Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اقبال اور جرمن فلسفہ

عمران شاہد بھنڈر

اقبال اور جرمن فلسفہ

عمران شاہد بھنڈر

MORE BYعمران شاہد بھنڈر

    ہر فلسفی کا اپنا ایک فلسفیانہ نظام ہوتا ہے، جس میں حسیات، مقولات (Categories) اور تعقلات (Concepts) کسی فلسفیانہ نظام کے داخلی تقاضوں کے تحت تشکیل دیے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مختلف فلسفوں میں مقولات، تعقلات اور خیالات مختلف مفاہیم رکھتے ہیں اور ان مقولات اور تعقلات کا استعمال جس طریقے سے کیا جاتا ہے اسے سمجھنا آسان نہیں ہے۔ مختلف فلسفیوں کے فلسفوں کے درمیان امتیاز و تفریق بھی اس وقت تک قائم نہیں کی جاسکتی جب تک مقولات اور تعقلات کے تفریقی و امتیازی کردار کا فہم حاصل نہ کرلیا جائے، فلسفوں کے ظاہر اور جوہر تک رسائی حاصل نہ کرلی جائے۔ ظاہری مماثلتیں دیکھ کر قیاس آرائیاں نہیں کی جاسکتیں۔ ہر فلسفے کی عمارت مخصوص قضایا یا ان کی مختلف ترتیب کی بنیاد پر کھڑی کی جاتی ہے۔ یہ بہت مشکل کام ہے کہ کسی فلسفی کی ایک ہی کتاب پڑھ کر اس کے فلسفیانہ نظام کا فہم حاصل کرلیا جائے۔ بڑا فلسفی وہ ہوتا ہے جو گزشتہ فلسفوں کی تعمیر شدہ بنیادوں کو شک کی نظر سے دیکھے، ان میں منطقی نقائص اور تضادات کو تلاش کر کے ان کی تحلیل کرے، یا تحلیل شدہ تضادات میں مزید تضادات کو دکھائے، محض اس لیے کہ بعد ازاں وہ ان منطقی اغلاط سے محفوظ رہ سکے جن کا بصورتِ دیگر وجود میں آنا ناگزیر ہوتا ہے۔ بعض فلسفوں میں مخصوص اصطلاحات ایک مختلف قسم کا کردار ادا کررہی ہوتی ہیں، جسے جاننا غلط فہمی سے بچنے کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے۔ مغربی دنیا میں کوئی ایسا فلسفہ ابھی تک وجود میں نہیں آسکا جسے شک و شبے سے بالا قرار دیا گیا ہو۔ یہ فکری معذوری صرف ہمارے ہاں ہی پائی جاتی ہے کہ ان لوگوں کو فلسفے پر سند تسلیم کرلیا جاتا ہے، جو ایک مخصوص مدار کے گرد گردش کرتے رہتے ہیں۔ ان کی باتوں کو حتمی سمجھ لیا جاتا ہے۔ بڑا فلسفی ایک مخصوص طریقہ کار ( میتھڈ) کی تشکیل کرتا ہے، اس میتھڈ کا اطلاق کرکے شے، حقیقت، وجود، خیال کی ماہیت کو بہتر طریقے سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ایسے فلسفے دنیا کو دیکھنے کا زاویہ نظر تبدیل کردیتے ہیں۔ ایسے ہی فلسفیوں پر ہی سب سے زیادہ تنقید لکھی جاتی ہے۔

    جدید فلسفے میں عمانوئیل کانٹ کا شمار ایسے ہی اہم اور عظیم فلسفیوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے مغربی دنیا میں فلسفیانہ تفکر کے دھاروں اور دنیا کے بارے میں نقطہ نظر کو تبدیل کرکے رکھ دیا تھا۔ اٹھارویں صدی میں جب برطانوی تجربیت اور جرمن عقلیت اپنے حتمی نتائج کی بنا پر بند گلی میں پہنچ چکی تھیں، تو یہ کانٹ ہی تھا جس نے ان دو مختلف فلسفیانہ روایات کی تنقید پیش کی اور اپنے فلسفے کو ’’تنقیدی فلسفے‘‘ کا نام دیا۔ کانٹ کی کتاب ’’تنقید عقل محض‘‘ کا شمار فلسفے کی تاریخ کی چند گنتی کی عظیم کتابوں میں ہوتا ہے۔ یہ کتاب 1781 میں پہلی بار شائع ہوئی۔ اس کتاب میں پیش کیے گئے خیالات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس عظیم فلسفی کے اندر مستقبل میں جھانکنے کی قوت کس قدر زیادہ تھی۔ کانٹ نے 1781 میں خدا کو تخت سے اتارا اور انسان کو مرکز میں لا کھڑا کیا۔ بادشاہت جو یورپ میں خدا کا نعم البدل سمجھی جاتی تھی، اسے ٹھیک آٹھ برس بعد فرانسیسی انقلابیوں نے 1789 کو تہس نہس کیا۔ یورپ میں جاگیرداری اور مسیحی الٰہیات کے انہدام کے تمام تصورات ’’تنقید عقل محض‘‘ میں موجود ہیں۔ کانٹ کے فلسفے کا ماحصل یہ ہے کہ یہ خدا طے نہیں کرتا کہ انسان کو کیسا ہونا چاہیے، بلکہ انسان تعقلی، منطقی، جدلیاتی تجزیے سے خود طے کرتا ہے کہ خدا کی ماہیت کیا ہے؟ انسان کو مرکز میں لانے کے لیے ضروری ہے کہ خدا کو لامرکز کردیا جائے، دونوں کا مرکز میں رہنا ناممکن ہے۔ انسان خدا کا انہدام نہیں کرتا، بلکہ اسے اپنے معاملات میں دخل دینے، اپنے لیے علمی، اخلاقی اور سماجی اقدار کے تعین کے لیے استعمال نہیں کرے گا۔ ’’تنقید عقل محض‘‘ میں تعقلی، منطقی، جدلیاتی انکوائری کے بعد’’آزادی‘‘ کا تصور ایک لازمی نتیجے کے طور پر سامنے آتا ہے۔ ’’آزادی‘‘ ایک یونیورسل تصور ہے، اس کے بغیر اخلاقیات کا تعین ہی نہیں کیا جاسکتا۔ آزادی کے آفاقی تصور ہی میں نوعِ انسانی کی مساوات کا تصور مضمر ہے۔ ہیگل ’’منطق کی سائنس‘‘ میں لکھتا ہے کہ وہ عظیم فلسفی جس نے جدید فلسفے میں جدلیاتی میتھڈ کی بنیاد رکھی، اس کا نام عمانوئیل کانٹ ہے۔ ہمیں یہ حقیقت ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ کانٹ ہی تھا جو تعقل کی بالادستی کا فلسفیانہ جواز ہی نہیں، انسان کی مرکزیت کا تعقلی، منطقی جواز بھی فراہم کرتا ہے۔ ریاستی نظام میں مذہب کے کردار کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیتا ہے۔ نپولین نے ایک بار حکم دیا کہ اس کے سامنے کانٹ کے فلسفے کا خلاصہ پیش کیا جائے۔ خلاصہ سننے کے بعد اس نے کانٹ کو ’’شاطر‘‘ کہہ کر اس کا نام اپنے پسندیدہ لوگوں کی فہرست سے خارج کردیا تھا۔ وجہ یہ کہ اس عہد میں کانٹ کے فلسفے میں انقلابیت کے عناصر نمایاں طور پر موجود تھے۔ عہد حاضر کے یورپ کو آج بھی کانٹ کی تنقید عقل محض میں بآسانی تلاش کیا جاسکتا ہے۔

    کانٹ ایک ایسا فلسفی ہے ساری دنیا میں جس کی تفہیم کا عمل آج تک جاری ہے۔ بیسویں صدی جہاں مارٹن ہائیڈیگر، تھیوڈور اڈورنو، سارتر، وٹگنسٹائن اور ژاک دریدا جیسے عظیم فلسفیوں نے کانٹ کے فلسفے پر کئی کتابیں لکھی ہیں، انہوں نے فختے، شیلنگ، ہیگل، اور مارکس سمیت کئی اہم فلسفیوں کی کانٹ کے بارے میں تشریحات کو چیلنج کیا ہے۔ مغربی دنیا میں ہی کیمپ سمتھ، پال گائر، رابرٹ پپن، سبیٹین گارڈنر، ہنری ایلیسن جیسے کئی اہم شارحین بھی پیدا ہوئے ہیں، جن کی ساری زندگی کانٹ کی تشریحات میں گزر گئی ہے۔ انہوں نے کانٹ پر ایک یا دو نہیں بلکہ بیسیوں کتابیں لکھی ہیں۔ کانٹین فلسفے پر تحقیق کا یہ سلسلہ کہیں رکتا دکھائی نہیں دیتا۔ ہمارے ہاں کانٹ کا کوئی سکالر موجود نہیں ہے، مگر ہر دوسرا شخص ماہرِ اقبالیات ہے۔ صرف کانٹ ہی نہیں سارے مغربی فلسفے کو اقبال کے چشموں سے دیکھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ تصور کرلیا گیا ہے کہ اقبال نے مغربی فلسفے کے بارے میں جو کچھ کہہ دیا ہے وہ اگر وحی نہیں تو کم از کم حدیث کے درجے پر تو ضرور ہے۔ نتیجہ اس عمل کا یہ نکلا ہے کہ ہمارے معاشروں میں جہالت اور قدامت پسندی اپنی جڑیں مزید گہری کرتی جارہی ہے۔ جن لوگوں نے براہِ راست فلسفہ پڑھا ہے وہ جانتے ہیں کہ اقبال فلسفی نہیں تھے، ’’فکرِ اسلامی کی نئی تشکیل‘‘ فلسفے کی کتاب نہیں ہے، محض فلسفے پر اقبال کے تبصروں پر مشتمل ہے۔ انہی تبصروں میں کئی ایسے خیالات پیش کیے گئے ہیں جنہیں چیلنج کرکے ان کا رد پیش کیا جاسکتا ہے۔

    اقبال پہلے ہی خطبے میں کانٹ کی اس بات کی توثیق کرتے ہیں کہ ’’مطلق حقیقت تک رسائی عقلِ محض کے بس کی بات نہیں ہے۔‘‘ ساتویں خطبے میں لکھتے ہیں کہ ’’یہ بات ہم سب کو معلوم ہے کہ سب سے پہلے کانٹ نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا مابعد الطبیعات ممکن ہے؟ اس نے اس کا جواب نفی میں دیا تھا۔‘‘ گہرائی سے دیکھنے سے اندازہ یہ ہوتا ہے کہ اقبال کے ان دونوں اقتباسات کا تعلق کانٹ سے متعلق حقیقت سے کم اور کانٹ سے متعلق اقبال کی خواہش سے زیادہ ہے۔ کانٹ صرف اس مابعد الطبیعات کو چیلنج کرتا ہے جو متصوفانہ فکر اور کانٹ سے پہلے کی تعقل پسند فلسفیانہ روایت سے جڑی ہوئی ہے۔ ان کے برعکس وہ مابعد الطبیعات کو تجربے میں ممکن دکھاتا ہے۔ اقبال نے علمیات، مابعد الطبیعات اور اخلاقیات میں تعقل کے تفریقی اور ممیز کردار کا سراغ لگانے کی کوشش نہیں کی، نہ ہی کانٹین میتھڈ میں نفی کے جدلیاتی کردار کو ہی سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ کانٹ کہتا ہے کہ ’’نظری عقلِ محض کی تنقید اس سعی پر مشتمل ہے کہ مابعد الطبیعات میں جو طریقہ کار اب تک رائج تھا اسے تبدیل کردیاجائے۔‘‘ یعنی مابعد الطبیعات کو ’’تعقل نظری‘‘ کی بجائے ’’تعقل عملی‘‘ یا اخلاقیات میں محسوس کرایا جائے۔ کانٹ محض اس طریقہ کار کی نفی کرتا ہے، مابعد الطبیعات کو ختم نہیں کرتا، اور نہ ہی اس بات کا قائل ہے کہ ’’مابعد الطبیعات ممکن نہیں ہے۔‘‘ کانٹ کی شہرہ آفاق تصنیف ’’تنقید عقل محض‘‘ تعقل کے تجربی اور فوق تجربی تفاعل کی انکوائری کرتی ہے۔ کتاب جہاں پر ختم ہوتی ہے، وہیں سے دوسری کتاب ’’تنقید عملِ محض‘‘ کا آغاز ہوتا ہے۔ انتقاد کی تیسری کتاب میں کانٹ کے فلسفیانہ پروجیکٹ کی تکمیل عمل میں آتی ہے۔ دوسری کتاب کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ کانٹ کے فلسفیانہ میتھڈ میں ’’نفی‘‘ کے مقولے کا حقیقی کردار جدلیاتی نوعیت کا ہے۔ کانٹین ’’نفی‘‘ کو مابعد الطبیعاتی مفہوم میں کبھی نہیں سمجھا جاسکتا، جس کے تحت ایک شے یا تو ہوتی ہے یا نہیں ہوتی۔ کانٹین فلسفے میں تعقل عملی کا اثباتی کردار نفی کے بعد ہی شروع ہوتا ہے اور اس کی تصدیق تعقل نظری کرتی ہے۔ کانٹ جس مابعد الطبیعات کی نفی کرتا ہے، اسے ہی محفوظ بھی کرتا ہے۔ اس طرح تعقل نظری کے اثباتی کردار ہی سے کانٹ کے الفاظ میں ’’عملی-اذعانی- مابعد الطبیعات‘‘ کی تشکیل ہوتی ہے۔

    کسی بھی فلسفی کے فلسفے کو بحیثیت کل سمجھنے کے لیے اس کے فلسفیانہ میتھڈ کی تفہیم ناگزیر ہوجاتی ہے۔ اقبال تعقل کے عملی اور نظری استعمال کو محض اس لیے نہ دیکھ سکے کہ انہیں فقط اپنے الٰہیاتی نقطہ نظر کی توثیق درکار تھی،اس الٰہیات کی جس کا انہوں نے کبھی فلسفیانہ تجزیہ کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی خواہش دلیل پر سبقت لے جاتی اوراقبال علمیات اور اخلاقیات میں تعقل کے مختلف اور امتیازی کردار کو شناخت نہیں کرپاتے اور نہ ہی مابعد الطبیعات کی ایک اگلے مرحلے میں تشکیل کے عمل کو ہی دیکھ پائے ہیں۔

    تعقل کے نظری استعمال کو سمجھنے کے لیے لازمی ہے کہ تجربیت اور عقلیت کا مختصر ذکر کردیا جائے جن کی تنقید کانٹ نے پیش کی تھی۔ تجربیت کی روح یہ ہے کہ اس میں عقلیت کے فعال کردار کو تسلیم نہ کرتے ہوئے علم کو محض حسی ادراک تک محدود کردیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس عقلیت کی روایت میں حسیات کے فعال کردار کو معدوم تصور کرتے ہوئے عقل کو براہِ راست ’’شے فی الذات‘‘ کو جان لینے کا فریضہ سونپ دیا جاتا ہے۔ کانٹ انسانی صلاحیتوں (Faculties) یعنی حسیات، فہم اورتعقل میں تفریق و تضاد کو دکھاتا ہے۔ حسیات ’’شے فی الذات‘‘ تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر ہوتی ہیں، نہ ہی وہ شے فی الذات میں مضمر ’’مطلق‘‘ وجود کو جان سکتی ہیں۔ جو مواد حسیات، فہم کو پہنچاتی ہیں اس کا تعلق شے فی الذات میں شامل مطلق جوہر سے نہیں بلکہ محض مظاہر سے ہوتا ہے۔ اس طرح کانٹ مظہر اور جوہر کے درمیان حد فاصل کھینچتا ہے، جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ فہمِ محض بھی شے فی الذات میں موجود مطلق وجود تک پہنچنے کی بجائے محض حسیاتی معروض تک محدود ہوکر رہ جاتی ہیں۔ فہم کے اندر مقولات بدیہی طور پر موجود ہوتے ہیں اور وہ صرف حسیات سے حاصل شدہ معروض کا جوڑ تلاش کرتے ہیں اور خیال کے ذریعے تعقلات کا اطلاق حسیاتی معروض پر کردیا جاتا ہے۔ اس طرح عقل کا کوئی نظری استعمال باقی بچتا ہی نہیں ہے۔ کانٹ اس حقیقت سے آگاہ تھا، اس کا ایک اہم کام یہ بھی تھا کہ اس نے تعقل کی حدود کو متعین کرنے کے لیے کسی غیر تعقلی یا نام نہاد وجدانی پہلو کو عیاں نہیں کیا تھا۔ تعقل کی تعقل کے ذریعے تحدید کانٹ کو تعقل پسند بناتی ہوئی اسے جرمن تعقل پسند روایت سے جوڑ دیتی ہے۔ اور فہمِ محض کے مقولات اور تصورات کو حسیات سے جوڑ نا اسے تجربیت کے قریب لے آتا ہے۔ اس کا ایک عظیم کارنامہ یہ ہے کہ وہ جدید مباحث میں جدلیاتی طریقہ کار کو بحال کردیتا ہے۔

    ایک نکتہ یہاں پر ذہن نشین رہنا بہت ضروری ہے کہ علمیات اور مابعد الطبیعات میں تعقل کے محدود کردار کو صرف اس لیے اجاگر کیا جاسکا کہ تعقل، مظہر اور جوہر اور بعد ازاں حسیات اور فہم کے درمیان تضادات کی تحلیل کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ لہذا تعقل کا کردار تضاد کے تصور کے تحت محدود ہوتا ہے، لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط ہے کہ کانٹ فہمِ محض کے مابعد الطبیعاتی تصورات کا تجربے پر اطلاق نہیں کرتا۔ کانٹ صرف تجربے سے باہر علم کے حصول کے حوالے سے ان کے کردار کو محدود کرتا ہے، لیکن ان مابعد الطبیعاتی تصورات کا حسیاتی مدرکات پر اطلاق لازمی کرتا ہے۔ یہ اس کا پہلا استعمال ہے، اس کا دوسرا استعمال یہ ہے کہ تعقل حسیاتی ادراک کے بغیر خدا، روح اور ارادے کے تصورات قائم کرتی ہے، اور انہیں اخلاقی عمل سے جوڑ دیتی ہے۔ اس کی تفصیل بعد میں پیش کرتا ہوں، فی الوقت یہ ذہن میں رہے کہ فہمِ محض کے تصورات جب حسیات سے منقطع ہوجاتے ہیں، اس وقت ان کا تصور تو کیا جاسکتا ہے، لیکن ان کو جان کر علم میں اضافہ نہیں کیا جاسکتا۔ علم میں اضافے کے لیے ’’مظہر‘‘ سے موصول حسیاتی ادراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں پر کانٹ پر یہ تنقید کی جاسکتی ہے کہ علم کے حصول کے لیے اس نے حسیات سے موصول معروض کو ضروری گردانا ہے۔ وہی معروض تعقل اور فہم کے درمیان تضاد کو دکھاتا ہے۔ اب اگر حسیات سے موصول معروض کو لازمی سمجھا جائے تو تعقل کا تضادات میں پھنسنا ضروری ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ کانٹ عملی تنقید میں تعقل سے فہمِ محض کے مقولات کا علم حاصل کرنے کا کام نہیں لیتا بلکہ ان کو صرف تصور کرنے کا کام لیتا ہے۔ یہ کانٹ کا ایک اور عظیم کارنامہ ہے کہ اس نے منطقی، تعقلی طور پر یہ ثابت کیا کہ علم حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہمارے حواس ہی ہوتے ہیں۔ ماورائے حواس کسی حقیقت کا تصور تو کیا جاسکتا ہے، لیکن اسے جانا نہیں جاسکتا۔ کانٹ جب یہ کہتا ہے کہ ماورائے حواس کچھ تصورات کے بارے میں خیال کیا جاسکتا ہے تو اس وقت وہ مابعد الطبیعات کا اثبات ہی کررہا ہوتا ہے۔ اور انسان کی تجربی زندگی میں ان تصورات کے اطلاق کا مطلب ہی یہ نکلتا ہے کہ کانٹ نے مابعد الطبیعاتی کو مقرونی شکل دی ہے۔ ہیگل کہتا ہے کہ تعقل کی فوق تجربی انکوائری کانٹ کا عظیم کام ہے۔ فوق تجربیت کی بحالی صرف اور صرف حسیات سے نجات پانے کے لیے تھی، تاکہ تجربیت کی نفی کی جائے۔ جرمن فلسفی نے کانٹ کے موضوعی فوق تجربی میتھڈ کو اختیار کرلیا اور دلیل یہ پیش کی کہ نفی کے عمل سے حسیات کو مکمل طور پر تباہ کیا جاسکتا ہے۔ لہذا واضح رہے کہ کانٹ کے بعد فختے ایسا فلسفی تھا جس نے فوق تجربیت کی گہرائی میں انکوائری کی اور کانٹین مابعد الطبیعات جو کہ جدلیاتی نفی سے تشکیل پارہی تھی اسے مزید ترقی دی، اسی میتھڈ کو ہیگل نے اختیار کیا، اس دعوے کے ساتھ مابعد الطبیعات کو بغیر حسیات میں الجھے ’’تعقلِ محض‘‘ سے جدلیاتی طریقہ کار کے تحت تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ ہیگل ’’منطق کی سائنس‘‘ میں اس کا اظہار کرتا ہے۔

    اقبال کو کانٹ کے فلسفے کے صرف ان قضایا کا علم تھا جن کی وجہ سے کانٹ کی مابعد الطبیعات کیِ نظری جہت محدود ہوجاتی ہے۔ تاہم تعقل نظری جہت کو محدود کرنے کا مقصد اس تعقلی الٰہیات کا دروازہ بند کرنا تھا جس کے نمائندوں میں لائبنیز اور وولف شامل ہیں۔ اقبال جب یہ کہتے ہیں کہ تعقلی الٰہیات کے لیے اتنے حالات خراب نہیں جتنے کانٹ کو دکھائی دیتے تھے، تو اس وقت اقبال، کانٹ کی وولف اور لائبنز پر تنقید کو یکسر نظر انداز کردینے کے علاوہ اقبال کی تعقل عملی کی ساری بحث سے یکسر نابلد ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ اقبال پر لازم تھا کہ اس موقع پر وہ جرمنی میں پہلے سے تشکیل شدہ تعقلی الٰہیات پر کانٹ کے منطقی اعتراضات کا جواب فراہم کرتے۔ تاہم اقبال نے ایسا کچھ نہ کیا۔ یہاں پر یہ واضح رہے کہ کانٹ نے اس مابعد الطبیعات کی نفی کی جسے جرمن فلسفے میں تشکیل دیا جاچکا تھا۔ ان کے برعکس کانٹ اپنی مابعد الطبیعات تشکیل دیتا ہے۔ مابعد الطبیعات کے محض ایک تصور کی نفی کو کل مابعد الطبیعات کی نفی نہیں کہا جاسکتا۔ اور نہ ہی نفی کا کوئی سطحی مفہوم قائم کیا جاسکتا ہے، جو کہ اقبال نے تشکیل دے رکھا ہے۔

