ہماری شاعری پر ایک نظر ثانی
نیمارہ نمائے من است، امامن ساختۂ خودم
فروغ فرخ زاد
اس وقت بالکل یاد نہیں کہ مسعود حسن رضوی ادیب کا نام پہلی بار کب سنا تھا۔ یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ حالی اور محمد حسین آزاد کی طرح مسعود حسن رضوی ادیب کا نام بھی میرے ذہن میں اس وقت سے محفوظ ہے جب میں نے اپنے گھر اور اسکول میں اردو ادب کے چرچے سنے اور جس طرح میرے لیے حالی کی پہچان ’’مقدمہ‘‘ اور آزاد کی علامت ’’آب حیات‘‘ تھی، اسی طرح مسعود حسن رضوی ادیب کی دلیل ’’ہماری شاعری‘‘ تھی۔
مسعود حسن رضوی ادیب کی حد تک یہ اتفاق شناخت میرے لیے اس قدر زبردست تھا کہ ایک عرصے تک میں اسے ان کی واحد تصنیف سمجھتا رہا۔ مطالعے کے لیے جو نسخہ میرے ہاتھ لگا تھا وہ غالباً کتاب کا پہلا ایڈیشن تھا کیونکہ اس کی تقطیع بڑی، کاغذ بادامی مائل موٹا اور قلم خاصا موٹا تھا۔ مصنف کی تصویر بھی زینت کتاب تھی۔ یہ کوئی ۲۷۔ ۲۸ برس پہلے کی بات ہے۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ کتاب کے تمام مطالب میری سمجھ میں آ گئے تھے، لیکن اتنا یقیناً سمجھا کہ مصنف زبردست عالم اور سخن فہم ہے۔
اور اب ۱۹۷۴ میں جب اس کتاب کو اس نیت سے دیکھتا ہوں کہ اس کے بارے میں تفصیلی اظہار کروں تو بچپن کے نقوش (اور بعد کی بازدید کے تاثرات) پر ایک بار مہر توثیق ثبت ہو جاتی ہے۔ ۱۹۷۰ میں اپنا مضمون ’’شعر، غیرشعر اور نثر‘‘ لکھتے وقت مجھے ’’ہماری شاعری‘‘ سے جستہ جستہ استفادہ کرنے کا موقع ملا تھا۔ ۱۹۷۴ کی تنقیدی نظر ثانی، ۱۹۷۰ کے نامکمل اور بقدر ضرورت مطالعے کے مقابلے میں زیادہ باریک بین ہے، اور اسی اعتبار سے اس کتاب کی قوت اور کمزوری اور اس کے مصنف کی شخصیت کے بارے میں تاثرات بھی زیادہ واضح اور تفصیلی ہیں۔
موجودہ مطالعے کے لیے میں نے اس کا تازہ ترین ایڈیشن (۱۹۷۱) سامنے رکھا ہے۔ محتویات کے اعتبار سے اس میں اور ۱۹۶۴ والے ایڈیشن میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ۱۹۶۴ کے ایڈیشن کے لیے مسعود حسن رضوی ادیب نے ایک انتہائی پر مغز اور بنیادی مسائل کو چھیڑنے والا مقدمہ لکھا تھا۔ یہ مقدمہ ایک طرح سے کتاب کے مباحثے اور مصنف کے نظریات کا نچوڑ بھی ہے اور ان کی پشت پناہی بھی کرتا ہے۔ لیکن اس کی اہمیت کا ایک اور پہلو بھی ہے، یعنی اس سے مصنف کی شخصیت کے بعض گوشے بےنقاب ہوتے ہیں اور ان میں سب سے اہم گوشہ اس کی انانیت ہے۔
پہلے ایڈیشن کا انتساب گیارہویں ایڈیشن تک برقرار رکھا گیا ہے۔ اس انتساب میں اس انانیت کی ہلکی سی جھلک ملتی ہے، جو دسویں ایڈیشن کے دیباچے میں ہزار حزم واحتیاط کے باوجود صاف موجزن نظر آتی ہے۔ سعدی، محمد حسین آزاد اور اسٹیونسن (Robert Louis Stevenson) کے نام انتساب بجائے خود کوئی قابل ذکر بات نہ تھی، لیکن یہ خیال کہ ’’کیا عجب ان ناموں کی برکت سے قبول عام کی ہوا ان پھولوں کو سدا بہار کر دے۔‘‘ یقینا جرأت طلب تھا۔ اپنی تحریروں کو پھولوں سے تشبیہ دینا اور پھر کسی نہ کسی توسط سے ان کے سدا بہار رہنے کی خواہش کرنا ابوالکلامی انانیت کی یاد دلاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ان ناموں کی برکت سے زیادہ شاید خود تحریر کی قوت نے اسے اب تک تو ہرا بھرا رکھا ہی ہے اور آئندہ بھی اس کے محو ہو جانے کااندیشہ نہیں ہے۔ لیکن خودپسندی چاہے کتنی ہی حق بہ جانب ہو یا حق بہ جانب نکلے، بہر حال خود پسندی ہی رہتی ہے۔
اسی انانیت یا ادعائیت کی جھلکیاں متن کتاب میں بھی ملتی ہیں، کثرت سے نہیں۔ مثلاً، ’’بدیہات کے لیے دلیل کی حاجت نہیں۔‘‘ (صفحہ ۷۴) (ممکن ہے جو بات آپ کے لیے بدیہی ہو، وہ دوسرے کے لیے مبہم، گنجلک اور محتاج دلیل ہو) یا ’’آزاد نظموں میں لنگڑی لولی بحروں کے استعمال سے ایک بے ڈھنگا پن آ گیا ہے۔‘‘ (یہ بات تو بدیہی نہیں ہے، یہاں تو دلیل ضروری تھی۔ ) یا ’’بیسویں صدی کے ہندوستانی، کاغذی پیرہن اور الف صیقل کو کیا جانیں۔ ایسی غیرمشہور چیزوں کے ذکر سے یہ شعر عام نگاہوں میں سادگی سے گر گئے۔‘‘ (صفحہ ۴۷) ’’بیسویں صدی کے ہندوستانی‘‘ اور ’’عام نگاہوں‘‘ کے مضمرات کو تلاش کرنا بہت مشکل نہیں ہے۔ لیکن انانیتی اشارے محض اشارے ہیں۔ ان پر نظر ہی شاید نہ پڑتی، اگر ۱۹۶۴ کے دیباچے میں اس قسم کے بیانات قدم قدم پر نہ ملتے،
(۱) ’’یہ مطالب اس ترتیب، تفصیل اور توضیح کے ساتھ اس سے پہلے نہیں بیان کیے گئے تھے۔‘‘ (صفحہ۲۳)
(۲) ’’کتاب میں بیان کی صفائی اور دل کشی قائم رکھنے کے لیے لفظوں کے انتخاب میں جتنی کاوش کی گئی ہے اور نازک خیالوں کو اجنبی لفظوں، غیرمانوس ترکیبوں اور علمی اصطلاحوں سے بچ کر عام فہم زبان اور دل نشیں انداز میں ادا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔۔۔‘‘ (صفحہ۲۵)
(۳) ’’یہ کتاب مدت کے غوروفکر، تلاش و تجسس، وسیع مطالعے اور عمیق مشاہدے کا نتیجہ ہے۔‘‘ (صفحہ۲۸)
عطار بگوید کے اس مظاہرہ کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ اب کتاب میں جہاں کوئی خفیف سی بھی ادعائی بات دکھائی دی، نظر اس پر ٹھٹکی۔ دیباچے کے دعاوی میں جو وعدے مضمر تھے۔ (اس کتاب میں کوئی بات بلا دلیل نہیں کہی گئی ہے وغیرہ) وہ ہر اس بے دلیل بات کا دامن کھینچتے ہیں جس میں دلیل کی ذرا سی بھی گنجائش تھی۔ ایسے بیانات کی ایک دو مثالیں اوپر نقل کر چکا ہوں۔ اگر دیباچہ اس طرح کانہ ہوتا تو پڑھنے والے کی آنکھ بھی شاید اتنی نکتہ چیں نہ ہوتی۔ لیکن مشکل یہ بھی ہے کہ میں آپ کو یہ مشورہ بھی نہیں دے سکتا کہ آپ دیباچہ نہ پڑھیں یا اسے نظر انداز کر دیں۔
جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ دیباچے میں بعض اہم نظریاتی بیانات ہیں جو کتاب کے مباحثے کا نچوڑ بھی ہیں اور ان کی پشت پناہی بھی کرتے ہیں۔ لہٰذا کتاب کاکوئی محاکمہ دیباچے کا احاطہ کیے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ ’’مقدمۂ شعروشاعری‘‘ اور ’’ہماری شاعری‘‘ میں ناگزیر موازنہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسعود حسن رضوی ادیب نے دیباچے میں لکھا ہے، ’’حالی کا مقدمہ اور مسدس، دونوں سے صاف ظاہر ہے کہ شعروشاعری کے بارے میں ان کا نقطۂ نظراخلاقی ہے۔ پیش نظر کتاب کے مطالعے سے واضح ہوگا کہ اس کے مصنف کا نقطۂ نظر ادبی ہے۔ لیکن حالی کی رایوں سے اختلاف کرنا مقصود نہیں ہے، بلکہ جو کچھ انہوں نے چھوڑ دیا تھا، اسے پورا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔‘‘
اخلاقی نقطۂ نظر سے مراد غالباً یہ ہے کہ شعر کی خوبیوں کو ان اخلاقی خوبیوں کے تابع سمجھا جائے جن کی تعلیم یا تذکرہ اس میں ملتا ہے۔ اس طرح ادبی نقطۂ نظر سے مراد یہ ہوگی کہ شعر کی خوبیوں کے تصور کو اخلاقی تعلیمات کی خوبیوں یاخرابیوں کا تابع نہ سمجھ کر صرف ادبی معیاروں کا محکوم ٹھہرایا جائے۔ دوسرے الفاظ میں، اخلاقی نقطۂ نظر شعر کی کارآمدگی اور اس کی فائدہ مندی کو اس کا حسن اور جواز قرار دیتا ہے، جب کہ ادبی نقطۂ نظر صرف فنی محاسن کو شعر کو خوبی کا پیمانہ بتاتا ہے۔ اصولی طور پر تو یہ بات بالکل درست ہے، اور میرے اپنے خیال کے مطابق ادبی نقطۂ نظر ہی صحیح اور ایمان دارانہ تنقید کا سرچشمہ ہو سکتا ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ نہ تو حالی کا نقطۂ نظر سراسر اخلاقی ہے او نہ مسعود حسن رضوی ادیب ہی اپنے رویے کو خالص ادبی تاملات (Consideration) تک محدود رکھ سکے ہیں۔
مسعود حسن رضوی ادیب کی طرح حالی بھی شعر کی ماہیئت پر غور کرتے ہیں، شاعر بننے کے لیے جو شرائط درکار ہیں ان سے بحث کرتے ہیں، شعر کی خوبیاں پہچاننے کے لیے ادبی معیار وضع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور حالی ہی کی طرح مسعود حسن رضوی بھی شعر کی افادیت، اس کی کارآمدگی اورعملی زندگی میں اس کی اہمیت پر اصرار کرتے ہیں۔ چنانچہ ’’ہماری شاعری‘‘ کے پہلے باب کا عنوان ہی ہے، ’’جذبات کی اہمیت اور شعر کی افادیت۔‘‘ افادیت کے سلسلے میں ان کا کہنا ہے، ’’یہ سچ ہے کہ شعر سے لازمی طور پر کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ لیکن اگر ذہن کی تیزی، دل کی شگفتگی، روح کی بیداری اور اخلاق کی استواری کا شمار بھی فائدوں میں ہے، تو شعروشاعری کے مفید ہونے کا کون انکار کر سکتا ہے۔‘‘ (صفحہ۲۴)
حالی نے شعر کے مخرب اخلاق ہونے پر تفصیلی تنقید کی ہے۔ خالص ادبی نقطۂ نظر سے شعر کے مخرب یا مصلح اخلاق ہونے کا تصور بے معنی ہے۔ لیکن اس کے باوجود مسعود حسن رضوی کہتے ہیں، ’’انسانی اخلاق کی تکمیل کے لیے شعروشاعری کی ضرورت کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ مگر اس حقیقت کا اقرار بھی ضروری ہے کہ جو شاعری بعض مخصوص جذبات کو ابھارے اور باقی کو دبائے، اس کا اثر اخلاق پر کچھ اچھا نہ ہوگا۔۔۔ ہمارے شاعروں کے دیوان زیادہ تر رنج وغم، حسرت ومایوسی کے دفتر ہیں۔۔۔ اور اگر کسی شاعر کا دکھ بھرا دل درد والم کے دریا بہائے تو بھی کچھ نقصان نہیں۔ ہاں اگر شاعر آہ وزاری، اضطراب وبے قراری ہی کو موضوع شاعری سمجھ لے، تو ضرور قوم کا دل افسردہ اور طبیعت مردہ ہوکر اس کی قوت عمل میں کمزوری آ جائےگی۔‘‘
’’اب ضرورت ہے ایسے شاعروں کی۔۔۔ جو دلیری اور جاں بازی کے جذبات کو بھڑکائیں۔۔۔ اور ملک میں حب وطن اور قوم پرستی کی روح پھونکیں۔‘‘ (صفحہ۳۸ تا۳۹)
ظاہر ہے کہ وہ مسعود حسن رضوی ادیب جو اخلاق کی استواری کو شاعری کے فوائد میں ایک بڑا فائدہ گنتے ہیں، جو ’’وہ آہ وزاری اور اضطراب وبےقراری‘‘ پر مبنی شاعری کو قوم کے لیے نقصان دہ ٹھہراتے ہیں اور جو شعرا کو تلقین کرتے ہیں کہ وہ ’’حب وطن اور قوم پرستی‘‘ کے نغمے گائیں، ان الطاف حسین حالی سے مختلف نہیں ہیں، جو روایتی، عشقیہ، مبتذل اور رکیک مضامین پر مبنی شاعری کو مخرب اخلاق (اور جواں مردی، علو ہمتی اوراعلیٰ انسانی اقدار کی حامل شاعری کو مصلح اخلاق) سمجھتے ہیں اور جو اردو شاعری کو بے عملی اور تقدیر پر بھروسہ کرکے بیٹھ رہنے والی فطرت اور خیالی مضامین کے طوطا مینا اڑا کر قوم کو کند ذہن بنانے پر مطعون کرتے ہیں۔ فرق صرف طریق کار کا ہے۔
الطاف حسین حالی اردو شاعری کے بڑے حصے کو فضول، لاطائل اور دریا برد کرنے کے قابل سمجھتے ہیں اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ یہ شاعری عمل کی تنقید نہیں کرتی، سفلی جذبات کو ابھارتی ہے، بے فائدہ ہے، قوم کو پژمردہ کر دیتی ہے۔ مسعود حسن رضوی ادیب اردو شاعری کے بڑے حصے کو کارآمد اور فائدہ مند بتاتے ہیں۔ لیکن اصولی اعتبار سے وہ بھی اس نظریہ کے پابند ہیں کہ شاعری کو کارآمد، فائدہ مند، عملی زندگی کی طرف اکسانے والی اور مصلح اخلاق ہونا چاہیے۔ بس جن چیزوں (امرد پرستی، عشقیہ مضامین وغیرہ) کو حالی بے فائدہ قرار دیتے ہیں، مسعود حسن رضوی ادیب انہیں فائدہ مند یا کم سے کم قابل دفاع (Defensible) بتاتے ہیں۔
شاعری میں جذبات کی اہمیت سے انکار نہ ان کو تھا، نہ ان کو ہے۔ دونوں کو انہیں جذبات سے لگاؤ ہے جو اخلاقی اعتبار سے قبیح نہ ہوں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ حالی چاہتے ہیں کہ تمام جذبات کسی مخصوص فکری نظام کے پابند ہوں، اور اگروہ فکری نظام موجود ہے تو چونکہ شاعری میں سادگی، اصلیت اور جوش یا ان تینوں میں سے ایک یا دو عناصر لازماً موجود ہوں گے، اس لیے وہ شاعری اچھی ہوگی۔ مسعود حسن رضوی شعر، یا شاعر کے فکری نظام کو بہ ظاہر اہمیت نہیں دیتے۔ وہ جذبات ہی کو اصل الاصول مانتے ہیں اور فکری نظام کی جگہ طرز ادا کو اہم گردانتے ہیں۔ لیکن بنیادی طور پر وہ بھی حالی کی طرح ایک قسم کے جبر کی تلقین کر رہے ہیں۔
یعنی یہ کہ جذبات سفلی اور علوی، خوب وزشت دونوں طرح کے ہوتے ہیں اور شاعر کو ضرور ہے کہ وہ محض ’’بعض مخصوص جذبات‘‘ کو ابھارنے اور باقی کو دبانے کے بجائے ایسی شاعری کرے جو ’’سوتے احساس کو جگاتی ہے، مردہ جذبات کو جلاتی ہے، دلوں کو گرماتی ہے، حوصلوں کو بڑھاتی ہے، مصیبت میں تسکین دیتی ہے، مشکل میں استقلال سکھاتی ہے، بگڑے ہوئے اخلاق کو سنوارتی ہے اور گری ہوئی قوموں کو ابھارتی ہے۔‘‘ (صفحہ ۳۴۔ ۳۵) اس لیے وہ اپنی استدلالی صورت حال کو طرح طرح سے محدود کرتے ہیں او ر آخرکار کہہ دیتے ہیں، ’’ (جدید تنقید) اپنے مقصد کے لیے جذبات سے زیادہ خیالات کو، تاثرات سے زیادہ افکار کو اور ہیئت سے زیادہ مواد کو پیش نظر رکھتی ہے۔ یہ طریقۂ کار ادب کی دوسری صنفوں کے لیے اگر مناسب ہے بھی تو قدیم غزل کے لیے نہیں ہے۔‘‘
یعنی بات کم ہوتے ہوتے صرف قدیم غزل تک رہ گئی۔ اول تو قدیم غزل کی حدبندی ہی مشکل ہے (مثلاً غالب کی غزل شاید اتنی قدیم نہ ہو جتنی مثلاً آرزو لکھنوی کی ہے) اور دوئم یہ کہ جدید تنقید کا طریق کار قدیم غزل کے لیے کیوں موزوں نہیں ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ قدیم غزل کو پرکھنے کے لیے کوئی مخصوص ادبی معیار ہیں؟ اگر ہاں، تو کیا اس کا مطلب یہ نہیں نکلتا کہ شاعری کے لیے عمومی معیار وضع نہیں ہو سکتے اور شاعری کی کوئی نظریاتی تعریف متعین نہیں ہو سکتی؟ اور اگر یہ درست ہے تو پھر یہ کیوں نہ کہا جائے کہ ہر شاعر کو پرکھنے کے لیے شاعری کی ایک نئی تعریف تراشنی ہوگی؟ پھر تو یہ ممکن ہوگا کہ ہم کسی مخصوص تعریف کی روشنی میں کسی بھی شاعر کو عظیم ترین ثابت کردیں۔ مثلاً کسی شاعر کے یہاں استعارے کا فقدان ہے، ہم اس کے لیے ایسی تعریف وضع کریں، جس کی رو سے استعارہ شاعری کے لیے مہلک ہو اور پھر یہ حکم لگا دیں کہ چونکہ اس شاعر کے یہاں استعارہ بالکل نہیں ہے اس لیے وہ سب سے بڑا شاعر ہے۔
پھر کسی دوسرے شاعر کو اٹھائیں جس کے یہاں صنائع لفظی کی کثرت ہو اور یہ تعریف بنا لیں کہ صنائع لفظی ہی دراصل شاعری کی بڑی جان ہیں۔ اس تعریف کی روشنی میں ہم کہہ سکیں گے کہ وہ شاعر سب سے بڑا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح شاعری کی معیار سازی کیا، خود شاعری ہی خطرے میں پڑ جائےگی۔ تیسری مشکل یہ ہے کہ آپ نے یہ تسلیم کر لیا کہ بعض مخصوص ادبی اصناف میں مواد کو ہیئت پر اور خیال وفکر کو جذبہ وتاثر پر مقدم کیا جا سکتا ہے، تو آپ کو کہیں نہ کہیں مجبور ہوکر تمام اصناف سخن میں اسی تقدیم کو را ہ دینا ہوگی۔ یاتو آپ سرے سے مواد اور فکر کو ہیئت وجذبہ پر موخر کریں، یا ان کی تقدیم کو تسلیم کر لیں۔ یوں بھی ہے اور یوں بھی، کا اصول بہت دور تک نہیں چل سکتا۔
لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آپ کن بنیادوں پر یہ مفروضہ تعمیر کر رہے ہیں کہ قدیم غزل کی تنقید میں مواد اور فکر کو جذبہ اور ہیئت پر موخر کرنا چاہیے؟ یا تو آپ یہ ثابت کریں کہ یہی مواد اور فکر جدید غزل، قصیدہ، مثنوی، مرثیہ وغیرہ میں مقدم ہوں تو ان کا حسن بڑھ جاتا ہے، لیکن اگر قدیم غزل میں مقدم ہوں تو اس کا حسن گھٹ جاتا ہے۔ یا یہ ثابت کریں کہ قدیم غزل کی حد تک فکر وغیرہ کی اہمیت بے معنی ہے۔ پہلی بات آپ ثابت نہیں کر سکتے اور اگر دوسری بات ثابت کرتے ہیں تو آپ کا یہ نظریہ خطرے میں پڑ جاتا ہے کہ شاعری ’’بے حس قوتوں کو چونکاتی ہے۔ دلوں کو گرماتی ہے۔ مشکل میں استقلال سکھاتی ہے، بگڑے ہوئے اخلاق کو سنوارتی ہے اور گری ہوئی قوموں کو ابھارتی ہے۔‘‘
یہ ساری مشکلیں اس وجہ سے پیدا ہوئی ہیں کہ مسعود حسن رضوی کا دل تو خالص ادبی نقطہ نظر کو قبول کرتا ہے لیکن ان کا دماغ حالی ہی کا حلقہ بہ گوش ہے اور وہ بھی اس حالی کاجو موقع بے موقع اپنے تعصبات سے مغلوب ہوکر شاعری کو ’’توسیع تعلیم اسکیم‘‘ کا تابع بنانا چاہتا ہے۔ ’’قلب او مومن دماغش کا فراست‘‘ کی یہ بھی ایک اچھی مثال ہے۔ جبلی طور پر ادبی نقطۂ نظر کو قبول کرنے کے باعث مسعود حسن رضوی صاف صاف کہہ اٹھتے ہیں کہ ’’شاعری میں ہیئت کی اہمیت مواد سے کم نہیں بلکہ کچھ زیادہ ہی ہے۔‘‘ (ص ۲۰) لیکن عقلی طور پر حالی کو پیشوائی کا درجہ دینے کی وجہ سے وہ شاعری کی افادیت، اس کی اخلاقی قدروقیمت اور عملی کارآمد گی کو بھی ہاتھ سے جانے دینے پر آمادہ نہیں ہیں۔ لہٰذا وہ ان متغائر اور اپنی اپنی جگہ پر شہ زور رجحانات کو طرح طرح سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور آخرکار کہہ دیتے ہیں کہ مواد اور فکر کہیں اور اہم ہو تو ہو، لیکن قدیم غزل میں تو ہیئت اور جذبہ ہی اہم ہے۔
مسعود حسن رضوی اگر ادبی نقطۂ نظر کو کلیۃً تسلیم کر لیتے تو انہیں بہ آسانی نظر آ جاتا کہ جذبے کی بحث بھی غیرضروری ہے۔ شعری ہیئت ایک خوب صورت شے ہے۔ اور یہی اس کے وجود کا جواز ہے۔ جذبہ خوبصورت یا بدصورت نہیں ہوتا، علوی یا سفلی ہو سکتا ہے۔ اسی طرح، فکریا موضوع خوب صورت یا بد صورت نہیں ہوتے، علوی یا سفلی ہو سکتے ہیں۔ ہیئت نہ علوی ہوتی ہے، نہ سفلی، وہ صرف خوب صورت یا بد صورت ہو سکتی ہے۔ لہٰذا موضوع کو اہم ٹھہرائیں یا فکر کو یا جذبات کو، بات گھوم پھر کر اسی ’’اخلاقی نقطۂ نظر‘‘ پر آ جاتی ہے، جس کا حامی ہونے کی بنا پر مسعود حسن رضوی نے الطاف حسین حالی کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔
اگر صرف شاعرانہ ہیئت کو اساس بناکر بات کی جاتی، تو سمجھوتے کے لیے نہ یہ عذر پیش کرنا پڑتا کہ ممکن ہے جدید تنقید کے اصول کا اطلاق جدید غزل یا دیگر اصناف سخن پر ہو سکتا ہو، لیکن قدیم غزل پر نہیں ہو سکتا، اور نہ یہ تضادپیدا ہوتا کہ ادبی نقطۂ نظر کے موید ہونے کے باوجود انہیں شعر کی افادیت اور عملی قدر وقیمت ثابت کرنے کے لیے دلائل ڈھونڈنا پڑے اور بالآخر شعر کی وہی افادیت بیان کرنی پڑی جس کی تلقین حالی کر رہے تھے، یعنی اخلاق حسنہ کی استواری اور گری ہوئی قوموں کو بام ترقی پر پہنچانا۔ ورنہ وہ جہاں ان الجھاوؤں میں نہیں پڑے، وہ وہی بات کہتے ہیں، جو نہ صرف یہ کہ ادبی نقطۂ نظر والے نقاد سے متوقع ہیں بلکہ بالکل صحیح بھی ہیں، ’’جدید تنقید اکثر کلام کی شعریت پر نظر نہیں کرتی، اس کے فنی اور جمالی پہلو کو کافی اہمیت نہیں دیتی اور شاعر جو کچھ کہنا چاہتا ہے اس کو نظر انداز کرکے اس چیز کو تلاش کرتی ہے جو نقاد کی رائے میں شاعر کو کرنا چاہیے تھی۔‘‘ (صفحہ۱۹)
میں نے کہیں لکھا ہے کہ قدیم طرز کے نقاد ہونے کے باوجود مسعود حسن رضوی ادیب کئی معنی میں انتہائی جدید اور اپنے وقت سے آگے ہیں۔ مندرجۂ بالا اقتباس اس کی ایک مثال ہے۔ ’’جدید تنقید‘‘ سے، ظاہر ہے کہ ’’ترقی پسند تنقید‘‘ مراد ہے۔ نقاد کا منصب یہ نہیں کہ وہ فن پارے میں اپنے تعصبات اور معتقدات کا عکس ڈھونڈے، نہ یہ کہ وہ شاعر کو آزادی سے اپنی بات کہنے دے اور قاری کو یہ بتائے کہ جو بات کہی جا رہی ہے اس میں حسن اور فن کا اظہار کس طرح ہوا ہے۔ مندرجہ بالا اقتباس میں اس خیال کی جھلک ملتی ہے۔ یہ نظریات نئی تنقید نے عام کیے ہیں۔ حالی اور ان کے زیر اثر نقادوں نے، جن کادور دورہ مسعود حسن رضوی ادیب کے عہد میں تھا، انہیں نظرانداز کر دیا تھا۔ اسی عبارت کے اوپر والے پیراگراف میں مسعود حسن رضوی نے ایک باریک نکتہ اور نکالا ہے جس کی تلاش بھی ان کے ہم عصروں کے یہاں فضول ہے۔
’’غزل کا ہر شعر بالعموم ایک مستقل نظم ہوتا ہے۔ ان دو دو مصرعوں کی نظموں کا اختصار شاعر سے رمزی یا ایمائی، علامتی یاتمثیلی اسلوب بیان کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان مختصر نظموں کاصحیح اور مکمل مفہوم سمجھنا، ان کے مضمرات کو سمجھنے پر منحصر ہے اور اس کے لیے شاعری کی مسلمہ قدروں اور معیاروں سے پوری واقفیت ضروری ہے۔‘‘
کسی زبان کے کچھ مخصوص فنی قوانین کو معطل کرکے اس زبان کے ادب کاصحیح مطالعہ ممکن نہیں ہے۔ یہ نظریہ (جہاں تک مجھے یاد آتا ہے) اردو میں سب سے پہلے محمد حسن عسکری نے مدلل طور پر پیش کیا تھا۔ مسعود حسن رضوی بھی اس کے موید نظر آتے ہیں جب کہ انیسویں صدی کے اواخر سے لے کر آج تک تمام قدیم تنقید اور ترقی پسند تنقید اردو ادب کو غیرملکی معیاروں سے پرکھنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ دونوں کے سامنے یا تو محض مغربی معیار تھے یا مغربی ایرانی معیاروں کا ایک بے ضابطہ ملغوبہ تھا۔ حالی سے بھی یہی غلطی ہوئی تھی کہ وہ ملٹن کے معیار کو (یا ان معیاروں کو جنہیں وہ ملٹن کے بنائے ہوئے معیار سمجھتے تھے) اردو پر منطبق کرنا چاہتے تھے۔ مسعود حسن رضوی ادیب کو حالی کے اثر سے مفر ممکن نہ ہوا، اور یہی ان کا تضاد ہے۔
لیکن وہ اگرحالی کی طرح اتنے دور رس نہیں ہیں تو ان کی طرح غیرمتوازن بھی نہیں ہیں۔ حالی کی قوت دراصل ان کے استنباطی اور تجزیاتی ذہن میں ہے۔ مسعود حسن رضوی کی دلچسپی تجزیے سے زیادہ نظریہ سازی میں ہے۔ اس لیے ان کے یہاں اگرچہ بہت سی پتے کی باتیں مل جاتی ہیں لیکن وضاحت اور مدلل بیان پر زور دینے کے باوجود وہ اکثر عمومی اور مبہم باتوں پر اکتفا کرتے نظر آتے ہیں۔ اس خصوصیت میں ان کا اسلوب محمد حسین آزاد سے مشابہت رکھتا ہے۔ مثلاً وہ ایک بہت عمدہ بات مدلل طریقے سے کہتے ہیں، لیکن اس بات کے دوسرے نتائج کو اتنے ہی مدلل طریقے سے سمیٹ نہیں پاتے۔
’’شعر کی منطقی اور عروضی تعریفوں کا انداز خود بتاتا ہے کہ منطق نے نفس شعر سے بحث کی ہے اور عروض نے صورت شعر سے۔ لہٰذا جو کلام شعر کی منطقی تعریف پر ٹھیک اترے، مگر عروضی تعریف کے مطابق نہ ہو، اس پر شعر کا اطلاق اس کلام سے زیادہ صحیح ہے، جو شعر کی عروضی تعریف پر ٹھیک اترے مگر منطقی تعریف کے مطابق نہ ہو۔۔۔ مگر کامل شعر وہی ہے جس میں موزونیت بھی ہو اور اثر بھی۔‘‘ یہ دونوں نکات نہایت باریک اور نتائج نہایت صحیح ہیں، کیونکہ مدلل ہیں۔ لیکن اس کے بعد دیکھیے، ’’اب دیکھنا یہ ہے کہ موزونیت سے کیا مراد ہے۔۔۔ موزوں کلام وہ ہے جس کے حرفوں کی حرکت اور سکونوں کا ایک ایسا نظام ہو اور ان حرکتوں اور سکونوں کی تعداد اور مقدار میں ایسا تناسب ہو کہ اس نظام اور تناسب کے ادراک سے نفس کو ایک طرح کی لذت حاصل ہو۔‘‘
ظاہر ہے کہ یہ تعریف قطعی ہے، اس لیے بےکار ہے۔ اصل مرحلہ تو یہی ہے کہ اس نظام اور تناسب کی نوعیت بیان کی جائے جس کے التزام سے کلام موزوں ہوتا ہے اور اس لذت کی وضاحت کی جائے جو موزونیت سے حاصل ہوتی ہے۔ جب تک ان مسائل کو واضح نہ کیا جائےگا، موزونیت کی تعریف متعین نہ ہو سکےگی۔ یہ درست ہے کہ موزونیت کی معروضی تعریف آج تک نہیں ہو سکی ہے۔ میں نے خود اس مسئلے پر بہت سرمارا ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ناموزونیت کی معروضی تعریف تو شاید معروضی طور پر ممکن ہو (اور اس طرح موزونیت کی منفی تعریف قائم ہو جائے) لیکن موزونیت کی معروضی تعریف ممکن نہیں ہے۔ اس مسئلے پر کسی اور وقت بحث کروں گا۔ فی الحال یہ کہنا مقصود ہے کہ مسعود حسن رضوی کی تعریف میں بھاری پتھر کو چوم کر چھوڑ دینے کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اگر تجزیاتی عمل سے کام لیا جاتا تو حرکات و سکنات حروف کے نظام پر کچھ روشنی پڑ سکتی تھی۔ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ،
’’موزونیت سے شعر کے حسن اور اثرمیں جو اضافہ ہو جاتا ہے، اس کااندازہ کرنا ہو تو کسی اچھے شعر کی نثر کیجیے اور دیکھیے کہ کیا اس میں وہی اثر باقی رہا جو اصل شعر میں تھا اور کسی شعر کی نثر کرنے کے معنی یہی تو ہیں کہ موزونیت کی ضرورت سے لفظوں کی فطری یا اصولی ترتیب میں جو فرق کرنا پڑا تھا، اس کو دور کر دیا جائے۔‘‘ (ص۴۴)
تعقید لفظی کے باوجود موزونیت کلام کو حسین بنا دیتی ہے اور تعقید کو ہٹا دیا جائے لیکن موزونیت غائب کر دی جائے، تو حسن بہت کم ہو جاتا ہے، یہ نکتہ بھی بہت دلچسپ ہے۔ لیکن یہاں اس مسئلے پر بھی بحث ضروری تھی کہ ہزارہا شکلیں موزوں کلام کی ایسی بھی ہیں جن سے قاری کا سامعہ آشنا نہیں ہوتا۔ مثلاً بہت سی نامانوس بحریں ہیں جن میں کہے ہوئے اشعار کو موزوں پڑھنے میں دقت ہوتی ہے اور اگر انہیں موزوں پڑھ بھی لیا جائے تو پڑھنے والا کہتا ہے کہ اس شعر کابیش تر لطف (یعنی اثر) نامانوس بحر (یعنی نامانوس موزونیت) نے ضائع کر دیا۔ بعض لوگ تو نامانوس بحروں میں کہے ہوئے اشعار کو ناموزوں تک کہہ ڈالتے ہیں۔ لہٰذا یہاں یہ بحث بھی ضروری تھی کہ موزونیت سے پیدا ہونے والے ’’خاص قسم کے لطف‘‘ میں مانوسیت کو کتنا دخل ہے۔
اگر حرکات و سکنات اور آوازوں کی ترتیب وتناسب وغیرہ اصطلاحوں کا تجزیہ کیا گیا ہوتا، تو یہ مسائل لامحالہ زیر بحث آتے۔ اسی طرح یہ سوال بھی اٹھانا ضروری تھا کہ موزونیت کے ذریعے سے کلام میں جذبات کو متحرک کرنے کی قوت کس طرح پیدا ہوتی ہے۔ مثلاً ملارمے (Mallarme) نظم اور نثر میں کوئی فرق نہیں کرتا اور کہتا ہے کہ ’’جہاں جہاں اسلوب سازی کی کوشش ہوگی، وہاں شعر بھی ہوگا۔‘‘ لیکن مسعود حسن رضوی اس مسئلہ کو چھوکر گزر جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،
’’بعض لوگ کہتے ہیں کہ شعر کے لیے موزونیت ضروری نہیں ہے، کیونکہ شاعرانہ خیالات نثر میں بھی ادا ہو سکتے ہیں۔ یہ بات کچھ ایسی ہی معلوم ہوتی ہے جیسے کوئی کہے کہ سائنس کے مسائل نظم میں بھی بیان کیے جا سکتے ہیں۔ ان دونوں قولوں میں صداقت کا عنصر غالباً برابر ہی نکلےگا۔ لیکن یہاں اس سے بحث نہیں کہ کیا ہو سکتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہوتا ہے اور کیا کیا ہونا چاہیے۔ جس طرح یہ ایک بدیہی بات ہے کہ علمی مسائل کی تفصیلی بحث کے لیے وزن کی قید سے نظم کا دامن تنگ ہو جاتا ہے، اس طرح یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ شعر کا اثر نثر کی نامحدود وسعت میں گم ہو جاتا ہے۔‘‘ (ص۴۳)
اس عبارت میں سب سے بڑا اشکال شاعرانہ اور غیرشاعرانہ خیالات کا ہے۔ یہاں مسعود حسن رضوی اس نظریے کے حامی نظر آتے ہیں کہ خیالات شاعرانہ اور غیرشاعرانہ ہو سکتے ہیں اور علمی مسائل کے اظہار کے لیے نظم اس لیے موزوں نہیں ہے کہ وہ وزن کے جبر کی محکوم ہوتی ہے۔ لیکن اگر یہ درست ہے تو پھر یہ بیان صحیح نہ ہوگا کہ شاعری کا مقصد ’’جذبات کا اظہار اور احساسات کا اشتعال ہے۔‘‘ (ص۴۴) کیونکہ اس بیان کا مضمر مطلب یہ ہے کہ کوئی خیال بہ ذات خود شاعرانہ یا غیرشاعرانہ، علمی یا غیرعلمی نہیں ہوتا، بلکہ شعر کی تنقید کے لیے یہ تعریفات بالکل بے معنی ہیں۔ اگر کسی تحریر میں جذبات اور احساسات کا اشتعال واظہار ہے تو وہ شعر ہے، اس میں چاہے جس طرح کا خیال یا مسئلہ بھی نظم کیا گیا ہو۔
تصوف اور فلسفہ کے درجنوں مسائل شعر میں نہایت خوبی سے ظاہر کیے گئے ہیں، لہٰذا شعر کے مخصوص شاعرانہ خیال کی شرط لازمی نہیں ہے۔ شعر کی تعریف کے سلسلے میں ملارمے (Mallarme) کا مندرجہ ذیل قول بھی لائق توجہ ہے، ’’شعر انسانی وجود کے پراسرار احساس کااس انسانی زبان میں اظہار ہے جو اپنی اور حقیقی دھن پر مرجوع کر دی گئی ہو۔ اس طرح وہ زمین پر ہمارے قیام کو سچائی بخشتی ہے اور واحد روحانی نصب العین کو قائم کرتی ہے۔‘‘
میرا مدعا یہ نہیں ہے کہ مسعود حسن رضوی کو ملارمے کا ہم خیال ہونا چاہیے تھا۔ لیکن میں یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ شعر میں موسیقی یعنی موزونیت کے مسئلے کو اتنی آسانی سے طے نہیں کیا جا سکتا کہ موزونیت کے ذریعہ کلام میں اثر پیدا ہو جاتا ہے۔ ملارمے کے خیال میں زبان اپنے اصل اور حقیقی وجود کی حیثیت میں کلام موزں ہی ہوتی ہے، لیکن ’’موزوں‘‘ کا مفہوم صرف عروضی موزونیت ہی نہیں بلکہ اس سے بہت زیادہ ہے۔ اتنا زیادہ کہ اسی موزونیت کے ذریعے زبان ہمارے وجود کے پراسرار احساس کو دوبارہ زندہ کرتی ہے۔
منظوم اظہار فطری اظہار ہے۔ اس کا اعتراف مسعود حسن رضوی کو بھی ہے، مگر وہ اس کو ’’جذبات کے ابھار اور احساسات کے اشتعال‘‘ سے منسلک کر دیتے ہیں جب کہ ملارمے اس کو ایک مطلق قدر مانتا ہے اور کہتاہے کہ جہاں جہاں اسلوب ہوگا، وہاں نظم بھی ہوگی۔ جذبات اور احساسات کی بحث میں الجھ جانے کی وجہ سے مسعود حسن رضوی جگہ جگہ خیال اور جذبے کو متحد اور جگہ جگہ مختلف بتاتے نظر آتے ہیں۔
جدید (یعنی ترقی پسند) تنقید پر نکتہ چینی کرتے ہوئے مسعود حسن رضوی ادیب نے لکھا کہ یہ تنقید جذبے سے زیادہ خیال کو اور تاثر سے زیادہ فکر کو اہمیت دیتی ہے لیکن اکثر جگہ وہ خیال اور جذبے کے اتحاد کے حامی بھی نظر آتے ہیں مثلاً،
(۱) ’’خیالات کا شاعرانہ اظہار اپنی تکمیل کے لیے نظم کا سہارا ڈھونڈتا ہے۔‘‘ (ص۴۳)
(۲) ’’شاعرانہ خیالات کے اظہار کا فطری طریقہ نظم ہے۔‘‘ (ص۴۶)
(۳) ’’اکبر کی اصلاحی شاعری میں کیسے کیسے جدید خیال کیسے کیسے حسین انداز سے ادا کیے گئے ہیں، اور وزن وقافیہ اظہار خیال میں کبھی حائل نہ ہوئے۔‘‘ (ص۵۰)
یہاں یہ بحث اٹھ سکتی ہیں کہ شاعری میں شاعرانہ خیال سے کیا مراد ہے؟ ٹی۔ ایس۔ الیٹ کا ایک مقولہ بہت مشہور ہے کہ محسوس کیا ہوا خیال (Felt thought) شاعر کے ذہن پر اتنی ہی سرعت سے اثر کرتا ہے جو ’’گلاب کی خوشبو‘‘ کا خاصہ ہے۔ ’’محسوس فکر‘‘ کا یہ تصور الیٹ نے بعد میں ترک کر دیا۔ اس کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں۔ لیکن کہنا یہ ہے کہ شاعرانہ خیال، خیال کے شاعرانہ اظہار، نئے خیال کا نیا پیرایہ، ان اصطلاحوں کو مسعود حسن رضوی نے خاصی رواروی میں استعمال کیا ہے۔
ان کے بیانات سے کئی طرح کے نتائج نکل سکتے ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہوں گے۔ مثلاً اگر شاعرانہ خیال کی اصطلاح کو قبول کیا جائے تو یہ ماننا پڑےگا کہ بعض خیالات غیر شاعرانہ بھی ہوتے ہیں۔ اور اگر بعض خیالات غیرشاعرانہ ہیں تو ان کا شاعرانہ اظہار ممکن ہی نہیں۔ اس لیے ’’خیال کے شاعرانہ اظہار‘‘ کی اصطلاح بے معنی ہو جاتی ہے۔
اگر اس اصطلاح کو ’’شاعرانہ خیال کے شاعرانہ اظہار‘‘ کے معنی میں لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ شاعرانہ خیال کا تصور شاعرانہ اظہار کے تصور سے متغائر، بلکہ متحارب ہے۔ اگر خیال شاعرانہ ہے تو اس کا اظہار بھی شاعرانہ ہوگا۔ کیونکہ جب اظہار غیرشاعرانہ ہوا تو خیال بھی غیر شاعرانہ بن جائےگا۔ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ شاعرانہ خیال، غیرشاعرانہ بھی ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کلیہ مہمل ہے۔
اگر شاعرانہ خیال کو ٹی۔ ایس۔ الیٹ والے ’’محسوس‘‘ فکر کے نظریے سے بدل دیا جائے تو سوال اٹھتا ہے کہ (اس بات سے قطع نظر کہ ’’محسوس فکر‘‘ کا تصور اب غلط ثابت ہو چکا ہے) پھر شعر میں جذبے اور احساس کا کیا مقام ہے؟ یہ اس لیے کہ اگر ’’محسوس فکر‘‘ یا شاعرانہ خیال ہی سب کچھ ہے تو پھر اس قول کا کیا مطلب ہے کہ ’’انسان کو حیوان پر جو فضیلت ہے وہ صرف عقل ہی کی بنا پر نہیں ہے، جذبات بھی انسانیت کا طرۂ امتیاز ہیں۔ یہی جذبات جب لفظوں کا لباس پہن لیتے ہیں تو شعر کہلاتے ہیں۔‘‘ (ص۳۲)
ان سب مشکلوں کا حل مسعود حسن رضوی نے خود ہی یہ کہہ کر فراہم کر دیا ہے کہ شعر میں ہیئت کی اہمیت مواد سے کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ شعر میں ہیئت ہی سب کچھ ہے، حتیٰ کہ مواد بھی ہیئت ہی ہے۔ مسعود حسن رضوی کا محدود کلیہ بھی ان تضادات کو حل کرنے کے لیے کافی تھا، جن کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ دبستان حالی کی تربیت نے انہیں اس کلیے کو پوری طرح ترقی دینے کی اجازت نہیں دی۔
معریٰ اور آزاد نظم کے خلاف مسعود رضوی کے بے جا تعصب کے باوجود قافیہ اور وزن کی پابندی کے دفاع میں انہوں نے بہت سی نئی باتیں کہی ہیں۔ اظہار تعصب میں جہاں جہاں وہ انصاف یا منطق کے دائرے سے نکل گئے ہیں ان تمام مقامات کا محاکمہ میرے مضمون کوبہت طویل کر دےگا لیکن بعض باتوں کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں۔ ان کا یہ خیال بہت درست ہے کہ ’’اس تغیر پذیر دنیامیں کچھ ذوقی اور وجدانی چیزیں ایسی بھی ہیں، جو تغیر اور تبدل سے بڑی حد تک محفوظ ہیں۔‘‘ (ص۴۹) لیکن ردیف و قافیہ اور وزن بھی انہیں تبدل ناپذیر ازلی اشیا میں سے ہیں، اس کی انہوں نے کوئی دلیل نہیں دی ہے۔
ردیف وقافیہ اور وزن کو غیر تبدیل پذیر ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں ازلی اور قدیم نہیں تو کم سے کم ابتدائے آفرینش سے موجود ثابت کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ خود ہندوستانی شاعری میں بے ردیف وقافیہ شاعری کی قدیم مثالیں ملتی ہیں اور وزن کا تصور تو بہرحال اتنا اضافی اور وجدانی ہے کہ اس کے بارے میں کوئی حکم نہیں لگایا جا سکتا، یہاں تک کہ اردو، فارسی عربی کا نظام عروض بھی جو بہ ظاہر خاصا سخت اور بےلچک ہے، استثنائی صورت حالات سے مملو ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو زحافات کی اتنی وسیع بھول بھلیاں تعمیر کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ بعض بعض زحافات میں تو اتنی گنجائش ہے کہ موزوں ناموزوں کا روایتی فرق غائب ہوتا نظر آتا ہے۔
دور کیوں جایئے، رباعی ہی کے بعض اوزان ایسے ہیں کہ مبتدی تو کیا، اساتذہ بھی ان میں مصرعے موزوں کرنے سے گھبراتے ہیں۔ آزاد نظموں کے بارے میں یہ فیصلہ کہ، ’’ان میں کچھ فرسودہ خیالات ہیں، کچھ سوقیانہ جذبات ہیں جن میں اجنبی اسلوبوں، بے محل لفظوں، بے معنی ترکیبوں، بھونڈی تشبیہوں اور کاواک استعاروں سے ابہام پیدا ہو گیا ہے اور لنگڑی لولی بحروں کے استعمال سے ایک بے ڈھنگا پن آ گیا ہے۔‘‘ (ص۵۰)
اور یہ کہ، ’’آزاد نظم، زبان پر ناکافی عبور، صوتی آہنگ کے ناقص احساس اور شعریت کے ناتربیت یافتہ مذاق کے مجموعی اثر کی پیداوار ہے۔ دل کی دنیا جو شاعری کی قلم رو ہے، آزاد نظم کا وہاں گزر نہیں۔ وہ زبان سے نکلتی ہے اور کانوں تک پہنچ کر رہ جاتی ہے۔ نہ از دل خیزد، نہ بردل ریزد۔‘‘
نہ صرف یہ کہ بے دلیل ومثال ہے بلکہ اس لیے بھی ناقص ہے کہ انہوں نے آزاد نظم کی تعریف نہیں متعین کی ہے بلکہ صرف یہ کہہ کر ٹال دیا ہے کہ آزاد نظم ردیف، قافیہ اور وزن سے بے نیاز ہوتی ہے۔ وہ ردیف وقافیہ و وزن کو گلاب کے تختے اور بلبل کے نغمے کے حسن کی طرح غیر تبدل پذیر بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص ان حسین چیزوں کے بجائے دھتورے کے پھول اور کوے کی کائیں کائیں کا رسیا ہو جائے تو اس کا یہ فعل خشکہ یا گندہ بروزہ کے مصداق ہوگا لیکن ظاہر ہے کہ آزاد نظم کے حامی شعرا ردیف و قافیہ ووزن کے مخالف نہیں ہیں او ر نہ یہ کہتے ہیں کہ قافیہ ردیف وغیرہ بد صورت چیزیں ہیں۔
یہ ضرور ہے کہ مسعود حسن رضوی کے اشارات کا منشا آزاد نظم کے اولین پرستاروں کی طرف اشارہ کرنا ہے۔ اگر چہ اس وقت بھی جدید شاعری کے اچھے نمونے سامنے آچلے تھے لیکن اس کے خلاف ایک عمومی عدم اعتماد کی فضا ضرور تھی۔ اب جب کہ آزاد نظم یا معریٰ نظم راشد، میراجی، فیض، اخترالایمان جیسے شاعروں کو منظر عام پر لا چکی ہے، ان خیالات میں بہت حد تک ترمیم ہونا چاہیے۔ لیکن ان کانکتہ کہ ’’ہماری قدیم شاعری میں بلینک ورس کا جواز موجود ہے اور ہمارے ذوق کے لیے وہ کوئی اجنبی چیز نہیں ہے۔‘‘ (ص۵۲) اپنے وقت سے بہت آگے معلوم ہوتا ہے۔ اور ہمیں ان کا ممنون ہونا چاہیے کہ انہوں نے اپنے تعصبات کو اس حد تک تو ترک کیا، ورنہ ان کے بعد آنے والے نقادوں، علی الخصوص ترقی پسند نقادوں نے اظہار تعصب ہی کو تنقید مان لیا تھا۔
شعر کو خیال اور لفظ دو حصوں میں تقسیم کرنے اور خیال سے متعلق خوبیوں کو معنوی خوبیوں کا نام دینے کے بعد مسعود حسن رضوی کتاب کے حصہ اول میں (جس کا محاکمہ موجود ہ مضمون میں مقصود ہے) بلکہ پوری کتاب کے بہترین حصے میں داخل ہوتے ہیں۔ یہاں واقعی محسوس ہوتا ہے کہ اس کی تصنیف میں برسوں کا غوروفکر اور مطالعہ صرف ہوا ہوگا۔ شعر کی اصلیت کی تعریف وہ اس نہج پر کرتے ہیں، جو حالی نے بتائی تھی، مگر اس فرق کے ساتھ کہ حالی جن باتوں کو مقدر چھوڑ گئے تھے، مسعود حسن رضوی نے انہیں مذکور کر دیا ہے۔ چنانچہ وہ اصلیت مبنی بر مفروضہ اور اصلیت مبنی بر واقعہ کے فرق کو واضح کرتے ہیں۔ ان کا یہ خیال، ’’شاعر کا بیان فطرت اور حقیقت کی صرف نقالی یا عکاسی نہیں ہوتا، بلکہ اس سے کسی قدر مختلف ہوتا ہے۔ فطرت سے ایسا اختلاف اور حقیقت سے ایسا انحراف جو بادی النظر میں محسوس نہ ہو اور کلام کے اثر میں اضافہ کر دے، شاعرانہ اصلیت کے منافی نہیں ہے۔‘‘
اگرچہ اپنے شروط اور ترمیموں کی بنا پر تھوڑا بہت بزدلانہ معلوم ہوتا ہے لیکن اپنی روح کے اعتبار سے کولرج (Coleridge) کے بہت قریب ہے کہ ’’شاعر کو فطرت کاجیب تراش نہیں ہونا چاہیے، اسے فطرت سے مستعار لینا چاہیے اور وہ بھی اس طرح کہ مستعار لینے ہی کا عمل قرض کو ادا کر دے۔‘‘ کولرج کے اس نظریے کی جہاں انتہا ہوتی ہے وہاں سے بودلیئر (Baudelaire) کے خیال کی سرحدیں نظر آتی ہیں کہ یہ فطرت ہے جو فن کی نقل کرتی ہے، نہ کہ فن، جو فطرت کی نقل کرتا ہے۔
مسعود حسن رضوی تخیل اور قوت اظہار کے ان باطنی تصورات سے کوئی علاقہ نہیں رکھتے، وہ اصلاً واقعیت پرست ہیں لیکن ان کی واقعیت پرستی غیر معمولی حد تک آزاد خیال اور شعر شناس ہے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ جذبات کے اظہار میں انسانی فطرت کا اعتبار ضروری ہے، لیکن یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ، ’’ایسے شعر بھی ہیں جن میں اصلیت نہیں اور اثر ہے۔ مگر ذرا غور سے دیکھیے تو معلوم ہو جائےگا کہ وہ اثر طراز ادا کی جدت، الفاظ کی مناسبت یا شعر کی خوبیوں میں سے کسی لفظی خوبی کا نتیجہ ہے۔‘‘ (ص۵۵)
یہاں دو باتیں واضح ہوجاتی ہیں اور دونوں مسعود حسن رضوی کے نظریہ ٔ شعروطریق نقد کو سمجھنے کے لیے بہت اہم ہیں۔ اول تو یہ کہ وہ ’’اثر‘‘ کو ’’حسن‘‘ کے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔ یعنی وہ شعر بےاثر ہے جو خوب صورت نہیں ہے اور جو شعر پر اثر ہے، وہ خوبصورت ہے۔ دوئم یہ کہ اصلیت شعر کی کوئی بنیادی قدر نہیں ہے، کیونکہ اس کے نہ ہونے کے باوجود اگر طرز ادا یا الفاظ میں کوئی حسن ہے تو شعر پر اثر یعنی خوب صورت ہو جاتا ہے۔ اس تصور کو مسعود حسن رضوی کا اصل نظریہ ماننا چاہیے، کیونکہ بقیہ بحث اسی کی روشنی میں ہوئی ہے۔
یہ ضرور ہے کہ یہ نظریہ جو واقعی ادبی نظریہ ہے، واقعیت یا اصلیت کے اس نظریے سے کچھ متحارب ہے جو انہوں نے اصلیت کی بحث میں پیش کیا ہے۔ ’’اصلیت‘‘ کا استرداد وہ دبی زبان سے کرتے ہیں، لیکن انہیں علم ہے کہ اس کے بغیر شعری تنقید کا حق ادا نہیں ہو سکتا، اس لیے طرح طرح سے یہ بات سامنے آ جاتی ہے، ’’فرضی باتوں سے ہی دل پر اثر ڈالنا شاعری ہے، مگر اصلیت میں دل کشی پیدا کرنا شاعری کی معراج ہے۔‘‘
’’اصلیت میں دل کشی‘‘ کا فقرہ اس بات کی چغلی کھا رہا ہے کہ دل کشی اصلیت کا جزو لازم نہیں ہے۔ اور اگر دل کشی اس کا جزو لازم نہیں ہے تو ہم اسے شعر کا بھی جزو لازم نہیں قرار دے سکتے، کیونکہ شعر کا کام ہی اثر ڈالنا ہے، اپنی دل کشی کے ذریعہ۔ اگلا جملہ دیکھیے، ’’خیال کی اصلیت کے لیے اس کے ہر جز میں الگ الگ اصلیت ہونا کافی نہیں ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ شاعر نے اپنے خیال میں جن چیزوں کو ایک ساتھ جمع کر دیا ہے، ان کا یکجا ہونا عادت یا واقعہ یا مسلمات کے خلاف نہ ہو۔‘‘ (ص۵۵)
یہ واقعیت پرستی کا جبر ہے جو مسعود حسن رضوی کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ بادل ناخواستہ سہی، لیکن اصلیت کو خراج ضرور پیش کریں۔ لیکن نکتہ یہ ہے کہ محولہ بالاکلیہ اس بات کو بھی ثابت کرتا ہے کہ کئی اصلیتوں کا حاصل جمع ایک بڑی اصلیت نہیں ہوتا! تحت معنی یہ ہے کہ اصلیت کی اصلیت خاصی مشتبہ ہے۔ روایتی اصلیت پر اس وقت ایک اور ضرب پڑتی ہے جب مسعود حسن رضوی کہتے ہیں،
’’شاعرانہ اصلیت اور حکیمانہ حقیقت ایک چیز نہیں ہیں۔ حکیم ہر شعر کو اس نظر سے دیکھتا ہے کہ وہ فی نفسہٖ کیا ہے، اور شاعر اس نظر سے دیکھتا ہے کہ وہ ہمیں کیا معلوم ہوتی ہے۔۔۔ حکیمانہ اور شاعرانہ نقطۂ نظر میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ حکیم ہر شے کا ذہنی یاعملی تجزیہ کرکے اس کے ایک ایک جزو کو دیکھتا ہے اور شاعر ہر چیز پر مجموعی حیثیت سے نظر کرتا ہے۔ حکمت کی نظر بہ ظاہر یکساں چیزوں میں اختلاف کی وجوہ تلاش کر لیتی ہے اور شاعر کی نگاہ بہ ظاہر مختلف چیزوں میں یکسانی کے پہلو ڈھونڈ لیتی ہے۔‘‘
تخیل کی کم وبیش یہی تعریف حالی نے کی ہے اور اس تعریف کا سلسلۂ استناد کولرج تک پہنچتا ہے۔ لیکن اس کے بعد مسعود حسن رضوی ادیب رچرڈس (I. A. Richards) کے قریب آتے دکھائی دیتے ہیں، ’’حکمت سے ہم چیزوں کو معلوم کرتے ہیں اور شاعری سے محسوس۔۔۔ حکمت کا کام ہے تلاش وتحقیق اور شاعری کا کام ہے تعمیروتخلیق۔‘‘ (ص۶۰)
یہ نظریات جو اصلاً رومانی ہیں، ہمارے زمانے میں رچرڈس نے عام کیے۔ یہ مسعود حسن رضوی کا زبردست کارنامہ ہے کہ انہوں نے حالی کے خیالات سے بہت سی وہ چیزیں لے لیں جو ان کے کام کی تھیں اور پھر ان پر اضافہ بھی کیا۔ یہ درست ہے کہ اگر حالی کی ’’مقدمۂ شعروشاعری‘‘ نہ ہوتی تو مسعود حسن رضوی ادیب کی ’’ہماری شاعری‘‘ بھی وجود میں نہ آتی، کیونکہ اردو میں فکری اور نظریاتی تنقید کی شکل بندی حالی ہی نے کی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ تجزیے کے عمل میں حالی مسعود حسن رضوی ادیب سے آگے ہیں، لیکن تاریخی تسلسل کے اعتبار سے ادیب بھی حالی کے آگے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے حالی کے اصول وضوابط کو اپنے طور پر برتا اور حالی نے جو چیزیں ثابت کی تھیں، مسعود حسن رضوی نے کم وبیش انہیں کے دلائل سے کام لے کر بالکل دوسری چیزیں ثابت کیں اور بعض جگہ اپنے دلائل کا اضافہ بھی کیا۔
مثلاً انہوں نے سادگی کی تعریف میں وہی باتیں کہیں جو حالی نے لکھی تھیں لیکن خیال کی باریکی اور طرز ادا کی پیچیدگی میں فرق کیا۔ طرز ادا کی پیچیدگی کو وہ شعر کا عیب ٹھہراتے ہیں اور خیال کی باریکی کو اس کا حسن (ص۶۵) یہ اور بات ہے کہ انہوں نے خیال کی باریکی کو بہت مبہم طریقے سے بیان کیا ہے۔ (خیال سطحی نہ ہو بلکہ انسانی فطرت کے گہرے مطالعے اور کائنات کے گہرے مشاہدے کا نتیجہ ہو۔ ) میں ان کے اس خیال سے متفق نہیں ہوں کہ طرز ادا کی پیچیدگی شعر کا عیب ہے۔ لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ وہ سادگی خیال، بلندی خیال، باریکی خیال اور پیچیدہ طرز ادامیں فرق کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسی طرح، وہ زبان کی سادگی کا ذکر کرتے ہوئے مقدر الفاظ و واقعات کی بحث کرتے ہیں۔ شعر میں کسی مضمون یا واقعے کے کسی جزو کو مقدر چھوڑ دینا بہ ذات خود کوئی عیب نہیں ہے۔ اس سلسلے میں وہ تقدیر ملیح اور تقدیر قبیح کی تعریف بھی کرتے ہیں۔ غالب نے ایک بار اس بات پر اظہار مباہات کیا تھا کہ میں ’’جملے کے جملے‘‘ مقدر چھوڑ جاتا ہوں، لیکن ایسا کرنا کہاں مناسب ہے اور کہاں نامناسب، اس کی وضاحت پہلی بار غالباً مسعود حسن رضوی ہی نے کی ہے۔ اختصار کلام کے بارے میں بھی مسعود حسن رضوی کا قول انتہائی باریک بینی پر دلالت کرتا ہے، ’’اگر طول مناسب مقام ہو، طول فضول نہ ہو، تو اختصار کے منافی نہیں ہے۔۔۔ یہ لفظ ایجاز کی قدیم اصطلاح کا مرادف نہیں ہے۔ ایجاز ہو یا اطناب یا مساوات، اگر مقتضائے مقام کے موافق ہے تو اختصار کے تحت میں آ جائےگا۔‘‘ (ص۷۴)
اس ضمن میں انہوں نے بعض بہت عمدہ مثالیں پیش کی ہیں۔ یہاں ایک نکتہ جو وہ سرسری طور پر بیان کر گئے ہیں، جدید تنقید کے نظریۂ ابہام کی پیش آمد معلوم ہوتا ہے اور خود ان کے اس خیال کی نفی کرتا ہے کہ طرز ادا کی پیچیدگی شعر کا عیب ہے، ’’کلام میں اختصار پیدا کرنے کا سب سے بڑا گریہ ہے کہ مقام کی مناسبت کے لحاظ سے ایسے لفظ استعمال کیے جائیں جو ذہن کو اپنے معنی کے علاوہ اور متعلق خیالوں کی طرف بھی منتقل کر سکتے ہوں۔ ایسے لفظ اثر کے طلسمات ہوتے ہیں۔‘‘ (ص۷۸)
ظاہر ہے کہ یہ نظریہ ابہام اور جدلیاتی لفظ کے تصورات کی طرف لے جاتا ہے اور مسعود حسن رضوی کے اکثر دور رس نظریات کی طرح یہ بھی کولرج ہی سے استناد حاصل کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ آخری جملے میں لفظ ’’اثر‘‘ کی توضیح میں پہلے ہی کر چکا ہوں کہ مسعود حسن رضوی کے یہاں ’’اثر‘‘ حسن کا مرادف ہے۔ مثالوں کا ذکر آیا ہے تو بات کہے بغیر نہیں رہا جاتا کہ غیر شعوری طور پر سہی، لیکن انہوں نے زیادہ تر مثالیں لکھنؤ کے شعرا سے ڈھونڈی ہیں۔ اکثر ایسا بھی ہوا ہے کہ غیرلکھنوی شعرا کے یہاں بہتر مثالیں مل سکتی تھیں، لیکن مسعود حسن رضوی نے اپنی تلاش لکھنؤ کے چھوٹے موٹے شعرا ہی تک محدود رکھی ہے۔
مندرجہ بالا کلیہ قائم کرنے کے بعد وہ میر نفیس کا ایک معمولی سا شعر پیش کرتے ہیں اور ایک شعر فارسی کا (گم نام۔ ) دونوں کی کیفیت ایک سی ہے۔ یہ ان امثلہ کی خوبی ضرور ہے، لیکن کثیر المفہوم الفاظ کی لاجواب مثالیں میر، غالب اور اقبال کے یہاں مل سکتی ہیں۔ ایسی مثالیں استدلال کو مضبوط تر بناتیں اور مصنف کا مقصد (یعنی اردو شاعری کے وقار کو قائم کرنا) اور زیادہ خوبی سے پورا ہوتا۔ شعر میں معنی کے بارے میں ایک کلیدی نظریہ پیش کرنے کے بعد میر نفیس کا ایک معمولی شعر پیش کرنے سے یہ گمان گزر سکتا ہے کہ اردو شاعری کی معراج اس میدان میں بس اتنی ہی ہے۔ حقیقت، ظاہر ہے کہ اس کے برعکس ہے۔
اختصار کے باب میں دوسرا نکتہ جو مسعود حسن رضوی نے پیدا کیا ہے، یعنی انتخاب، وہ بھی جدید تنقید کی پیش آمد ہے۔ ہمارے یہاں جزئیات نگاری اور محاکمات کے بارے میں نقادوں کے تصورات واضح نہیں تھے۔ یہ نکتہ نگاہو ں سے پوشیدہ تھا کہ کوئی بیان کسی واقعے کی ہو بہ ہو نقل نہیں ہو سکتا۔ بلکہ بیان کی شرط ہی یہ ہے کہ غیرضروری جزئیات سے صرف نظر کر لیا جائے۔ اس انتخابی عمل کو مسعود حسن رضوی بیان کی خوبی کہتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ انہوں نے حسب معمول ’’شاعرانہ‘‘ کی شرط لگا دی ہے، جو غیرضروری (اور جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں) غیرفطری ہے، لیکن بنیادی مسئلے پر ان کی گرفت بالکل صحیح ہے۔ لکھتے ہیں،
’’اختصار کی ایک خاص تدبیر یہ بھی ہے کہ مناظر کی تصویر، واقعات کے بیان اور جذبات کے اظہار میں صرف ضروری اور شاعرانہ عناصر منتخب کر لیے جائیں اور غیرضروری اور غیرشاعرانہ عناصر چھوڑ دیے جائیں۔۔۔ بعض تفصیلات کوئی خاص اثر پیدا کرنے میں معین ہوتی ہیں اور بعض مخل یا کم سے کم بے کار۔ پہلی قسم کی تفصیلات کو شاعرانہ اور دوسری قسم کی تفصیلات کو غیرشاعرانہ کہنا چاہیے۔‘‘ (ص۷۹۔ ۸۰)
شاعرانہ اور غیرشاعرانہ تفصیلات کی یہ تعریف اس وقت زیادہ درست ہوگی جب اس بات کی وضاحت کر دی جائے کہ مختلف بیانات میں صورت حال مختلف ہوگی۔ یعنی ممکن ہے کہ جو تفصیلات ایک بیان کے لیے غیر ضروری ٹھہریں، وہی تفصیلات کسی دوسرے بیان کے لیے یا کسی دوسرے تاثر کی تخلیق کے لیے ازحد ضروری ہوں۔ ’’کوئی خاص اثر‘‘ سے کام نہیں چلےگا، بلکہ اس بات کی وضاحت کرنا ہوگی کہ شاعر جس قسم کا اثر پیدا کرنا چاہتا ہے اس کے اعتبار سے تفصیلات کے انتخاب میں فرق آتا جائےگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو تفصیلات غیر ضروری (یعنی غیر شاعرانہ) ہوں گی، وہ محض بےکار نہ ہوں گی، بلکہ ہمیشہ فعال ہوں گی اور ان کا تفاعل یقیناً نقصان دہ ہوگا۔ یعنی غیر ضروری تفصیلات کا تفاعل جامد اور سلبی نہیں بلکہ متحرک اور فعال ہوتا ہے۔
مناسبت الفاظ کے عنوان سے الفاظ کے تفاعل کی جو مختلف کیفیتیں بیان کی گئی ہیں، وہ بھی اسی بات کو مستحکم کرتی ہیں کہ عدم مناسبت والے الفاظ دراصل غیرضروری تفصیلات سے مملو ہوتے ہیں۔ اس کا بہت عمدہ اشارہ اس بیان میں ملتا ہے، ’’جو لفظ ظاہر میں ہم معنی ہوتے ہیں، وہ بھی اثر میں یکساں نہیں ہوتے۔ مثلاً ’’جیل‘‘ اور ’’زنداں‘‘ کے معنی ایک ہی ہیں، مگر جو خیالات لفظ ’’جیل‘‘ سے وابستہ ہو گئے ہیں، وہ ’’زنداں‘‘ کے ساتھ نہیں ہیں۔ ’’رزاق‘‘، ’’غفار‘‘، ’’قہار‘‘، ’’خلاق‘‘ ان سب لفظوں سے مراد خدا ہی ہے، مگر ہر لفظ سے خدا کی ایک خاص صفت ظاہر ہوتی ہے۔ اگر کوئی خدا سے رحم کی التجا کرے کہ ’’یا قہار مجھ پر رحم کر‘‘ تو ظاہر ہے کہ یہ طرز ادا کس قدر نامناسب ہوگا۔‘‘ (ص۸۷)
یہاں بھی تحت نکتہ یہی ہے کہ ’’جیل‘‘ اور ’’زنداں‘‘ الگ الگ قسم کی تفصیل ہیں۔ ’’قہار‘‘، ’’غفار‘‘ وغیرہ سب الگ الگ قسم کی تفصیلات کے حامل ہیں اور ہر تفصیل اپنے مقام کے مقتضاہی سے اچھی معلوم ہوتی ہے۔
شعر میں ترنم کی بحث کے دوران مسعود حسن رضوی نے مناسبت لفظ کا بھی ذکر کیا ہے۔ فصاحت کے ذیل میں وہ کہہ چکے ہیں کہ یہ شرط کوئی بہت ضروری نہیں کہ وہی کلام فصیح ہے جس میں کوئی لفظ غیرمانوس اور غریب نہ ہو۔ لیکن ترنم کے سلسلے میں وہ اصرار کرتے ہیں کہ، ’’شعر‘‘ میں روانی پیدا کرنے کے لیے اس بات کا لحاظ بھی ضروری ہے کہ لفظ بہت کھینچ کر یا دباکر نہ پڑھے جائیں ؛جو ان کی اصل آواز ہے، وہی نکلے اور حتیٰ الامکان شعر کا ہر رکن کسی لفظ پر ختم ہو۔ ایسا نہ ہو کہ ایک لفظ کا پچھلا حصہ اور دوسرے لفظ کا اگلا حصہ مل کر ایک رکن بنے۔‘‘ (ص۹۵)
آخری شرط عمومی التزام کے طور پر تو تقریباً ناممکن العمل ہے (شاید اسی لیے حتیٰ الامکان کا لفظ رکھ دیا گیا ہے) اسے شعر کا ایک وصف زائد تو کہہ سکتے ہیں، لیکن وصف اصلی نہیں۔ بہر حال الفاظ کا صحیح تلفظ قائم رکھنے کے سلسلے میں جو سختی مسعود حسن رضوی نے برتی ہے، وہ انہیں میر عشق کے اسکول کے بہت قریب لے آتی ہے۔ یہ سختی نہ تو اس اصول سے تطابق رکھتی ہے کہ غریب الفاظ بھی مقتضائے مقام کے اعتبار سے کلام کو فصیح بنا سکتے ہیں۔ (کیونکہ غرابت تو غرابت ہے، کیا بہ لحاظ معنی کیا بہ لحاظ صورت) اور نہ اردو زبان میں آوازوں کے نظام کا احترام کرتی ہے۔
یہاں مسعود حسن رضوی ادیب غالباً غیرشعوری طور پر لکھنوی اساتذہ کے تعصب کا شکار ہو گئے ہیں۔ اس مسئلے پر تفصیلی بحث میں اپنے ایک مضمون میں کر چکا ہوں کہ اردو شعر میں آوازوں کی تخفیف یا سقوط کب روا رکھی جائے اور کب مناسب گردانی جائے۔ فی الوقت یہی کہنا کافی ہے کہ ہماری زبان کانظام اصوات حروف مصوتہ کی تخفیف کی اجازت دیتا ہے۔ یہ اجازت فتحہ، ضمہ اور کسرہ پر الگ الگ طریقوں سے اثر انداز ہوتی ہے۔ لہٰذا اس سلسلے میں ایسا کوئی عمومی حکم لگانا کہ شعر میں روانی کے لیے ضروری ہے کہ تمام الفاظ کی اصل آواز ہی ادا ہو، نامناسب ہوگا۔
مسعود حسن رضوی ادیب ’’ہماری شاعری‘‘ کے حصہ اول میں نقد شعر کے معروضی معیاروں کی تلاش میں مصروف رہے ہیں، لیکن آخر میں وہ تسلیم کر لیتے ہیں کہ شعر سے لطف اندوز ہونے یعنی شعر کے حسن وقبح کو پرکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت ایک وہبی چیز ہے، اس کا اکتساب نہیں ہو سکتا۔ یہاں وہ مشرق ومغرب کے بیش تر نقادوں کے ہم نوا نظر آتے ہیں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ اگر تجزیے اور استدلال کی سرحدوں کو ذرا اور وسیع کیا جائے تو کسی نہ کسی حد تک معروضی معیاروں کا تعین ہو سکتا ہے۔
اپنی موجودہ حالت میں ’’ہماری شاعری‘‘ نظریہ سازی اور کلیہ تراشی کی ایک غیرمعمولی کوشش ہے۔ اس کی تاریخی اہمیت مسلم ہے۔ اس میں بیان کردہ بہت سے نکات ومطالب نے جدید تنقید کی تعمیر میں خاموش مگر گہرا کام کیا ہے۔ مسعود حسن رضوی ادیب اصلاً حالی اسکول کے نقاد ہیں لیکن انہوں نے اپنی فکری انفرادیت برقرار رکھی ہے، اور وہ بھی اس حد تک کہ ’’ہماری شاعری‘‘ خود ان کے الفاظ میں ’’حالی کے مقدمے کا تتمہ‘‘ ہوتے ہوئے بھی اس کی توسیع، تنسیخ اور استحکام کرتی ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.