حیات اﷲ انصاری کے افسانوں میں مارکسی فکروفلسفہ
مارکسزم ایک ایسا فلسفہ اور تصور ہے جس میں کائنات اور انسان کے حوالے سے بہت سے ایسے نظریات ہیں جو غیر روایتی ہیں اور جن کی وجہ سے انسانی زاویہ نگاہ میں بھی بڑی حد تک تبدیلی آئی اور اس نے انسانی سماج کی تبدیلی میں نہایت اہم رول ادا کیا ہے۔ مارکسیت کا تصوردر اصل کارل مارکس نے دیا تھا جس نے سماجی، معاشی اور سیاسی حرکیات کے تعلق سے انقلابی نظریات پیش کیے در اصل انہوں نے فرانس کے انقلاب اور برطانوی معیشت اور جرمن فلسفہ کا مفصل تنقیدی تجزیہ کرنے کے بعد کچھ نتائج اخذ کیے تھے۔اور انہی نتائج کی بنیاد پر ایک نیا تصور اور فلسفہ دنیا کو دیا۔ مارکس کے مطابق مادہ سے باہر کوئی حقیقت نہیں ہے اسی لیے مادہ ہی حقیقت کا اصل جوہر ہے۔اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی نظریہ ہو چاہے سائنسی ہو سماجی ہو یا فنی ہو سبھی کی بنیاد مادیت ہی ہے۔ مادی دنیا کے حقائق کو سمجھے بغیر کسی بھی حقیقت کی تفہیم مشکل ہے۔ مارکس نے حرکت اور تبدیلی کا فلسفہ دیا اور معاشرتی تبدیلیوں کے لیے ایک نئے تصورات پیش کیے ۔ مارکسزم کا بنیادی مقصد ایک ایسے آئیڈیل معاشرے کی تشکیل ہے جس میں نہ طبقاتی تقسیم ہو اور نہ بورژوائی نظام ہو اور نہ ہی سرمایہ دارانہ استحصالی نظام۔ مارکس نے استحصال پر مبنی ہر نظام کی نفی کی ہے۔ وہ اس بات کے بھی قائل تھے کہ زیادہ تر بڑے ذہن بھی استحصالی نظام کے پروردہ ہیں اسی لیے ان کی سوچ میں انقلاب نہیں ہے۔ کارل مارکس نے جو فلسفہ دیا تھا ہر عہد میں اس کی معنویت برقرار رہے گی کہ جس استحصالی نظام کی انہوں نے نفی کی تھی وہ نظام برقرار ہے آ ج بھی امیر وغریب کی تفریق قائم ہے اور مزدوروں کا استحصال بدستور جاری ہے۔ مارکسزم نے در اصل معاشرتی تبدیلی کا ایک اہم تصور اور فلسفہ دیااس فلسفہ کا بنیادی مقصد سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ اور سوشلزم اور کمیونزم کا قیام ہے۔مارکس نے جدلیاتی مادیت پر زیادہ زوردیا ہے اور یہی ان کے فکر وفلسفہ کا بنیادی محورومرکزہے۔
ترقی پسند تحریک اسی مارکسیت کی زائدہ ہے ۔ترقی پسندتحریک سب سے بڑی ادبی تحریک ثابت ہوئی اور اس کے اثرات بہت ساری زبانوں پر پڑے اوربہت سارے دانشوراور مفکروںنے اس تحریک کی حمایت کی اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس وقت کے جتنے دانشور اور مفکر تھے انہوں نے ترقی پسند تحریک کے اعلان نامہ پر اپنے دستخط کیے۔سبط حسن نے ترقی پسند ادب کی ضرورت کو بیان کرتے ہوئے روشنائی کے دیباچہ میں بہت صحیح بات لکھی تھی:
’’ترقی پسند ادب کی تخلیق کسی، عہد، کسی قوم، کسی زبان کا اجارہ نہیں ہے بلکہ ادیبوں نے ہر دور میں معاشرے کے صحت مند رجحانات کی پذیرائی اور ظلم وجبر کی قوتوں کی مذمت کی ہے۔ ترقی پسندی کا تعین زندگی میں ہو یا ادب میں معاشرہ اپنے سماجی شعور اور وقت کے تقاضوں کے مطابق کرتا ہے اسی لیے معاشرہ کی تبدیلی کے ساتھ ترقی پسندی کے مفہوم میں بھی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔‘‘(1)
ترقی پسند تحریک نے عوامی ذہن وفکر پر بہت گہرے اثرات مرتب کیے اور شاعروں اور ادیبوں کے ذہنوں کی تبدیلی میں بھی اس کا بہت اہم کردار رہا۔ جس طرح 1857کے غدر کو ایک سیاسی انقلاب کی حیثیت حاصل ہے اسی طرح ترقی پسند تحریک کو بھی ادبی انقلاب کہاجائے تو غلط نہیں ہوگا۔ کیونکہ جس طرح غدر نے ہندوستان کے سیاسی، سماجی اور معاشرتی شعبے میں ایک انقلابی کیفیت پیدا کی تھی اسی طرح ترقی پسندی میں بھی مختلف ادبی اصناف پر اپنا گہرا اثر مرتب کیا اور اس طرح ادب میں بھی ترقی پسند تحریک کی وجہ سے ایک طوفانی انقلاب برپاہوا۔ ترقی پسند تحریک نے جہاں اردو شاعری کو متاثر کیا وہیں فکشن پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ گوکہ ترقی پسند تحریک سے قبل بھی فکشن میں بہت اہم تجربے کیے گئے اور ان کا موضوعاتی دائرہ بھی کافی وسیع تھا مگر ترقی پسند تحریک کے بعد فکشن کا ایک نیا طور وطرز اور موضوع بھی سامنے آیا۔ اور ترقی پسندوں نے سماجی، سیاسی اور معاشرتی جبر واستحصال کے خلاف تخلیقات پیش کرنے کی شروعات کی۔انہوںنے انسانی زندگی کو اس کے حقیقی سیاق وسباق میں سمجھنے کی کوشش کی۔
جن لوگوں نے ترقی پسند افسانے کے بنیاد کو استحکام عطا کرنے میں اہم رول ادا کیا ان میںعلی عباس حسینی، اختر حسین رائے پوری،احمد علی، رشید جہاں، حیات اﷲ انصاری، سہیل عظیم آبادی، اپندرناتھ اشک، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، احمدندیم قاسمی، عصمت چغتائی، اخترانصاری، اختراورینوری، بلونت سنگھ، خواجہ احمد عباس، عزیز احمد، دیویندر سیتارتھی، مہندرناتھ اور ہنس راج وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
حیات اﷲ انصاری مارکسی فکر وفلسفہ سے بہت متاثر تھے۔سماجی تبدیلی اور معاشرتی انقلاب کا ایک واضح تصور رکھتے تھے۔ اس لیے انہوں نے اپنے افسانوں میں طبقاتی استحصال ، سماجی عدم مساوات اور جاگیردارانہ معاشرے کے ظلم کے بارے میں کھل کر لکھا ہے۔ وہ اپنے عہدکے حالات سے بخوبی واقف تھے اور انہوںنے مارکسی تصورات کو بہت ہی گہرائی کے ساتھ سمجھا تھا اور اس کی اہمیت ، افادیت اور معنویت کا انہیں پورا احساس تھا۔ انہوں نے مارکسی تصورات کو بنیادبنا کر افسانے لکھے کیونکہ ان کے ذہن میں سماجی اور معاشی انقلاب کا ایک خاص تصور تھا۔
مارکسی فکر اور نظریے سے متاثر ہوکر حیات اﷲ انصاری نے جو افسانے تحریر کیے ان میں ’’بوڈھا سودخور‘‘، ’’ڈھائی سیر آٹا‘‘، ’’آخری کوشش‘‘، ’’کمزور پودا‘‘، ’’بارہ برس کے بعد‘‘، ’’ٹھکانہ‘‘، ’’بھیک‘‘، ’’شکستہ کنگورے‘‘، ’’خلاص‘‘، ’’بیوقوف‘‘، ’’ادھوری‘‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
’’بڈھا سودخوار‘‘ کے عنوان سے جو پہلا افسانہ تحریر کیا تھاو ہ مکمل طور پر مارکسی فکر اور نظریے سے متاثر ہے کیونکہ اس افسانے میں انسان کے استحصال کی ایک ہیبت ناک تصویر پیش کی گئی ہے۔ وہ استحصال جس کے خلاف ترقی پسند افسانہ نگار احتجاج کرتے رہے ہیں۔یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو نہ صرف پیسہ جمع کرنے کے چکر میں اپنے گھر والوں کی ضروریات ہی نہیں بلکہ اپنے پاؤں کے علاج تک سے گریز کرتا ہے۔ درد کی شدت کے باعث لینگڑا کر چلتا ہے مگر وہ صرف یہی سوچتا رہتا ہے کہ کس طرح دو پیسے بچا لیں۔ اپنی بیمار بیوی کو بھی ڈاکٹر کے پاس لے جانے کے بجائے گولر کا پتہ کھلاتا ہے۔اس طرح سدھامل اپنی بخیلی کا ثبوت دیتا ہے۔ حتیٰ کہ اپنے بیوی بچوں کو بھی پیٹ بھر کھانا کھانے نہیں دیتا۔ در اصل وہ ایک رسم ورواج کے شکنجے میں جکڑا ہوا انسان ہے جو نہیں چاہتا کہ سماج میں کمتر نظر آئے۔ اسی لیے اسے ہر وقت پیسہ بچانے کی فکر لاحق ہوتی ہے۔ حیات اﷲ انصاری نے ’’بڈھا سود خوار‘‘ کی ذہنی اور جذباتی کیفیت کی بڑی خوبصورت عکاسی کی ہے۔
اس افسانہ کے بارے میں ڈاکٹرسید عابد حسین لکھتے ہیں:
’’ایسے افسانے تو اردو میں نظر ہی نہیں آتے۔ بڈھا سود خوار افسانہ ان کی اس فکر کی عکاسی کرتا ہے جو انسان اور انسان کے استحصال کے کرب سے پیدا ہوتی ہے، یہ افسانہ ایک ایسی حقیقت نگاری کی اعلیٰ مثال ہے جس میں آواز احتجاج کی گونج بھی پنہاں ہے۔‘‘ (2)
’’ڈھائی سیر آٹا‘‘ حیات اﷲ انصاری کا وہ افسانہ ہے جس کے بارے میں ناقدین کا خیال ہے کہ یہ اردو کا اولین مارکسسٹ افسانہ ہے۔ جو سب سے پہلے علامہ نیاز فتحپوری کے ماہنامہ ’’نگار‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ اور اس کی حقیقت نگاری کی سبھی نے تعریف کی تھی۔ اس کا مرکزی کردار مولا ایک مزدور ہے دن بھر مزدوری کرتاہے اور اس کی کمائی صرف ساڑھے چار آنے ہوتی ہے۔ مکان کا کرایہ ایک آنہ اور بنیے کا قرض بھی ایک آنہ ، آٹا، دال، چاول،آلو ، لکڑی اور تنگ گلی یہ مولا کی زندگی کا ایک منظر ہے۔ اس کہانی کے اندر مزدوروں کے دکھ ،درد اور اذیت کو حقیقت پسندانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ مولاکی غربت کی تصویر کھینچتے ہوئے حیات اﷲ انصاری نے لکھا ہے کہ مولا ایک پرانی دری اوڑھے تھا جس میں سیکڑوں چھید تھے اس سے مولا کی مفلسی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اور یہی غربت اور مفلسی کبھی کبھی ایک غصہ کی کیفیت سے بھی انسان کو دوچار کرتا ہے۔مولا کی بیوی جب کوٹھری کے کرایہ کی بات کرتی ہے تو مولاکا غصہ ساتویں آسمان پر ہوتاہے۔ اور وہ کہتا ہے ہوا کرے وہ بڑے آدمی ہم تو نہیں نکلیںگے۔ کہہ دو جب کرایہ جمع ہوجائے گا تو دیں گے۔بڑے آئے نکالنے والے۔در اصل اس کہانی میں سب سے کربناک منظر وہ ہوتا ہے جب مولا ڈھائی سیر آٹے کی تلاش میں نکلتاہے اور سڑق پر پڑا ہو ڈھائی سیر آٹا اچانک مل جاتا ہے۔ اس کیفیت کو حیات اﷲ انصاری نے پورے افسانے میں اس طرح پیش کیا ہے ۔
’’مولا کے قدم اتنی جوانمردی سے آٹے کی طرف بڑھ رہے تھے گویا وہ کسی ڈوبتے لڑکے کو دریا سے نکالنے جارہا ہے۔ آٹے کے پاس پہنچ کر اطمینان سے بیٹھ گیا اپنا انگوچھا پھیلا دیا اور آٹا اٹھانے لگا۔‘‘
یہ وہ ڈھائی سیر آٹا جسے سڑک پر پھینک دیا گیا تھا مگر وہی آٹا ایک غریب کی زندگی کے لیے بہت قیمتی ہوجاتا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اس کی زندگی کی کوئی بہت بڑی خواہش اور مراد پوری ہوگئی ہو۔اس کہانی میں گیہوں کا آٹا ایک طرح سے نعرہ حیات ہے اسی کے اوپر ان غریبوں کی زندگی ٹکی ہوئی ہے۔
’’آخری کوشش‘‘ بھی حیات اﷲ انصاری کا وہ شاہکار افسانہ ہے اسے بعض ناقدین پریم چند کے افسانہ’’کفن‘‘ کے ترقی یافتہ شکل بھی قرار دیتے ہیں۔اس افسانہ میں بھی وہی سماجی، معاشی بدحالی کا نقشہ ہے جس پر مارکسی تخلیق کارر زور دیتے رہے ہیں۔ اس کہانی کا کردار گھسیٹے ہے جو ساری انسانیت کو بالائے طاق رکھ کر اپنی مادی خواہشات اور عیش وعشرت کے لیے نہ صرف اپنی ماں سے بھیگ منگواتا ہے بلکہ اپنے سگے بھائی فقیرا کا بھی قتل کر دیتا ہے ۔ یہ ایک ایسا افسانہ ہے جو مارکسی تصور کی مکمل عکاسی کرتی ہے۔ چونکہ اس افسانہ میں بنیادی مسئلہ روٹی سے جڑا ہوا ہے جس کے خاطر گھسیٹے ماں، بھائی سب کو نہ صرف قربان کردیتا ہے بلکہ وہ انسانیت کا بھی گلا گھونٹتاہے۔ صرف اور صرف روٹی کے خاطر وہ اپنی بوڑھی ماں کے ساتھ جو رویہ اختیار کرتا ہے وہ انتہائی شرمناک ہے۔ حیات اﷲ انصاری نے اس بوڑھی ماں کی وہ مرقع نگاری کی ہے وہ ملاحظہ فرمائیں:
’’یہاں چیتھروں کے انبار میںدفن ایک انسانی پنجرہ پڑا تھا جس پر مرجھائی ہوئی بدرنگ گندی کھال ڈھیلے کپڑوں کی طرح جھول رہی تھی سر کے بال بیمار بکری کی دم کے نچلے بالوں کی طرح میل کچیل میں لتھر کر نمدے کی طرح جم گئے تھے۔ گال کی جگہ ایک پتلی سی کھال رہ گئی تھی۔ ننگے سینے پر چھاتیاں لٹک رہی تھی جیسے بھیجی ہوئی الٹی بنڈی کی خالی جیبیں۔ چہرے کی ایک ایک جھری سخت گھناؤنی مصیبتوں کی مہر تھی۔ جسے دیکھ کر بے اختیار ڈھاریں مار کر رونے کو جی چاہتا تھا۔‘‘ (3)
یہ حیات اﷲ انصاری نے اس افسانہ میں شہری ذہنیت پر گہرا طنز بھی کیا ہے۔ اور ہندوستان کی لٹتی ہوئی تہذیب اور مقدس رشتوںکی پامالی کو بیان کیا ہے کہ کس طرح گھسیٹے جیسا کردار اپنے مفاد کے لیے ممتا، محبت اور رشتوں کو قربان کر دیتا ہے۔
آخری کوشش کے بارے میں خلیل الرحمن اعظمی کا خیال ہے:
’’آخری کوشش ‘‘ اردو کے چند بہترین افسانوں میں سے ہے۔ اس میں گہرائی،معنویت اور انسان کے بنیادی مسائل کا عرفان ہے۔ یہ افسانہ ایک طرح سے پریم چند کے آخری افسانہ’’کفن‘‘ کی ترقی یافتہ شکل ہے اور اس میں وہ ٹھہراؤ اور شعور ہے جو پریم چند کے افسانے کا خاصہ ہے۔‘‘ (4)
حیات اﷲ انصاری کی ایک اور کہانی ’’کمزور پودا‘‘ غریبوں کے استحصال سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ کہانی بھی انہوںنے در اصل مارکسی زاویہ نظر سے تحریر کی ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار کنیز ہے جو بہت ہی غریب اور محروم اور مقہور آدمی کی بیٹی ہے۔ وہ ایک زمیندار کے گھر میں کام کرتی ہے جہاں زمیندار کا بیٹا شبیر اس سے محبت کا اظہار کرتاہے ۔ کنیز اس کی محبت کے جال میں پھنس جاتی ہے اور وہ بھی اپنے آپ کو ملکہ سمجھنے کی غلطی کر بیٹھتی ہے وہ شبیر پر اپنا سب کچھ نچھاور کر دیتی ہے۔ لیکن کنیز کو اس کی محبت اور وفا کا صلہ ایک حرام کے بچے کے سوا کچھ اور نہیں ملتا۔ باپ کو بھی اس کا احساس ہوتاہے اور وہ یہ سوچنے لگتاہے کہ زمینداروں کے پاس غریبوں کی عزت اور عصمت کی کوئی قیمت نہیں ہوتی بلکہ یہ بھی حق نہیں ہوتا کہ زمیندار کی بری حرکت کے خلاف آواز اٹھائی جائے یا کم از کم اس کا نام ہی لیا جائے۔ اسی لیے باپ اپنی بیٹی ہی کو ڈانٹتا ہے اور خاموشی میں ہی عافیت سمجھنے لگتا ہے۔ کیونکہ اسے اس زمیندار کے گاؤں میںرہنا ہے۔ ذرا سی غلطی سے وہ گاؤں چھوٹ سکتا ہے۔اسی لیے وہ زمیندار کو خفا نہیں کرناچاہتا ہے۔خاموشی کے باوجود الٹا زمیندار کنیز کوگھر سے باہر نکال دیتاہے اور اس پر خراب عورت ہونے کا الزم بھی لگاتاہے۔ گھر سے نکالنے کے بعد کنیز کے ماں باپ کی حالت عجیب سی ہوجاتی ہے اور سناٹے کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ حیات اﷲ انصاری نے اس افسانہ میں زمیندارانہ نظام کے جبر اور استحصال کی بہت ہی حقیقت پسندانہ عکاسی کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ زمیندار طبقہ کس طرح غریبوں ، محروموں کا استحصال کرتاہے۔ یہی استحصالی رویہ جس کے خلاف کارل مارکس لکھتے رہے ہیں۔ اور انہوں نے جاگیردارانہ نظام کو سماج کے لیے بہت ہی مہلک اور مضر بتایا ہے کہ ان زمینداروں کی نظر میں انسانیت کی کوئی قیمت نہیں ہوتی وہ اپنے مفادات کے لیے کسی بھی حد سے گزر سکتے ہیں۔ جاگیردارانہ نظام پر یہ گہرا طنز ہے اس افسانے میں ’’پودا‘‘ کو لڑکی کے ایک علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ کیونکہ لڑکیاں کمزور ہوتی ہیں اور کنیز تو حقیقی اعتبار سے بھی ایک کمزور پودا ہے۔ کیونکہ وہ غریب طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ اور مہاجن کے گھر میں کام کاج کرتی ہے ۔ وہ شبیر میاں سے بے پناہ عشق کرتی ہے۔ اور وہ سوکھ کر پیلی بھی ہوجاتی ہے وہ اپنی وفا کا ہر ثبوت دیتی ہے۔ اس کے غم میں اپنی صحت بھی برباد کر لیتی ہے مگر شبیر میاں بے وفائی کرتے ہیں ۔ وہ محلے والوںکے طنز کا شکار بھی ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں وہ گھر بھاگ جاتی ہے۔کنیز کا گھر سے بھاگنا اس کے والدین کے لیے شرمندگی اور ندامت کا باعث بھی بنتاہے۔ کنیز کی یہ حرکت والدین کو ناگوار گزرتی ہے اور وہ کنیز کو مارتے پیٹے ہیں جس سے اس کے پیٹ کا آٹھ مہینہ کا بچہ مر جاتا ہے۔ یہاں ایک غریب طبقہ سے تعلق رکھنے والا فرد اپنی بیٹی کے کالے کارناموں پر سزا دیتا ہے۔ مگرجاگیردارانہ نظام کا پروردہ بدکردار بیٹے کی مجرمانہ حرکت پر اس کا باپ اسے سزا نہیں دیتا بلکہ غریب کنیز کو ہی ذمہ دار اور گنہ گار قرار دے کر گھر سے باہر کا راستہ دکھا دیا جاتا ہے۔ اپنے بیٹے کی بدکاری نظر نہیں آتی بلکہ عورت کی خرابی ہی نظر آتی ہے۔ اس سے ذمہ دار طبقہ کی ذہنیت کا آسانی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اونچے طبقہ کی یہی وہ نفسیات ہے جس کی سزا غریب طبقہ کو جھیلنی پڑتی ہے۔’’ کمزور پودا‘‘ ایک کامیاب ترقی پسند افسانہ ہے۔
’’شکستہ کنگورے‘‘ مارکسیت کے زیر اثر لکھا گیا افسانہ ہے جس میں حیات اﷲ انصاری نے جاگیردارانہ طبقہ کے نفسیات کی فنکارانہ عکاسی کی ہے۔اس کا مرکزی کردار منیر ہے ایک جدید تعلیم یافتہ نوجوان جس کا تعلق زمیندار گھرانے سے ہے اور وہ اس گھرانے کی جائداد کا اکیلا وارث بھی ہے۔ باپ دادا کے زمانہ میں اس کی شان وشوکت کا یہ عالم تھا کہ دروازہ پر ہتھنی جھومتی تھی مگر بعد میں مقدمہ بازی اور بعض کارندوں کی دغابازی کی وجہ سے تمام علاقہ ان کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے صرف ایک شکستہ کنگوروں والا ایک محفل باقی بچ جاتا ہے۔ منیر چاہتا ہے کہ اس محفل کی پرانی شان وشوکت واپس لے آئے مگر اب اس کے پاس وسائل ہی نہیں ہے کہ وہ ان چیزوں کو واپس لے آئے مگر دادا کو اس بات کا یقین ہے کہ اس کا پوتا ان کی آرزؤں کو پورا کرے گا اور ماں بھی اس ارادے میں پورا ساتھ دیتی ہے وہ اپنے بیٹے سے اچھی طرح واقف ہونے کے باوجود دل جوئی کرتی رہتی ہے۔ منیر چونکہ نئے عہد کا نوجوان ہے جہاں اسے پرانی قدریں پیاری ہیں تو وہیں نئی قدروں پر بھی اس کی نظر ہے۔ روایتی قدروں کا پاسبان ہونے کے باوجود وہ اسے نئی تبدیلیوں کا شدت سے احساس ہوتاہے۔ اس لیے اس کے خیالات میں بھی تبدیلیاں پیدا ہوجاتی ہیں اور وہ اپنے پرانے خواب کو ترک کرکے کسان ومزدوروں کی حق کی لڑائی میں شامل ہوجاتاہے اور کسانوں میں بیداری لانے کے لیے وہ کافی سرگرم ہوجاتا ہے۔اب اس کے سامنے وہ محل نہیں تھا بلکہ قومی رہنما بننے کا خیال زیادہ اہمیت رکھتا تھا۔اوروہ اس کا اظہار اپنی ماں سے بھی کرتا ہے مگر کسان سبھا کے ساتھ کچھ ایسے حالات پیش آتے ہیں کہ میندار کی سپاہی ان کے توڑ دیتے ہیںکھلیان جلاتے ہیں اور کسانوں کو چالان کرتے ہیں اس حادثے سے منیر کو بہت دھکا لگتا ہے اور اس کی خواہشات دبی کی دبی رہ جاتی ہے۔کسانوں کو بڑی ہزیمت اٹھانی پڑتی ہے ۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے منیر اپنے آپ کو پھر بدل لیتا ہے اور اس کے اندر ابن الوقتی کا جو سویا ہوا جذبہ تھا وہ پھرجاگ جاتا ہے۔ منیر کی موقعہ پرستی کو بہت ہی اچھی طرح حیات اﷲ انصاری نے پیش کیا ہے اور اس کے باطن اور ظاہر کے تضاد کو بھی پیش کیا ہے۔ یہ معاشرے کی طبقاتی کشمکش کو پیش کرنے کی بہت ہی اچھی مثال ہے۔
اس افسانہ میں جاگیردارانہ طبقہ کی نفسیات اور طبقاتی کشمکش کو موضوع بناکر حیات اﷲ انصاری نے حقیقت پسندی کا ثبوت دیا ہے۔ ڈاکٹر محمد فرقان سنبھلی نے اس کہانی کا تجزیہ کرتے ہوئے کچھ اہم اشارات کیے ہیں:
’’حیات اﷲ انصاری نے ’’شکستہ کنگورے‘‘ میںدیہات کے مسائل، سماجی ناانصافی اور نابرابری پر توجہ مرکوز کی ہے۔ انہوں نے اس وقت کے معاشرہ میں موجودہ طبقاتی کشمکش کو اپنے تخلیقی شعور کا حصہ بناکر ایک ایسا ڈسکورس قائم کیا ہے جو حقیقت پسندی پر مبنی ہے اس کا Narratives کرداروں کی نفسیاتی گتھیوں کو سلجھاتے ہوئے جب اختتام پر پہنچتا ہے تو قاری حیرت زدہ رہ جاتاہے۔ دیہی ماحول کی عکاسی کے لیے حیات اﷲ انصاری نے جو زبان وضع کی ہے وہ ان کی اپنی ہونے کے باوجود پریم چند کی توسیع نظر آتی ہے۔ جس طرح پریم چند مختلف key Wordsکے ذریعہ دیہاتی زبان کا تاثر قائم کرتے تھے ویسا ہی حیات اﷲ انصاری کے یہاں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ مثلاً
(۱) اماں جیسا کہ معمول تھا اس کے سر میں تیل دبانے لگیں۔
(۲) اتنی مقدرت (قدرت، قوت، طاقت) نہیں کہ وہ دو دو چھپر چھائے۔
(۳) حکومت نے نیا چندہ لگایا۔
افسانہ کااختتام غیر متوقع ہے افسانہ شروع ہوکر جس طرح ترقی پسند ڈگر پر آگے بڑھتا ہے اس کا اختتام ترقی پسند نقطہ نظر سے بہت دور نظر آتا ہے۔‘‘ (5)
یہ تمام افسانے حیات اﷲ انصاری کے مارکسی تصورات کی عکاسی کرتے ہیں کیونکہ مارکسیت جن موضوعات ومسائل زور دیتی ہے ان تمام مسائل کو انہوں نے اپنے افسانوں کا محور ومرکز بنایا ہے۔ ان افسانوں میں غریب، محروم،
مجبور، اور استحصال زدہ طبقے کے مسائل اور محرومیوں کو بہت حقیقت پسندانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اور مارکسیت میں ایسے ہی موضوعات ومسائل کی اہمیت اور معنویت ہے۔
حواشی:
(1)احمد پراچہ : اردو ادب کی ترقی پسند تحریک( تحقیقی وتنقیدی جائزہ)فکشن ہاؤس، 18، مزنگ روڈ لاہور2010، ص،211
(2)ڈاکٹر عشرت ناہید ’’حیات اﷲ انصاری کی کہانی کائنات‘‘ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی2017ص، 20
(3)انوکھی مصیبت، حلقہ ادب لکھنؤ ،15اگست1938، آخری کوشش، ص، 10
(4)خلیل الرحمن اعظمی ’’اردو میں ترقی پسند تحریک‘‘ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، علی گڑھ 2007، ص183
(5)ڈاکٹر محمد فرقان سنبھلی، مشمولہ ’’افسانوی ادب اورحیات اﷲ انصاری‘‘احساس ایجوکیشنل اینڈ سوشل ویلفیئر فاؤنڈیشن، گولہ گنج، لکھنؤ۔2019، ص،131
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.