حیدرآباد کے چند شاعر
دور حاضر
میں نے دو سال ہوئے ایک مضمون انگریزی زبان میں دورحاضر کے بعد اردو شعراء پر حیدرآباد پوئٹری سوسائٹی کی ایک مجلس میں پڑھا تھا۔ یہ مضمون رائل انڈیا سوسائٹی کے جرنل میں لندن سے شائع ہوگیا ہے۔ ۱؎ مضمون کے آخر میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ حیدرآباد کے شعراء پر بھی میں ایک تنقیدی مضمون لکھوں گا تاکہ باہر والوں کو یہاں کی ذہنی اور ادبی ترقی اور شعر و سخن کے ذوق کا حال معلوم ہوسکے۔ موجودہ مضمون اسی وعدہ کا ایفا ہے۔
دکن کی سرزمین ابتدا سے شاعری کا گہوارہ رہی ہے۔ سولہویں صدی عیسوی کے آخر اور سترہویں صدی کے شروع میں قطب شاہی خاندان کے دو فرمانروا محمد قلی قطب شاہ اور محمد قطب شاہ باکمال شاعر تھے۔ اور انہوں نے دکھنی زبان کو جسے اردو کی اماں یا کم از کم دایہ کہنا لازمی ہے بے حد فروغ دیا۔ آصفیہ خاندان کے بادشاہوں نے بھی شاعری کی نہایت شوق سے سرپرستی فرمائی۔ چنانچہ حضور مرحوم (نوراللہ مضجعہ وجعل مقامہ فی اعلیٰ علیین) کا کلام تمام ہندوستان میں مقبولیت حاصل کرچکا ہے۔ اور موجودہ اعلیٰ حضرت بندگان عالی خلد اللہ ملکہ و سلطانہ کے کلام کی نسبت ہر تنقیدی نقطۂ خیال سے کلام الملوک ملوک الکلام کہنا زیبا ہوگا۔ ان دونوں عظیم الشان بادشاہوں کے خاص شغف کی وجہ سے نہ صرف دکن کے امرا اور عام طبقے کو شاعری کی طرف میلان پیدا ہوگیا بلکہ ہندوستان سے بھی چوٹی کے شاعر سمٹ کر دربارِ آصفیہ میں حاضر ہوگئے جن کو ان کی قابلیت اور جوہر ذاتی کے اعتبار سے نوازا گیا۔ نواب مرزا خاں داغؔ نواب فصیح الملک بہادر کے خطاب سے مشرف ہوئے۔ اور دربار کا ملک الشعراء بھی ان کو مقرر کیا گیا۔ داغؔ کا بہترین کلام حیدر آباد میں ہی نظم ہوا۔ منشی امیر احمد مینائی بھی اپنی عمر کے آخری حصہ میں رامپور سے حیدر آباد پہنچے۔ اور یہیں داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ ان کے ممتاز اور قابل تلمیذ حافظ جلیل حسن جلیلؔ کوموجودہ اعلی حضرت و اقدس (خلد اللہ ملکہ و سلطانہ) نے نواب فصاحت جنگ بہادر کو خطاب سے سرفراز فرمایا۔ اور استادی کا جو امتیاز اعلیٰ حضرت مرحوم کے عہد میں داغؔ کو حاصل تھا وہ نواب فصاحت جنگ بہادر کو عنایت فرمایا گیا۔ حضرت جلیلؔ کا بھی بہترین کلام حیدر آباد ہی میں نظم ہوا۔
دولتِ آصفیہ کی علمی سرپرستی اورشعر و سخن کی قدردانی ہندوستان کے اور شعراءکو بھی یہاں آنے پر وقتاً فوقتاً مائل کرتی رہی۔ چنانچہ پچھے زمانہ میں حالیؔ اور پنڈت رتن ناتھ سرشارؔ اور اس زمانہ میں اقبالؔ، فانیؔ، جوشؔ، حفیظؔ، جگرؔ، ساغرؔ حیدآباد آئے۔ بعض یہاں ملازمت میں داخل ہوگئے اوربعض کی وظائف سے ہمت افزائی فرمائی گئی۔ ان باکمالوں کے مشاعروں اور امرا اور اہل فن کی مجالس میں شریک ہونے کی وجہ سے یہاں کے نوعمر طبقے پر گہرا اثر ہوا۔
ذہنی تربیت اور شاعرانہ قابلیت کو پروان چڑھانے میں جامعہ عثمانیہ کے اساتذہ اور بعض فاضل عہدہ داروں کا بھی بڑا حصہ ہے۔ ان بزرگ ہستیوں میں مولوی علی حیدر طباطبائی، مولوی وحید الدین سلیم اور مولانا ڈاکٹر عبدالحق خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔ ان ماہرین کی صحیح تنقید نے نوعمر شعراء کو پرانی طرز کی بھول بھلیوں اور منزل سے ہٹی ہوئی پیچیدہ راہوں سے بچالیا۔ اور ایسے روشن اور واضح طریقے بتائے جس سے وہ شاعری کے اصل مقصد تک آسانی سے پہنچ جائیں۔ مولوی وحید الدین سلیمؔ کی وفات اور مولانا ڈاکٹر عبدالحق کے جامعہ سے علیحدہ ہونے کے بعد ان کے لائق جانشینوں ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ اور پروفیسر عبدالقادر سروری نے بھی شعر و سخن کا اعلیٰ ذوق پیدا کرنے میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔
یہ سب بیرونی اثرات ہیں۔ شاعر کے کمال میں بہت کچھ اس کی خداداد طبیعت کا بھی حصہ ہوتا ہے۔ حیدرآباد میں نوجوان شعراء کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ اس مضمون میں سب کے کلام پر بحث کونی مقصود نہیں۔ باورچی دیگ کا حال معلوم کرنے کے لیے کفچہ میں تھوڑا سا کھانا نکالتا ہے۔ اور اسی سے اپنی رائے قائم کرتاہے میں نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ اور حیدرآباد کے شعراء میں سے صرف چارکو لے لیا ہے۔ لیکن اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ ان چار کے علاوہ باقی ادنیٰ درجے کے ہیں۔ نہیں ہرگز نہیں۔ بعض تو ان میں سے ایسے کہنہ مشق ہیں کہ اپنے کمال او رعلم سے تمام ہندستان میں شہرت حاصل کرچکے ہیں۔ مثلاً حضرت علی اختر صاحب اخترؔ یا مولانا امجدؔ مدظلہم۔
مغربی تعلیم اور یوروپین زبانوں کی شاعری بھی حیدرآباد کے شاعر کے دماغ کو وسعت دینے میں ایک حدتک ممد اور معاون رہی ہیں۔ اور موجودہ عالمگیر اقتصادی کش مکش اور خونریز لڑائیوں اور قوموں کی وحشیانہ نفسا نفسی کا بھی اثر اس کے ذہن پر پڑا ہے۔ میں نے حیدرآباد کے چار شعراء کو اگرچہ مختلف طبقوں سے چنا ہے۔ مثلاً ایک سرکاری عہدیدار ہیں تو دوسرے پکے اشتمالی۔ تیسرے شاہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں تو چوتھے ٹھیٹھ دیہاتی۔ تاہم سامراج اور ملکی حالات سے ان کے دل یکساں ملول ہیں۔ اور انسانی مساوات اور حقیقی امن و سکون کے طالب۔ میں اب ان چاروں شاعروں کے حالاتِ زندگی بیان کرتا ہوں تاکہ ان کی خصوصیات کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ اور جو کیفیات اور احساسات پیش کیے ہیں ان کا پس منظر معلوم ہوسکے۔
مولوی فضل الرحمن صاحب
اول میں مولوی فضل الرحمن صاحب کا ذکر کروں گا۔ محکمہ نشریات لاسلکی کے ناظم ہیں۔ تینتالیس برس کی عمر ہے، پہلے نظام کالج میں اور بعد میں پونہ کالج میں تعلیم پائی۔ اور وہیں سے بی۔ اے کی ڈگری اعزازات کے ساتھ حاصل کی۔ پونہ کے درودیوار اور فضا میں تلک اور گوکھلے کا جذبہ وطنیت بساہوا ہے۔ فضل الرحمن صاحب بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہے۔ ان کے اس قومی جوش کو ان بندوں میں ملاحظہ فرمائیے،
(۱)
جب آگے بڑھیں گے دست و قدم
چالیس کڑوڑ انسانوں کے
ہل جائیں گے گنبد مشرق سے
مغرب تک سب ایوانوں کے
لاچاروں کی قسمت چمکے گی
پھر جائیں گے دن نادانوں کے
پھر یہ ساری دکھیا راتیں
گویا منظر افسانوں کے
(۲)
شاعر کے مجسم خوابوں میں
جس روح رواں کی تنویریں
وہ زندہ نقوشِ آزادی
وہ جیتی جاگتی تصویریں
پابند غلامی خلقت کی
کٹ جائیں گی شاید زنجیریں
یا جان سی پڑ جائے گی پھر
ان ڈھانچوں میں بے جانوں کے
(۳)
جو بطنِ عدم میں پنہاں ہیں
ہستی کی فضا میں آئیں گے
مایوس دلوں کی تسکیں کو
پیغامِ تمنا لائیں گے
اس عہد کی بے نور آنکھیں اب
کیا جانے وہ کیا دکھلائیں گے
دریاؤں کے نایاب گہر
یا غنچۂ نو بستانوں کے
(۴)
آوقت کی ٹوٹی کشتی کو
افلاک کے پار لگائیں پھر
ہے سیل حوادث زوروں پر
ہمت کا اثر دکھلائیں پھر
آہستہ کنار مقصد تک
اس ناؤ کو کھیتے جائیں پھر
پھر تیز ہوائیں چلتی ہیں
آثار ہیں پھر طوفانوں کے
(۵)
جب آگے بڑھیں گے دست و قدم
چالیس کڑور انسانوں کے
ہل جائیں گے گنبد مشرق سے
مغرب تک سب ایوانوں کے
اس نظم میں تخیل کی لطافت اور الفاظ کی موزونیت کے علاوہ اوزان نے ایسی سطوت پیدا کردی ہے کہ معلوم ہوتا ہے چالیس کڑوڑ انسانوں کی فوج پرے جمائے امڈی چلی آتی ہے۔ مولوی فضل الرحمن صاحب اوزان کے بادشاہ ہیں۔ غالباً یہ کمال انہوں نے انگریزی شعراء کے کلام سے حاصل کیا ہے۔
پونا سے واپسی کے بعد فضل الرحمن صاحب سٹی کالج میں معاشیات کے لیکچرار مقررہوگئے جہاں انہوں نے طالب علموں کے دل کو اپنی علمی قابلیت اور پسندیدہ اخلاق سے موہ لیا۔ اور وہ ان کے ایسے گرویدہ ہوگئے کہ جب فضل الرحمن صاحب کو اپنی آزاد منشی کی وجہ سے سٹی کالج کو چھوڑنا پڑا تب بھی وہ ان سے لپٹے رہے۔ فترت کے زمانہ میں ان کا مطالعہ اور ادبی شوق اور بڑھ گیا۔ اس زمانہ کا علمی کارنامہ ان کے تین ڈرامے ہیں جو انگریزی مصنفین کی تصانیفات سے ماخوذ ہیں۔ لیکن فضل الرحمن صاحب نے ان کو مشرقی فضا میں اردو کا جامہ پہنا کر اس خوبی سے پیش کیا ہے کہ یقین نہیں آتا کہ ان کے پلاٹ انگریزی سے لیے گئے ہیں۔ مثلاً ’’نئی روشنی‘‘ میں فصاحت بیگم کے الفاظ الٹ پھیر اور غلط استعمال میں مسز میلپروپ (Mrs Malaprop) سے کسی طرح کم نہیں ہنسائیں۔ ۲؎
فضل الرحمن صاحب جتنے متین اور سنجیدہ ہیں اتنی ہی ان کی شخصیت شوخی اور مزاح پر مائل ہے۔ لیکن ذوق پاکیزہ ہے۔ ان کی شکل و صورت بھی اچھی ہے۔ کھلا ہوا رنگ، کھڑا نقشہ، بڑی بڑی آنکھیں، متوسط قدر و قامت، چھریرا بدن۔ بات کرتے ہیں تو شرافت ٹپکتی ہے۔ ظاہر و باطن یکساں ہے۔ کوئی طمطراق نہیں۔ پھر بھی اپنے وقار کا بڑا خیال رکھتے ہیں۔ ان ہی صفات نے حیدرآباد کے نوجوان طبقے میں ان کو بہت محبوب کردیا ہے۔ حیدرآباد کے اسٹیج کی بنیاد اور رونق ان ہی کی سعی کا نتیجہ ہے۔ حکومت کو بھی ان کی قابلیت کو ماننا پڑا۔ حیدرآاد کے لاسلکی کے محکمہ کی اصلاح کے ضمن میں ولایت بھیجے گئے۔ اور اب اس محکمہ کے افسر اعلیٰ ہیں۔ ادبی اور علمی شوق کو عوام میں ترقی دینے کے علاوہ اس محکمہ کے اور فرائض کو بھی خوبی سے انجام دے رہے ہیں۔
فضل الرحمن صاحب کا مطالعہ وسیع ہے۔ اور حقائق اور قدرت کے کرشموں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ یہ رجحان ان کی اکثر نظموں میں نمایاں ہے۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔
یہ پہاڑ یہ نہریں یہ کھیت یہ بن
یہ زمین جو ہے جلوؤں میں رشک چمن
وہ ستارے جو پھول ہیں روشنی کے
وہ فلک جو ہے نور کا باغِ عدن
یہ سہانے نظارے یہ پیاری زمیں
وہ فضائیں فلک کی وہ چرخ بریں
یہ ہے برق کے ذرّوں کا ناچ پیا
وہ ہے بجلی کی لہروں کا کھیل سجن
(۲)
یہ ہوائیں جو باغوں میں مست ہیں سب
یہ درخت جو شیشہ بدست ہیں سب
یہ بہار اور نکہت ورنگ کی مے
یہ صراحیٔ لالہ یہ جام سمن
یہ سہانے نظارے یہ پیاری زمیں
وہ فضائیں فلک کی وہ چرخ بریں
یہ ہے برق کے ذروں کاناچ پیا
وہ ہے بجلی کی لہروں کا کھیل سجن
(۳)
یہ شگوفے حسینوں کی جن میں ادا
یہ نسیم کا رقص یہ موجِ صبا
یہ پرند یہ پیت کے مارے ہوئے
نہیں بجھتی پریم کی جن کے اگن
یہ سہانے نظارے یہ پیاری زمیں
یہ فضائیں فلک کی وہ چرخ بریں
یہ ہے برق کے ذرّوں کا ناچ پیا
وہ ہے بجلی کی لہروں کا کھیل سجن
(۴)
یہ بشر ہے جو ہے خلق کا لخت جگر
ہے جو ساری خدائی کا نور نظر
ہے یہ کون سے ذرّوں کا ناچ پیا
ہے یہ کون سی لہروں کا کھیل سجن
یہ تخیل و فکریہ ذہن رسا
یہ تکلم و نطق یہ ذوق نوا
ہے یہ کون سے ذرّوں کا ناچ پیا
ہے یہ کون سی لہروں کا کھیل سجن
ایلکٹرون (Electron) کے متعلق سائنس کے جدید نظریے کا جس خوبی سے اظہار کیا گیا ہے وہ شاعر کے کمال کو دکھانے کے لیے کافی ہے۔ تیسرے بند میں،
یہ پرند یہ پیت کے مارے ہوئے
نہیں بجھتی پریم کی جن کے اگن
اہل ذوق کو تڑپا دیے ہیں۔ آخری بند میں بشر کی حقیقت پر شاعر کا استعجاب اس کے مذہبی رنگ کو بڑے انوکھے اور دلکش انداز میں پیش کرتا ہے۔
لارڈ ٹینی سنن نے اپنی مشہور نظم پرنسس (Princess) میں کہر کے نظریے کو بڑے سلیقہ سے بیان کیا ہے۔ اب آپ اسی موضوع پر فضل الرحمن صاحب کی نظم’’ کرشمہ وجود‘‘کا بھی کچھ حصہ سن لیجیے :
نہ زمیں بنی تھی نہ آسماں
نہ ستاروں کے تھے چراغ یاں
فقط ایک دھندلی سی کہر تھی
فقط اک سیاہ سا کچھ دھواں
*
نہ یہ مہر و ماہ کی گردشیں
نہ یہ ابر و باد نہ بارشیں
نہ یہ روز و شب نہ یہ بحر و بر
نہ یہ دشت تھے نہ یہ گلستاں
*
ابھی ماہ و سال گزرنے تھے
ابھی لاکھوں نقش ابھرنے تھے
نہ لکھی تھی وقت کو ہاتھوں نے
ابھی زندگی کی یہ داستاں
اٹھا شور چارسو یک بیک
مچی دھوم فرش سے عرش تک
وہ جو کھلے وجود کے راستے
وہ چلا حیات کا کارواں
*
غم زندگی کی یہ ابتدا
تھی خوشی کی اصل میں انتہا
کہیں دور میں قدح زمیں
کہیں رقصِ محفل آسماں
*
کبھی آفتاب کی روشنی
کبھی چادر ابر بہار کی
کبھی ماہتاب کے نور سے
لگا جگمگانے یہ خاکداں
*
رہِ ارتقا کا وہ سلسلہ
کہ نہ جس کی حد نہ کچھ انتہا
جو حقیر ذرے تھے کل کے دن
ہے آج انجم ضو فشاں
*
کہیں جلوے حسن و جمال کے
کہیں شعلے شمع خیال کے
غرض اک نگہ کے اشارے میں
ہوئے سرفرازیٔ دوجہاں
شاعر اس نظم میں بھی اپنے مذہبی اعتقادات سے نہیں ڈگمگایا ہے۔
ہنگامہ ہستی کی قدامت پر ایک نظم فضل الرحمن صاحب نے ’’دائمی منظر‘‘ کے عنوان سے لکھی ہے۔ یہ بھی نہایت پسندیدہ ہے اور بہت مقبولیت حاصل کرچکی ہے۔ اس کے بھی چند بند نقل کرتا ہوں :
یہی دنیا تھی یہی گرمیٔ بزم عالم
یہی گیتی یہی ہنگامہ نسل آدم
رنج و راحت تھے اسی طرح جہانیں قوام
دل شاداں بھی یہی تھا یہی چشم پرنم
*
وادیٔ نیل میں یا سامری گلزاروں میں
بابلستان کے آراستہ بازاروں میں
ہند کے مندروں میں چین کے درباروں میں
نقشِ الفت تھا بہر رنگ دلوں پر قائم
*
ساعت موت یہی زیست کے دن رات یہی
حسن اور عشق کی دزدیدہ ملاقات یہی
عہد و اقرار یہی حرف و حکایات یہی
گرچہ موجود نہ تھے روئے زمیں پر ہم تم
*
راہ گیروں کی سرا منزل فانی ہی سہی
چھاؤں ڈھلتی ہوئی بہتا ہوا پانی ہی سہی
سر بسر ابر و ہوا سیل در دانی ہی سہی
اس روانی پہ بھی ہے منظر ہستی دائم
فضل الرحمن صاحب کا ذوق نہایت نفیس ہے۔ اور وہ اعلیٰ پایہ کے نقاد بھی ہیں۔ میں ان صفات کی بناپر ان کو دکن کی اردو شاعری کا میتھوؔ آرنلڈ سمجھتا ہوں۔ ان کا کلام ایک استادانہ حیثیت رکھتا ہے۔ اور حیدرآباد کے نوجوان شعراء کے لیے زبان کی پاکیزگی، بحور کی موزونیت، تخیل کی لطافت اور مضامین کی بلندی کے قابل تقلید نمونے ان کی نظموں میں موجود ہیں۔
زبان کی سادگی اور ان کے ثقہ عشقیہ رنگ کو دکھانے کے لیے میں ایک اور نظم موسومہ ’’جگت دیوی‘کو پیش کرنے کی جرأت کرتا ہوں۔
جگت دیوی
کبھی دھوپ کے روپ میں مسکرانا
کبھی چھپ کے بدلی میں آنسو بہانا
شعاعوں سے سورج کی ماتھے پہ افشاں
شفق سے ہتھیلی پہ مہندی لگانا
ستاروں سے مکھڑا چھپانے کی خاطر
پھراودی گھٹاؤں کو آنچل بنانا
سبھا میں کبھی شہر والوں کی آکر
لجائی نگاہوں سے بجلی گرانا
کبھی قتل کرنا جلانا کبھی پھر
کبھی یونہی شور قیامت مچانا
ادھر دور رہنے کی آنکھوں سے کوشش
ادھر دل میں رس بس کے شوخی دکھانا
اُدھر ڈھونڈھنا حیلے انجان بن کر
ادھر پیت کی ریت من کو سکھانا
دکھاکر کبھی بے رخی زندگی بھر
دل و جاں کو سو سو طرح آزمانا
کبھی بن کے آرام جاں بن بلائے
دکھی دل کی ہردم تسلی کو آنا
غرض اس کی چاہت کا کوئی بھروسہ
نہ کچھ بیر اور دشمنی کا ٹھکانا
حیدرآباد کے ایک شاعر کا کلام آپ ملاحظہ فرماچکے۔ اب دوسرے کاملاحظہ فرمائیے،
سکندر علی وجدؔ
سکندر علی صاحب وجدؔ ضلع اورنگ آباد کے مردم خیز خطے میں پیدا ہوئے۔ مقام پیدائش دیجاپور ہے۔ جو اپنی خوشگوار اور لذیذ میوں کے لیے اب بھی مشہور ہے۔ ٹھیک سن ولادت ۱۹۱۴ عیسوی ہے۔ تعلیم کے لیے یہ اورنگ آباد آئے۔ جس کے تاریخی حالات اور قدرتی مناظر نے ان کے ذہن اور دماغ پر گہرا اثر کیا۔ چنانچہ فرماتے ہیں،
تری پائندگی یوں ہنس رہی ہے انقلابوں پر
سمندر جیسے ہنستا ہے حقارت سے حبابوں پر
زمانہ میں ترے آثار کی توقیر ہوتی ہے
تری آغوش میں تہذیب اہل ہند سوتی ہے
رہی چشم مذاہب تیرے درپر خونچکاں برسوں
رہیں گے دامن کہسار میں جن کے نشاں برسوں
ہے تیری وادیوں میں عزم خلجی بے قرار اب تک
فضا میں ہمت تغلق کا اڑتا ہے غبار اب تک
ولیؔ کے نغمہ جاں سوز گونجے تیری محفل میں
سراج بزم عرفاں سے اجالا ہے ترے دل میں
ترے ہی ساز پر میں نے سنے نغمے جوانی کے
ترے ماحول میں سیکھے ہیں گرُ جادو بیانی کے
تخیل پر مرے منقوش ہے تیری بہار اب تک
مرے آنسو تری الفت کے ہیں آئینہ دار اب تک
سکندر علی صاحب جب اورنگ آباد پہنچے اس وقت مولانا عبدالحق وہاں کے مدرسے کے صدر تھے۔ ان کے علمی شوق، اعلیٰ کردار اور پرجوش محبت نے اورنگ آباد میں ایک خاص فضا پیدا کردی تھی۔ جس سے ہر طالب علم کے دل میں استاد کی تقلید کا ایک والہانہ جذبہ امنڈ آتا تھا۔ سکندر علی صاحب کی خداداد ذہانت اور سادہ دیہاتی زندگی مولوی صاحب کو بے حد پسند آئی۔ اور وہ سکندر علی صاحب پر خاص عنایت فرمانے لگے۔ شاعر کی موجودہ زندگی میں جو اعلیٰ خصائل نظر آتے ہیں، وہ بڑی حدتک اورنگ آباد کالج کی تربیت کا نتیجہ ہیں۔ مثلاً عادات میں بے انتہا سادگی۔ لیکن طبیعت ایسی غیور کہ بادشاہوں کے بھی سامنے بے جا سر نہ جھکائیں۔ پاکیزہ اخلاق، حق پسند، علم و فن کے شیدائی، ظرافت کی طرف مائل، مستقل مزاج، ریا و کبر سے ہزاروں کوس دور۔
اورنگ آباد سے فارض التحصیل ہوکر جب سکندر علی صاحب اعلیٰ تعلیم کے لیے حیدرآباد آئے۔ اس وقت جامعہ عثمانیہ میں شعر و سخن کا اچھا ذوق پیدا ہوگیاتھا۔ ان کے ہم عصروں میں مخدومؔ، میکشؔ، باقیؔ جیسے خوش فکر طالب علم تھے۔
مولوی عبدالحق صاحب بھی شعبہ اردو کی صدارت پر آگئے تھے۔ جن کا فیضان سکندر علی صاحب پر جاری رہا۔ اپنی طالب علمی کے زمانہ میں انہوں نے مجلہ عثمانیہ کی ادارت بھی کی۔ اس طرح ان کی ادبی اور شاعرانہ قابلیت بڑھتی رہی۔ ۱۹۳۵عیسوی میں سکندر علی صاحب نے بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ اور ۱۹۳۶ء میں حیدرآباد سول سروس کے مسابقتی امتحان میں کامیاب ہوگئے۔ چند سال تک اضلاع میں مجسٹریٹ رہے۔ اور اب ہائی کورٹ میں اسسٹنٹ رجسٹراری کے عہدہ پر فائز ہیں۔
سکندر علی صاحب کا چھوٹا قد، چھریرا بدن، گورا رنگ، روشن آنکھیں خاصی جاذبیت رکھتے ہیں۔ یہ جاذبیت ان کی پاٹ دار رسیلی آواز سے اور بڑھ جاتی ہے۔ نظم جب پڑھتے ہیں تو چہرے اور آنکھوں پر کیف کی حالت پیدا ہوجاتی ہے۔ جو سننے والوں کو بھی تھوڑا بہت مدہوش کردیتی ہے۔ شعر کے لیے یہ نغمے کو بہت ضروری سمجھتے ہیں۔ چنانچہ درگاہِ رب العزت میں بطور دعا عرض کیا ہے۔
طرز کہن سے سرد ہوئی محفل ادب
ساز سخن کو نغمہ جدت طراز دے
موسیقیت سکندر علی صاحب کے کلام کی نمایاں خصوصیت ہے۔ لفظی شاعری سے ان کو رغبت نہیں۔ شعر کے مقصد کو یہ اس طرح بیان فرماتے ہیں۔
شعر کے پردے میں راز زندگانی فاش ہو
صرف لفظی شاعری کا وجدؔ میں قائل نہیں
اقبالؔ کے کلام کا اثر ان کے اشعار میں کثرت سے پایا جاتا ہے جو ان کی آئندہ ترقی کے لیے نیک فال ہے۔ سکندر صاحب کی عمر ابھی صرف اکتیس سال ہے۔ تاہم جدت، بلند خیالی، فطرت کا مطالعہ اور عشقیہ سوز و گداز ان کے کلام میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ غزلیات میں غالبؔ اور جگرؔ دونوں سے خوشہ چینی کی ہے۔ پھر بھی ہر ریزی کو اس طرح پیش کیا ہے کہ وہ ان کی طبیعت کے کمال کو ظاہر کرتا ہے۔
سکندر علی صاحب انسان کے دکھ درد اور سماجی مصیبتوں کے لیے ایک محبت بھرا دل رکھتے ہیں۔ ہندوستان میں تیمارداری کا جو اہتمام ہے اس کے اظہار سے شرم آتی ہے۔ مہذب ملکوں میں نرسیں بیمار کی صحت اور ذہنیت دونوں کا جس ایثار اور محبت سے خیال رکھتی ہیں۔ اس کی مدح سرائی مغربی شعراء نے بڑے جوش سے کی ہے۔ ہندوستان میں بھی صنف لطیف خصوصاً شریف خاندان اور نیک کردار خواتین کی توجہ اس نیک خدمت کی طرف زیادہ ہونی چاہیے۔
سکندر علی صاحب نے نرس کی تصویر نہایت خوبی سے کھینچی ہے جو ہماری فرشتہ صفت لڑکیوں کو مقصد حیات کے اس پہلو پرضرور مائل کرے گی۔ انسانی دکھ درد کم کرنا اور راحت اور سکون میں تبدیل کرنا صرف مسرت بخش فریضہ ہی نہیں ہے بلکہ عین عبادت ہے۔
سکندر صاحب اعلیٰ درجہ کے آرٹسٹ ہیں، ان کی جدت طبع اور فن کاری کو اس نظم میں ملاحظہ فرمائیے۔
نسیم آتی ہے سب سے پیشتر تیرے جگانے کو
گلوں سے قبل اوس آتی ہے تیرا منہ دھلانے کو
سحر ملبوس نورانی قمر سے مانگ لاتی ہے
تجھے پہنا کے جوڑا کل جہاں پر پھیل جاتی ہے
ہوائیں مست و عنبر بار تیرے ساتھ آتی ہیں
ترے آنے سے گل ہنستے ہیں کلیاں مسکراتی ہیں
دل پژمردہ پاتے ہیں رہائی بے قراری سے
تری آمد نہیں کم آمدِ بادِ بہاری سے
بلا کی دل نشینی ہے تری گفتار نے پائی
تری رفتار میں ہے موجزن طوفانِ رعنائی
نہاں جذبات مہر و لطف ہیں خدمت گزاری میں
اثراکسیر کا پہناں ہے تیری غمگساری میں
نظامِ دہر کو تھا ناز اپنی بے مثالی پر
عمل تیرا مگر ہے خندہ زن اس کج خیالی پر
آخری شعر نہایت فلسفیانہ ہے۔ قانون قدرت اور انسانی محبت کا مقابلہ کیا ہے۔ ایک روحانیت سے خالی اور دوسری پراثر اور مایہ حیات۔
سکندر علی صاحب کے دل میں وطن اور قوم کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ان کے ابتدائی مجموعۂ کلام ’’لہو ترنگ‘‘ میں جو شائع ہوگیا ہے بہت سی نظمیں وطن پرستی اور قومیت کے جذبے کے تحت لکھی گئی ہیں۔ مثلاً ’’ترانہ دکن‘‘ ’’طالب علم‘‘، ’’نوجوان سے خطاب‘‘، ’’وقت کی آواز‘‘ جن کو پڑھ کر ان کے عزم اور جوش کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ مناظر قدرت اور انسانی فن کاری کے یہ دلدادہ ہیں۔ اجنتا پر جو نظم انہوں نے لکھی ہے وہ عالمگیر مقبولیت حاصل کرچکی ہے۔ بعض بند ملاحظہ ہوں :
جگر کے خون سے کھینچے گئے ہیں نقشِ لاثانی
تصدق جن کے ہر خط پر تحیر خانۂ مانی
مشکل ہے شباب و حسن میں تخیل انسانی
تقدس کے سہارے جی رہا ہے ذوق عریانی
گلستانِ اجتنا پر جنوں کا راج ہے گویا
یہاں جذبات کے اظہار کی معراج ہے گویا
بہانہ مل گیا اہل جنوں کو حسن کاری کا
اثاثہ لوٹ ڈالا شوق میں فصل بہاری کا
چٹانوں پر بنایا نقش دل کی بے قراری کا
سکھایا گرُ اسے جذبات کی آئینہ داری کا
دل کہسار میں محفوظ اپنی داستاں رکھ دی
جگر داروں نے بنیاد جہانِ جاوداں رکھ دی
ہنر مندوں نے تصویروں میں گویا جان بھردی ہے
ترازو دل میں ہو جاتی ہے وہ کافر نظر دی ہے
اداؤں سے عیاں ہے لذتِ دردِ جگر دی ہے
کھلیں گے راز اس ڈر سے دہن پر مہر کردی ہے
یہ تصویریں بظاہر ساکت و خاموش رہتی ہیں
مگر اہل نظر پوچھیں تو دل کی بات کہتی ہیں
کرشمہ ہے یہ ارباب مبہم کی سعی پیہم کا
جنہیں احساس تک باقی نہ تھا کچھ شادی و غم کا
دلوں پر عکس کھینچ آیا تھا جن کے حسن عالم کا
قلم کو نقش ازبر ہوگیا تھا اسم اعظم کا
چٹانوں پر شباب و حسن کی موجیں رواں کردیں
فسوں کاروں نے رنگوں میں مقید بجلیاں کردیں
جہاں چھوڑا خوشی سے جاوداں پیغام کی خاطر
خوشامد اہل دولت کی نہیں کی نام کی خاطر
نہ چھانی خاک دردر کی کسی انعام کی خاطر
جئے بھی کام کی خاطر مرے بھی کام کی خاطر
زمانہ کی جبیں پر عکس چھوڑے ہیں نگاہوں کے
رہیں گے نقش ان کے نام مٹ جائیں گے شاہوں کے
پہلے بند میں یہ شعر لاجواب ہے اور وجدؔ کو صفِ اول کے شعراء میں جگہ دینے کے لیے کافی،
مشکل ہے شباب و حسن میں تخئیل انسانی
تقدس کے سہارے جی رہا ہے ذوق عریانی
سکندر علی صاحب آج کل ایک طویل نظم لکھنے میں مشغول ہیں جو علمی تبحر اور شاعرانہ فن کاری کے لحاظ سے شاید ان کا بہترین کارنامہ قرار دیا جائے۔ اس نظم کا عنوان ’’کاروانِ زندگی‘‘ ہے۔ چونکہ ابھی یہ غیر مکمل ہے اس لیے اس کے متعلق مزید کوئی رائے دینا مناسب نہیں۔ میں ان کی شاعری کے رندانہ رنگ کو دکھانے کے لیے چند شعر ان کی نظم میکدہ سے پیش کرتا ہوں تاکہ آپ بھی لطف اندوز ہوں،
میکدے میں ایک ہی ہنگام تھا
بے حقیقت فرق صبح و شام تھا
جس کو پاسِ ہوش ہے اندر نہ آئے
چشم ساقی کا کھلا پیغام تھا
عام تھی تقسیم لطف زندگی
وقفِ عشرت ہر دل ناکام تھا
قصۂ توبہ رہا بیرونِ در
ہرطرف ذکر مئے گلفام تھا
حال مستی کی عیاں تھی پختگی
فکر عقبیٰ اک خیالِ خام تھا
بزم میں رندوں کے تیور الاماں
جو تھا اپنے وقت کا خیام تھا
نغمہ پیرا تھی حیاتِ جاوداں
زندگی پر موت اک الزام تھا
وجد صاحب کی شاعری کے مختلف پہلو آپ دیکھ چکے۔ اب میں تیسرے شاعر کی کیفیت مختصر طور سے سناتا ہوں،
صاحبزادہ محمد علی خان صاحب میکشؔ
آپ کا تعلق شاہی خاندان سے ہے اس لیے شعر و سخن کا ذوق میراث میں ملا ہے۔ طبیعت میں بلا کی آمد ہے۔ ظاہر میں خاموش نظر آتے ہیں۔ قد ذرا چھوٹا ہے، جسم بھرا ہوا، سانولا رنگ، آنکھیں بڑی، رسیلی، لیکن نظر میں وقار اور حیا کے احساسات عیاں، عمر تینتیس یا چونتیس برس کی ہوگی۔ کلام کا ایک مجموعہ ’’گریہ و تبسم‘‘ ۱۹۳۸ء میں شائع ہوچکا ہے۔ ایک اور مجموعہ ’’نوید‘‘ اب چھپ رہا ہے۔ اور بہت سا کلام غیر مطبوعہ باقی ہے، جامعہ عثمانیہ میں تعلیم پائی جس سے ان کو عشق ہے۔ ابتدائی کلام کے مجموعہ میں بہت سی نظمیں کالج کی زندگی سے متعلق ہیں، اساتذہ کا انہوں نے کمال احترام سے ذکر کیا ہے۔ طلبا کے دل میں وطنیت اور قومیت کے جذبات پیدا کرنے میں ان کا کلام بہت موثر ثابت ہوا ہے۔ فی الحال نشریات کے محکمہ میں موسیقی کے شعبہ کا انتظام ان کے سپرد ہے۔ ان کی خداداد صلاحیت انہماک اورفرض شناسی کا ہر شخص مداح ہے۔
میکشؔ صاحب کا کلام حیدرآباد اور شمالی ہند کے رسالوں میں اکثر چھپتا رہتا ہے۔ اور کافی مقبولیت حاصل کرچکا ہے۔ یہ کسی خاص رنگ کے متبع نہیں۔ اکثر نظمیں موجودہ زمانہ کے مشہور شعراء کے طرز پر لکھی ہیں۔ چنانچہ خود فرماتے ہیں،
میری آنکھوں پر نہیں پردہ فریب رنگ کا
جس میں جو پایا وہی میری زباں پر آگیا
زبان صاف ستھری، طرز ادا واضح، احساسات گہرے اور حقیقی۔ ایک نظم ملاحظہ فرمائیے جس سے اس تنقید کا اندازہ ہوسکے گا۔ نظم کا عنوان ہے،
تم کیا بدلے دنیا بدلی
آنکھ میں آنسو لب پر آہیں
بے رونق ہیں خلوت گاہیں
بند پڑی ہیں پیت کی راہیں
بھٹکی ہوئی پھرتی ہیں نگاہیں
*
سکھ جینے کو راس نہیں ہے
دل کی کلی میں باس نہیں ہے
دنیا کا کچھ پاس نہیں ہے
اپنا تک احساس نہیں ہے
*
اپنا سرکس درپہ جھکاؤں
اپنی حالت کس کو دکھاؤں
راز محبت کس کو بتاؤں
اپنی بپتا کس کو سناؤں
اسی مضمون پر ایک اور نظم سن لیجیے جو جذبات کے لحاظ سے زیادہ مؤثر ہے۔
کسی کی یاد
آتش شرر شوق کی بھڑکاتا ہے کوئی
سینے میں دل راز کو گرماتا ہے کوئی
طوفانِ بلا میرے لیے لاتا ہے کوئی
یاد آتا ہے کوئی
جلووں سے نظر آتی ہیں معمور فضائیں
مستانہ کیے دیتی ہیں مستانہ ادائیں
آنکھوں میں نظر بن کے سماجاتا ہے کوئی
یا دآتا ہے کوئی
جب جوشِ محبت میں نکل جاتی ہیں آہیں
گڑ جاتی ہیں رخ پر مری پُرشوق نگاہیں
دنیائے تصور میں بھی شرماتا ہے کوئی
یاد آتا ہے کوئی
پھرجوش میں آتی ہے مرے درد کی دنیا
پھر حشر بپا کرتی ہے بے تاب تمنا
سوتے ہوئے فتنوں کو جگاجاتا ہے کوئی
یاد آتا ہے کوئی
تیسرے بند میں یہ مصرع
دنیائے تصور میں بھی شرماتا ہے کوئی
نہایت لطیف ہے اور میکش صاحب کے کمال کو ظاہر کرتا ہے۔
میکش صاحب نے شاید طالب علمی کے زمانہ میں ایک نظم ’’جوانی کے گیت‘‘ کے عنوان سے لکھی تھی۔ وہ بھی نہایت دلکش ہے۔ اس میں تخیل کی نفاست کے علاوہ عمل اور کوشش کے فلسفہ کو جس کا سبق اقبالؔ نے مختلف انداز میں دیا ہے میکش صاحب نے بھی نہایت دل پذیر طریقے سے پیش کیا ہے۔ اور استقلال، صبر اور جستجو کو تکمیل حیات کے لیے لازمی قرار دیا ہے۔ نظم ملاحظہ ہو،
جوانی کا گیت
میں اپنے ذوق آرزو سے زندگی بناؤں گا
شرارِ شوق کی تڑپ میں شمع دل جلاؤں گا
جہاں کی سختیوں کو کھیلتے ہوئے اٹھاؤں گا
ترقیوں کی شاہراہ پر قدم بڑھاؤں گا
عمل کے گیت گاؤں گا
جہانِ نو بساؤں گا
ابھی تو میں جوان ہوں
*
رباب دلہن مرتعش ہے نغمہ زار زندگی
رگوں میں بہہ رہی ہے ایک جوئبار زندگی
نفس کی بے قراریوں میں ہے قرار زندگی
قدم قدم پہ لاکھ مشکلیں ہوں مسکراؤں گا
عمل کے گیت گاؤں گا
جہانِ نو بساؤں گا
ابھی تو میں جوان ہوں
*
ہیں جستجو کی بے قراریاں نظر کے نور میں
ہے انکسار کی جھلک شباب کے غرور میں
چھپی ہوئی ہے اک تڑپ سکون کی وفور میں
میں زندگی کی وسعتوں پہ کیف بن کے چھاؤں گا
عمل کے گیت گاؤں گا
جہانِ نو بساؤں گا
ابھی تو میں جوان ہوں
جوانی کی غیرمحدود امنگ اور مدہوشانہ رویہ کے مدنظر یہ مصرع،
میں زندگی کی وسعتوں پہ کیف بن کے چھاؤں گا
میکش صاحب کے زور تخیل کا اچھا نمونہ ہے۔ اس بند کا یہ مصرع بھی،
ہے انکسار کی جھلک شباب کے غرور میں
نہایت لطیف ہے۔
میکش صاحب نے اردو شاعری کو وسعت دینے کے لیے مغربی طرز میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ چنانچہ ایک نظم جو انگریزی سانیٹ (Sonnet) کے انداز میں لکھی گئی ہے پیش کی جاتی ہے۔ عنوان ہے،
چاند اور شاعر
دھان کے کھیتوں کی جانب دیکھتا ہے بار بار
پریت کے مارے ہوؤں کی طرح چہرہ زرد ہے
اس کی بیتابی بتاتی ہے کہ دل میں درد ہے
چاند بھی شاید ہے لذت آشنائے انتظار
قلب کی گہرائیوں میں آرزو مستور ہے
بس گیا ہے جب سے فکرستان ہستی میں کوئی
آگ سی بھڑکا رہا ہے دل کی بستی میں کوئی
قلب شاعر جوشِ احساسات سے مجبور ہے
*
ابر سے چھن چھن کے گرتی ہیں شعاعیں ماہ کی
حسنِ منظر پر حجابِ نور ہے چھایا ہوا
پڑگیا ہے چہرۂ گیتی پہ اک رنگیں نقاب
ہے سکوتِ شام میں آتش نوائی آہ کی
روح تڑپاتی ہوئی قلب گرمایا ہوا
ساغر تخیل میں گویا چھلکتی ہے شراب
*
غزل گوئی میں میکش صاحب کا انداز سخن قدما اور موجودہ دور کے شاعروں سے ملتا جلتا ہے۔ لیکن ان کی مشاق حسن کاری نے پرانے الفاظ اور مضامین کو بھی تازگی بخش دی ہے اور ایسے پیرایہ میں پیش کیا ہے کہ وہ خود انہی کے طبع زاد معلوم ہوتے ہیں۔ قدرتی مناظر اور تاریخی مقامات پر بھی میکش صاحب نے نہایت اچھی نظمیں لکھی ہیں۔ جن میں ’’نظام ساگر ہے اور چاندنی رات‘‘ والی نظم سب میں زیادہ پسند کی گئی ہے۔ عام طور سے یہ نظم ’’ساگر کے کنارے ‘‘ کے عنوان سے مشہور ہے۔
مجھے میکش صاحب کا تازہ غیر مطبوعہ کلام بھی پڑھنے کا موقع ملا۔ خاندان کے لحاظ سے ان کو قدامت پسند ہونا چاہیے لیکن زمانہ کی رو ان کو انقلاب کی طرف بہالے جانا چاہتی ہے۔ قوموں کی وحشیانہ نفسا نفسی، انصاف اور امن کے فریب میں جباروں کا ظلم اور تغلب، کمزوروں کی بیکسی اور زارو نزار حالت، ان سب کا حل سردست ذاتی کوشش، عزم اور قربانی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ اس خیال کی ایک جھلک دکھانے کے لیے میں میکش صاحب کی نظم ’پس پردہ‘ پیش کرتا ہوں۔ سازو سامان شاعرانہ ہے لیکن دل سے وہی صدا آرہی ہے۔
رنگ و بو کے متوالے اے حسن و نور کے دیوانے
ان پردوں کے پیچھے کیسے محشر ہیں تو کیا جانے
کتنے دلوں کے داغ چھپے ہیں جھل مل جھل مل تاروں میں
ماضی کے کتنے لمحے گم ہیں رنگین نظاروں میں
کتنے گناہوں کی تاریکی ہے ان کالی راتوں میں
کتنی بہاریں توڑ رہی ہیں دم ان ہنس مکھ پھولوں میں
کتنے طوفاں جھول رہے ہیں شاخ گل کے جھولوں میں
شبنم جو آسودہ نظر آتی ہے کنول کے سفینے میں
کتنے طوفاں انگڑائی لیتے ہیں اس کے سینے میں
کتنے بے بس پیاسوں کے ٹوٹے ارماں ہیں گلابی میں
کتنے بھوکوں کی آہیں ہیں کھیتوں کی شادابی میں
ڈوبتے ہیں گل پاش شفق کی رنگینی میں شام و سحر
لیکن اس میں کتنی غمگین روحوں کا ہے خونِ جگر
ٹوٹتے تاروں کو لے لے کر کتنی نگاہیں گرتی ہیں
انسانوں کے روپ میں کتنی زندہ نعشیں پھرتی ہیں
برکھا رُت ماتم کرتی پھرتی ہے اب ویرانوں میں
چاندنی راتیں آتی ہیں کھوجاتی ہیں قبرستانوں میں
حسن ملے گا نظاروں میں اب وہ گھڑیاں آئیں گی
اپنے ہاتھوں اپنی بہاریں واپس لائی جائیں گی
اس شاعر کا حسن بیان، تخیل اور جذبات آپ ملاحظہ فرما چکے اب چوتھے شاعر کا حال سنیے۔
مخدوم محی الدین صاحب مخدومؔ
جامعہ عثمانیہ کے سپوت ہیں۔ عربی ادب میں دلیر اور جانباز سورماؤں کے لیے السیف المسلول کا لقب استعمال ہوا ہے۔ مخدوم صاحب کی جرأت اور بیباکی کے لحاظ سے ان کو شمشیر برہنہ، کا خطاب دینا زیبا ہوگا۔ تینتیس سال کا سن ہے لیکن زمانہ کی کھیکڑ خوب اٹھاچکے ہیں اور گرم و سرد سے واقف ہیں، غریبوں کے مصائب و آلام سے ان کا دل بے چین ہے۔ جامعہ عثمانیہ سے ایم۔ اے کی سند حاصل کرنے کے بعد کئی برس تک سٹی کالج (حیدر آباد) میں اردو کے لیکچرار رہے۔ لیکن ان کی حمیت اور قومی جوش نے یہ گوارا نہ کیا کہ ان کا ملک تنگدستی، جہالت، اوہام اور طرح طرح بیماریوں اور وباؤں کا شکار رہے اور اس کو اسی حالت پر چھوڑ دیا جائے اور دست گیری نہ کی جائے۔ چنانچہ دوسال ہوئے سرکاری خدمت سے مستعفی ہوگئے۔ اور اس وقت کپڑا بننے والوں کی جماعت (Textile workers Union) کے صدر اور حیدرآباد کے محکمہ ریلوے کے عمال کی جماعت (Hyderabad Railway Employees Union) کے نائب صدر ہیں۔ مگر زیادہ وقت مزدوروں کی تحریک کی حمایت اور تائید میں گزرتا ہے۔ عزم اور ایثار کا کیا کہنا۔ بڑی مشکل سے بسر ہوتی ہے۔ لیکن ماتھے پر بل نہیں۔ بات کرو تو مردہ دلوں کو توانائی حاصل ہوتی ہے۔ جسم نحیف ہے، رنگ سانولا لیکن اپنے جوش اور باطنی قوت سے مجمعوں پر چھا جاتے ہیں۔ نیلگوں وردی جو ان کی جماعت کا خاص ملبوس ہے ان کے بدن پر بھلی معلوم ہوتی ہے۔ تھوڑی مدت تک قید کی سختی بھی جھیل چکے ہیں۔ لیکن ان کے رویے اور استقلال میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ بلکہ اور پختگی آگئی ہے۔
طالب علمی کے زمانہ میں مخدوم صاحب کا کردار فنکاروں (Artist) کی عادات اور خصائل سے ملتاجلتا تھا۔ سر کے پیچھے کے بال بھی اپنے استاد پروفیسر زورؔ کے تتبع میں فرانسیسی حسن کاروں کے بالوں کی طرح بڑھالیے تھے۔ لیکن اس زمانے میں بھی اپنی صداقت، بے ریائی اور جرأت کی قابل تقلید مثال جامعہ میں آئندہ طلبہ کے لیے چھوڑ گئے ہیں۔ مجلہ عثمانیہ کی ادارت میں بھی مخدوم صاحب نے نمایاں خدمات انجام دیں۔ اس وقت کی نظموں میں جوانی کا ولولہ لیکن ساتھ ہی ایک خاص معصومیت کی شان پائی جاتی ہے۔ ان کی نظم ’طور‘ کے یہ بند ملاحظہ ہوں۔
یہیں کی تھی محبت کے سبق کی ابتدا میں نے
یہیں کی جرأت اظہار حرفِ مدعا میں نے
یہیں دیکھے تھے عشوے، ناز و انداز و حیا میں نے
یہیں پہلے سنی تھی دل دھڑکنے کی صدامیں نے
یہیں کھیتوں میں پانی کے کنارے یاد ہے اب بھی
*
حیا کے بوجہ سے جب ہر قدم پر لغزشیں ہوتیں
فضا میں منتشر رنگیں بدن کی لرزشیں ہوتیں
ربابِ دل کے تاروں میں مسلسل جنبشیں ہوتیں
جفائے راز کی پرلطف باہم کوششیں ہوتیں
یہیں کھیتوں میں پانی کے کنارے یاد ہے اب بھی
*
بلائے فکر فرد اہم سے کوسوں دورہوتی تھی
سرورِ سرمدی سے زندگی معمور ہوتی تھی
ہماری خلوتِ معصوم رشکِ طور ہوتی تھی
ملک جھولا جھلاتے تھے غزل خواں حور ہوتی تھی
یہیں کھیتوں میں پانی کے کنارے یاد ہے اب بھی
*
علی ساگر کے حسین قدرتی منظر میں بھی مخدوم صاحب کے شاعرانہ احساسات جوانی کے خیالات کی ایک پاکیزہ تصویر پیش کرتے ہیں۔
مندرمیں پجاری لگے ناقوس بجانے
وہ ان کے بھجن پیارے وہ گیت ان کو سہانے
تاریکی شب اوڑھ کے رخصت ہوا عصیاں
تقدیس کے جاری ہوئے ہر سمت ترانے
انگڑائیاں لیتا ہوا طوفانِ جوانی
ملتاہواآنکھیں اٹھا فتنوں کو جگانے
کچھ لڑکیاں آنچل کو سمیٹے ہوئے بر میں
گگری لیے سر پر چلیں پانی کے بہانے
چلتی ہیں اس انداز سے دامن کو سنبھالے
صدقے ہوئی شوخی تو بلائیں لیں ادا نے
تالاب پہ افلاک کے گم گشتہ ستارے
آتے ہیں صبح ہوتے ہی ساگر کے کنارے
مخدوم صاحب کے عشقیہ کلام میں بھی مذہبیت یا روحانیت کی جھلک ہم کو ابتداسے ملتی ہے۔ جو ان کی پاکیٔ ضمیر کی دلیل ہے۔ ’انتظار‘ والی نظم کے جو چند شعر میں ذیل میں درج کرتا ہوں شاعرانہ تخیل اور عشقیہ یاس و حرماں کے لحاظ سے بے مثل ہیں۔ لیکن ساتھ ہی مذہبی رنگ میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے،
شب کے جاگے ہوئے تاروں کو بھی نیندآنے لگی
آپ کے آنے کی اک آس تھی اب جانے لگی
صبح نے سیج سے اٹھتے ہی لی انگڑائی
او صبا تو بھی جو آئی تو اکیلے آئی
میرے محبوب مری نیند اڑانے والے
میرے مسجود مری روح پہ چھانے والے
آبھی جاتا کہ مرے سجد و ں کا ارماں نکلے
آبھی جاتا ترے قدموں پہ مری جاں نکلے
ان کا خلوص، صداقت اور حقیقی مذہبی جوش ہی ہے جو مخدوم صاحب کو ان کے موجودہ رنگ میں کھینچ لایا ہے۔ جنگ کے موقع پر لکھتے ہیں،
بربط نواز بزم الوہی ادھر تو آ
دعوت دہ پیام عبودی ادھر تو آ
انسانیت کے خون کی ارزانیاں تو دیکھ
دستِ ہوس سے حسن کی غارت گری تو دیکھ
خود اپنی زندگی سے پشیماں ہے زندگی
قربان گاہِ موت پہ رقصاں ہے زندگی
انسان رہ سکے کوئی ایسا جہاں بھی ہے
اس فتنہ راز میں کا کوئی پاسباں بھی ہے
اوآفتاب رحمت دوراں طلوع ہو
او انجم حمیت یزداں طلوع ہو
مخدوم صاحب کے انقلابی رنگ کے کلام میں دوقسم کی شان نظر آتی ہے۔ ایک جلالی اور دوسری جمالی۔ جمالی شان میں ان کی دو نظمیں ’مسافر‘ اور ’مستقبل‘ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ ان میں مخدوم صاحب کی موسیقیت ٹوٹے ہوئے دلوں کی ڈھارس باندھتی ہے۔ اور اہل قافلہ کی منزلِ مقصود کی جانب رہبری کرتی ہے۔ الفاظ کی سادگی اور موزونیت نے بھی خاص اثر پیدا کردیا ہے۔ ’مسافر‘ کو آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔
ترے ہمرہی کھو گئے رے مسافر
مسافر چلے چل
نہ جانے وہ کیا ہوگئے رے مسافر
مسافر چلے چل
تری منزلیں تیری نظروں سے اوجھل
مسافر
چلے چل چلے چل چلے چل چلے چل
اندھیرے میں اب ساتھ کیا دیکھتا ہے
دیا بجھ گیا ہے
بہرحال چل رات کیا دیکھتا ہے
دیا بجھ گیا ہے
تری منزلیں تیری نظروں سے اوجھل
مسافر
چلے چل چلے چل چلے چل چلے چل
سمجھ موت کی وادیوں سے گزرتا
چلا جارہا ہے
سحر کے تعاقب میں گرتا ابھرتا
چلا جارہا ہے
تری منزلیں تیری نظروں سے اوجھل
مسافر
چلے چل چلے چل چلے چل چلے چل
*
شاعر کا جلالی رنگ دیکھنا ہو تو باغیؔ، جنگؔ، مشرقؔ، موتؔ کا گیت، حویلیؔ، گھرؔ اور زلفِ چلیپاؔ پڑھیے۔ جن میں ملک کی حالت کی المناک اور دردانگیز تصوریں اور طیش اور غضب کی آتش فشاں اور زلزلہ خیز قوتیں نظر آتی ہیں۔ مخدوم صاحب نے مذہب، سماج، حکومت سب کے بری طرح لتے لیے ہیں۔ ’مشرق‘ کی حالت بیان کرنے میں شاعر لکھتا ہے۔
ایک قبرستان جس میں ہوں نہ ہاں کچھ بھی نہیں
ایک بھٹکتی روح ہے جس کا مکاں کوئی نہیں
’حویلی‘ کے عنوان کے تحت فرمایا ہے۔
کوڑھ کے دھبے چھپا سکتا نہیں ملبوس دیں
بھوک کے شعلے بجھا سکتا نہیں روح الا میں
اور زیادہ جوش دیکھنا ہو تو موت کے گیتؔ کا یہ بند ملاحظہ ہو،
زلزلو آؤ دہکتے ہوئے لاوو*آؤ
بجلیوں آؤ گرجدار گھٹاؤ آؤ
آندھیوں آؤ جہنم کی ہواؤ آؤ
آؤ یہ کرۂ ناپاک بھسم کرڈالیں
کاسۂ دہر کو معمور کرم کر ڈالیں
*شاعر نے غالباً انگریزی الفاظ لاوا (Lava) کی جمع لادو استعمال کیا ہے۔
ایک نظم میں نوجوان کو اس لطیف، ہمت افزا انداز میں مخاطب کیا ہے،
اے جواں سالِ جہاں جانِ جہانِ زندگی
ساربانِ زندگی روح روانِ زندگی
جس کے خونِ گرم سے بزم چراغاں زندگی
جس کے فردوسی تنفس سے گلستاں زندگی
بجلیاں جس کی کنیزیں زلزلے جس کے غلام
جس کادل خیبر شکن جس کی نظر ارجن کا تیر
ہاں وہ نغمہ چھیڑ جس سے مسکرائے زندگی
تو بجائے ساز الفت اور گائے زندگی
مخدوم صاحب کا مطالعہ وسیع ہے۔ اور انہوں نے روس کے انقلابی ادب کو خوب پڑھا ہے۔ لیکن شاعر کے کلام میں ان کی اخلاقی صفات کے علاوہ ان کی فن کاری نے بھی سحر کاکام کیا ہے۔ مخدوم صاحب نے جابر نامی ایک تاتاری شاعر کی نظم کاترجمہ کیاہے۔ ترجمہ آزاد ہے لیکن مخدوم صاحب نے اپنی قادر الکلامی سے اصل نظم کے جوش و خروش کو قائم رکھا ہے۔ یہ منظوم ترجمہ بہت مقبولیت حاصل کرچکا ہے۔ اس کا ابتدائی حصہ آپ کے ملاحظہ کے لیے بھی پیش کرتاہوں۔ نظم کاعنوان ہے ’استالین‘
صف اعدا کے مقابل ہے ہمارارہبر
استالین
مادرِ روس کی آنکھوں کا درخشاں تارا
جس کی تابانی سے روشن ہے زمیں
وہ زمیں اور وہ وطن
جس کی آزادی کاضامن ہے شہیدوں کالہو
جس کی بنیادوں میں جمہور کاعرق
ان کی محنت کا اخوت کا محبت کا خیر
وہ زمیں
اس کا جلال
اس کا حشم
کیا میں اس رزم کا خاموش تماشائی بنوں
کیا میں جنت کو جہنم کے حوالے کردوں
کیا مجاہد نہ بنوں؟
کیا میں تلوار اٹھاؤں نہ وطن کی خاطر
میرے پیارے مرے فردوس بدن کی خاطر
ایسے ہنگامِ قیامت میں مرانغمہ شوق
کیا مرے ہم وطنوں کے دل میں
زندگی اورمسرت بن کر
نہ سماجائے گا
قرۃ العین! میری جانِ عزیز
او مرے فرزند و
برق پاوہ مرا رہوار کہاں ہے لانا
میرے نغمے تو وہاں گونجیں گے
ہے مراقافلہ سالار جہاں استالین
*
حیدرآباد کے چار شاعروں کا کلام آپ ملاحظہ فرماچکے۔ نفسیاتی کیفیات اور شاعرانہ خدوخال ہندوستانی شعراء کی ذہنی تاثرات اور عام نقشے سے ملتے جلتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ حیدرآباد ہندستان سے باہر نہیں ہے۔ نوجوانوں کے کلام میں تازگی کے علاوہ ایک بے لوث پن بھی ہوتا ہے جو دل پر بہت اثر کرتاہے۔ نظمیں جو آج کل لکھی جارہی ہیں ان سے طبیعت کو فقط سرور ہی حاصل نہیں ہوتا بلکہ زندگی کے محتلف پہلوؤں کی تکمیل میں مدد بھی مل رہی ہے۔ شاعر کا مرتبہ مصلح اعظم کا سا ہے۔ آئرستان کے شعراء نے اس خطہ کی آزادی اور آئینی ترقی میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ ہم کو ہندوستان کے نوجوان شعراء سے بھی بڑی امیدیں ہیں۔ خصوصاً جب کہ ٹیگور اور اقبال جیسی ممتاز ہستیاں اس جماعت کی علمبرداری کر چکی ہوں۔
حاشئے
(۱) ملاحظہ ہو Journal of Indian arts and Letters صفحات ۲۵۔ ۱۳ جلد بشیر دہم حصہ اول بابت ۱۹۴۴ء
(۲) نئی روشنی کا پلاٹ شیریڈن کے مشہور ڈرامے۔۔۔ The Rival سے لیا گیا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.