Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

حالی۔۔۔ ایک انسان

قاضی عبدالغفار

حالی۔۔۔ ایک انسان

قاضی عبدالغفار

MORE BYقاضی عبدالغفار

    گزشتہ دنوں حیدرآباد میں ’’یوم حالی‘‘ منایا گیا تھا۔ اس میں یہ مقالہ پڑھا گیا۔ ایک ایسی فضا میں پڑھا گیا جب علم و ادب کے بہت سے سوداگر اس اسٹیج پر متمکن تھے! اس تصور کے ساتھ اس مقالہ کو پڑھیے کہ گویا میں بہت سے جھوٹے دیوتاؤں کو شرمندگی کی دعوت دے رہا ہوں!

    گہری نظر سے دیکھیے (اگر گہری نظر نصیب ہو!) او رتھوڑا تفکر کیجیے (اگر تفکر کی صلاحیت باقی ہو!) تو حالیؔ کے متعلق ان کے ایک سیرت نگار کا یہ قول بہت جچا تلامعلوم ہوتا ہے کہ ’’حالیؔ جیسے شاعر تو شاید اور بھی ہوسکتے ہیں مگر اس سیرت کا انسان مشکل سے ملے گا۔‘‘ حالیؔ کی شاعری کے ہر پہلو پر بہت کچھ کہا جاسکتا ہے۔ اس خیال کی صحت کے پورے یقین کے ساتھ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ گزشتہ ساٹھ سال میں سرسید مرحوم کے بعد اردو زبان میں جدید ادب کے سب سے پہلے بانی اور معمار وہی تھے۔ جنہوں نے ’’ادب برائے ادب‘‘ کی قدیم پابندیوں سے آزاد ہوکر ’’ادب برائے زندگی‘‘ کے نظریات کو اختیار کیا۔ لیکن اس وقت میرا موضوع حالیؔ کی شاعری نہیں ہے۔ میرا موضوع حالی کی انسانیت ہے۔ شاید یہ کچھ عجیب سی بات معلوم ہو کہ میں شاعر کے شعر کو چھوڑ کر اس کی شخصی سیرت و کردار کو اپنا موضوع بناتا ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ حالیؔ کی شاعری کے رجحانات کو سمجھنے کے لیے ان کی شخصی سیرت و کردار سے واقف ہونا ضروری ہے۔ حالیؔ جب ایک قومی شاعر کی حیثیت سے دنیا سے روشناس ہو رہے تھے تو سرسید مرحوم کی تعلیمی تحریک میں بھی، جو اس زمانہ میں مسلمانوں کی واحد قومی تحریک تھی، ان کامقام بہت بلند تھا۔ اس وقت وہ نہ صرف قومی شاعر بلکہ ایک بلند مقام قومی رہنما بھی تھے۔ اس لیے ہم محض شاعری کی حیثیت سے ان کی شخصی خصوصیات کا جائزہ نہیں لے سکتے بلکہ ان کی سیرت و کردار کا جائزہ بھی لینا ضروری ہے جس نے ان کے کلام کو روشنی اور زندگی بخشی تھی۔

    آج جب کہ قومی زندگی کے میدان میں ہر بوالہوس نے اپنی قیادت اور رہنمائی کے جھنڈے بلند کرکے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی بہت سی تدبیریں ایجاد کرلی ہیں اور یہ شعبدہ بازی نہ صرف سیاست کے میدان میں بلکہ علم و ادب کی شاہراہوں پر بھی کم نظر عوام کے دماغوں کو ایک افیون جیسے نشہ میں مبتلا کر رہی ہے۔ ہم جدید ادب کے اس معمار کی اخلاقی عظمت کو یاد کرتے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ آپ کو یہ معلوم ہوجائے کہ خود اس معمار نے اپنے زمانہ میں کس نظر سے قومی زندگی کے ایسے سوداگروں کی نفسیات کو دیکھا۔ فرماتے ہیں کہ،

    چند خطوط ایک دانا نے

    کھینچ کے یاروں سے یہ کہا

    دیکھ لو ان میں جتنے ہیں خط

    کوئی ہے چھوٹا کوئی بڑا

    ہے کوئی جو بے ہاتھ لگائے

    دے یوں ہی چھوٹے خط کو بڑھا

    ایک نے جتنے خط تھے پڑے

    اٹھ کے دیا ایک ایک کو مٹا

    جب نہ رہا واں پیش نظر

    خط کوئی چھوٹے خطر کے سوا

    دیکھااٹھاکر آنکھ جدھر

    تھا وہی چھوٹا وہ ہی بڑا

    *

    اصل ہنر کانام و نشاں

    قوم میں جب باقی نہ رہا

    حالیؔ و زید و عمر بنے

    صاحبِ دیواں نامِ خدا!

    یہ حالت حالیؔ کے زمانہ میں جس قدر نمایاں تھی۔ اس سے بدتر صورتوں میں آج نمایاں ہے۔ اگر ہم آج قوم کے ان پنساریوں کو دیکھیں جو ہلدی کی صرف ایک گرہ سے بڑی بڑی دکانیں سجائے بیٹھے ہیں تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ حالیؔ کا دل دردمند مسلمانوں کی قومی زندگی کی اس سوداگری سے کس قدر متاثر ہوا ہوگا۔ آج جب ہم قومی خدمت کے کھوکھلے نعروں کی گونج میں ہر بالشتیے کو سورما بننے کی تمسخر انگیز کوشش میں مصروف دیکھتے ہیں تو ہمیں کلام حالی کے اوراق میں ان کے ہزار ہا ایسے اشارے نظر آتے ہیں جن میں کبھی خود اپنی طرف انگلی اٹھاکر وہ پتہ کی بات کہہ جاتے تھے۔ ۵۷ء کا ہنگامہ ان کی نظروں کے سامنے گزرا تھا۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ ہندوستان میں زندگی کی قدریں اور قیمتیں کس قدر بدل رہی ہیں۔ وہ اس انقلاب سے آزردہ تھے اور سب سے زیادہ مسلمانوں کے شخصی کردار اور سیرت کا انحطاط ان کو غمگین بنارہا تھا۔ بار بار وہ اس زمانہ کی اخلاقی پستی کا ذکر فرماتے ہیں،

    کچھ کذب و افترا ہے کچھ کذب حق نما ہے

    یہ ہے بضاعت اپنی اور یہ ہے دفتر اپنا

    کیا میرے اس بیان کو کوئی صاحب مبالغہ آمیز کہہ سکتے ہیں کہ آج ’’جو کذبِ حق نما‘‘ ہماری زندگی سے کھیل رہا ہے وہ اس زمانہ سے بدرجہا بدتر ہے۔ جس کے مفاسد سے حالی کا دل متاثر اور مجبور ہوا تھا۔ جب وہ اپنے عہد زندگی کے ان مفاسد کی طرف اشارہ کرتے تھے۔ تو گویا خود اپنی فطرت کی پاکیزگی کو نادانستہ بے نقاب کردیتے تھے۔ وہ فطرت صالح جو مسلمانوں کو اس ذہنی اضمحلال اور انحطاط کو دیکھ دیکھ کر بے چین ہو رہی تھی۔۔۔ فرماتے ہیں کہ،

    ہوا کچھ اور ہی عالم میں چلتی جاتی ہے

    ہنر کے عیب کی صورت بدلتی جاتی ہے

    عجب نہیں کہ رہے نیک و بد میں کچھ نہ تمیز

    کہ جو بدی ہے وہ سانچے میں ڈھلتی جاتی ہے

    سانچے میں ڈھلی ہوئی بدیوں کا ہجوم آج ہمارے گردوپیش اس زمانہ سے ہزارہا گنا زیادہ ہے۔ جس زمانہ میں پانی پت کا یہ انسان اپنے خونِ جگر سے اپنی قوم کی اس اخلاقی بیماری پرآٹھ آٹھ آنسو رو رہا تھا۔ ایک مقام پر نام نہاد مصلحین اور قائدین کے کھوٹے سکوں کی طرف بہت ہی لطیف اشارہ کرتے ہیں،

    تھا نہ استحقاق تحسین پرستی تحسین سوا

    حق ہے جو دوں ہمتی کا وہ ادا کرتا رہا

    منہ نہ دیکھیں دوست پھر میرا اگر جانیں کہ میں

    ان سے کیا کہتا رہا اور آپ کیا کرتا رہا

    حالیؔ کی عالی ہمتی اور شریفانہ انکسار کا ایک دلنواز انداز تھا کہ دوسروں کے عیب کو اپنے سے منسوب کرکے کہنے کی بات کہہ جاتے تھے! آج اپنی زندگی کے ماحول میں قومی اسٹیج پر سیاست کے چولے میں یا علم و ادب کے پالنے میں جو جواری جوا کھیل رہے ہیں ان میں سے کسی ایک اداکار کی فطرت کا مطالعہ کیجیے۔ کسی ایک کو قومی اسٹیج کی زرکار کرسی صدارت سے اٹھاکر خوردبین کے سامنے رکھ لیجیے۔ خدوخال وہی نظر آئیں گے بلکہ اور بھی زیادہ کریہہ۔ جن کی نشاندہی نصف صدی پہلے حالی نے کی تھی۔ ہیرے اور آبگینے کے مکالمہ میں اس حقیقت کو عیاں کرتے ہیں کہ ہماری دنیا میں کس طرح ارزل اعلیٰ سمجھنے جانے لگے۔ آبگینہ ہیرے سے کہتا ہے کہ،

    مجھ میں اور تجھ میں مگر کرسکتے ہیں جو امتیاز

    ہیں مبصر ایسے اس بازارِ ناپرساں میں کم

    تیرے جوہر گو نہیں موجود اپنی ذات میں

    تجھ سے اے الماس لیکن اچھے پڑ رہتے ہیں ہم

    بقول ڈاکٹر ذاکر حسین خاں حالیؔ نے اصلی وطن پرستی کے حق نما مظہر میں بھی خود پرستی اور خودغرضی کے پوشیدہ جھوٹ کو پہچان لیا تھا۔ آج بھی ہم ان کے پہچانے ہوئے اس ’’کذبِ حق نما‘‘ سے دھوکے کھا رہے ہیں اور ہر کوے کو جو ہنس کی چال چلتا ہے ہنس سمجھ لیتے ہیں۔ جن اخلاقی شعبدہ بازوں کی نسبت حالیؔ نے فرمایا تھا کہ،

    بوالہوس عشق کی لذت سے خبردار نہیں

    ہیں مئے ناب کے دلّال قدح خوار نہیں

    دعوئے عشق و محبت یہ نہ جانا اُن کے

    اُن میں گفتار ہی گفتار ہے کردار نہیں

    ان شعبدہ بازوں کی تعداد گزشتہ نصف صدی میں بہت بڑھ چکی ہے۔ اگر آج حالیؔ زندہ ہوتے تو شاید ان کے لئے زندہ رہنا مشکل ہوجاتا۔ وہ دیکھتے کہ انہی کا نام لے کر قیادت اور چودھرایت کے نظر فریب اشتہار شائع ہو رہے ہیں! وہ تو اپنے ہی زمانہ میں اس ریاکاری سے اکتاکر ایک عالمِ آزاد گان تلاش کر رہے تھے۔

    عالمِ آزادگاں ہے اک جہاں سب سے الگ

    ہے زمیں ان کی الگ اور آسماں سب سے الگ

    مال ہے نایاب پر گاہک ہیں اکثر بے خبر

    شہر میں کھولی ہے حالیؔ نے دکاں سب سے الگ

    لیکن اگر آج وہ قومی قیادت اور علم و فضل کے ان بت خانوں کو دیکھتے جن کے ہر طاق میں ایک جھوٹا دیوتا بیٹھا ہوا ہے اور اپنے کذب صدق نما کے لیے بے وقوف پجاریوں سے ہر لمحہ خراج عقیدت وصول کر رہا ہے تو نہ جانے پانی پت کے اس ا نسان کے قلبِ صافی پر کیا گزرتی!

