استعاروں میں باتیں کرنے کا یہ مقصد نہیں کہ غزل کوئی طلسمی یا پراسرار صنف سخن ہے، جس کے تجزیہ کی کوشش فضول ہوگی۔ غزل بھی دوسری ادبی شکلوں میں کی طرح مخصوص سماجی اور ذہنی اثرات کے ماتحت پیدا ہوئی۔ اس نے بھی بدلتے ہوئے حالات سے آب و رنگ لے کر نیرنگیوں کا لباس پہنا، اس پر بھی سیاسی، معاشی اور معاشرتی اثرات کا سایہ پڑتا رہا اور اس میں بھی شاعروں کے تبدیل ہوتے ہوئے تجربات اور جذبات کی کشمکش رونما ہوتی رہی۔ طرز اظہار کے جس سانچے کا موضوع انسان اور اس کے جذبات ہوں گے، اس میں سماجی حالات کے مطابق تبدیلیاں ہونا ضروری ہیں۔
اظہار کے بعض طریقوں میں موضوع اور مواد کے ساتھ ہیئت اور تکنیک میں بھی واضح تبدیلیاں ہو جاتی ہیں اور معمولی نگاہ بھی ان کا اندازہ کر سکتی ہے۔ بعض میں بہت آہستہ اور مشکل سے محسوس ہونے والے انداز میں ہوتی ہے جنہیں گرفت میں لانا دشوار ہوتا ہے۔ غزل اسی دوسرے طرز اظہار سے تعلق رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ غزل میں ایک باطنی قسم کی قدامت اور فرسودگی پاتے ہیں جو لاعلاج ہے اور جس میں نئے خیالات، نئے محسوسات، نئے مادی اور ذہنی تجربات اور نئے لب ولہجہ کی سمائی ہو نہیں سکتی۔ اس میں ایک ہی رام کہانی برابر دہرائی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ خیالات تمام و کمال درست نہیں ہیں مگر غور طلب ضرور ہیں۔
اردو غزل کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اس کے موضوع، اشارات، طرز اور لب ولہجہ میں بہت سے اتار چڑھاؤ ملیں گے بلکہ کئی مقامات پر تو غزل اپنی تغزل کی روح کھوکر جارحیت کے بے جوڑ لباس پہنے نظر آتی ہے۔ یوں چاہے غزل میں بہت سے مضامین داخل ہو گئے ہوں لیکن اس کا مرکزی نقطہ عشق ومحبت ہی رہا ہے اور وہ بھی محبت کا داخلی اظہار اور محبت کی تعبیریں شعوری اور غیر شعوری طور پر اتنی مختلف شکلوں میں کی گئی ہیں کہ ہر جگہ ایک نیا رنگ اور ہر طرف ایک نئی تصویر جلوہ گر ہوتی ہے۔
رسمی شعراء کا ذکر نہیں کہ وہ تو سنی سنائی باتیں دہراتے اور دوسروں کے چبائے ہوئے نوالے چباتے ہیں۔ ان کا سرمایہ دوسروں کی محبت، دوسروں کے ہجر وصال، دوسروں کی مستی اور بیزاری، دوسروں کی سینہ چاکی اور جگر کاوی سے ترتیب پاتا ہے، اس لئے ان کے یہاں نہ تو عشق کا کوئی تصور ہوتا ہے اور نہ عاشق کا، نہ محبوب کا کوئی کردار بنتا ہے، نہ رقیب کا، نہ گل و بلبل کے پردے میں محبت کے راز بیان ہوتے ہیں، نہ شمس و قمر کے ذکر میں حسن محبوب کی کہانی کہی جاتی ہے لیکن اچھے غزل گو شعراء کے یہاں ولیؔ اور سراجؔ کے وقت سے آج تک ہر حساس شاعر کے ساتھ محبت، عاشق اور محبوب زندہ کردار بن کر آتے ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ ساقی، زاہد، محتسب، گل وبلبل، صیا د اور باغ، رند اور رقیب بھی اپنی معنویت میں تبدیلی پیدا کرتے رہے ہیں۔
ظاہر ہے کہ غزل میں کوئی کردار اپنی بھرپور شکل میں نمایاں نہیں ہو سکتا بلکہ بہت سے ٹکڑوں میں بٹ کر بہت سے پہلوؤں میں ظاہر ہوکر اس کی شخصیت مترتب ہوتی ہے۔ انفرادی تجربات اور ان کے اظہار کو چھوڑ کر عام طور سے غزل نے اپنے مخصوص ادوار میں مخصوص ذہنی فضا فراہم کی ہے۔ اس کے سماجی اسباب ہیں، جن کے تجزیہ کے بعد ہی غزل کے پردے میں بدلتے ہوئے کرداروں کو سمجھا جا سکےگا۔
غزل کا لفظ عربی ہے، اس کی روح عرب میں پیدا ہوئی لیکن جس غزل سے اردو کی رگ و پے میں خون دوڑ رہا ہے، جس کے وسیع دامن میں صدیوں کی شاعری اپنے حسن اور کمال کے ساتھ جلوہ گر ہوئی ہے، وہ عربی مغازلہ سے مختلف ہے۔ جب سامانی بادشاہوں کے عروج کے زمانے میں عربی اثرات کے ماتحت نئی ایرانی شاعری پیدا ہوئی توغزل نئی وسعت اور نیا نکھار لے کر نمودار ہوئی۔ گو بہت سے لوگ غزل کو ایک ابدی اور دائمی داخلی کیفیت کا نتیجہ سمجھ کر اس بات سے چڑھتے ہیں کہ اسے جاگیرداری یا شاہی دور کی تخلیق قرار دے دیا جائے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب اس کے عناصر کا تجزیہ کیا جائےگا تو اس کے کرداروں میں شاہی اور جاگیرداری دور کے لوازم نکلیں گے، اس کے اشاروں اور کنایوں میں اسی عہد کے تصورات چھپے ہوئے دکھائی دیں گے، اور سب سے بڑھ کر یہ اس میں محبت کا وہی تصور ملےگا جو جاگیرداری اور مہم جوئی کے دور میں پنپ سکتا تھا۔ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ غزل کا سب سے بڑا موضوع محبت اور اس کی نیرنگیاں ہیں، اس لئے جب عہدبہ عہد خود محبت کا تصور بدلتا رہا تو پھر غزل میں اس کا نمایاں ہونا حیرت کی بات کیسے ہو سکتی ہے۔
محبت ازدواجی زندگی کی مسرتوں کی تکمیل سے الگ تلاش جمال اور حسن پرستی کی حیثیت رکھتی تھی جسے پردہ کی رسم نے پیچیدہ، پراثر، غمناک اور دشوار بنا دیا تھا اور جسے اخلاق کی کڑی نظر کسی حال میں جائز نہیں قرار دیتی تھی۔ اردو شعراء کی محبت چاہے واقعی ذاتی تجربے کی حیثیت رکھتی ہو، چاہے رسمی انداز بیان کے آگے نہ جاتی ہو، اس اخلاقی دائرہ میں گھٹ کر رہ گئی ہے اور ہر منزل پر ایک المیہ بن کر سامنے آتی ہے۔ اس کی مکمل تصویر کوئی دیکھنا چاہے تو اردو کے سب سے بڑے غزل گو شاعر میرتقی میرؔ کا دیوان کہیں سے کھول لے۔
چونکہ اس عہد کا تذکرہ مقصود نہیں ہے اس لئے مثالیں دینے کی ضرورت نہیں۔ مگریہ بات تو ہم سبھی جانتے ہیں کہ یہ دور غدر کے بعد اپنا بیمار حسن کھو بیٹھا اور زندگی نئے طوفانوں سے آشنا ہوئی، نئی قدریں پیدا ہوئیں اور سماجی نظام کی جاگیردارانہ بنیاد متزلزل ہو گئی۔ عمارت گری نہیں بلکہ اس کے بعض ستون تو سو برس بعد آج بھی کھڑے ہوئے ہیں جس کے سایہ میں خیال پرست پناہ لینی چاہتے ہیں۔
اس نئے دور کے سب سے بڑے علم بردار مولانا حالی ہیں۔ انہوں نے جب اردو غزل پر نظر ڈالی تو اس میں محبت ایک عجیب شکل میں نظر آئی۔ ان کے نقطہ نظر سے وہ یا تو خیالی تھی یا بداخلاقی سکھاتی تھی یا امرد پرستی کی جانب مائل کرتی تھی۔ اس لئے انہوں نے نئے حالات کو دیکھتے ہوئے محبت کا دوسرا نظریہ پیش کیا۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ مولانا حالیؔ مصلح تھے اور اسلامی اخلاق کے علمبردار، اس لئے وہ محبت کو ایسی عمومیت دینا چاہتے ہیں جہاں اس کا وہ عاشقانہ کردار باقی نہ رہ جائے جو قدما کو عزیز تھا۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں،
’’پس جبکہ عشق ومحبت میں اس قدر احاطہ اور جامعیت ہے اور جبکہ عشق کا اعلان کم ظرفی اور معشوق کا پتہ بتانا بے غیرتی ہے تو کیا ضرور ہے کہ عشق کو محض ہوائے نفسانی اور خواہش حیوانی میں محدود کر دیا جائے اور ایسے ستر مکتوم کو فاش کرکے اپنی تنگ ظرفی اور کم حوصلگی ظاہر کی جائے۔ اسی لئے ہماری یہ رائے ہے کہ غزل میں جو عشقیہ مضامین باندھے جائیں وہ ایسے جامع الفاظ میں ادا کئے جائیں جو دوستی اور محبت کے تمام انواع واقسام اور تمام جسمانی و روحانی تعلقات پر حاوی ہوں اور جہاں تک ہو سکے کوئی لفظ ایسا نہ آنے پائے جس سے کھلم کھلا مطلوب کا مرد یا عورت ہونا پایا جائے۔‘‘
مولانا حالیؔ نے اپنی اخلاقی ذمہ داری کا خیال کرتے ہوئے یہ لکھ تو دیا لیکن غزل میں اس کا نبھانا آسان کام نہ تھا۔ خود حالیؔ کی غزلوں میں جو تبدیلی آئی، اس نے محبت کا یا تو قدیم کردار ہی اپنایا یا اس کے ذکر ہی سے ہاتھ اٹھا لیا اور جیسا کہ انہوں نے کہا تھا کہ، ’’محبت کچھ ہو اور ہوس اور شاہدبازی وکام جوئی پر موقوف نہیں ہے۔ بندے کو خدا کے ساتھ، اولاد کو ماں باپ کے ساتھ، ماں باپ کو اولاد کے ساتھ، بھائی کو بہن کے ساتھ، خاوند کو بیوی کے ساتھ، بیوی کو خاوند کے ساتھ، نوکر کو آقا کے ساتھ، رعیت کو قوم کے ساتھ، خاندان کے ساتھ غرضیکہ ہر چیز کے ساتھ لگاؤ اور دل بستگی ہو سکتی ہے۔‘‘
انہوں نے اس پر عمل کرنے کی کوشش کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عاشق اور معشوق کی اصل حقیقت باقی نہ رہی کیونکہ وہ جنسی جذبہ جو محبت کی تخلیق کرتا ہے، مکان، وطن، قوم، رعیت اور جانور کے ساتھ پیدا نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ حالیؔ اسی میں الجھ کر رہ گئے۔
غزل اپنے مزاج کے اعتبار سے اونچے مہذب طبقہ کی چیز ہے۔ اس میں عام انسان نہیں آتے۔ نظیرؔ اکبرآبادی کو دیکھئے کہ انہوں نے اپنی نظموں میں عام انسانوں کے دکھ درد، ان کی سوجھ بوجھ، ان کی معاشرت اور زندگی پیش کی لیکن غزلیں اسی معیار کی طرف جھکتی رہیں جو اس وقت رائج تھا۔ چنانچہ حالیؔ وغیرہ کے بعد عام نفس شاعری میں جو تغیرات ظاہر ہوئے وہ غزلوں میں اپنی ساری ہمہ گیری کے ساتھ نمایاں نہ ہو سکے۔ چکبستؔ کی غزلیں پڑھئے تو معلوم ہوتا ہے کہ محبوب کی جگہ قوم اور وطن نے لے لی ہے۔ اقبالؔ کی غزلوں کی داخلیت گہری اور فلسفیانہ ہے اور عاشق و معشوق سے زیادہ ’’مرد مومن‘‘ اور ’’قلندر‘‘ کے کردار اجاگر کرتی ہے۔
تصوف نے غزل میں رمزیت کی بھرمار کرکے عشق کو اسی مثالی نوعیت کا رکھا جو جنسی عشق کی تھی لیکن پاک محبت اور بوالہوسی، مجاز اور حقیقت نے کہیں کہیں عاشق و معشوق کی صورتیں ضرور بدل دیں۔ نئی غزل میں ایک آدھ کو چھوڑ کر کسی نے تصوف سے دلچسپی نہیں لی بلکہ اس کی جگہ نیا انسانی تصور آیا۔ زندگی کا ہمہ گیر درد پیدا ہوا جس میں کہیں کہیں حسن وعشق پر بھی بن گئی۔ سرمایہ داری کا دور ہندوستان میں بھی آیا اور محبت کا تصور واضح طورپر بدلا لیکن اردو کے غزل گو شعرا کی دنیا نہیں بدلی۔ جو تھوڑی بہت تبدیلی اقبالؔ، چکبستؔ وغیرہ کے یہاں ہوئی، اس کی نوعیت فلسفیانہ اور سیاسی تھی ورنہ عزیزؔ، ثاقبؔ، اصغرؔ، جگرؔ، فانیؔ وغیرہ کے یہاں بھی کوئی بنیادی تغیر جو سماجی اور معاشی اسباب کا نتیجہ ہو، نظر نہیں آتا۔
سرمایہ داری نے انفرادیت کو پروان چڑھایا اور محبت کو با زار کا سودا بنا دیا لیکن خوش قسمتی سے ہندوستان میں آزادی کی روحانی اور جذباتی جدوجہد بھی اس کے ساتھ تیز ہوتی گئی اور وہ شعرا جنہیں ہندوستان کے سماجی مسائل کا احساس تھا، جن کے غم اور خوشی میں خلوص تھا، ان کے یہاں محبت ایک رفاقت، ایک جذبہ یگانگی، ایک تکملہ حیات کی طرح آئی۔ عاشق محض ناکام و نامراد، لاغر، ضعیف، ناتواں، بے حیا، ستم کش اور مریض انسان نہ رہا بلکہ خوددار، خودپسند اور طالب محبت بن کر سامنے آیا۔ محبوب، ظالم، بے وفا، جفاکش، تغافل شعار، ستم گر، جلاد، قاتل، بدزباں اور بدخو کے روپ میں نہیں، ایک ساتھی دوست اور رفیق کی طرح پیش کیا گیا۔
محبت کا حقیقت پسندانہ تصور عاشق و معشوق کو نئی شکل میں جلوہ گر کرتا ہے۔ امرد پرستی، رقیب دشمنی کے ساتھ ہی ساتھ روایتی ظالم و مظلوم محبوب و عاشق بھی ختم ہو گئے ہیں۔ ان کی جگہ انسانی معیار سے قریب تر کردار وجود میں آ گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی اصل بہار طویل نظموں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ غزلوں میں صرف ان کی سایہ کی طرح گزرتی ہوئی پرچھائیاں دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ بدلے ہوئے حالات کا اثر غزلوں نے قبول نہ کیا ہو۔ رمز وکنایات کی معنویت ہر دور میں بدلتی ہے۔ آج کے غزل گو شعرا میں سے بعض اس سے خوب واقف ہیں۔ چنانچہ حسرتؔ موہانی، فراقؔ گورکھپوری، مجازؔ، ساحرؔ لدھیانوی، ملاؔ، مجروحؔ اور فیضؔ وغیرہ کی غزلیں ان کی بہترین مثال ہیں۔ چند شعر اپنے دعوے کی دلیل پیش کرتا ہوں۔
حسرت موہانیؔ،
حسن بے پروا کو خود بین و خود آرا کر دیا
کیا کیا میں نے کہ اظہار تمنا کر دیا
غرور حسن کی تاثیر سے ڈر ہے مجھے حسرتؔ
کہیں ایسا نہ ہو یہ عشق کو بھی خود نما کر دے
تجھ میں کچھ بات ہے ایسی جو کسی میں نہ ملی
یوں تو اوروں نے بھی دل ہم سے لگا رکھا ہے
نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں
فراقؔ گورکھپوری،
سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں
لیکن اس ترک محبت کا بھروسا بھی نہیں
ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے، ایسا بھی نہیں
غرض کہ کاٹ دیے زندگی کے دن اے دوست
وہ تیری یاد میں ہوں یا تجھے بھلانے میں
اس پرسش کرم پہ تو آنسو نکل پڑے
کیا تو وہی خلوص سراپا ہے آج بھی
رموز عذر جفا تک خیال جا نہ سکا
میں چپ رہا تو برا ماننے کی بات نہیں
لے حسن و محبت کے وہ ایام بھی آئے
کچھ کم ہے ترا لطف بھی، کچھ درد نہاں بھی
فیضؔ،
دنیا نے تیری یاد سے بے گانہ کر دیا
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے
وہ مرے ہو کے بھی مرے نہ ہوئے
ان کو اپنا بنا کے دیکھ لیا
فیضؔ تکمیل غم بھی ہو نہ سکی
عشق کو آزما کے دیکھ لیا
مجازؔ،
کمال عشق ہے دیوانہ ہو گیا ہوں میں
یہ کس کے ہاتھ سے دامن چھڑا رہا ہوں میں
بے سبب التفات کیا معنی
کچھ تو اے چشم ناز ہیں ہم لوگ
بارہا ایسا ہوا ہے یاد تک دل میں نہ تھی
بارہا مستی میں لب تک ان کا نام آ ہی گیا
ساحرؔ،
تری نگاہ مرے غم کی پاسدار سہی
مری نگاہ میں غم ہی نہیں کچھ اور بھی ہے
کیفی اعظمی،
تری امید پہ ٹھکرا رہا ہوں دنیا کو
تجھے بھی اپنے پہ کچھ اعتبار ہے کہ نہیں
غزل کی شاعری گہری ہونے کے باوجود اپنی ذہنیت کی وجہ سے جذباتی لمحوں اور عارضی کیفیتوں کی ترجمانی بن کر رہ جاتی ہے، اس لئے اس میں ہیرو پیدا نہیں ہو سکتے۔ جو خیالات اوپر کے اشعار میں اشاروں اور کنایوں میں بیان ہوئے ہیں، نظموں میں پورے پھیلاؤ کے ساتھ آتے ہیں۔ عشق، عاشق اور معشوق سب بدلے ہیں، آزاد محبت کے جذبے نے، رفاقت کی جستجو نے، غم عشق اور غم روزگار کی کش مکش نے ان کرداروں ہی میں تبدیلی نہیں پیدا کی بلکہ زاہد اور محتسب، ساقی اور مغبچوں کا کردار بھی بدل دیا ہے۔ اب باغ دوسرا ہے اور گل چیں، دوسرے اب صیاد کوئی اور ہے اور بلبل دوسرے۔
غزل اب تک عوامی زندگی کو اپنے اندر جذب نہیں کر سکی ہے۔ آج بھی وہ متوسط طبقے کی ذہنی کشمکش کی ترجمان ہے اور غالباً رموز و علامات، اشارات و کنایات سے بھری ہوئی ہونے کی وجہ سے مکمل طور پر یہ آسانی سے اس نئی تہذیبی زندگی کے عناصر پیش نہ کر سکےگی جن کی نمود عوام میں ہو رہی ہے۔ بات ختم کرنے سے پہلے یہ کہہ دینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ نظم تو فرائڈ کی بھول بھلیاں میں گرفتار ہو گئی ہے۔ لیکن غزل اب تک شعور و لاشعور کے پیچ و خم سے بچتی رہی ہے اور یہ بہت بڑی بات ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.