اقبال ؔ اور ان کے معاصرین
ہر عظیم مفکر اور شاعر اپنے عہد سے وابستہ بھی ہوتا ہے اور ماورا بھی ۔وہ اپنے دور کے ماحول و حالات سے متاثر بھی ہوتا ہے اور اس زمانے کے بندھے ٹکے رستوں سے الگ اپنی راہیں بھی تلاش کرتا ہے ۔یہی خوبی اسے کامیابی کی بلندیوں پر پہنچاتی ہے اور منفرد مقام و مرتبہ بھی عطا کرتی ہے ۔اقبالؔ نے بھی مرو جہ روایتی موضوعات کو نئی جہت اور معنیٰ عطا کیے ہیں۔ان کی یہی خصوصیت انہیں دیگر شعرا سے منفرد اور ممتاز کرتی ہے۔
علامہ اقبالؔ برصغیر ہند وپاک کی وہ گراں قدر میراث ہیں جن پر ہم بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں ۔وہ بیک وقت شاعر ‘ مفکر‘ فلسفی و سیاست داں ہی نہیں بلکہ وہ مشرق ‘ ملّت اسلامیہ ‘ ہندوستان اور عالم انسانیت کی حرّیت و اخوت اور اس مقصد کے لئے نشاۃ ثانیہ کے علمبردار ہیں۔اقبالؔ نے شاعری کی جو روش اختیار کی وہ بالکل نئی اور اچھوتی ہے۔چنانچہ اس نئی روش نے اقبالؔ کے ہم عصر شعرا ء پر بڑے گہرے اثرات مرتب کئے۔اس طرح ان کی تقلید میں بھی تیزی سے اضافہ ہوتا گیا ۔اور یہ سلسلہ آج تک کسی نہ کسی شکل میں جاری و ساری ہے۔
علامہ اقبال ؔفطرت کے بہت بڑے پرستار ہیں ۔اپنے تاثرات کو جب وہ اپنے قلبی محسوسات میں سمو کر الفاظ کا جامہ پہناتے ہیں تو دنیائے ظاہر و باطن کا اتصال شعر کی نادر کیفیت اختیار کر لیتا ہے ۔اقبال ؔکی فطرت پرستی ان کے ابتدائی کلام میں زیادہ نمایاں ہے ۔ ان کی نظمیں ذوق و شو ق ‘ و مسجد قرطبہ ‘ ساقی نامہ وغیرہ کے ابتدائی بندوں میں بھی منظر نگاری کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں ۔اس منظر نگاری کے ذریعے اقبالؔ نے اپنے نظریہ حیات کو پیش کیا ہے ۔منظر نگاری کی مثالیں کلام اقبالؔ میں قدم قدم پر نظر آتی ہیں۔ہمالہ ‘ ابر کوہسار ‘ ایک آرزو‘ ماہ نو اور اس قبیل کی متعدد نظمیں مثال کے طور پر پیش کی جا سکتی ہیں ۔
اقبالؔ کی شاعری کے اثر کا سبب ان کے کلام میں بہترین خیالات اور نئے موضوعات کا فنّی اظہار ہے۔ جہاں ان کی فکر نے اس دور کے نوجوان شعرا کی ایک پوری نسل کو متاثر کیا وہاں ان کے ہم عصر شعرا ء بھی اثر انداز ہوئے بنا نہیں رہ سکے۔بلکہ یوں کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ شعرا کی ایک پوری نسل اقبال ؔکے فکر و فن سے کسی نہ کسی حیثیت سے اکتساب فیض حاصل کرنے سے اچھوتی نہ رہی۔چونکہ میرے اس مضمون کا عنوان ’اقبال فکر و فن کے اثرات ان کے معاصرین پر‘ (منظر نگاری کے حوالے سے) ہے ۔اس لئے میں نے صرف ان میں سے چند شعرا کو ہی اس مضمون میں موضوع بحث بنانے کی کو شش کی ہے جنہوں نے اپنے کلام میں دیگر موضوعات کے علاوہ منظر نگاری پر بھی طبع آزمائی کی ہے۔
علامہ اقبا ل ؔ کا شمار ان شعرا میں ہوتا ہے جو اپنے عہد کے ایک بڑے فنکار تو تھے ہی لیکن اس سے زیادہ جو بات انہیں منفرد مقام عطا کرتی ہے وہ ہے ان کی فکر ۔ حقیقتا فن بغیر فکر کے ایک بے جان شئے کی مانند ہوتا ہے ۔ علامہ اقبالؔ نے اپنے کلام میں اپنی اعلی فکر کے ذریعے وہ جان پھونک دی جس کی رمق سے ان کے معاصرین شعرا تو فیضیاب ہوئے ہی ساتھ ساتھ بعد والی نسلوں کو کسی نہ کسی طرح اثر انداز کرتے رہے اور آنے والی نسلوں کو بھی کرتے رہیں گے۔یہ مضمون علامہ اقبال ؔکی منظر نگاری سے اثر انداز ہونے والے چند شعرا کے کلام کا ایک سرسری جائزہ پیش کرنے کی ایک کوشش ہے۔
سیمابؔ اکبر آبادی اقبالؔ کے ہم عصرشاعر تھے ۔ انہو ں نے بھی اس دور کے دیگر شعرا کی طرح علامہ اقبال ؔ کے فکر و فن کے اثر ات کو اپنے کلام میں قبول کیا ۔ انہوں نے اقبالؔ کے پسندیدہ موضوعات پر طبع آزمائی کی ۔ان موزوعات میں ایک اہم موضوع منظر نگاری ہے جو اقبالؔ کی ابتدائی دور کی نظموں میں نسبتا زیادہ دکھائی دیتی ہے ۔ سیمابؔ نے اقبال ؔکی طرح مناظر فطرت سے روح کو پاکیزگی عطا کرنے اور تخیل کی جولانی سے ہمکنار کرنے کا کام لیتے ہیں۔انہوں نے فطری مناظر یعنی دریائوں ‘ کوہساروں ‘ نالوں ‘ ندیوں ‘ جھرنوں اور آبشاروں کی تصویر کشی کی ہے۔ اقبالؔ کی طرح سیماب ؔبھی انسان اور فطرت کو ایک دوسرے کا لازم و ملزوم تصور کرتے ہیں۔اس ضمن میں ان کی نظمیں ’’تاروں کا گیت‘‘ ’’صبح صادق‘‘ ’’ہلال رمضان‘‘ ’’بسنت‘‘ ’’فطرت کی جوگن‘‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ڈاکٹر سلام سندیلوی سیماب ؔکی فطرت نگاری پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’سیماب کی اس ضمرے کی (فطری)نظمیں بہت اہم ہیں ۔مگر اس وادی میں سیما بؔ اقبالؔ سے آگے نہ بڑھ سکے ۔ بلکہ اس کا بھی امکان ہے سیماب ؔاقبالؔ سے اثر پذیر ہوئے ہوں اور ان کی تقلید میں اس قسم کی نظمیں کہی ہوں۔یہ تو تسلیم کرنا ہی ہوگا کہ اقبالؔ کا گہرا اثر ان کے معاصرین پر پڑا ہے۔اس دور کے شعرا نے کچھ نہ کچھ تاثر کسی نہ کسی صورت میں اقبالؔ سے حاصل کیا ہے ۔سیماب ؔبھی اس اثر سے نہ بچ سکے۔‘‘
(اردو شاعری میں منظر نگاری ‘ سلام سندیلوی‘ص۴۸۰)
اقبالؔ نے بانگ درا کی پہلی نظم ’ہمالہ‘ میں پہاڑوں کے سحر زدہ حسن کو اس انداز میں بیان کرتے ہیں ؎
تیری عمر رفتہ کی اک آن ہے عہد کہن
وادیوں میں تری کالی گھٹائیں خیمہ زن
چوٹیاں تیری ثرّیا سے ہیں سر گرم سخن
چشمئہ دامن ترا آئینہ سیّال ہے
دامن موج ہوا اس کے لئے رومال ہے
’’فطرت کی جوگن‘‘ نظم میں سیماب ؔنے پہاڑوں کے حسن کو دل فریب انداز میں بیان کیا ہے ؎
پہاڑ جنّت بنے ہوئے ہیںمحیط ہے نور چوٹیوں پر
کرن جو ہے آبروئے چشمہ وہ آئینے سے بنا رہی ہے
ہے دود میں چاند کا پیالہ ‘ افق پہ پھیلی ہوئی ہے مستی
رواں ہے یوں آبشار گویا ‘ شراب فطرت بہا رہی ہے
فضا یہ رنگین اور سنہری ‘ یہ وقت خاموش اور ٹھنڈا
یہ ہے طلسم نظر فریبی ‘ کہ رات جادو جگا رہی ہے
نظم ’ہمالہ‘ میں اقبال ؔندی کی روانی کو یوں بیان کرتے ہیں ؎
آتی ہے ندی فرازکوہ سے گاتی ہوئی
کوثر و تسنیم کی موجوں کو شرماتی ہوئی
آئینہ سا شاہد قدرت کو دکھلاتی ہوئی
سنگ رہ سے گاہ بچتی گاہ ٹکراتی ہوئی
چھیڑتی جا اس عراق دلنشیں کے ساز کو
اے مسافر دل سمجھتا ہے تری آواز کو
مندرجہ بالا نظم ہمالہ کی عظمت کے تاثر سے شروع ہوتی ہے اوراس کے ساتھ ساتھ کئی حسین مناظر کو بھی پیش کرتی ہے ۔طور سینا‘ دستار فضیلت‘ ثریا ‘ کوثر و تسنیم جیسے الفاظ و تراکیب سے ایک رفعت کا احساس دلاتی ہے ۔منظر نگاری میں حسن بھی ہے اور برگزیدگی بھی ہے جو ایک سنہرے دور کی یاد دلاتی ہے ۔
سیمابؔ اقبالؔ سے نہ صرف فکری اور نظریاتی اعتبار سے ہی متاثر تھے بلکہ فنّی اعتبار سے بھی انہوں نے اقبالؔ ہی سے کسب فیض حاصل کیا ہے۔سیمابؔ نے اقبال ؔکے فنی رموز و علائم کو اپنی شاعری میں منتقل کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
جوش ؔملیح آبادی کو شاعر انقلاب کے ساتھ ساتھ بجا طور پر ایک منظر نگار شاعر بھی کہا جا سکتا ہے۔انہوں نے بھی براہ راست اقبالؔ کے اثر کو دیگر نظموں کے علاوہ اپنی منظر یہ نظموں میں قبول کیا ہے۔ اس سلسلے میں رئیسہ پروین لکھتی ہیں :
’’جوشؔ کے کلام میں جابجا اقبالؔ کے اسلوب و آہنگ‘ موضوعات و تراکیب ‘ علامات و تشبیہات‘ کا استعمال کثرت سے ملتا ہے۔خصوصیت سے جوشؔ اقبالؔ کی قومی و وطنی ‘ اور فطری شاعری سے زیادہ متاثر نظر آتے ہیں۔‘‘
(بیسویں صدی کی اردو نظم پر اقبال کے اثرات‘ رئیسہ پروین‘ص۲۰۶)
جوشؔ نے مناظر فطرت پر جو نظمیںلکھی ہیں ان میں زیادہ تر نظموں پر اقبالؔ کے اسلوب اور لفظیات کا اثر دیکھنے کو ملتا ہے۔اقبال ؔنے اپنی نظم’’ ساقی نامہ‘‘ کے پہلے بند میں ندی کی روانی کو اس خوبی کے ساتھ پیش کیا ہے کہ ہر لفظ سے نغمگی اور ترنم کی سریلی آواز سنائی دیتی ہیں۔ندی جو اقبال ؔکے یہاں زندگی کا پیغام دیتی ہے ‘ کہتے ہیں ؎
وہ جوئےکہستاں اچکتی ہوئی
اٹکتی لچکتی سرکتی ہوئی
اچھلتی پھسلتی سنبھلتی ہوئی
رکے جب تو سل چیر دیتی ہے یہ
پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ
ذرا دیکھ اے ساقی لالہ فام
سناتی ہے یہ زندگی کا پیام
جوش ؔنے اپنی نظم ’’گرئیہ مسرّت‘‘ میں ندی کی روانی کواقبالؔ کے انداز بیاں میں یوں پیش کیا ہے ؎
جھاگ اڑاتی ‘ پھاندتی اڑتی ہوئی
کپکپاتی ‘ لوٹتی مڑتی ہو ئی
چلبلی ‘ ابھری ہوئی ‘ نکھری ہوئی
چیختی ‘ سر پھوڑتی ‘ بپھری ہوئی
بجلیاں دامن میں چمکاتی ہوئی
دمبدم آتی ہوئی جاتی ہوئی
اس طرف سے اس طرف ہوتی ہوئی
پتھروں کو چھانٹتی دھوتی ہوئی
(بیسویں صدی کی اردو نظم پر اقبال کے اثرات‘ ص ۲۱۴)
جوشؔ کی نظمیں ’شام کا رومان ‘ او ر ’ کسان ‘ کا اسلوب بیان بھی اقبالؔ سے اخذ کیا ہوا معلوم پڑتا ہے۔شام کے خاموش منظر کی طلسماتی فضا کو اقبالؔ نے جابجا قلم بند کیا ہے۔جوشؔ نے بھی شام کے خاموش منظر کو اپنی نظم ’کسان‘ میں اقبالؔ کے انداز میں پیش کیا ہے۔شام کے وقت دریا کی نرم روی اور شفق کے بدلتے ہوئے رنگ ‘ مناظرفطرت پر ایک سحر انگیز سکوت طاری کر دیتے ہیں۔چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎
چھٹپٹے کا نرم رو دریا شفق کا اضطراب
کھیتیاں میدان خاموشی غروب آفتاب
زیر لب ارض و سما ں میں باہمی گفت و شنید
مشعل گردوں کے بجھ جانے سے اک ہلکا سادور
خامشی اور خامشی میں سنسناہٹ کی صدا
شام کی خنکی سے گویادن کی گرمی کا گلہ
دوب کی خوشبو میں شبنم کی نمی سے اک سرور
چرخ پر بادل زمیں پر تتلیاں سر پر طیور
پتّیاںمخمور کلیا آنکھ چھپکاتی ہوئی
نرم جاں پودوں کو گویا نیند سی آتی ہوئی
اقبالؔ کی طرح جوشؔ کا بھی محبوب ترین موضوع مناظر فطرت کی عکاسی رہا ہے لیکن جوشؔ کی منظر نگاری پر عنفوان شباب کی رنگینیوں اور جذبات کا غلبہ ہے لیکن اقبالؔ کے یہاں یہ سستی مصوری دیکھنے کو نہیں ملتی۔
جوشؔ کی نظم نگاری کے سلسلے میں خلیل الرحمٰن اعظمی تنقیدی نظر ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’جوش ملیح آبادی کی نظم نگاری اپنے اسلوب اور طریق کار اور مزاج کے اعتبار سے پرانی نظم نگاری سے زیادہ قریب ہے اور اقبالؔ کی نظم کے مقابلے میں پس ماندہ ہے۔‘‘
(نئی نظم کا سفر ۱۹۲۵ء کے بعد ‘ خلیل الرحمٰن اعظمی‘ص‘۹۸)
افسرؔمیرٹھی نے بھی منظر نگاری کے حسین مرقعے پیش کئے ہیں ۔ان کی نظموں میں بلا کی دلکشی اور انکوکھا پن ہے ۔وہ فطرت نگاری اور جذبات نگاری کے دلدادہ ہیں اوراس میں انہیں مہارت بھی حاصل ہے۔یہ تمام خصوصیات انہیں اقبالؔ سے قریب کرتی ہے۔
’’مسجد قرطبہ‘‘ اقبالؔ کی شہرئہ آفاق نظم ہے جو بڑی خوبصورت بحر میں لکھی گئی ہے۔جس نے ان کے کلام میں ترنم کی لئے کو تیز ترکر دیا ہے۔افسرؔ نے بھی جوئے رواں کی پہلی نظم ’’مقامات نور ‘‘ اسی بحر میں لکھی ہے۔کہتے ہیں ؎
اس کی فضائوں میں گم
انجم و شمس و قمر
اس کے یہاں جبرئیل
طائر بے بال و پر
دل میں ہے راز حیات
لب پہ رموز کتاب
محرم صد خیر و شر
مرکز صد خشک و ترر
اس کے جلوئو ں میں رواں
طائر لیل و نہار
اس کی نظر سے عیاں
باطن شا م و سحر
ساز میں پیدا ہے سوز
سوز سے پیدا ہے ساز
افسرؔ میرٹھی نے اپنی نظموں میں اقبال ؔکے تصوّرات و خیالات سے بھر پور استفادہ کیا ہے ۔انھوں نے اقبالؔ کے فکری آہنگ اورفلسفیانہ بصیرت سے بھی بھر پور روشنی حاصل کی ہے۔بقول حامد کاشمیری :
’’افسر میرٹھی کی نظموں میںاسمٰعیل میرٹھی اور اقبالؔ کی بعض نظموں کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے۔‘‘
(جدید اردو نظم اور یورپی اثرات‘ حامد کاشمیری‘ص۳۱۰۔۳۰۹)
افسر ؔکی ایک نظم’’ بزم گہہ تصوّرات‘‘ ہے جس میں انہوں نے اسلوب ‘ تخیلات اور تصورات اقبالؔ سے اخذ کئے ہیں ۔
افسرؔ میرٹھی نے اپنی نظموں میںاقبالؔ کے تصوّرات اور خیالات سے بھرپور استفادہ کیا ہے ۔ان کی فکری آہنگ اور فنی و فلسفیانہ بصیرت کو بھی اپنی شاعری میں پیش نظر رکھا ہے۔
حفیظ ؔجالندھری فطری مناظر کے دلدادہ ہیں انھوں نے مناظر فطرت کا غائت مطالعہ کیا ہے اور اپنی نظموں میں بڑے ہی خوبصورت انداز میں برتا بھی ہے۔ان کی نظمیں جلوئہ سحر ‘ برسات ‘ تاروں بھری رات‘ راوی میں کشتی ‘ ہمالہ ‘ کہسار ‘ سچی بسنت‘ تصویر کشمیر ‘ صبح و شام میں مناظر فطرت کی دلفریب عکاسی ہے۔
ان کی نظموں میں اقبالؔ کی نظموں سا ترنم بھی ہے اور روانی اسلوب بھی ۔ان کی نظم’ ’ تصویر کشمیر ‘‘ سلاست و نغمگی بکھیرتی ہے اور ایک دلفریب فضا نظر کے سامنے گھوم جاتی ہے جوکہ اقبالؔ کے کلام کا خاصہ رہا ہے ۔چند اشعار درج ہیں ؎
برف کے دو زاد تودے زر کے آئینہ دار
نقرئی جھیلوں میں صبح وشام عکس زر نگار
نغمہ خواں جوشاں خروشاں آبشار و جوئبار
خندئہ قدرت گل اندر گل بہار اندر بہار
کیوں شگفتہ ہو نہ دل اک شاعر دلگیر کا
ایک پہلو یہ بھی ہے کشمیر کی تصویر کا
( نظم : تصویر کشمیر: حفیظ ؔجالندھری)
اقبال ؔ کشمیر کی وادی لو لاب کا نقشہ اس طرح کھینچتے ہیں ؎
پانی ترے چشموں کا تڑپتا ہوا سیماب
مرغان سحر تیری فضائوں میں ہے بیتاب
اے وادئی لو لاب
اقبالؔ کی نظم ’ہمالہ‘ اپنے حسن بیان اور رواں آہنگ کے باعث اردو شاعری کی ایک عمدہ نظم ہے ۔ اس نظم میں اقبالؔ نے ہندوستان کی عظمت کو کوہ ہمالہ کے وسیلے سے پیش کیا ہے ؎
تیری عمر رفتہ کی اک آن ہے عہد کہن
وادیوں میں تیری کالی گھٹائیں خیمہ زن
چوٹیاں تیری ثرّیا سے ہیں سر گرم سخن
تو زمیں پر اورپہنائے فلک تیرا وطن
چشمئہ دامن تیرا آئین سیّال ہے
دامن موج ہوا جس کے لئے رومال ہے
حفیظ ؔ کی نظم ’ ہمالہ ‘ اسی طرز کی نظم ہے جس تخیل کی بلند پروازی اقبال ؔسے ملتی جلتی ہے۔ملاحظہ کریں ؎
یہ اونچے شامیانے دست قدرت نے لگائے ہیں
یہ لا تعداد خیمے سبز مخمل سے سجائے ہیں
یہ دیو زادوں کا جنگل قدرتی پریوں کی بستی ہے
یہاںخاموشیاں اگتی ہیں موسیقی برستی ہے
یہاں پگھلی ہوئی چاندی کے فوّارے اچھلتے ہیں
یہاں سوتے یہاں چشمے ابلتے ہیں
یہ منزل ہے ہوا کے برشگالی کاروانوں کی
یہیں پر ختم ہوتی ہے بلندی آسمانوں کی
یہاں آکر زمیں نے آسماں کی ہمسری کر لی
یہاںمٹی نے حاصل دو جہاں کی سروری کر لی
کوئی دیکھے یہاں آکر تبسم لالہ زاروں کے
ترنم جوئباروں کے تکلم آبشاروں کے
(بیسویں صدی کی اردو نظم۔۔۔۔ص۲۴۳)
اقبالؔ کی ایک نظم ’’کنارے راوی ‘‘ ہے جس میں دریائے راوی کی سبک خرامی اور شام کے وقت شفق کی رنگینیوں کی سرخی سے جو طلسمی فضا پیدا کردی ہے وہ قابل دید ہے ؎
سکوت شام میں محو سرود ہے راوی
نہ پوچھ مجھ سے جو ہے کیفیت میرے دل کی
پیام سجدے کا یہ زیر و بم ہوا مجھکو
جہاں تمام سواد حرم ہوا مجھ کو
شراب سرخ سے رنگیں ہوا ہے دامن شام
لیے ہے پیر فلک دست رعشہ دار میں جام
حفیظؔ نے ’توبہ نامہ‘ میں راوی کی سنہری و سیمیں لہروں کے حسن کی تصویر کچھ اس طرح کھینچی ہے ؎
اف وہ راوی کا کنارہ وہ گھٹا چھائی ہوئی
شام کے دامن میں سبزے پر بہار آئی ہوئی
وہ شفق کے بادلوں میں نیلگوں سرخی کا رنگ
اور راوی کی طلائی نقرئی لہروں میں جنگ
رئیسہ پروین نے حفیظؔ کی نظموں میں اقبالؔ کی نظموں کی جھلک کا بیان اس طرح کرتی ہیں :
’’حفیظ جالندھری کی فطری نظموں میں ’ہلال چاند‘ ’ بہار میں اترا ہوا دریا‘ ’برسات‘ ’ہمالہ‘ ’توبہ نامہ‘ ’تاروں بھری رات‘ ’شام رنگیں‘‘ وغیرہ میں دلکش نظارے قاری کا دل موہ لیتے ہیں اور اقبالؔ کی نظم ’بزم انجم ‘ کی یاد دلاتے ہیں ۔
( بیسویں صدی کی اردو نظم پر اقبال کے اثرات ۔۔رئیسہ پروین ‘ ص ۲۴۳)
اقبالؔ نے سحر کا استعارہ زندگی کی علامت کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ اسی طرح حفیظ ؔ بھی صبح کی آمد کو زندگی کی گہما گہمی سے تعبیر کرتے ہیں ۔حفیظ ؔکے کلام پر اقبالؔ کے مجموعے کلام’’ بانگ درا‘‘ کا گہرا اثر دیکھائی دیتا ہے۔اقبالؔ کی طرح حفیظؔ کو کشمیر سے بڑا گہرا لگائو تھا ۔انہوں نے کشمیر سے متعلق بھی کئی نظمیں لکھی ہیں ۔اس سلسلے میں صابر آفاقی رقمطراز ہیں:
’’کشمیر نے حفیظؔ کو شاعری کا جو رنگ دیا اور ان کے قلب و ذہن کو جو ضیاء بخشی اسے اقبال ؔکا پرتو کہنا چاہئیے۔‘‘
(اقبال اور کشمیر‘ ڈاکٹر صابر آفاقی‘ ص ۷۳۔۷۲)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.