ہندوستانی ادب کا تشکیل کار ماہنامہ ’نیا دور‘
کم و بیش دو دہائی سے اپنے معیار سے قطعاً سمجھوتہ نہ کرتے ہوئے ایک خالص ادبی رسالہ سہ ماہی’اردو‘ کی ادارت کے فرائض سرانجام دیتے ہوئے میں عملی طور پر بھی اس رمز سے آشنا ہوگیا ہوں کہ کسی بھی زبان و ملک کے ادب کی تشکیل میں اس زبان کے رسائل کس درجہ اہم اور غایت مقام رکھتے ہیں۔ماہنامہ’نیا دور‘ لکھنٔوان معدودے چند بے حداہم جرائد میں سے ایک ہے جس نے تغیر پذیر ہندوستانی ادب کی تشکیل میں نمایاں کردار نبھایا ہے۔یا یوں کہوں کہ ہندوستانی ادبی ذہنوں کی تشکیل کی ہے۔
’نیادور‘ کے اجراء اپریل ۱۹۵۵ اور سماجی و ادبی متعلقات کے ذیل میں عرض کروں کہ ملک کی آزادی اور اس آزادی کا جشن، ساتھ ہی تقسیم اور سانحاتِ تقسیم کا کرب،جمہوریت کا تحفہ لیکن اس کے پسِ پردہ اردو اور اردو والوں کے لیے شبہات کی فضاء۔ یہ تو ہوا سماجی منظر نامہ، ادب بھی اس سے اچھوتا کیوں کر رہ سکتا تھا لہٰذا اس سے کچھ سال پہلے ترقی پسندادب کی ملک میں آمد۔ ترقی پسندیوں کے آرگن رسالہ ’شاہراہ‘ کے علاوہ بھی ملک کے بہتیرے رسالے کسی نہ کسی حوالے سے ترقی پسند ادب کی اشاعت پر مجبور تھے۔ اس ضمن میں محی الدین قادری زور فرماتے ہیں،
’’۱۹۴۰ کے بعد ایک نیا دور شروع ہو چکا ہے۔جس کو اگرچہ ہم میں سے بعض پہلے پہلے نا پسند کرتے رہے لیکن اب پسند نا پسند کا زمانہ نہیں رہا تھا۔مجبوراً زہر کے گھونٹ بعض وقت گوارا کرنے پڑتے ہیں،اور کیا تعجب کہ بعض نیم مردہ جسموں کے لیے یہ زہر ہی تریاق کا کام کرجائے۔جب چور مارکیٹ بند ہوجائے تو مجبوراً سب کو لال چاول ہی کھانے پڑتے ہیں۔اور اس تبدیلی سے پرانے پرانے روگیوں کو بعض وقت فائدہ ہی پہنچ سکتا ہے۔یوں تو اس عہد کے اکثر و بیشتر رسائل کا رنگ بدلتا رہا ہے، اور ادب برائے زندگی کے نظریہ کی طرف میلان ترقی پسند پذیر رہا،لیکن خصوصیت کے ساتھ نیا ادب، آجکل، نیا دور، ادبِ لطیف، ساقی،منزل اور ایشیا بدلتے ہوئے رجحانات کی علمبردادی کرتے رہے۔اور چونکہ یہ رنگ ابھی پختہ نہیں ہوا ہے اسی لیے بعض دفعہ رسالوں میں ترقی پسندی کے بہانے سے ایسی نظمیں ،افسانے اور مضامین بھی شائع ہوتے ہیں جو ترقی پسندوں کے مسلک کو نقصان پہنچاتے رہے اور قدامت پسندوں کے جذبات اور احساسِ شائستگی کو ٹھیس لگتی رہی۔ جو رسالے اپنی قدیم روش پر قائم ہیں ان میں سے بعض ایسے ہیں جو خاص خاص طبقوں اور گرہوں کے مفاد کو پیشِ نظر رکھ کر کافی سے زیادہ بدنام ہوچکے ہیں، وہ اپنے ہی صوبے یا جتھے کے ادیبوں کے نام اور کاموں کا چمکانے میں منہمک رہے۔ اور دوسروں کے بہتر کارنامے ان کے رسالے کے چشمے میں انہیں حقیر ہی نظر آئے۔ یہ ایک مضر رجحان تھا جو گزشتہ دس پندرہ سالوں میں رونما ہوا اور اسی رجحان نے اردو کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔‘‘(’اردو کے علمی و ادبی رسائل‘مضمون از محی الدین قادری زور، مشمولہ رسالہ ’آجکل‘ دہلی،شمارہ بابت سالنامہ اگست ۱۹۵۰ صفحہ نمبر ۱۵)
غرض کہ ’نیا دور‘کی آمد بجائے خود ایک نئے ادبی دور کی آمد رہی۔لکھنٔو یونیورسٹی سے فارغ ادیبِ با کمال جناب علی جواد زیدی نے ’نیا دور‘ کی ادارت سنبھالی۔گرچہ اس پرچہ کا باضابطہ اولین شمارہ اپریل ؍۱۹۵۵ میں نکلا تاہم زیدی کی ہی ادارت میں یہی پرچہ ’اطلاعات‘ کے نام سے ۱۹۴۷ سے چلا آرہا تھا۔اپنے نقشِ اول سے ہی ’نیا دور‘ملک کی بنتی بگڑتی علمی و ادبی تصویر کے خدوخال کو سنوارنے کا فریضہ سرانجام دیتا آیا ہے۔زیدی اولین شمارے کے اداریے میں رقم طراز ہیں،
’’’نیا دور‘ کی اشاعت کا مقصد صالح اور صحت مند ادب پیش کرنا ہے۔آجکل ہمارے ادیبوں اور شاعروں پر ایک جمود سا چھایا ہوا ہے۔تخلیق و تصنیف کے جذبے ایک قنوطیت اور یاس کی فضا میں تھک کر آرام کر رہے ہیںیا پھر اپنے وجود کو اپنا ہی نشانہ بنانے کی کوشش میں علم و ادب کے لیے جیتا جاگتا طنز بن گئے ہیں۔آجکل تعمیر و تزئین کی عظیم الشان مہم ملک کی توجہات کا مرکز بنی ہوئی ہے۔کوئی باخبر ادیب اس نئی بیداری اور نوجوان ارادوں کی دنیا سے آنکھیں موڑنہیں سکتا۔اگر ادب ملکی زندگی کا آئینہ دار اور سماجی حقائق کا عکاس ہے تو اسے اس تعمیری مہم میں حصہ لینا ہی ہوگا۔عوام کے دلوں میں جذبہء تعمیر و ترقی بیدار کرنا،ایک نئے مستقبل کی تشکیل کا ولولہ پیدا کرنا،آرام پسندی اور کاہلی کے خلاف جنگ لرٹا،سماجی فلاح و بہبود کے منصوبوں میں شرکتِ عام کی دعوت دینا،یہی ہمارے ادیب کا فریضہ ہے۔اور ہمارا فرض ہے کہ ادیب اور اس کے ماحول میں ہمواری پیدا کریں۔’نیا دور‘ کے ذریعہ اگر ہم اس فرض کو ادا کرسکیں توہم سمجھیں گے ہماری سعی مشکور ہے۔‘‘(اداریہ از علی جواد زیدی،رسالہ ’نیا دور‘،شمارہ بابت اگست ۱۹۵۵ صفحہ نمبر ۵)
خود زیدی چونکہ کمیونسٹ پارٹی کے باضابطہ رکن رہے،بہ ایں ہمہ کوئی عجب نہ تھا کہ جزوی طور پر ہی سہی،’نیا دور‘ ابتداء میں ترقی پسند ادب کو جگہ دیتا رہا۔دھیرے دھیرے جدیدیت نے اپنا مقام بنانا شروع کیا۔ترقی پسندی اور جدیدیت کے پلیٹ فارم پر نئے ہندوستان کی تصویر کشی شعراء اور ادباء کا نصب العین گردانا گیا۔اس نئے اور پرانے کی فکری اورفطری مخامصمت میں ہر رسالہ روبہ کار دیکھا گیا۔جب یہ قدیم و جدید،ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کے بادل چھٹے تو ہندوستانی دانشور فرد کو مکمل اکائی تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے، اور یہیں سے ایک نئے ادب کی بناء پڑتی ہے۔ بقول حفیظ میرٹھی،
اُف یہ جادہ کہ جسے دیکھ کے جی ڈرتا ہے
کیا مسافر تھے جو اس راہ گزر سے گزرے
کیفی اعظمی کے دوسرے شعری مجموعہ’آخرِ شب‘ کے پیش لفظ میں ایلیا اہرن برگ کے سنہری الفاظ درج کیے گئے ہیں۔
’’ایک ادیب کے لیے یہی ضروری نہیں کہ وہ ایسے ادب کی تخلیق کرے جو مستقبل کی صدیوں کے لیے ہو۔اسے ایسے ادب کی تخلیق پر بھی قدرت ہونی چاہیے جو صرف ایک لمحے کے لیے ہو،اگر اس ایک لمحے میں اس کی قوم کی قسمت کا فیصلہ ہونے والا ہو۔‘‘(’آخرِ شب‘ از کیفی اعظمی،مطبوعہ کتب پبلشرز لمیٹیڈ،بمبئی ،طبع اول، مئی ۱۹۴۷، صفحہ نمبر ۵)
اس ضمن میں آپ غور فرمائیں کہ رسالہ ’نیا دور‘ اپنے اوائل سے ہی ہندوستانی ذہنوں کی آبیاری کرتا رہا ہے۔’نیا دور‘ کے ابتدائی چند سالوں میں سماجی متعلقات کا مطالعہ اس لیے بھی ضروری قرار پاتا ہے کہ بجائے خود رسالے کے اولین مدیر علی جواد زیدی کمیونسٹ پارٹی کے رجسٹرڈ ممبر رہے۔اور پارٹی کا یہ عالم کہ پارٹی مینوفیسٹو کے علاوہ کچھ نہ لکھا جائے اور نہ کچھ کہا جائے۔ معاشقہ بھی پارٹی لائن سے، مخاصمہ بھی پارٹی لائن سے۔جس کی ایک عمدہ مثال پیش کروں کہ مشہور سینئر ترقی پسند شاعر سلام مچھلی شہری کی نظم ’شرائط‘ ملاحظہ فرمائیں جب سلام کی شادی ہونے والی تھی، اس نظم میں دلہن کے لیے بعض بے حد سنگین شرائط رکھی گئیں،
بجا کہ کھیل رہا ہوں شباب سے اپنے
بجا کہ دن مری شادی کے بھی ہیں آئے ہوئے
خطا معاف کہ جچتی نہیں نگاہوں میں
یہ دیویاں پسِ چلمن نظر جھکائے ہوئے
مجھے تو ہمدم و ہمراز چاہیے ایسی
جو دستِ ناز میں خنجر بھی ہو چھپائے ہوئے
حسین جسم کو سونے کے زیوروں کے عیوض
سنان و خنجر و پیکاں سے ہو سجائے ہوئے
(اب آپ اسے حسن ِ اتفاق پر ہی محمول فرمائیں کہ علی جواد زیدی کی شادی کی متعینہ تاریخ کے ایک ہفتہ قبل کمیونسٹ پارٹی کے ممبرشپ کے عتاب میں انگریز حکومت نے انہیں گرفتار کرلیا تھا اورچھ ماہ کی قید سنائی۔جس کی پاداش میں لبِ واقعہ شادی جس لڑکی سے طئے پائی تھی، وہ نہ ہو سکی۔اس واقعہ سے متاثر ہوکر زیدی نے اپنی مشہور ِ زمانہ نظم ’تم ساتھ کہاں تک جائوگی‘ کہی تھی۔)
میں اپنے رسالہ‘اردو‘ کے اداریوں میں متعدد مرتبہ یہ عرض کرچکا ہوں کہ کسی بھی کامیاب اور عمدہ رسالہ کی یہی شناخت ہونی چاہیے کہ وہ اپنے حلقہء قارئین کی ذہنی نشوو نماکرے۔وہ رسالہ ہی کیا جوڈاک سے آئی ہوئی تخلیقات کے اکھٹا کرنے کا نام ہو کر رہ جائے اور بس۔ایک اچھے او رمفید رسالہ اور اس کے ذمے دارمدیر کا یہ ادبی فریضہ ہے کہ وہ اپنے لکھنے والوں کے مزاج کی تشکیل کرے۔ان کے لیے ایک نئی اور افادی فضاء قائم کرے۔لکھنے اور پڑھنے والوں کی ادبی تربیت کا کارنامہ سر انجام دے۔
’نیا دور‘ کے معاصر تمام پرچہ جات آپ دیکھ لیں۔ان میں مجلہ کے مزاج کی تخلیقات ہی شامل ہوتی تھیں۔مثلاً شاہد احمد دہلوی کی ہمیشہ پھڑکنے کے لیے بے تاب رگِ شرارت اور ان کا پرچہ’ساقی‘ آئے دن کسی نہ کسی تنازعے پر دعوتِ کلام لیے حاضر کہ ’صلائے عام ہے یارانِ نکتہ ’چیں‘ کے لیے‘۔نیازؔ فتح پوری کا رسالہ’نگار‘ اپنے ایک خاص علمی اور قدرے دقیق عقدے وا کرنے میں ماہر۔ادارت سے ماسوا فیصلہ کن تنقیدی شذرات سے لبریز۔اپنے ننھے ننھے لکھاریوں اور ان کی تخلیقات کو ٹھیک ویسے ہی لے کر بیٹھتے تھے جیسے گزرے وقتوں میں دادیاں اپنے پوتوں پوتیوں کو سرِ شام الف ب کی تختی پڑھاتی تھیں۔ان کے علاوہ یہاں کئی اور اہم مجلہ جات کا ذکر کیا جاسکتا ہے جن میں شاعر (سیماب اکبر آبادی)،آجکل (جوش ملیح آبادی)،ادبِ لطیف (میرزا ادیب)،اردو (مولوی عبدالحق)،نقوش (طفیل احمد) وغیرہم۔ تاہم یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں۔ٹھیک اسی طرز پر ’نیا دور‘ نے بھی نقشِ اول سے اپنا ایک خاص مزاج قائم کیا اور نئے پرانے قلم کاروں کے باہمی امتزاج سے اپنے دلکش انداز کی صورت گری کی۔
اس نئے دور میں جہاں ایک طرف نئے ذہنوں کے لیے کشادہ راستے ہموار ہورہے تھے وہیں قدیم طرزِ فکرکے حاملان بھی اس نئی آمد کی دستک کو محسوس کر رہے تھے۔اس کشاکشِ پیہم میں ہندوستانی ابھرتے ادب کی آبیاری اور سمت کا تعین نہایت ضروری ٹھہرتا رہا،لہٰذا بلاشبہ اس فریضہ کے لیے ملک کے رسائل نے اہم کردار نبھایا، جن میں ماہنامہ ’نیا دور‘ بھی سرِ فہرست رہا۔ یہ ہر دور کی سچائی رہی ہے کہ بقول خواجہ حافظؔ شیرازی،
دریں چمن کہ بہار و خزاں ہم آغوش ست
زمانہ جام بدست و جنازہ بردوش ست
(زمانہ ہاتھوں میں جام اور کاندھے پر جنازہ لیے چلتا ہے)
زمانہ کی اسی نیرنگی سے دست و بازو کرتے ہوئے ’نیا دور‘ کے اولین مدیر علی جواد زیدی نے اپنی تخلیقی قوتوں کا ثبوت جنوری ۱۹۵۷ میں شائع خاص نمبر’تعمیری ادب نمبر‘ کی صورت میں پیش کیا۔اس اہم نمبر میں زیدی کے پرمغز اداریہ کے علاوہ ملک کے نامور لکھاریوں کے رشحاتِ قلم نے خوب جادو جگایا۔ اس نمبر کے توسط سے ’نیا دور‘ کی جولانیاں ملک بھر میں تسلیم کی گئیں۔
جناب اطہر مسعود (رامپور)نے ’نیا دور کا اشاریہ‘ اس موضوع پر ۲۰۰۴ میں روہیل کھنڈ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ،اور ہم جیسے شائقینِ ’نیا دور‘ پر بڑا احسان کیا۔متذکرہ مقالہ سے ’نیا دور‘کے متعلق کئی بے حد اہم اور قیمتی اشاریاتی اور توضیحی معلومات مل جاتی ہے۔’نیا دور‘ اپنی اولین اشاعت سے قبل ’اطلاعات‘ کے نام سے ۱۹۴۶ میں علی جواد زیدی کی ادارت میں شائع ہو ا کرتا تھا۔آزادی کے فوراً بعد اگست ۱۹۴۷ میں ’آزادی نمبر‘ اس موضوع پر دعوتِ فکر دینے والا اہم نمبر ثابت ہوا۔
یہی مجلہ ’اطلاعات‘ اپریل ۱۹۵۵ سے ’نیا دور‘ کی شکل میں اسمِ با مسمٰی ہو کر منظرِ عام پر آیا۔روزِ اول سے اب تک ’نیادور‘ کے عمومی شماروں کے علاوہ کم و بیش ایک سو نو خاص نمبرات اور چھبیس خصوصی گوشوں نے ہندوستانی ادب میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔ان میں علی الخصوص تعمیری ادب نمبر،بہادر شاہ ظفر نمبر،اودھ نمبر،نصف صدی نمبر،یاد ِ رفتگاں نمبر،افسانہ نمبر،اطفال نمبر،اسپیشل نمبر،آزادی نمبر،جمہوریت نمبر، غالب نمبر، فراق نمبر، اثر لکھنوی نمبر، انیس نمبر، احتشام حسین نمبر،مسعود حسن رضوی ادیب نمبر،امیر خسرو نمبر، عبدالماجد دریابادی نمبر،شکیل بدایونی نمبر، خمار بارہ بنکوی نمبر،والی آسی نمبر، میر تقی میر نمبر، قرۃ العین حیدر نمبر، عرفان صدیقی نمبر،رشید حسن خاں نمبر،نہرو نمبر،شاستری نمبر، گاندھی نمبر،محمد علی جوہر نمبر،منشی نول کشور نمبر،صباح الدین نمبر اور علی جواد زیدی نمبر شامل ہیں۔
اس نکتہ پر دو رائے نہیں ہوسکتی کہ لاریب ’نیا دور‘ نے ہندوستانی ادب کے اس وقت کے نئے لکھنے والوں (جو آگے چل کر قد آور شخصیات رہیں)کے ذہن کی آبیاری کی اور انھیں نئے ادب کے تقاضوں سے روشناس کیا۔بہ ایں ہمہ ماہنامہ ’نیا دور‘ کو ہندوستانی ادب کا تشکیل کار کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.