ہری چند اختر کا نثری اور شعری اسلوب
پنڈت ہری چند اختر متحدہ پنجاب یعنی غیر منقسم ہندستان کےصاحباں گاؤں، ہشیار پور ، مشرقی پنجاب میں 15 اپریل 1910 میں پید اہوئے ۔منشی فاضل کا امتحان پاس کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی سےانگریزی میں ایم ۔اے کیا ۔ پنجاب اسمبلی میں کچھ عرصے تک ملازمت کی ۔لاہور کے مشہور ’’پارس ‘‘ کے مدیر بھی رہے ۔ لاہور میں ان کی زندگی کا بیشتر حصہ گزرا ۔ وہ بیک وقت شاعر، ادیب اور صحافی تھے ۔ اردو کے علاوہ فارسی اور انگریزی زبان پر عبور رکھتے تھے ۔ شاعری کا اعلیٰ ذوق تھا ۔احباب کی محفلیں ان کی موجودگی سے زعفران زرا رہتی تھیں ، ان کی حاضر جوابی اور بذلہ سنجی سے لوگ لفط اندوز ہوتے ۔ ان کی طبعیت میں سادگی پسندی تھی ۔احباب اور ضرورتمندوں کی مدد کرنا ان کی فطرت میں شامل تھا ۔تقسیم ہند کے بعد وہ ہندستان آگئے مگروہ خوش نہیں تھے ۔ یکم جنوری 1958 کو ان کا انتقال ہوا۔
ہری چند اختر کی شاعری اور نثری تحریریں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک صاحب طرز ادیب تھے مگر سنجیدگی سے اگر اس جانب مائل ہوتے تو وہ ادب کے سرمائے گرانقدر اضافہ کر سکتے تھے مگر جس قدر بھی ان کی نگارشات موجود ہیں ان کی قدر و قیمت بھی کسی طور کم نہیں ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کو یکجا کرکے کلیات کے شکل میں شائع کیا جائے ۔
بیسویں صدی کا نصف اول بر صغیر ایشیا کی تاریخ ، تہذیب اور ادب کے لیے انقلاب آفریں تغیرات کا زمانہ رہا ہے۔اس پورے عہد میں ایشیا کے اس بڑے خطے میں زندگی کو یکسر تبدیل کردینے والے ایسے ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جن کی باز گشت اب تک سنائی دے رہی ہے ۔اسی لیے اس عہد کو تغیرات کے عہد سے موسوم کیا جاتا ہے ۔ان تغیرات نے جغرافیائی حدود بھی بدلے اور صدیوں کی تہذیب و ثقافت کو بھی متاثر کیا ۔ اس تبدیلی نے کئی سطح پر انسانی المیے کو جنم دیا جسے تاریخ نے بھی محفوظ کیا ہے اور ادب نے بھی اس عہد کے کرب کو اپنے اندر سمویا ہے۔ ادب اور تاریخ میں ان سانحات کو درج کرنے کا طریقہ جداگانہ ہے ۔ تاریخ میں سپاٹ حقائق کو پیش کیا جاتا ہے ، جس میں اختلاف و اتفاق کی گنجائشیں موجود ہیں ۔ لیکن ادب میں ان سانحات کو جس طرح پیش کیا گیا ہے اس میں زندگی کے شش جہات پہلوؤں کو دیکھا جاسکتا ہے ۔اس دور کی ایک بڑی بات یہ ہے کہ اس دور میں زندگی کے تیزی سے بدلنے والے مطالبات کی طرح ادب کے نظریات بھی بدلتے گئے ۔ادب میں ایک دور ایسا بھی آیا کہ اس پر مقصدیت غالب آگئی جس کے سبب ادبیت مجروح ہونے لگی۔ خاص طور پر اردو شاعری میں یہ تبدیلیاں بہت تیزی سے آئیں ۔ غزل کی جگہ نظم نے لے لی ، موضوع کی یکسانیت سے اسلوبِ شعر متاثر ہونے لگا ۔ادب منشور کے تحت لکھا جانے تو کہیں نہ کہیں تخلیقیت کا متاثر ہونا بھی فطری امر تھا۔اسی طرح مختلف ادبی نظریات کا ظہور میں آنا بھی فطری تھا۔
اسی دور ِتغیرات میں ایک صاحب طرز ادیب اور شاعر ادب کی دنیا میں قدم رکھتا ہے ۔ جسے اقبال ، سر عبد القادر، ظفر علی خاں، راجہ نرندر ناتھ، رائے بہادر کنور سین ، حفیظ جالندھری، جوش ملیح آبادی، جوش ملسیانی ، عرش ملسیانی جیسے باکمالوں کی صحبت نصیب ہوئی ۔معاشرتی زندگی کی شعبدہ بازیوں سے دور رہنے والا سیدھا سادہ انسان جب شاعری کی دنیا میں داخل ہوتا ہے تو شاعری کے ایسے کرتب دیکھانے لگا کہ عوام و خواص کا اس کی جانب مائل ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں تھی ۔ لیکن تعجب اس بات کی ضرور ہے کہ ایسا باکمال شاعر ایسا بے پروا بھی ہوگا کہ اس نے اپنی تخلیقات کو سنبھال کر بھی نہیں رکھا ۔ نثرو نظم میں فکر و فن کی نیرنگیاں بکھیرنے والا پنڈت ہری چند شرما جو بعد میں پنڈت ہر ی چند اختر کے نام سے مشہور و معروف ہوا ۔ اس کی تحریریں اب تک زیور طبع سے آراستہ نہ ہوسکیں ۔ ادب میں کے قارئین اور ناقدین ان کے نام سے کم ہی واقف ہیں ۔ بھلا ہو عرش ملسیانی کا کہ انھو ں نے ان کے بکھرے اوراق کو ’’ کفروایماں ‘‘ کے نام سے شائع کرکے ادب میں ان کے نام کو جا وداں کرنے کی کوشش کی ہے ۔بھلا ہو ریختہ کا کہ ا ن کے پورٹل پر یہ مجموعہٴ کلام موجود ہے جس کے سبب ہم جیسے قاری کی اس تک رسائی ممکن ہوسکی ۔ اگر یہ نہ ہوتا تو کچھ ہی دنوں میں ان کا نام ادب سے گمنام ہی ہوجاتا ۔ بھلا ہو آئیڈیا کمیو نیکشن کے صدر آصف اعظمی کا انھوں نے اس سیمنار کے انعقاد سے ا ن کے نام کو ادب کے منظر نامے پر لانے کی سمت میں کامیاب کوشش کی۔ پنڈت ہری چنداختر کی تحریروں کی عدم دستیابی کی وجہ ہی ہے کہ ان کے نام چند ایسی کتابوں میں بھی نہیں ، جن میں ضرور ہونا چاہیے تھا۔ اردو کے ہندو شعرا کی د وجلدوں میں ان کو جگہ نہیں مل سکی ، اہل پنجاب کے شعرا پر کئی تحقیقی مقالے لکھے گئے مگر یہا ں بھی ان کا تذکرہ نہیں ہوسکا ۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کی تحریروں کو جمع کرنے کی سنجیدگی سے کوئی کوشش نہیں ہوئی ہے۔جبکہ ان کی شعری اور نثری تحریریں ایسی ہیں کہ انھیں ادبی کینن میں نمایاں جگہ ملنی چاہیے ۔
تلاش بسیار کے بعد ان کی دو نثری تحریر تک میری رسائی ہوسکی ۔ ایک دیباچہ “سوز وساز” حفیظ جالندھری ۔عثمانیہ بک ڈپو ، عثمانیہ بازار ، حیدر آباد دکن 1933دوسرا بھی جوش ملسیانی کے مجموعہ ٴ کلام پر مقدمہ ہے ۔ مقدمہ ” جنون و ہوش” جوش ملسیانی ۔منشی گلاب چند سنگھ اینڈ سنز لمیٹیڈ ۔ نکلسن روڈ، دہلی ) اس کی تاریخ اشاعت معلوم نہ ہوسکی ۔ میں نے ان کی انھیں دو نثری تحریروں اور شعری مجموعہ ’’ فکر وایماں ‘‘ پر اپنا مضمون لکھا ہے ۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس قلیل سرمائے پر کیا گفتگو ہوگی مگر سچائی یہ ہے کہ ان کی نثر ایک ایک جملے پر رک کر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتی ہے ۔ عام طور پر لوگ انھیں شاعر کے طور پر جانتے ہیں مگر ابھی یہ عقدہ نہیں کھلا ہے کہ ان کی نظر ادبی نقد وتبصرہ پر بھی خوب گہری تھی ۔ پنڈت ہری چنداختر کو مشرقی شعری روایات کا گہرا علم تھا ۔ اپنے عہدکے تخلیقی منظر نامے پر بھی گہری نظر تھی۔ علم عروض پر انھیں مہارت حاصل تھی ۔ وہ فی البدیہہ شعر بھی کہتے تھے ۔ ا ن کی طبعیت میں حسِ مزاح بھی کوٹ کوٹ کر بھری تھی ۔ احباب کی محفلیں ان سے زعفران زار ہوجایا کرتی تھیں ۔بہ حیثیت انسان وہ اعلیٰ اقدار کے حامل تھے ۔ یہ تمام صفات ان کی نثر میں دیکھے جاسکتے ہیں ۔یہاں میں ان کی نثر( دونوں مقدموں کے حوالے سے ) پر پہلے گفتگو کروں گا ۔
جیسا کہ میں نے پہلے کہا وہ صاحب طرز ادیب ہیں ۔ ان کے جملے بڑے بے ساختہ اور فطری نظر آتے ہیں ۔ صاحب طرز ادیب کی صفت یہ ہے کہ ان کے جملے ساخت کے لحاظ سے منفرد بھی ہوں اور لفظ و معنی کے اعتبار سے مربوط بھی ہوں۔اس میں شخصیت کا عکس بھی ہو اور اختصار و اجمال کی صفت سے متصف بھی ہو ۔ایک بڑی خوبی یہ بھی کہ وہ بولتے ہوئے جملے بھی ہوں ۔ ذیل میں دیباچہ “سوز وساز” حفیظ جالندھری سے چند ایسے جملے ملاحظہ کریں :
” خوش گلو ایکٹروں اور فوق البھڑک سین سینری ” کے باوجود اس طرح ناکام نہ رہتا ۔
(ص18 دیباچہ سو ز وساز)
اس جملے میں ان شاعروں کو طنز کا ہدف بنایا ہے جو کلام میں موضوع ، نفسِ مضمون اور وزن کی باہمی مناسبت کا خیا ل نہیں رکھتے بلکہ خوش گلوئی سے کلام کے عیوب کی پردہ پوشی کرنا چاہتے ہیں اور مقبولیت کے بھی خواست گار ہیں ۔ یہ محض ایک جملہ نہیں بلکہ اس میں ایک تنقیدی بصیرت بھی ہے ۔ شعر کے حسن کا مشرقی معیار یہ ہے کہ اس میں وزن و معنی دونوں ہوں ۔ صرف لفظوں کو سجانے سے کلام میں حسن نہیں آتا ۔ اسی لیے وہ کلا م کو عروس اور وزن کو زیور کہتے ہیں ۔ ان کا یہ جملہ بھی دیکھیں :
” پس عروس ِ خوب ’ بازیور ‘ ہو تو سبحان اللہ اور اگر بے زیور ہوتو بھی کوئی حرج نہیں ۔ لیکن عروس کا خوب ہونا ضروری ہے بلکہ میرے خیال میں عروسِ خوب کو بھی زیور اسی صورت میں زیب دے سکتا ہے جبکہ وہ اس کے دوسرے تمام محاسن سے پوری پوری مناسبت رکھتا ہو، ورنہ زیور کی تو یہ صورت بھی ہوسکتی ہے کہ ایک پری چہرہ خاتون کو انگریزی لباس پہنا کر گلے میں سیر سوا سیر کی ہندستانی ہیکل باندھ دی جائے ۔”ص۔(ص17 دیباچہ سو ز وساز)
ہم دکن کی سر زمین میں ہیں تو ملا وجہی کے وہ شعر بھی یا دداشت میں محفوظ کر لیں جو انھوں نے ’’ در شرح شعر گوید ‘‘ کے عنوان سے کہا تھا ۔ وجہی نے وزن و آہنگ کے بارے میں کہا تھا :
اگر خوب محبوب جو سور ہے
سنوارے تو نو ر علی نور ہے
وجہی سے میر تک بلکہ پورے کلاسیکی عہد میں وزن و شعر کو ایک خاص اہمیت حاصل تھی ۔اسی نظریے اور تصور کی جانب ہری چنداختر نے ان جملوں میں متوجہ کیا ہے ۔
اب اور جملے ملاحظہ ہوں:
“قبولیت کے پیدا ہونے کا وقت مقرر کرنا اور اس کے بڑھنے ، پھیلنے ، گھٹنے ، سمٹنے سے اس کی عمر کا اندازہ لگانا سخت مشکل ہے ۔” ۴۔(ص4 دیباچہ سو ز وساز)
یہ جملہ حفیظ جالندھری کی مقبولیت کے حوالے سے اور تقابل میں ان شعرا کو طنز کا نشانہ بنا یاہے جو مقبولیت کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کرتے ہیں ۔ اگر ایسے شاعروں کو مقبولیت مل بھی گئی تو وہ وقتی ہوتی ۔ اس جملے میں انہی باتوں کی جانب اشارہ کیا ہے۔اسی مفہوم کے کچھ اور جملے ملاحظہ ہوں :
“پس جہانِ بزم شعرو سخن میں تعارف و تقریب کا تعلق ہے یہ کام باضابطہ کی حد تک انجام پا چکا ہے” ۔(ص2 دیباچہ سو ز وساز)
” انھیں اہل بزم نے تسلیم کر لیا ہے یا نا مطبوع اور نا مقبول کہہ کر رد کردیا ہے ۔” (ص2 دیباچہ سو ز وساز)
حفیظ جالندھری کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے ادب کی اہمیت پر یہ بلیغ جملہ ملاحظہ ہو:
“کسی قوم کی تاریخ کو اگر اس کے سوانح حیات قرار دیا جائے تو لٹریچر کو اس کے خود نوشت سوانح حیات کہنا بالکل بجا ہوگا۔”(ص 6سوزوساز)
بعض شعرایسے ہوتے ہیں جن کی قدر ومنزلت کو لوگ نہیں پہچان پاتے ۔ لیکن ایک دور ایسا آتا ہے کہ ان کی شاعری کی مقبول خاص و عام ہوجاتی ہے۔ ایسے ہی شاعروں میں ایک نام ہومر کا ہے ۔ ہری چند اختر نے ہومر کے بارے میں لکھا ہے کہ:
” جب زندہ تھے تو اس کے اشعار سن کر کوئی بھیک بھی مشکل سے دیتا تھالیکن اس کے مرنے کے بعد ایک زمانہ ایسا آیا کہ یونان کے وہی سات شہر گلی کوچوں میں در بدر خاک بسر لاٹھی ٹیکتا پھرتا تھا اس کی جائے ولادت کا فخر حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے لگے“۔ (ص4 دیباچہ سو ز وساز)
اب شعری رویے کی کجی اور شعرا کی نمود و نمائش پر یہ جملے دیکھیں :
” ڈگر پرست فاعلاتیوں کے جذبات کا احترام اس پہلو بھی رکھا گیا ہے ۔”(ص14سوز وساز)
“مگر اس نمائش کا نتیجہ ” مغز ما خورد وحلق خود درید” کے سوا کچھ نہیں۔”(ص 12سوز وساز)
” غزل کی مخالفت میں کچھ مدت سے ایک ہڑ بونگ سی مچ رہی ہے اور مزہ یہ ہے کہ اس طوفان میں بعض سنجیدہ و فہمیدہ اشخاص کے پاؤں بھی اکھڑ گئے ۔”(18سوزوساز)
در اصل یہ وہی زمانہ ہے جب ترقی پسندیت کے تحت غزل معتوب ہوئی اور بغیر کسی تامل کے غزل کو نشانہ بنایا جانے لگا تو ہری چند اختر نے یہ بات کہی۔ وہ کسی نظریے کے مخالف نہیں تھے مگر اس فیشن کے خلاف تھے ۔
ان جملوں کے بعد ہری چند اختر کی تنقیدی بصیرت کو دیکھیں ۔ہری چند اختر مانتے ہیں کہ شاعری کی قدر وقیمت کی شناخت آسان نہیں ، یہ بھی کوئی ضروری نہیں کہ کسی شاعر کو اس کی زندگی میں ہی شاعری کے سبب عزت و توقیر مل جائے ۔ لیکن اگر شاعری میں فنی جوہر موجود ہے تو کسی نہ کسی دن ا س کی قدر و قیمت پہچانی جائے گی ۔ اس بات کو کہنے کے لیے ہری چند اختر نے جو لب لہجہ اپنایا ہے اسے دیکھیں اور اندازہ لگائیں کہ نقد وتبصر ہ کی یہ زبان کیسی شگفتہ ہے:
” اردو شاعروں میں غالب اور ذوق کو لیجئے ۔ اپنی زندگی میں ذوق ملک الشعرا، خاقانئ ہند تھا اور غالب مہمل گو۔ لیکن آج ملکِ سخن میں غالب کا سکہ رواں ہے اور ذوق کی شہرت آزاد مرحوم کا وہ سحر کار قلم بھی قائم نہ رکھ سکا جس نے اس ٹمٹماتے ہوئے چراغ کو آفتابِ عالم تاب ثابت کرنے کی کوشش میں اردو شاعری کو کم از کم پچاس سال پیچھے دھکیل دیا۔”(ص 4سوزوساز)
اس اقتباس میں آزاد و حالی کا رنگ بھی ہے اور مروجہ تنقید پر طنز بھی ہے ۔ہری چند اختر، صاحبِ اسلوب اس لیے بھی ہیں کہ انھوں نے اپنی تحریروں میں تنقید اور طنز کا پیرایہ اپناتے ہوئے اپنی باتوں کو ثابت کرنے کاخوبصورت طریقہ نکالا۔ اپنے عہد کے تنقید ی رویے سے مطمئن نہیں تھے اسی لیے انھوں نے اس پر گہرا طنز بھی کیا ہے ۔ ان کی نظر مشرقی شعری و ادبی روایات پر بہت گہری تھی ۔ ذیل کے اقتباس کو دیکھیں اور ہری چند اختر جو محض شاعر اور فی البدیہ شاعر کے طور پر مشہور ہوئے ان کی تنقیدی بصیرت کو دیکھیں :
” ایشیائی نقاد یورپی عینک کے بغیر اپنی بصارت کو قابل اعتبار نہیں سمجھتے اور بعض اوقات تو انھیں اس عینک کے بغیر کچھ سجھائی نہیں دیتا ۔ غالب کی مثال سے جہاں وقتی رائے کی بے وقعتی کا اندازہ ہوتا ہے وہاں یہ راز بھی کھلتا ہے کہ بعض قابل قدر جدتیں قبل از وقت معرض ِوجود میں آکر کچھ مدت کے لیے نا مطبوع بلکہ مردود ہوجاتی ہیں مگر وقت آنے پر ان کی ایسی قدر ہوتی ہے کہ ملک کے لٹریچر میں وہی جگہ حاصل ہوجاتی ہے ۔”(ص5سوزوساز)
اسی طرح اس زمانے میں ترقی پسندی کا زور تھا ۔ لیکن اس کے متوازی رجحانات بھی اسی شدت سے موجود تھے ۔ اس کشمکش ِادب و شعر کے حوالےسے ہری چند اختر کہتے ہیں ۔
“آج کل ہر ادیب کو ترقی پسند یا رجعت پسند قراردینا بھی فیشن میں داخل ہے ۔ لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ جو لوگ اپنے آپ کو ترقی پسند کہتے ہیں وہ بھی ترقی پسند اور رجعت پسند کی کوئی واضح اور جامع تعریف اور ان دونوں گروہوں میں تمیز کے لیے کوئی کسوٹی نہیں پیش کر سکے ۔”(ص30مقدمہ ” جنون و ہوش”) جوش ملسیانی ۔منشی گلاب چند سنگھ اینڈ سنز لمیٹیڈ ۔ نکلسن روڈ، دہلی )
ہری چند اختر کو عروض اور شعری کمالات کا خوب علم تھا ۔ ان کے ہم عصروں نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے۔ اپنے عہد کے کے شعری رویے پر اظہار خیال کرتے ہوئے ہندستانی اوزان کواپنانے کی وکالت کی ہے وہ لکھتے ہیں :
“ہندستانی موسیقی اور اردو شاعری کے تال سم میں بظاہر کوئی تعلق نظر نہیں آتا ۔ ملکی دُھنوں سے غفلت بلکہ دانستہ بے اعتنائی روا رکھی گئی ہے حتی کہ ہندستانی گیت اردو شاعری کے نام نہاد عروضیوں کو اس لیے غیر موزوں معلوم ہونے لگتے ہیں کہ ان میں ملکی زُحافات سے کام لیا جاتا ہے ۔ کیا یہ افسوسناک بات نہیں کہ جو سُر اور تال ہندستانیوں کی روح میں بسے ہوئے ہیں ان کو اجنبی اور غیر مانوس گردانا جائے ، اور غیر مانوس زیر و بم ہمارے اشعار کی موزونیت یا عدم موزونیت کا معیار بنا لیے جائیں ؟”(ص11 دیباچہ سو ز و ساز)
اس مقدمے میں جوش ملسیانی کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے ہوئے انھوں نے صنف غزل پر رائے دی ہے ۔ اس رائے میں بظاہر کوئی نئی بات نہیں لیکن اس رائے سے پنڈت اختر کی شاعری کی فہم اور مشرقی شعری روایت کا احترام دیکھا جاسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ انھوں نے تبصرے اور تنقید کے لیے جو زبان استعمال کی ہے اس کے اسلوب کو دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ یہ وہی اسلوب ہے جس کی آزاد نے ابتدا کی اور حالی تک تنقید میں تقریباًیہی اسلوب موجود ہے ۔اقتباس دیکھیں :
“حقیقت یہ ہے کہ غزل اپنی صورت وترکیب اور نفس مضمون ہر دو اعتبار سے شاعری کی بنیاد بھی ہے اور معراج بھی ۔ حسنِ بیان شاعری کا اہم ترین جزو ہے ۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حسن ِ بیان ہی شاعری ہے ۔ حسن بیان میں صدق محاورہ ، زبان کی صفائی ، بیان کی صفائی اور تازگی، حسنِ ترکیب ، خوبیٴ استعارہ، لطفِ تشبیہ ، مضمون کے ساتھ الفاظ کی مطابقت وغیرہ سب کچھ شامل ہے اور ان کے علاوہ اختصارو جامعیت ۔ ظاہر ہے کہ جب تک حسن بیان کے ان تمام اجزائے ترکیبی پر عبور نہ شاعر اور اس کی شاعری دونوں ناکام رہتے ہیں۔”
(ص26مقدمہ ” جنون و ہوش” جوش ملسیانی ۔منشی گلاب چند سنگھ اینڈ سنز لمیٹیڈ ۔ نکلسن روڈ، دہلی )
غزل کے موضوعات اور حسن کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
“غزل کے مضامین میں جوشِ جذبات ، جوش ِ تمان، ہجر کا رونا، وصل کی آرزو، رشک و رقابت ، سوز و گداز، نالہٴ و فریاد، شکوہٴ و شکایت ، تانک جھانک، نامہ و پیام ، رندی ومستی سب کچھ ہوتاہے اور ہونا بھی چاہیے ۔ سوز و رقت کے بغیر غزل لطیف ترین صنف شعر کی جگہ سیاست داں کی ڈائری یا پنساری کے بیچک بن کے رہ جائے ۔ لیکن دوسری جانب وہ شاعر بھی قابل معافی نہیں جو غزل کو مرثیہ بناڈالتے ہیں اور اور اپنی قافیہ پیمائی کو ایسی رکیک اور مکروہ بوالہوسی سے آلودہ کرتے رہتے ہیں جس پر غنڈے ، شہدے اور زنانِ بازاری بھی شرمسارہوں۔” (ص26مقدمہ ” جنون و ہوش” جوش ملسیانی ۔منشی گلاب چند سنگھ اینڈ سنز لمیٹیڈ ۔ نکلسن روڈ، دہلی )
اب تک ہری چند اختر کی تنقیدی بصیرت اور تنقیدی اسلوب پر بات ہوئی اب اسی تنقیدی تحریر میں ان کے اسلوب کا ایک اور رنگ ملاحظہ کریں جسے پیکر تراشی پر محمول کر سکتے ہیں ۔ جوش ملسیانی کا تعارف اس انداز سے کراتے ہیں :
“جن لوگوں نے اس سے پہلے جو ش ( ملسیانی ) کو نہیں دیکھا تھا انھیں کچھ دیر کے لیے ضرور حیرت ہوئی ہوگی ، درمیانے قد کا ایک سیدھا سادہ ادھیڑ آدمی ، معمولی کپڑے کی پگڑی ، قمیص اور دھوتی ۔ دیسی جوتا، لباس کی وضع قطع خالص دیہاتی، شاعرانہ بناؤنہ استادانہ تمکنت، نہ حاشیہ بردار، سراپا خلوص و انکسار، انداز میں دیہاتیوں کی سی اخلاص بھری سادگی اور بے تکلفی، ہونٹوں پر ہلکا سا متانت آمیز تبسم ۔ صورت و شکل دیکھو تو زیادہ سے زیادہ ایک سفید پوش عامی کہہ سکیں ۔ ہر شخص سے یوں ملتا ہے جیسے خود اسے بھی اپنے مرتبے اور علم کا احساس نہیں ۔ بھلا اس وضع قطع اور انداز میں ناواقف لوگوں کو اس اشتیاق اور تعریف وتوصیف کا جواز کہاں نظرآسکتا تھا ۔”(ص8جوش وجنوں)
ہری چند اختر کے نثری اسلوب کو آ پ نے دیکھا ۔ چند اقتباسات کی مثالوں سے اتنا تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ ہری چند اختر کو نثر نگاری پر بھی قدرت حاصل تھی یہ اور بات ہےکہ ان کا بہت زیادہ نثری سرمایہ موجودنہیں لیکن ان چند تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ کلاسیکی نثر و نظم سے ان کو والہانہ لگاؤ تھا ۔ ان کی نثر پر آزاد، حالی ، شبلی او ر نذیر کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں ۔
جہاں تک شاعری کی بات ہے تو نثر کے مقابلے میں شاعری کا سرمایہ قدرے زیادہ ہے۔لیکن وہ بھی محض ایک مجموعہٴ کلام ’’ کفر وایماں ‘‘ موجود ہے جس کی ضخامت بھی سو صفحات سے کم ہے ۔ کمیت کے لحاظ سے کم سہی مگر وقعت کے لحاظ سے کم نہیں ہے ۔ اس مجموعے کو پڑھتے ہوئے ان کے اکثر اشعار ٹھہر کو بار بار پڑھنے اور غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں ۔ ان کے بعض اشعار تو ایسے ہیں جن کے متعلق میرا خیال ہے کہ یہ صرف ہری چند اختر ہی کہہ سکتے ہیں ۔ یہ اشعار دیکھیں جن میں ہری چند خدا سے مخاطب ہیں :
تو مرے اعمال کا پابند نکلا حشر میں
اے خدا میرے خدا ، تجھ کو خدا سمجھا تھا میں
زندگی بے شک ترا انعام ہے یارب مگر
سن سکے تو کچھ ترے انعام کی باتیں کریں
اب اقبال کے ان اشعار کو ذہن میں رکھیں :
سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم
بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے
اسی زمین میں ہری چند کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں:
کہیں افراط مئے ہے چہرہ افروز
کہیں خون جگر باقی نہیں ہے
نمود خیر وشر کا یہ نتیجہ کس نے سوچا تھا
خدا مفرور، آدم جاں بلب ، شیطان باقی ہے
مجال دم زدن کس کو ہے یارب
مگر یہ شان رزاقی نہیں ہے
ترے احکام کی دنیا ، مرے اعمال کا محشر
یہاں میری،وہاں تیری خوشی سے کچھ نہیں ہوتا
اب یہ شعر دیکھیں :
پتّابھی اگر ہلتا ہے تو اس کی رضا سے
اور بندہ گنہگار ہے ، معلوم نہیں کیوں
رہیں دودو فرشتے ساتھ تو انصاف کیا ہوگا
کسی نے کچھ لکھا ہوگا ، کسی نے کچھ لکھا ہوگا
ملے گی شیخ کو جنت ، مجھے دوزخ عطا ہوگا
بس اتنی بات ہے جس کے لیے محشر بپا ہوگا
یہ وہ اشعار ہیں جن میں شاعر کہیں خدا سے مخاطب ہے اور کہیں شوخی سے کلام کرتا ہے ۔ یہ اسی قبیل کے اشعار ہیں کہ جن پر اقبال پر بھی کفر کے فتوے لگے تھے ۔ اسی لیے میں یہ کہا تھا کہ یہ وہ اشعار ہیں جو ہری چند اختر ہی کہہ سکتے ہیں۔مگر ایسا نہیں کہ ان کو حلقہٴ ادب میں معتوب قرار دیا گیا ہو۔ بلکہ یہ ان کا شاعرانہ أسلوب ہے کہ ان اشعار میں بظاہر ایسی باتیں ہیں جو کفر کے سرحد تک جاتی ہیں لیکن اس کے معانی کئی دیگر مفاہیم کی جانب بھی رہنمائی کرتے ہیں۔ کچھ اشعار ایسے بھی ہیں جو موضوع اعتبار سے نئے تو نہیں ہیں لیکن أسلوب کے اعتبار سے منفرد ضرور ہیں۔ ملاحظہ ہوں ایسے اشعار :
عبادت از پئے انعام زاہد
ہوس کاری ہے ،مشتاقی نہیں ہے
کہہ دیا لا تقنطو اختر کسی نے کان میں
اور دل کو سر بسر محو تمنا کردیا
میکدے میں بیٹھ کر ایمان کی پروا نہ کر
یا اسے بھی ایک دو چِلّو پلا ، دیوانہ کر
اجی کیا شمع کیا پروانہ دونوں جل بجھے آخر
کوئی آتش فشاں ہوکر، کوئی آتش بجاں ہوکر
ہری چند اختر کے شعری أسلوب کی ایک اہم خوبی شوخی و ظرافت بھی ہے ۔ ان اشعار کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان پر غالب اور مومن کے اثرات بھی ہیں ۔ یہ اشعار دیکھیں :
ہجر کی شب اِدھر اللہ ، اُدھر وہ بت ہے
دیکھنا یہ ہے کہ اب کون بلاتا ہے مجھے
خدا محفوظ رکھے ،یہ حسیں دل لے ہی لیتے ہیں
کسی پر مہرباں ہوکر ، کسی سے سر گراں ہوکر
بزم دشمن ہے خدا کے لیے آرام سے بیٹھ
با ر بار اے دل ِ ناداں تجھے کیا ہوتا ہے
میری صورت ، مری حالت ، مری رنگت دیکھی
آ پ نے دیکھ لیا ؟ عشق میں کیا ہوتا ہے
ہم جو کہتے ہیں ہمیشہ ہی غلط کہتے ہیں
آ پ کا حکم درست اور بجا ہوتا ہے
کسی کے حسن عالم تاب کی تنویر کے صدقے
کسی بد بخت کی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی
تلاش شمع سے پیدا ہے سوز ناتمام اختر
خود اپنی آ گ میں جل جانے والے اور ہوتے ہیں
نادر موضوعات کے اشعار ملاحظہ کریں :
حسن کو پہنا چکے جب خود نمائی کا لباس
عشق نے سر پیٹ کر پوچھا کہ یہ کیا کردیا
تری معیاد غم پوری ہوئی ، اے زندگی خوش ہو
قفس ٹوٹے نہ ٹوٹے ، میں تجھے آزاد کرتا ہوں
جہاں تُجھ کو بٹھا کر پوجتے ہیں پوجنے والے
وہ مندر اور ہوتے ہیںشوالے اور ہوتے ہیں
کچھ مشہور اشعار:
شباب آیا، کسی بُت پر فدا ہونے کا وقت آیا
مری دنیا میں بندے کے خدا ہونے کا وقت آیا
ہمیں بھی آپڑا ہے دوستوں سے کام کچھ ، یعنی
ہمارے دوستوں کے بے وفا ہونے کا وقت آیا
اہل اقتدار پر طنز :
دما دم شعبدے ہم کو دکھاتا ہے کوئی جلوہ
کہیں شیخ حرم ہوکر ، کہیں پیر مغان ہوکر
تعلی :
مر امضموں سوارِ توسنِ طبع رواں ہوکر
زمین شعر پر پھرتا ہے ، گویا آسماں ہوکر
نئی ترکیبیں:
وفا کی سسکیاں اس پر ہوس کے قہقہےتوبہ
محبت کی فضا تھرّا گئی کیا تم نہ آؤگے
جمع ہیں سارے مسافر ناخدائے دل کے پاس کشتیٴ ہستی نظر آتی ہے اب ساحل کے پاس
ہندو مذہب کے فلسفے :
یہ ترے دست کرم کو کھینچ لے گا ایک دن
اے خدا رہنے نہ دے دستِ دعا ساحل کے پاس
گنگا کی پاکیزگی کے ساتھ یہ تصور
نئی ترکیبات :
خلوص عارضی وہ بھی بہ قیمت ڈھونڈنے نکلے
تماشا نامراد آیا ، تمنا سوگوار آئی
فی البدیہ اشعار :
مزا جینے کا آخر دل لگانے پر ہی ہوتا ہے
فدا صاحب کسی پر دیکھ لینا تھا فدا ہوکر
ہری چند اختر کی شاعری اور نثری تحریریں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک صاحب طرز ادیب تھے مگر سنجیدگی سے اگر اس جانب مائل ہوتے تو وہ ادب کے سرمائے گرانقدر اضافہ کر سکتے تھے مگر جس قدر بھی ان کی نگارشات موجود ہیں ان کی قدر و قیمت بھی کسی طور کم نہیں ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کو یکجا کرکے کلیات کے شکل میں شائع کیا جائے ۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.