    حالیؔ کی شاعری ایک ایسے دور سے گزری تھی جس میں وہ ہر قسم کی تعریض و تضحیک کا ہدف بنائی گئی۔ ان کا شاہکار ہر قسم کے بازاری حملوں کانشانہ بنا۔ ان کے تخلص کے جواب میں نئے نئے قافیے گھڑے گئے۔ قالیؔ، اور خالیؔ اور خیالیؔ۔۔۔ پینچ اخباروں میں جن میں سے اکثر اس زمانہ کی صحافت کی اخلاقی پستی کا بہت ہی عبرت آموز نمونہ تھے بازاری تفنن کی کیچڑ میں ان کا نام گھسیٹا گیا۔ مسدس پر تعریض کے عنوانات اس طرح قائم ہوتے تھے کہ ’’حالیؔ کا حال۔۔۔ میدان پانی پت کی طرح پائمال‘‘ ۔ یہ سب کچھ ہو رہا تھا لیکن اس مخالفت کی آگ میں جو جوہر خالص تپایا جارہا تھا وہ کندن بن کر نکلا اور جس طرح مسدس حالیؔ کی شاعری کا شاہکا رہے اس طرح حالیؔ کی سیرت کا شاہکار یہ تھا کہ انہوں نے باوجود ان مخالفتوں کے کبھی اپنی پیشانی پر ایک شکن نہ آنے دی۔ کسی حملہ اور اعتراض کا جواب نہ خود دیا نہ اپنے احباب کو دینے دیا۔ آخر اسی تعریض اور تضحیک کے طوفان سے گزر کر مسدس کو حیاتِ جاودانی حاصل ہوئی اور آج اردو ادب میں کوئی ایک کتاب بھی ایسی نہیں جس کے اتنے اڈیشن شائع ہوئے ہوں جتنے کہ مسدس کے شائع ہوچکے ہیں۔

    حالیؔ کے ایک سیرت نگار نے کیا خوب بات کہی کہ پانی پت کی یہ چوتھی لڑائی تھی جس کو حالیؔ نے جیتا! اس میدان پانی پت میں ان کی اخلاقی فتح کے اس سربفلک مینار پر آج اخلاق، اخلاص، ایثار اور انکسار کے لیے کتبے نصب ہیں جن سے اہل نظر اپنے دل و دماغ کے لیے روشنی حاصل کرسکتے ہیں۔ خود ان کا کلام ان کے اخلاقی نظریات کی صداقت پر ایک دلیل محکم ہے،

    مجھ کو دیکھو گر مرے وعدوں میں ہو کچھ اشتباہ

    روز روشن آپ اپنی روشنی پر ہے گواہ

    افسوس یہ ہے کہ اس روشنی سے بعض ایسے خلوت خامے روشن کیے جارہے ہیں جن کے مکیں سستی اور پرفریب شہرت کی خواہشوں کے سوا اور کوئی نہیں! یہ ایک المیہ ہے ہماری ذہنی زندگی کا کہ لوگ اب منظرِعام پر حالیؔ کے نام سے اپنی نمود و نمائش کے قمقمے روشن کرتے ہیں!

    حالیؔ کی سیرت میں انکسار اور فروتنی کا جو عنصر کارفرما تھا اس کی ایک مثال اس واقعہ سے ظاہر ہوتی ہے کہ وہ یادگارِ غالب میں مرزا کی نثر پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے استاد کے ایک مکتوب کا ذکر کرتے ہیں جس میں غالب نے لکھا تھا کہ،

    ’’دلی کے تمام مال و متاع اور زر و گوہر کی لوٹ پنجاب کے احاطہ میں گئی ہے۔ یہ طرزِ عبارت خاص میری تھی۔ سو ایک ظالم پانی پتی انصاریوں کے محلہ کا رہنے والا لوٹ لے گیا۔ مگر میں نے اس کو۔۔۔ کیا۔ اللہ برکت دے۔‘‘

    اس اشارہ کو لوگوں نے یہ سمجھا کہ وہ مرزا نے حالیؔ کی جانب کیا ہے لیکن حالیؔ خوداس گمان کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ،

    ’’اس عبارت سے مراد خود خواجہ میر مہدی مجروح ہیں۔ کیونکہ غدر کے بعد وہ پانی پت کے محلہ مذکور میں کئی سال مقیم رہے تھے۔ مگر جو لوگ مرزا کی اٹھکیلی چالوں سے ناواقف ہیں وہ غلطی سے اس کے دوسرے معنے سمجھ جاتے ہیں۔ اکثر لوگوں کو اس خیال سے کہ راقم بھی پانی پت کے انصاری محلہ کا رہنے والا ہے۔ ان الفاظ سے یہ دھوکا ہوا ہے کہ مرزا نے یہ میری نسبت لکھا ہے اور لطف یہ کہ میں نے جس قدران کو سمجھایا کہ یہ خود میر مہدی کی نسبت لکھا ہے میری نسبت نہیں لکھا اسی قدر ان کو اس بات کا خیال ہوا کہ میں ازراہ کسر نفسی ایسا کہتا ہوں۔‘‘

    حالیؔ کی اخلاقی بلندی کا یہ ایک ادنیٰ نمونہ ہے۔ لیکن کیا اس نمونے سے کوئی روشنی ان لوگوں کی آنکھوں کو بھی نصیب ہوسکتی ہے جو ہر تالاب اور چہ بچہ میں اپنی طلب کا کانٹا ڈال کر اس انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ شہرت کی کوئی مچھلی، مچھلی نہیں تو کوئی مینڈک ہی سہی، ان کے کانٹے میں پھنسے! قومی زندگی میں ایسے لوگوں کی نفسیات پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر ذاکر حسین خاں نے اپنے ایک مقالہ میں ایسے نام نہاد بزرگانِ ملت کی نفسیات کا تقابل حالی کی سیرت سے کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ،

    ’’حالات سے بیزاری یا تو بے عمل غصہ کی شکل اختیار کرکے ہر نئی چیز سے انکار اور نفرت کو سب مشکلوں کا حل بنانے لگتی ہے یا اگر قوائے عمل شل نہیں ہوئے ہیں تو نجات کے لیے تخریب کی راہ سمجھاتی ہے۔ اچھے اچھے اس کا شکار ہوکر بے اثر و بے نتیجہ زندگیاں گزاردیتے ہیں یا کڑھتے اور جلتے ہیں یا غصہ اور نفرت میں اپنا خون سکھاتے ہیں۔ اپنا تو کوئی عیب دکھائی نہیں دیتا اور سب عیبوں کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہرا کر اور حقیقت کی ناگواری اور تلخی سے بھاگ کر یہ اپنی تنہائیوں میں دور دور کے منصوبے گانٹھتے ہیں ... وطن چٹنی روٹی کو ترستا ہے اور اپنے خیالی پلاؤ سے اس کی ضیافت کرتے ہیں۔ حالیؔ ان لوگوں میں نہ تھے۔ وہ ان میں تھے جن کی طبیعت میں مصائب و آلام سے غصہ کی آگ کی جگہ سوزدل کی دھیمی دھیمی گرمی اور درد کی میٹھی میٹھی کسک پیدا ہوتی ہے۔ دوسروں سے نفرت کی جگہ اپنوں پر محبت بڑھتی ہے اور بے صبری سے جھلانے کی جگہ سعی پیہم کا عزم کرتے ہیں۔ پہلی صورت میں وہ لوگ ہیں جو کسی کام کو چاہے وہ ذہنی ہو یا علمی اس کے پورے آداب کے ساتھ کرنے کی نہ خواہش رکھتے ہیں نہ صلاحیت۔ تقریریں کرکے اور اخبارات میں موقعہ بے موقعہ بیانات شائع کرکے سمجھتے ہیں کہ بس محبانِ قوم کی صف اول میں آگئے!‘‘

    حالیؔ کا فطری انکسار ان کی اخلاقی پاکیزگی، سیرت کی بلندی اور صداقت و خلوص نے علم و فضل کے اس تکبر کا سر نیچا رکھا جس کا سر آج قومی زندگی کے ہر میدان میں ہم بہت اونچا پاتے ہیں! جو ہمارے بڑے بنتے ہیں ان میں نہ انکسار ہے اور نہ رواداری۔ سستی شہرت کے حصول کا ایک جذبۂ بے اختیار ہے۔ جس کی گود میں تنگ نطری، حسد، غصہ، مزج کی چڑچڑاہٹ، ہمچومن دیگرے نیست کا ادعا۔ اور ان سب کی ایک کثیف روح پرورش پاتی ہے۔ ہم ان کے نام نہاد علمی کارناموں کو دیکھتے ہیں اور سطح کی سفیدی کے نیچے تاریکی اور گندگی کے سوا کچھ نہیں پاتے! کچھ ا یسے بھی خدا کے بندے ہیں جنہوں نے اپنی روحوں کو اس قسم کی تاریکی اور گندگی سے پاک رکھا ہے لیکن قومی زندگی کے بازار میں ان کا بھاؤ بہت گرا ہواہے!

    القصہ ہر حال میں ہماری اخلاقی زندگی کی اس متاعِ رفتہ کو تلاش کرنے کے لیے حالیؔ کی زندگی روشنی کا ایک مینار ہے جس سے ہم بصارت اور بصیرت حاصل کرسکتے ہیں۔ ایک پیمانہ ہے جس میں ہم اس زمانہ کے سوداگروں کی جنسِ ارزاں کو تول سکتے ہیں۔ ایک کسوٹی ہے جس پر ہم اس زرِ کم عیار کے کھرے کھوٹے کو جانچ سکتے ہیں۔ ایک نقشِ قدم ہے جس کی خاک سے ہر چشم بینا بصارت اور بصیرت حاصل کرسکتی ہے۔ ان لوگوں سے تو میں کچھ کہتا نہیں جن کی نسبت شاعر کہہ گیا ہے کہ،

    اکنوں اگر فرشتہ نکو گوئدت چہ سود

    درشہر صد حکایت بدنامیٔ تورفت

    لیکن اپنے نوجوان دوستوں سے جو آج حالیؔ کے نام پر خراجِ عقیدت پیش کر رہے ہیں یہ ضرور کہتا ہوں کہ وہ حالی کی شاعری میں سب سے زیادہ ان کی انسانیت کا مطالعہ کریں۔ وہ انسانیت جس کو حالیؔ نے اپنی زندگی میں علم و فضل سے بھی بلند تر مقام دیا تھا۔ سرسید مرحوم کے مرثیہ میں انسانیت کے بلند درجہ کو اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ،

    مے تواں در فضل و دانش شہرۂ دوراں شدن

    درفصاحت ہمچوسحبان در خود لقماں شدن

    مے تواں درجاہ و ثروت گوئے ازقاروں بُرد

    مے تواں در زہد و طاعت غیرت صنعاں شدن

    مے تواں قطبِ زماں شہ یتواں شد غوثِ وقت

    ہر چہ خواہی مے توانی شد بجز انساں شدن

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے