Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہم ادب کیوں پڑھتے ہیں؟

طارق چھتاری

ہم ادب کیوں پڑھتے ہیں؟

طارق چھتاری

MORE BYطارق چھتاری

    انسان کی شخصیت کے مختلف پہلو ہوتے ہیں اور اس کا ہر عمل کسی داخلی کیفیت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس کا باطن ایک مکمل کائنات کی حیثیت رکھتا ہے۔ کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ سرسبز زمین، نیلا آسمان، تپتے ریگستان، چاند ستارے، دریا اور پہاڑ، سوکھی جھاڑیاں، اونچے درخت، چہچہاتے پرندے، قلانچیں بھرتے ہرن یعنی اس جہان میں جو بھی نظر آ رہا ہے، محض انسانی ذات کا عکس ہے اور کچھ نہیں۔ شاید اسی لیے کسی اداس لمحے میں، سب کچھ موجود ہوتے ہوئے بھی بہت کچھ دیکھ لیتا ہے۔

    انسان کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے صدیوں کی ریاضت کے بعد اپنی ذات کو پہنچاننے کا وسیلہ تلاش کر لیا اور اس کانام ادب رکھا۔ ادب انسانی زندگی کو پہچاننے کا وسیلہ ہی نہیں بلکہ اس کی تشکیل و تزئین کا ذریعہ بھی ہے۔ بقول ڈاکٹر جمیل جالبی،

    ’’اس بارے میں دو رائیں نہیں ہو سکتیں کہ جو کام ادب کرتا ہے وہ نفسیات، سماجیات اور فلسفہ بھی نہیں کرتا اور اس لیے نہیں کرتا کہ یہ تینوں علوم انسانی تجربوں کا تصوراتی، نظریاتی اور تجرباتی مطالعہ کرتے ہیں اور انسانی زندگی کے تجربوں کو پہلے الگ الگ کرکے اور پھر ترکیبی ضابطوں، نظام اور قوانین سے مربوط کر دیتے ہیں۔ ان کے برخلاف ادب انسانی زندگی کی اکائی کو توڑتا نہیں ہے بلکہ اسے ساری انسانی زندگی کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ ادب کی سطح پر زندہ تجربے اتنے زندہ اور توانا ہوتے ہیں کہ انھیں ترکیبی ضابطوں، قوانین اور تصورات کے ذریعے دوسروں کے اندر زندہ و پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ اس عمل کے لیے ضروری ہے کہ تخلیقی تخیل کے ذریعے ہی زندگی کی جیتی جاگتی صورت حال کو اس طرح اجاگر کیا جائے کہ اس سے جذبات کا تانا بانا بنا جا سکے۔‘‘

    (ادب کا کام۔ بادبان، شمارہ 11، ص:196)

    ادب انسانی زندگی کی جیتی جاگتی صورت حال کو اجاگر بھی کرتا ہے اور اس پر اثر انداز بھی ہوتا ہے اور اس طرح اثرانداز ہوتا ہے کہ جب وہ انسان کو رلاتا ہے تو نفس کو پاک کرکے اس کے تمام دکھ دھو ڈالتا ہے اور جب اسے ہنساتا ہے تواس کے غموں کو اس طرح بھلا دیتا ہے جیسے ستاروں کی جھلملاہٹ تاریکئی شب کے احساس کو بھلا دیتی ہے۔ فلسفے، افکار اور زندگی کے پیچیدہ مسائل جب ادب کی پناہ میں آتے ہیں تو ان کے سربستہ راز اور پوشیدہ گوشے روشن ہونے لگتے ہیں اور ادب قارئین کے لیے مشعل راہ بن جاتا ہے۔ اسی طرح جب انسان کی ناکامیاں، پشیمانیاں اور لغزشیں ظرافت کے پیرائے میں فن پارے کا حصہ بنتی ہیں تو ادب قاری کے شعور و احساس کے بوجھل پن کو دور کرکے اسے فرحت و انبساط بخشتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ادب پڑھنا انسان کا سب سے محبوب مشغلہ رہا ہے۔

    اگر ہم اپنے معاشرے کے پس منظر میں ادب کے قارئین کا جائزہ لیں تو پائیں گے کہ ابھی کچھ برس پہلے تک ہر Discipline کے اشخاص کو ادب سے یکساں دلچسپی ہوتی تھی۔ ادھر کچھ عرصے سے مشہور ہوا کہ یہ Specialization کا زمانہ ہے۔ اگر کسی کو اچھا ڈاکٹر، انجینئر، سائنس داں، فلسفی، ماہر نفسیات یا ماہر معاشیات بننا ہے تو اسے صرف اپنے مضمون پر توجہ دینی چاہیے تاکہ وہ اپنے Profession کے ساتھ انصاف کر سکے۔ لہٰذا Professionals کو بہت اہمیت دی جانے لگی اور لفظ Professional جو گزرے زمانے کی ہندوستانی تہذیب میں، جہاں خدمت خلق کے لیے تمام عمرصرف کر دینا باعثِ فخر تسلیم کیا جاتا تھا، اکثر منفی معنوں میں ہی استعمال ہوا کرتا تھا، وہی لفظ اب نہ صرف یہ کہ مثبت معنی میں استعمال ہونے لگا بلکہ Professionalism کو کامیاب شخص کی اعلیٰ صفت سمجھا جانے لگا۔

    ظاہر ہے کامیابی کے معنی بھی تبدیل ہو گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ادب ہی کیا تمام فنون لطیفہ کو کار زیاں سمجھ کر ترک کر دیا گیا۔ اب ادب کا معاملہ تو یہ ہے کہ جو ادب تخلیق کرتے ہیں یا ادب کی تدریس سے وابستہ ہیں، ان کے علاوہ ادب کے قارئین برائے نام ہی باقی رہ گئے ہیں۔ تو اس صورت حال کے نتیجے میں کیا کہنا غلط ہوگا کہ تصور انسان اور تصور کائنات کا زوال ہوا چاہتا ہے۔ لہٰذا جب انتظار حسین نے کہا کہ،

    ’’آخر ایک میدان آیا جہاں دیکھا کہ ایک خلقت ڈیرا ڈالے پڑی ہے۔ بچّے بھوک سے بلکتے ہیں۔ بڑوں کے ہونٹوں پر پپڑیاں جمی ہیں۔ ماؤں کی چھاتیاں سوکھ گئی ہیں۔ شاداب چہرے مرجھا گئے ہیں۔ میں وہاں پہنچا کہ اے لوگو کچھ بتاؤ کہ یہ کیسی بستی ہے اور اس پہ کیا آفت ٹوٹی ہے کہ گھر قید خانے بنے ہیں اور گلی کوچوں میں خاک اڑتی ہے۔ جواب ملا کہ اے کم نصیب تو شہر افسوس میں ہے اور ہم سیہ بخت یہاں دم سادھے موت کا انتظار کرتے ہیں۔‘‘ (شہرافسوس)

    تو سراج منیر نے فرمایا، ’’یہ دراصل ایک تصوّر انسان اور تصور کائنات کے زوال کا عمل ہے۔‘‘

    ’’جسے حق کہتے ہیں وہ بھی باطل ہے۔‘‘ (شہر افسوس)

    اسی لیے ہمارے معاشرے میں ڈاکٹر، سائنس داں اور ماہر اقتصادیات، سب ہیں۔۔۔ بس انسان نہیں ہیں۔ چونکہ انسان کو انسان بنانے کے عمل میں ادب نے ہمیشہ سے ایک اہم کردار ادا کیا ہے تو پھر اس عہد میں ادب کی اہمیت سے اور ادب پڑھنے کی افادیت سے انکار کیسے کیا جا سکتا ہے؟

    دنیا میں انسان کی فتوحات کی داستان بہت طویل ہے۔ اس نے آسمانوں پر کمندیں ڈالی ہیں تو سمندر کی تہوں کو بھی کھنگالا ہے۔ اس نے ہوا، پانی، روشنی، آواز اور عکس سبھی کو اپنا تابعدار بنا لیا ہے مگر ’’وقت‘‘ وہ واحد شے ہے، جس پر انسان کبھی حکمرانی نہیں کر سکا۔ وہ ہر لمحے وقت کے حصار میں ہے مگر وقت کبھی اس کی دسترس میں نہیں رہا۔ وقت آتا ہے اور گزر جاتا ہے۔ گزر جانے کے بعد ہی احساس ہوتا ہے کہ وقت آیا تھا اور گزر گیا۔ پھر گزرے ہوئے لمحات انسان کے ذہن و دل پر رفتہ رفتہ اتنے گہرے نقوش قائم کرنے لگتے ہیں کہ اس کے دل میں ان لمحوں کو پھر سے جینے کی خواہش شدت اختیار کر لیتی ہے مگر وقت نکل چکا ہوتا ہے، عکس باقی رہ جاتے ہیں۔

    فلسفہ، سائنس اور دولت کسی میں اتنی صلاحیت نہیں ہوتی جو انسان کو گزرے ہوئے زمانے میں لے جاسکے۔ خواہشات کے انہی بے قرار لمحوں میں ہم ادب کا سہارا تلاش کرتے ہیں۔ ادب میں وہ طاقت ہے کہ وقت اور زمانے کو اس کی اصلی حالت میں وہ لمبے عرصے تک زندہ رکھ سکتا ہے۔ ایک ادب ہی ہے جو تمام تر جزئیات اور کیفیات کے ساتھ زمانے کو تھامے رکھتا ہے۔ جب ہم گزرے وقت کے ماحول میں سانس لینا چاہتے ہیں، اس دور کے افراد کے ساتھ جینا چاہتے ہیں، اس عہد کی پیچیدگیوں میں الجھنا چاہتے ہیں، چھوڑی ہوئی زمینوں کی خوشبو کو محسوس کرنا چاہتے ہیں یا گزرے زمانے کو آئینہ بناکر آنے والے زمانے کا ادراک چاہتے ہیں تو ادب پڑھتے ہیں۔

    ’’انسان کی اپنی شخصیت اس کے لیے ایک BlackHole کی مانند ہوتی ہے۔ وہ اپنی ذات کی طرف کھنچنے لگتا ہے اور ایک دن ذات کے سیاہ غار میں غرق ہو جاتا ہے۔ ادب ہی ہے جو انسان کو عرفان کی اس منزل تک پہنچا سکتا ہے جہاں اس پر اپنی ذات منکشف ہو جاتی ہے اور وہ خود کو اصل شکل میں دیکھ پاتا ہے۔ ادب کا دائرہ محدود نہیں ہے۔ مذہب، فلسفہ، تاریخ، سیاست، سماجیات، معاشیات اور سائنسی ایجادات، سبھی کچھ ادب کے دائرے میں آتا ہے۔ بلکہ وہ کام جو نفسیات، سماجیات اور فلسفہ انجام نہیں دے سکتے، مؤثر انداز سے صرف تخلیقی ادب انجام دیتا ہے۔ انسان خواہ خلاؤں میں پرواز کرنے لگے، مریخ اور عطارد پر ڈیرے جمادے، سائنس انسان کی ساری موجود تہذیب کو بدل کر رکھ دے، جب تک انسان اپنی موجودہ ہیئت میں ایک سالم اکائی کے طور پر زندہ و باقی ہے، ادب کی اہمیت ہر صورت میں ہمیشہ باقی و برقرار رہےگی۔‘‘

    (ڈاکٹر جمیل جالبی، ’’ادب کا کام‘‘، بادبان 11)

    ادب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ ہمارے تجربات کی عمر طویل سے طویل تر کر سکتا ہے۔ دیگر علوم ہمارے تجربات نہیں، ہماری معلومات بڑھاتے ہیں۔ صرف ادب ہی ہے جو ہماری ذات کا حصہ بن جاتا ہے اور گزرے ہوئے سیکڑوں برسوں کے تجربات کو ہماری اپنی طبعی عمر کے تجربات میں شامل کرکے گویا ہماری عمر طویل کر دیتا ہے۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم خوش نصیب ہیں جو ادب پڑھتے ہیں اور ادب اس لیے پڑھتے ہیں کہ ہم کائنات کے بارے میں، اپنے عصر کے بارے میں اور جو نہیں دیکھے، ان زمانوں کے بارے میں محض جاننا نہیں چاہتے ہیں، ادراک، عرفان اور وجدان چاہتے ہیں یعنی ہم ادب اس لیے پڑھتے ہی کہ بصیرت چاہتے ہیں محض بصارت نہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے