Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہندوستانی فلموں میں اردو تہذیب اور مسلم معاشرے کی عکاسی

وصیہ عرفانہ

ہندوستانی فلموں میں اردو تہذیب اور مسلم معاشرے کی عکاسی

وصیہ عرفانہ

MORE BYوصیہ عرفانہ

    فلمیں ہمیشہ سے ہی تفریح کا آسان اور سستا ذریعہ رہی ہیں۔طبقہ اشرافیہ سے لے کرعوامی طبقہ تک کی دلچسپی فلموں میں پائی جاتی ہے۔آج کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے زمانے میں تفریح کے متعدد ذ رائع پیدا ہوگئے ہیں۔پھر بھی فلمی صنعت آج بھی فروغ پذیر ہے۔آج بھی فلم اور فلمی ادب لوگوں میں مقبول ہیں۔

    ہندوستان میں فلمی صنعت کا آغاز ۱۹۱۳ء میں راج گووند پھالکے کے ذریعے بنائی گئی خاموش فلم ’’راجہ ہریش چندر‘‘ سے ہوا۔اس عہد میں تفریح کے اس نئے رنگ نے لوگوں کو حیرت آمیز مسرت سے دوچار کیا۔ناظرین نے اس فلم کی بھرپور پذیرائی کی۔بعد ازاں پھالکے صاحب نے متعدد خاموش فلمیں مثلاً ستیہ وان ساوتری،لنکا دہن،بھسماسر موہنی،کالیا مردن ، شری کرشن جنم وغیرہ بنائیں۔پھالکے صاحب کے علاوہ دیگر فلم سازوں کے ذریعے بھی خاموش فلمیں بنتی اور مقبول ہوتی رہیں۔ساتھ ہی ساتھ خاموش فلموں کو آوازوں سے مزین کرنے کی کوششیں بھی جاری رہیں۔بالآخر ۱۹۳۱ء میں ارد شیر ایرانی نے پہلی متکلم فلم ’’عالم آرا‘‘ بناکر ہندوستانی فلمی شائقین کے ذوقِ تماشہ کو تسکین عطا فرمائی۔ارد شیر ایرانی کے تجربات سے فیضیاب ہوکر دیگر فلم سازوں نے اسی سال بائیس فلمیں بناکر متکلم فلموں کے ارتقائی سفر کی بہترین شروعات کردی۔ قابل غورامریہ ہے کہ ہندوستانی فلم پہلی بار گویا ہوئی تو اس کی زبان اردو تھی اور آج بھی فلم اردو میں کلام کرتی ہے۔یہ ایک طرف اگر ہندوستانی فلم کی خوش نصیبی تھی کہ اردو لب و لہجے کی چاشنی اور زبان کے بانکپن کی وجہ سے فلموں کا جادو سر چڑھا ، وہیں دوسری طرف فلموں کے ذریعے اردو زبان پورے برِ صغیر میں مقبولِ خاص و عام ہوئی۔خواص و عوام میں اردو سے شناسائی اور آشنائی کا احساس فلموں کے وسیلے سے پیدا ہوا۔فلموں کے اسکرپٹ،گانے اور مکالمے ہی فلم کا ذریعہ ٔ اظہار ہیں اور اس لحاظ سے دیکھا جائے تو فلموں کی ساری فنکاری اردو زبان کے وسیلے سے کی جاتی ہے۔فلموں میں جتنے نغمے لکھے جاتے ہیں،وہ اردو شاعری کی بحروں میں ہوتے ہیں۔ مکالموں کی ادائیگی اردو تلفظ میں کی جاتی ہے لیکن ان سب کے باوجود ہندوستانی فلموں کو ’’ہندی فیچر فلم ‘‘کا سرٹیفکٹ دیا جاتا ہے۔حتیٰ کہ جن فلموں میں مسلم معاشرت اور اردو تہذیب کی عکاسی ہوئی، انہیں بھی ہندی فیچر فلم کی سند سے ہی نوازا گیا ۔اس تناظرمیں پریم پال اشک کا بیان قابل غور ہے:

    ’’برٹش حکومت کے دوران بھی اگرچہ سنسر بورڈ کا اردو کے تئیں رویہ منافقانہ ہی رہااور حکام اردو سرٹیفکٹ جاری کرنے سے کتراتے رہے اور اس کی بجائے ہندوستانی زبان کے نام پر فلم سرٹیفکٹ جاری کرتے رہتے تھے،جبکہ ہندوستانی نام کی چڑیا کم از کم ہندوستان میں تو اڑتی نظر نہیں آتی تھی۔یہ برٹش حکومت کی عوام کو بے وقوف بنانے کی ایک چال تھی۔ اس زمانے میں عوام کی زبان واضح طور پر اردو تھی یا ہندی۔مشترک زبان یعنی ہندوستانی تو صرف ایک بولی تھی ،زبان نہیں اور فلموں کی زبان اردو تھی۔‘‘

    بہر کیف ! سرٹیفکٹ سے قطع نظر یہ ایک حقیقت ہے کہ آغاز سے تاحال ،فلمیں اردو میں بنتی رہی ہیں۔فلموں کی اسکرپٹ، اس کے مکالمے اور نغمے سبھی اردو زبان و ادب کی چاشنی سے لبریز رہتے ہیں۔تاریخ شاہد ہے کہ جس فلم کی درو بست سے اردو کو خارج کیا گیا، اس فلم کو ناظرین نے خارج کردیا۔رشی کیش مکرجی نے اپنی فلم ’’چپکے چپکے‘‘ کے چند مناظر میں خالص ہندی مکالموں کے التزام سے کامیڈی سین تخلیق کیا ہے۔یہ اردو کی لطافت اور دلکشی پر دال ہے۔سچ تو یہ ہے کہ اردو ایک لطیف ترین زبان ہے اور ناظرین و سامعین کا مائل بہ تفریح ذہن لطافت چاہتا ہے،ثقالت نہیں۔

    وسیلہ ٔ اظہار کے طور پر ہندوستانی فلموں میںاردو کے بنیادی رول کے علاوہ موضوعاتی اعتبار سے بھی اردو کو ہمیشہ ہی ایک خاص اہمیت حاصل رہی۔اردو مکالموں اور نغموں کو غیر اردو داں طبقے کے ناظرین اور سامعین کے درمیان بھی بھرپور پذیرائی ملتی رہی ہے۔اس چیز نے فلم سازوں کو اردو تہذیب و معاشرت کو موضوع بنانے کے لئے ہمیشہ مہمیز کیا ۔یہی وجہ ہے کہ فلم سازی کی تاریخ میں ابتدا سے تا حال مسلم معاشرہ اور اردو کلچر پر مبنی فلموں کو اہم مقام حاصل رہا۔متکلم فلموں کی ابتدا ہی ’’عالم آرا‘‘ سے ہوئی جو مذہبی رنگ لئے ایک مسلم معاشرتی فلم تھی۔چونکہ سیاسی اور معاشرتی اعتبار سے یہ ایک ایسا دور تھا جب عوام پر اردو کی مشترکہ تہذیب کا اثر زیادہ رہا۔اس لئے اس دور میں عوام کی پسندیدگی کے اعتبارسے لیلیٰ مجنوں، شیریں فرہاد، سوہنی مہیوال،مرزا صاحباں،حاتم طائی،علی بابا چالیس چور،چہار درویش، سخی لٹیرا، زہر عشق،صید ہوس،یہودی کی لڑکی، جادوئی چراغ،پاک دامن رقاصہ وغیرہ جیسی بے شمار فلمیں بنیں۔

    مغلیہ حکومت اپنے پورے تزک و احتشام کے ساتھ سرزمین ہند پر حکومت کا ایک طویل دورانیہ گذار کر نابود ہوچکی تھی۔لیکن ان کا حسن تدبر، شان و شوکت، فہم و فراست، حسن و عشق اور مشترکہ تہذیب و تمدن کا تاثر ہندوستانی ذہن پر بہت گہرا اور دیرپا رہا۔ ۱۹۳۱ء سے ۱۹۶۶ء تک مغلیہ سلطنت ہندوستانی فلم سازوں کا دل پذیر موضوع رہا۔ یہ باب یہاں پر بند نہیں ہوا بلکہ ۲۰۰۸ء میں قصہ پارینہ کی بازگشت ’’ جودھا اکبر‘‘کے ذریعہ پھر سنائی دی۔ بابر،ہمایوں،اکبر،جہانگیر،شاہ جہاں، نورجہاں، جہاں آرا،ممتاز محل،جودھا بائی،انارکلی،شیرافگن،بہادر شاہ ظفرغرضیکہ مغلیہ سلطنت کے تمام یادگار کرداروں اور پہلوؤں کو ہندوستانی فلموں کے ذریعہ احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی۔بعض پہلوؤں اور کرداروں پر متعدد بار فلمیں بنیں اور مقبول ہوئیں۔بعض فلموں نے کامیابی کی ایک نئی تاریخ لکھی۔اس فہرست میں اولین نام ’’پکار‘‘ کا ہے۔’’پکار‘‘ سہراب مودی کی ایک کامیاب ترین تخلیق ہے۔اس فلم میں مغل حکمرانوں کی بے پناہ شان و شوکت کو اس انداز میں فلمایا گیا کہ تاریخی فلموں کی پیشکش کے لئے یہ ایک سنگ میل ثابت ہوا۔۱۹۳۹ء میں بنی یہ فلم عدل جہانگیری کی ایک بین مثال تھی۔ ادبی سطح پر ’’پکار‘‘ کا امتیاز یہ ہے کہ اس فلم کے مکالمے رواں،سہل اور چست تھے۔مغلیہ سلطنت سے متعلق فلموں میں نور جہاں، انارکلی،جہاں آرا، تاج محل خاص اہمیت اور مقبولیت کے حامل ہیں۔یہ فلمیں مختلف ادوار میں دو دو تین تین بار بنیں اور مقبول ہوئیں۔لیکن جو مقبولیت کے۔آصف کی ’’مغل اعظم‘‘ کے حصے میں آئی وہ بے مثال اور لازوال ہے۔ ۱۹۶۰ء میں بنی اس فلم نے کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کئے۔آج بھی یہ فلم شائقین کی بھیڑاکٹھا کرنے کی قدرت رکھتی ہے۔

    فلم کے عالمی تناظر میں ہندوستان کو ’’مغل اعظم‘‘ کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔شہزادہ سلیم اور انارکلی کے عشق کی اس لافانی داستان نے محبت کرنے والوں کو ایک نیا فکر و فلسفہ عطا کیاہے۔ناظرین نے یہ مشاہدہ کیا کہ محبت کسی بھی رنگ، نسل، ذات، سرحد،ملک اور ز مان و مکان کی حدود و قیود سے ماورا ہے۔محبت کی یہ باغیانہ لَے زمان و مکاں سے پَرے آفاقیت کا استعارہ بن گئی۔’’مغل اعظم‘‘فلمی تاریخ میںہر اعتبار سے ایک شاہکار فلم تسلیم کی گئی ہے۔اس فلم کی شان وشوکت، منظرنامہ، مکالمہ نگاری،نغمے، موسیقی،رقص، صوتی تاثر ہر ایک اپنی مثال آپ ہے۔عموماًفلموں کے گیت زبان زد خاص و عام ہوتے ہیںلیکن اس فلم کے مکالمے بھی عوامی یادداشت کا حصہ بنے رہے۔وجاہت مرزا، کمال امروہوی،امان اللہ خان اور احسن رضوی نے اپنے مکالمے کے ذریعہ اس فلم کو مقبولیت کے بام عروج پر پہنچا دیا۔مغل اعظم کے مکالمے اردو کی تہہ دار معنویت،اثر آفرینی اور سحر انگیزی کی بہترین مثال ہیں۔شہنشاہ اکبر کی بلند آہنگی، شہزادہ سلیم کی رومانیت، انارکلی کی نزاکت، بہارؔ کی ہوش ربا فتنہ پردازیاں مکالموں کے توسط سے کمال خوبی کے ساتھ نمایاں ہوئی ہیں۔اس کمال اظہار کے لئے اردو زبان کے سوا کوئی دوسرا متبادل ممکن نہیں تھا۔اس فلم کے نغمے بھی لازوال ہیں۔آج ساٹھ سال گذرنے کے بعد بھی ان گیتوں کی تازگی روز اول کی طرح برقرار ہے۔یہ اردو شاعری کی لطافت اور سحر آفرینی کی کھلی دلیل ہے۔

    مغلیہ سلطنت کے بانیوں اور حکمرانوں کے علاوہ ہندوستان پر حکمرانی کرنے والے دیگر بادشاہوں، شہزادوں، نوابوں، جانبازوں اور جابروں پر بھی فلمیں بنیں جن میں اردو تہذیب و تمدن اور مسلم معاشرت کی عکاسی کی گئی۔ایسی فلموں میں رضیہ سلطانہ،ٹیپو سلطان، نواب سراج الدولہ،غازی صلاح الدین،سکندر اعظم،واجد علی شاہ،چنگیز خان،ہلاکو خان،نادر شاہ وغیرہ پر بننے والی فلمیں خاص طور پر اہم ہیں۔یہ فلمیں الگ الگ ماحول کی نمائندگی کرنے کے باوجود بنیادی طور پر اردو تہذیب و معاشرت کی عکاس ہیں۔

    مسلم خواتین کو مرکزی کردار بناتے ہوئے بھی متعدد فلمیں بنائی گئیںجن میں حیادار عورتوں کی پاکیزگی کو موضوع بنایا گیا۔ان فلموں کا بیانیہ اور مکالمہ اردو تہذیب کی امتیازی علامت رہا۔رشیدہ،عصمت،شہناز،نیلوفر،بانو،انجمن، سلمیٰ، زینت، یاسمین،نرگس، نیک پروین، لبنیٰ،نجمہ،روشن آرا، ریحانہ،عابدہ وغیرہ فلموں کی ایک طویل فہرست ہے جن میں عورت کے مثالی کردار کو پیش کیا گیا ۔ان عورتوں کا تعلق خواہ کسی ماحول اور طبقے سے رہا لیکن اعلیٰ اخلاقی صفات ان میں قدر مشترک کی حیثیت رکھتا ہے۔نا مساعد حالات اور وقت کی ستم ظریفی کے جبر کے باوجود صبر و استقلال کا دامن تھامے یہ خواتین انجام کار زندگی میں سرخرو ٹھہرتی ہیں۔درج بالا تمام فلمیں ۱۹۳۱ء سے ۱۹۶۰ء کے دورانیہ میں تشکیل پائیں۔

    اردو تہذیب و معاشرت کی آئینہ دار فلموں میں ایک کثیر تعداد ان فلموں کی ہے جو اسلام کی بنیادی تعلیمات پر مبنی رہیں۔مثلاً شانِ خدا، خانۂ خدا، دیار مدینہ، نیاز اور نماز،نورِ اسلام ،بسم اللہ کی برکت،دیارِ حبیب، دین اور ایمان، اللہ کا انصاف ،نورِ وحدت، خدا کا فیصلہ، مدینے کی گلیاں وغیرہ ۔وہیں دوسری طرف اولیا ء دین کی محبت، عظمت اور فقیرانہ شان کو بھی متعدد فلموں کے ذریعے ظاہر کیا گیا۔مثلاً میرے غریب نواز،اولیا ء اسلام، سلطانِ ہند، فخرِ اسلام، شانِ حاتم، زیارت گاہِ ہند، بابا حاجی ملنگ،بندہ نواز،ولی اعظم وغیرہ۔

    دہلی، لکھنؤ اور حیدرآباد کے تہذیبی پس منظر میں بنی چند فلموں کے خصوصی ذکر کے بغیریہ مقالہ تشنہ رہے گا۔یہ فلمیں ہیںـــ۔۔۔۔۔۔۔گرودت کی ’’چودھویں کا چاند‘‘ (۱۹۶۰ئ)، آر ۔چندا کی ’’برسات کی رات ‘‘ ( ۱۹۶۰ ء ایچ۔ایس رویل کی ’’میرے محبوب‘‘ (۱۹۶۳ئ)،جاں نثار اختر کی ’’بہو بیگم‘‘ (۱۹۶۶ئ)، ونود کمار کی ’’میرے حضور‘‘ ( ۱۹۶۷ئ)، ایس ۔ یو۔سینی کی ’’پالکی‘‘ (۱۹۶۷ئ)، کمال امروہوی کی ’’پاکیزہ‘‘ (۱۹۷۲ئ)، مظفر علی کی ’’امراؤ جان ادا‘‘ (۱۹۸۱ئ) وغیرہ۔ ان سبھی فلموں میں مسلم معاشرت اور اردو تہذیب و تمدن پوری طرح جلوہ ساماں ہے۔خاص بات یہ ہے کہ اردو نغمے ان فلموں کی مقبولیت کا سب سے بڑا سبب بنے اور آج بھی ان نغموں کی گنگناہٹ عام ہیں۔یہ تمام فلمیں رومان پرور حکایتوں سے لبریز ہیں۔ ’’چودھویں کا چاند‘‘ پردہ نشیں ماحول میں محبوبہ کی شناخت کا افسانہ ہے۔اس فلم میں لکھنؤ کی تہذیب کی بہترین عکاسی ملتی ہے۔یہ فلم دوستوں کی جاں نثاری، محبوب کی دلربائی اور حالات کی ستم ظریفی کی داستان ہے۔اس فلم کے نغمے بڑے سریلے اور سماعت کو راحت پہنچانے والے ہیں۔

    ٭ چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو

    ٭ شرماکے کچھ پردہ نشیں آنچل کو سنوارا کرتے ہیں

    ٭ ملی خاک میں محبت جلا دل کا آشیانہ

    ’’میرے محبوب‘‘ علی گڑھ یونیورسٹی کیمپس میں ایک پردہ نشیں کی محبت میں گرفتار ہوجانے والے نوجوان کی رومان انگیز کہانی ہے۔یہ فلم لکھنؤ کی تہذیب و معاشرت کی بہترین نمائندگی کرتی ہے،ساتھ ہی ساتھ محبت کی تثلیث کو بھی بیان کرتی ہے۔چند نغمے ملاحظہ ہوں:

    ٭ میرے محبوب تجھے میری محبت کی قسم

    ٭ تیرے پیار میں دلدار جو ہے میرا حالِ زار

    ٭ یاد میں تیری جاگ جاگ کے ہم رات بھر کروٹیں بدلتے ہیں

    ’’میرے حضور‘‘ بھی لکھنوی پس منظر میں پردہ نشیں محبت کی کہانی ہے۔اس فلم میں بھی محبت کی تثلیثی شکل سامنے آتی ہے۔اردو تہذیب اور اردوزبان اس فلم میں بھی لشکارے مار رہی ہے۔اردو کی چاشنی ملاحظہ ہو:

    ٭ کیا کیا نہ سہے ظلم و ستم آپ کی خاطر

    ٭ رخ سے ذرا نقاب ہٹادو میرے حضور

    ٭ غم اٹھانے کے لئے میں تو جئے جاؤں گا

    ’’پالکی‘‘ کی کہانی بھی رومانی ہے لیکن یہ رومان منفرد ہے جو شادی کے بعد شروع ہوتا ہے۔شوہر نوکری پر چلا جاتا ہے جہاں سے اس کی موت کی خبر آتی ہے۔اس دوران کافی جبر کے بعد ہیروئن دوسری شادی کے لئے آمادہ ہوتی ہے۔شادی کے وقت معلوم ہوتا ہے کہ اس کا پہلا شوہر زندہ ہے۔کہانی کافی ڈرامائی ہے اور نغمے بہت دلکش ہیں:

    ٭ کل رات زندگی سے ملاقات ہو گئی

    ٭ دلِ بے تاب کو سینے سے لگانا ہوگا

    ٭ چہرے سے اپنے آج تو پردہ اُٹھائیے

    ’’پاکیزہ‘‘کمال امروہوی کی ایک شاہکار فلم ہے جس میں طوائف،اس کا ماحول، ماحول کے تقاضے،اس کی بے بسی،بے چارگی اور داخلی جذبات کو موضوع بنایا گیا ہے۔پاکیزہ فلم کے نغمے اس کی ریلیز سے قبل ہی ہٹ ہوچکے تھے:

    ٭ انہیں لوگوں نے لے لی نا دوپٹہ میرا

    ٭ یوں ہی کوئی مل گیا تھاسر راہ چلتے چلتے

    ٭ آج ہم اپنی دعاؤں کا اثر دیکھیں گے

    ٭ موسم ہے عاشقانہ

    ٭ چلو دلدار چلو،چاند کے پار چلو

    ’’امراؤ جان ‘‘ مرزا ہادی رسوا کے ناول پر مبنی فلم ہے جسے مظفر علی نے کافی عمدگی اور مہارت سے بنایا ہے۔امیرن ؔ ایک شریف گھرانے کی بچی ہے جو اغوا ہوکر خانمؔ کے کوٹھے پر پہنچ جاتی ہے ۔پھر شروع ہوتی ہے کوٹھے پر اس کی زندگی اور اس کی تعلیم و تربیت جو اسے امراؤ جان بناتی ہے۔یہ فلم ایک طوائف کی زندگی،اس کے جذبات،اس کی داخلی کشمکش اور اس کے تاریک انجام کی دلدوز داستان ہے۔ساتھ ہی ساتھ اس عہد کی سیاسی اور معاشرتی زندگی کا آئینہ بھی ہے۔شہریارؔ کی غزلوں نے اس فلم کو اور سنوار دیا ہے:

    ٭ دل چیز کیا ہے آپ میری جان لیجئے

    ٭ ان آنکھوں کی مستی کے مستانے ہزاروں ہیں

    ٭ جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے

    مذکورہ بالا فلمیں نہ صرف اردو تہذیب و تمدن کی شاہکار ہیں بلکہ اپنی اردو غزلوں کی وجہ سے فلم سازی کی تاریخ کا اٹوٹ حصہ بن چکی ہیں۔

    متکلم فلموں کی ابتدا سے اب تک اردو تہذیب اور مسلم معاشرت کی عکاسی کرنے والی فلموں کی کثیر تعداد جہاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ فلم سازوں نے ہر دور میں اردو تہذیب و معاشرت کی پیشکش پر خاص دھیان دیا ہے۔وہیں چند سلگتے سوالات بھی قائم کرتی ہیں کہ کیا اردو تہذیب اور مسلم معاشرت کی نمائندگی کے لئے ہیرو کا شاعر،قوال،نواب،شہزادہ یا عیاش ہونا ہی لازمی ہے ؟ کیا صرف پردہ نشیں یا شوہر کے بے جا جبر کا شکار عورت مسلم معاشرہ کی شناخت ہے ؟ اولیا ء دین اور سلاطین ہند کے علاوہ اردو تہذیب کی عکاسی کے لئے ہندوستانی فلم سازوں کے پاس تیسرا موضوع ہے ۔۔۔۔ ۔۔طوائف۔ حالانکہ ہندوستانی مسلمان بھی بے روزگاری،مہنگائی،کسمپرسی،بڑھتی ہوئی آبادی،سیاسی انتشار،سماجی نا برابری و رزرویشن جیسے سلگتے مسائل کا شکار ہیں جن مسائل میں ہندوستان کی بقیہ آبادی مبتلا ہے۔مذکورہ مسائل کو موضوع بناکر بھی اردو تہذیب و معاشرت کی عکاسی کی جاسکتی ہے۔چند ایک فلم سازوں نے وقتاً فوقتاً ڈگر سے ہٹ کر کوششیں کی لیکن یہ کوششیں مبہم اور غیر واضح رہیں۔

    اس سلسلے میں سب سے اہم قدم ایس۔ایم۔ستھیو نے اپنی فلم ’’گرم ہوا‘‘میں اُٹھایا۔ اس فلم میں مسلمانوں کے معاشرتی اور سیاسی حالات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔کرداروں کو بالکل فطری اور واقعی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔اس فلم نے مسلم معاشرت کے تئیں فرسودہ روایت کو توڑا۔اب فلم میں مسلم کردار اردو تہذیب کے عکاس تو ہیں لیکن موجودہ حالات و موضوعات کی نمائندگی کی ذمہ داری کے بھی اہل ٹھہرے۔ راجندر سنگھ بیدی نے اپنی فلم ’’دستک‘‘ میں متوسط طبقے کے ایک کلرک کے حالات و مسائل کو پیش کیا،ساتھ ہی یہ پیغام دیا کہ ماحول اور مقام انسانی کردار کی شناخت مسخ کردیتے ہیں۔ مظفر علی نے ’’گمن‘‘ فلم میں ایک بڑے شہر کی افرا تفری کے تناظر میں ایک مسلم بے روزگار نوجوان کے مسائل کو موضوع بنایا ہے۔ساگر سرحدی نے ’’بازار‘‘ میں حیدرآباد کے مسلم معاشرے کے نوجوان لڑکے لڑکیوں اور ان کے والدین کی مجبوریوں اور مسائل کا جائزہ لیا ہے۔یہ فلم حیدرآباد کی اردو تہذیب و تمدن کی بہترین نمائندگی کرتی ہے۔’’سرداری بیگم‘‘ میں شیام بینیگل نے کلاسیکی گلوکارہ سرداری بیگم کی شخصیت کی عکاسی کرنے کے ساتھ ساتھ اردو ادب و آداب کو بڑی زندگی اور تابندگی کے ساتھ پیش کیا ہے۔یش چوپڑہ نے ’’نوری‘‘ میں ایک کشمیری جوڑے کے رومان کے وسیلے سے کشمیر ی تہذیب و تمدن کی عکس بندی کی ہے۔ساون کمار نے ’’صنم بے وفا‘‘ میں پٹھانوں کے خاندانی روایات اور دین مہر کی باریکیوں کو موضوع بنایا ہے۔

    راج کپور کی ’’حنا‘‘ ،منی رتنم کی ’’بامبے‘‘ ، خالد محمود کی ’’فضا‘‘ ، عامر خان کی ’’فنا‘‘ ، انل شرما کی ’’غدر‘‘ اور ’’مشن کشمیر‘‘ مذکورہ تناظر میں اہم فلمیں ہیں۔یہ سبھی فلمیں اردو ہندی مشترکہ تہذیب کو پیش کرتی ہیں۔ان سبھی فلموں میں کم و بیش ہندوپاک سیاست، کشمیراور مقبوضہ کشمیر کی سیاست اور زبان کی سیاست کو موضوع بنایا گیا ہے۔سیاست کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سماجی صورت حال اور اندر ہی اندر پنپنے والی شدت پسندی کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔لیکن مذکورہ تمام فلموں میں محبت اپنی خالص شکل میں جلوہ نما ہے،مذہب،ذات،سرحد اور زبان کی تفریق سے بالاتر۔ان تمام فلموں سے جداگانہ عامر خان کی ’’سرفروش ‘‘ہے جس میں ایسے وطن فروشوں کی حکایت ہے جن کا نہ تو کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی تہذیب ان پر اثر انداز ہوتی ہے۔ایسے وطن فروشوں کے متوازی کچھ سرفروش بھی ہوتے ہیں جو مذہب اور تہذیب کی حد بندیوں سے بلند ہوکر ملک کی سا لمیت اور بقا کے ضامن بنتے ہیں۔

    ۱۹۸۲ء سے ۱۹۸۶ء کے دوران تین فلمیں آئیں۔۔۔۔۔۔نکاح، طوائف اور دہلیز۔’’نکاح‘‘ میں آج کی بیدار عورت کو پیش کیا گیا جو طلاق پاکر عضو معطل کی طرح گھر کی چوکھٹ کے اندر قید ہوکر نہیں رہ جاتی ہے بلکہ نئے سرے سے زندگی کی جدوجہد میں شامل ہوتی ہے اور اپنی شناخت حاصل کرنا چاہتی ہے۔دوسری شادی کرکے محبت کا سرور اور زندگی کا اعتبار پاتی ہے لیکن غلط فہمی میں پڑکر جب دوسرا شوہر طلاق دینا چاہتا ہے تو احتجاج کرتی ہے۔اپنی ذات کی نفی وہ برداشت نہیں کرپاتی ۔ اس فلم میں جدید ماحول کے تناظر میں اردو تہذیب و تمدن بھی نمایاں ہوا ہے اور عورت کی داخلیت زیادہ توانا ہوکر سامنے آئی ہے۔علیم مسرور کے ناول’بہت دیر کردی پر مبنی فلم ’’طوائف‘‘ ایک نئی جہت کا تعارف بنی ۔اس فلم کا ہیرو کرایہ کا مکان حاصل کرنے کے لئے ایک طوائف کو بیوی بناکر گھر لاتا ہے اور رفتہ رفتہ اس کے داخلی حسن اور اوصاف سے متاثر ہوجاتا ہے۔ ایک نچلے متوسط طبقے کے ماحول اور مسائل کی عکاسی اس فلم کے ذریعہ ہوئی ہے۔’’دہلیز‘‘ میں آج کے ماحول کی مسلم لڑکی جدید رہن سہن اور لباس میںملتی ہے۔پرانی محبت کی اسیر ہے لیکن شوہر کی پاسداری اور وفا شعاری میں اپنی محبت کو اس کی دہلیز پر قربان کردیتی ہے۔

    وقت کے ساتھ ساتھ مذکورہ بالا فکر کچھ اور بالیدگی کے ساتھ اظہار کے پیرایے میں ڈھلتی ہوئی ملتی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ مقدار بہت کم ہے لیکن معیار پر نظر رکھی جائے تو طمانیت محسوس ہوتی ہے۔اس سلسلے میں سب سے پہلے نندتا داس کی فلم ’’فراق‘‘ کا ذکر کرنا چاہوں گی۔ یہ فلم گجرات کے واقعات اور اس کے بعد کے اثرات کا ادبی اظہار ہے۔ اس فلم میں مذہب کو ہدف نہیں بنایا گیا ہے بلکہ مذہب کے سیاسی جنون کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ’’بلیک اینڈ وہائٹ‘‘ ظاہری طور پر دہشت گردی کے خلاف فلم ہے لیکن بنیادی طور پر اس فلم میں شعر و ادب کی آفاقیت اور اردو زبان کی بین الاقوامیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ’’ویر زارا‘‘ بین المذاہب عشق کی لازوال داستان ہے۔اس فلم میں بھی اردو ہندی مشترکہ تہذیب کو پیش کیا گیا ہے۔ چونکہ یہ کہانی کیرت پور(پنجاب) اور لاہور کے پس منظر میں ہے لہٰذا تہذیبی و تمدنی مماثلت یہ سوال قائم کرتی ہے کہ محض ناموں کا تفاوت دلوں کے بیچ سرحد قائم کرتا ہے یا خود غرضیاں سرحد کی لکیر کھینچتی ہیں ؟ حسن و عشق کا روحانی نظریہ اس فلم کی اساس ہے۔ فلم ’’مائی نیم از خان‘‘ مسلمانوں کے تئیں بین الاقوامی تعصب کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ اس فلم میں اسلام کی اصل روح، اس کے پیغامات،حجاب اور اس کی معنویت،اسلامی تشخص، اسلامی رواداری اور ان سب سے بڑھ کر محبت کا آفاقی جذبہ اور اس کی سچائی کو پیش کیا گیا ہے۔’’چک دے انڈیا‘‘ میں حب الوطنی کے باوصف اقلیتی طبقے کے تئیں بے یقینی کی فضا کا جائزہ لیا گیاہے۔

    بہر کیف ! گذشتہ دہائیوں کے دوران تنکے برابر ہی سہی، دل کو یہ سہارا حاصل ہوا کہ معاشرے کی عکاسی کے سب سے اہم ،توانا اور مؤثر ترین میڈیم ہندوستانی فلم نے مسلم معاشرے اور اردو تہذیب و تمدن کی موجودہ صورت اور درپیش مسائل کو سنجیدگی سے لیا ہے اور مختلف

    افکار و خیالات کو مختلف نقطہ نظر سے پیش بھی کیا ہے اور آخر میںجاوید اختر کی یہ نظم پیش ہے جو استعارہ ہے اس درد کا ،جو مشترکہ تہذیب کا امین ہونے کے باوجود تہذیبی تفریق سے پیدا ہوتا ہے:

    میں قیدی نمبر ۷۸۶

    جیل کی سلاخوں سے باہر دیکھتا ہوں

    دن،مہینے،سالوں کو

    یُگ میں بدلتے دیکھتا ہوں

    اس مٹی سے میرے باؤجی کی

    کھیتوں کی خوشبو آتی ہے

    یہ بارش میرے ساون کے جھولوں کو

    سنگ سنگ لاتی ہے

    وہ کہتے ہیں یہ تیرا دیش نہیں

    پھر کیوں میرے دیش جیسا لگتا ہے

    وہ کہتا ہے میں اس جیسا نہیں

    پھر کیوں مجھ جیسا وہ لگتا ہے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے