Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہیئت یا نیرنگ نظر؟

محمد حسن عسکری

ہیئت یا نیرنگ نظر؟

محمد حسن عسکری

MORE BYمحمد حسن عسکری

    ’’پراسرار آدمی! ذرا یہ تو بتا کہ سب سے زیادہ کس سے محبت کرتا ہے؟ اپنے باپ سے، ماں سے، بہن سے یا بھائی سے؟

    میرا نہ تو کوئی باپ ہے نہ ماں، نہ بہن، نہ بھائی۔

    اپنے دوستوں سے؟

    یہ تو تم نے ایسا لفظ استعمال کیا ہے جس کا میں آج تک مطلب نہیں سمجھا۔

    اپنے ملک سے؟

    مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ ہے کس عرض البلد میں۔

    دولت سے؟

    مجھے اس سے اتنی ہی نفرت ہے جتنی تمہیں خدا سے۔

    پھر تمہیں کس سے محبت ہے، انوکھے اجنبی؟

    مجھے بادلوں سے محبت ہے۔۔۔ ان بادلوں سے جو گزر جاتے ہیں۔۔۔ وہ دیکھو۔۔۔ ان حیرت انگیز بادلوں سے!‘‘

    اپنی جمالیاتی قدر و قیمت کے علاوہ بودلیرکی یہ نظم انیسویں اور بیسویں صدی یا صنعتی دور کی سماجی اور اخلاقی تاریخ میں ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے اور اسی طرح ادب اور آرٹ کی تاریخ میں بھی ممکن ہے کہ یہ نظم اس دور کی ہرتحریک یا ہر فنکار پر حاوی نہ ہو، لیکن بہت بڑی حد تک اس میں ہمارے زمانے کی روح بند ہے۔ اس عہد کے انسان کی ساری روحانی مایوسیاں، مجبوریاں، معذوریاں، اس کی ساری حسرتیں اور آرزوئیں اس نظم میں گونجتی ہیں۔

    یہ نظم اس کی شکست کی آواز ہے۔۔۔ بلکہ زندگی کے اس نظام کی بھی۔ اس منفی عناصرکے پہلو بہ بہلو اس نظم میں انسان یا کم سے کم فنکار کی روحانی کاوشوں اور موت کے خلاف اس کی جد و جہد کا نشان بھی ملتا ہے۔ جتنا کچھ اور جیسا کچھ اثبات صنعتی دور کے فنکار سے ممکن ہو سکتا ہے وہ یہاں موجود ہے۔ اگر اسے پوری زندگی نہیں مل سکتی، تو کم سے کم سہی۔ بہرحال وہ آخر تک زندگی کا دامن نہیں چھوڑنا چاہتا۔ حالانکہ اس مضمون میں مجھے پچھلی ایک صدی کے فنکاروں کے نقطہ نظر کی خامیوں ہی سے بحث ہے لیکن میں یہ تسلیم نہیں کر سکتا کہ ان کی تخلیقات موت کی علمبردار ہیں یا اخلاقی اعتبار سے انحطاطی ہیں۔ ممکن ہے کہ آرٹ موت کا اعلان کرتا ہو۔ اس میں فرد یا قوم کی زندگی سے بیزاری یا موت کی خواہش جھلکتی ہو۔ لیکن آرٹ کبھی اور کسی طرح موت کی تلاش نہیں ہو سکتا۔

    آرٹ بنفسہ زندگی کی جستجو ہے، ایک نئے توازن، ایک نئے آہنگ کی تلاش ہے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ فنکار کو نیا توازن پوری طرح حاصل نہ ہو سکے۔ آخر اسے بہت سی ایسی چیزوں سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے جو فرد کی طاقت سے باہر ہیں۔ لیکن وہ اس سے نئے توازن کی سمت ایسے اشارے تو کر سکتا ہے جن سے دوسرے جستجو کرنے والوں کو مدد مل سکے۔ ہر آرٹ صحت ور ہوتا ہے کیونکہ بیماری کا ذکر کرنے کے باوجود وہ صحت سے منکرنہیں ہوسکتا۔ فنکار کے اندر زندگی مر بھی گئی ہو تب بھی فن پارے کی تخلیق یا تخلیق کا خواب بذات خود قم باذنی کا حکم رکھتا ہے۔ التبہ بعض فن پاروں کو نسبتاً زیادہ صحت ور کہا جا سکتا ہے اور بعض کو کم۔ چنانچہ اس پچھلی ایک صدی کے ادب پر تنقید کرتے ہوئے میرا مطلب کہیں بھی یہ نہیں ہوگا کہ یہ ادب انسانیت کے لیے ضرر رساں ہے یا تنزل پرست ہے، جیسا کہ بہت سے سیاسی رضاکار اکثر کہا کرتے ہیں۔

    یہ تنبیہ بھی ضروری ہے کہ میرے مضمون میں کسی لفظ کے معنی وہ نہیں جو مارکسیوں کے یہاں ہوتے ہیں کیونکہ یہ لوگ لفظوں کوان کے چھوٹے سے چھوٹے اورتنگ سے تنگ معنوں میں استعمال کرنے کے عادی ہیں۔ ان کی اصطلاحیں اتنی مادیت آلود ہوتی ہیں کہ ان سے تانبے کے زنگ آلود پیسوں کی بدبو آتی ہے۔ اسی لیے میں نے تو کمیونسٹوں کا اخبار تک پڑھنا چھوڑ دیا ہے۔ کیونکہ دونی میں تو ننگی تصویروں والا رسالہ آ جاتا ہے۔ انسانوں کا ذکر کرتے ہوئے کم سے کم ادب اور ادبی تنقید میں ہمیں ایسے لفظ چاہئیں جو انسانوں کی زندگی سے بھرپور ہوں، معاشیاتی مابعد الطیعات سے نہیں۔

    تو بودلیر کی نظم میں ہم ایک بالکل نئے قسم کے فنکار سے دوچار ہوتے ہیں۔۔۔ صنعتی دور کے فنکار سے۔ یہ فن کار اپنے پیش رو فنکاروں سے صرف زمانے یا ماحول کے اعتبار سے ہی الگ نہیں بلکہ نئی اور بالکل مختلف روح لے کر پیدا ہوا ہے۔ حسرت، مایوسی، رنج و غم، زندگی کی ناپائیداری کا احساس، تشکک، مذہب سے بغاوت کوئی نئی چیزیں نہیں۔

    ایپی کیورس اور دوسرے یونانی فلسفیوں کا تو ذکر ہی کیا، یرمیاہ جیسے پیغمبر نے اس دن پر لعنت بھیجی ہے جس دن وہ پیدا ہوا تھا اور حبقوق نے خدا کو یہ طعنہ تک دیا ہے کہ تیری آنکھیں کیا اتنی مصفا و منزہ ہیں کہ بدی اور بے انصافی کو دیکھ تک نہیں سکتیں۔ توغم و اندوہ کا اظہار یا بغاوت ایسی چیزیں نہیں جو اس نئے فنکار کو دوسروں سے ممیز کر سکیں۔ یہ دکھ تو انسان کی زندگی کے ساتھ لگے ہوئے ہیں اور وہ ہمیشہ ان کا رونا روتا آیا ہے۔ جہاں تک مسلمہ اعتقادات یا نظام زندگی سے بغاوت کا تعلق ہے، بعض وقت تو نیا فنکار سرے سے باغی ہوتا ہی نہیں، کیونکہ ایسے لمحوں میں نفی اس کے اندر اتنی ترقی کر جاتی ہے کہ اس کے لیے ایسے اداروں، ایسے قانونوں اور ایسی روایتوں کا وجود ہی باقی نہیں رہتا جن کے خلاف اسے بغاوت کرنے کی ضرورت پیش آئے۔ خدا کے وجود سے انکار کرنے کی فکر تو اسے جب ہو، جب وہ پہلے اپنے وجود کا قائل ہو۔ وہ اپنے گرد و پیش سے اپنے آپ کو اتنا بے پروا بنا سکتا ہے کہ ساری ہستی اس کے لیے دھند کا ایک غلاف بن جائے جو کہیں کہیں سے کبھی کبھی چمک اٹھتا ہو۔ ایسے انسان کے لیے باغی بہت محدود اصطلاح ہے۔ یہ لفظ اس کے چند لمحوں کی تعریف ضرور کرتا ہے، پوری زندگی پر حاوی نہیں۔

    نئے فنکار کا بنیادی فرق یہ ہے کہ وہ ساری عقیدتیں اور محبتیں، وہ سارے اخلاقی رشتے جن سے اب تک فنکار مطمئن تھے اور اگر کبھی انہیں تکلیف دہ پاتے تھے تو انہیں کم سے کم اتنی اہمیت ضرور دیتے تھے کہ ان کے خلاف شدت سے بغاوت کریں، ان میں ضروری ترمیم کریں، ان کا نیا تخیل پیش کریں، نیا فنکار ان سارے اخلاقی رشتوں سے بیزار ہے، ایک دو سے نہیں بلکہ سب سے اور اتنا بیزار ہے کہ ان کی صرف ترمیم یا تجدید سے مطمئن ہو جانا کیا معنی، ان کی تخریب تک سے علاقہ نہیں رکھنا چاہتا۔ اس کی تو بس یہ خواہش ہے کہ ان کی طرف سے آنکھیں بند کر لے اور ان سے بالکل بے نیاز ہو جائے۔۔۔ یہ اور بات ہے کہ پوری بے نیازی ناممکن ہے، کیونکہ اخلاقی رشتے نہ صرف حقیقت کا حصہ ہیں، بلکہ خود سب سے بڑی حقیقت ہیں۔

    نئے فنکار کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ سماج کے ایک فرد اور بہت سے انسانوں کے درمیان رہنے والے ایک انسان کی حیثیت سے اپنے معاملات پر غور نہیں کرتا، بلکہ اس طرح جیسے وہ خود ایک کائنات ہو، اس وقت وہ دوسروں کے وجود کا خیال تک نہیں آنے دینا چاہتا۔ نہ وہ یہ سوچنا ضروری سمجھتا ہے کہ اس کے رویے کا دوسروں کے رویے سے کیا تعلق ہوگا اور آپس میں ان کا عمل اور رد عمل کس قسم کا ہوگا۔ اپنے معاملات اپنے لیے اپنے آپ طے کرنے میں وہ اپنے کو خود مختار سمجھتا ہے اور اپنے سے ماسوا کسی کی اورکسی قسم کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ اسے پنا حق خود ارادیت منوانے کی ضد نہیں، وہ کسی سے کوئی بات نہیں منوانا چاہتا۔ یہ لفظ ہی اس کی لغت میں نہیں پایا جاتا۔

    کوئی بات منوانے کی تو اسے جب فکر ہو جب وہ ان کے وجود کو اہمیت دیتا ہو۔ اسی طرح حق کا لفظ بھی اس کی ترجمانی نہیں کرتا، کیونکہ حق ایک سیاسی اور اجتماعی تصور ہے، وہ تو اپنے آپ کو ایک ایسی دنیا میں جس کے کیمیاوی قانون بالکل الگ ہیں اور یہ قانون اپنے طریقے پرعمل کرتے ہیں (یہاں میں نے لفظ ’’معاملات‘‘بڑے وسیع معنوں میں استعمال کیا ہے۔ اس میں خیر و شر کے تصور سے لے کر ہوٹل کی خادماؤں سے زنا تک سب آجاتا ہے)، کسی ترقی پسند اشتعال انگیز کی یاددہانی کے بغیر مجھے خوب معلوم ہے کہ فرد کے متعلق یہ نظریہ، خیر سو فیصد غلط تو نہیں، مگر ہاں ناکافی ضرور ہے۔

    فرد ایک علیحدہ کائنات سہی، مگر یہ کائنات ایسی ہی دوسری کائناتوں سے ہر لمحے ٹکراتی رہتی ہے۔ یہ نئے فنکار بھی اس تصادم سے بے خبر نہیں ہیں اور اس سے جو پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں ان کا علم ان فنکاروں کو جس شدت سے ہے اور یہ علم جس ٹریجڈی کی شکل اختیار کرتا ہے وہ چیز مارکس اور اینگلز کے نصیب میں نہیں۔ یہ لوگ تو خیر پھر بھی بیچارے پمفلٹ باز قسم کے آدمی تھے،ارونگ بیبٹ جیسے ادب کے مصلحین تک اگر اس احساس کو اپنی رگوں میں دس منٹ ٹھہر جانے دیتے تو خون تھوکتے پھرتے۔ ہارورڈ میں بیٹھ کر خیر و شر کا فلسفہ بگھارنے میں تو کچھ خرچ نہیں ہوتا۔

    اب گنئے کہ بودلیر کس کس چیز سے محبت نہیں کر سکتا۔ ایک تو وہ خدا کو نہیں مانتا۔ لیکن یہاں یاد رکھئے کہ صنعتی دور کی مادہ پرستی، عقلیت اور لادینی پر اس نے بڑی بڑی کراری چوٹیں کی ہیں، اور جب وہ کہتا ہے کہ میں خدا سے نفرت کرتا ہوں تو اس کا مطلب سرمایہ دارانہ سماج کے خدا اور مذہب سے ہے جنہیں اس سماج نے اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ مذہب سے اتر کر ملک کا نمبر آتا ہے اس سے بھی وہ متنفر ہے۔ کیونکہ یہ ملک وہ عجیب و غریب سرزمین ہے جہاں معمولی روٹی کو کیک کہا جاتا ہے اور اس کے ایک ٹکڑے کے لیے انسان ایک دوسرے کے قتل پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ اسے یہ بھی نہیں پتہ کہ ماں، باپ، بھائی، بہن یا دوستوں کی محبت کیا چیز ہوتی ہے۔ کیونکہ سکوں کی محبت نے زندگی کے سرچشموں کو بھی زہریلا بنا دیا ہے اور وہاں سے اب اسے وہ آب حیات نہیں مل رہا جو پہلے ملتا تھا۔ دولت سے تو خیر وہ کیا محبت کرے گا اور پھر بے ایمانی سے حاصل ہونے والی دولت سے؟ لیکن سماج کو روپے نے اس طرح جکڑا ہے کہ روپیہ کی ہوس کے علاوہ ہر دوسرا آدرش بے معنی بلکہ خطرناک نظر آنے لگا ہے۔ خصوصاً فنکار تو اس سماج کی نظروں میں (مارکسیوں کی نظروں میں بھی) ایک عجیب الخلقت وحشی بن گیا ہے جو معاشرتی نظام کے لیے ایک دھمکی ہے۔

    بقول بودلیر کے شاعر کسی ایک دن اگر یہ مطالبہ کرے کہ مجھے اپنے اصطبل میں رکھنے کے لیے دو تین بورژوا چاہئیں تو حیرت، غصے اور دہشت کے مارے لوگوں کا منہ کھلے کا کھلا رہ جائے گا۔ لیکن اگر کوئی بورژوا، شاعر کے کباب مانگے تو کسی کوبھی تعجب نہیں ہوگا، بلکہ اسے بالکل معمولی سی بات سمجھا جائے گا۔ (یادش بخیر، ترقی پسند تو شاعر کو کچا کھا جانے سے بھی نہیں جھجکیں گے) اور تو اور شاعر کی ماں تک اسے کوسنے دیتی ہے کہ یہ ملعون میری کوکھ سے کیوں پیدا ہوا (یہ بھی بودلیر کی ایک نظم سے ہے) ایک اور بنیادی تعلق جنس یا محبت کا ہے لیکن روپیہ کی پوجا نے فنکار کے لیے یہاں بھی بس گھول دیا ہے۔ بودلیر خواب میں دیکھتا ہے کہ انتہائی گندے اور پلید عفریت نما انسانوں کی ایک جماعت اسے گھیرے اس کا مذاق اڑا رہی ہے اور اس کی محبوبہ بھی ان کے گلے میں بانہیں ڈالے چپٹی ہوئی ہے۔ اسے چڑانے کے لیے ان لوگوں کو چوم رہی ہے اور ان سے اختلاط کر رہی ہے۔ نئے فنکار کے جنسی تعلقات کا ایک اور نمونہ یہ ہے کہ بڑے انتظار کے بعد آخرایک دن CORBIERE کواپنی محبوبہ سڑک پر نظر آتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ محبوبہ بہت ہوئی تو کسی ہوٹل میں کھانا کھلاتی ہوگی۔ CORBIERE خوش خوش اس کے پیچھے چلنے لگتا ہے۔ لیکن وہ اتنے پھٹے حالوں میں ہے کہ محبوبہ مڑ کر دیکھتی ہے اور مسکرا کر دو پیسے اس کے ہاتھ پر رکھ دیتی ہے۔

    ایک زمانہ تھا کہ عشق کو زندگی کا ماحصل سمجھاجاتا تھا لیکن لافورگ کی نظروں میں عورتیں وحشی جانور ہیں جو اپنے نروں کو قابو میں لاکر ان کے ساتھ سسکیاں بھرتی ہیں اور یہ سب وہ صرف تین منٹ کے مزے کی خاطر! اسی لیے وہ اپنے آپ کو مبارک باد دیتا ہے کہ اوروں کی طرح وہ اپنی جبلی خواہشوں کا غلام بن کر نہیں رہا بلکہ ہمیشہ ان کا مقابلہ کیا اور آج تک کسی عورت کے ساتھ ہم آغوش ہوا، نہ کسی کا بوسہ لیا۔

    غرض کہ نئے فنکار کایہ حال ہے کہ زہرچہ رنگ تعلق پذیر و آزاد است۔ لیکن نہ تو اس میں بلند ہمتی کو دخل ہے نہ قلندری کو، نہ یہ آزادی اسے روحانی بالیدگی دیتی ہے۔ ہر انسانی تعلق اور ہر اخلاقی رشتے سے فنکار اپنے آپ کو علیحدہ کرنے پر مجبور ہے۔ کیونکہ زرپرستانہ اقدار نے ان بنیادی تعلقات کے مظاہر یعنی سماجی اداروں میں کھوٹ ملا دیا ہے۔ اپنے چاروں طرف ہر چیز اسے نیکی، صداقت اور حسن کے خلاف نظر آتی ہے۔۔۔ اور یہی فنکار کے معبود ہیں۔ ان حالات سے اس کی بیزاری کی انتہایہ ہے کہ وہ ان چیزوں سے اپنے آپ کو الگ کرنے پر مجبور ہے جو اس کا موضوع سخن ہے، جو اس کے فن کا سر چشمہ ہیں۔۔۔ یعنی انسانی اور اخلاقی تعلقات کی سماج میں جو اقدار رائج اورمقبول ہیں، انہیں وہ مان نہیں سکتا اور اپنی اقدارسماج سے منوانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اس لیے وہ ہر اس چیز کو شبہ کی نظروں سے دیکھتا ہے، ہر اس چیز سے دور بھاگتا ہے جس کے متعلق کہا جا سکے کہ یہ اچھی ہے یا بری ہے، جھوٹی یا سچی ہے۔

    ایک اور مصیبت یہ ہے کہ اپنی اقدار سے محبت کرنے کے باوجود وہ اتنا بے حس اور اتنا بے تخیل نہیں کہ ان اقدار کو لازمی طور پر سب سے فائق اور افضل سمجھے۔ اس لیے وہ کوشش کرتا ہے کہ جس طرح بن پڑے اخلاقی مسئلوں اور اقدار کے الجھیڑوں سے جان بچا کر نکل بھاگے اور اسے کسی چیز کے سچ یا جھوٹ، اچھائی یا برائی کے بارے میں سوالوں کا جواب نہ دینا پڑے۔۔۔ کیونکہ شاید وہ اپنے جوابوں سے بھی مطمئن نہیں ہو سکتا۔ ممکن ہے کہ یہ تشکک اور بے یقینی بہت سے لوگوں کو اخلاقی انحطاط معلوم ہوتا ہو۔ لیکن اگر نئے فنکاروں میں بھیڑ بکریوں جیسی خود یقینی کی کمی ہے تو کم سے کم ایک آدمی کو اس پر ذرا بھی افسوس نہیں ہے۔

    ان فنکاروں کے روحانی مسئلے اور ان کی بیزاری اپنی جگہ پر مسلم، لیکن اب ایک خالص فنی مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ اخلاقی معیارچھوڑنے کو تو چھوڑ دیئے جائیں کوئی بات نہیں، لیکن کسی نہ کسی معیارکے بغیر۔۔۔ یہ معیار شعوری ہو یا غیر شعوری، اس سے بحث نہیں، فن پارے کی تخلیق کس طرح ممکن ہے؟ فن پارے کے اجزا اور کل کے درمیان، اور اسی طرح فن پارے اور اس سے متاثر ہونے والے آدمی کے درمیان کسی نہ کسی طرح کا تعلق، کسی نہ کسی طرح کا رشتہ تو ہونا ہی چاہئے اور ان رشتوں کا کوئی معیار بھی لازمی ہے۔ یہ مسئلہ نفسیاتی کیا معنی، حیاتیاتی بھی بن سکتا ہے۔ لیکن فی الحال فنکار کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہوئے ہم اسے ایک بہت بڑا فنی مسئلہ کہیں گے۔

    یہ مسئلہ یوں حل ہوا کہ فن برائے فن کا نظریہ وجود میں آیا۔ یہاں بھی میں بڑے زور و شور سے اس بات سے انکار کروں گا کہ یہ نظریہ اخلاقی حیثیت سے انحطاط پرستانہ ہے۔ میں اوپر دکھا آیا ہوں کہ معمولی اخلاقی تعلقات فنکار کے لیے کس طرح ناممکن ہوگئے تھے۔ یہ نظریہ اخلاقیات سے یکسر کنارہ کشی نہیں ہے، بلکہ فن اور فنکار کے لیے ایک نئی اخلاقیات ڈھونڈنے کی کوشش ہے۔ یہ اخلاقیات نامکمل سہی، اس میں خامیاں سہی، یہ الگ بات ہے۔ نیکی اور صداقت ایسے تصورات ہیں جن کے متعلق بحث کی جا سکتی ہے۔ عقلی اصطلاحوں میں بہت کافی کامیابی کے ساتھ انہیں بیان کیا جا سکتا ہے،اس کے علاوہ نیکی اور صداقت کے معیاروں کے قائم ہونے میں سماج کو بہت دخل ہے اور ان معیاروں کی مادی شکلوں سے ہر آدمی کو روزانہ دوچار ہونا پڑتا ہے۔

    یہ تصورات اجتماعی زیادہ ہیں اور ان کا انحصار بڑی حد تک ان کے تسلیم ہونے پر ہے۔ لیکن بحث و تمحیص، اپنی بات منوانا یا دوسروں کی بات ماننا، یہ سب چیزیں نئے فنکاروں کو مہمل اور بے معنی بلکہ شاید غیر اخلاقی معلوم ہوتی ہیں۔ اس لیے اپنے فنی مسئلہ سے مجبور ہو کر انہیں اخلاقی تثلیث کے تیسرے رکن یعنی حسن کی طرف جانا پڑا جو نسبتاً زیادہ انفرادی تصور ہے، جس کا تعلق عقل کے بجائے اعصابی تجربے سے زیادہ ہے اور اس لیے اس کی حقیقت کا اعلان زیادہ وثوق اور یقین کے ساتھ کیا جا سکتا ہے، پھر اس میں بحث کی بھی زیادہ گنجائش نہیں۔

    فنکار کے لیے تمام دوسرے اخلاقی تعلقات مردہ ہو چکے ہیں۔ حسن وہ آخری تنکا ہے جس کا سہارا لیے بغیر اسے چارہ نہیں۔ اچھا، حسن کا بھی ایک مسلمہ معیار ہو سکتا ہے جسے ساری قوم یا ساری سماج مانتی ہو۔ لیکن ان فنکاروں کو ہر مسلمہ چیز پر جھوٹے ہونے کا شبہ ہوتا ہے۔ اس لیے وہ خود بھی کسی چیز کے قیام میں مدد دینے کو تیار نہیں، اور نہ ایسی ذمہ داری لیتے ہیں۔ وہ مستقل اقدار کو ہی نہیں مانتے، بلکہ اقدار کی اضافیت کے زیادہ قائل ہیں۔ لہٰذا وہ اپنی طرف سے حسن کا کوئی مستقل معیار پیش نہیں کرتے۔ بودلیر ان بادلوں سے محبت کرتا ہے جو گزر جاتے ہیں یعنی ان فنکاروں کا حسن وہ حسن ہے جس کی شکل و صورت متعین نہیں، بلکہ جو بدلتا رہتا ہے۔ وہ حسن جو کوئی ازلی و ابدی تصورنہیں، بلکہ جو لمحاتی تاثر پر مبنی ہے۔

    تو اب فن کا آخری معیار خالص جمالیاتی ہوگیا۔ ایک طرح سے زبان سے تو یہ فنکار ضرور یہ کہتے رہے کہ حسن اور صداقت ایک چیز ہے، لیکن ان لفظوں کی تہہ میں ایک اور اضطراب پایا جاتا ہے۔ جب یونانی حسن، صداقت اور نیکی کو ایک وحدت بتاتے تھے تو وہ حسن کے علاوہ باقی دوسرے ارکان پربھی اتنا ہی زور دیتے تھے۔ جس طرح وضعی رشتوں (FOMAL RELATIONS) کا توازن اور ہم آہنگی صداقت ہو سکتی تھی، اسی طرح صداقت کا تصور یا صداقت کے حصول کا لمحہ بجائے خود حسین ہو سکتے تھے لیکن نئے فنکاروں کو یہ بے تابی رہی ہے کہ کسی طرح صداقت اور نیکی کے تصورات سے پیچھا چھڑایا جائے اور حسن کو ان سے بے نیاز بنایا جائے کیونکہ اس ہوسناک سماج میں یہ تصورات خالص اور بے میل رہ ہی نہیں سکتے۔

    جب یہ فنکار حسن اور صداقت کے ایک ہونے کا نعرہ لگاتے ہیں توان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ کسی طرح صداقت اور نیکی پر غور کرنے یا ان کے معیار قائم کرنے کی ذمہ داری سے بچ جائیں چنانچہ اس نعرے کے باوجود کوشش یہ رہی ہے کہ آرٹ کو جمالیاتی طورپر تسکین دینے والے وضعی رشتوں کا مجموعہ بنا دیا جائے، جس میں اخلاقی اور غیرجمالیاتی عناصرکوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ مطلب یہ ہے کہ آرٹ کو ایسی معروضی حیثیت دی جائے کہ اس پراخلاقی معیارعائد ہی نہ ہوسکیں، بالکل جس طرح ہم کسی پیڑیا پتھر کو اخلاقی اعتبار سے نیک یا بد نہیں کہہ سکتے۔ بلکہ صرف اس کے وجود کو تسلیم کر لیتے ہیں۔

    آخر آرٹ میں قطعی اورکلی معروضیت تو نفسیاتی اور حیاتیاتی اعتبار سے ممکن ہی نہیں، جب تک انسان کیمیاوی اعتبار سے بالکل بدل نہ جائے، یا فن پارہ فن کار کے پیٹ سے بچے کی طرح پیدا نہ ہونے لگے۔ بہر حال ان فنکاروں کی انفرادیت پرستی اور داخلیت کے ساتھ ساتھ ان کے یہاں یہ رجحان بھی نظر آتا ہے کہ فن پارے کو زیادہ سے زیادہ معروضی چیز بنایا جائے جس کی بنیاد جمالیاتی اور وضعی اعتبارات پر قائم ہو اور جو حتی الوسع اخلاقی معیاروں سے آزاد ہو۔

    میلارمے خالص شاعری کا نظریہ پیش کرتا ہے۔ ورلین کہتا ہے کہ شعر میں سب سے پہلے اور سب سے زیادہ موسیقی ہونا چاہئے۔ اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ محض ادب ہے۔ مصوری میں تاثریت (IMPRESSIONISM) پیدا ہوتی ہے جو زندگی کو بحیثیت مجموعی نہیں دیکھنا چاہتی، بلکہ محض ایک گریزاں تاثر ہی سے مطمئن ہو جاتی ہے اور اس لیے اس میں ٹکنیک ہی سب کچھ ہے۔ ناول میں فلابیر آرٹ کی خود مختاری اور اسلوب کی فوقیت کا نعرہ بلند کرتا ہے، اور آرٹ کو تقریبا ایک ایسے مذہب کی شکل دے دیتا ہے جو راہبوں جیسی قربانیاں اور ریاضتیں چاہتا ہے۔ اس کے نزدیک موضوع کوئی اہمیت نہیں رکھتا، جو کچھ ہے طرز بیان ہے۔

    ان لوگوں کے ساتھ ساتھ فطرت نگار بھی موجود ہیں جو آرٹ کے پرستارتو نہیں ہیں مگر انسان کا مطالعہ اتنی سخت معروضیت کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں جیسے کوئی سائنس دان تجربے کی میز پر جانوروں کو چیرتا پھاڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ سائنس دان جو باتیں معلوم کرتا ہے وہ اخلاقی معیاروں کی زد میں نہیں آتیں۔ چنانچہ آرٹ پر سائنس کی معروضیت عائد کرتے ہوئے در حقیقت فطرت نگاروں کی کاوش یہی تھی۔۔۔ وہ غیر شعوری طور پر ہی سہی۔۔۔ کہ کسی طرح اخلاقی مسئلوں اور اخلاقی فیصلوں سے بچا جائے۔

    غرض کہ اس دور کی ساری نظریہ بازی کا ما حصل یہ ہے کہ فن کار اخلاقی جد و جہد سے تھک کر اور اپنی کامیابی سے مایوس ہو کر یہ چاہ رہے تھے کہ حسن کے تصورکو نیکی اور صداقت کے تصورات سے الگ کر دیا جائے کیونکہ ایماندرانہ فنی تخلیق کا اور کوئی راستہ انہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔ لیکن چونکہ نیکی اور صداقت اتنے اہم تصورات ہیں کہ ان سے آنکھیں چرانا ممکن نہیں، اس لیے وہ اپنے سمجھانے کو یہ بھی کہتے رہے کہ حسن میں باقی تصورات بھی شامل ہیں۔

    ممکن ہے کہ ان تصورات کو ایک دوسرے سے الگ کر دینا یا حسن کو سب سے افضل اور خود مختار سمجھنا ایسے زمانے میں اور ایسی قوم میں فنکاروں کے لیے زیادہ نقصان دہ نہ ہو جہاں سماج میں پوری ہم آہنگی ہو۔ لوگوں کے دلوں میں نیکی اور صداقت کا تصور صاف ہو اور مضبوطی سے قائم ہو، فنکار کا رشتہ عوام سے مضبوط ہو اور وہ ان سے برابر نئی زندگی حاصل کرتا رہتا ہو، اپنی قوم کی اقدار اس کے خون میں بسی ہوں۔۔۔ ایسی صورت میں حسن کے متعلق کوئی ذہنی عقیدہ اس کے فن کو لنگڑا لولا نہیں بنا سکتا۔ کیونکہ آرٹ کی تخلیق بڑی حد تک غیر شعوری فعل ہے لیکن جب فنکار ایسی سماج میں نہ رہتا ہو، جب ہم آہنگی کیا معنی، ایک طبقہ دوسرے طبقے سے مصروف پیکارہو، کوئی ایک مسلمہ اور مصدقہ نظام زندگی باقی نہ رہا ہو، جب فنکار کا عوام سے بھی رابطہ باقی نہ رہا ہو اور وہ صرف اپنی روحانی طاقت سے کام لینے پر مجبور ہو، جب وہ اخلاقی جنگ سے اکتا چکا ہو اور اخلاقی فیصلوں سے خائف ہو۔۔۔ ایسے زمانے میں حسن کی خود مختاری اور آرٹ کی آزادی پر ایمان لانا گویا، خیرتن کے پرتو نہیں مگر تختے پر بیٹھ کے بحرالکاہل کی سیاحت کے لیے نکلنا ہے۔

    لیکن یہاں یہ نہ بھولئے کہ فنکار یہ سب خطرے ایک بلندتر اخلاقیات اور ایک بلندتر صداقت کے لیے مول لے رہا ہے۔ جب بودلیر کہتا ہے کہ ’’الزام دینا ہے، مخالفت کرنا ہے اور انصاف کا مطالبہ کرنا بھی۔۔۔ یہ سب بدمذاقی نہیں ہے؟‘‘ تو فن اور فنکار کی خود مختاری کا اعلان تو ضرور کر رہا ہے، مگر سب سے زیادہ اسے یہ فکر ہے کہ اپنے آپ کو کسی نہ کسی طرح صنعتی اخلاقیات کی آلودگی سے بچائے رکھے۔ ممکن ہے کہ یہ فنکار اس بلند تر اخلاقیات کا کوئی واضح تصور نہ رکھتے ہوں، لیکن انہیں یہ خیال ضرور ہے کہ مروجہ اخلاقیات سے اگر وہ بچ نکلے تو شاید کسی بلند تراخلاقیات کی ایک جھلک دیکھ لیں۔ میں مانتا ہوں کہ یہ بڑا منفی جذبہ ہے، مگر دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ اپنے زمانے کے جھوٹ کا تجربہ کرتے کرتے وہ اوروں سے تو کیا، اپنے آپ سے بھی ڈرنے لگے ہیں اور یہ بذات خود ایک بڑا زبردست اخلاقی اصول ہے اور جس پر عمل کرنا کچھ فنکاروں ہی کو آتا ہے۔

    اچھا اب نئے فنکاروں کا ایک اور رجحان دیکھئے۔ اوپر میں نے جن نظریوں کی طرف اشارہ کیا ہے، ان کی رو سے ایک تکمیل یافتہ فن پارہ اپنی اثر انگیزی کے لحاظ سے تو ایک معروضی اور جمالیاتی چیز بن گیا اور اخلاقیات سے ماورا بھی ہو گیا، لیکن اب مشکل آ پڑی ہے موضوع کی۔ موضوع کی بجائے خود کوئی اہمیت ہو یا نہ ہو، لیکن فن پارے کا کوئی موضوع تو ہونا لازمی ہے۔۔۔ خصوصاً ادب میں۔۔۔ اخلاقی راؤں یا خیالات کوخیر الگ کر دیجئے، لیکن کم سے کم جذبات یا محسوسات سے متعلق ہوتے ہی ہم پھر اخلاقی معیاروں کی دنیا میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اس لیے فن کار، خیالات تو الگ رہے جذبات سے بھی بھڑکنے لگے۔ ویسے بھی وہ اپنے جذبات کومشکوک نظروں سے دیکھنے لگے تھے اور یہ سوال پوچھنے لگے تھے کہ یہ جذبات کیا اس قابل بھی ہیں کہ انہیں محسوس کیا جائے۔

    کسی اخلاقی تصور کے بغیر انسان کا دماغ یا روح تو کیا حواس خمسہ بھی جواب دے جاتے ہیں۔ چنانچہ بیسویں صدی میں واقعی فنکار یہ محسوس کر رہا ہے(میں سمجھتا ہوں کہ اس میں دوسری جنگ عظیم نے ابھی تک کوئی بہت بڑی بنیادی تبدیلی نہیں کی ہے اور فنکارکے مسئلے ابھی حل نہیں ہوئے ہیں، اس کے جذبات اور احساسات مردہ ہو چکے ہیں۔ ایلیٹ کی ان چار لائنوں میں اس موت کا اظہار، اس کے اسباب اور نتائج سب آجاتے ہیں۔)

    I have last my passion, why should I need to keep it Since what is kept must be

    adulterated I have lost my sight, smell, hearing, taste and Touch, How should I Use them

    for your closer contact,

    یوں ہونے کو تو ۳۰ء کے بعد کی انگریزی شاعری میں محسوسات کی بڑی فراوانی بلکہ ریل پیل ہے، مگر اس کی حقیقت بھی ایلیٹ نے بیان کردی ہے،

    Exoir the membrane, when The Sence

    Has cooled with pungent Sauces.

    تو ان فنکاروں کو جذبات کے بالکل ختم ہو جانے کا خطرہ لاحق ہے۔ جو جذبات باقی بھی ہیں ان کی قدر و قیمت کے بارے میں فنکار کو شک ہے۔ جس طرح وہ اوروں کی اقدار قبول کرنے سے انکار کرتا ہے، اسی طرح اپنے جذبات دوسروں کے اوپر ٹھونسنے سے ہچکچاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے جذبات کی ذمہ داری بھی نہیں لینا چاہتا۔ معروضیت پرجو اتنا زور دیا گیا ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔ جذبات سے گریز کا ایک دوسرا پہلویہ بھی ہے کہ فن کار کواقدار کے متعلق اپنے ماحول سے اتنا اختلاف ہے کہ وہ اپنے آپ کو اگر اوروں سے برتر نہیں تو الگ ضرور سمجھتا ہے، بلکہ کوشش کر کے اپنے آپ کوعلیحدہ اور مختلف رکھنا چاہتا ہے۔ یہ خواہش ایسی مجنونانہ شکل اختیار کرتی ہے کہ مثلا بودلیر لوگوں کے سامنے یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں بچے ابال ابال کر کھاتا ہوں۔ فنکار دوسرے مبتذل انسانوں سے کسی بات میں بھی مشابہت نہیں رکھنا چاہتا۔ اگر دوسروں کے اندر جذبات ہیں تو اس کے اندر بالکل نہیں ہونے چاہئیں۔ اسے دیوتاؤں کی طرح ان چیزوں سے بالا و برتر ہونا چاہئے اور کسی چیز سے متاثر نہیں ہونا چاہئے اور اگر وہ متاثر ہوتا بھی ہے یا اس کے اندر جذبات ہیں بھی تو کم سے کم دوسروں پر اس کا اظہار قطعا ًنہ ہونے پائے۔ یہ بوویلیر کے Dandy کی خاص صفت ہے۔

    جذبات سے اس گھبراہٹ کے دو حل تلاش کیے گئے۔ ایک تو یہ کہ نئے اور مبہم جذبات ڈھونڈے جائیں، جنہیں آج تک کسی نے محسوس ہی نہ کیا ہو، اور انہیں معمے کی شکل میں پیش کیا جائے تاکہ مبتذل عوام ان پر اپنے سے متعلق ہونے کا شبہ ہی نہ کر سکیں۔ یہ تو ہو اور لین اور میلارمے کا نقطہ نظر۔ دوسری طرف یہ کوشش بھی ہوئی کہ کسی طرح موضوع اور معنی ہی سے چھٹکارہ حاصل کیا جائے۔ چنانچہ یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ شعر کو بھی موسیقی کی طرح مناسبات سے آزاد ہونا چاہئے۔ موسیقی میں مختلف سروں کو سنتے ہوئے ہمیں یہ یاد نہیں آتا کہ یہ آواز تیتر کی ہے اور یہ بٹیر کی۔ ہم انہیں صرف آواز کی حیثیت سے سنتے ہیں اور آوازوں کے حسن ترتیب اور آہنگ سے محظوظ ہوتے ہیں۔ یہی کیفیت شعر میں بھی ہونی چاہئے۔ شعر پڑھتے ہوئے ہمارا ذہن معنی کی طرف نہ جائے بلکہ آواز ہی سے ہماری پوری تسلی ہو جائے۔

    افسانے یا نثر کومعنی سے آزاد کرانے کی کوشش فلابیر نے کی۔ اس کے خیال میں وہ زمانہ تو ہوا ہوا جب بڑا ادب پیدا ہوسکتا تھا۔ ہمارا زمانہ مبتذل، گندا اور بدہیئت ہے کہ حسن سے اس کا میل ہو ہی نہیں سکتا۔ لیکن چونکہ نئے ادیب کا موضوع اس زمانے کے علاوہ کوئی اور زمانہ ہوبھی نہیں سکتا، اس لیے اس کے لیے صرف یہ چارہ کار ہے کہ اپنے فن اور طرز تحریر کے زور سے اپنے موضوع کی گندگی اور بدصورتی دور کرے، ورنہ کم سے کم اسے بے اثر بنا دے۔ اس صورت میں موضوع کی بذات خود کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی۔ جو کچھ ہوا وہ طرز تحریر ہوا۔ تو کیا یہ ممکن نہیں کہ موضوع کے بغیر صرف طرز تحریر کی مدد سے ایک فن پارہ تخلیق کیا جا سکے؟ چنانچہ فلوبیر کا اپنے جذبات سے ڈر دیکھنے کے قابل ہے۔ ایک طرف تو وہ تمام عمریہ کہتا رہا کہ جو ناول میں لکھ رہا ہوں، یہ تو کچھ بھی نہیں ہے، ان میں متوسط طبقے کی تصویرکشی ہے اور یہ موضوع ہی نکما ہے، ذرا مجھے اپنی پسند کا موضوع مل جائے تو پھر واقعی میں کچھ کر سکوں گا۔ دوسری طرف اسے یہ حسرت رہی کہ وہ ایسا ناول لکھے جس کا کوئی موضوع نہ ہو، بلکہ جو صرف طرز تحریر کے بل پر زندہ ہو۔ غرض کہ اس دور میں یہ ایک عجوبہ ہمارے سامنے آتا ہے کہ بغیر کسی مواد کے لوگ تخلیق کی کوشش کر رہے ہیں۔

    یہ کوشش سرے سے لایعنی ہے، خصوصا ادب میں۔ موسیقی یا مصوری میں تو پھر بھی کسی حد تک فن پارے کو جمالیات کے اندر محدود رکھنا ممکن ہے۔ کیونکہ آوازوں، لکیروں اور رنگوں کو کچھ نہ کچھ خود مختارانہ معروضی حیثیت حاصل ہے۔ لکیروں کو اس طرح ترتیب دیا جا سکتا ہےکہ چاہے ان سے کوئی بڑا فن پارہ تشکیل نہ پائے، لیکن وہ ترتیب بجائے خود ہماری جمالیاتی تسکین کردے اور ہم اس کے بعد کسی اور قسم کا سوال نہ پوچھیں، لیکن لفظ اس طرح آزاد اور خود مختار نہیں ہیں جس طرح لکیریں یا آوازیں۔ لفظ خالص آواز نہیں ہیں نہ وہ فطری ہیں، بلکہ انسان کی ایجاد ہیں اور ایک خاص مقصد کے ماتحت ایجاد کیے گئے ہیں۔ لفظ توعلامتیں ہیں، وہ ہمارے ذہن کو ایک خاص تصور اور ایک خاص معنی کی طرف لے جاتے ہیں۔ لفظوں کو خالص بنانے کے لیے ہمیں ان کے مقصد کو نظر انداز کرنا پڑے گا اور اس کے بعد لفظوں اور آوازوں میں کوئی امتیاز ہی باقی نہیں رہ جائے گا۔ یعنی ادب موسیقی میں مدغم ہو کر غائب ہو جائے گا۔ تو جہاں تک ادب کا تعلق ہے، اگر ادب کو اپنی ہستی برقرار رکھنی ہے تو وہ موضوع اور معنی سے پیچھا نہیں چھڑا سکتا۔ معنی کے بغیر ادب پارہ محض گولر کا پھول ہے۔

    یہ چیز تو خیرعملی طور پر ناممکن تھی، لیکن یہ طے پایا گیا کہ فن پارے میں اصل چیز اسلوب یا طریقہ کار ہے۔ چنانچہ فنکاروں نے ہیئت کی پرستش شروع کردی اور اس میں اتنا غلو ہوا کہ PAULVALERY نے تو آخر یہ کہہ دیا کہ فن کار کی جد و جہد کا ما حصل طریقہ کار کی تلاش ہے۔ طریقہ کار مل جائے تو اس کے بعد اگر وہ فن پارے کی تخلیق نہ بھی کرے تب بھی کوئی ہرج نہیں۔ اب فنکار نہ تو جذبات ڈھونڈتا ہے، نہ موضوعات نہ اور کچھ، بلکہ صرف ہیئت۔ یہی ایک چیز ہے جس کی اسے دھن ہے۔ یوں اگر اس سے ہیئت کی تعریف پوچھی جائے تو وہ خالص جمالیاتی اوصاف بتائے گا کہ وضعی حسن کے لیے اجزا اور کل کی ہم آہنگی ضروری ہے۔ لیکن جب وہ ہیئت کا نام لیتا ہے تو نہ معلوم اس سے کیا کیا چیزیں مراد ہوتی ہیں، گویا ہیئت پورے فن پارے کی قائم مقام ہے۔

    ہیئت اس کی نظروں میں ایک ایسا اسم اعظم بن گئی ہے کہ یہ مل گیا تو سمجھئے کہ سب کچھ مل گیا۔۔۔ جذبات بھی، تخیلات بھی، موضوعات بھی اور مزا یہ کہ فنکار یہ کبھی تسلیم نہیں کرے گا کہ وہ ہیئت کے تصور میں اتنے عناصر شامل کرتا ہے، بلکہ ہیئت کے خالص جمالیاتی تصور پر اڑا رہے گا۔ اس خالص جمالیاتی تصور کی جستجو وہ اس شدت اور سرگرمی سے کرتا ہے جس طرح اہل تصوف خدا سے وصال کی آرزو کیا کرتے ہیں بلکہ در حقیقت ہیئت کی جستجو ایک قسم کا تصوف بن گئی ہے جس میں اصلی تصوف کے سارے لطف اور سارے کرب موجود ہیں۔

    لیکن نظریاتی حیثیت سے نہیں بلکہ عملی اعتبار سے غور کریں تو کیا واقعی ہیئت کا یہ تصور کہ ہیئت صرف جمالیاتی تسکین بہم پہنچانے والے وصنعی رشتوں کا نام ہے، کسی طرح حقیقی ہو بھی سکتا ہے؟ خاص طور پراد ب میں، موسیقی کے ایک ٹکڑے میں تو خیر آوازوں کو ترتیب دے کر حسین ہیئت پیدا کی جا سکتی ہے، لیکن پانچ سو صفحے کے ناول میں آوازوں کا باہمی رشتہ کس طرح قائم کیجئے گا اور ایسا نقش کس طرح وجود میں لائیے گا، جس میں نشوونما کی کیفیت نظر آئے اور جو شروع سے آخر تک محظوظ کر سکے؟ بفرض محال ایسا ہو بھی گیا تو اس فن پارے کو آپ ادب کہیں گے یا موسیقی؟

    ادب میں ایک بڑی پابندی یہ ہے کہ معنی کو آپ لفظوں سے خارج نہیں کر سکتے۔ اس لیےادب میں آپ کو دو قسم کی ترتیب کرنی پڑے گی اور دو نقشے بنانے پڑیں گے۔ ایک تو لفظوں کی ترتیب آواز کے لحاظ سے، دوسری ترتیب معنی کے لحاظ سے تو گویا ادب پارے میں دو ہیئتیں ہوں گی۔ ایک مادی، دوسری معنوی۔ جیسا میں نے ابھی کہا تھا، آوازوں کی ترتیب کا سلسلہ پانچ سو صفحے تک جاری نہیں رکھا جا سکتا۔ لیکن معنوی ہیئت اس کی متحمل ہو سکتی ہے۔ لہٰذا ادب پارے میں مجبوراً مادی ہیئت کا انحصار معنوی ہیئت پر ہوگا، لیکن معنی کا تصور اقدار کے تصور کے بغیر ہوہی نہیں سکتا۔ معنی کی ترتیب کے لیے صرف حسن اور بدصورتی کے معیاروں سے کام نہیں چلے گا۔ اس میں نیکی اور بدی، سچ اور جھوٹ کے تصورات کا دخل بھی لازمی ہوگا، تو جس چیز سے بچ کر بھاگے تھے، اس سے پھر دوچار ہونا پڑا۔ فنکار چاہے یا نہ چاہے، اخلاقیات کا جوا، اس کی گردن پر رکھا ضرور رہے گا۔

    اس کی ایک مزیدار مثال دیکھے۔ ادھر کچھ مصوروں نے دعویٰ کیا کہ وہ رنگوں کو مناسبات سے بالکل اسی طرح آزاد کرانا چاہتے ہیں جس طرح موسیقی میں آوازیں آزاد اور خالص ہیں، چنانچہ یہ اسکول اس قسم کی تصویریں بناتا ہے کہ ایک مربع یا مستطیل بنا لیا۔ اسے چھوٹے بڑے خانوں میں بانٹا اور کسی خانے میں زرد رنگ بھر دیا، کسی میں نیلا، کسی میں سفید۔ اس کی تفسیریوں کی جائے گی کہ مثلا زرد رنگ جنت یا نشاط محض کی نمائندگی کرتا ہے، سرخ رنگ دوزخ یا کرب محض کی وغیرہ وغیرہ۔۔۔ بالکل وہی بات ہوئی،

    اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے

    واقعی اخلاقیات ایسا دام سخت ہے اور آشیاں کے اتنے قریب کہ اس سے بالکل مفر ممکن ہی نہیں۔ ہیئت کی تکمیل کے لیے اخلاقیات یوں اور بھی ضروری ہے کہ فطرت میں ہر ہیئت کا مقصد ہوتا ہے۔ ہر چیز کی شکل حیاتیاتی قانونوں کی پابندیاں ان سے ہم آہنگ ہوتی ہیں۔ چنانچہ فن پارے میں بھی معنوی ہیئت بغیر کسی اخلاقی تصور کے ممکن نہیں۔ حالانکہ جوئس پر جمال پرستی اور زندگی سے دوری کی تہمت تو لگائی جاتی ہے مگر اس نے اس حقیقت کا اظہار بڑے بے باک طریقے سے کر دیا ہے۔ جوئس کا فن کار اسٹیون آرٹ کو حسن کے تصورکی تشکیل سمجھتا ہے۔ وہ خود بھی آرٹ کی تخلیق کرنا چاہتا ہے لیکن ابھی وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکا۔ غالباً ابھی اس کے پاس حسن کا کوئی تصور ہی نہیں ہے، ناول کے آخر میں اسٹیون کا کہنا ہے کہ میں اپنی روح کی بھٹی میں اپنی نسل کا ضمیر ڈھالنے جا رہا ہوں، جو ابھی تک پیدا ہی نہیں ہوا۔ یعنی سب سے پہلے اسے نیکی اور صداقت کے تصور کی تلاش ہے اور اس کی مدد سے حسن کا تصور حاصل کرنے کی امید ہے۔ حسن بھی ضمیر ہی سے پیدا ہوتا ہے اور ضمیر سے کنارہ کش ہو کر حسن کا خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔ ایز راپاؤنڈ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ہیئت آرٹ کے لیے سرے سے ضروری ہی نہیں۔ مثال کے طور پر اسے ہومر کے یہاں ہیئت کی موجوگی سے انکار ہے، یعنی ان معنوں میں جو لفظ ہیئت کو انیسویں صدی میں پہنائے گئے ہیں۔

    ہیئت آرٹ کے لیے لازمی ہویا نہ ہو، بہرحال خالص جمالیاتی ہیئت ادب میں بالکل بے معنی چیز ہے۔ ایک ایسا سراب ہے جس میں ذرا بھی اصلیت نہیں۔ اس کا حصول اسی قدرممکن ہے جتنی پریوں سے ملاقات۔ ہیئت کی جستجو نے فلوبیر کو جس طرح ناکوں چنے چبوائے ہیں وہ بھی عبرت ناک چیز ہے لیکن فنکار میں ایک بات بڑی مخدوش ہے۔۔۔ ترقی پسندوں اور آرٹ کے دوسرے دشمنوں کے لیے، وہ یہ کہ آپ فنکار پر کوئی ایسا اعتراض نہیں کر سکتے جس سے وہ پہلےسے واقف نہ ہو۔

    فلوبیر نے بار بار کہا ہے کہ بڑے ادیبوں کی عظمت آرٹ یا طرز بیان پر مبنی نہیں، کبھی کبھی وہ بہت ہی برا لکھتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بلکہ شاید اسی وجہ سے ان کی عظمت میں کوئی فرق نہیں آتا۔ لیکن یہ سب تسلیم کرنے کے بعد وہ پھر یہی اصرار کرتا ہے کہ ہم جیسے دوسرے درجے کے آدمیوں کے لیے تو اس کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں کہ آرٹ یا طرز بیان کا سہارا لیں۔ چنانچہ آرٹ کی دھن میں اس نے اپنے آپ کو ایسے ایسے درد اور کرب میں مبتلا کیا ہے کہ بلبلا بلبلا اٹھا ہے۔ کبھی کہتا ہے کہ یہ طرز بیان کا عفریت میری جان اور جسم دونوں کو گھلائے دے رہا ہے۔ کبھی چیخ اٹھتا ہے ’’آرٹ،آرٹ، زہرناک فریب، بے نام بھوت، جو چمک چمک کر ہمیں لبھاتا ہے اور ہمیں تباہی کی طرف لے جاتا ہے!‘‘

    فلوبیر خوب جانتا تھا کہ اس کے اندر توانائی اور تخلیق کی قوت پیدا کرنے کے لیے جس چیز کی ضرورت ہے وہ طرز بیان نہیں بلکہ زندگی کے ایک نئے تصور، اخلاقیات کے ایک نئے معیارکی ہے۔ اپنے دل پسند موضوع کا انتظار یہی معنی رکھتا ہے کہ اسے ایک نئے نظام اقدار کی جستجو تھی۔ زندگی کے پیدا ہونے کا منظر تو خیر اس نے ST.ANTHONY میں دیکھ لیا تھا اور یہ منظربڑا جاں فزا اور روح پرور ثابت ہوا تھا، لیکن زندگی نے جو راہ اختیار کر لی ہے اسے کیسے قبول کیا جائے اور اپنے آپ کو اس سے کس طرح ہم آہنگ بنایا جائے، اس کا نسخہ فلوبیر ساری عمر ڈھونڈتا رہا اور کبھی نہ پا سکا۔ اس ہم آہنگی کی ایک جھلک تو خیر اس نے ایک لمحے کے لیے A SIMPLE SOUL میں دیکھ لی تھی۔ لیکن مستقل طور پر اس کی روح کو تسکین کبھی نہ ہو سکی اور ہمیشہ ایک نئی معنویت کی تلاش میں رہا۔ لیکن جو وجوہات میں نے اس مضمون کے شروع میں بیان کردی ہیں، ان کی بنا پر اسے یہ جرأت نہیں ہو سکی کہ یہ بات تسلیم کر لے۔ اسے جستجو تھی نئی اخلاقیات کی اور وہ اپنے آپ کو سمجھاتا یہ رہا کہ مجھے آرٹ کی ضرورت ہے۔ یہی کمزوری اس کی ساری روحانی اذیتوں کی جڑ ہے۔

    یہی حال کم و بیش اور فنکاروں کا بھی ہے۔ ہیئت کے پردے میں در اصل وہ معنویت ڈھونڈ رہے ہیں۔ صنعتی دور کی زندگی بے شکل اور بے ہیئت زندگی ہے۔ اس کے اجزاء اور کل کے درمیان نامیاتی ربط باقی نہیں رہا۔ زندگی اور جن چیزوں پر زندگی مشتمل ہے ان کا کوئی مقصد متعین نہیں رہا۔ چنانچہ ان سب کی معنویت مدھم پڑتی جا رہی ہے۔ جب تک زندگی میں مقصد، معنویت، ہم آہنگی اور ہیئت باقی تھی، فنکار کو شعوری طور پر ان چیزوں کے لیے کاوش نہیں کرنی پڑتی تھی۔ لیکن آج جب یہ چیزیں غائب ہیں اور فنکار اپنے اندر اتنی طاقت نہیں پاتا کہ سماج میں انہیں دوبارہ واپس لا سکے تو وہ لامحالہ آرٹ کی طرف مڑتا ہے اور وہاں ان سب کا نعم البدل حاصل کرنا چاہتا ہے۔

    چونکہ فن پارے میں وہ ہم آہنگی اور ہیئت پیدا ہو جاتی ہے جو زندگی میں مقصود ہے، اس لیے وہ فن پارے کو زندگی سے الگ حقیقت سمجھتا ہے اور زندگی کی اقدار کو آرٹ پرعائد نہیں کرنا چاہتا۔ چونکہ ماحول اسے اقدار کا کوئی معیار، زندگی کا کوئی مقررہ سانچا مہیا نہیں کرتا اس لیے وہ فن پارے کی تخلیق اور اس کے اجزاء کی ترتیب کے اصول جمالیات سے مانگتا ہے۔ مثال کے طور پر پہلے ناول نگاروں کے لیے ایک گڑھی گڑھائی ہیئت موجود تھی۔ ایک مرد کسی عورت پرعاشق ہوتا ہے۔ ان کے راستے میں مشکلات آتی ہیں۔ لیکن آخر یہ مشکلات دور ہو جاتی ہیں، دونوں کی شادی ہو جاتی ہے اور وہ ہنسی خوشی عمر بسر کر دیتے ہیں۔

    لیکن آج کل زندگی کا کوئی سانچا موجود نہیں، ہر آدمی کی زندگی ایک نئی شکل اختیار کرتی ہے یا اوروں کی طرح بے شکل رہتی ہے۔ پہلے ناولوں میں ہیرو سے ہماری دلچسپی ناول کےخاتمے کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی تھی اور ہم سمجھ لیتے تھے کہ اب اس کے بعد کوئی خاص بات نہیں ہوئی ہوگی۔ ہیرونے باقی زندگی اس طرح بسر کی ہوگی جس طرح اور لوگ بسر کرتے ہیں۔ لیکن اب ناول اور افسانے اس طرح ختم ہوتے ہیں کہ آخر میں ہیرو کو زندگی کا کوئی نیا راستہ نظر آتا ہے اور وہ اس پر چل کھڑا ہوتا ہے، یہ بھی نہ ہو، تب بھی ہیرو کی زندگی میں جیسی باتیں ہوتی رہی ہیں، ناول کے خاتمے کے بعد بھی ایسی بہت سی باتیں ہو سکتی ہیں۔ چنانچہ اس ہیرو کی زندگی میں منزل کوئی نہیں بس چلنا ہی چلنا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ ناول کو آپ جہاں چاہیں ختم کر سکتے ہیں اور چاہیں تو ناول کا دوسرا اور تیسرا حصہ بھی لکھ سکتے ہیں۔

    تو زندگی آپ کو یہ نہیں بتاتی کہ کہاں شروع کریں اور کہاں ختم کریں۔ زندگی آپ کو کوئی معنوی ہیئت فراہم نہیں کرتی۔ اس لیے اپنے فن پارے کی خاطر آپ کو جمالیاتی ہیئت ہی ڈھونڈنی پڑتی ہے جو اپنی خالص شکل میں ناممکن ہے۔ لہٰذا فنکار مجبور ہو کر وہ معنوی ہیئت بھی اپنے آپ ہی تلاش کرے، یہاں آکر ہیئت کی تلا ش اخلاقیات کی تلاش بن جاتی ہے۔ موجودہ زمانے کا آرٹ صرف زندگی کا نعم البدل ہی نہیں ہے بلکہ زندگی اور زندگی کی معنویت کی جستجو بھی ہے۔ یوں تو یہ بات آرٹ کے متعلق کہی جا سکتی ہے۔ لیکن نئے آرٹ کے متعلق خاص طور پر اور اس حیثیت سے یہ آرٹ ایک عظیم الشان اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ زندگی کی تلاش کے دوسرے ذرائع زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہوئے ہیں اور انسان کو معنویت ڈھونڈ کر دینے کا فریضہ فن کاروں کے سر آ پڑا ہے۔

    یہ سمجھنا بڑی غلطی ہوگی کہ فنکار اس سارے عمل سے بے خبر رہے ہیں۔ اپنے آپ سے لاعلمی فنکار کی صفتوں میں سے نہیں۔ اخلاقیات سے بے نیاز ہو جانے کی خواہش ضرور ان کے دل میں موجود تھی، لیکن وہ اس سے پیچھا نہیں چھڑا سکتےتھے۔ فلوبیر سے لوگوں کو شکایت تھی کہ وہ سیاست سے بالکل بے تعلق ہوگیا ہے۔ اس کے جواب میں اس نے کہا کہ میری مصیبت یہ ہے کہ میں ضرورت سے زیادہ سیاست میں الجھا رہتا ہوں۔ اسی طرح ۱۸۷۰ء میں فرانس کی شکست کے بعد اس نے کہا تھا کہ اگر لوگ میری کتاب SENTIMENTAL EDUCATION پڑھ لیتے تو یہ حادثہ کبھی رونما نہ ہوتا۔ فلوبیر کیا معنی، یہ سارے فن کار، شاید اپنی مرضی کے خلاف سیاست اور اخلاقیات سے بہت مشغول تھے۔ بودلیر نے ان فنکاروں کی پوری کیفیت ایک جملے میں بیان کردی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ انسان کے خون میں جمہوریت اس طرح شامل ہے جیسے آتشک کے جراثیم۔ اس سے کوئی کیسے بچ سکتا ہے۔ فلوبیر اور جوئس کے ہر ناول میں کوئی نہ کوئی اخلاقی تصور پایا جاتا ہے اور اسی کی بدولت ان میں فنی ہم آہنگی اور ہیئت کا حسن آتا ہے،۔ جوئس کے یہاں تو پھر بھی یہ اخلاقی تصور پس پردہ رہتا ہے، لیکن فلوبیر کے یہاں تو ناول کی پوری نشو و نما ہی اس تصورکے زور سے ہوتی ہے اور اسی سے ناول میں حرکت پیدا ہوتی ہے۔

    آخر میں ایک نظر نفسیات اور ہیئت کے تعلق پر بھی ڈالتے چلیں۔ نئی نفسیات کے وجود میں آنے سے فنکاروں کو یہ امید بندھی تھی کہ شاید اس کی مدد سے وہ اخلاقیات سے چھٹکارہ پا سکیں۔ خیر نئی نفسیات ہمیں اخلاقیات سے تو آزاد کر سکتی ہے۔ کیونکہ اگر ہم انسان کو نفسیاتی مرکبات یا جبلتوں کا کھلونا مان لیں تو اپنے افعال کی ذمہ داری اس پر باقی نہیں رہتی اور جب انسان خود مختار نہیں رہا تو اخلاقی معیاروں کا سوال بھی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن نفسیات اخلاقیات کے ساتھ ساتھ ہیئت کو بھی ختم کر دیتی ہے، کیونکہ نفسیات صنعتی دور کی بے شکل زندگی کو اور بھی بے شکل بنا دیتی ہے۔

    نفسیات کے نزدیک انسان ایک عمل ہے جو موت کے وقت تک بے رکے جاری رہتا ہے۔ اس عمل کی بہت سی شاخیں ہیں، سوچنا، محسوس کرنا وغیرہ۔ چونکہ نفسیات اخلاقیات سے ماورا ہے اس لیے اس عمل کا کوئی مقصد بھی نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس عمل کا ہر لمحہ دوسرے لمحوں سے بالکل مختلف اور انوکھا ہے۔ اس لیے آپ ان لمحوں کو کسی نقش کی شکل میں بھی ترتیب نہیں دے سکتے۔ اس عمل میں کسی قسم کا آہنگ نہیں ملتا۔ یہی عمل آپ کا موضوع ہے، اب آپ کے موضوع میں نہ تو کوئی آہنگ ہے نہ اس کی کوئی شکل ہے اور اخلاقیات کی مدد آپ لینا چاہتے نہیں، تو بتائیے کہ اس صورت میں آپ کے فن پارے کو ہیئت کیسے حاصل ہو سکتی ہے۔

    ادب میں مکمل تاثریت تو ممکن ہی نہیں یا ممکن ہے تو صرف اس طرح کہ ہیئت اور ترتیب کا کوئی نشان نہ ہو۔ آپ مجبور ہیں کہ اس عمل میں سے ایک ٹکڑا کاٹیں لیکن یہ ٹکڑا کہاں سے شروع ہو اور کہاں ختم ہو؟ اس میں نہ تو جمالیات آپ کی مدد کر سکتی ہے نہ نفسیات، جب آپ ایک خاص جگہ سے شروع کریں گے اور ایک خاص جگہ ختم کریں گے تو فورا ایک چیزکو دوسری چیز پر ترجیح دینے کا، اقدار کا، اخلاقی معیاروں کا سوال پیدا ہو جائے گا۔ آرٹ کیا معنی، زندگی کے کسی شعبے میں بھی اخلاقیات کی آمیزش کے بغیر خالی نفسیات کارآمد نہیں ہو سکتی۔ اخلاقیات کے بغیر نفسیات کے کوئی معنی ہی نہیں ہیں۔ جو لوگ اس حقیقت پر نظر نہیں رکھتے اور احتیاط سے کام نہیں لیتے وہ غیر جانبداری کے باوجود صنعتی اخلاقیات کا شکار ہو جاتے ہیں۔

    مثال کے طور پر نفسیات کا ماہر کہے گا کہ بودلیرمیں قوت ارادی نہیں تھی اور فورڈ میں بہت زیادہ تھی۔ کیونکہ بودلیر روپیہ نہیں کما سکا اور فورڈ نے کروڑوں روپے پیدا کیے۔ حالانکہ شاعری کے لیے جس قوت ارادی کی ضرورت ہے اسے کچھ شاعر ہی کا دل جانتا ہے۔ وہی بات ہے جیسا قرآن شریف میں آیا ہے کہ اگر ہم اس کتاب کو پہاڑ پر نازل کرتےتو وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا۔ فورڈ صاحب تو بیچتے کیا ہیں۔ بہرحال اگرکوئی بورژوا، شاعر کے کباب مانگے تو بہت سے ماہرین نفسیات کو انکار نہ ہوگا۔ صنعتی اخلاقیات سے بچ بھی جائیں تو بھی کسی نہ کسی اخلاقیات کا سہارا لئے بغیر کام نہیں بنتا۔

    SURREALISTS نے کوشش کی تھی کہ خالص نفسیاتی آرٹ پیش کیا جائے گا جو بالکل غیر شعوری ہو اور اخلاقیات کا پابند نہ ہو۔ لیکن اپنی تخلیقات میں معنی پیدا کرنے کےلیے انہیں بھی مارکسیت کی ضرورت پڑی۔

    غرض کہ جمالیات ہو یا نفسیات، کوئی چیز فنکار کو اخلاقی ذمہ داری سے آزاد نہیں کر سکتی۔ اس کا کام حسن کی تخلیق ضرور ہے مگر نیکی اور صداقت سے قطع تعلق کر کے وہ حسن کو بھی نہیں پا سکتا۔ ہیئت کا افسانہ گڑھ کے فن کاروں نے اخلاقیات سے نکل بھاگنے کی تو بہتیری کوششیں کیں لیکن گھوم گھام کے انہیں پھر وہیں آنا پڑا جہاں سے چلے تھے۔

    اس مضمون میں میں نے اس زمانے کے فن کاروں کے ایک رجحان کا ذکر کیا ہے اور صرف یہ بتایا ہے کہ وہ اخلاقیات سے کنارہ کشی اختیارکرنے کی کوشش میں ناکامیاب رہے۔ یہ رجحان نظریاتی زیادہ ہے عملی کم۔ انہیں فن کاروں کی تخلیقات میں زمانے کی اخلاقی حالت کا جیسا تجزیہ اور نئی اخلاقیات کے قیام کی جیسی شدید خواہش ملتی ہے، وہ سیاست یا فلسفے یا اور شعبوں میں نظر نہیں آتی۔ اگر وہ اخلاقی رائیں یا خیالات ظاہر کرتے ہوئے گھبراتے ہیں تو یہ بھی ان کی ایمانداری اور صداقت پرستی ہے، ورنہ پیغمبری کا دعویٰ کیے بغیر اور اپنی بے چارگی کے اعتراف کے باوجود، انہوں نے اپنے زمانے کے حساس آدمیوں کی زندگی کو اس طرح بدلا ہے جو ایک عظیم انقلاب کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی کیا کم ہے کہ انہوں نے ایک لمحے کے لیے بھی ریاکاری نہیں برتی اور اپنے متعلق کبھی جھوٹ نہیں بولا۔

    بودلیر کی اس ایک لائن ’’میرے ریاکار پڑھنے والے، میرے بھائی، میرے ہم شکل۔‘‘ اس ایک لائن میں جو انقلاب انگیز اخلاقیات پنہاں ہے، اس سے بڑے بڑے اخلاقی معلم خالی ہیں۔ اس پچھلی ایک صدی میں فن کاروں نے جوکچھ کیا ہے، وہ ادب اور فن کے لیے باعث عار نہیں، بلکہ ان کی تخلیقات نے آرٹ کو سچائی، قوت اور اہمیت کی ایک نئی گواہی پیش کی ہے۔ فن کاروں نے دکھا دیا ہے کہ اوروں کو روپیہ سے، عہدوں سے یا رنگین آدرشوں کے لالچ سے خریدا جا سکتا ہے، مگر فنکار جب تک کہ وہ فنکار ہے، خرید و فروخت سے بالاتر ہے، کیونکہ اس کے لیے سب سے بڑی حقیقت اس کے اعصاب ہیں اور اعصاب جھوٹ نہیں بولا کرتے۔ اسی لیے فن برائے فن کا نعرہ ایک اخلاقی حقیقت ہے اور اخلاقیات کا ممد و معاون ہے۔ جب کوئی سیاسی یا اخلاقی حادثہ رونما ہوتا ہے تو میں بڑے رنج کے ساتھ کہتا ہوں ’’کاش لوگ بودلیر پڑھتے!‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے