’’ایک شب پروانے ایک جگہ اکٹھے ہوئے۔ اپنے دلوں میں شمع سے ہم کنار ہونے کی آرزو لئے ہوئے۔ تب ان میں سے ایک پروانہ شمع کی تلاش میں اڑا۔ اس نے دورسے شمع کو جلتے ہوئے ایک نظر دیکھا۔ واپس آیا اور پھر دوسرے پروانوں کے سامنے شمع کے بارے میں بڑی دانشمندی سے باتیں کرنے لگا۔ مگر پروانوں میں سب سے عقل مند پروانے نے کہا یہ پروانہ ہمیں شمع کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکتا۔ تب ایک اورپروانہ اڑا۔ وہ شمع کے اس قدر قریب چلا گیا کہ اس کے پروں نے شمع کے شعلے کو چھو لیا۔ مگر تپش اتنی زیادہ تھی کہ وہ اس کی تاب نہ لاسکا اورواپس آگیا۔ واپس آکر اس نے بھی شمع کے اسرار پر سے پردہ اٹھایا اور بتایا کہ شمع سے وصال کی کیا نوعیت ہوتی ہے۔ مگر عقل مند پروانے نے کہا کہ تمہارا تجربہ بھی اتناہی بیکار ہے جتنا تمہارے ساتھی کا۔ تب تیسرا پروانہ اڑا اور اس پروانے نے جاتے ہی خودکوشمع کے حوالے کردیا۔ پھر جب وہ شعلے سے ہم کنار ہوگیا توشمع کی طرح لو دینے لگا۔ جب عقل مند پروانے نے دور سے دیکھا کہ شمع نے پروانے کو خود میں جذب کرلیا ہے تواس نے کہا کہ اس پروانے نے اپنے عشق کی تکمیل کردی ہے لیکن اس تجربے کو صرف وہی جانتا ہے کوئی اور نہیں جان سکتا۔‘‘
یہ تمثیل فریدالدین عطار کی ہے اور عشق کے بارے میں توحید وجودی مسلک کو بڑی خوبی سے پیش کرتی ہے۔ یعنی یہ کہ سالک خود کو ’’حقیقت‘‘ میں اس طور جذب کردے جیسے پروانہ خودکو آگ میں جذب کردیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں عشق کا سفر واپسی کا سفر نہیں ہے۔ جزو جب کل سے مل جاتا ہے تو جزو نہیں رہتا، قطرہ جب سمندرسے ہم کنار ہوتا ہے تو خود سمندر بن جاتا ہے۔ مگراقبال کے تصور عشق کے مطابق اصل اہمیت نہ تو اس پروانے کو حاصل ہے جس نے محض دور سے شمع کو دیکھا اوراس وہم میں مبتلا ہوا کہ اس نے شمع اور اس کے نور کا عرفان حاصل کرلیا ہے اور نہ اس پروانے کو جو شمع کے شعلے میں بھسم ہوگیا اور اپنے تجربے کی ترسیل ہی نہ کرسکا بلکہ اس پروانے کو جس نے شمع کو مس کیا، اس کے روبرو اپنے وجودکو برقرار رکھا۔ اس سے نور کا اکتساب کیا اورپھر اپنے اس تجربے کو دوسروں تک پہنچانے میں کامیابی حاصل کی۔ یہ مسلک اصلاً توحید شہودی مسلک ہے۔
عشق کے بارے میں فریدالدین عطار کی پیش کردہ تمثیل سے عشق کے چھ مدارج کا علم حاصل ہوتا ہے۔ دیکھنا چاہئے کہ یہ چھ مدارج کیا ہیں اور اقبال نے ان مدارج سے گزرتے ہوئے کس حد تک عشق کے روایتی تصور سے ہٹ کر اپنے لئے ایک نئی راہ تراشی ہے۔
عشق میں پہلا مرحلہ وہ ہے جہاں عشق حسن کو اپنے سامنے پاکر مبہوت ہوجاتا ہے۔ گویا حسن کی نمود ہی سے عشق کا جوالامکھی جاگتا ہے اورپھر باہر کی طرف امڈنے پر خودکو مجبور کرپاتا ہے۔ جہاں تک تصوف کے عشق کا تعلق ہے تو وہ بے شک کسی مادی محبوب کے سراپا سے بظاہر منسلک نہیں تاہم اپنے مزاج اور کارکردگی کے اعتبار سے وہ مادی عشق ہی سے مشابہ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ فارسی اور اردو کے صوفی شعراء کے ہاں زیادہ تر جنسی تلازمات ہی کے ذریعہ عشق کی ساری داستان بیان ہوئی ہے۔ تاہم یہ عشق مادی محبوب سے ماورا بھی ہے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ وہ حسن لازوال تک پہنچنے کے لئے مادی حسن کو ایک نردہان کے طورپر استعمال کرتا ہے۔ مادی حسن سے مراد صرف محبوب کا سراپا نہیں ہے۔ اس میں ندیوں کا خرام، پہاڑوں کا پھیلاؤ، پھول کا گداز، کوئل کی پکار، ستاروں کی جگمگاہٹ اور دیگر مظاہر فطرت کی کوملتا، نکھار اور تجلی سب کچھ شامل ہے۔ الغزالی نے کہا تھا کہ حسن ازل روشنی کا ایک کوندااور تجلی کی ایک لپک ہے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ نے جب خدا کو دیکھنے کی خواہش کی تو وہ کوہ طورپر انہیں روشنی کا ایک کوندا ہی دکھائی دیا تھا جو حسن ازل کی صرف روشنی تک ہی محدود نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مادی حسن کی ہر صورت ایک کھڑکی ہے جس میں سے صوفی کو حسن ازل کی جھلک دکھائی دے سکتی ہے۔
اقبال کے ہاں بھی اول اول حسن ازل مظاہر فطرت میں جلوہ گر دکھائی دیا تھا۔ مگرپھر آہستہ آہستہ اس کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا۔ بالخصوص اقبال کی بعد کی شاعری میں عشق کا ایک نہایت توانا تصور ابھرا ہے اوریہ عشق ایک طرف تو اس ’’حسن‘‘ کے لئے ہے جو خدا کے بے شمار ناموں میں سے ایک نام ہے اور دوسری طرف اس مرد کامل کے لئے ہے جو منتخب بھی ہے اور بے مثال بھی، رہبر بھی ہے اور منزل بھی، اقبال کے ہاں شروع سے آخرتک حسن کی اہمیت برقرار دکھائی دیتی ہے۔ چنانچہ ’’جاوید نامہ‘‘ میں بھی جوپہلی بار ۱۹۳۲ء میں شائع ہوئی۔ اقبال نے ’’ندائے جمال‘‘ اور ’’تجلی جلال‘‘ کا خاص طورپر ذکر کیا ہے اوریہ دونوں حسن ہی کے پہلو ہیں۔ بہرحال عشق میں پہلا مقام وہ ہے جہاں ایک عام آدمی کے برعکس عاشق کو اپنے چاروں طرف پھیلی ہوئی کائنات کے مظاہر میں حسن منعکس دکھائی دیتا ہے اور وہ اس حسن کی ڈور سے بندھا ہوا اس دیار میں جانکلتا ہے جو حسن ازل کی ضیا پاشیوں سے عبارت ہے۔ یہ وہی صورت ہے جو فریدالدین عطار کی تمثیل میں پروانے کے پیش نظر تھی جب دور سے شمع کی جھلک پاتے ہی وہ بے تاب ہوگیا تھا۔
عشق کے سفر میں دوسرا مرحلہ وہ ہے جہاں عاشق محبوب کے گرد ایک پروانے کی طرف طواف کرنے لگتا ہے۔ گویا براہ راست شمع کو مس کرنے کے بجائے اس کے گرد چکر لگانے کی ایک رسم یعنی Ritual سے گزرتا ہے۔ اس رسم کو قدیم زمانے کی اس رسم کے مترادف بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ جس کے تحت وہ شے جس کی قربانی دینی مقصود ہوتی ہے اس شے کے گرد جس کے لئے قربانی درکار ہوتی ہے ایک دائرے کی صورت میں بار بار گھمائی جاتی۔ اقبال نے جس تغیر کے ثبات کا ذکر کیا ہے وہ کائنات کی مسلسل گردش ہی کا دوسرا نام ہے۔ اس گردش کو آپ رقص بھی کہہ سکتے ہیں۔ تاہم اس بات کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے کہ محض گرد بے معنی بات ہے کیونکہ جب تک گردش کسی ’’مرکزی نقطے‘‘ کے گرد نہ ہو ارتکاز، خود فراموشی یا جذب کی دو حالت سدا نہیں ہوسکتی جو عشق کے سفر کا تیسرا مرحلہ ہے (اس کا ذکر آگے آئے گا) اقبال نے مغرب کے فلاسفروں کی سوچ سے ایک قدم آگے بڑھایا جب انہوں نے عقل کی مدد سے طے ہونے والے ’’سیدھی لکیر کے سفر‘‘ میں عشق کے بعد کا اضافہ کیا۔ عشق دائرے میں گھومتا ہے اور ’’محبوب‘‘ کے گرد پروانہ وار طواف کرتا ہے۔ چنانچہ اقبال کے ہاں ایک طرف تو پوری کائنات ’’مرکز عظمیٰ‘‘ کے گرد بے پناہ رفتار کے ساتھ طواف کرتی نظرآتی ہے اور دوسری طرف مرد مومن کائنات کی اس رفتار سے ہم آہنگ دکھائی دیتا ہے۔
عشق کا سفر سیدھی سڑک کا سفر نہیں، دائروں کا سفر ہے۔ مراد یہ نہیں کہ عشق محض ایک مستقل دائرے کا پابند ہے بلکہ وہ دائرہ در دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ مگر عشق بجائے خود ’’شعور‘‘ سے متصف نہیں۔ اس کا شعور تو ’’مرد مومن‘‘ ہے۔ عشق اگراسپ نیز گام ہے تو مرد مومن اس کا راکب ہے۔ جس کے ہاتھ میں گھوڑے کی باگ ہے۔ مرد مومن کی ساری قوت گھوڑے میں ہے بعینہ جیسے اساطیر کے مطابق دیو کی جان طوطے میں بند ہوتی تھی۔ صوفیاء کے ہاں صورت یہ ہے کہ صوفی کے ہاتھ میں باگ نہیں ہوتی اوراس لئے وہ مجبور ہے کہ عشق کی بے پناہ قوت کی زد میں آکر ایک گرداب کی طرح گھومتا چلا جائے اورپھر ’’ایک‘‘ میں ضم ہوجائے (مولانا روم کے رقاص درویشوں کی مثال پیش نظر رہے) مگر اقبال کے مرد مومن کو شعور ذات بھی حاصل ہے۔ اس لئے وہ باگ کی مدد سے ایک حد تک اپنی جہت کے تعین پر قادر بھی ہے۔ تاہم اصل بات وہ حرکی قوت ہے جسے عشق کا نام ملا ہے۔ دوسری بات وہ ’’خاص رفتار‘‘ ہے جس کے بغیر عشق اپنی تگ و دو میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اس ’’خاص رفتار‘‘ کی کارکردگی کے بارے میں کولن دلن نے ایک مزیدار بات کہی ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ روزمرہ کی زندگی اس جنگلے کی طرح ہے جس میں ہر سلاخ کے بعدایک درز ہوتی ہے اگرآپ درز کے ساتھ آنکھ لگاکر دیکھیں تو آپ کو جنگلے کی دوسری جانب ایک محدود سا حصہ نظر آئے گا لیکن اگر آپ کار پر سوار ہوکر برق رفتاری سے جنگلے کے ساتھ سے گزریں تو تمام درزیں یکجا ہوجائیں گی اور آپ کو جنگلے کے پار کا پورا منظر دکھائی دے جائے گا۔ مگر رفتار شرط ہے۔ یہی حال عشق کا ہے۔ اگرعشق اس ’’خاص رفتار‘‘ کو قائم نہ رکھ سکے اور سست پڑ جائے تو عاشق کی نظروں کے سامنے دوبارہ پردے تن جائیں گے اور وہ جلوہ حق سے محروم ہوجائے گا۔ عشق کی یہ قوت فرائڈ کے ’’ایڈو‘‘ شوپناور کی ’’زندہ رہنے کی خواہش‘‘ نطشے کی ’’غالب آنے کی قوت‘‘ اور برگساں کے ’’جوش حیات‘‘ سے مشابہ بھی ہے اورمنسلک بھی۔ لیکن ان سے مختلف بھی ہے کہ اس میں معرفت کا بعد بھی شامل ہے اوراس کی حیثیت سراسر تخلیقی ہے اسی طرح اقبال کا مرد مومن جواس عشق کا راکب ہے سوپنہاور کے ’’نابغہ‘‘ نطشے کے ’’فوق البشر‘‘ کارلائل کے ’’ہیرو‘‘ اور ویگز کے ’’سیگفرڈ‘‘ سے مشابہ تو ہے لیکن ان سے جدا بھی ہے اوریہ اضافی خوبی وہ دولت فقر ہے جس سے دوسرے محروم ہیں۔
عشق جب مرد مون کی تحویل میں آتا ہے تو وہ زندگی کی عام سطح سے اوپر اٹھ کر تخلیق کاری کی سطح کو چھونے لگتا ہے نہ کہ اضطراب کی سطح کو۔ اس لحاظ سے بھی اقبال کے مرد مومن کو نطشے کے فوق البشر پر سبقت حاصل ہے کہ موخرالذکر ایک مسلسل اضطراب کی زد میں آیا ہوا شخص ہے جبکہ مقدم الذکر ایک ایسے تخلیقی کرب سے گزرتا ہے جو اسے متحرک کرتا ہے نہ کہ مضطرب۔ اضطراب میں بکھراؤ ہے۔ مضطرب انسان کثرت کی علامت ہے۔ انتہائی مایوسی کے عالم میں وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ گیا ہے جبکہ تخلیقی سطح کو چھونے والے مرد مومن کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اندر سے مجتمع ہے بلکہ یہ کہ اس کی ذات کے مختلف حصے آپس میں جڑ کر لو دینے لگے ہیں۔ اندر کی یہی روشنی عشق کا امتیازی نشان ہے۔ لیکن اس روشنی کا حصول مکمل ارتکاز اور انہماک کے بغیر ناممکن ہے اور یہی عشق کے سفر کا تیسرا مرحلہ بھی ہے۔
عشق میں ’’طواف‘‘ مکمل ارتکاز کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ طواف کا کام یہ ہے کہ وہ ذہن اور جسم کی رفتار کے فرق کو مٹاکر انہیں ہم آہنگ کردیتا ہے۔ یوں نہ صرف شخصیت جڑ جاتی ہے بلکہ خواہشات کا وہ بکھراؤ اور ذہن کی وہ بے قراری بھی ختم ہوجاتی ہے جو ’’جلوۂ حق‘‘ کے راستے میں ایک رکاوٹ تھی مگر سوال یہ ہے کہ عشق میں ارتکاز کی یہ کیفیت کیوں کر قائم ہوتی ہے نیز اس کی نوعیت کیا ہے؟
مذہب، تصوف اور فن، ان تینوں میں ’’ارتکاز‘‘ کے بغیر روشنی کے کوندے تک رسائی ممکن نہیں۔ مذہب میں عبادت اور دعا ہے یہ کیفیت قائم ہوتی ہے، تصوف میں حالت وجد سے اور فن میں حالت خودفراموشی سے!
عبادت بنیادی طورپر ایک اجتماعی فعل ہے۔ اس کے ابتدائی نقوش قبائلی زندگی کے رقص میں ملتے ہیں جو پورے قبیلے کو فطرت سے ہم آہنگ کرنے کی ایک کاوش ہے۔ ترقی یافتہ مذاہب میں عبادعت کا دائرہ در دائرہ پھیلاؤ پورے معاشرے کو خدا کے روبرو لاکھڑا کرات ہے۔ عبادت میں پورا گروہ مل کر روحانی تجربے کی گہرائیوں تک اتر جاتا ہے۔ خوداقبال نے بھی لکھا ہے کہ عبادت اس وقت زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے جب یہ باجماعت ہوتی ہے۔ سچی عبادت کی روح (بنیادی طورپر) معاشرتی ہے۔ دوسری طرف تصوف میں شخصی سطح پر ’’ارتکاز‘‘ کا عمل وجود میں آتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ سالک عاشق کی آگ میں جلتا ہوا روشنی کے گرد پروانہ وار طواف کرتے کرتے ایک ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اسے اپنے ہی نہیں اپنے گرد و پیش کی بھی سدھ بدھ نہیں رہتی۔ تصوف میں یہ مقام ’’حقیقت عظمیٰ‘‘ کا وہ تصور ہے جس کے سوا صوفی کو قطعاً کچھ یاد نہیں رہتا۔ مگر واضح رہے کہ تصوف میں ’’ارتکاز‘‘ کا یہ لمحہ مستقل نوعیت کا نہیں ہوتا کیونکہ صوفی کو ہمہ وقت خیال کی آوارہ خرامی سے نبردآزما ہونا پڑتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ اس لمحے ہی میں غائب کی جانب کی کھڑکی کھلتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انتہائی رفتار ہی سے ارتکاز مکمل ہوتا ہے۔ مگر جب یہ مکمل ہوتا ہے تو رفتار اپنے ’’ہونے‘‘ کے باوجود ’’نہ ہونے‘‘ کی حالت میں ہوتی ہے کیونکہ انتہائی رفتار اورانتہائی ٹھہراؤ ایک ہی شے کے دونام ہیں۔
اقبال نے عارفانہ تجربے میں ’’ارتکاز‘‘ کے لمحے کو بیک وقت فنا اور بقا کا لمحہ قرار دیا ہے۔ اقبال لکھتے ہیں کہ عبادت چاہے وہ انفرادی نوعیت کی ہو یا اجتماعی نوعیت کی، کائنات کی مہیب خاموشی میں ایک صدائے بازگشت کو سننے کی شدید داخلی آرزو ہی پر دال ہے۔ یہ دریافت کا ایک انوکھا طریق ہے جس کے ذریعے متلاشی جب نفی ذات کا مرتکب ہوتا ہے تو ساتھ ہی ذات کا اثبات بھی کرتا ہے۔ بے شک صوفی کے ہاں ارتکاز اور انہماک مکمل ہوتا ہے۔ مگراقبال نے اس خاص کیفیت کے دوران ’’ذات‘‘ کو اپنے مقابل ایک ’’دوسری ہستی‘‘ کے طورپر محسوس کرنے پر زور دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خود سالک کی شخصیت کلیۃً منہدم نہیں ہوجاتی بلکہ انتہائی جذب کی حالت میں بھی اثبات ذات کا مظاہرہ کرتی ہے اور خود کو خدا کے روبرو محسوس کرتی ہے۔ دیکھا جائے تو اقبال کا یہ رویہ حضرت مجدد الف ثانی کے نظریات سے قریبی مماثلت رکھتا ہے۔
عشق کے سفر میں چوتھا مرحلہ ’’قربانی‘‘ کا ہے۔ فریدالدین عطار کی تمثیل کے ملحوظ رکھیں تو یہ وہ مقام ہے جہاں پروانہ شمع کے گرد طواف کرتے ہوئے اپنے پروں کی قربانی پیش کرتا ہے۔ ویسے قربانی کا عام مفہوم وہی ہے جو قدیم انسانی معاشرہ میں بہت مقبول تھا یعنی راہ خدا میں اپنی عزیز ترین شے کو قربان کردینا اورجوآج ب ھی مذاہب کی دنیا میں ایک اساسی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے پس پشت فلسفہ یہ ہے کہ انسان جب گناہوں کے بوجھ کو محسوس کر رہا ہو تواس کی رفتار (روحانی رفتار) مدھم پڑ جاتی ہے اوراس کی نظروں کے آگے حجابات تن جاتے ہیں اور تجلیات کا سلسلہ اس سے دامن کش ہوجاتا ہے۔ ایسے میں قربانی نہ صرف کفارے کے روپ میں سامنے آتی ہے بلکہ انسان کو اپنی عزیز ترین متاع سے دست کش ہونے اور یوں ان بندھنوں کو توڑنے پر بھی مائل کرتی ہے جو جسم کی کشش ثقل میں اضافہ کا موجب ہیں اور اس کی روحانی پرواز کے راستے میں حائل ہیں۔ اس زاویے سے دیکھیں تو قربانی تزکیہ باطن کی ایک صورت ہے۔ مگر قربانی کی ایک اور سطح بھی ہے جو ازخود عشق کی گرداب آسا روانی سے وجود میں آتی ہے۔ دراصل اگرکوئی شے کسی ایک مرکز کے گرد پوری رفتار کے ساتھ گھومے تواز خود اپنے فاضل بوجھ سے دست کش ہونے لگتی ہے۔ گویا اصل مقصد بوجھ سے نجات پانا ہے۔ فنون لطیفہ کے سلسلے میں دیکھئے کہ بت تراش پتھر میں سے بت کو برآمد کرتے وقت پتھر کے فاضل بوجھ سے نجات پاتا ہے۔ ایڈراپاؤنڈ نے ایک بار کہا تھا کہ وہ نظم لکھنے کے بعد اسے نچوڑتا ہے۔ یعنی فالتو پانی نکال دیتا ہے۔ شاعری میں لفظوں کا بوجھ شعر کی تخلیق کے راستے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ جب تکرار اور کثرت استعمال کے باعث لفظ کلیشے بن جاتا ہے تو گویا بوجھل ہوجاتا ہے۔ شاعر جب اس لفظ کو ایک نئے انداز میں استعمال کرتا ہے تواس کی قلب ماہیت ہوجاتی ہے اور وہ پھول کی طرح گداز اور ہلکا ہوجاتا ہے۔ عشق میں قربانی کی صورت یوں سامنے آتی ہے کہ سالک اولاً خواہشات اور ثانیاً عقل و دانش کے بوجھ سے نجات پاتا ہے۔ مراد یہ کہ ’’مرکز‘‘ کے گرد پروانہ وار گھومنے سے صوفی کو عقلی اور منطقی رویے سے نجات ملتی ہے۔ کرکے کار نے بھی ’’سچے‘‘ کے بارے میں یہی کہا ہے کہ وہ عقل ودانش کی قربانی پیش کرتا ہے اور یوں خدا سے ہم رشتہ ہوجاتا ہے گویا وہ ہمہ وقت خودکو خدا کے روبرو پاتا ہے۔
کرکے گار نے ’’سوچ‘‘ کی بالادستی کے خلاف احتجاج کرکے احساس کو مشعل راہ کا درجہ تفویض کیا تھا اوراقبال نے جب اپنی شاعری میں ’’عقل و خرد‘‘ کے خلاف ردعمل کا اظہار کیا تویہ بھی دراصل بھاری بھرکم خیالات کی بالادستی کی مخالفت ہی میں تھا۔ کرکے کار کی طرح اقبال بھی سوچ کے عمل کے مخالف نہیں تھے۔ چنانچہ جس طرح کرکے گار نے احساس اور سوچ کے انضمام پرزوردیا اقبال نے بھی دونوں کے ربط باہم کو اہمیت بخشی۔ کرکے گار کا ’’جذبہ حیرت‘‘ اقبال کے تصور عشق کے مماثل تو نہیں البتہ قریب ضرور ہے۔ مقصد دونوں کا ایک ہی ہے یعنی تکرار اور افعالیت کے بوجھ سے نجات حاصل کرنا چونکہ عقل و منطق فرد کو ایک مستقل کھائی میں مقید رکھتے ہیں۔ لہٰذا عشق کے اس مرحلے کی توثیق اقبال نے بھی کی ہے جہاں عشق کی رفتار عقل وخرد کے فاضل بوجھ کی قربانی پیش کرتی ہے تاکہ وہ سبک اندام ہو کر کھائی سے باہر آسکے۔
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
عشق کے سفر میں پانچواں مرحلہ وہ ہے جسے حست یا تقلیب کا نام ملنا چاہئے۔ ہوتا یہ ہے کہ فرد خارج سے یکایک منقطع ہوکر خود فراموشی کی عالم میں چلا جاتا ہے اورپھر جب اس کیفیت سے بیدار ہوتا ہے تو خودکو ایک نئی روحانی سطح پر فائز پاتا ہے۔ ایک عالم میں ’’سونے‘‘ اور دوسرے میں ’’جاگنے‘‘ کا یہ عمل ذات کے بکھرنے اور پھرازسرنو وجود میں آنے کے عمل کے مماثل ہے۔ چونکہ ذات کی ان دونوں صورتوں میں زمین اور آسمان کا فرق ہے اوران میں سبب اور مسبب کا کوئی رشتہ بھی موجود نہیں۔ اس لئے جست یا تقلیب کے تصور ہی سے اس فرق کو سمجھا جاسکتا ہے۔
عشق ایک خاص رفتار سے حسن کے گرد ایک دائرے میں طواف کرتا ہے۔ یہ طواف اس ازلی وابدی طواف کے مماثل ہے جو کہکشاؤں سے لے کر ہمارے نظام شمسی تک اور نیچر سے لے کر کلچر تک ہر جگہ کارفرما ہے۔ مراد یہ کہ جس طرح کہکشاں ایک خاص رفتار کے ساتھ کسی نقطے کے گرد گھومتی ہے اور ہمارے نظام شمسی کے سیارے اپنی اپنی خاص رفتار سے آفتاب کے گرد طواف کرتے ہیں اور فطرت موسموں کی دائرہ صفت گردش اور نسلوں کے دائرہ نما تسلسل میں اور فرد، معاشرے اور اس کے قوانیا اور روایات کے مرکزی نقطے کے گرد سفرکرتا ہے بالکل اسی طرح جب عاشق حسن کومرکز مان کر دائرے میں گھومتا ہے تو کائنات کے عظیم الشان طواف ہی میں شریک ہوتا ہے۔ مگر عشق کی بقا اس میں ہے کہ وہ دائرے کے محیط کو توڑنے میں بھی کامیابی حاصل کرے۔ اگر عشق اس ’’ساؤنڈ بیریر‘‘ کو توڑ نہ سکے تو ختم ہوجائے۔ عشق جب اس ساؤنڈبیریر کو توڑتا ہے تو کائنات کی اس بے پناہ تخلیقی رفتار سے ہم آہنگ ہوجاتا ہے۔ جو مختلف مظاہر کی رفتاروں سے کہیں زیادہ تیز ہے۔ توڑنے کا یہ عمل بنیادی طورپر جست لگانے ہی کا عمل ہے۔
اقبال نے ’’جاویدنامہ‘‘ میں اسی جست کی کارفرمائی کا منظر دکھایا ہے۔ اقبال کی یہ کتاب ایک ایسے روحانی سفرکا حال بیان کرتی ہے جو اصلاً پیغمبروں کو نصیب ہوتا ہے۔ مگر صوفیاء اور فنکار بھی اس سے ایک حد تک آشنا ہونے پر قادر ہیں۔ عشق کے سفر میں یہ وہ مقام ہے جو جہات سے ماورا، لیل و نہار سے فارغ، قندیل ادراک سے آزاداور حرف سے ناآشنا ہے۔ گویا جست، رنگ، روشنی اور حرف سے بننے والی تمام صورتیں ختم ہوچکی ہیں اور نراج کی ایک ایسی کیفیت پیدا ہوگئی ہے جس میں تخلیق کا بے صورت لاوا موجزن ہے۔ یہی وہ مقام ہے جسے عبور کرنے کے لئے جست لگانا ضروری تھا اور اقبال نے ’’جاوید نامہ‘‘ میں یہی جست لگائی ہے۔ عشق کے سفر میں یہ وہ مقام ہے جہاں تجلی ذات نمودار ہوتی ہے اور پروانہ اپنے طواف کی گردش کو ترک کرکے دیوانہ وار اس ’’تجلی‘‘ کی طرف لپکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صوفیاء کے ہاں تجلی ذات کے مشاہدے پر زبان گنگ، نگاہ خیرہ اور عقل بے ہوش ہوجاتی ہے مگراقبال کے ہاں تجلی ذات صفت گویائی سے لیس ہے اور ایک ’’نوائے سوز ناک‘‘ کے ذریعے شاعر سے ہم کلام ہوتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اقبال تجلی ذات کے مشاہدہ کے بعدجلوہ مست نہیں ہوجاتے بلکہ ذات لامحدود کے روبرو کھڑے ہوکر اپنی ذات یا خودی کا اثبات کرتے ہیں۔
عشق کے سفر میں چھٹا اور آخری مرحلہ ’’وصال‘‘ کا ہے اور وصال کا لمحہ ’’بے خودی‘‘ کا وہ لمحہ ہے جس میں سالک کی فراق زدہ روح اپنے ’’خود‘‘ یا وجود سے نجات پاکر ذات لازوال میں اس طور ضم ہوجاتی ہے جیسے قطرہ سمندر میں۔ پروانے اور شمع کی تمثیل کو دوبارہ سامنے لائیں تویہ کہنا ممکن ہے کہ اب واپسی کی کوئی صورت باقی نہیں رہی کیونکہ پروانے نے خود کو شمع کے حوالے کرکے اپنی واپسی کے امکانات خود ہی ختم کردیے ہیں۔ اقبال کے ہاں بے خودی کا یہ عالم دکھائی نہیں دیتا۔ وہ ’’بے خودی‘‘ کے قائل ضرور ہیں کیونکہ حسن لازوال کے پرتو سے آشنا ہونے پر ’’بے خودی‘‘ کے عالم کا طاری ہوجانا ایک بالکل قدرتی بات ہے مگرساتھ ہی وہ ’’بے خودی‘‘ کے عالم میں ’’خودی‘‘ کی پرورش کرنے کے بھی قائل ہیں بلکہ ان کا تویہ عقیدہ ہے کہ بے خودی کے عالم کو مس کرنے ہی سے خودی کی تکمیل ممکن ہے۔ یہ چراغ سے چراغ جلانے کا وہ عمل ہے جو اصلاً ایک جمالیاتی یا مذہبی تجربہ ہے۔
اب صورت کچھ یوں ابھرتی ہے کہ اقبال کے ہاں ’’بے خودی‘‘ وہ زمین ہے جس میں سے ’’خودی‘‘ کا تخم پودے کی صورت میں برآمد ہوکر برگ و بار لاتا ہے۔ اس کے برعکس توحید وجودی کو ماننے والے صوفیاء کے ہاں بے خودی وہ سمندر ہے جس میں قطرہ جذب ہوکر خود سمندر بن جاتا ہے۔ فرق بہت واضح ہے۔ وحدت الوجودی تصوف میں بے خودی منزل ہے جبکہ اقبال کے ہاں خودی کی یافت اور تکمیل ہی اصل شے ہے۔ یا پھر یوں کہہ لیجئے کہ تصوف ایک ایسا سکہ ہے جس کے دونوں اطراف پر لفظ ’’بے خودی‘‘ کھدا ہے جبکہ اقبال کے ہاں اس کے سکے پر ایک طرف ’بے خودی‘ اور دوسری طرف ’’خودی‘‘ کے الفاظ کندہ ہیں۔ بےخودی وہ قعر عمیق، وہ وسعت بے کنار یا ژونگ کے الفاظ میں وہ اجتماعی لاشعور ہے جس میں بیکرانی ہی بیکرانی ہے جبکہ خودی وہ لمحہ ہے جو بے خودی سے قوت حاصل کرتا ہے۔ بے خودی اجتماعیت کا اعلامیہ ہے۔ خودی انفرادیت کا چہرہ ہے۔ صوفی جب بے خودی کے عالم میں جاتا ہے تو اپنی انفرادیت کو تج کر اجتماعیت میں ضم ہوجاتا ہے۔ اقبال جب بے خودی کو مس کرتے ہیں تواس سے قوت حاصل کرکے خودی کو نکھارتے اور سنوارتے ہیں۔ بے خودی ایک ایسی نفسی کیفیت ہے جس میں کوئی تغیر یا دوئی موجود نہیں لیکن اقبال بے خودی کے مقابل خودی کو قائم کرکے خوشی چینی کے عمل کا منظر دکھاتے ہیں بلکہ بے خودی کے لمس سے صورتوں کو تشکیل دیتے ہیں اور یوں ایک ایسے تخلیقی عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں جو کائنات کے تخلیقی عمل سے مشابہ ہے۔
بات کو سمیٹتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ وحدت الوجودی تصوف میں عشق کا سفر پروانے کے سفر کے مماثل ہے۔ جو شمع کی روشنی کی ایک جھلک پانے پر شروع ہوتا ہے اور اس لمحے اپنے انجام کو پہنچتا ہے جب پروانہ خود کو شمع کی آگ میں جلاکر روشنی میں تبدیل کردیتا ہے۔ درمیانی مدارج میں سے ایک ’’طواف‘‘ ہے جس سے مراد یہ ہے کہ پروانے کا سفر دائرے میں طے ہوتا ہے اورجیسے جیسے طواف کی رفتار تیز ہوتی ہے عاشق اپنے وجود کے فاضل بوجھ سے دست کش ہوتا جاتا ہے۔ عشق میں اس مرحلے کو ’’قربانی‘‘ کا مرحلہ کہنا چاہئے۔ پھر جب طواف کی رفتار زندگی کی عام رفتار سے تجاوز کر جاتی ہے تو عاشق ایک دھماکے کے ساتھ دائرے کی لکیر کو توڑ شمع کی طرف لپکتا ہے یہ ’’جست‘‘ کا مرحلہ ہے اس کے بعد وہ خود کو روشنی میں جذب کرکے قطرے کی طرح سمندر میں مل جاتا ہے اور یوں ابدیت حاصل کرلیتا ہے۔ اس حالت کو ’’وصل‘‘ کا نام ملنا چاہئے۔
مگر اقبال کے عشق کی کہانی اس سے قدرے مختلف ہے۔ اقبال کا عاشق بھی پروانے ہی کی طرح شمع کو دیکھ کر اپنے سفر کا آغاز کرتا ہے، پروانے ہی کی طرح شمع کے گرد طواف کرتا ہے اور پھر اپنے فاضل بوجھ سے دست کش ہوکر پروانے ہی کی طرح دائرے کی لکیر کو توڑتا ہے مگراس کے بعد و شمع کے شعلے میں بھسم نہیں ہوجاتا بلکہ اس کے روبرو کھڑے ہوکر نہ صرف اس سے اکتساب نورکرتا ہے بلکہ اس نور کو صورت پذیر کرکے ایک تخلیقی عمل کا مظاہرہ بھی کرتا ہے۔ گویا اقبال کا ’’عاشق‘‘ بے خودی کے عالم کو مس تو کرتا ہے مگراس میں پوری طرح جذب نہیں ہوتا۔ چنانچہ روبرو کھڑے ہونے کے عالم میں وہ نہ صرف اپنے وجود کو بلکہ ہوش وحواس کو بھی قائم رکھتا ہے وہ شعور اورلاشعور کے سنگم پر کھڑے ہوکر ایک فنکار کی طرح نور ازل کی مدد سے آب و گل کی دنیا کو ایک نئے سانچے میں ڈھالتا اور ایک نئی صورت میں دوبارہ خلق کرتا ہے چونکہ اس حالت میں عاشق کی حیثیت تبدیل ہوجاتی ہے اس لئے اقبال نے اسے ’’مرد قلندر‘‘ اور ’’بندہ مومن‘‘ کا نام دیا ہے جس کی تحویل میں لاشعور بھی ہے اور شعور بھی، عشق بھی اور عقل بھی اور جو لامحدودیت کے ذائقہ سے آشنا ہوکر اپنی محدود شخصیت میں کشادگی اور توائی پیدا کرلیتا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.