ہندوستان میں ہندوستانی
آج کل بعض دوستوں نے پنجاب میں اردو اور دکن میں اردو لکھا ہے اورایک عزیز نے گجرات میں اردو لکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس لئے ضرورت تھی کہ غریب ہندوستان میں اردو کی داستان بھی کچھ سنائی جائے۔ خدا کے فضل سے اس میدان میں صوبہ متحدہ پنجاب اور دکن کے علمائے ادب نے اتنی تحقیقات کی ہے کہ’’آب حیات‘‘ کا قصہ اب افسانہ ہوکر رہ گیا ہے۔
ہندوستان جیسا کہ اس وقت کی تاریخوں سے ظاہر ہے، سیکڑوں چھوٹی بڑی ریاستوں اور مملکتوں میں بٹا ہوا تھا، سلطان غزنوی کے فتوحات کے عہد میں اس ملک میں دواسلامی ریاستیں قائم تھیں، ایک ملتان میں دوسری منصورہ (یعنی بھکرواقع سندھ) میں، ان کے علاوہ صوبہ سرحد میں شالی حکومت تھی، جس کا پایۂ تخت وسیندتھا، کشمیر، اجمیر، دہلی، قنوج، مگدھ (بہار) بنگال، گجرات، مالوہ بہت سی ریاستیں تھیں جو ایک دوسرے سے باہم دست وگریباں رہتی تھیں، مسلمانوں نے آکر ان ملکوں کو ایک ملک اور ان ریاستوں کو ایک سلطنت بنایا، جس میں پشاور سے لے کر صورت تک ایک حکومت قائم ہو گئی تھی۔
ہندوستان میں زبانوں کی کثرت
زبان کے لحاظ سے اس میں بھانت بھانت کی بولیاں تھیں اور ہیں، چنانچہ پیمائش لسانی کے محققین کے نزدیک اس میں آج بھی تین سو سے زیادہ بولیاں مروّج ہیں۔ ان بولیوں کو چھوڑ کر یہاں کی صرف ممتاز زبانوں کو لیا جائے، تو بھی یہ تعداد دہائی سے کم نہ ہوگی۔ مسلمانوں نے جب سے اس ملک میں قدم رکھا، وہ یہاں کی زبانوں اور بولیوں کی کثرت کے شاکی نظر آئے، ۲۷۰ھ (۸۸۳ء) میں جبکہ سندھ کی اسلامی عربی حکومت پر پونے دو سو برس گزر چکے تھے، منصورہ (واقع سندھ) میں ایک ایسا عراقی مسلمان شاعر تھا جو ہندوسان کی مختلف زبانوں سے واقف تھا، اور اس نے الرا (الور سندھ) کے راجہ کی فرمائش سے قرآن کا ترجمہ ہندی (شاید سندھ کی کسی بولی) میں کیا تھا۔ 1 مسعودی جو۳۰۳ھ ۹۱۵ء میں ہندوستان آیا تھا، ہندوستان کی ملکی اور لسانی پریشان حالی کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتا ہے۔
’’بعد ازیں ہند کے لوگوں کے خیالات مختلف ہو گئے اور مختلف گروہ پیدا ہو گئے اور ہر رئیس نے اپنی ریاست الگ کرلی، تو سندھ پر ایک راجہ بنا، اورقنوج پر دوسرا، اور کشمیر میں تیسرا اور مانگیر پر جو بڑا علاقہ ہے (گجرات، کاٹھیا واڑ) بلہرا (ولبھ رائے) کی حکومت ہوئی۔۔۔ اور ان ریاستوں میں باہم اختلاف 2 ہیں۔‘‘
یہی مؤرخ آگے چل کر لکھتا ہے، ’’اور سندھ کی زبان ہندوستا ن سے الگ ہے۔۔۔ اورمانگیر (یعنی گجرات) کی زبان گیری ہے اور اس کے ساحلی شہروں جیسے چمبور، سوبارہ اور تھانہ (بمبئی) کی زبان لاری 3 ہے۔‘‘
ابن ندیم بغدادی جس نے اپنی الفہرست ۳۷۷ھ ۹۸۷ء میں ترتیب دی ہے۔ ہند کی نسبت لکھتا ہے، ’’یہ لوگ مختلف زبانوں اور مختلف مذہبوں والے ہیں اور ان کے لکھنے کے خط بھی کئی ہیں، ایک شخص نے جو اس ملک میں خوب گھوما پھرا تھا، بتایا ہے کہ وہاں دو خط مستعمل ہیں۔‘‘ 4
ابو ریحان بیرونی نے جو سلطان محمود غزنوی کا معاصر تھا، اور جس نے ہندوستان میں سالہا سال رہ کر یہاں کے علوم وفنون اور زبانوں کو سیکھا تھا، ایک موقع پر ہندوستان کے رسم خطوں کے سلسلہ میں لکھا ہے، ’’ہندی خط بائیں طرف سے چلتا ہے، ان کے مشہور رسم خط کا نام سدھ ماترک ہے، جو کشمیر کی طرف عموماً منسوب ہے اور یہی بنارس میں جاری ہے، اور یہی مدھیہ پردیش یعنی صوبہ متوسط میں جو قنوج کے اطراف کا نام ہے، جس کوآریہ ورت کہتے ہیں، چلتا ہے۔ مالوہ کے حدود میں ایک خط جاری ہے جس کو ناگر کہتے ہیں اور اسی کے بعد اردھ ناگری خط ہے، یعنی آدھاناگر اور دوسرے خطوں سے ملا جلا ہے، اور یہ بھارتیہ اور کچھ (سندھ) میں مروج ہے، اس کے بعد ملواری خط ہے، جو ملوشا یعنی جنوبی سندھ میں رائج ہے، اور کنڑی کرناٹک میں، اورانتری (آندھری) انتر (آندھر) میں اور دراوڑی دراوڑ دیش میں اور لاری لاردیش (گجرات، کاٹھیا واڑ) میں اور گوڑی (بنگالی) پورب دیش میں اور سبکشک اودنپور میں اور یہ بوہول کا خط ہے۔‘‘ (ص۸۲)
رسم خط کے اختلاف سے ہر صوبہ کی زبانوں کا اختلاف بھی ظاہر ہوتا ہے۔ یہ تو عربوں کے بیانات تھے، اب فارسی والوں کے لیجئے، امیر خسرو نے جو ساتویں صدی ہجری کے آخر اور آٹھویں صدی کے شروع میں تھے (یعنی تیرہویں صدی عیسوی کے آخر اور چودہویں صدی عیسوی کے شروع میں) اپنی مثنوی’’نُہ سپہر‘‘ میں ہندوستان کے مختلف صوبوں کی حسب ذیل بولیاں گنائی ہیں، سندھی، لاہوری، کشمیری، بنگالی، گوری (واقع بنگال) گجراتی، تلنگی، معبر ی، (کنڑی) دھور سمندری (کارومنڈل) اودھی اور دہلوی۔
امیر خسرو کے تین سوبرس کے بعد اکبر کے زمانہ میں بھی یہی بولیاں تھیں، ابوالفضل آئین اکبری میں ان زبانوں کے نام یہ گناتاہے۔ دہلوی، بنگالی، ملتانی، مارواڑی، گجراتی، تلنگی، مرہٹی، کرناٹکی، سندھی، افغانی، شالی (جو سندھ، کابل اور قندھار کے بیچ میں ہے) بلوچستانی کشمیری، یہ زبانیں آج بھی موجود اور بولی جاتی ہیں، صرف ایک بمبئی کے احاط میں گجراتی، مرہٹی، کچھی، کنڑی، اردو، سندھی، چھ زبانیں رائج ہیں، مدراس میں اڑیا، ٹامل، تلنگو، ملیالم اور اردو پانچ زبانوں کارواج ہے، ایک حیدرآباد کی ریاست میں مرہٹی، کنڑی، ٹامل، تلنگی اور اردو پانچ زبانیں ایک ساتھ ہیں۔ بہار واڑیسہ میں اڑیا، اردو، ہندی، ترہتی اور بھوجپوری بولیاں ہی۔ پنجاب میں پنجابی اور اردو کا میل ہے اور صوبہ سرحد میں پشتو، پنجابی اور اردو تین زبانیں دوش بدوش ہیں۔
ابھی حال میں مہا مہو اپادھیائے گوری شنکر ہیرا چنداوجھا نے ’’قرون وسطیٰ میں ہندوستانی تہذیب‘‘کے عنوان سے چند خطبے دیے ہیں، جن کو ہندوستانی اکیڈمی نے اردو میں ترجمہ کرکے شائع کیا ہے۔ فاضل موصوف نے اپنی دوسری تقریر کے خاتمہ میں سنسکرت کے بعد یہاں کی پراکرت زبانوں کا کچھ حال بیان کیا ہے ور ان کی حسب ذیل چھ قسمیں بتائی ہیں۔ ماگدھی شور سینی، مہارراشٹری، پیشاچی، اونٹک اور آپ۔
ماگدھی
مگدھ اور اس کے قر ب وجوار کے عوام کی زبان تھی۔ قدیم ماگدھی اشوک کتبوں میں ملتی ہے۔ عام طور پر سنسکرت کے ناٹکوں کے چھوٹے ملازم مثلاً دھیور، سپاہی، بدیسی، جین سادھو اور بچوں سے اسی زبان میں باتیں کرائی جاتی ہیں۔
شورسینی
شورسین یا متھرا کے قرب وجوار کے علاقہ کی زبان تھی، سنسکرت ناٹکوں میں عورتوں اور مسخروں کی بات چیت میں اس کا استعمال اکثر کیا گیا ہے۔
مہاراشٹری
مہاراشٹر یعنی مرہٹہ کی زبان، اس کا استعمال بالخصوص پراکرت زبان کی شاعرانہ تصانیف کے لیے کیا جاتا تھا۔
پیشاچی
پیشاچی زبان کشمیر اور ہندوستان کے مغربی وشمالی حصوں کی زبان تھی۔
اونٹک
اونٹی یعنی مالوہ کی عام زبان تھی، یہ زبان اجین اور مند سور میں رائج تھی۔
اپ بھرنش
اس زبان کا رواج گجرات، مارواڑ، جنوبی پنجاب، راجپوتانہ، اجین اور مندسور وغیرہ مقامات میں تھا۔ دراصل یہ کوئی زبان نہ تھی، بلکہ ماگدھی وغیرہ مختلف پراکرت بھاشاؤں کی بگڑی ہوئی مخلوط بھاشا کانام ہے۔ راجپوتانہ، مالوہ، کاٹھیا واڑ او ر کچھ وغیرہ مقامات کے بھاتوں کے ڈنکل بھاشا کے گیت ہی بھاشا کی بگڑی ہوئی صورت میں ہیں۔ قدیم ہندی بھی پیشتر اسی بھاشا سے نکلی ہے۔
جنوبی ہند کی بھاشائیں ان کے علاوہ ہیں،
ٹامل
جنوبی ہند کی زبانوں میں سب سے قدیم اورفائق ٹامل ہے، اس زبان کا نشوونما زیادہ تر جینیوں کے ہاتھوں ہوا، اس کا رسم الخط سب سے لگ ہے۔
ملیالم
ملیبارکی زبان ہے، مگر اس میں سنکرت الفاظ بکثرت مل گئے ہیں۔
کنڑی
اس زبان کے ادبیات کی پرورش وپرداخت بھی جینیوں نے کی۔
تیلنگو
آندھرا صوبہ میں مروج ہے۔
مسلمانوں کی آمد اور زبانوں کی مشکل
تفصیل بالا ایک ہندو فاضل کی تصنیف سے ماخوذ ہے۔ ان سوالوں سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ مسلمانوں کی آمد سے پہلے اس ملک میں بیسوں زبانیں مروج تھیں، جو زیادہ تر مختلف صوبوں، مختلف قوموں اور مختلف دھرموں کے زیر سایہ اپنی ہستی برقرار رکھے ہوئے تھیں۔ مسلمانوں نے جب اس ملک میں قدم رکھا، تو اس ملک کی زبانوں کی نیرنگی اور بھاشاؤں کی کثرت کو دیکھ کر متحیر رہ گئے، جیسے جیسے ان کا قدم اندرون ملک میں آگے بڑھتا گیا، ان کی حیرت میں اضافہ ہوتا گیا، وہ قدرتی طور پر اپنے ساتھ اپنی زبان بھی لائے تھے، عرب عربی، ایرانی فارسی اور ترک و مغل ترکی، مگر ان سب پر فارسی اثر غالب تھا۔ سندھ کے حکمراں گو عرب تھے، مگر ایران کے قرب اور فارسی تاجروں اور جہاز رانوں کی آمدورفت کے سبب سے عربی آمیز فارسی کی ہر جگہ کثرت تھی، اور ادھر درۂ خیبر سے جو قومیں آئیں، ان کی مادری زبان کچھ بھی ہو، مگر ان کی سلطنت کی شاہی اور دفتری زبان فارسی ہی تھی، اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستانی کی شاہی و سرکاری زبان فارسی ہی رہی۔
دیسی زبانوں میں مسلمانی لفظوں کا میل
لیکن ملکی بول چال اور عام زبانوں کے لئے نہ تو یہ ممکن تھا کہ ہندوستان کے کسی ایک صوبہ کی زبان کو اختیار کرکے اس کو پورے ملک پر محیط کردیا جائے۔ اس لئے قدرتی طورسے یہ ہوا کہ مسلمان جس صوبہ میں گئے، وہاں کی صوبہ دار زبان اختیار کی۔ ساتھ ہی مذہبی، سیاسی، تمدنی، صنعتی، تجارتی، اورعلمی ضرورتوں سے اپنی زبان کے سیکڑوں ہزاروں الفاظ اسی طرح اس ملک کی زبان میں مجبوراً بڑھائے، جیسے آج ہم انگریزی کے الفاظ واصطلاحات اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔
مذہبی مصطلحات
اللہ، ایمان، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، دعا، خیرات، صدقات رسول، پیغمبر، وحی، کتاب الہٰی، دوزخ، بہشت وغیرہ بے شمار الفاظ ہیں، جن کے بعد ہندوستان کی ہر ملکی بولی میں وہ اضافہ پر مجبور ہوئے۔ اسی طرح بادشاہ، وزیر، میر عدل، صدر جہاں، مقطع دار، صوبہ دار، سپہ سالار، قاضی وغیرہ سیکڑوں سیاسی اصطلاحات تھے، جو ان کی سلطنت کے روزمرہ میں جاری تھے۔ وہ ہندوستان کی ان مختلف ملکی بولیوں میں بھی جاری ہو گئے۔ آج کل کی زمینداری میں خواہ وہ ہندوؤں کی ہو یامسلمانوں کی، جس قدر عہدے اور مالی اصطلاحات ہیں، وہ عموماً عربی فارسی آمیزش، مثلاً دیوان، نائب، تحصیلدار، ضلع دار، کارندہ، گماشتہ، سیاہہ نویس، تحویل دار، واصل باقی نویس، خزانچی، مقصدی، پیشکار، سرشتہ دار، محافظ دفتر، محرر وغیرہ۔
اب اصطلاحات کو لیجئے، واصل باقی، جمع بندی، مالگزاری، جمع خرچ، گوشوارہ، فرد، بند، روز نامچہ، یادداشت، خلاصہ، کیفیت، وغیرہ، یہ الفاظ نہ صرف اردو اور سادہ ہندی میں بلکہ گجراتی، مرہٹی اور بنگالی زبانوں میں بھی بعینہ یا اس کے دوسرے مرادف مستعمل ہیں، مرہٹی بولنے والے مرہٹے اپنے وزیروں کو پیشوا اور عام ہندوریاستیں ان کو آج تک دیوان کہتے ہیں، اور یہ دونوں فارسی ہیں۔ اسی طرح مرہٹی، گجراتی اوربنگالی میں معاملہ مقدمہ کے اکثر الفاظ اور اصطلاحات عربی یا فارسی ہیں۔ ہم اپنے صوبہ کے دیہات کسانوں کے سردار کو چودھری کہتے ہیں، لیکن مہاراشٹر میں اسی کا نام مقدم ہے، کلرک کے لئے آپ محرر بولتے ہیں، مگر وہاں اس کو کارکن کہتے ہیں۔
زراعت ہندوستان کاپیشہ تھا، مسلمانوں نے آکر اس پیشہ کو فن کی حیثیت سے جو ترقی دی، اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں، مختصراً اتنا کہنا ہے کہ کابل، ترکستان اور ایران کے بیسوں میوے اور پھل وہ ہندوستان لائے، اور ان کے ساتھ ساتھ ان کے نام بھی آئے اور یہ سارے ہندوستان میں ہر بولی بولنے والوں کی زبانوں پر بعینہ چڑھ گئے۔ انگور، انار، سیب، بہی، انجیر، نارنجی، خربزہ، بادام، منقی، کشمش، پستہ، شفتالو، ناشپاتی، آبجوش، خوبانی، چلغوزہ، فندق کے مزوں سے اہل ہند ایسے مانوس ہوئے کہ ان پھلوں کے ساتھ ساتھ ان کے ناموں سے بھی اپنی زبان کونئی لذت بخشی، پھولوں کے بہت سے اقسام مسلمان ہندوستان لائے مثلاً گلاب، سوسن، سنبل، ریحان، بنفشہ، خطمی، نرگس، نسرین، نسترن، گل (گولدہیر) گل شبو (گل شب لو) گل مخمل وغیرہ۔ آج یہ واقعہ تعجب سے سنا جائے گا کہ تغلقوں کے زمانہ میں دہلی اور اس کے نواح میں بارہ سوباغ تھے، جن میں نوقسم کے انگور تھے۔ (تاریخ فیروز شاہی)
میوؤں کی تمہید سے مسلمانوں کے دستر خوان کے الوان نعمت یاد آئے۔ خشکہ، پلاؤ، قبولی، بریانی، زردہ، شیربرنج، قورمہ، قلیہ، شوربا، کباب، یخنی، دم پخت، کوفتہ، مزعفر، مطنجن، حلوا وغیرہ مسلمانوں نے پیش کیا، اور پورے ملک کے کام ودہن نے ان کے ناموں سے لذت پائی۔ ٹھنڈک کے لئے شربت، فالودہ، اور برف کاآبخورہ سامنے رکھا۔ ہندوستان نے ایک روٹی کو کبھی نان بنایا، کبھی شیر مال، کبھی آبی، اور کبھی باقر خانی اور کبھی روغنی، اور کبھی چپاتی، اور کبھی کاک، اور کبھی کلچہ۔ مٹھائی ہندوستان کی چیز ہے مگرصورت اور مادہ کے ساتھ ناموں کا تنوع اسلامی تہذیب نے بخشا، یہاں تک مٹھائی بنانے والے کے لئے عربی نام ’’حلوائی‘‘مہابرہمن کی پاک اور پوتر زبان کو بھی چھو لیتا ہے۔ اور حلوائی کے خوانچہ پر بالو شاہی جس کی اصل شاید والا شاہی ہو، قلاقند یا برفی، شکر پارے، نمک پارے، خرمے، نقل، گلاب جامن، حبشی زعفرانی وغیرہ ملیں گے۔
کپڑوں کی نئی نئی صنعت کاریوں کی ایجادات کے ساتھ ان کے ناموں کو بھی ہندوستان کی زبانوں نے فروغ دیا، مخمل، قاقم، کاشانی، استبرق، زربفت، طاس، مقیس، شروانی، مشجر، کمخواب، دیبا، اطلس، تافتہ، بافتہ، مشروع، زری، گلبدن، تن زیب، شال باف، جامہ دار، محمودی، علی قلی خانی، زرتار، چار خانہ جامدانی، کامدانی۔ برہنہ تن ہندوستان کو ان کپڑوں کی بدولت کرتہ، اچکن، چکن، پیشواز، میرزائی، نیم آستین، جامہ، عبا، قبا، چوغہ، فرغل، کلاہ، دستار، کلغی، شال، دوشالہ، چادر، پوستین، شلوار، پاجامہ، ازار، توشک، لحاف، فرش، قالین مسند، بستر، رضائی، دولائی، تکیہ، غلاف، چادر، رومال، مندیل، موزے، ازار بند، کمر بند کے نام عربی، فارسی اور ترکی سے آئے۔ پان ہندوستان کی چیز تھی، مگر اس کے لئے پاندان، خاصدان اور اگالدان اسلامی تہذیب نے پیش کئے۔
کھانا کس ملک میں پکایا اور کھایا نہیں جاتا، مگر ہندوستان کی قناعت پسند طبیعت مٹی کی ہانڈیوں اور کیلے کے پتوں سے آگے نہیں بڑھی۔ مسلمان آئے تو دیگ، دیگچی، کفگیر، چمچہ، رکابی، پیالہ، بادیہ، قاب، دستر خوان، آفتابہ، آبخورہ، سیلابچی، صابون، خلال، بکاول، باورچی، رکابدار، خانسا ماں اپنے ساتھ لائے۔ مسلمان جب یہاں آئے تو سرشام یہاں دیا اور دیپک جلتا پایا، انہوں نے برسرمحفل شمع جلائی، قندیل روشن کی اور جابجا فانوس، دیوار گیر، لالہ، مردنگ اورفتیلہ سوز رکھے، اور ان سے مشعلچی نے مشعل جلاکر راستہ کو پرنور کیا۔ ہندوستان ہمیشہ سے گرم ملک تھا، مگر شورہ لگا کر اور پہاڑوں سے برف منگا کر گرمی میں پانی کو ٹھنڈا مسلمانوں نے کیا، اور چق، چلمن اور پردے لٹکا کر کمروں کو محفوظ کیا اور ہندوستان ہی کی ایک گھاس کو خس کہہ کر پکارا اور اس کی ٹٹیاں بنواکر کھڑی کیں۔ 5
گھوڑے کی سواری کہاں نہ تھی، مگر جب مسلمان یہاں آئے تو لگام، زین، تنگ، خوگیر، رکاب، نعل، نکتہ، جل جس کی خرابی جھول ہے۔ سئیس، سوار، شہ سوار، تازیانہ، قمچی سب ساتھ لائے۔ جواہرات میں درعمانی، عقیق، یمنی، لعل بدخشانی، زمرد، زبر جد، یشب، فیروزہ، سنگ، ستارہ سب ان کے لائے ہوئے ہیں۔ تعمیری پتھروں میں سنگ مرمر، سنگ سرخ، سنگ سماق، سنگ لرزاں، سنگ خارا سب ان کے نکالے ہوئے ہیں۔ زیوروں میں سرپیچ، مرزا بے پردہ، کلغی، طرہ، کانوں میں درہ، گوشوارے، ہاتھوں میں دست بند، جمال گیری، بازوبند، نگے، جوشن، پری بند، گلے میں ہیکل، طوق، تعویذ، گلوبند، زنجیر، کمر میں کمر بند اورپاؤں میں پاؤ زیب یہ ان بیسوں نام کو چھوڑ کر ہے، جو ہندی میں وضع کئے گئے۔ خوشبوؤں میں عطر ان کی ایجاد ہے اور خود عطر اور اس کے بیسیوں ہندی، فارسی اور عربی نام ان کے وضع کئے اور وہی ملک کی ہر زبان میں پھیلے ہوئے ہیں۔
ان مثالوں سے مقصود یہ ہے کہ مسلمانوں نے جب یہاں قدم رکھا تو اپنے پورے تمدن ومعاشرت، سازو سامان اور اپنی اصطلاحات وایجادات کو ساتھ لے کر یہاں وارد ہوئے، اور ان سب کے نام اصطلاحات اور الفاظ میں اپنے ساتھ لائے، اور چونکہ یہ ہندوستان میں بالکل نئی چیزیں تھیں، اس لئے ہندوستان کی بولیوں میں ان کے مرادفات کی تلاش بیکار تھی اور وہی الفاظ ہندوستان میں رائج ہو گئے۔
زبان کی ترتیب کے تین عناصر
زبان کی ترکیب تین چیزوں سے ہوتی ہے۔ اسم، فعل اور حرف۔ مسلمانوں نے یہاں آکر جو زبان اختیار کی اس کے تمام فعل اور حروف ہندوستانیوں کی بولیوں کے اختیار کئے۔ البتہ آدھے اسماء جن میں بڑا حصہ نئی چیزوں اور نئے ناموں کاتھا، وہ اپنی زبان سے لائے، بقیہ اسماء بھی ہندوستان ہی کے ہیں، ایسی حالت میں ہندو مسلمانوں کے مسلمہ اصول تقسیم حقوق تہائی فی صدی سے زیادہ قبضہ تو مسلمانوں کااس زبان پر نہیں، پھر کیا یہ ظلم نہیں کہ اس سے بھی دست بردار ہونے پر ہم کو مجبور کیا جاتا ہے۔
سندھ کی وادی ہماری متحدہ زبان کاپہلا گہوارہ
گزر چکا ہے کہ ہندوستان کے ہر صوبہ میں الگ الگ بولی تھی۔ مسلمان سب سے پہلے سندھ میں پہنچتے ہیں۔ اس لئے قرین قیاس یہی ہے کہ جس کو ہم آج اردو کہتے ہیں، اس کا ہیولا اسی وادی سندھ میں تیار ہوا ہوگا، عربی وفارسی بولنے والے مسلمان تاجر عراق بندرابلہ، سیراف او ر بصرہ سے نکل کر، سندھ کے بندروں سے گزر کر گجرات ہوکر، بحرہند کے کنارے کنارے سفر کرتے تھے، آخر پہلی صدی ہجری کے آخر یعنی ساتویں صدی عیسوی میں عرب مسلمانوں نے سندھ پر قبضہ کر لیا۔ یہ اسلامی لشکر شیراز وعراق سے مرتب ہوکر گیا تھا جس کے یہ معنی ہیں کہ اس لشکر کے لوگ فارسی اور عربی بولتے تھے۔ اس کے بعد جو سوداگر اور تاجر یہاں آکر بودوباش اختیار کرنے لگے تھے، وہ بھی عربی اور فارسی بولتے تھے، جہاز رانوں کی زبان بھی عربی وفارسی سے مرکب تھی، خود سندھیوں کی آمدورفت بھی عراق میں لگی رہتی تھی، خصوصاً جب ۱۳۳ھ ۷۵۱ء میں خلافت کا مرکز شام سے عراق کو منتقل ہوگیا اور سندھ کے پنڈت بغداد جاکر اپنی زبان سے عربی کتابوں کے ترجمہ میں مدد دینے اور وہاں کے مختلف علمی وطبی منصوبوں پر سرفراز ہونے لگے۔
اس زمانے میں عربی میں ہندی کے بہت سے اصطلاحی لفظ اور دواؤں اور خوشبوؤں کے نام داخل ہوئے مثلاً بیڑہ جس کی عربی شکل بارجہ ہے، پلنگ جس کی عربی صورت بلنجہ ہے، جہاز کے خواب گاہ کے معنوں میں عرب ملاحوں نے اس کو استعمال کیا ہے۔ اس طرح خوشبوؤں میں صندل (چندن) کافور (کپور) قرنفل (کرن پھول) عود قماری (راس قماری کاعود) وغیرہ لفظ ہیں۔ دواؤں میں سب سے عجیب نام مجھے ’’بہط‘‘معلوم ہوتاہے، جس کو خوارزمی نے جوسلطان محمود کامعاصر تھا، مفاتیح العلوم میں نقل کیا ہے، جو ہمارے ’’ بھات‘‘ کی خرابی ہے، جو مریضوں کی غذا تجویز کی گئی تھی۔ پھلوں میں امبج (آنب) آم اور لیموں ہیں، جن کا ذکر ۳۰۴ھ ۹۱۵ء میں مسعودی نے کیا 6 ہے۔
سندھ اور ملتان میں مسلمانوں کی ریاستیں تین سو برس تک قائم رہیں اور آخر سلطان محمود المتوفی ۴۲۱ھ۱۰۳ء کے ہاتھوں ان دونوں ریاستوں کاخاتمہ ہوا، ان ریاستوں کا مذہبی تعلق بغداد اور مصر سے تھا اور خراسان، عراق، یمن، ایران اور مصر سے یہاں آنے والے تاجروں او ر مسافروں کی برابر آمدورفت لگی رہتی تھی۔ اس کا قدرتی نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ سندھ او ر ملتان میں دیسی بولیوں کے ساتھ عربی وفارسی کامیل جو ل بڑھتا رہے، اور ایک نئی مرکب بولی کا ہیولیٰ تیار ہو، خوش قسمتی سے اس وقت ہمارے پاس بعض ایسی شہادتیں موجود ہیں، جن سے کچھ نہ کچھ اس خیال کی تائید ہوتی ہے۔ بزرگ بن شہر یار ملاح جو ۳۰۰ھ۹۱۲ء میں بحرہند کے سواحل سے گزرتا رہتا تھا، اس نے اپنے بحری سفر نامہ میں جس کا نام عجائب الہند ہے، کئی ہندی الفاظ استعمال کئے ہیں، وہ ۲۷۰ھ ۸۸۳ء کا ایک قصہ ہم کو سناتا ہے۔
شہر الور واقع سندھ کے ایک ہندوراجہ نے منصورہ واقع سندھ کے مسلمان بادشاہ سے ایک ایسے مسلمان عالم کی درخواست کی جو اس کی زبان میں اسلام کی خوبیاں بتا سکے۔ بادشاہ نے ایک ایسے عراقی عالم کاانتخاب کیا جو ہندوستان کی بہت سی بولیاں جانتا تھا، چنانچہ وہ گیا اور سب سے پہلے راجہ کی خدمت میں اپنا ہندی قصیدہ پیش کیا اور پھر قرآن کا ترجمہ کیا۔ بغداد کاسیاح اصطخری ۳۴۰ھ۹۵۱ء میں سلطان محمود سے تقریباً ساٹھ برس پہلے سندھ اور ملتان آیاتھا، وہ کہتا ہے، منصورہ (یعنی موجودہ بھکر واقع سندھ) اور ملتان اور ان کے اطراف کی زبان عربی اور سندھی ہے اور مکران والوں کی زبان فارسی اور مکرانی ہے۔ (ص۷۷ طبع لائیڈن۔)
اس کے بعد بغداد کا دوسرا سیاح ابن حوقل بھی جس کی سندھ اورملتان میں سیاحت کا زمانہ ۳۵۸ھ ۹۶۸ء ہے۔ یہی کہتا ہے کہ، منصورہ (بھکر) اور ملتان او ر اس کے اطراف میں عربی اور سندھی بولی جاتی ہے۔ (سفر نامہ ابن حوقل ص۲۳۲ لائیڈن۔) اس کے چند سال کے بعد ۳۷۵ط ۹۶۸ء میں بشاری مقدسی ملتان آیا، وہ لکھتا ہے، ’’اور یہاں فارسی زبان سمجھی جاتی ہے۔‘‘ (سفر نامہ بشاری ص۴۴۱ لائیڈن۔) پھرویبل یعنی ٹھٹھ واقع سندھ کے حال میں کہتا ہے، (ٹھٹھ) سمندر کے ساحل پر ہے، اس کے چاروں طرف سوگاؤں کے قریب ہیں، اکثر غیر مسلم ہندو ہیں، سمندر کا پانی شہر کی دیواروں سے آکر ٹکراتا ہے، یہ سب سودا گر ہیں۔ ان کی زبان سندھی اور عربی ہے۔ (ایضاً ص۴۷۹)
ان معاصرانہ شہادتوں کی بنا پر ماننا پڑےگا کہ عربی وفارسی الفاظ کا میل جول ہندوستان کے جس حصہ میں پہلے واقع ہوا وہ سندھ ہے، جس کی حد اس زمانہ میں ملتان سے لے کر بھکراوت ٹھٹھ کے سواحل تک پھیلی تھی۔ اس زمانہ میں ایران، ترکستان اور خراسان سے ہندوستان آنے کاراستہ براہ راست ملتان ہوکر تھا، چنانچہ سلطان محمود غزنوی بھی اسی راستے سے ہندوستان آیا۔ اس کا اثر یہ تھا کہ ان ملکوں سے علم وفن کے کامل اور شعر وادب کے ماہر اسی راستے سے آکر ہندوستان کے جس شہر میں داخل ہوئے تھے، وہ ملتان تھا۔ چنانچہ سلطان ناصر الدین قباچہ کے زمانہ تک جو سلطان التمش کا معاصروحریف تھا، ملتان ہی اسلامی علوم وفنون کا مرکز اور اسلامی تعلیم کی درس گاہ تھا، اس کے بعد رفتہ رفتہ یہ مرکزملتان سے لاہور کو اور پھر لاہور سے دہلی کو منتقل ہو گیا۔
اس تشریح سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ مسلمانوں کی عربی وفارسی سب سے پہلے ہندوستان کی جس دیسی زبان سے مخلوط ہو گئی، وہ سندھی اور ملتانی ہے پھر پنجابی اور بعد ازاں دہلوی۔ سندھی پر اس اختلاط کی شہادت آج بھی اسی طرح نمایاں ہے۔ چنانچہ ہماری اردو کی طرح سندھی بھی عربی وفارسی الفاظ سے اسی طرح گراں بارہے اور سب سے عجیب یہ کہ اس کا رسم الخط آج تک ٹھیٹھ عربی نسخ ہے اور عربی کے بہت سے خالص الفاظ مستعمل ہیں، مثلاً پہاڑ کو جبل اور پیاز کو بصل کہتے ہیں۔
سندھی، ملتانی اور پنجابی آپس میں بالکل ملتی جلتی ہیں۔ تینوں میں بہت سے فارسی الفاظ کا اشتراک ہے۔ تینوں میں عربی وفارسی کا میل ہے، صیغوں کے طریق میں تھوڑا تھوڑا فرق ہے، یہاں پر اس تاریخی غلط فہمی کا مٹانا ضروری ہے، جس کے روسے عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ بولیاں موجودہ اردو کی بگڑی ہوئی شکلیں ہیں، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ موجودہ اردو ان ہی بولیوں کی ترقی یافتہ اور اصلاح شدہ شکل ہے، یعنی ہم جس کو اردو کہتے ہیں اس کا آغاز ان ہی بولیوں میں عربی وفارسی کے میل سے ہوا، اور آگے چل کر دارالسلطنت دہلی کی بولی سے جس کو دہلوی کہتے ہیں مل کر معیاری زبان بن گئی او ر پھر دارالسلطنت دہلی کی بولی سے جس کو دہلوی کہتے ہیں مل کر معیاری زبان بن گئی اور پھر دارالسلطنت کی بولی معیاری زبان بن کر تمام صوبوں میں پھیل گئی، علامہ بیرونی المتوفی ۴۲۰ھ ۱۰۳۸ء جس نے ہندوستان میں شاید ملتان اورسندھ میں رہ کر کتاب الہند کا مسالہ مہیا کیاہے، اس نے اپنی کتاب میں جس لہجہ اور طرز ادا میں ہندی الفاظ لکھے ہیں، ان سے ماہرین ادب نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ وہ ملتانی اور سندھی شکل میں ہیں۔
غزنوی دور میں
بہرحال اب وہ زمانہ ہے جب غزنیں میں آل سبکتگین کی حکومت قائم ہے، اور سبکتگین اور اس کے فرزند ہندوستان پر پے درپے حملے کرتے ہیں، ان حملہ آوروں کی مادری زبان ترکی مگرعلمی وادبی وسرکاری زبان فارسی تھی۔ سلطان محمود غزنوی المتوفی ۴۲۱ھ ۴۳۰ء نے گوگجرات تک دھاوا کیا، مگر اس کی سلطنت بالآخر پنجاب وسندھ میں سمٹ کر رہ گئی۔ جہاں تقریباً دوسو برس تک وہ قائم رہی، اس میل جول کا اثر یہ ہوا کہ ترکستان، ایران اور کابل کے ہزاروں لاکھوں آدمی ہندوستان آکر بس گئے، اور ہزاروں ہندوستانی ان ملکوں میں جا پہنچے اور ہندی غلاموں اور کنیزوں کی گھر گھر فراوانی ہوئی۔ 7 غزنیوں کی فوج میں بہت سے ہندو افسر اور سپاہی نوکر تھے اور وہ حدو د سلطنت میں موقع بموقع بھیجے جاتے تھے۔
سلطان محمود کے دربار میں ہندی کا مترجم تلک نام کا ایک ہندو تھا، جس کی تعلیم وتربیت کشمیر میں ہوئی تھی، اور اصفہان جاکر اس نے فارسی سیکھی تھی، سلطان مسعود کے زمانہ میں جو ۴۲۱ھ۱۰۳۰ء میں تخت پر بیٹھا تھا، اس عہدے پر ایک ہندو بیربل نام سرفراز تھا، سلطان پور کے دربار میں جہاں عرب وعجم کے ادباء رہتے تھے، فضلائے ہندبھی ان کے پہلو بہ پہلو تھے، کالنجر کے راجہ انندا نے ۴۱۳ھ۱۰۲۲ء میں ہندی میں بادشاہ کے لئے مدحیہ شعر لکھے، آنند ابزبان ہندی در مدح سلطان شعرائے گفتہ نزدا وفرستاد سلطان آنرا بفضلائے ہندو عرب وعجم کہ در ملازمت اوبودند نمودہ تحسین وآفریں کردند۔ آنند انے ہندی زبان میں سلطان محمود غزنوی کی تعریف میں اشعار کہہ کر بھیجے تھے۔ سلطان نے یہ اشعارہند عرب اور عجم کے ان فاضلوں کو دکھائے جو اس کے یہاں ملازم تھے، سب ہی نے ان کی تعریف وتحسین کی۔ تاریخ فرشتہ۔)
اس اختلاط اورمیل جول کا قدرتی اثر یہ ہوا کہ اہل ولایت کی زبانوں پر فارسی الفاظ چڑھ گئے۔ چنانچہ یہی سبب ہے کہ غزنوی عہد کے بعض ان شعراء کی زبانوں سے بھی ہندی الفاظ ادا ہوئے ہیں، جنہوں نے ہندوستان کا منھ بھی نہیں دیکھا تھا، حکیم سنائی غزنوی ۴۶۴ھ۱۰۷۱ء تا۵۴۵ھ۱۱۵۰ء جو بہرام شاہ غزنوی کے معاصر تھے، اپنے ایک قصیدے میں زبانوں کے اختلاف کو غیر اہم بتا کر فرماتے ہیں، 8
تو بے مرگ ہرگز بجائے نیابی
زشک نعمتہائے اینی وآنی
اسامی دریں عالم است ارنہ حاشا
چہ آب وچہ ناں وچہ میدہ چہ پانی
عہد غزنوی کا مشور شاعر مسعود سعد سلمان جو خاص لاہور میں پیدا ہوا تھا، اس کی نسبت عوفی اور امیرخسرو نے لکھا ہے کہ وہ عربی وفارسی کے علاوہ ہندی کا بھی شاعرتھا، اور اس زبان میں اپنا ایک دیوان بھی یادگار چھوڑا، اس کے دیوان میں ایک شعر کا دوسرا مصرع ہے، برآمدا زپس دیوار حصن مارامار۔ ان شعروں میں ’’پانی‘‘ اور ’’مارامار‘‘ اور شاید’’میدہ‘‘ ہندی لفظ ہیں۔ جو اہل ولایت کی زبانوں پر چڑھ گئے۔ اب ساتویں صدی ہجری کے آغاز میں غوریوں کا دور شروع ہوا، جنہوں نے بہت جلد لاہور اور ملتان سے آگے بڑھ کر اصل ہندوستان پر قبضہ کیا، اور دہلی کو اپنا پایۂ تخت بنایا۔ اب اس مشترکہ زبان کاقدم اور آگے بڑھا، ان کی حکومت پشاور سے گجرات اور بنگال تک قائم ہو گئی اور اس پورے ملک میں جہاں کہیں بھی بول چال کی ایک زبان نہ تھی ایک مشترکہ زبان کا ہیولی تیار ہو گیا۔ قاضی سراج منہاج جو ۶۲۴ھ ۱۲۲۶ء میں سندھ اور ملتان کی راہ سے ہندوستان آئے تھے، اپنی تاریخ میں کوچ بہار اور اس کے قرب ونواح کے فتوحات کے سلسلہ میں لکھتے ہیں، ’’وایں راز زبان دیگر است میاں لغت ہندوتبت۔‘‘ (ص۱۵۲ کلکتہ) کوچ بہار اور اس کے گردونواح کے باشندوں کی جداگانہ زبان ہے جو ہندوستان اور تبت کے بیچ کی زبان ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ ہندوستان کی ایک زبان پنجاب سے لے کر بنگال تک پیدا ہوچلی تھی، جس کے برخلاف وہاں کی زبان ہندوستانی زبان اور تبت کی زبان کے بیچ میں تھی۔ یہیں خلیج فارس اور بحر ہند کے ذکر میں وہ لکھتے ہیں، ’’آب گویند چوں بدریائے ہندوستان درآید اور لغت ہندوی سمندر گویند۔‘‘ (ص۱۵۲ طبقات ناصری، منہاج کلکتہ)
دہلی کے سب سے پہلے سلطان قطب الدین ایبک کو رعایا نے اس کے جودوکرم کے صلہ میں ’’لک بخش‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ (فرشتہ جلد اول ص۶۳) یعنی لاکھوں کا دینے والا۔ اس کے زمانہ کی تعریف اہل ہند ’’کال قطب الدین‘‘ کہتے تھے، ’’وکال زمانہ راگویند۔ (فرشتہ جلد اول ص۶۳ نول کشور) اس عہد کے سکوں پر بادشاہ کے نام کے ساتھ ’’ شری امیرالکھا ملتا ہے، شری کا لفظ آج بھی ہندوؤں میں شری مہراج کی ترکیب میں مستعمل ہے۔ مگر اس وقت کی اس ترکیب ’’شری امیر‘‘ پر ذرا غور کیجئے۔
ملتان سے دہلی
شمس الدین التمش نے اپنے خواجہ تاش لیکن حریف ناصرالدین قباچہ کو ۶۱۵ھ ء ۱۲۱۸ء میں شکست دے کر ملتان اور سندھ کو بھی دہلی سے ملالیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان اطراف کے بہت سے تاجر اور سودا گر دہلی آ گئے، بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ ’’ملتانیاں‘‘ کا لفظ اس زمانہ میں ’’سوداگران پارچہ کے ہم معنی ہوگیا تھا۔ 9 اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اب ملتان اور لاہور اور دہلی کی مشترکہ خدمات اس متحدہ زبان کے بنانے میں شامل ہوگئی تھیں، اس کی سند میں ایک بزرگ ہستی کا نام لینا ہے جس کی پیدائش اور تعلیم و تربیت تو ملتان اور سندھ میں ہوئی، مگر روحانی اکتساب فیض دہلی میں فرمایا اور آخری سکونت اور دائمی آسودگی لاہور کی مملکت میں اختیار فرمائی، یعنی حضرت بابا فرید شکر گنج رحمۃ اللہ علیہ۔
ہندوستان کے روحانی فاتح
جن لوگوں کو ہندوستان کی سیاسی تاریخ کے ساتھ ساتھ یہاں کی روحانی تاریخ کا مطالعہ کا موقع ملا ہے، وہ یہ تسلیم کریں گے کہ ہندوستان میں غزنیں اور غور کے سلاطین ملکی فتوحات کے لئے جہاں جہاں بڑھتے جاتے تھے، ان سے پہلے یہ روحانی سلاطین اپنے روحانی فتوحات کے لئے آگے بڑھتے جاتے ہیں۔ اگر یہ کہنا صحیح ہے کہ ہندوستان کے ملک کو غزنیں اور غور کے بادشاہوں نے فتح کیا ہے تو اس سے زیادہ یہ کہنا درست ہے کہ ہندوستان کی روح کو خوانوادۂ چشت کے روحانی سلاطین نے فتح کیا۔ یہ ایک خود مستقل موضوع ہے اور کبھی فرصت سے یہ بڑی داستان بھی سننے کے لائق ہے۔
یہ روحانی فاتح عوام سے ملتے ہیں
ہندوستان میں کسی ایک متحدہ زبان کی ضرورت جتنی سلطنت کو ہوتی تھی، اس سے کہیں زیادہ عوام کو اور ان سے زیادہ صوفیوں کو، جوہر بولی کے انسانوں تک پہنچنا فرض سمجھتے تھے۔ اب تک اردو کی تاریخ میں اکبر اور شاہجہاں اور ان کے مینابازار اور اردوئے معلیٰ کو اہمیت دی گئی ہے مگر واقعہ یہ ہے کہ ان سے کہیں زیادہ صوفیہ کو اہمیت حاصل ہے جن کو ہندوستان کے عوام کی زبان کو اختیار کرنے میں نہ سلطنت کے رعب داب کا خیال مانع آ سکتا تھا، او ر نہ علم ظاہر کے جبہ ودستار کے وقار کا، بلکہ عوام کی اصلاح اور حق کی تبلیغ کی خاطر ان کو ہندوستان کے عوام کی دیسی زبان کو قبول کرنے میں کوئی تامل نہ تھا۔ ٹھیک جس طرح مسلمانوں سے پہلے ہندوستان کے عوام کی زبان کو بودھ نے اپنے دھرم کے پرچار کے خاطر اختیار کیا اور اسی میں اپنا اپدیش دیا، اور جس طرح مسلمانوں کے بعد عیسائی پادریوں اور مشنریوں نے یہاں کے عوام کی بولیوں کو بے تامل استعمال کیا، اس طرح ان صوفیوں نے اس وقت کے عوام کی دیسی زبان کے بولنے میں پیش دستی کی۔
حضرات صوفیہ اور یہ نئی زبان، اس وقت تک اردو کے جتنے قدیم فقرے مل سکتے ہیں، وہ عموماً صوفیوں کے ملفوظات ہیں اور اردو کی پرانی تصنیفیں خواہ وہ دکھنی ہوں یا گجراتی، وہ سب صوفیوں کی لکھی ہیں۔ جس طرح ۱۸۵۷ء کے انقلاب سے کچھ پہلے دہلی کے علم و عرفان کے مشہور خانوادہ نے وقت کی اردو زبان کو جس کو ا س وقت ہندی زبان کہتے تھے، اپنے اصلاحی رسالوں اور تصنیفوں اور قرآن وحدیث کے ترجموں کے لئے فارسی کے بجائے پسند کیا اور عوام تک پہنچنے کی خاطر اردو ہی کو، جس میں اس وقت تک شمالی ہند میں لکھنا پڑھنا عیب سمجھا جاتا تھا، بے تکلف قبول کیا، اور اصلاح دین اور رد بدعات کا بڑا ذخیرہ اردو میں جمع کردیا، جس نے رفتہ رفتہ اہل علم سے اس نئی زبان میں لکھنے پڑھنے کا حجاب اٹھا دیا۔
خواجہ فرید شکر گنج ملتانی
خانوادۂ چشت کے فرد فرید شکر ستان معرفت کے مشہور گنج شکر سے کون واقف نہیں، حضرت خواجہ فرید گنج شکر کا خاندان اگرچہ کابل کا تھا مگر شہاب الدین غوری کے زمانہ میں ملتان آکر بس گیاتھا۔ اور خواجہ کی ولادت یہیں قصبہ کہنی وال مضافات ملتان میں ۵۸۴ھ۱۱۸۹ء میں ہوئی۔ خواجہ کی نشو ونما اور ان کی تعلیم وتربیت ملتان میں ہوئی۔ اٹھارہ برس کی عمر تھی، ملتان کے مدرسہ میں مولانا منہاج الدین ترمذی سے فقہ میں کتاب نافع کا درس لے رہے تھے کہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کا گزر ہوا اور ایک ہی نظر کیمیا اثر نے ان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ بہرحال ملتان سے نکل کر قندھار اور دوسرے ممالک سے اخذ فیض کے بعد پھر اپنے وطن واپس آئے اور بعد کو اپنے پیر کے حضور میں دہلی آئے اور یہاں سے پنجاب کے شہر اجودھن میں جاکر اقامت اختیار کی اور وہیں ۶۷۰ھ ۱۲۷۱ء میں آسودۂ خاک ہوئے۔ اس وقت تک اس زبان کی ابتدائی تاریخ کا جہاں تک پتہ لگ سکا ہے، اس سے یہی ظاہر ہوتاہے کہ وہ شیریں دہن جس کے منہ سے مصری کی یہ ڈلیاں پہلے نکلیں خواجہ فرید گنج شکر ہیں، چنانچہ ملفوظات اور تصوف کی کتابوں میں موصوف کے چند فقرے ملتے ہیں۔
(۱) پہلا فقرہ وہ مکالمہ ہے جو حضرت خواجہ اور ان کے مریدشیخ جمال الدین مانسوی کی بیوہ کے درمیان ہوا، خواجہ نے شیخ جمال الدین کے خورد سال بچہ برہان الدین کو ان کے باپ کی وفات کے بعد اپنے حلقۂ بیعت میں لے لیا۔ اس پر ان کی والدہ نے کہا، ’’خواجہ برہان الدین بالا ہے۔‘‘ خواجہ نے فرمایا، ’’ پونوں کا چاند بالا ہوتا ہے، 10 یہ ’’بالا‘‘وہی لفظ ہے جو لڑکے بالے اور بچہ بالا کے ساتھ آج بھی بولا جاتا ہے۔ اب تک صوفیانہ ذکر اورمراقبہ میں عربی یا فارسی کے فقرے استعمال ہوتے تھے۔ خواجہ پہلے شخص ہیں، جنہوں نے ان کو ہندوستانی زبان میں ادا فرمایا۔ ہمارے کتب خانہ میں اورادو تصوف کی دوقلمی کتابیں ہیں جن میں حضرت کے یہ فقرے مذکور ہیں، فرمایا، 11
(۲) درراستا مگوئی، ادہی ہی دورچپا بگوئی یہی ہی، در دل بگوئی اینہی ہی۔
دیگر زبان ہندی۔
(۳) درراستہ ہمہ تون، ودرچپاہی تون ودردل ہمہ تون۔
(۴) دیگر کو یداز طرف دل ہوں توں ودر آسماں تو ں ہوں۔ تون ہوں کی نسبت یہ کہا گیا ہے کہ یہ عربی فقرہ اناانت کا ترجمہ ہے۔
تصوف کے افکار کے ایک اور رسالہ میں جس کا نام ’’جواہر خمسہ‘‘ ہے اورجس کا ۱۰۱۷ھ ۱۶۸۵ء کا لکھا ہوا نسخہ کتب خانہ دارالمصنفین میں ہے، یہ مذکورہے، ’’بندگی حضرت قطب الاقطاب حضرت شیخ فرید شکر گنج قدس اللہ سرہٗ ذکر بزبان ہندی وضع فرمودہ اند اور عمل آوردہ اند، ہونہہ تون اہونہہ تون اینہیں تون سوئے آسمان نگریستہ بزبان گویدا ہونہتوں۔۔۔ باز روئے سوئے زمین کردہ بہمان طریق زباں گوید اہونہہ توں۔۔۔ بعدہٗ نظر را بردارد، وبرخود گمار وپیاسہ کرت یا ہفتہ کرت اینہیں توں۔‘‘
شیخ اپنے ایک دوست کو ’’بھیا‘‘ کہا کرتے تھے۔ 12 آپ سے پوچھا گیا، کہ ذہن کا مقام کہاں ہے؟ تو فرمایا’’بیچ سر 13 کے۔‘‘ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ بابا فرید اپنی آنکھوں پر پٹی باندھے ہوئے تھے، ان کے پیر خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے سبب پوچھا تو بابا نے ہندی زبان میں جواب دیا، ’’آنکھ آئی ہے‘‘ شیخ نے فرمایا، اگر آئی ہے ’’چرابستہ اید؟‘‘ سرسہ کے مقام پر بابا فرید ایک بزرگ کے مزار پر جایا کرتے تھے، کچھ لوگ ان کے راستہ میں چھپ کر بیٹھ گئے۔ جب آپ کو معلوم ہوا تو ناخوش ہوئے، اور ہندی میں فرمایا، سرسہ کبھی سرسہ، کبھی نرسہ۔ (۱۶)
ہمارے وطن (دیسنہ ضلع پٹنہ) میں اردو کا ایک کتب خانہ ہے اس میں چند پریشان اوراق کا ایک پرانا مجموعہ ہے جس میں کسی صاحب نے حضرت بابا فرید کے کچھ فارسی اقوال لکھے ہیں، اور ساتھ ہی ذیل میں ایک نظم بھی ہے،
وقتِ سحر وقتِ مناجات ہے
خیز دراں وقت کہ برکات ہے
نفس مبادا گر بگوید ترا!
خسپ چہ خیزی کہ ابھی رات ہے
بادمِ خود ہمدم وہشیار باش
صحبتِ اغیاربوری بات ہے
باتن تنہا چہ روی زیں زمین
نیک عمل کن کہ وہی سات ہے
پند شکر گنج بدل وجاں شنو
ضائع مکن عمر کہ ہیہات ہے
اس نظم کو اردو کے ایک مشہور مؤلف نے حضرت شکر گنج کی طرف منسوب کیا ہے۔ حالانکہ میرے خیال میں یہ حضرت کے فارسی اقوال کے جامع کی نظم ہے، نہ کہ خود حضرت کی ہے۔ اخیر شعر میں شکر گنج کے توصیفی لقب کو تخلیق سمجھنا تعجب انگیز ہے، ظاہر ہے کہ خود حضرت اپنے آپ کو شکر گنج نہیں کہتے تھے، اتنا صحیح ہے کہ حضرت کی زبان مبارک سے بعض ہندی دوہے ادا ہوئے ہیں جن میں سب سے مقدم اور مستند وہ ہے جو میر خورد دہلوی نے سیرالاولیاء میں نقل کیا ہے، ’’ایں دوہرہ کہ بزبان مبارک حضرت شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین گزشتہ است مناسب ایں معنی است۔
گنت نہوتین کارری ناکان ست منائے
بس کندے مدھن گر ہو رین لہائے۔‘‘ 14
بہرحال اس نظم سے قطع نظر کرکے فقروں میں ’’کا اور کے اضافت کی علامت’’ ہوتاہے‘‘ اور ’’آئی ہے‘‘ فعل اور ہوں۔ توں اوہی یہی ضمیر اور اینہی اور ہوان ظرف اور بالا، چاند، آنکھ بھیا اسماء اس میں موجود ہیں۔
حضرت نظام الدین دہلوی
خواجہ فرید شکر گنج کے مرید حضرت نظام الدین سلطان الاولیاء المتوفی ۷۲۵ھ ۱۳۲۵ء کے ملفوظات فوائد الفوائد میں، جس میں حضرت کے ۷۲۲ھ ۱۳۲۲ء تک کے ملفوظات امیرخسرو کے دوست امیر حسن دہلوی نے جمع کئے ہیں، حسب ذیل ہندوی الفاظ ان کی زبان مبارک سے بے تکلف ادا ہوئے ہیں، پیاز (ص۹) لنگوڑ (ص۹) کھٹ (یعنی کھاٹ ص۵۱) کندوری (عرس ص۵۵) چھجہ (ص۶۸) لنگھن (فاقہ ص۸۶) دھاڑی (یعنی ڈاکو ص۱۲۸) لٹ (ص۱۶۳)
حضرت سلطان الاولیاء کی زبان سے یہ شعر ادا ہوا ہے،
لنگھت گر کند ترا فربہ
سیر خوردن تراز لنگھن بہ 15
حضرت سلطان الاولیاء نے شیخ احمدنہر والی کے ذکر میں فرمایا کہ شیخ احمد بہت خوش آواز تھے۔ ’’ہندویہا خوش گفتہ، ہندوی می گفت۔‘‘ یعنی گایا کرتے تھے، جامع مسجد اجمیر کے امام، فقیہ مادھو (ذرا ایک ہندی عالم کے اس عالمانہ نام پر نظر رہے) نے ایک دفعہ ان کاہندی گانا سن کر فرمایا، ’’ چنیں آوازے کہ تو داری دریغ باشدکہ در سرود ہندوی خرچ کنی، شیخ احمد نے اسی وقت سے قرآن یاد کرنا شروع کر دیا۔ (ص۱۸۴مطبع اودھ اخبار)
شیخ نصیرالدین اودھی
شیخ نظا م الدین اولیاء کے مرید شیخ نصیر الدین اودھی چراغ دہلی (المتوفی ۷۵۶ھ۱۲۵۵ء نے جب اپنے ایک ساتھی شیخ اخی سراج کو بنگالہ رخصت کیا، تو انہوں نے عرض کی کہ اس مملکت پر توشیخ علاء الدین قل سرفراز ہیں، فرمایا ’’تم اوپر قل تلے۔‘‘
خواجہ بندہ نواز دکنی
شیخ نصیر الدین دہلوی کے دوسرے ممتاز مرید حضرت خواجہ بندہ نواز ہیں، جو ۸۱۵ھ میں دہلی سے بہمنیوں کی سلطنت گلبرگہ میں آ گئے اور یہیں ۸۲۵ھ میں وفات پائی، ان کا ایک فقرہ ان کے ایک مرید نے یہ نقل کیا ہے۔ بھوکوں موئے سوں خدا کچھ اپڑیتا ہے، خدا کو ن اپڑنے کی استعداد ہو رہے۔‘‘ 16 ان کا پورا ہندوی رسالہ معراج العاشقین چھپ چکا ہے۔
ان بزرگوں کے ان مسلسل فقروں کو سن کر اب اس میں شک کی کیا گنجائش رہ گئی ہے کہ اس زبان کی عمر جتنی سمجھی جاتی ہے اس سے کہیں زیادہ ہے، یہ حقیقت میں ہندوستان ہی کی زبان تھی جس کو ان بزرگوں نے قبول کی نظر سے دیکھا، اور محبت کی شکر میں گھولا۔
خلجی اور تغلق دورمیں
یہ تغلق اورخلجی سلاطین کا دور ہے۔ ان بادشاہوں کے زمانہ کی دو یادگار تاریخیں ہمارے سامنے ہیں۔ تاریخ فیروز ضیائے برنی اور تاریخ فیروز شاہی سراج عفیف، ان دونوں تاریخوں میں، جن میں پہلی دہلی میں چھٹی صدی کے آخر اورساتویں صدی ہجری کے اوائل میں اور دوسری ساتویں صدی کے بیچ میں تصنیف ہوئی ہے، بہت سے ہندی الفاظ اور مصطلحات ملتے ہیں اور جو آج تک اس مشترکہ ہندوستان یزبان کا سرمایہ ہیں۔
بحیرہ لکہہ (لاکھ) کہار (ص۸۶۱) ٹھگ (۱۸۹) لونڈی (ص۱۹۲) ٹیکۂ ہندواں (۲۲۰) منڈل (ص۲۱۷) گھٹی (ص۲۲۰) بہی بٹواریاں (ص۲۸۸) ڈھولک (۴۵۷) چبوتری (۳۲۰) مٹھ (۲۴۴) بسوہ چرائی، ڈیہہ قصبات (ص۲۸۸) منڈہ (منڈی غلہ) (ص۳۰۴) ماس، ہوٹھ (۳۵۰) منڈئی (ص۳۰۴) (ص۳۱۰) ریوڑی (۳۱۶) تھانہ (ص۳۳۰) دھاوگان (جمع فارسی دھاؤ بمعنی ڈاک دوڑیہ (۳۳۱) موڑہ (موڑھاص۳۷۳) چودھری (۳۸۸) بی بی (ص۳۷۳) بھٹی (ص۳۱۶) (تاریخ فیروز شاہی برنی۔)
بی بی (ص۳۹) لک (لاکھ ص۴۸) لکھوک (جمع لکھوک) (ص۳۳۱) چونہ (چونہ پکانے والا) راج (معمار) سوندھار (سونا رص۳۳۱) بھیڑ چھتر (ص۱۰۸) کٹگرہ کٹرہ (ص۳۷۱) چودھریاں (ص۳۷) لت (لات ص۳۷) بھرکر (ص۳۹۳) گھڑیاں (ص۳۴) گھڑیال خانہ (ص۲۷۱) درخت سینبھل (ص۳۱۱) چونہ (ص۳۱۰)۔ (سراج عفیف)
تاتار خاں اعظم نے عورتوں کی پردہ سواری کے لئے گرد و نہار است کنایندہ بود کہ آن رابزبان ہندی ’بھرکر‘ گویند‘‘ (۳۹۳) سراج عفیف) محمد تغلق کی زبان سے ایک دفعہ بے دینی کا فقرہ نکلتا ہے، مولانا عماد بر سردربار اس کے جواب میں کہتے ہیں، ’’گہ مخور‘‘ (اخبار الاخیارص۱۸۸) فیروز شاہ کے عہد میں سکندر حاکم بنگال ایک افسر ملک قبول سے پوچھتا ہے، ’’ چہ نام داری؟‘‘ ملک بزبان ہندی گفت، ’’توراباند۔‘‘ اب اس کو ’’تورابندھو‘‘سمجھئے یا’’تورابندہ۔‘‘ (شمس سراج عفیف ص۱۶۰) سلطان محمد تغلق نے جب سندھ کے حملہ میں جان دی اور سلطان فیروز شاہ نے ناکام حملہ کے بعد سندھ چھوڑ کر گجرات کا رخ کیا تو سندھیوں نے کہا، ’’برکت شیخ تھیا، ایک موا ایک نہا۔‘‘ (شمش سراج عفیف ص۲۳۱)
امیر خسرو کا عہد، اب وہ زمانہ ہے جب کل ہندوستان ایک کے علم کے نیچے جمع ہو گیا تھا، اور ہندوستان کے اندر ایک متحدہ زبان کا پیکر تیار تھا، جس نے عوام کے بازارں سے اہل علم کے حلقوں تک رسائی حاصل کرلی اور امیر خسرو المتوفی ۷۲۵ھ ۱۳۲۵ءجیسے ہمہ گیرسلطان ادب نے اس کی سرپرستی کی اور اس کو عربی وفارسی منظومات کے پہلو بہ پہلو جگہ دی، امیر کی فارسی مثنویوں اور تاریخی تصنیفوں میں بے شمار ہندی الفاظ استعمال ہیں، ان کی ہندی نظمیں جو پہیلیوں اور مکرنیوں کی صورت میں ہیں، بہت مشہور ہیں، گو اس وقت ہمارے پاس ان کی ان ہندی منظومات کا کوئی مستند حصہ نہیں ہے، تاہم انہوں نے اپنے دیوان غرۃ الکمال کے خاتمہ میں جوطویل فارسی نثر لکھی اس میں اپنی ہندی نظم پر خود فخر کیا ہے۔ فرماتے ہیں،
پیش ازیں از بادشاہان سخن کسے راسہ دیوان نہ بود، مگر مرا کہ خسرو ممالک کلامم، مسعود و سعد سلمان، اگرچہ ہست اما آں سہ دیوان او عبارت است از عربی و فارسی و ہندی امادر پارسی مجرد کسے سخن راسہ قسم نہ کردہ جزمن کہ دریں کار قسام عادلم
قسمت چوچنیں بود چہ تدبیر کنم 17
امیرخسرو کی اس عبارت کا یہ مطلب نہیں کہ انہوں نے بھی مسعود سعد کی طرح عربی و فارسی اور ہندی کے تین الگ الگ دیوان تیار کئے تھے بلکہ وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مسعود سعد سلمان نے تینوں زبان میں الگ الگ تین مستقل دیوان تیار کئے تھے اور میں نے ایک زبان فارسی میں ہندی اور عربی میں ملاکر ایک سخن کا سراپا تیار کیا۔ امیرکو اپنے ہندی کلام پر جو ناز تھا، وہ ان کے اس شعر سے نمایاں ہے، جس کو انہوں نے اپنی اسی کتاب کے خاتمہ میں لکھا ہے،
چومن طوطی ہندم ار راست پرسی
زمن ہندوی پرس تا نغزگویم
اسی خاتمہ میں ایہام کی ایک نئی صفت پیدا کرنے پر فخر کیا ہے، باز ایہامے دیگر بربست کردہ ام کہ یک طرف ہمہ ہندوی خیزمی افتد و جانب دیگر پارسی خیزد۔
آہی آئی ہماں پیاری آہی
ماری ماری 18 بر آئی موری ماہی
امیر نے اپنی مثنوی نہ سپہر میں ہندوستان کی ایک فضیلت یہ بیان کی ہے کہ یہاں کے لوگ ہر ملک کی زبان بول سکتے ہیں، مگر بیرونی لوگ یہاں کی زبان نہیں بول سکتے، کہتے ہیں،
ہست ودم آن کہ زہند آدمیاں
جملہ بگویند زباں ہا بہ بیاں
لیک از اقصائے دگر ہر کسے
گفت نیار د سخن ہند لبے
ہست خطا ومغل وترک وعرب
در سخن ہندوی مادوختہ لب
غرض ہر جگہ وہ اپنی کو ہندوی کہتے ہیں اوراس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ہندوی اس وقت کے ہندوستان کے بول چال میں 19 تھی۔
شیخ شرف الدین یحییٰ منیری بہاری
حضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منیری المتوفی ۷۸۲ھ۱۳۰۰ء جن کا وطن اور مسکن بہار ہے اور تعلیم وتربیت بنگال میں پائی تھی، اور بیعت دلی جاکر حاصل کی تھی، ان کے بہت سے ہندوی دوہے ہیں جن میں بعض بیماریوں کی مجرب دوائیں بتائی گئی ہیں، مثلاً،
لودھ پھٹکری مردا سنگ
ہلدی زیرا ایک ایک ٹنگ
افیون چنا بھر مرچیں چار
ارد پھر تھوتھا اس میں ڈار
پوست کے پانی پوٹلی کرے
نینا پیراپل میں سرے
(شفاء الامراض حکیم محمدی دیسنوی مرحوم قلمی دیسنہ)
حضرت شیخ کے ملفوظات کا مجموعہ معدن المعانی کے نام سے ان کی زندگی ہی میں زین بدر عربی نے فارسی میں لکھ کر نذر گزرانی تھی، اس میں ایک موقع پراردو کے دوفقرے استعمال ہوئے ہیں، خواجہ جلال الدین حافظ ملتانی نے عرض کی، بزبان ہندوی نیکو گفتہ اس ہر کہ گفتہ است’’باٹ بھلی برسانہ کرے۔‘‘ حضرت شیخ نے اس کی تائید میں فرمایا، بعد ازاں بندگی مخدوم عظمہ اللہ برزبان مبارک راند، دیس بھلا پردور۔ (معدن المعانی مطبوعہ شرف الاخبار بہار ۱۸۸۴ء ۱۳۰۱ء جلد اول ص۲۰۳)
ہمارے وطن (دیسنہ ضلع پٹنہ) کے کتب خانہ اصلاح میں ایک فالنامہ کے دوصفحے پرانے کاغذ کے ہیں، جن میں اسی زبان میں مختلف اعداد کے جوابات بتائے گئے ہیں، اور اس کے سرنامہ پر اس فالنامہ کی نسبت حضرت مخدوم کی طرف کی گئی ہے، اس میں کل ستائیس فقرے ہیں، جن میں سے بعض یہ ہیں،
۱۱۱۔ جومن کے منسی کیا ہوئی سوہوئی۔
۱۱۲۔ ناہیں کچھ کرو نصیب لاگی بات ہے۔
۱۳۱۔ ایہیں، ابھیں ناہیں۔
۱۳۲۔ ابھیں ناہیں سوت رہو جائے۔
۲۳۱۔ راج پاٹ چل کے دیاتم کون۔
۲۳۲۔ آگے برے دن گئے اب سکھ پاوہ گے۔
۲۳۲۔ ابھیں ناہیں آگو ہوپکا۔ 20
۳۱۱۔ تورے دن کے اب سکھ سوجتا ناہیں۔
مخدوم اشرف کچھوچھوی اودھی
اسی طرح حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی المتوفی ۷۹۸ھ۱۳۹۵ء ہیں۔ ان کا بڑا حصہ بنگال بہار اور اودھ میں بسر ہوا، اور کچھوچھہ ضلع فیض آباد میں مدفون ہوئے۔ ان کے ملفوظات کے مشہور مجموعہ لطائف اشرفی میں الفاظ، دعائیں اور منتر اردو نما ہندی میں ملتے ہیں۔ اس کے مؤلف نظام حاجی غریب یمنی ۷۵۰ھ۱۳۴۹ء میں ان کے مرید ہوئے تھے، اس مجموعہ میں ایک حکایت ہے کہ سید اشرف جہانگیر رحمۃ اللہ علیہ ردولی کے پاس سے گزرے، اسی کے قریب ایک گاؤں میں مولانا کریم الدین دانشمند رہتے تھے، سید موصوف ان سے ملنے کے لئے چلے، کسی نے مولانا کو جاکر اطلاع دی، انہوں نے یہ خبر سن کر خاکساری کی راہ سے فرمایا، ’’مثل ہندوی فرمودند‘‘ چھیری کے منہ کھنڈ اسمائے 21 چھیری مشرقی اضلاع کے دیہاتوں میں بکری کو کہتے ہیں، اور کھنڈا چاولوں کے چورا کو کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ بکری کو کھنڈ ا کھانے کو ملے۔ یہ اس کی عزت افزائی ہے۔ سید اشرف کی زبان سے اس میں سانپ اور بچھو کے کاٹے کے کئی منتر لکھے ہیں، جو نسخ وکتابت کی غلطیوں سے مسخ ہو گئے ہیں، بچھو کے کاٹنے کا ایک منتر صاف ہے ’’دھربندھون، دھرکند ہوں، سوا لاکھ سپاری بندھوں۔ اپنے بھگت گرو کے سکت ہوں یکہ جو آگئیں (آگے) چڑھے۔
دوسرا، انیکی لکڑی، پانی پرائی، آنکس بندھوں، نربس پرئی مری یکہ جو اگین جائے۔
دوسرا، کالی کوفی جنگل کے کاجل دھکا ناتھ پانچ یز الخ 22
شیخ علاء الدین بنگالی
شیخ علاء الدین لاہوری پنڈوی بنگالی المتوفی ۸۰۰ھ ۱۳۹۷ء اور شیخ نور الحق پنڈوی بنگالی المتوفی ۸۱۳ھ ۱۴۱۰ء باپ بیٹے تھے۔ یہ تھے لاہوری مگر سکونت بنگال جاکر اختیار کی، شیخ نور الحق اپنے مکتوبات میں ایک فارسی شعر لکھ کر اس کے ہم معنی ہندی شعر لکھتے ہیں،
ہمہ شب بزاریم شد کہ صبا نداد بوئے
ندمید صبح بختم چہ گنہ نہم صبارا
رین سب آئی سویا سیج نلدھا تھانوں
پیونپو چھے پاتری مجھ سہاگن نون
(ص۷ قلمی دارالمصنفین)
اسی زمانہ کے ایک اور بزرگ شیخ الاسلام سعد اللہ لکھنوی اور ان کے بیٹے شیخ امین الدین لکھنوی المتوفی ۸۲۹ھ ۱۴۲۶ء ہیں۔ یہ دونوں ہندی کے شاعر تھے ان کے مکتوبات میں ہندی الفاظ دوہے اور ہنڈولے ملتے ہیں، لکھتے ہیں، ’’درشب روز تحریر جگرمی بخیال گزشتہ بنفشہ شدہ است ذوق خواہندگرفت جگری مذإور اینست، ہندوی۔
کون پراجت دیا کیتوں
شہ کل بانہہ نہ دئی کر سوتوں
عقدہ
مجھ برہا، رین جگاوے
ہور مریتن چال بتاوے
جی ہوں نپہیوں بھول کندھیائے
جو بھنج تن جڑ کانٹ کنیائے
عقدہ
جی ہوں سعد پیارے جسینوں
سکھ دکھ پی کے بات کہیتوں
امین الدین مادھی جودی پیو
شہ کے درشن داری جیو
مخدوم عبدالحق ردولوی
مخدوم شیخ عبدالحق دہلوی ردولوی المتوفی ۸۳۰ھ۱۴۳۴ءکے ملفوظات میں بہتیرے فقرے ملتے ہیں، شیخ نے کچھ زمانہ سنّام (پنجاب) میں بسر کیاتھا، فرماتے ہیں کہ وہاں ایک زاہدہ بی بی رہتی تھی، جو بڑی عبادت گزار تھیں۔ رات کو تہجد میں شیخ سے پہلے اٹھتیں اور، ایں فقیر رابہ لطف فرمود ندبزبان ہندی بیٹا احمد آب گرم موجود است نباید کہ از آب سرد و ضو کنی۔ 23 شیخ کا ایک مرید شب وروز یہ چیختا تھا، آہ شیخ احمد ماریوماریو (ص۱۰۰) شیخ نے ایک مرتبہ یہ ہندی دوہرہ زبان مبارک سے ادا فرمایا،
کنوا ہو تو پاٹوں سمندر کہ پاٹن جائے
بارا ہو برجوں جھیل کہ برجن جائے
شیح احمد عبدالحق ردولوی کے ملفوظات شیخ عبدالقدوس گنگوہی المتوفی ۹۴۵ھ۱۵۳۸ء نے جمع کئے ہیں۔ ردولی اور گنگوہ ہمارے صوبہ کے ابتدائی اور انتہائی کنارے کہے جا سکتے ہیں۔ اس مجموعہ میں حسب ذیل الفاظ نہایت بے تکلفی کے ساتھ استعمال کئے گئے ہیں۔ ہنڈولہ (ص۳۷) پلنگ (ص۳۸) اور اس سے بڑھ کر جھلنگہ چارپائی (ص۴۰) چبوترہ (ص۶۰) جنگل (ص۶۷) کھچڑی (ص۶۳) دھکا (ص۷۲) کنواڑ (ص۸۷) دب ادبالے سے (ص۹۰) پالکی (۹۵) دیپک (ص۹۹) کندوری کھانا (ص۱۰۰) مہاجن (ص۱۲۳)۔
دکھنی اور گوجری وغیرہ
اب ہم اس زمانہ میں پہنچ گئے ہیں جب ہندوستان کی اس متحدہ زبان نے نظم کی زمین پر قبضہ کیا، شروع شروع میں یہ مذاقیہ اورتفریحی منظومات میں اسی طرح کام میں لائی گئی ہے، جیسے ہمارے عہد میں اکبر مرحوم نے انگریزی لفظوں اور جملوں کا استعمال اردو شعروں میں کیا، مگر یہ ظرافت بہت جلد سنجیدگی میں بدل گئی۔ محمد تغلق نے ہندوستان ودکن کو ایک کردیا، اور دولت آباد دکن کو اپنی حکومت کادارالسلطنت اور دلّی اجاڑ کر اہل دلّی کو دولت آباد میں لے جاکر بسایا۔ یہ پہلا دن تھا جس میں اس زبان کا تخم دکن کی سرزمین میں بویا گیا۔ یہاں کی آب وہوا اس کو ایسی راس آئی کہ تخم بڑھ کر پودا ہوا، اور پودا ایک عظیم الشان درخت بن گیا، اور حیرت سے سنا جائےگا کہ اس درخت نے شمال سے پہلے دکن میں پھل دیے۔ تصوف اور عوام کے مذہبی جذبات نے اس زبان کو اپنے فیوض سے مالا مال کرنا شروع کردیا، جس کی بڑی وجہ یہ ہوئی کہ دکن کے بہمنی بادشاہوں نے آٹھویں صدی ہجری میں دہلی سے الگ ہوکر گلبرگہ میں جب اپنی خود مختار حکومت قائم کی تو اپنا سرکاری دفتر فارسی کے بجائے ملک کی دیسی زبان میں رکھا۔
اس کے قدرتی نتیجے دوہوئے۔ ایک تویہ کہ برہمنوں نے سرکاری دفاتر میں جگہ پائی، اور دوسرا یہ کہ دیسی زبان نے ترقی شروع کی، بہمنی مٹ کر جب عادل شاہی وقطب شاہی وغیرہ پیدا ہوئے تو انہوں نے بھی اسی زبان کی سرپرستی کی اور چونکہ شمالی ملک کے سلاطین کی طرح ان کے کابل وایران سے تازہ تازہ تعلقات نہ تھے اور نہ وہ خود اجنبی نسل ووطن پر فخر کرتے تھے، اس لئے ان کے دربار کی زبان فارسی کے بجائے ہندوستانی ہو گئی تھی بلکہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہی ان کی مادری زبان تھی۔
ہندوستانی مسلمانوں کی مادری زبان
ابراہیم عادل شاہ (۹۸۸ھ۱۵۸۰ء۔ ۱۰۰۴ھ۱۵۹۵ء) جو تخت نشینی کے وقت تک جاہل رہا تھا اور پھر رفتہ رفتہ اس نے پڑھنا سیکھا اور فارسی پڑھی، اس کے حال میں اس کے معاصر مؤرخ فرشتہ نے لکھا ہے، فارسی خواں گردیدوبنوعے فارسی را خوب می گفت کہ تا بہندوستانی متکلم نمی شد، ہیچ کس نمی توانست فہمید کہ غیر از فارسی بزبان دیگر آشنائی دارد۔ ج۲ص۸۰ نول کشور۔ فارسی داں ہوگیا اور ایسی ردانی سے فارسی بولتا کہ لوگ یہی سمجھتے کہ فارسی کے سوا دوسری کوئی زبان جانتا ہی نہیں ہے، مگر جب ہندوستانی زبان بولتا تو لوگوں کی غلط فہمی دور ہوجاتی۔) اس اہم فقرے سے دوباتیں ثابت ہوتی ہیں، ایک تو ہندوستانی زبان کا وجود اور دوسری یہ کہ ان بادشاہوں کی عام بول چال کی مادری زبان یہی ہندوستانی تھی، جس میں ان کے عہد کی تصانیف ملتی ہیں۔
موجودہ صوبہ جات متحدہ کی مادری زبان بھی اس عہد میں اسی قسم کی ہندوی یا ہندوستانی تھی، بدایوں جو مغلوں سے پہلے ایک مرکزی حیثیت رکھتا تھا، وہاں کے عبدالقادر بدایونی جنہوں نے ۱۰۰۴ھ ۱۵۹۵ء میں اپنی تاریخ لکھی ہے، اس وقت کے نودسالہ ۱۹۱۴ء کی ولادت استاد شیخ عبداللہ بدایونی کا حال لکھتے ہیں کہ بچپن میں وہ استاد سے بوستاں پڑھ رہے تھے، شعر یہ آیا،
محال است سعدی کہ راہِ صفا
تواں یافت جزازپے مصطفیٰ
پرسید کہ معنی ایں بیت چیست، بزبان ہندی بیان کنید۔۔۔ چومعنی آں گفت۔ (ج۳ ص۵۴)
اس سے صاف ظاہر ہے کہ بچوں کی مادری زبان ہندوی ہوچکی تھی۔ اکبر کی زبان میں ملا بدایونی وغیرہ نے پنڈتوں کی مدد سے جس ہندی سے فارسی میں سنسکرت کتابوں کے ترجمے کئے تھے، اس سے مراد یہی اس وقت کی اردو ہے۔ پنڈت سنسکرت سے اس وقت کی ہندوی میں اور ملاہندوی سے فارسی میں ترجمہ کرتے تھے، ورنہ ظاہر ہے کہ ملانے ہندی جاننے کا کہیں دعویٰ نہیں کیا ہے۔
شیخ عبدالوہاب متقی جن کا وطن مالوہ تھا ۹۶۳ھ ۱۵۵۵ء میں ہجرت کرکے مکہ معظمہ چلے گئے تھے اور وہاں ممالک اسلامی کے طلبہ کو درس دیتے تھے، اس درس کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ ہر ملک کے طالب علموں سے ان ہی کی زبان میں تقریر فرماتے تھے، اس سلسلہ میں ہندیوں کو وہ ہندی میں پڑھاتے تھے۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی جو ان کے شاگرد خاص تھے، ان کے حال میں لکھتے ہیں، وباہندیان در تقریر فارسی تکلف نکنند، وہم بزبان ہندی اکتفا فرمایند، 24 (ہندوستانی طلبا کے لئے وہ فارسی زبان میں پڑھاتے کی زحمت نہیں کرتے تھے بلکہ زبان ہندی پر اکتفا فرماتے۔) یہ واقعہ بھی اس دعوے کی شہادت ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی زبان ایک مدت سے ہندی ہو چکی تھی۔
شیخ عبدالوہاب متقی کے استاد شیخ علی متقی مشہورمحدث ہیں۔ ان کاآبائی وطن تو جونپور تھا لیکن پیدائش برہان پور میں ہوئی، اور ابتدائی ملازمت شاہان مالوہ کے ہاں منڈو میں کی، شیخ باجن کے مرید اور ان کے لڑکے سے چشتی خرقہ پہنا، پھر ملتان جاکر شیخ حسام متقی کی صحبت اٹھائی، پھر ہندوستان سے ہجرت فرماکر مکہ معظمہ چلے گئے، کبھی کبھی سلاطین گجرات کے اصرار سے احمدآباد گجرات آجاتے تھے ۹۷۵ھ ۱۵۶۷ء میں مکہ معظمہ میں وفات پائی۔ غور کیجئے کہ ان کا تعلق ہندوستان کے کن کن صوبوں سے رہا۔ جونپور (پورب) برہان پور 25 (خاندیس) منڈو (مالوہ) ملتان (سندھ) (پنجاب) اور احمد آباد (گجرات) باین ہمہ جو ان کی زبان تھی وہ اس دوہرے سے ظاہر ہے جس کو انہوں نے اپنی موت سے کچھ دنوں پہلے مرض الموت کی حالت میں پڑھا تھا، فرمایا کہ کھانے کو پیس ڈالو۔ آں چناں بحق کن کہ ہمہ یکے شود دوئی نہ ماند، چنانچہ ایں دوہرہ خبرمی دہددمی گوید۔ 26
سن سہیلی پریم کی باتا
یوں مل رہی ہے جیوں دودھ نباتا
دیکھئے کہ اردو کی پوری شان اس شعر میں موجود ہے۔
تاہم اس میں شک نہیں کہ جب تک شمالی ہند میں حکومت کا رعب وداب قائم رہا، اس مادری زبان میں لکھنا پڑھنا اور تصنیف وتالیف معیوب بنی رہی اور اس کے برخلاف دکن اور گجرات میں خود صوفیہ نے اور شیعہ بادشاہوں نے پہل کی۔ صوفیہ نے اس زبان میں صوفیانہ رسالے لکھے اور بیجا پور اور گولکنڈہ کے بادشاہوں نے اس میں امام حسینؓ علیہ السلام کے مرثیے اور مناقب لکھے، اور رفتہ رفتہ شاعری کے دوسرے مضامین بھی بندھنے لگے اور اس طرح نثر کے ساتھ نظم نے بھی دکن اور گجرات میں ترتیب و تدوین کی عزت پہلے پائی۔
ہم سب کو انجمن ترقی اردو اور دکن کے بعض دوسرے اہل قلم کا ممنون ہونا چاہیے جنہوں نے اس عہد کی دکھنی نظم و نثر کی کتابوں کو حلیہ طبع سے آراستہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہ وہی ہندوستانی زبان ہے جس کو لوگ بعد میں دکھنی کے نام سے یاد کرنے لگے ہیں۔
اس کے صوبہ دار نام
حقیقت یہ ہے کہ نئی قوم کے اختلاط اور میل جول نے ہر صوبہ کو متاثر کیا اور اس طرح نئی زبان کو بھی مقامی اور صوبہ دار انہ اثرات نے داخل ہوکر مختلف بولیوں میں منقسم کردیا۔ دکھنی، گوجری، دہلوی، لکھنوی، بہاری، پنجابی، ہر صوبہ کی ہندوستانی بولی میں علیحدہ علیحدہ کچھ کچھ امتیازات پیدا ہو گئے تھے اور اس لئے اس نئی زبان کا نام ہر جگہ الگ الگ پڑا۔ مثلاً دہلوی، دکھنی، گوجری، ہندی، ہندوی یہ سب بتفاوت اسی ایک کے نام ہیں۔
اردو نام
تاہم یہ بات تعجب کے ساتھ یادرکھنے کے لائق ہے کہ شروع سے لے کر اب تک اس زبان کا نام کہیں ’’اردو‘‘ سننے میں نہیں آیا۔ حالانکہ ہم نے آج اس نام کے سوااس کے اور سب نام بھلا دیے ہیں۔ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ اردو ترکی لفظ ہے جس کے معنی لشکر شاہی یعنی لشکر گاہ اور کیمپ کے ہیں اور اس معنی میں اس کا استعمال بہت قدیم ہے۔ یہاں تک کہ تغلقوں کی تاریح میں بھی یہ لفظ ان معنوں میں بولا گیاہے، پھر تیموریوں اور خصوصاً شاہجہاں کے عہد میں ’’اردوئے معلیٰ‘‘ شاہی لشکر گاہ اور دہلی کے قلعہ معلی کو کہنے لگے۔ مغلیہ سلطنت کے ساتھ ساتھ فارسی کا شاعرانہ تسلط بھی کمزور ہوتا جا رہا تھا اور اس نئی زبان کی طاقت روز بروز ابھر رہی تھی۔ عام بازاروں، گلیوں اور معمولی گھروں سے نکل کر شاہی دربار تک اس کا اثر پھیل رہا تھا۔ اس لئے شروع شروع میں اس کو لوگوں نے ’’زبان اردوئے معلیٰ‘‘ کا خطاب دیا۔ چنانچہ بارہویں صدی ہجری کے اواخر کی تصنیفات تذکرۂ نکات الشعراء میر (ص۱) اور ذکر میر (۶۷) اور نوطرز مرصع مرقع رقم تحسین میں یہ نام یعنی ’’زبان اردوئے معلیٰ‘‘کی لغوی اضافت کے ساتھ استعمال پاتا ہے۔
تیرہویں صدی ہجری کے اوائل سے کثرت استعمال کے سبب یہ اضافت جاتی رہتی ہے اور خود زبان کا نام اردو 27 ہوجاتا ہے۔ تذکرہ مخزن الغرائب میں جو ۱۲۱۸ء کی تالیف ہے، مرزا مظہر جان جاناں کے حال میں ہے، درزبان ہندی کہ مرا د از اردو است خیلے فصیح وبلیغ بود۔ باغ و بہار وغیرہ فورٹ ولیم کالج کی تصنیفات میں یہ لفظ زبان کے معنوں میں عام طور سے بولا گیا ہے۔ ان حوالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اردو زبان کے نام کے طور پر آج سے صرف ڈیڑھ سو برس پہلے کی ایجاد ہے۔
دہلی کے اردوئے معلیٰ پر جب تباہی آئی تو گو دہلی کے علم وادب اور شعروسخن کا خزانہ لٹ گیا، مگر اس کا اتنا فائدہ ہوا کہ جب استعداد حصہ رسدی کے مطابق تمام صوبوں میں، جہاں چھوٹی چھوٹی نوابیاں قائم ہوگئی تھیں، بزرگوں کایہ اندوختہ سرمایہ بٹ گا، اہل علم دہلی سے نکل کر پہلی منزل لکھنؤ میں، دوسری عظیم آباد میں اور تیسری مرشد آباد بنگال میں کرتے تھے، اور آخر میں ایک اور منزل فورٹ ولیم کالج کلکتہ میں قائم ہوئی۔ بہت سے عزم وارادہ والے ایسے بھی تھے جو دکن وارکاٹ جاکر پناہ گزیں ہوئے اور اس طرح پورے ملک میں اردوئے معلیٰ کی زبان نے اشاعت پائی۔ عددشود سبب خیرگرخدا خواہد۔ یہ اس زبان کی مختصر تاریخ ہے جو آج ہماری ملکی اور قومی زبان ہے بلکہ جو آج اس پورے ملک کی واحد متحدہ زبان ہے۔
چونکہ مسلمانوں سے پہلے یہ ملک بہت سے حصوں میں بٹا ہوا تھا، جن کی الگ الگ راجدھانیاں تھیں، اس لئے ان میں نہ کوئی ایک متحدہ زبان تھی اور نہ کسی متحدہ قومیت کا وجود تھا اور نہ ایک متحدہ مملکت تھی۔ مسلمانوں نے آکر اس براعظم کو ایک علم کے نیچے ایک مرکز کے ماتحت ایک ملک بنایا جس کا نام پہلے ہند اور پھر ہندوستان رکھا اور ایک زبان پیدا کی، جس کا نام زبان ہند، لغت ہند، ہندوی ہندی، زبان ہندوستان اور ہندوستانی رکھا۔
ہندی لفظ
آج کل جس کو ہندی کہتے ہیں وہ پورب کی ایک صوبہ دار زبان ہے، جس کے لئے یہ کوشش کی جارہی ہے کہ یہ پور ے ملک کی زبان یا بولی ہو جائے، مگر حقیقت میں اس کا ایسا نام جس کی معنویت کے دائرے میں سارا ہندوستان داخل ہوجائے خود بدیسی ہے، پھر بھی اس کے لئے ایسا نام اختیار کرنا اس لیے مناسب ہے کہ اس سے سارے ملک کا خیال سامنے آتا ہے، ورنہ اگر اس کو برج بھاشا یا پوربی بھاشا کہہ دیا جائے تو یہ ملک کے ایک محدود جغرافی حصہ کے ساتھ خاص ہو جائے۔
اہل عرب یہاں کی قدیم زبانوں میں سے ہر ایک کو ہندی یا ہندیہ کہتے تھے۔ وہ سنسکرت، پالی، ہندی، ملتانی، گجراتی سب کو ہندی ہی کہتے تھے، چنانچہ بزرگ بن شہریار کی روایت کے مطابق ۲۷۰ھ۸۸۳ء میں جس زبان میں قرآن کا ترجمہ کیا گیاتھا اس کا نام مصنف نے ’’ہندیہ‘‘ بتایاہے۔ اَنْ یُفسِّرلہٗ شریعۃَ الاسلام بالہندیۃ (عجائب الہند ص۳۰۔) شریعت اسلام کا ہندی میں حال لکھے۔
ان یفسر لہ القرآن بالہندیہ (عجائب الہند ص۲۳۔) قرآن کا ہندی میں مطلب بیان کرے۔
اسی طرح الفہرست میں جو ۳۷۷ھ ۹۸۷ء کی تصنیف ہے، ہندوستان کی جس زبان سے عربی طب کی کتابیں ترجمہ ہوئیں، اس کے بیان میں ہندوستان کی زبان کا نام ہندی ہی رکھا گیا ہے۔ نقل من الہندی الی الفارسی (۴۲۱) ہندی سے فارسی میں نقل ہوا۔
اس لئے مسلمانوں نے اپنی حکومت کے بعد اس زبان کو، جس کو ہندوستان میں آکر انہوں نے اختیار کیا، ہندی کا نام بخشا۔ انتہایہ ہے کہ مولانا شاہ رفیع الدین صاحب دہلوی اور مولانا شاہ عبدالقادر صاحب دہلوی نے قرآن پاک کا جس زبان میں ترجمہ کیا اس کو بھی ہندی ہی فرمایا۔ اس سے یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ ہندی کی وسعت کہاں تک تھی اور اس میں ہندو اور مسلمان کاکوئی فرق نہ تھا، ایک ہی زبان تھی، جو پورے ملک میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک بولی اور سمجھی جاتی تھی۔
اردو اور ہندی کی تقسیم
لیکن انگریزوں نے دہلی کے اردو ئے معلیٰ کو اجاڑ کر جب کلکتہ کے فورٹ ولیم میں اپنا نیا’’اردوئے معلیٰ‘‘ بناکر کھڑا کیا تو ان کو اپنے ہم قوم عہدہ داروں اور تعلیمی اداروں کی خاطر ملکی زبان کی طرف بھی توجہ کرنی پڑی، مگر ساتھ ہی ساتھ ان کو یہ بھی معلوم تھا کہ ان کو ہندوستان میں حکومت کرنا ہے تو اس متحدہ قومیت کے درخت پر جو صدیوں کی لڑائیوں کے خون سے سینچ سینچ کر تیموریوں کے زیر سایہ تیار ہوئے تھے، پہلے کلہاڑی مارنا ضروری ہے۔ اس کے لئے ضرورت تھی کہ ہندو اور مسلمانوں کے امتیازات کے حدود کوجس قدر ممکن ہو، ابھارا جائے۔ چنانچہ فورٹ ولیم میں اردو اور ہندی کے نام سے دوشعبے قائم ہوئے، ایک کو مسلمانوں کے سرتھوپا اور دوسرے کو ہندوؤں کے سر مڑھا اور اس کا نام علمی قدردانی اور ادب نوازی رکھا اور دونوں زبانوں میں کتابیں لکھوا لکھوا کر لوگوں میں تقسیم کی گئیں، یہ ہے آغاز اس انجام کا جو آج اردو اور ہندی کے مہابھارت کی صورت میں ملک میں قائم ہے۔
شاید آج لوگوں کو وہ واقعہ بھی نہ یاد ہو جس کا تعلق عظیم الشان درس گاہ کے پہلے بانی سے ہے۔ ہندی اردو کا جھگڑا 1867 سے شروع ہوا ہے۔ اسی سال بنارس میں بعض سربرآوردہ ہندوؤں نے یہ کوشش شروع کی کہ تمام سرکاری عدالتوں میں سے اردو زبان اور فارسی خط موقوف ہوکر ہندی بھاشا اور دیو ناگری خط جاری ہو۔ سر سید اس وقت سے لے کر مرنے سے نو دن پہلے تک اس کے خلاف قلمی جہاد میں مصروف رہے، اور انہی کی مخالفت کا اثر تھا کہ ان کی ز ندگی تک یہ تجویز سرکاری طور سے منظور نہ ہو سکی۔ ان کی وفات کے چند سال بعد غالباً 1902 میں سر میکڈانل صاحب لیفٹننٹ گورنرصوبہ متحدہ نے اس صوبہ میں ہندی کو قانوناً ممتاز حیثیت بخشی، اور اردو ہندی کی ناگوار بحث کا وہ تخم اس سرزمین میں بویا جس کو اس سے پہلے وہ بہار میں بو چکے تھے۔ لکھنؤ کے گنگا پرشاد ورما لائبریری ہال میں سرسید کے جانشین اور اس درس گاہ کے سکریٹری نوب محسن الملک مرحوم کی صدارت میں اردو کے ماتم کے لیے ایک جلسہ منعقد ہوا جس میں مرحوم نے ایک دل گداز و مؤثر تقریر کے بعد اردو کے لیے یہ مصرع پڑھا تھا، عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔
اور یہی وہ فضا ہے جس میں انجمن ترقی اردو کی بنیاد پڑی اور ہندی بھی پنڈت مالوی کی کوششوں کی زیر سرپرستی روز بروز ترقی پانے لگی۔ ہندی اخبار و رسائل اور تصنیفات کا انتظام ہوا، اور پورے ملک میں اردو اور ہندی دو حریف کی حیثیت سے صف آرا ہوئیں اور اب تک ہیں۔ اور اب انہوں نے ہندو مسلمان دونوں کی دو الگ الگ زبانوں کی شکل اختیار کر لی ہے۔ جو حد درجہ افسوس ناک ہے۔
علی گڑھ تحریک کا حصہ اردو زبان کی ترقی میں، اس سے کس کو انکار ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کی زندگی میں نئی تحریک اور نئے تعلیمی و ادبی انقلاب کی آواز اس درسگاہ کی چہار دیواری سے اٹھی۔ ایک مولوی محمد حسین آزاد کو چھوڑ کر جو ایک مستقل ادبی ریاست کے بانی ہیں، باقی اردو کے تمام علم بردار اسی کی ہمہ گیر سلطنت سے وابستہ تھے۔ اردو زبان کو قصص وحکایات اور قصائد وغزلیات کے تنگ کوچہ سے علوم وفنون کی شاہراہ پر جولایا وہ سرسید مرحوم ہی تھے۔ اردوئے معلیٰ اور عود ہندی والے غالب کے بعد جس نے عروس اردو کو سادگی کا گہنا پہنا کر تکلفات لاطائل کی گرانباری سے آزاد کیا وہ اسی درسگاہ کا بانی اول تھا۔ سرسید مرحوم کی اردو کی پہلی تصنیف آثار الصنادید ۱۸۵۷ء کے ہنگامہ سے پہلے مسجع ومرصع عبارت میں لکھی گئی، مگر اس کا دوبارہ ایڈیشن صاف ورواں عبارت میں شائع ہوا۔
گویہ سچ ہے کہ مولانا شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے ساتھیوں نے سرسید کیا بلکہ غالبؔ سے بھی پہلے سادہ نگاری کا آغاز کیا، مگر وہ تحریک صرف مذہبی دائرہ میں سمٹ کررہ گئی۔ اسی طرح حیدرآبادمیں نواب شمس الامراء بہادر نے جدید علوم میں ستہ شمسیہ نام اردو رسالے تصنیف کئے، اور دہلی کالج کے ماسٹر رام چندر نے پولٹیکل اکانمی کے ترجمے کئے، مگر یہ افراد کی محدود کوششیں تھیں۔ سرسید نے ۱۸۶۳ء میں سائنٹفک سوسائٹی کے نام سے باقاعدہ ایک علمی انجمن اس غرض سے قائم کی کہ علوم وفنون کی نئی نئی کتابیں انگر یزی سے اردو میں ترجمہ کرکے شائع کی جائیں۔ آج جو مسلم یونیورسٹی پریس ہے اس کی بنیاد اول اسی سائنٹفک سوسائٹی کا پریس ہے جو پہلے سرسید کا ذاتی پریس تھا، اس سوسائٹی کی طرف سے چالیس کتابیں چھوٹی بڑی تاریخ اور سائنس کی چھپ کر شائع ہوئیں۔
سرسید نے اپنی کشش اتصال سے علم وادب کے ایسے متعدد ستاروں کو اپنے گرد جمع کر لیا تھا، جن میں سے ہر ایک بجائے خود ایک نظام شمسی تھا، مولانا الطاف حسین حالیؔ، مولانا نذیر احمد، مولانا شبلی، نواب محسن الملک، نواب وقار الملک اور بہت سے اہل قلم جمع ہو گئے، جنہوں نے اپنی کوششوں سے اس بولی کو زبان کا درجہ دے دیا اور ہر قسم کی ادا سے مطلب کا اہل بنادیا۔ علی گڑھ کی درس گاہ کو اس زبان کی ترقی کی تاریخ میں بہت سے اولیات حاصل ہیں۔
(۱) یہ پہلا ادارہ ہے جس نے سب سے پہلی دفعہ اس زبان کے لئے علمی وادبی ذخیرہ فراہم کیا۔
(۲) یہ پہلا ادارہ ہے جس کے احاطہ میں اس زبان کے مسلّم ومستند مصنف اور اہل قلم پیدا ہوئے۔
(۳) یہ پہلا ادارہ ہے جس نے سب سے پہلی دفعہ اس زبان کے معیاری ذخیرہ کو اہل نظر اور شائقین کے لئے فراہم کیا، ’’علی گڑھ کالج بک ڈپو‘‘ آج سے تیس برس پہلے اس زبان کا واحد ذخیرہ گاہ تھا، جہاں سے کم از کم ایک ہزار ماہوار کی کتابیں فروخت ہوتی تھیں۔
(۴) اور سب سے آخر یہ ہے کہ یہ پہلا ادارہ ہے جس نے دہلی اور لکھنؤ، اہل زبان اور زبان داں اور شہری اور قصباتی کی دیرینہ جنگ کاخاتمہ کیا، اور جس طرح زبان خود ایک مشترکہ زبان کی حقیقت کی مدعی ہے، اسی طرح علی گڑھ نے اس کو مشترکہ ہندوستان کی ادبیت کا خزینہ دار بنا دیا، اور دہلی کے پرانے پیدائشی دعوؤں کو مٹا کر اہلیت واستعداد کی شرط کے مطابق حقیقی فضل وکمال کو زبان دانی کا معیار قرار دیا، اور ادبیات کی ایک آزاد ہندوستانی حکومت قائم کی، جس میں ہر صوبہ کے ہر شہر کے اہل قلم اور اہل علم برابر کے شریک ٹھہرے۔ سرسید دلّی کے تھے، محسن الملک اٹاوہ کے، مولانا حالیؔ پانی پت کے، مولانا نذیر احمد بجنور کے، مولانا شبلی اعظم گڑھ کے، مگر ان سب کی تصنیفات نے مل کر اس زبان کا ایک متحدہ معیار مقرر کر دیا۔
سرسید مرحوم نے جس دن مولانا شبلی کی المامون پر یہ فقرے لکھے، ’’یہ کتاب اردو زبان میں لکھی گئی ہے اورایسی صاف وشستہ اور برجستہ عبارت ہے کہ دلّی والوں کو بھی اس پر رشک آتا ہوگا۔‘‘ (دیباچہ طبع دوم المامون) تودرحقیقت انہوں نے اس وقت اس زبان کو لکھنؤ اور دہلی کی گرفت سے آزاد ی کا خط فرمان لکھا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر شہر و دیار کے اہل قلم کو زبان کھولنے کی جرأت اور اپنی اپنی بساط کے مطابق عرض متاع کی ہمت ہوئی، اور کچھ ہی دنوں میں اس زبان کا خزانہ ہر قسم کے قیمتی سامانوں اور ذخیروں سے مالا مال ہونے لگا۔
موانع کے باوجود اردو کی ترقی
اس انقلاب نے ملک میں علوم وفنون اور سنجیدہ علوم کی تصانیف کا روز افزوں ذخیرہ فراہم کر دیا اور وہ زبان جو پہلے صرف چند دیوانوں اور کہانیوں کی مالک تھی وہ ہر قسم کے علم وہنر سے معمور ہوتی جاتی ہے، اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے، اس میں حکومت و سلطنت کی ذرا بھی مدد شریک نہیں ہے، بلکہ لوکل سیلف گورنمنٹ کی تعلیمات کا جہاں تک تعلق ہے، اردو کو اپنی اشاعت میں ایک انگلی کا اشارہ بھی نہیں مل رہا ہے۔ حالانکہ ہم کو معلوم ہے کہ ہندی پرچارنی سبھا نہ صرف اس صوبہ کی گورنمنٹ کی مالی امداد سے بارہا مستفید ہوئی ہے بلکہ ڈسٹرکٹ بورڈوں اور میونسپلٹیوں کے تعلیمی نصابوں کے وسیع سلسلہ کے ذریعہ ہندی دیہاتی اور شہری رقبوں پر روز بروز قبضہ کرتی چلی جاتی ہے۔
شاید یہ بیان تعجب سے سنا جائے کہ ہندو پبلشروں اور کتابوں کے انتخاب کی کمیٹیوں میں ہندو ممبروں کی کثرت کے سبب نصاب میں کسی ایسی کتاب کا داخل ہونا اور چلنا ممکن نہیں جس کی اردو ہندی نہ ہو۔ یہ واقعات شکایت کے طور پر نہیں کہے جا رہے ہیں بلکہ یہ کہنا ہے کہ باوجود اس کے کہ ہماری زبان کو گورنمنٹ اور گورنمنٹ کے کسی ادارہ سے کسی قسم کی امداد نہیں مل رہی ہے، پھر بھی اس کی ترقی جاری ہے۔
اردو ایک اور امداد سے بھی قدرتاً محروم ہے۔ اس بات کی پرزور کوشش کی جا رہی ہے کہ آیندہ ہندی قومیت کی مشترکہ قومی زبان ہندی ہو جائے۔ اس خواہش کی تکمیل میں کانگریس سے لےکر ناگری پرچارنی سبھا تک یکساں شریک ہیں۔ کانگریس اور دوسرے پولیٹیکل جلسوں میں گو ہندو اور مسلمان دونوں شریک ہوں، ہندو نوجوان اپنی تقریر ایسی زبان میں کریں گے جن کو جلسہ کے نصف حاضرین سمجھ نہیں سکتے۔ اکثر ایسی تجویزوں کی تائیدوں کی عزت مسلمانوں کو حاصل کرنی پڑی اور کرنی پڑتی ہے جن کی ہندی پرستاؤ کا اردو ترجمہ اردو میں کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسری بات ایک اور چل گئی ہے کہ اردو نے جن ہندی لفظوں کو اپنے قالب میں ڈھال کر اپنے کینڈے کا بنا لیا ہے، کوشش کی جا رہی ہے کہ اب ان کو اصل ہندی تلفظ کے مطابق ادا کیا جائے۔
دوسری طرف ہندو ریاستوں نے ایک ایک کرکے ہندی کو اپنی سرکاری زبان بنانا شروع کر دیا ہے۔ گجراتی والی ریاست بڑودہ اور اردو والی ریاست الور سے لے کرمارواڑ، کشمیر اور راجپوتانہ تک یہ تحریک عام ہو رہی ہے۔ ان سب کے جواب میں ہمارے پاس صرف ایک چیز ہے، وہ سرکار نظام خلداللہ ملکہ، لیکن میری پیشن گوئی یہ ہے کہ ان سب حالات کے باوجود ہندوستان کا مستقبل اردو کے ہاتھ میں ہے، ہندوستان میں جب تک مختلف قومیں باقی ہیں اور بیرونی دنیا سے اس کے تعلقات قائم ہیں، اس میں ایک ایسی زبان کا وجود، جیسی کہ اردو ہے، ناگزیر ہے۔
ہندوستان کو اگر ایشیا کے دوسرے ملکوں کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے ہیں، تو اس کو اپنی جس زبان کے ذریعہ ان تعلقات کا رشتہ مضبوط کرنا ہوگا، وہ اردو ہے، اس کی ایک سمت میں کابل وبلوچستان سے لے کر بغداد تک فارسی حکمراں ہے، اور دوسری طرف سواحل عرب وافریقہ سے جبرالٹر تک عربی پھیلی ہے۔ ان تمام بیرونی قوموں کے لئے ہندوستان کی جس زبان کا سیکھنا نہایت آسان ہے وہ اردو ہے۔ یہی سبب ہے کہ یہ زبان ان تمام ملکوں اور جزیروں میں آسانی کے ساتھ پھیل گئی ہے، جہاں ہندوستانیوں کی آمدورفت ہے۔ برما، آسام، سیلون، (اب شری لنکا)، مالدیپ، انڈمان، ماریشس، سنگاپور، بورٹ بلیر اور افریقہ کے ان مختلف ملکوں میں جہاں جاکر ہندوستانی بسے ہیں، اس زبان کو اپنے سینے سے لگا کر ساتھ لے گئے ہیں، ادھر سواحل عرب میں عدن، جدہ، بلکہ مکہ معظمہ تک اس زبان میں بات چیت ہوتی ہے۔
انتہا یہ ہے کہ پورٹ سعید کے ملاحوں اور مصر کے بازاروں تک میں اس کے بولنے والے ملے ہیں۔ کیا اس پر آپ کو حیرت نہ ہوگی کہ قسطنطنیہ میں اردو سیرۃ النبی اور سیرت عائشہ وغیرہ کے ترجمے براہ راست ترکی میں ہوئے ہیں، مکہ معظمہ میں میری ملاقات ماسکو کے ایک عالم موسیٰ جاراللہ سے ہوئی جو اردو تصنیف ’’ارض القرآن‘‘کو ہندوستانیوں سے پڑھتے تھے، ادھر عربی درس گاہوں اور مسافروں اور تاجروں کے ذریعہ یہ زبان یاغستان، افغانستان، بخارا بلکہ چینی کا شغر تک اپنا سلسلہ ملا چکی ہے۔ ہندوستان کے پورے طول وعرض میں جہاں بھی مسلمان آباد ہیں، خواہ ان کی مادری زبان کچھ ہو، اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے اور ان صوبوں میں اردو کی تعلیم کے مکتب اور اسکول قائم ہیں، اس لیے جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، یہ زبان اب تک ملک کی واحد مشترکہ زبان ہے۔
ہندوستان کی اس زبان نے یہاں تک وسعت پائی ہے کہ یورپ کی یونیورسٹیوں اور لائبریریوں میں اس نے اپنی جگہ حاصل کرلی ہے، کیا ہمارے لئے یہ فخر کی بات نہیں ہے۔ ہماری زبان سے انگریزی، فرانسیسی، ترک اور فارسی میں اردوتصانیف کے ترجمے ہورہے ہیں، چند ہفتے ہوئے کہ پولسٹڈم واقع جرمنی سے میرے پاس ٹوٹی پھوٹی اردو میں ایک جرمن ڈاکٹر کاخط موصول ہوا۔
ہندی کی اشاعت اردو کے لئے مفید بھی ہے
ہندوستان کے ان صوبوں میں جہاں ہندوؤں میں اردو بہت کم رائج ہے، جیسے مدراس اور بنگال، اگر وہاں ہندی کارواج دوسری زبان کی حیثیت سے ہوجائے تو میرے خیال میں یہ بھی ہندوستان کے لئے نہایت مفید ہے، اول یہ کہ کم از کم ایک زبا ن تو ہندوستان کے منہ میں ہوگی، دوسرے یہ کہ ہندی اردو کا ایک درمیانی زینہ ہے۔ مجھے ایک دفعہ مدراس جانے کا اتفاق ہوا، ریل میں ایک مدراسی ہندو بزرگ کے سوا کوئی رفیق نہ تھا، وہ ناگری پر چارنی سبھا کی مدراسی شاخ کے ذریعہ ہندی سیکھ رہے تھے۔ اتنے سہارے پر یہ ممکن ہوسکا کہ ہم انگریزی کی مدد لئے بغیر ایک دوسرے کی بات کچھ سمجھ سکیں۔
انسان جانوروں کو تو لگام لگاکر اپنا تابع دار بناتے ہیں، لیکن جب ایک انسانی قوم دوسری انسانی قوم کو اپنا تابع دار بناتی ہے، تو گو اس کے منہ میں لوہے کی لگام نہیں لگاتی تاہم اس کے منہ میں ایک لگام لگادیتی ہے جس کا نام ’’بدیسی زبان‘‘ہے۔ انسان کے تمام اعمال اس کے خیالات کے ماتحت ہیں، خیالات کی روح الفاظ کے جسم میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ الفاظ زبان کا دوسرا نام ہے، اس لئے کسی دوسری قوم کی زبان کے معنی اس قوم کا تمدن تاریخ، مذہب، جذبات ہر چیز ہیں۔
آپ جب انگریزی پڑھتے ہیں، یا انگریزی بولتے ہیں تو نادانستہ طور سے آپ کے جسم وجان او رارادہ وروح انگریز کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ زبان کے الفاظ، محاورات ضرب الامثال، استعارات ہر چیز اس زبان کی قومیت کی جیتی جاگتی تاریخ ہوتی ہے، اور یہ تاریخ اس قوم کی زندگی کی بجلیوں کا خزانہ ہوتی ہے۔ جب آپ انگریزی بول رہے ہوتے ہیں، غور کیجئے گا کہ اس وقت آپ اپنے اندر انگریزی تاریخ، انگریزی جذبات، انگریزی احساسات، انگریزی خیالات کاسرتاپا مجسمہ بن جاتے ہیں، اور خود اپنی تاریخ، اپنے قومی جذبات، اپنے مذہبی احساسات، اپنے ادبی خیالات سے یکسر عاری ہو جاتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ اس زبان کے آداب ومعاشرت، طرز تمدن، لباس وپوشاک، لب ولہجہ پر چیز میں اس بدیسی قوم کی نقالی کرنی پڑتی ہے۔ ا ب ایسی قوم جو قلباً و قالباً روح وجسم، ظاہر اور باطن دونوں میں دوسری قوم کی نقالی کر رہی ہے، خود اپنی قومیت کا وجود اس کے اندر کہاں رہا۔ اب وہ ایسے افراد بن گئے ہیں جو اپنی قومیت کے عناصر کو توفناکرچکے ہیں مگر دوسری قوم، جس کی وہ نقالی کررہے ہیں وہ اپنے اندر شمار کرنے سے رہی، اس لئے ان کی حیثیت’’معزز اچھوت‘‘سے بڑھ کر نہیں۔
اس مقالے سے اقتباسات جو ۱۹۲۳ء میں انجمن اردوئے معلی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں پڑھا گیا۔
(۱) عجائب الہند بزرگ بن شہر یار ص۳ پیریس
(۲) مروج الذہب مسعودی جلد اوّل ص۱۶۲ پیریس
(۳) ایضاً ص ۳۸۱
(۴) کتاب الفہرست مصر ص۲۴
(۵) اس کی تفصیلات بابر کی تزک میں ملیں گی۔
(۶) اب ہمارے فاضل دوست ڈاکٹر سید عبداللہ صاحب نے اورینٹل کالج میگزین مئی ۱۹۴۳ء میں قدیم عربی تصانیف میں ہندوستانی الفاظ پر مضمون شائع کیا ہے۔
(۷) علاوہ تاریخوں کے دیکھو قاموس نامہ ’’بندہ خریدن‘‘
(۸) کلیات سنائی بمبئی ص۹۶
(۹) بحوالہ پنجاب میں اردو ص۹۶
(۱۰) لفظ میدہ فارسی لغات میں گو ملتا ہے (موید الفضلاء) مگر خیال ہوتا ہے کہ یہ ہندی ہے، کیونکہ یہاں شاعر نے آب اور پانی کو جس طرح بالمقابل استعمال کیا ہے ویسے ہی نان اور میدہ کو بالمقابل شاید رکھا ہے بطور لف ونشر غیر مرتب۔
(۱۱) دیکھو تاریخ فیروز شاہی۔
(۱۲) سیرالاولیاءبحوالۂ پنجاب
(۱۳) تاریخ اردوئے قدیم بحوالہ سیر الاولیاء ص۳
(۱۴) ایضاً بحوالہ ٔجواہر فریدی ص۲۰۸
(۱۵) پنجاب میں اردو بحوالہ جواہر فریدی
(۱۶) سیر الاولیاء ص۳۶۳
(۱۷) فوائد الفوائد ص۸۶، یہ شعر حکیم سنائی کی حدیقہ (ص۵۶۸) لکھنؤ میں بھی ہے۔
(۱۸) پنجاب میں اردو بحوالہ جواہر فریدی۔
(۱۹) تاریخ فرشتہ ۲ص۴۰۰ نول کشور۔
(۲۰) تاریخ اردوئے قدیم نول کشورص۲۳ بحوالہ عشق نامہ عبداللہ بن عبدالرحمن چشتی۔
(۲۱) خاتمہ غرق الکمال امیر خسرو قلمی درالمصنفین۔
(۲۲) اس شعر کو میں پوری طرح سمجھ نہیں سکا۔
(۲۳) نومبر ۱۹۲۹ء کے اورینٹل کالج میگزین میں امیر خسرو کی محتلف تصانیف سے ہندوستانی الفاظ تلاش کرکے لکھے گئے ہیں۔
(۲۴) ان اشعار کو آزاد نے آب حیات میں امیر خسرو کی طرف منسوب کیا ہے۔
(۲۵) لطائف اشرفی ص۳۸۴، نصرت المطابع دہلی۔
(۲۶) ایضاً ص۳۹۶۔
(۲۷) تاریخ اردوئے قدیم حکیم سید شمس الدین قادری نقلاً از زادالمتقین الی طریق سلوک الیقین شیح عبدالحق دہلوی۔
(۲۸) برہان پور اب سی پی میں ہے۔
(۲۹) اخبار الاخیار ص۲۴۹ طبع ہاشمی میرٹھ۔
(۳۰) مزید تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ اضافت کے بغیر یہ اردو نام بارہویں صدی ہجری کے اخیر ہی سے استعمال میں آ گی اتھا، پروفیسر شیرانی نے اس کے ثبوت میں مصحفی کا یہ شعر پیش کیا ہے،
خدا رکھے زباں ہم نے سنی ہے میر مرزا کی
کہیں کس منہ سے ہم اے مصحفی اردو ہماری ہے
خدا رکھے سے ظاہر ہے کہ اس وقت میر ومرزا زندہ تھے، اس لیے یہ شعر مصحفی نے ۱۱۹۵ء سے پہلے کہا ہوگا۔ خواجہ میر درد کی شاگردی کے مدعی محشر کا بھی ایک شعر لکھا ہے،
گفتگو اردو زبان کی کوئی ہم سے سیکھ جائے
کیا ہوا دہلی میں محشرؔ اپنی پیدائش نہیں
(اورینٹل کالج میگزین مئی ۱۹۴۱ء ص۳۴ وحاشیہ ص۶۲)
محشتر ۱۲۰۸ء میں مارے گئے ہیں۔ (تذکرۂ ہندی مصحفی ص۲۴۴) محصفی نے اپنے اس تذکرہ میں بھی جو مخزن الغرائب کے بعد ۱۲۲۱ء۔ ۱۲۳۶ء کی تالیف ہے۔ نثار کے حال میں (ص۲۵۵) زبان اردو لکھا ہے، مگر اس وقت یہ نام عام ہو چکا تھا۔
’’ختم مصحف‘‘ اس کی تاریخ ہے، جیسا کہ مصنف نے خاتمہ میں لکھا جس سے ۱۲۱۸ء نکلتا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.