    اقبال لکھتے ہیں کہ ’’کانٹ کا نظریہ شے حقیقی اور مظہر کے باعث اس کی مابعد الطبیعات کے امکان کا سوال محدود ہوکر رہ جاتا ہے۔‘‘ یہاں اس نکتے کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ شے حقیقی اور مظہر کے باعث نہیں بلکہ ان کے درمیان حتمی ’’تفریق‘‘ کی وجہ سے مابعد الطبیعات کے لیے نظری تعقل تک محدود ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی تفریق کے باعث تعقل نظری کے محدود استعمال کی بنیاد پر نکالے گئے نتیجے کو اقبال قبول کرلیتے ہیں، یعنی اگر تجربے کی کوئی اور سطح ہو تو کانٹ درست ہے! یہ انتہائی اہم نکتہ ذہن نشین رہنا بہت ضروری ہے کہ مابعد الطبیعات کی تحدید کا قضیہ صرف تعقل نظری میں تعقل کے ذریعے ہی پیدا ہوتا ہے۔ کانٹ مابعد الطبیعات کو ایک باقاعدہ علم کی حیثیت سے تشکیل دینا چاہتا تھا۔ ایک ایسا علم جو کسی وجدانی فعلیت کے تابع نہیں بلکہ ہر طرح کی منطقی، تعقلی بے قاعدگیوں سے پاک ہو۔ ’’تنقید عقل محض‘‘ کے طبع ثانی کے دیباچے اور اس کے آخری باب میں انتہائی باریکی سے تعقل کے نظری اور عملی استعمال کو واضح کیا گیا ہے۔ جہاں تک اقبال کا تعلق ہے تو انہوں نے باطل نتائج نکالنے میں تو بہت جلدی کی ہے، مگر کہیں بھی کانٹین مقولات یعنی ’’شے فی الذات‘‘ اور ’’مظہر‘‘ کے درمیان تفریق کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی ہے اور نہ ہی تعقل عملی کے تحت مابعد الطبیعات کے فعال کردار کی تفہیم کا ہی کہیں ثبوت دیا ہے۔

    تعقل کے عملی استعمال کی فلسفیانہ اساس کو تشکیل دینے سے مابعد الطبیعات کا وہ اثباتی کردار بھی عیاں ہوجاتا ہے جس کو خود کانٹ اس طریقے سے بیان کرتا ہے کہ ’’جب ہم پر یہ واضح ہوجائے کہ تعقل نظری ماورائے حواس کسی عالم کا علم حاصل کرنے سے قاصر ہے تو پھر ہماری توجہ تعقل کے عملی علم کے حصول کی طرف رہنی چاہیے، اس طرح امکانی تجربے کی حدود سے ماورا ہوکر مابعد الطبیعات کے حتمی نتیجے کے طور پرغیر متعین شدہ فوق تجربی تصور کو متعین کیا جاسکتا ہے۔‘‘ (ص، ۱۷) مابعد الطبیعات کے حوالے سے فلسفے کی تاریخ میں یہی وہ طریقہ کار تھا جس کی تشکیل کانٹ نے کی تھی اور روایتی مابعد الطبیعاتی طریقہ کار کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا تھا۔ کانٹ کو اس بات کا خدشہ تھا کہ اس کی کتاب کے سطحی مطالعے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرلیا جائے گا کہ تعقل یا مابعد الطبیعات کا کوئی ’’مثبت‘‘ استعمال نہیں ہے۔ اس بات کو اس نے واضح طور پر محسوس کیا اور اس کا باقاعدہ ان الفاظ میں اظہار بھی کیا تھا کہ ’’اس کتاب کا سرسری مطالعہ اس نتیجے کی جانب لے جائے گا کہ اس کا استعمال صرف منفی ہے، اور وہ یہ کہ یہ تعقل نظری کو تجربے کی حدود سے باہر جانے سے روکتی ہے۔ اس کا پہلا استعمال یہی ہے، مگر یہ استعمال فوراََ مثبت بن جاتا ہے، جب ہم یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ اصول جن کے تحت تعقل نظری تجربے کی حدود سے آگے بڑھنا چاہتی ہے، اس کا ناگزیر نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اس سے تعقل کی حدود میں وسعت نہیں آتی بلکہ وہ محدود ہوکر رہ جاتی ہے۔۔۔ جہاں تک تنقید تعقل نظری کے استعمال کو محدود کرتی ہے، وہ منفی ہے، لیکن جونہی وہ اس مشکل اور رکاوٹ کو دور کردیتی ہے جس سے تعقل عملی کے استعمال کے ختم ہوجانے کا خطرہ ہو، وہ ایک مثبت اور بہت اہم استعمال رکھتی ہے‘‘ (ص، ۸ا۔ ۱۹) جب تک کانٹین میتھڈ کا علم نہ ہو، اس وقت تک کانٹین مابعد الطبیعات کو بھی سمجھا نہیں جاسکتا۔ اقبال کو کانٹ کی مابعد الطبیعات سے متعلق غلط فہمی صرف اس لیے پیدا ہوئی ہے کہ اقبال نے ’’تنقید عقلِ محض‘‘ میں ’’نفی‘‘ کے مقولے کو حتمی تصور کرلیا ہے۔ جدید مغربی فلسفے میں سپائنیوزا وہ پہلا فلسفی ہے جس نے یہ کہا کہ پہلی تعیین نفی سے ہوگی۔ نفی کا یہ مقولہ کانٹین علمیات کا لازمی جزو ہے۔ تعقل کا مابعد الطبیعات کی نفی کا عمل اس کی اپنی نفی کا عمل بھی ہے، محض اس لیے کہ اگلے مرحلے پر نہ صرف خود کو بلکہ مابعد الطبیعات کو بھی بحال کرسکے۔ کانٹین مابعد الطبیعات چونکہ اس کی جدلیات کے تابع ہے، اس لیے اس کی جدلیات کو سمجھے بغیر اس کی مابعد الطبیعات کو بھی نہیں سمجھا جاسکتا۔

    واضح رہے کہ تعقل اپنے راستے کی رکاوٹ کو خود ہی دور کرتی ہے، کسی اور قوت کو خود سے برتر تصور کرتے ہوئے اس کے سامنے سر تسلیمِ خم نہیں کرتی۔ منطقی، تعقلی مباحث میں وجدان کے ذریعے ماورائے تعقل کسی سچائی کی تلاش ایک غیر تعقلی اور غیر منطقی عمل ہے، عہدِ حاضر میں کسی ایسے طریقہ کار کی حوصلہ افزائی قدامت میں پناہ لینے کے مترادف ہے۔ کانٹین مابعد الطبیعات میں تعقل کی یہ تحدید اس کے کل فلسفیانہ پروجیکٹ کا ایک مرحلہ ہے، جسے وہ ’’تنقید عقل محض‘‘ کے آخری باب میں عبور کرلیتا ہے۔ کیا فلسفیانہ مباحث میں ایسا ممکن ہے کہ کسی فلسفی کی آدھی بات پر اپنے مؤقف کی بنیاد رکھ دی جائے؟ بجائے اس کے کہ موصوف کانٹ کے فلسفے کے بنیادی خیال تک رسائی حاصل کرتے، انہوں نے کانٹ کے متعلق ابتدا میں ہی ایسے نتائج اخذکر لیے کہ جن سے ایک طرف تو وہ خود بھی گمراہ ہوئے اور اپنے قارئین کو بھی اسی گمراہی میں دھکیل دیا۔

    تھوڑا آگے چل کر وہ ابنِ عربی کی یہ دلیل پیش کردیتے ہیں کہ ’’ممکن ہے کہ جس شے کو ہم خارجی دنیا کہتے ہیں محض ایک ذہنی تشکیل ہو اور انسانی تجربے کی اور بھی ایسی سطحیں موجود ہوں جن کا تعلق زمان و مکاں کی کسی اور سطح سے ہو۔‘‘ اس فقرے کی ماہیت پر غور کرنے سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ اقبال جو نتیجہ اخذ کررہے ہیں اس کے بارے میں وہ خود بھی یقین سے کچھ کہنے سے گریزاں ہیں۔ یہاں دیکھیں کہ ’’ممکن ہے‘‘ کا استعمال ان کی اپنی تشکیک کو عیاں کررہا ہے۔ جس کے بارے میں انہیں خود بھی یقین نہیں ہے اس کی بنیاد پر کسی دوسرے کے فلسفے کو چیلنج کیسے کیا جاسکتا ہے؟ علمی مباحث میں ایسے رویے ناقابلِ قبول ہوتے ہیں۔ ان رویوں کی شعری قدر تو ہوسکتی ہے، لیکن ان کی فلسفیانہ اہمیت کچھ نہیں ہوتی۔ تعقلی فلسفوں میں ایسے غیر منطقی طریقہ کار کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاسکتا۔ اس طرح تو ہر اس بات کا امکان پیدا کیا جاسکتا ہے جس سے اپنی ہی باتوں کی نفی ہوتی ہو۔ یہاں پر یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ کیا اقبال کو ایسی دنیا کا تجربہ ہوا تھا؟ اگر وہ اس تجربے سے گزرے تھے، تو اس تجربے کے علم سے آگاہ کیوں نہیں کیا؟ انہیں ’’زمان و مکاں کی کسی اور سطح‘‘ سے تعلق رکھنے والے علم پر ایک مقالہ تحریر کرنا چاہیے تھا، پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس علم کی صداقت کو ضبطِ تحریر میں کیسے لایا جاتا؟ کیا اس کے لیے کسی منطقی طریقہ کار کی ضرورت تھی؟ اگر منطقی طریقہ کار اختیار کرلیا جاتا، تو اس طریقہ کار کی صداقت کو بھی منطقی طریقہ کار کے تحت ہی پرکھا جانا تھا۔ یہ ایک ایسا خیال ہے جسے جدید مغربی فلسفہ مکمل طور پر رد کردیتا ہے۔ جدید مغربی معاشروں کا تمام ارتقا اسی قدامت پسندانہ خیال کے انہدام پر کھڑا ہے، جسے اقبال نے بحال کرنے کی کوشش کی تھی اور یہی ایسا خیال ہے جو اقبال کو جدید فلسفے سے خارج کرتا ہوا انہیں قدامت کی اتھاہ گہرائیوں میں لے جاتا ہے۔ بیسویں صدی کے آخری عشروں کے مباحث میں اس خیال کو ایک دفعہ پھر فنا کردیا گیا ہے۔ ژاک دریدا نے ایڈمنڈ ہسرل کے متصوفانہ افکار کی تنقید پیش کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’تقریر اور مظہر‘‘ میں لسانیات کی بنیاد پر ہر طرح کی فوق تجربیت کاانتہائی گہری منطقی بنیادوں پر ابطال کیا ہے۔

    دیکھنا یہ ہے کہ کیا کانٹ کسی ایسے فلسفے کا قائل ہے کہ جس کے تحت حسیاتی تجربے کے علاوہ کسی اور ’’تجربے‘‘ کا امکان ہو۔ البتہ اقبال کی اس غیر منطقی بات کا کانٹین خیال کی تعقلی و منطقی تشکیل سے تقابل نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی کانٹین دلائل کو رد ہی کیا جاسکتا ہے۔ کانٹ کا نومینا جو کہ فہم محض کے مقولات پر مشتمل تھا، تعقل نے جسے بطورِ تصور تسلیم کرلیا تھا، محض اس لیے کہ اخلاقی اصولوں کی پاسداری کے ’’ارادے‘‘ کا بااختیار ہونا ضروری ہے۔ اس تصور کے بارے میں خیال تو کیاجاسکتا ہے، لیکن تعقلِ محض سے جانا نہیں جاسکتا۔ لہذا اگر اس ’’سطح‘‘ کو کانٹین علمیات کی داخلی سطح کہا جائے جس میں تصورات کا ایک سلسلہ بدیہی طور پر موجود رہتا ہے، تو پھر اقبال کی دلیل کا کانٹ پر اطلاق نہیں کیا جاسکتا۔ انتقاد کی دوسری کتاب کے دیباچے میں کانٹ واضح طور پر لکھتا ہے کہ وہ مظہر جس کا تصور ’’وجدانی‘‘ طور پر کیا جاسکتا ہے، اس کی مکمل تصدیق تعقل عملی میں ہوتی ہے۔ کانٹ کا نقص یہ تھا کہ اس نے داخلی اور خارجی میں حتمی تفریق قائم کرلی، جس کا اسے احساس تھا، اسی تفریق کی تحلیل انتقاد کی دوسری اور تیسری کتاب کا مرکزی قضیہ ہے۔

    اقبال مابعد الطبیعات کے تعلق سے تعقل عملی کے تفاعل کی تفہیم میں ناکام رہے ہیں۔ خارجی تجربے کے برعکس فہمِ محض داخلی تجربے کی ایسی ہی صورت تھی، جس میں تعقل نظری کے محدود کردار کو عیاں کرنے کے بعد تعقل عملی کے کردار میں توسیع لانا تھا۔ یہاں یہ اہم بات ایک بار پھر ذہن میں رہے کہ تعقل مابعد الطبیعات کے کھوج میں خود کی نفی کرتی ہے، جس سے مابعد الطبیعات کی نفی بھی ہوتی ہے، مگر اگلے ہی لمحے جہاں مابعد الطبیعات کا اثبات کرتی ہے تو وہاں اپنا بھی اثبات کرتی ہے۔ عملی کردار کی تشکیل تعقلی رہنمائی میں ہوتی ہے، جو خارجی تجربے سے موصول معروضات سے منقطع ہو جاتی ہے۔ خارجی مظاہر سے مکمل کٹ کر تعقل خود پر منعکس ہوتی ہے تاکہ وہ اپنی اس طاقت کا اندازہ کرسکے کہ کیا تعقل حسیاتی ادراک کے بغیر ان فوق تجربی تصورات کا خاکہ تیار کرسکتی ہے کہ جن کا عملی استعمال ممکن ہوسکے؟ اس کوشش میں کانٹ کامیاب تو رہتا ہے مگر اس ثنویت کو ختم نہیں کرپاتا جو نظری اور عملی تعقل کے درمیان موجود ہے۔

    تعقل نظری میں وہ ’’مطلق‘‘ جو ماورائے حواس ہونے کی وجہ سے ’’غیر متعین‘‘ رہتا ہے، نظری تعقل ایک لازمی ’’تصور‘‘ کے طور پر اس کے ’’مطلق‘‘ ہونے کی تصدیق کرتی ہے۔ یہی الٰہیات کی روح تھی جس کے تحت انسان کو بطورِ ایک اخلاقی وجود کے بااختیار کرنا تھا۔ خدا، روح اور ارادہ جیسے تصورات کا تعلق اخلاقیات سے قائم کرنے کے لیے ضروری تھا کہ علمیاتی مابعد الطبیعات کے کردار کو محدود کردیا جائے۔ لیکن یہاں یہ بھی واضح رہے کہ کانٹ ’’تنقید عمل محض‘‘ کے دیباچے میں خدا اور لافانیت جیسے تصورات کواخلاقیات کی شرائط نہیں سمجھتا، بلکہ ارادے کے معروض کی شرط گردانتا ہے، جسے اخلاقی قانون متعین کرتا ہے۔ یہی انسان کی مرکزیت کا تصور ہے جو جدید ’’تنقیدی فلسفے‘‘ کی بنیاد ہے۔ اس کے مطابق خود انسان اپنے افعال کا ذمہ دار ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے