Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اسلام اور مائیتھالوجی

جیلانی کامران

اسلام اور مائیتھالوجی

جیلانی کامران

MORE BYجیلانی کامران

    (۱) سب سے پہلے چند باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔ (۱) میں مائیتھالوجی کو ’’علم الاصنام‘‘ اور ’’دیومالا‘‘ کی اصطلاحوں کے تحت زیر بحث نہیں لایا۔ کیونکہ مائیتھاس، میں لغوی طور پر، دیوی دیوتاؤں کی طرف کوئی بھی اشارہ نہیں ہے۔ (۲) مائیتھاس، انسانی تخئیل کی ایک ایسی صورت ہے جو کائنات کو مختلف تجسیمی اکائیوں میں تقسیم کرتے ہوئے کائنات کے اسرار کو سمجھنے کی سعی کرتی ہے۔ (۳) مائیھاس، انسان کے فطری شعور میں شامل ہے اس لیے اس کی شکلیں مختلف تہذیبی ادوار میں مختلف رہی ہیں۔

    (۲) ان بنیادی وضاحتوں کے بعد جب ہم اسلامی مزاج کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی فکری مزاج تجسیمی طرزِ فکر کا مخالف ہے۔ یہی کیفیت اس فقرے میں دکھائی دیتی ہے کہ اسلام بت گری اور بت پرستی کادشمن ہے۔ لہٰذا اسلامی طرز فکر میں مائیتھالوجی کی وہ صورت دکھائی نہیں دیتی جو قدیم جرمن قوموں، یونانیوں، رومیوں، مصریوں اور سریانی قوموں میں دکھائی دیتی ہے۔

    (۳) ظہورِاسلام کے وقت ان تہذیبی علاقوں اور منطقوں میں جہاں مائیتھالوجی، بطور مذہبی فکر کے موجود ہوا کرتی تھی، عیسائیت کی عمل داری تھی۔ اور عیسائیت کا الٰہیاتی اور دینی فکر بھی پرانے دیوی دیوتاؤں کا دشمن تھا۔ یسوع، کی زمین پر آمد سے نہ صرف پرانے مذاہب متروک ہوچکے تھے بلکہ ان کے دیوی دیوتا بھی امن کے شہزادے اور ابنِ آدم کے ورود کے باعث جنگلوں اور ویرانوں میں چھپ چکے تھے۔

    (۱) اس صداقت کو مشہور عیسائی شاعر عرملٹن۔ ولادت مسیح کی تقریب پر لکھی ہوئی نظم میں یوں بیاں کرتا ہے :

    ’’پے عورؔ اور بالیمؔ

    اپنے عبادت گھروں کو چھوڑ چکے ہیں۔

    فلسطین کے شکست خوردہ دیوتاؤں کے ساتھ

    اور اشطاردت کے ہمراہ

    جو کبھی زمین آسمانوں کے خداوند تھے۔

    اب جلتی ہوئی مشعلوں کے بغیر تاریکی میں ہیں۔

    لیبیاؔ کا دیوتا۔ ہامونؔ اپنا ناقوس توڑچکا ہے

    اور تاموسؔ کے لیے کافر لڑکیاں سوگ میں ہیں۔‘‘

    (۴) اس حقیقت کے پیش نظر یہ کہنا چاہیے کہ ظہورِ اسلام کے وقت دیوی دیوتاؤں کی مائیتھالوجی سوائے نجد ویمن اور ہندوستان کے کہیں بھی موجود نہ تھی۔ اور اسلام نے لات و مناتؔ، عزّی اور نائیلہؔ کو اپنے فکری غلبے کے ساتھ ہمیشہ کے لیے ختم کردیا تھا۔ اسلام نے جس فلسفے نقطہ نظر کو ادب و شعر میں رواج دیا ان میں قدیم عربی دیوی دیوتا شامل نہیں ہوئے۔

    (۵) مسلمانوں کی فتح فلسطین اور مشرقی عیسائی علاقوں کی تسخیر کے ساتھ جو یونانی فلسفہ دریافت ہوا وہ یونانی کم اور عیسائی فلسفہ زیادہ تھا۔ سقراط، افلاطون، اور ارسطو، فلاطینوس۔ ان سب کی صورتیں عیسائی الہامی مذہب کے مطابق تراشی گئی تھیں۔ مسلمانوں نے جس یونانی فلسفے کو اپنی میراث میں شامل کیا اس میں مائتھالوجی کی جگہ منطق نے لی تھی، اپالوؔ وینسؔ وغیرہ ان میں شامل نہ تھے۔ تاہم مائتھالوجی، اگر کہیں نظر آتی ہے تو علم نجوم میں دکھائی دیتی ہے۔ اور علم نجوم کو مسلمانوں نے ہمیشہ کفر سمجھا ہے کیونکہ غیب کا جاننے والا اللہ ہے۔ جھوٹے خدا نہیں ہیں۔ جو ستاروں کی حرکت پر پوشیدہ ہیں۔

    (۶) ہندوستان میں مسلمانوں کی حیثیت حاکم اور فاتح تہذیبی عناصر کی تھی۔ لہٰذا مسلمانوں کا ہندی دیوؔمالا سے متاثر ہونا بے معنی ہے۔ سومنات اور کانگڑا کامندر جس کے ساتھ البیرونی کا واقعہ متعلق ہے۔ اس امر کی شہادت ہیں۔

    (۱) اسلام بطور مذہب اللہ کے ساتھ کسی دیوی دیوتا کو شریک نہیں کرتا۔

    (۲) اللہ کی حاکمیت غیر محدود اور بے مثل ہے۔ او ردیوی دیوتا، کائنات سے پیدا ہوتی ہوئی انسانی اور نیم فلسفیانہ ایلورا ایجنٹا، صورتیں اور تجسیمی اکائیاں ہیں۔ لہٰذا ان کی طاقت اور اقتدار محدود ہے۔

    (۳) دیوی دیوتاؤں کی تاریخ فی ذاتہہ ارتقا کی تاریخ ہے جو ایک طرح سے انسانی ذہن کے ارتقاء کی کہانی ہے۔ یونان میں ٹائی ٹنس (راکشوں، دیوؤں، جنوں) کے بعد دیوتاؤں کا زمانہ آتا ہے اور یہاں بھی دیوتاؤں، کی ایک نسل دوسری نسل کے خلاف جنگ آزما ہوتی ہے۔ یونان دیومالا میں بعض دیوتا، شمالی یورپ کے ہیں۔ بعض مصر کے اور بعض اناطولیہ کے دیوتا ہیں۔ یونان کے اصل دیوتا، ان مہاجر دیوتاؤں، میں جذب ہوچکے تھے۔

    (۱) ہندوستان میں، دیوتا، خالص آریائی نہ تھے۔

    (۲) شومت، اور ویشنو، کے مذہب میں عمرانی ارتقاء کاکافی فاصلہ ہے۔

    (۴) یہ حقائق خود، دیوی دیوتاؤں، کے فکری طور پر حتمی نہ ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔ لہٰذا اللہ کے مذہب کادیوی دیوی دیوتاؤں کے ساتھ گھل مل جانا۔ فکری طور پر ناممکن تھا۔

    (۷) مسلمانوں نے ہندوستان میں جس تعلیمی نظام کو رائج کیا۔ اس کی اساس مذہب اسلام اور عجمی اسلامی علوم پر تھی۔ ہندوؤں کے مدرسے (پاٹھ شالائیں) اس تعلیمی نظام میں شامل نہ تھے۔ لہٰذا مسلمانوں کا ہندو مذہب کے دیوتاؤں کے ساتھ کوئی بھی رابطہ قائم نہ ہوا۔ مسلمانوں کی علمی نشو و نما توحیدکے تابع رہی اور اس طرح مسلمانوں کا فکری ماحول مائیتھالوجی کے آریائی اثرات سے غیرمتاثر رہا۔

    (۸) بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں زیادہ تعداد اُن مسلمانوں کی تھی جو بھارت درشن کے باشندے تھے۔ لہٰذا تبدیلی مذہب سے انقطاعِ روایت، واقع نہیں ہوتی۔ دیوی دیوتاؤں کی روایت، ان لوگوں کے نزدیک ٹوٹتی نہیں بلکہ مذہب اسلام میں کہیں جذب ہوجاتی ہے۔

    (۱) پہلا اعتراض یہ ہے کہ اس، جذب ہوتی ہوئی روایت کاہمیں کہیں بھی چہرا دکھائی نہیں دیتا۔

    (۲) دوسرا یہ ہے کہ تبدیلی مذہب، فی نفسہ انقطلاع روایت ہے۔

    (۳) یہ لوگ ایساکہتے ہوئے ان مختلف مذہبی تحریکوں کو فراموش کردیتے ہیں جو وقتاً فوقتاً رونما ہوتی رہی تھیں۔ اور اسلام، کو غیراسلامی اثرات سے پاک رکھنے کی سعی کرتی تھیں۔

    (۴) دین الٰہی کے بعد جو تحریکیں ظاہر ہوئی تھیں۔ ان میں سے کچھ یہ ہیں۔

    (۱) مجد د الف ثانی کی تحریک

    (۲) اٹھارہویں صدی کی مذہبی تحریک

    (۳) سید احمد شہید کی تحریک

    (۴) تحریک احمدیت

    (۵) مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کی تحریک، اور تحریکِ خاکسار

    (۶) جماعت اسلامی کی تحریک۔

    (۹) ان تحریکوں کی موجودگی میں جو دین الٰہی کے بعد ظاہر ہوئی ہیں۔ اسلام اور ہندو اثرات کا مسئلہ واضح ہوجاتا ہے۔

    (۱) اسلام نے اگرچہ پرانی مائتھالوجی کو رد کیا ہے لیکن اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ اسلام نے اپنے مزاج کے مطابق اپنی مائتھالوجی تخلیق نہیں کی۔

    (۲) اسلامی تہذیبی تاریخ میں ہمیں جابجا، مائیتھاس، کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔

    (۳) سیرت رسول اللہ میں حضورؐ کی شخصیت کو جن علامتوں سے مرتب کیا گیا ہے۔ ان میں انسانی تخیل کا۔۔۔ استعمال کیا گیا ہے۔

    (۱) نعتوں میں محبوب خدا کا تصور مائیتھالوجی سے مشابہ ہے۔

    (۲) شق الصدر، شق القمر، اور معجزے، بھی اسی مزاج کی شہادت ہیں۔

    (۳) صوفیا کی کرامات بھی اسی طرز فکر کا حصہ ہیں۔

    (۴) اسلام نے اپنی تاریخ، کو مائیتھالوجی میں بدل دیا ہے۔ واقعہ کربلاکے بزرگ نہ صرف تاریخ میں سانس لیتے ہیں۔ بلکہ تاریخ کے حلقے سے باہر نکل کر ہمارے ذہن اور دل میں شامل ہوجاتے ہیں۔ ہم انہیں اپنے تخیل کی مدد سے اپنے پاس اپنے دل میں جذب کرلیتے ہیں۔ اور یوں ان کو پہچاننے کی سعی کرتے ہیں۔

    (۵) امامِ غائب کاتصور، نزول مہدی، کاتصور، اسلامی مائتھالوجی کے تصورات ہیں۔

    (۶) محمد اسد اپنی کتاب بجانب مکہ میں سقوطری کی ایک خانقاہ کا ذکر کرتے ہیں۔ جہاں انہوں نے درویشوں کے ایک رقص میں شرکت کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ رقص کی کیفیت نے انہیں یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ وہ پوچھیں کہ ایسا رقص، اسلام میں کیسے داخل ہوا۔

    (۱) یہ رقص ان کے خیال پر قدیم مذہبی رقص کی صدائے بازگشت تھا۔

    (۲) قدیم زمانے میں پرانے پجاری، دیوتا، کے بت کے سامنے رقص کرتے تھے۔

    (۷) لیکن جو بات ہمارے لیے غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ سقوطری میں جس رقص کو علامہ اسد نے دیکھاتھا وہ پرانے رقص سے کس حدتک مختلف ہے؟

    (۸) درویشوں کارقص، تصور کے حوالے سے معنی قبول کرتاہے۔ اور یہ تصور، غائب اور ارفع کی ہمہ گیری سے پیدا ہوتا ہے جو اسلام کے مزاج کے مطابق ہے۔

    (۹) اسلام نے تجسیمی مائتھالوجی کے بجائے تصوراتی مائتھالوجی کو تخلیق کیا ہے۔

    (۱) اسلام کے مائتھاس کی بنیاد تاریخ اور تصوریت پر ہے۔ لہٰذا وہ اپنے ادراک میں اپنی تہذیبی حدود سے باہر نہیں جاتا۔ اس مذہب کے زیر اثر جو شخص اسلام کی روایات کو ایک تسلسل کے طور پرپہچانتا ہے۔ وہ اس تسلسل میں اپنے مزاج کے مطابق ایک عجیب و غریب کائنات دیکھتا ہے۔ جس میں سیرت رسول اللہ تاریخِ اسلام، تذکرہ اولیاء، جنگ نامے، کشف و کرامات، غزل کی شاعری، قصے کہانیاں اور نرگس و سومن ویاسمن، شامل ہیں۔ یہ کائنات تخیل کی مدد سے قائم ہوتی ہے۔ او رتخیل ہی کی مدد سے انسانی فراست کے قابو میں آتی ہے۔

    (۲) ایک ایسی عظیم الشان، مائیتھاس، کی موجودگی میں گھنشا م، اور جوپیٹر، یااکالی کی طرف جانا عمداً انحراف کے سوا اور کوئی مفہوم نہیں رکھتا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے