Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ابن خلدون اور اجتماعی ارتقاء

تقی احمد سید

ابن خلدون اور اجتماعی ارتقاء

تقی احمد سید

MORE BYتقی احمد سید

    اٹھارہویں بلکہ انیسویں صدی کے نصفِ آخر تک ابن خلدون کے علاوہ بہت کم ایسے مؤرخ گزرے ہیں جنہوں نے تاریخ کی توضیح کی طرف توجہ کی ہو۔ ابن خلدون پہلا شخص تھا جس نے چھ سو اٹھارہ سال پیشتر تاریخ کے موضوع، اس کے دائرہ عمل اور تاریخی ارتقاء کے قوانین پر سائنٹفک طور سے روشنی ڈالی۔ یہی وجہ ہے کہ آج تقریباً مشرقی علوم سے واقفیت رکھنے والے تمام مفکرین ابن خلدون کو فلسفۂ تاریخ اور اجتماعی علوم کا بانی سمجھتے ہیں۔

    ابنِ خلدون سے پہلے اور اس کے بعد بھی ایک عرصہ تک مؤرخ اپنے مطالعے کو محض سیاسی تاریخ اور واقعات نگاری سے آگے نہیں بڑھاسکے تھے۔ اس زمانے کے مفکر یا تو سرے سے حرکت و تبدیلی کا انکار کرتے تھے یا تمام اجتماعی و معاشرتی تبدیلیوں کو رضائے الٰہی کا پابند تصور کرتے تھے وہ نہ تو اس بات کی ضرورت محسوس کرتے تھے کہ ان تبدیلیوں کے اسباب معلوم کریں اور نہ ہی یہ بتاتے تھے کہ رضائے الٰہی سے ان کا کیا مطلب ہے۔

    ایسے مفکرین نے، جو مذہب کو انسانی ترقی کی اساس اور اس کی سب سے اہم قوت سمجھتے تھے تصور اور احساس کے ذریعے تاریخ کی تعبیر کی۔ یہ فلسفی اس اہم بات کو نظرانداز کرگئے کہ مذاہب اور تصورات انسانی ارتقا ءکے محرک نہیں بلکہ خود اجتماعی زندگی کی پیداوار ہیں۔ ان فلسفیوں نے یہ بھی فراموش کردیا کہ ماحول اور کردار میں بنیادی تبدیلیوں کے بعد ایک ہی نظام فکر یا مذہب کا قائم رہنا کسی صورت میں ممکن نہیں۔

    عینی نظریات کی ناکامی کے بعد مفکرین نے خارجی ماحول اور جغرافیائی قوتوں کی جانب توجہ کی۔ اس خیال کے مفکرین نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ تاریخ کوآگے بڑھانے والی قوتیں تصورات نہیں بلکہ جغرافیائی ماحول ہوتاہے۔ یہ لوگ کہتے تھے کہ تصورات اور اندازِ فکر مخصوص جغرافیائی ماحول کی پیداوار ہوتے ہیں۔ تاریخ کے اس تصور کے ساتھ ٹامس بکل کا نام وابستہ ہے جو اس دبستانِ فکر کا سب سے بڑا نمائندہ خیال کیا جاتا ہے۔

    بکل سے پیشتر اٹھارہویں صدی کے بہت سے مفکرین نے اس نظریہ کی ترجمانی کی ہے اور ان میں مونٹسکو اور وائیکو زیادہ مشہور ہیں۔ بعض مؤرخوں نے مونٹسکو کی کتاب Spirit of the Laws (روح قوانین) کو اٹھارہویں صدی کی سب سے اہم تصنیف قرار دیا ہے۔ ان مؤرخوں کی رائے کو آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ خود بکل نے لکھا ہے کہ مونٹسکو کو ان حقائق کاعلم تھا جن سے اس سے پہلے کے مؤرخ بالکل واقف نہیں تھے۔ وہ جانتاتھا کہ انسانی ارتقاء میں انفرادی شخصیتوں اور اس کی صلاحیتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔

    بکل نے ایک اور مقام پر لکھا ہے کہ مونٹسکو پہلا شخص تھا جس نے ایک ملک کی اجتماعی حالت اور اس کے قوانین (JURISPRUDENCE) کے تعلق کو معلوم کرنے کے لیے جو جغرافیائی ماحول کے علم کی مدد لی تاکہ ایک خاص تمدن پر اس کے خارجی ماحول کے اثرات کو پورے طور پر اجاگر کرسکے۔

    فلسفۂ تاریخ اور اجتماعی علوم میں جو تازہ ترین تحقیقات کئی گئی ہیں ان سے بکل کے خیالات کی تردید ہوتی ہے۔ اب یہ پورے طور پر تسلیم کرلیا گیا ہے کہ مونٹسکو وائیکو اور اگسٹ کومٹے سے بہت پہلے ابن خلدون نے اجتماعی مسائل کا مطالعہ کیا اور نہایت واضح طور پر ان نظریات کااظہار کیا۔ مشرقی علوم سے واقفیت رکھنے والے تمام ایسے مفکرین جنہیں ابن خلدون کی تصنیفات کا مطالعہ کرنے کا موقع ملاہے، اس خیال کی تصدیق کرتے ہیں۔

    انیسویں صدی کے اوائل میں مشرقی علوم کے ایک آسٹروی ماہر قان ہمیرپرگسٹال نے ابنِ خلدون کو ’’عربوں کا مونٹسکو‘‘ قرار دیا۔ ہالینڈ کے ذان کریمر کا قول ہے کہ وہ (ابن خلدون) تاریخ تمدن کابانی ہے۔

    ایک جرمن نقاد فان ویسندینگ نے ابن خلدون کو انتہائی منفرد مفکر اور میکاولی اور وائیکو کے مدرسہ فکر کااستاد بتایا ہے۔ اطالوی پروفیسر اسٹیفینوکوریو نے لکھا ہے کہ ’’ابن خلدون ان عظیم شخصیتوں میں سے ہے جنہوں نے تاریخ میں بہت بلندترین مقام حاصل کیے ہیں کیونکہ اس نے میکاولی، وائیکو اور مونٹسکو سے پیشتر ایک نئی سائینس کی طرح ڈالی، تاریخ کی سائنس اور تاریخ کے مطالعے کے تنقیدی اصول اور تاریخی ارتقاء کے قوانین مرتب کیے۔‘‘

    یہی پروفیسر آگے چل کر لکھتاہے کہ ’’اس عظیم بربری مرخ نے کارل مارکس باکونن اور کونسدرانت سے بہت پیشتر معاشرتی انصاف اور معاشیات کے بہت سے اصول معلوم کرلیے تھے۔‘‘

    وہ کہتا ہے کہ ’’اگر ایک طرف معاشرے کی پیچیدہ زندگی کے متعلق نظریات اسے فلسفہ تاریخ میں ایک بلند مقام بخشتے ہیں تو دوسری طرف محنت، ملکیت اور اجرت کی اثر آفرینی کے بارے میں اس کے نظریے اسے ماہرین معاشیات میں ایک بلند اور منفرد مقام بخشتے ہیں۔‘‘

    فرانسیسی عالم مارنیر ابن خلدون کو ’’فلسفی مؤرخ، ماہر اقتصادیات اور اجتماعی علوم کا بڑا عالم‘‘ سمجھتا ہے۔

    ابن خلدون کی تصنیف مقدمہ کو مارنیر ’’عالمگیر قوانین کا مجموعہ‘‘ اور عہدِوسطیٰ کے علوم کی ’’انسائیکلوپیڈیا‘‘ قرار دیتا ہے جس میں اجتماعی علوم کے تمام عناصر موجود ہیں۔

    ان تمام مفکرین کی آراء کو سامنے رکھ کر بلاخوفِ تردید یہ کہا جاسکتا ہے کہ ابن خلدون پہلا مفکر تھا جس نے تاریخ کو سائنس کا درجہ دیا، اس کے اصول وضع کیے۔ تاریخ کا نیا تصور پیش کیا اور بتایا کہ تاریخ کا مطالعہ کن اصول و قوانین کے پیش نظر کرنا چاہیے۔ اس نے پہلی بار تاریخ کا ایک مربوط اور واضح تصور پیش کیا۔ اس نے بتایا کہ انسان کی اجتماعی زندگی پر کون سی قوتیں اثر انداز ہوتی ہیں اور اسے آگے بڑھانے کا موجب بنتی ہیں۔ ابنِ خلدون پہلا شخص تھا جس نے انسانی معاشرے کے ارتقاء کے قوانین معلوم کرنے کی کوشش کی او ریہ غلط فہمی دور کی کہ تاریخ محض گزرے ہوئے زمانہ کے سمجھ میں نہ آنے والے واقعات اور حادثات کا انبار ہے۔ اس نے پہلی بار بتایا کہ تاریخ معاشرے کی حرکت اور ارتقاء کی داستان ہے اور انسانی معاشرہ کا ارتقاء فطری اسباب اور خارجی ماحول کا رہین منت ہے۔ اس نے وضاحت کی کہ انسانی تاریخ انسان کی معاشرتی تاریخ ہے۔

    ابنِ خلدون پہلا مفکر تھا جس نے اس اہم اور بنیادی سوال کاجواب سائنٹفک طور پر دینے کی کوشش کی کہ معاشرے کے ارتقاء کے بنیادی اسباب کیا ہیں۔ جب تک اس سوال کا معقول جواب حاصل نہ کیاجائے زندگی کے متعلق صحیح نقطہ قائم نہیں کیا جاسکتا۔

    مونٹسکو اور بکل سے پانچ سو سال قبل ابنِ خلدون نے معاشرے کی ترقی اور اس کے ارتقاء پر جغرافیائی اثرات کو اجاگر کیا اور انسان کے کردار، رنگ اور ہیئت پر ماحول اور آب و ہوا کے اثرات معلوم کیے۔ اس نے دکھایا کہ کس طرح انفرادی خصوصیات اور اجتماعی ادارے آب و ہوا کے اختلاف سے مختلف ہوتے ہیں۔ اس نے و اضح کیا کہ کس طرح جغرافیائی ماحول انسان کی زندگی، اس کے ذہن او راس کی طرزِ معاشرت کو متاثر کرتا ہے اور معاشرے کی تشکیل اور اس کے ارتقاء پر اثرانداز ہوتا ہے۔

    یورپ کی فکر پر ابنِ خلدون کے اثرات کو معلوم کرنے سے پہلے خود اس کے نظریات کا مختصر طور پر جائزہ لینا ضروری ہے۔

    ابن خلدون کا زمانہ مسلمانوں کے انحطاط کا دور تھا۔ وہ مسلمانوں کے عروج و زوال کی ایک مکمل تاریخ لکھنا چاہتا تھا۔ طریقِ تخفیف اور قوموں کے عروج و زوال کے اسباب پر غور و فکر نے اسے ایک تاریخ مرتب کرنے میں مدد دی۔ اس نے اس خیال کے پیش نظر کہ تاریخ کا مطالعہ کس روشنی میں کرنا چاہیے اپنی تاریخ کا مقدمہ لکھا جو آج کل انسانی ذہن کے بڑے کارناموں میں شمار کیاجاتا ہے اور اسے ایک علیحدہ اور مکمل تصنیف کا درجہ دیا جاتا ہے۔

    ابنِ خلدون کے مقدمہ نے ایک سنگِ میل کی حیثیت حاصل کرلی ہے۔ اس کی سب سے اہم خصوصیت اس کی سائنٹفک اسپرٹ ہے۔ اس کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ جذبات سے علیحدہ رہ کر معروضی نقطہ نظر سے حالات کا تجزیہ کیا گیا ہے اور نتائج اخذ کیے گئے ہیں۔ اپنے زمانے کی تمام مذہبی قدامت پسندی کے باوجود ابن خلدون پر مذہبی تصورات کا اثر بہت کم دکھائی دیتا ہے۔ مقدمہ کے مطالعے سے یہ بات آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ مذہبی تصورات سے زیادہ اس پر یونانی فلسفے کا اثر پڑا۔ البتہ مقدمے میں کہیں کہیں قرآنی آیات کاحوالہ دیا گیا ہے۔ لیکن نہ تو ان آیات سے دلائل میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہی ان کا ابن خلدون کے نظریات کے ساتھ نامیاتی تعلق ظاہر ہوتا ہے۔

    ابن خلدون کے فلسفے کے دو حصے کیے جاسکتے ہیں،

    (۱) اجتماعی زندگی کے عام قوانین اور (۲) اجتماعی زندگی کے ارتقاء کے قوانین۔

    ابنِ خلدون کے نظریات کے دونوں حصے ایک دسرے سے اتنے مربوط ہیں کہ انہیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا، دونوں ایک مربوط موضوع کے اجزا ءکی حیثیت رکھتے ہیں۔ ابنِ خلدون کا موضوع انسان کی اجتماعی زندگی، اس اجتماعی زندگی کے پیچیدہ ادارے اور ان کا آپس میں تعلق ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

    سلطنتوں کے عروج کے وجوہ پر غور کرتے ہوئے اس نے یہ محسوس کیا کہ اجتماعی تبدیلیوں کے وجوہ کا انفرادی افراد کی خواہشات ارادوں یا امنگوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وہ کہتا ہے کہ ان وجوہ کا دارومدارجماعتی خصوصیات اور اجتماعی ماحول پر ہوتا ہے۔ افراد اور معاشرے کے عمل و ردعمل اور اجتماعی حالات کی اثر آفرینی نے اس کی توجہ ان عوامل کی طرف مبذول کرائی جو عام اجتماعی حالات کے ضامن ہوتے ہیں۔ مزید تحقیقات سے ابن خلدون پر یہ بات واضح ہوئی کہ مختلف ممالک اور مختلف زبانوں میں اجتماعی حالات مختلف رہے ہیں۔ نسلی خصوصیات کا بھی اجتماعی حالات کی تشکیل میں دخل ہوتا ہے۔ اس نے یہ بھی محسوس کیا کہ نسلی خصوصیات اور جسموں کی ساخت دائمی و ابدی نہیں۔ بلکہ جغرافیائی ماحول، آب و ہوا، غذا، پانی اور زمین کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ اس طرح ابنِ خلدون نے تاریخ کے دائرے کو اتنا وسیع کردیا کہ اس میں انسان کی اجتماعی زندگی کے تمام پہلو آگئے اور تاریخ علمِ تمدن کے ساتھ وابستہ ہوگئی۔

    ابنِ خلدون کو کبھی یہ خیال نہیں گزرا کہ اس نے تاریخ کی پورے طور پر تشریح کردی ہے اور اس میں کسی ترقی کی گنجائش نہیں۔ اس کے برخلاف ڈکٹر بوڈر نے بتایا ہے کہ اس کی یہ خواہش تھی کہ جس علم کی اس نے طرح ڈالی ہے آنے والے لوگ اسے ترقی دیں وہ چاہتا تھا کہ اس کے شاگرد تاریخ کا مزید مطالعہ کریں اور اسے اپنے زمانے کے مسائل کو سمجھنے کاذریعہ بنائیں۔ عرب میں کوئی ایسا مفکر اور مؤرخ پیدا نہیں ہوسکا جو ابنِ خلدون کی تحقیقات سے فائدہ اٹھا کر فلسفہ تاریخ کو آگے بڑھا سکتا۔ البتہ اٹلی، فرانس، جرمنی اور برطانیہ میں مفکرین نے ابنِ خلدون کے نظریات کو ترقی دی اور انہیں اس بلندی پر پہنچادیا جس کا ابن خلدون کو گمان بھی نہیں ہوسکتا تھا۔

    ابنِ خلدون کے نقش قدم پر چل کر مونٹسکو نے اس بات کو پورے طور پر ثابت کردیا کہ قوموں کے عروج و زوال میں شخصیتوں کا کوئی حصہ نہیں ہوتا اور انفرادی واقعات اور شخصیتیں خود جغرافیائی عمل مثلاً آب و ہوا اور درجہ حرارت کی پیداوارہوتی ہیں۔

    مونٹسکو کہتا ہے کہ طبائع اور کردار کا فرق، جو قوموں کی زندگی میں بڑا اثر ڈالتے ہیں۔ جغرافیائی عمل اور مادی ماحول کا نتیجہ ہوتاہے۔

    مونٹسکو کے نظریات اور اپنے زمانے کی نامکمل معلومات پر بکل نے اپنے فکر کی بنیاد رکھی۔ بکل نے ان نظریات کو پہلی بار پوری تفصیل سے بیان کیا۔ اس نے ان نظریات کو فلسفیانہ رنگ دے کر پورے طور پر مربوط کردیا اور اس کے تضاد رفع کردیے۔ بکل نے انسانی معاشرے پر آب و ہوا، غذا، اور زمین کے اثرات کا پورے طور پر تجزیہ کیا اور بتایا کہ اجتماعِ دولت کا تہذیب کی ترقی پر کس طرح اثر پڑتا ہے۔

    بکل نے پہلی بار بتایا کہ جیسے جیسے انسان اپنے ماحول پر قابو پاتاجاتا ہے معاشرے پر خارجی مادی حالات کا اثر کم ہوتاجاتا ہے۔

    علوم کی ترقی کے ساتھ لوگوں نے بکل کے نظریات کو آگے بڑھایا۔ ریٹزل، ریٹر، ڈاکٹر جیمس اور پروفیسر ہٹنگڈن نے بکل کے نظریے کے مختلف پہلوؤں پر تحقیقات جاری رکھیں اور ان کی وضاحت کی۔ ریٹزل نے تو یہاں تک دعویٰ کیا ہے کہ انسان کی جسمانی ساخت میں آب و ہوا کا سب سے اہم اثر ہوتا ہے۔ پروفیسر ہٹنگڈن کا قول ہے کہ بارش کی مقدار قوموں اور ملکوں کی قسمت کا فیصلہ کرتی ہے۔

    موجودہ ترقی یافتہ نظریات کی روشنی میں اگر ان نظریات کا جائزہ لیاجائے جن کی ابتدا ابنِ خلدون نے کی اور جنہیں مونٹسکو بکل اور اس کے اسکول نے ترقی دی تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ان کے پیشتر نظریات صحیح نہیں ہیں۔

    اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جغرافیائی ماحول اور تقاضے معاشرے پر مسلسل اثر ڈالتے رہتے ہیں۔ لیکن ان کااثر پورے طور پر اجتماعی زندگی کی تشکیل کا ضامن نہیں ہوتا اوریہ کسی صورت میں دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ اجتماعی زندگی کی تبدیلیاں جغرافیائی اثرات کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ رٹیزل کا یہ قول بڑی حدتک صحیح ہے کہ اگر روس کے دریا جنوب کی جانب بہنے کی بجائے شمال کی طرف بہتے ہوتے تو روس کی قسطنطنیہ کی جانب پالیسی مختلف ہوتی اور یورپ کی تاریخ پر اس کا زبردست اثر پڑتا۔ لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ روس کی تاریخ اس کے دریاؤں کے رخ سے بنتی ہے۔

    برطانیہ کے متعلق بھی یہی کہا جاتا کہ اگر گلف اسٹریم کا راستہ تبدیل ہوجائے تو برطانیہ کی تاریخ بدل جائے۔ لیکن اس سے یہ سمجھنا کہ برطانیہ کی اجتماعی زندگی میں جتنی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں ان کا سبب گلف اسٹریم ہے۔ بڑی غلطی ہوگی۔

    ہر ایک جانتا ہے کہ گزشتہ ایک ہزار سال کے عرصے میں دنیا کی جغرافیائی حالت میں کوئی بہت نمایاں تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے لیکن اسی عرصے میں انسانی معاشرے میں کئی بنیادی تبدیلیاں ہوگئی ہیں اور آج کل تو ان تبدیلیوں کی رفتار اتنی تیز ہوگئی ہے کہ ہر شخص اسے محسوس کرسکتا ہے۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آسکتی کہ نسبتاً ایک غیرمتحرک ماحول معاشرے میں زبردست حرکت اور بنیادی تبدیلیوں کا سبب کیونکر بن سکتا ہے۔

    اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ تاریخ کا جغرافیائی تصور صحیح نہیں ہے لیکن اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ انسانی ترقی میں ان تصورات کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ ایسا سمجھنا بنیادی غلطی ہوگی۔ ان تصورات نے انسانی فکر کو آگے بڑھانے میں جو حصہ لیا ہے اس کی اہمیت کو کم نہیں کیا جاسکتا۔ مذہب سے سائنس تک کی ترقی میں ان کا بڑا حصہ ہے۔ اگر یہ تصورات پیدا نہ ہوتے تو انسانی فکر عینیت پرستی سے آگے نہ بڑھتی، بکل کے نظریات نے انسانی تاریخ کو زیادہ بہتر طور پر سمجھنے کے لیے راستے صاف کردیے۔ اور اس نے اتنا مواد جمع کردیا جس سے بعد میں آنے والے مفکرین نے فلسفہ تاریخ میں ایک مکمل انقلاب برپا کردیا۔

    مارکس کے تصورات میں اس کے تاریخ کے تصور کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ یہ بتانا بہت مشکل ہے کہ اگر اس کے سامنے بکل کے نظریات نہ ہوتے تو ان کی کیا شکل ہوتی۔ ہر بڑا مفکر اپنے فکر کی بنیاد اپنے زمانہ کے حالات اور اپنے زمانہ کے فکری اثاثے پر رکھتا ہے۔ مارکسی فلسفہ بھی فرانسیسی انقلابی نظریات، جرمن فلسفہ، برطانوی اقتصادی نظریات اور جغرافیائی تاریخی تصور کے عناصر پر مشتمل ہے۔ ان تمام عناصر نے مل کر ایک نیا نقطہ نظر پیدا کیا ہے۔ لیکن اگر اس کا تجزیہ کیا جائے تو اس کے اجزائے ترکیبی کا پتہ چلانا دشوار نہیں۔ مارکس کانظریہ تاریخ ابن خلدون کے تصورات کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ اگر ہم تاریخ کو صحیح طور پر سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کے ترقی یافتہ نظریات کا انکارنہیں کرنا چاہیے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے