Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

عصمت چغتائی کے نسوانی کردار

وزیر آغا

عصمت چغتائی کے نسوانی کردار

وزیر آغا

MORE BYوزیر آغا

    عصمت چغتائی کے بیشتر نسوانی کرداروں کے پس منظر میں ایک ایسی ’’عورت‘‘ موجود ہے جو گھر کی مشین میں محض ایک بے نام سا پرزہ بن کر نہیں رہ گئی بلکہ جس نے اپنے الگ وجود کا اعلان کرتے ہوئے ماحول کی سکہ بند قدروں اور رواجوں کو اگرمنہدم نہیں کیا تو کم از کم لرزہ براندام ضرور کردیا ہے۔ اس طور کہ مکان کی جڑی ہوئی اینٹوں میں جابجا جھریاں ہی نمودار ہوگئی ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عصمت کے نسوانی کردار ایک ہی وضع قطع کے حامل اور ایک سے ردعمل کے مظہر ہیں بلکہ صرف یہ کہ وہ جس نقش اول Prototype کی اساس پر استوار ہیں، وہ اپنا ایک بنیادی پیٹرن رکھتا ہے۔

    افسانے کے کرداروں کے حوالے سے بالعموم ٹائپ اور کردار کے فرق کو نشان زد کیا جاتا ہے۔ مثلاً یہ کہ ٹائپ وہ معاشرتی ڈھانچہ ہے جس میں فرد جلد یا بدیر محبوس ہوجاتا ہے۔ اس حد تک کہ اس کی انفرادیت معدوم اور عمومیت نمایاں ہوجاتی ہے۔ جس طرح پیاز کے پرت ہوتے ہیں، اس طرح معاشرے کے بھی پرت ہیں جو مختلف طبقوں اور پیشوں کی صورت تہہ در تہہ نظر آتے ہیں اورجن میں خلق خدا غیرارادی طورپر بتدریج ڈھلتی چلی جاتی ہے۔ مثلاً دکانداری، معلمی، ساہوکاری، چونگی محرری، کلرکی، کارخانہ داری وغیرہ۔ پیشہ مثل اس مقراض کے ہے جو فرد کے ابھرے ہوئے جملہ نوکد کناروں کو قطع کرکے اسے اس کی اصل جسامت کے مطابق کردیتا ہے اور وہ پیشہ کی یوتھی مین موجود ہزاروں دوسرے پرتوں میں مل کر اپنی انفرادیت کو تج دیتا ہے۔ بعض ٹائپ عارضی نوعیت کے بھی ہوتے ہیں۔ مثلاًکوئی شخص جب سفر کا آغاز کرتا ہے تو گاڑی میں سوار ہوتے ہی ’’مسافر‘‘ کہلاتا ہے دکان میں داخل ہو تو ’’خریدار‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے اور کھیل کے میدان میں اترے تو ’’کھلاڑی‘‘ بن جاتا ہے۔

    دوسری طرف کردار وہ شخص ہےجس کے پر یا توقطع کئے ہی نہ جاسکے یا قطع ہونے کے بعد دوبارہ اگ آئے۔ چنانچہ وہ اپنے سانچے سے باہر کی طرف امنڈ کر ایک ایسی شخصیت کے طور پر نظرآنے لگا جو عمومیت کی بے رنگی کے بجائے انفرادیت کی رنگارنگی سے عبارت تھی۔ نارتھ روپ فرائی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ جملہ کردار اسٹاک ٹائپ (یا پروٹوٹائپ) کی اساس پر استوار ہوتے ہیں۔ گویا پروٹوٹائپ کی وہی حیثیت ہے جو انسانی جسم میں پنجر (Skeleton) کی ہے۔ یہ وہ ’’نقشہ‘‘ ہے جس کے مطابق جسم کے خدوخال نمایاں ہوتے ہیں۔ مگر پنجر کی بنیادی یکسانیت کے باوجود ہر جسم اپنے خدوخال کی بنا پر دوسروں سے مختلف نظرآتا ہے۔ افسانے میں ابھرنے والے کردار کا معاملہ یہ ہے کہ ہرچند وہ بھی پروٹوٹائپ کی اساس پر ہی استوار ہوتا ہے تاہم وہ اپنے اندر کی اس نفسیاتی تقلیب کے باعث جو اکثر وبیشتر باہر کے واقعات اور سانحات سے وجود میں آتی ہے، ایک ایسی منفرد ہستی کے طورپر ابھر آتا ہے جو اپنی ٹائپ کے دوسرے افراد بالکل مختلف ہوتی ہے اور اپنی انفرادیت کے باعث کردار متصور ہونے لگتی ہے۔ عصمت کی نسوانی کرداروں کا بھی یہی حال ہے۔ ان کے پس پشت بھی ایک ایسی ’’عورت‘‘ موجود ہے جو مجمع کرنے کی بہ نسبت توڑنے اور بکھرانے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔ دیومالا میں اس کے کئی نمونے نظرآتے ہیں۔ مثلاً ہندو دیومالا کی ’’کالی‘‘ جس کا کام مدون اور مرتب کائنات کولخت لخت کرنا ہے یا سمیریا ییا تیامت (Tiamat) جس کی مواج ہستی ہر شے کو خس و خاشاک کی طرح بہالے جاتی ہے۔ برصغیر ہندوستان کے معاشرتی ماحول پر اگر ایک نظر ڈالیں جس میں عورت ہزاریا برس سے اس قدر تابع مہمل رہی ہے کہ اس کے معمولی سے سماجی انحراف کو بھی کلنک کا ٹیکہ متصور کیا گیا ہے ایسے ماحول میں عصمت چغتائی کے نسوانی کرداروں کی بغاوت اپنے دوررس اثرات کے اعتبار سے کالی یا قیامت کی کارکردگی ہی سے مشابہ دکھائی دے گی تاہم یوں لگتا ہے کہ جیسے معاشرتی سانچے میں بند عورت کا پروٹوٹائپ اپنے اندر کے سمندری طوفان کی شہ پاکر سانچے سے چھلک جانے پر مستعد ہوگیا ہے جس کے نتیجے میں پروٹوٹائپ کے سانچے کی سطح پر ایک نیا نقش ابھر آیا ہے۔ سانچے کو اگر ’’گھر‘‘ کا متبادل قرار دے دیا جائے توپھر عصمت کے نسوانی کردار گھر کی چادر اور چار دیواری میں روزن بناتے ہوئے نظر آئیں گے۔ اس عمل میں اگر گھر کی اینٹیں اپنی جگہ سے سرک جائیں اور جابجا شگاف نمودار ہونے لگیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پروٹو ٹائپ اپنی قلعہ بند دنیا سے باہر آکر مختلف کرداروں میں ڈھلنے لگا ہے۔

    عصمت کے ہاں باغی عورت کے پرو ٹوٹائپ کا مختلف کرداروں میں ظہور پہلی ہی قرأت میں محسوس ہونے لگتا ہے کہ عصمت کے نسوانی کردار فکشن میں ابھرنے والے کردار کے قدیم تصور سے انحراف کا درجہ رکھتے ہیں۔ فکشن کے قدیم کرداروں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنے جسمانی یا نفسیاتی اوصاف کی بنا پر خلق خدا سے مختلف نظرآتے ہیں۔ مثلاً خوجی کا بوٹاپن ڈان کہونے کا بے ڈھنگاپن، نونرے ڈام کے کپڑے کی بدصورتی، ٹرے ژر آئی لینڈ کے لانگ جان سلور کا لنگڑاپن، اوڈیسی کے اوڈیس، کی مہم جوئی، حاتم طائی کی سخاوت وغیرہ۔ یہ سب امتیازات غیرمعمولی کرداروں میں کشمکش ہوکر سامنے آتے ہیں۔ گویافکشن کے قدیم کردار اپنے واضح جسمانی یا نفسیاتی خدوخال رکھتے ہیں جن کے باعث وہ عام افراد سے الگ اور مختلف ہیں تاہم یہ کردار ایک طرح کے بند نظام (Closed System) بھی ہیں۔ مصوری کے حوالے سے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ فکشن کے یہ قدیم کردار پورٹریٹ Portrait سے مشابہ ہیں جو خدوخال کے گاڑھے پن کا ایک نمونہ ہوتی ہے۔ ساختیاتی تنقید کے مطابق یہ قدیم کردار ایک طرح کی خودکار اکائیاں (Autonomous Wholes) ہیں جو اپنے مخصوص جسمانی اورنفسیاتی اوصاف کی بنا پر پہچانی جاتی ہیں۔ دوسری طرف ورجینا وولف کے کردار قدیم ماڈل کے ان کرداروں سے مزاجاً مختلف نوعیت کے ہیں اور انہیں کردار کے قدیم تصور کے میزان پر تولنا غلط ہے تاہم وہ یقیناً کردار کا درجہ رکھت ےہیں ٹائپ کا نہیں۔

    ساختیاتی تنقید کے مطابق کردار محض چند انوکھے خدوخال کا مظہر نہیں ہوتا جو اس کے امتیازی نشانات قرار پائیں۔ مراد یہ کہ کردار محض ایک پورٹریٹ نہیں ہے بلکہ اس میں کسی خاص سمت میں متحرک ہونے کا انداز بھی ملتا ہے تاہم وہ جیسے جیسے آگے کو بڑھتا ہے واقعات اورسانحات کی چھوٹ پڑنے سے اس کے متعین خدوخال دھندلانے لگتے ہیں مگر وہ بے شباہت نہیں ہوجاتا۔ دوسرے لفظوں میں ہیرو اینٹی ہیرو میں تبدیل نہیں ہوتا۔ میرے نزدیک اینٹی ہیرو کی نمود ہیرو کے تصور میں وسعت پیدا کرنے کے بجائے اسے معدوم کرنے کے مترادف ہے لہٰذا میں اینٹی ہیرو کی نمود کو کردارنگاری کے عمل کی ضد متصور کرتا ہوں۔ خوش قسمتی سے ساختیاتی تنقید نے ہیرو کے قدیم تصور کے علی الرغم ایک ایسے کردار کے تصور کو رائج کیا ہے جو اپنے موروثی اوصاف یا جواہر کی بنا پر پہچانا نہیں جاتا بلکہ جوکہانی میں ایک شریک کار یعنی Participant کا رول ادا کرکے اور اسٹرکچرنگ کے عمل سے گزر کر اپنی امتیازی حیثیت کو اجاگر کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ اپنے وجود کو انبوہ کے بے نام اور بے چہرہ وجود میں ضم ہونے نہیں دیتا بلکہ اپنی تمام تر لچک کے باوجود خود کو بطور ایک منفرد وجود باقی رکھتا ہے۔ فکشن کے قدیم کردار ہیرو یا ہیرو نما ہستیاں ہیں جن کے اعمال مقرر اور انجام ظاہر ہیں مگرجدید کردار ایک متعین اورمرتب وجود کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز نہیں کرتے بلکہ سفر کے دوران مختلف تجربات سے گزرتے ہوئے ان کے اندر کے بنیادی اوصاف بتدریج نموپذیر ہوکر بالآخر ایک منفرد صورت اختیار کرلیتے ہیں لیکن اگر وہ متعین اور مقرر شباہت کے ساتھ سفر کا آغاز کریں تو بھی جیسے جیسے وہ آگے کوبڑھتے ہیں ان کے متعین اوصاف محض نقاب نظر آنے لگتے ہیں۔ اس کی ایک نمایاں مثال منٹو کے نسوانی کردار ہیں جو اس اعتبار سے نقاب پوش کردار کہلائیں گے کہ وہ آغاز کار میں اپنے اصل روپ میں ظاہر نہیں ہوتے لیکن کہانی کے آخر تک پہنچتے پہنچتے اپنے نقاب الٹ دیتے ہیں اور قاری کو ایک ایسا کردار نظر آجاتا ہے جواپنے نقاب پوش حلیے سے مختلف بلکہ اس کا الٹ ہے مثلاً منٹو بڑے التزام کے ساتھ طوائف کے اندر عورت دکھاتا ہے (گویا کردار کا پہلا روپ محض ایک نقاب ثابت ہوتا ہے) ویسے منٹو کا یہ طریق کار اس کے وسیع تر اقدام کا شاخسانہ بھی ہے۔ وہ یوں کہ منٹو نے موپساں اور اوہنری سے متاثر ہوکر اکثر وبیشتر کہانی کے آخر میں ایک ایسا موڑ لانے کی کوشش کی ہے جس سے کہانی کا محور ہی تبدیل ہوگیا ہے۔ یہی عمل اس نے کردار پر بھی آزمایا ہے۔ دوسری طرف عصمت چغتائی کے نسوانی کردار اس قسم کی قلابازیوں کے مرہون منت نہیں ہیں۔ وہ جن اوصاف کے حامل بن کر نمودار ہوتے ہیں آخر تک ان اوصاف ہی کے حامل رہتے ہیں۔ تاہم کہانی کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ یہ اوصاف بتدریج اپنے مخفی ابعاد کو منکشف کرتے چلے جاتے ہیں تاآنکہ آخر میں ہمیں ایک ایسے بھرپور کردار کا احساس ہوتا ہے جو کردار کے قدیم تصور کی طرح مقرر اور بے لچک نہیں ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ عصمت چغتائی کے نسوانی کردار دوانتہاؤں کے بین بین نہیں ہیں۔

    بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کہانی کا مطالعہ ایسے کرنا چاہئے جیسے ماہر لسانیات، ’’جملے‘‘ کا کرتا ہے۔ ماہر لسانیات جملے کے مواد کو زیربحث لانے کے بجائے ان لسانی ’’جملے‘‘ کا کرتا ہے۔ ماہر لسانیات جملے کے مواد کو زیر بحث لانے کے بجائے ان لسانی رشتوں کو موضوع بناتا ہے جن سے جملہ عبارت ہوتا ہے۔ مثلاً اسم اور فعل کے رباطہ باہم کو، گویا ماہر لسانیات جملے کا مطالعہ کرتے ہوئے دراصل جملے میں مضمر ’’گرائمر‘‘ کے سسٹم کو اجاگر کرتا ہے۔ وہ اس کے افقی (Syntagmatic) اور عمودی (Paradigmatic) ابعاد کو نشان زد کرتا ہے اور یوں جملے کو ایک ایسے پیٹرن کے طورپر پیش کردیتا ہے جو اپنے افقی اور عمودی تحرک کی بنا پر پراسس (Process) کہلائے جانے کا مستحق ہے (خود طبعیات نے بھی اب ایٹم کو ایک جلد اکائی قرار دینا ترک کردیا ہے۔ وہ اب اسے رشتوں کی اکائی قرار دینے لگی ہے) اس عمل سے جملے کے معنی کا انشراح ہوتا ہے۔ ساختیاتی نقاد جب کسی کہانی کو موضوع بناتا ہے تو وہ بھی اس کو (لسانی تجزیے کی تقلید میں) ایک ایسے تجزیے کا ہدف بناتا ہے جس سے کہانی کی سطح پر ایک اور کہانی ابھر آتی ہے۔ ایک ایسی کہانی جو نشانات (Signs) کا مرقع ہے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ جب آپ پیانو بجاتے ہیں جس کی ہر کنجی کی ایک اپنی مخصوص آواز ہے توان آوازوں کے ملاپ سے ایک ایسا نغمہ وجود میں آجاتا ہے جو پیانو کی مختلف کنجیوں کی آوازوں کی حاصل جمع سے ’’کچھ زیادہ‘‘ ہونے کے باعث ان آوازوں کی بالائی سطح پر گویا تیر رہا ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پیانو بجانے والا پیانو سے ’’کھیلتے‘‘ ہوئے آوازوں کو منقلب کرتا اور نئے نغماتی معنی کے انشراح کا سبب بنتا ہے یہی کام ساختیاتی نقاد کا بھی ہے کہ وہ کہانی کا مطالعہ کرتے ہوئے اسے متعدد نئی معنوی سطحیں تفویض کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ یہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ کہانی کا مبصر نہیں بلکہ اس میں شرکت کر رہا ہے۔

    عصمت چغتائی کے نسوانی کرداروں کا مطالعہ کریں تو ان میں ایک خاص پیٹرن کا احساس ہوگا مثلاً اسم کی سطح پر ان کے کردار جیسے ’تل‘ کی رانی ’’امربیل‘‘ کی رخسانہ ’’دوہاتھ‘‘ کی گوری ’’پیشہ‘‘ کی سیٹھانی ’’کافر‘‘ کی میں ’’چڑیا کی وکی‘‘ کی عالمہ ’’لحاف‘‘ کی بیگم جان ’’ننھی کی نانی‘‘ کی نانی ’’جڑیں‘‘ کی اماں اور’’ڈائن‘‘ کی اماں جان۔ بظاہر نارمل قسم کی ہستیاں ہیں جو کسی جسمانی یا نفسیاتی ناہمواری کی مثال نہیں ہیں۔ فکشن کے قدیم کرداروں کی طرح ان کی قوت غیرمعمولی یا صورت انوکھی یا رویہ ابنارمل نہیں ہے۔ وہ کہانی میں پیانو کی کنجی کی طرح ہیں جس کی آواز متعین اور مقرر ہے۔ مثلاً ’’تل‘‘ کی رانی ایک ایسی ناتراشیدہ الھڑ سی لڑکی کے روپ میں سامنے آتی ہے جو جوانی کے لہو کی گرمی کے باعث معاشرتی قواعد و ضوابط کا احترام کرنے سے قاصر ہے۔ ’’امربیل‘‘ کی رخسانہ ایک خوبصورت دوشیزہ کے روپ میں چالیس سالہ شجاعت کی دلہن بن کر سامنے آتی ہے۔ وہ ایک نارمل وفادار گھر گھر ہستی میں مبتلا عورت کی حیثیت سے کہانی کا جزوبدن بنتی ہے اور بظاہر اس میں کردار کا کوئی انوکھاپن نظر نہیں آتا۔ ’’دوہاتھ‘‘ کی گوری ایک ایسے نچلے طبقے کی نمائندہ ہے جہاں سب سے بڑی اخلاقیات دوقت کے کھانے کا حصول ہے جہاں باقی ساری قدریں ’’بھوک‘‘ کے ننگے پن کا شکار ہوجاتی ہیں۔ ’’پیشہ‘‘ کی سیٹھانی ایک ایسی طوائف کی صورت میں سامنے آتی ہے جو دو سطحوں پر مقیم ہے یعنی دن کی روشنی میں ایک شریف خاتون کے لبادے میں اور رات کو ایک طوائف کے انداز میں مراد یہ نہیں کہ اس کے اندر کوئی تبدیلی آتی ہے بلکہ فقط یہ کہ اس کی زندگی کا پیٹرن ہی دن اوررات کے متضاد رنگوں سے مل کر مرتب ہوا ہے۔ ’’کافر‘‘ کی میں، ایک پڑھی لکھی باشعور لڑکی ہے جو اپنے ہر اقدام کا تجزیہ کرنے پر قادر ہے ’’چنری کی دکی‘‘ کی عالمہ اس بدقسمت لڑکی کی مثال ہے جو محض اس لئے مسترد ہوجاتی ہے کہ اس کی شکل وصورت مقابلہ حسن میں ناکام ہے۔ ’’لحاف‘‘ کی بیگم جان بظاہر ایک نفسیاتی کیس ہونے کے باعث روش عام سے ہٹے ہوئے ایک کردار کا روپ ہے مگر غور کریں تو وہ بھی اول اول اپنی جنس کے ایک نمونے کے طور پر ہی افسانے میں داخل ہوتی ہے۔ ننھی کی نانی بھی ایک عام سااسم ہے جو ہر محلے میں کہیں نہ کہیں نظر آسکتا ہے۔ وہ عام انسانوں سے مختلف ہونے کے باوجود اپنی نوع کے افراد سے ختلف نہیں ہے۔ اسی طرح ’’ڈائن‘‘ کی اماں جان بھی ایک بالکل نارمل ہستی ہے جو دوسروں کی عمروں کو خودبسر کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

    عصمت کے یہ سارے نسوانی کردار ایسے اسماء ہیں جن کے ساتھ کچھ بنیادی صفات منسلک ہیں۔ ایسی صفات جن سے ان کرداروں کا مقام متعین ہوسکتا ہے۔ پڑھی لکھی لڑکی، نچلے طبقےکی لڑکی ’طوائف‘ گھر سے جڑی ہوئی عورت بدصورت لڑکی، لیزبین (Lesbian) امربیل ایسا نسوانی کردار، سگھڑ عورت وغیرہ ایسے کردار ہیں جو اپنے مخصوص اوصاف کی بنا پر بخوبی پہچانے جاسکتے ہیں۔ کہانی کے معاملے میں ’صفات‘ کو مختلف ساختیاتی نقادوں نے مختلف نام دیے ہیں۔ مثلاً گریماس نے اسے Qualification کہا ہے کرسٹیوا نے Qualifying Adjective جب کہ تو دوروف نے اسے اسم صفت ہی کہہ کر پکارا ہے اوراسے مختلف حالتوں مثلاً خوش ناخوش، مختلف رویوں مثلاً نیکی بدی اور مختلف جسمانی سماجی اور مذہبی امتیازات مثلاً نر، ماد یا عیسائی، یہودی یا عالی نسب پنج میں تقسیم کرکے پیش کیا ہے۔ کردار سے صفت کا املاک اسے معاشرتی نفسیاتی یا مذہبی سطح کی ایک خاص مد Category تفویض کرتا ہے۔ عصمت کے نسوانی کرداروں کے ساتھ اسمائے صفت واضح طورپر منسلک ہیں لہٰذا یہ کردار بے چہرہ تجریدی اکائیاں نہیں ہیں جیسی کہ تجریدی افسانے میں عام طور سے دکھائی دیتی ہیں۔ تجریدی افسانے کا قصہ یہ ہے کہ اس میں کردار اپنے خد و خال سے ہی محروم نہیں ہوتا بلکہ اپنی صفات سے بھی منقطع ہوجاتا ہے۔ چنانچہ وہ کہانی کی Grammar of Narrative کی بنت میں محض ایک دھاگے کے طورپر شامل دکھائی دیتا ہے مگر عصمت کے کردار اسم معرفہ سے مزین اور اسم صفت سے لیس ہیں۔ کہہ لیجئے کہ اس اعتبار سے وہ کردار کے قدیم تصور سے ایک بڑی حد تک ہم آہنگ ہیں۔ تشخص کی شرط کردار کے وجود کے لئے ضروری ہے اور عصمت کے کردار اپنے سماجی نفسیاتی اور ذہنی امتیازات کی بنا پر اپنا ایک الگ وجود رکھتے ہیں۔ مثلاً ’’تل‘‘ کی رانی یا ’’دوہاتھ‘‘ کی گوری نچلے طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ جہاں ضبط و امتناع کا میلان ناپید ہوتا ہے نتیجہ یہ ہے کہ کردار چہکتے بولتے لہو کی زد پر آئے ہوئے نظر آتے ہیں جبکہ ’’کافر‘‘ کی ’’میں‘‘ معاشرے کے تقاضوں سے آگاہ ہونے کے باعث کوئی انقلابی قدم اٹھانے سے پہلے تذبذب کا شکار ہوتی ہے اور ’’لحاف‘‘ کی بیگم جان اپنی فطری زندگی کو لحاف اوڑھانے کی مرتکب دکھائی دیتی ہے۔

    کہانی میں اسمائے صفت کا استعمال بالعموم کردار کے بارے میں کہانی کار کے رویے کو ابتداء ہی میں پیش کردیتا ہے مثلاً اس کے ساتھ نیکی اور شرافت یا خباثت اور بدی کو منسلک کرکے کہانی کار قاری کے جذبات کو کردار مذکور کی حمایت یا مخالفت میں برانگیخت کرتا ہے۔ اسی لئے قدیم طرز کی کہانیوں میں اسمائے صفت کی بنیادی پر ہیرو اور اس کے مقابلے میں ویلین کا تصور ملتا ہے۔ دونوں اپنی اپنی جگہ مکمل ہستیاں ہیں جن کے کردار متعین اور مقرر ہیں اور کہانی کار ان کا فائدہ اٹھاکر قاری کے جذبات سے کھیلنے میں کامیاب ہوتا ہے یعنی اس کے دل میں ہیرو کے لئے محبت اور ولن کے لئے نفرت پیدا کرتا ہے۔ جدید افسانے نے کرداروں کے ساتھ اس طرح کے اسمائے صفت منسلک کرنا ترک کردیا ہے جن سے کردار میں لچک کا امکان ہی باقی نہ رہے۔ جدید افسانے کے کردار پگھلی ہوئی حالت میں دکھائی دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں جدید افسانے کے کرداروں کی صفات ان کی پیشانیوں پر Labels کی صورت میں چسپاں نہیں ہیں بلکہ ایک بیج کی طرح پھوٹتی اور برگ و بار لاتی نظرآتی ہیں۔ عصمت چغتائی کے بیشتر نسوانی کرداراس جدید رویے کے غماز ہیں وہ جب افسانے میں داخل ہوتے ہیں تو قاری کہہ نہیں سکتا کہ وہ کیا روپ اختیار کریں گے مگرافسانے کے مطالعہ کے بعد قاری کو یہ کردار اپنے اصل روپ میں نظرآجاتے ہیں۔

    اسم معرفہ اور اسم صفت کے ربط باہم نے عصمت کے کرداروں کو ایک بند نظام Closed System کا درجہ عطا کیاہے اس عمل سے اس کے کردار تجریدی افسانے کے بے نام کرداروں سے مختلف ہوگئے ہیں تاہم جدید اردوافسانے کے تناظر کو ملحوظ رکھیں تو عصمت کا یہ اقدام انوکھا نظر نہیں آئے گا کیونکہ جدید اردو افسانہ نگاروں سے بیشتر نے اپنے کرداروں کو Closed System کے طورپر ہی پیش کیا ہے۔ فرق وہاں پڑا ہے جہاں جملے میں ’فعل‘ کی کارکردگی کا آغاز ہوا ہے کیونکہ فعل کے عمل دخل کے دوران ایک اچھا افسانہ نگار محض قصہ گو کے مقام پر رک نہیں جاتا بلکہ جذباتی طورپر افسانے کی واردات میں شامل بھی ہوجاتا ہے۔

    دراصل ساختیات نے اس ہیرو نماکردار کو قبول نہیں کیا جو مقرر اورمتعین صفات کا نمائندہ ہے اس کے مطابق فرد رشتوں کی ایک ایسی اکائی ہے جو بحرانی صورت حال میں اندر سے خالی ہوجاتی ہے یعنی اس کے اندر ایک ایسی Space ابھر آتی ہے جس میں واقعات اور قوتیں جمع ہونے لگتی ہیں اور ایک طرح کی مہابھارت کا آغاز ہوجاتا ہے اس عمل سے فرد کی بنیادی صفات نمودپذیر ہوکر سطح پر آجاتی ہیں بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ بنیادی صفات حالات و واقعات سے ٹکراکر منقلب ہوجاتی ہیں اور کردار کے نقوش واضح ہونے لگتے ہیں لہٰذا زیادہ زور Structuring کے عمل پر ہے۔ منقلب ہونے کا مفہوم محض یہ نہیں کہ صفات کے دھاگے نئے نئے پیٹرن بنانے پر قادر ہوجائیں بلکہ یہ بھی کہ وہ ایک خاص سمت میں متحرک ہوں۔ تو دوروف نے اسی بات کو Direct And Teleological Set کا نام دیا تھا۔ آپ کہہ لیں کہ فرد جب رشتوں کی گرہ بن کر ایک خاص سمت میں متحرک ہوتا ہے تو وہ کردار کے درجے پر پہنچ جاتا ہے۔

    عصمت کی کردارنگاری میں خودکہانی کار کی شرکت نے ایک ایسی صورت پیدا کردی ہے کہ نہ صرف اس کے کردار دوسرے افسانہ نگاروں کے کرداروں سے مختلف نظر آنے لگے ہیں بلکہ ان میں (یعنی عصمت کے کرداروں میں) ایک قدر مشترک بھی دکھائی دی ہے جو کردار میں عصمت کی شرکت کا بدیہی نتیجہ ہے۔ ویسے یہ ضروری بھی تھا کیونکہ اگرافسانہ نگار کردار کی بنت میں شامل ہوکر اسے وہ سمت عطا نہیں کرے گا جو اس کی اپنی ذات میں مضمر ہے تواس کا کردار دوسری کہانی کاروں کے کرداروں سے اپنے جذباتی اور نفسیاتی امتیازات کی بنا پر الگ دکھائی نہیں دے سکے گا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کردار خود افسانہ نگار کی محض ایک نقل یا Replica ہوتا ہے بلکہ صرف یہ کہ افسانہ نگار کی شرکت کے باعث اس کی بنیادی احساسی جہت اس کردار کو عطا ہوجاتی ہے اور یہ سب کچھ قطعاً غیرارادی طورپر ہوتا ہے مثلاً عصمت کے کرداروں کی بنیادی جہت کو لیجئے جو ایک طرح کی بغاوت توڑپھوڑ یا کم از کم منضبط سماجی یا نفسیاتی پیٹرن سے انحراف کی صورت ہے۔ اپنی کہانی لکھتے ہوئے عصمت چغتائی کہتی ہیں،

    ’’میں بھی روزسفید گھوڑی پر بیٹھنے لگی۔ گھوڑی پر بیٹھ کر مجھے فتح مندی کا بے پناہ احساس ہوا۔ باغی عصمت کی یہ پہلی فتح تھی۔‘‘

    ’’میں اپنے بھائیوں کے ساتھ وہ بھی کھیل کھیلتی جو لڑکے کھیلا کرتے تھے۔ گلی ڈنڈا، پتنگ اور فٹ بال کھیلتے کھیلتے میں بارہ برس ہوگئی۔‘‘

    ’’بچپن میں مجھے سوتے میں چلنے کی عادت تھی۔ دس برس کی عمر تک یہ عادت رہی۔ سوتے میں اٹھ کر کہیں بھی نکل جاتی۔ ایک بار کنڈی کھول کر باغ میں چلی گئی۔ جب ہوش آیا توپیڑ کے نیچے کھڑی تھی۔‘‘

    ’’کالج پہنچنے تک تومیں برقع بالکل چھوڑ چکی تھی۔‘‘

    ’’میں نے شاہد کو شادی سے پہلے خوب سمجھایا تھا کہ میں گڑبڑ قسم کی عورت ہوں بعد میں پچھتاؤگے میں نے ساری عمر زنجیریں کاٹی ہیں۔ اب کسی زنجیر میں جکڑی نہ رہ سکوں گی۔ فرمانبردار، پاکیزہ، عورت ہونا مجھ میں سجتا ہی نہیں ہے لیکن شاہد نہ مانے۔‘‘

    ’’مرد عورت کو پوج کر دیوی بنانے کو تیار ہے وہ اسے محبت دے سکتا ہے عزت دے سکتا ہے صرف برابری کا درجہ نہیں دے سکتا۔ شاہد نے مجھے برابری کا درجہ دیا اس نے ہم دونوں نے ایک اچھی گھریلو زندگی گزاری۔‘‘

    ان اقتباسات سے محسوس ہوا کہ عصمت کو ایک ’باغی عورت‘ سمجھتی ہے اور اس بات پر اسے فخر بھی ہے لیکن واقعی بغاوت کی نوعیت کو پوری طرح سمجھ پائی ہے؟ میرا اندازہ ہے کہ عصمت نے سب خود کوبطور ایک کردار دیکھا ہے تو اسے ’’بغاوت‘‘ علاقائی سطح پر ایک نظر آگئی ہے گھر وہ اس بغاوت کے چھپے ہوئے پہلوؤں سے پوری طرح لگاؤ نہیں ہوسکتی۔ یہ مخفی پہلو قطعاً غیرشعوری طورپر اس کے تخلیق کردہ نسوانی کرداروں میں شامل ہوتے چلے گئے ہیں۔ چنانچہ جب ہم ان کرداروں کے اعمال وافعال کا عصمت کی زندگی اوراس کے ’’باغی رویے‘‘ سے موازنہ کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ عصمت خود سے پوری طرح آگاہ نہیں ہے اور یہ اچھی بات بھی ہے کیونکہ اگرانسان خودکو ایک کھلی کتاب کی طرح پڑھ ڈالے تو زندگی کی ساری اسراریت ہی ختم ہوجائے۔ خوش قسمتی سے خود کو تمام وکمال ’’پڑھ سکنا‘‘ ممکن بھی نہیں ہے۔ دل دریا، سمندر سے زیادہ ڈونگھا متصور ہوتا ہے اور آئس برگ کا بھی تین چوتھائی حصہ پانی میں چھپا ہوتا ہے تاہم اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عصمت نے اپنی شخصیت کے غالب رجحان کا (بالائی سطح پر سہی) ایک حد تک ادراک ضرور کیا ہے۔

    عصمت کے نسوانی کرداروں میں بغاوت کا یہ میلان ایک قدر مشترک کے طورپر موجود ہے مگر یہ بغاوت انٹی لیکچوئل قسم کی بغاوت نہیں ہے جیسا کہ خود عصمت کی آپ بیتی سے مشرتح ہے۔ مردانہ پن کو اپنانے کا رویہ مثلاً لڑکوں کے کھیلوں میں شرکت یا کھانا پکانے اور سینے پرونے کے نسوانی میلان سے انحراف یا ہاؤس وائف بننے سے گریز یا پردہ نہ کرنے کا رویہ یا ملازمت اختیار کرنے کی روش۔ یہ سب باتیں آج کے معاشرے میں ’’بغاوت‘‘ کے زمانے میں یہ سماجی سطح کی بغاوت ہی قرار پائی تھیں۔ تاہم عصمت کی اصل بغاوت ان چھوٹی چھوٹی بغاوتوں سے عبارت نہیں تھی۔ اس کی اصل بغاوت اس بات میں تھی کہ اس کے نسوانی کرداروں میں ایک ایسی عورت ابھر آئی جوایک پروٹوٹائپ کے طورپر عصمت کی سائکی میں موجود تھی۔ آغازکار میں یہ عورت ایک نارمل ہستی کی طرح کہانی میں داخل ہوئی مگرجیسے جیسے وہ دوسرے کردار وں سے متصادم ہوئی اور حالات و واقعات سے گزرتی گئی خود اس کے اندر کی چٹان یا ڈائن یا امربیل یا طوائف یا لزبئین مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی۔ کہہ لیجئے کہ چونکہ یہ عورت طبعاً باغی تھی لہٰذا اس کے راست ےمیں جوکردار، روایات یا سماجی مظاہر آتے وہ حفاظت خوداختیاری کے تحت خود بھی اس عورت سے متصادم ہوجاتے۔

    دونوں صورتوں میں ’’عورت‘‘ تو قدم بقدم فعال ہوتی گئی مگراس کے راستے میں آنے والے کردار اور مظاہر ’’ادھڑتے‘‘ چلے گئے۔ اس سلسلے میں عصمت کے متعدد نسوانی کرداروں کا ذکر کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً ’’چڑی کی وکی‘‘ کی عالمہ جو اپنی بدصورتی کے باعث شادی بیاہ کی مارکیٹ میں سستے دانوں فروخت ہونے والی جنس ہے مگرجس کے اندر ایک توانا عورت چھپی بیٹھی ہے چنانچہ جب وہ عبدالحئی کی زندگی میں داخل ہوتی ہے تواس کے دل میں اپنے لئے نفرت پیدا کرکے بالآخر اسے اسی ہتھیار سے کاٹ بھی ڈالتی ہے۔ مرد کو فتح کرنے کے لئے عورت نے ہمیشہ اپنی خوبصورتی کو بطور آلہ ضرب استعمال کیاہے مگر عالمہ خوبصورتی سے محروم ہے۔ تلافی کے طورپر اس کے اندر کی ’’عورت‘‘ فعال ہوجاتی ہے اور پہلے ہی وار میں عبدالحئی کی شخصیت (بلکہ کہنا چاہئے کہ اس کے سارے Defence Mechanismکو) توڑپھوڑ دیتی ہے چنانچہ عبدالحئی بظاہر تھوتھوکرتا مگراندر سے ٹوٹتا چلا جاتا ہے اورعالمہ کی مقناطیسی شخصیت اسے اس حد تک بے دست وپا کردیتی ہے کہ وہ اسے اپنانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ افسانے کے آخر میں جب عبدالحئی کی اماں کہتی ہے،

    ’’ہائے تجھے تو چڑی کی وکی (مرادعالمہ) سے گھن آتی تھی؟‘‘

    عبدالحئی جواب دیتا ہے ’’وہ توآتی ہے اور آتی رہے گی۔‘‘

    ’’پھر تجھے کیا ہوگیاہے میرے لال۔۔۔ کیوں اپنی زندگی مٹی میں ملادی؟‘‘

    ’’کالی مائی نے جادوکردیا ہے‘‘ مئی نے مسکین صورت بناکر کہا اور بڑی دھوم دھام سے اپنی زندگی مٹی میں ملادی۔‘‘

    مٹی کا عالمہ کوکالی مائی کہنا ایک معنی خیز خطاب ہے کیونکہ اس سے ذہن فی الفور کالی یا Devouring Mother کی طرف راغب ہوتا ہے جو عورت کا تخریبی رخ ہے اور ہر نسوانی کردار میں چھپا ہوتا ہے تاہم جب ضرورت پڑے تو باہر بھی نکل آتا ہے شاید اسی لئے عورت کے بارے میں کہاگیا ہے کہ،

    There is a jungle in the heart of every woman.

    کچھ یہی صورت عصمت کے افسانے ’’تل‘‘ کے کردار رانی کی ہے۔ رانی سماج کے نچلے درجے سے تعلق رکھتی ہے لہٰذا ان امتناعات سے محفوظ ہے جو سماج کے اوپر والے طبقات میں رائج ہیں۔ مگر رانی اس کے علاوہ جنسی طورپر ایک مشتعل عورت کا روپ بھی ہے اوراس اعتبار سے وہ بھی کالی سے مشابہ ہے۔ تل خود بظاہر ایک چھوٹا سا داغ ہے لیکن افسانے کے اندر وہ نہ صرف رانی کے وجود کی علامت بن جاتا ہے بلکہ بڑھ اور پھیل کر معاشرے کی اخلاقیات کے سامنے ایک متوازی قوت کے طورپر بھی ابھر آتا ہے۔ یہ متوازی قوت ایک طوفان ہے جو گنیش چندر چودھری کی ثابت و سالم شخصیت کے بارےسارے پتواروں کو توڑتا اور تختوں کو لخت لخت کردیتا ہے۔ اس حد تک کہ چودھری کی شخصیت Deconstruct ہوجاتی ہے۔ افسانے کے آخر میں صورت حال کچھ یوں ابھرتی ہے،

    ’’چودھری کا نہیں تھا‘‘ اس نے بھری کچہری میں حلف اٹھاکر کہہ دیا،

    ’’چودھری توہیجڑا ہے‘‘ اس نے لاپرواہی سے کہا ’’وہ رتنا ہے پوچھو یا اس سے اب مجھے کیا معلوم واہ‘‘ وہ اپنی پرانی ادا سے اٹھلائی۔ ایک خاموش گرج اور چمک کے ساتھ سیاہ پہاڑ چودھری کی ہستی پر پھٹا اور دور سیاہی میں اور بھی گول ابھرا ہوا نقطہ پھر کی کی طرح گھومنے لگا۔‘‘

    چودھری اب سڑک کے کنارے کوئلے سے لکیریں کاڑھتا رہتا ہے۔۔۔ لمبی، تکونی، گول جیسے جلا ہوا داغ۔‘‘

    گویا تل جورانی کی تحویل میں ایک خونی گزر کا درجہ رکھتا تھا اب چودھری کے دل میں اتر گیا ہے اور وہ ایک بے جان سیارے کی طرح اس مقناطیسی سیہ گولے کے گرد گھومتا چلا گیا ہے۔

    عصمت کے بیشتر نسوانی کردار اپنی منفی قوت کے بل پر ہی ابھرتے اور کہرام برپا کرتے ہیں مثلاً ’’دوہاتھ‘‘ میں بظاہر معاشی مسئلہ کو مرکزی اہمیت تفویض کی گئی ہے اور اخلاقیات کو معاشی ضرورت کے تابع متصور کیا گیا ہے (کسی حد تک یہ رویہ ترقی پسند نظریے کا غماز بھی ہے) لیکن افسانے کا مرکزہ دراصل گوری ہے جو رانی ہی کی طرح سماج کے نچلے طبقے سے تعلق رکھنے کے باعث سماجی امتناعات کا احترام کرنے سے قاصر ہے۔ فرق یہ ہے کہ رانی جنسی طورپر مشتعل عورت کے روپ میں ابھری تھی جب کہ گوری سماجی اخلاقیات سے انحراف کی ایک مثال ہے۔ وہ سماج میں رہتے ہوئے بھی جنگل کے اس قانون کے تابع ہے جو نسل کے تسلسل کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے چاہے یہ عمل سماجی قوانین کے تابع ہو یا نہیں۔ گوری جنگل کی مخلوق ہے لیکن افسانے میں اس کا وجود اپنی فطری بیباکی اور عریانی کے ساتھ اس طور ابھرا ہے کہ اس کے چاروں طرف موجود بہت سے سماجی جبے تار تار اور پگڑیوں کے بل کھل کھل گئے ہیں اوراس کے محلے کی ساری بیویوں کے سروں پر شوہروں کے ’’غلاظت‘‘ میں دھنس جانے کا خطرہ منڈلانے لگا ہے۔ صورت حال کچھ یوں نظرآتی ہے،

    ’’گوری کیا تھی بس ایک مرکھنا لمبے لمبے سینگوں والا بجار تھا کہ چھوٹا پھرتا تھا لوگ اپنے کانچ کے برتن بھانڈے دونوں ہاتھوں سے سمیٹ کر کلیجے سے لگاتے اور جب حالات نے نازک صورت پکڑ لی تو شاگرد پیشے کی ملاؤں کا ایک باقاعدہ وفد اماں کے دربار میں حاضر ہوا۔ بڑے زور وشور سے خطرہ اور اس کے خوفناک نتائج پر بحث ہوئی۔ پتی رکھشا کی ایک کمیٹی بنائی گئی جس میں سب بھاوجوں نے دومد سے ووٹ دیے۔‘‘

    گویا رانی کی طرح گوری نے بھی تووڑپھوڑ ہی کا مظاہرہ کیا ہے فرق یہ ہے کہ رانی نے ایک شخص چودھری کے کردار کو پاش پاش کیا تھا جب کہ گوری نے پورے محلہ کی اخلاقیات کا منہ چڑایا ہے اور معاشرے کو سماجی قوانین کے چھتر تلے سے نکال کر جنگل کے حوالے کردیا ہے۔

    جہاں ’’دوہاتھ‘‘ کی گوری فطرت کا شاہکار ہے وہاں ’’لحاف‘‘ کی بیگم جان فطرت کے نظام سے انحراف کی ایک مثال ہے۔ بظاہر اس کا عمل ایک انتقامی کارروائی قرار پائے گا کیونکہ وہ اپنے شوہر نواب صاحب سے اس کی بے اعتنائی کا انتقام لیتی ہے مگراصلا ً یہ اس کی شخصیت کا متشدد رخ ہے جو فطرت کے متوازی آکھڑا ہوا ہے۔ بیگم جان کو کھجلی کا مرض ہے جو مرض کم اورنفسیاتی سطح کی ’’بے قراری‘‘ زیادہ ہے وہ اپنی بغاوت کا آغاز اپنے ہی جسم کو تختہ مشق بناکر کرتی ہے اورپھر وائرس کو پھیلانے کی مرتکب ہوتی ہے۔ مثلاً افسانے کی ’’میں‘‘ ایک نوخیز لڑکی ہے، ایک کلی جسے پھول بننا اور پھر نسل کے تسلسل کو جاری رکھنا ہے مگر بیگم جان قطعاً غیرشعوری طورپر اس لڑکی کو بھی اس کے فطری منصب سے ہٹاکر اپنی بانجھ دنیا میں داخل کرنے کی کوشش کرتی ہے جو فطرت کے قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ بیگم جان نے اپنی فطری زندگی کو ’’لحاف‘‘ اوڑھا رکھا ہے تاکہ وہ معاشرہ کی تیز نگاہوں سے اوجھل رہے مگر معاشرہ ایک ایسی قوت ہے جو دیواروں تک کو پار کرجاتی ہے وہ جو کہا گیا کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں تواس کا مطلب یہ ہے کہ انسان جس شے سے اپنے اعمال کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے وہ خود ہی اس کے اعمال کی مخبر بن جاتی ہے۔ ’’لحاف‘‘ میں بیگم جان نے لحاف کو پردہ بنایا ہ مگر لحاف نے آسیبی شکلوں میں ڈھل کر اور جابجا روزن بناکر اپنے اندر کے وجود کو منکشف کر دیا ہے جس کے نتیجے میں افسانے کی ’’میں‘‘ لحاف میں داخل ہونے کے بجائے سے متنفر ہوگئی ہے۔ ایک طرح سے یہ معاشرے کی فتح بھی ہے کہ اس نے وائرس کو پھیلنے سے روک دیا ہے مگر بیگم جان کا اقدام بھی اپنی جگہ ’’کامیاب‘‘ ہے کہ اس نے ’’میں‘‘ کو نفسیاتی کرب میں مبتلا کردیا ہے (منٹو کے ’’کھول دو‘‘ پر فحاشی کا الزام لگا لیکن اس پر اصل الزام یہ لگنا چاہئے تھا کہ اس نے اذہان کو جنس سے متنفر کرکے ایک نفسیاتی الجھن میں مبتلا کردیا) ’’لحاف‘‘ کی ’’میں‘‘ پر لحاف کے اثرات اس امکان ہی کا ثبوت ہیں۔ گویا وہ جو کام جسمانی سطح پر نہ کرسکی اسے نفسیاتی سطح پر کرنے میں کامیاب ہوئی۔ دونوں سطحوں کا مقصد دوسرے کردار کواس کے فطری وظائف سے برگشتہ کرتا تھا۔ سواس نے ایسا کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔

    مگرعصمت کے افسانوں میں ایسے کرداربھی ابھرے ہیں جو اپنے اندر کی متشدد، مشتعل یا منتقم مزاج عورت کا روپ نہیں ہیں بلکہ عورت کے اناپورنا یا مثبت روپ کو سامنے لاتے ہیں تاہم نتائج کے اعتبار سے دونوں میں زیادہ فرق نہیں ہے کیونکہ دونوں موجود فضا اوراس کے کرداروں کو اتھل پتھل کرتے ہیں۔ ایک لوہے کی تلوار سے، دوسرا سونے کی تلوار سے مثلاً ’’جڑیں‘‘ کی اماں جو بقول عصمت ’’اپنی جگہ پر ایسے جمی رہیں جیسے بڑے کے پیڑ کی جڑ آندھی طوفان میں کھڑی رہتی ہے‘‘ ایک ایسا نسوانی کردار ہے جس نے اپنے خاندان کو نقل مکانی میں شریک ہونے سے انکار کردیا ہے۔ محض اس لئے کہ وہ دھرتی سے اکھڑنے کو اسے لئے موت کا پیغام سمجھتی ہے۔ صورت یوں ابھرتی ہے کہ زمانے کی ہوا پہلے متحرک ہوتی رہے پھر طوفانی ہوجاتی ہے اور اماں کے سارے پھول اور پھل (اس کے جگر کے ٹکڑے) زمانے کی تیزآندھی کے ساتھ اڑ جاتے ہیں مگر خود اماں ایک جڑ ہے جس کی جہت عمودی ہے نہ کہ زمانے کی ہوا کی طرح افقی لہٰذا وہ اپنی دھرتی کے ساتھ جڑی رہتی ہے چونکہ اماں اپنے خاندان کا ’’مرکزہ‘‘ ہے لہٰذا جب خاندان اس کے بغیر سفر کرتا ہے تو بکھرجاتا ہے اماں کے اس اقدام کو ’’ضد‘‘ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ اس کی مجبوری ہے کیونکہ جڑ زمین سے غذا حاصل کرتی ہے ہوا سے نہیں۔

    مثبت روپ کی حامل سولہ سال کی رخسانہ بیگم (جوافسانہ ’’امربیل‘‘ میں ابھری ہے) اسی وضع کا ایک اور نسوانی کردار ہے۔ رخسانہ بیگم کسی قسم کے باغی رویے کا مظاہرہ نہیں کرتی بلکہ ہر صورت حال سے سمجھوتہ کرتی چلی جاتی ہے۔ مثلاً جب اس کی شادی چالیس سالہ شجاعت سے ہوتی ہے تو وہ اسے دل وجان سے قبول کرلیتی ہے اورپھر آخر تک اس کے ساتھ وفادار رہنے کے علاوہ اس کی خدمت ایک اچھی بیوی کی طرح بھی کرتی ہے مگر خود اس کی جوانی کے شوہر کو ’’منہدم‘‘ کردیتی ہے۔ بالائی سطح پر رخسانہ بیگم کی جوانی اس کے شوہر کے لئے ایک لباس فاخرہ ہے لیکن درپردہ یہی جوانی امربیل کی طرح شجاعت (رخسانہ کا شوہر) کا لہو پیتی ہے بالکل جس طرح داستانوں کی ڈائن کیا کرتی تھی۔ ’’تل‘‘ کی رانی اور ’’امربیل‘‘ کی رخسانہ اصلاً ایک جیسے کردار ہیں کہ فریق مخالف کی ساری شخصیت کو تار تار کردیتے ہیں تاہم اوپر کی سطح پر ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ رانی سماج کے نچلے طبقے سے تعلق رکھتی ہے لہٰذا نچلے طبقے کی ’’اخلاقیات‘‘ اس پر حاوی ہے جبکہ رخسانہ متوسط طبقے کی عورت ہے اور متوسط طبقے کی اس اخلاقیات کے تابع ہے جو جنسی خواہشات کو کچلنے پر زور دیتی ہے اسی طرح رانی ایک بے سمت، غیرشادی شدہ اور جنسی طورپر مشتعل عورت ہے جب کہ رخسانہ شادی شدہ، بااخلاق اور خوب رو ہے تاہم جس طرح رانی کے تل نے چودھری کو بے دست وپا کردیا تھا اس طرح رخسانہ کی خوبصورتی اور جوانی نے اس کے شوہر کوہلاکر رکھ دیا ہے۔ بقول عصمت ’’امربیل‘‘ پھیلتی رہی برگد کا پیڑ سوکھتا رہا۔ آخر میں جب شجاعت کی میت صحن میں بنی سنوری رکھی ہوئی تھی تورخسانہ بیگم گم صم بیٹھی تھی جیسے قدرت کے سب سے مشاق فنکار نے اپنے بے مثل قلم سے کوئی شاہکار بناکر سجا دیا ہو۔‘‘

    کچھ اسی وضع کی صورت حال افسانہ ’’ڈائن‘‘ میں بھی ابھرتی ہے۔ ’’ڈائن‘‘ کی اماں جان حامد کی ساس ہے جوامربیل کی طرح سارے گھر پر سایہ کناں ہے اور رضیہ اور حامد کی عمروں کوخودبسر کرنا چاہتی ہے۔ اس سے حامد کی ازدواجی زندگی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہے اور اسے یوں لگتا ہے جیسے اس کے گھر کے اندر کوئی ڈائن گھس آئی ہے جس نے اس سے اس کی بیوی رضیہ چھین لی ہے۔ آخر میں جب حامد اپنی ساس کو برداشت نہیں کرسکتا اور شدیدردعمل کا مظاہرہ کرتا ہے تو ’’اماں جان‘‘ اس کے غیرمعمولی ردعمل کو کسی فرضی معاشقہ کا کارن قرار دیتے ہوئے کہتی ہے،

    ’’خداغارت کرے اس ڈائن قطامہ کو جومیری بچی کا گھر بگاڑ رہی ہے‘‘ اور نہیں جانتی کہ وہ ڈائن قطامہ تو وہ خود ہے جس نے بچی کے گھر کو بیخ وبن سے اکھیڑ دیا ہے۔

    مجموعی اعتبار سے دیکھا جائے تو عصمت چغتائی کے نسوانی کرداروں کو ایک اپنی زبان ہے اور وہ زبان ہی کی طرح اہم صفت اور فعل سے مرتب ہوئے ہیں۔ اہم کی سطح پر عصمت کے کرداروں مثلاً ’’تل‘‘ کی رانی ’’دوہاتھ‘‘ کی گوری ’’کافر‘‘ کی میں ’’پیشہ‘‘ کی سیٹھانی ’’امربیل‘‘ کی رخسانہ ’’چڑی کی وکی‘‘ کی عالمہ ’’لحاف‘‘ کی بیگم جان ’’ڈائن‘‘ کی اماں وغیرہ کے بطون میں عورت کا اسطوری یا آرکی بیل رخ صاف نظر آتا ہے۔ مگر یہ عورت محض ان تمام نسوانی کرداروں کی حاصل جمع نہیں ہے بلکہ اس سے ’’کچھ زیادہ‘‘ ہے اور یہ ’’کچھ زیادہ‘‘ کا عنصر خود عصمت کی شخصیت نے نسباً کیا ہے اگرایسی بات نہ ہوتی تو پھر یہ کردار ہوبہو اسی صورت میں دیگر افسانہ نگاروں کے ہاں بھی نظر آجاتے اور خود عصمت کے نسوانی کردار بھی ایک دوسرے کے چربے دکھائی دیتے مگرایسا نہیں ہوا۔ ان میں سے عصمت کا ہرکردار اپنا ایک منفرد وجود رکھتا ہے جو خود عصمت کی شخصیت کو چھوٹ پڑنے سے ’’چیزے دیگر‘‘ بن گیا ہے۔ صفت کی سطح پر عصمت کے یہ جملہ کردار معاشرے کی مختلف سطحوں سے ماخوذ ہونے کے باعث اپنے مخصوص خدوخال کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں تاہم وہ ’’ٹائپ‘‘ نہیں ہیں یعنی اگرچہ ان کے اساس پروٹوٹائپ پر استوار ہے پھر بھی عصمت نے پروٹوٹائپ کی سطح پر کردار ہی کے نقوش ابھارے ہیں۔ یوں کہہ لیجئے کہ پروٹوٹائپ جب اپنے پیمانے سے چھلکا ہے تو نئی صفات کا حامل بن کر کردار میں متشکل ہوگیا ہے۔ رہا فعل کا معاملہ تواس سطح پر عصمت کے جملہ نسوانی کردار مختلف واقعات اور سانحات سے گزر کر نامیاتی طورپر نشوونما پاتے اور قدیم کرداروں کی طرح شروع سے آخر تک ایک مقرر اورمتعین صورت میں قائم رہنے کے بجائے ہمہ وقت اپنے متحرک باطن کو منکشف کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

    حقیقت یہ ہے کہ فعل کی سطح پر عصمت نے ان کرداروں کی انفرادیت کو پوری طرح اجاگر کیا ہے کیونکہ بحرانی صورت حال ہی میں کردار کی مخفی قوتیں متحرک ہوکر اپنا بھرپور اظہار کرتی ہیں۔ عصمت کے یہ کردار عمودی اور افقی دونوں سطحوں پر فعال دکھائی دیتے ہیں۔ عمودی سطح مشابہت پراستوارہوتی ہے۔ اس سطح پر زبان اپنے اجتماعی بنیادی رخ سے مدد طلب کرتی ہے اور انتخاب اور ارتباط کے ذریعے استعاراتی رویے متحرک کرکے بات میں عمودمی گہرائی پیدا کرتی ہے۔ یہی کچھ کردار نگاری کے عمل میں بھی ہوتا ہے جہاں افسانہ نگار کردار کے عقب یا بطن میں جھانکتا ہے اور انتخاب اور ارتباط کے ذریعے کردار میں عمودی گہرائی پیدا کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ عصمت کے نسوانی کرداروں میں عورت کے بنیادی روپ کی موجودگی اس کے ہاں Paradigmatic رویے ہی کی غماز ہے۔ رہا افقی سطح کا قصہ تواس معاملہ میں بھی عصمت نے واقعات اور سانحات کی ایک فطری رو کو جنم دیا ہے یعنی ایک ایسی صورت کو جس میں واقعات اور سانحات جملے کی لسانی ترتیب کی طرح اپنے صحیح مقام پر فائزہیں چنانچہ ان سے ’’شور‘‘ پیدا نہیں ہوتا بلکہ وہ سب ایک خاص معنی پر منتج ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔

    افسانے اور اس کے قاری (یا نقاد) کا رشتہ ناقابل شکست ہے مگرقاری افسانے کے سامنے جھولی پسارے بیٹھا نہیں ہوتا جس میں افسانہ نگار، کہانی یا کردار کی بھیک انڈیل دے۔ اس کے برعکس وہ افسانے کے Text کے ساتھ کھیلتے ہوئے معنی کی نئی سطحوں کو خلق کرنے میں کامیاب ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ افسانے کو ازسرنو ’’لکھتا‘‘ ہے مگر خود قاری کا بھی اپنی جگہ ایک مسئلہ ہے۔ وہ ایسے کہ ہر قاری کے اعماق میں کچھ ’’نمونے‘‘ (Paradigms) وہبی طورپر موجود ہوتے ہیں۔ جن کے مطابق وہ افسانے کے پلاٹ اور کردار کو دیکھنے کا متمنی ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں نارتھ روپ فرائی نے چار Mythosکا ذکر کیا ہے یعنی بہار، گرمی، خزاں اورسردی جو زندگی کی بنی بنائی Categories ہیں۔ ’’بہار‘‘ کے تحت ایسے پلاٹ اورکردار قابل ذکر قرار پاتے ہیں جن میں محبت کامگار ہوتی ہے اور ظالم سماج جو محبت کرنے والوں کا ازلی وابدی دشمن ہونے کے باعث ہمیشہ ان کے راستے میں رکاوٹ بنتا ہے، ناکام ونامرادر ہوجاتا ہے۔ ’گرمی‘‘ کے تحت کردار مہم جوئی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ سفر کے پرخطر مراحل سے گزرتے اور بلآخر دشمن کو تہہ تیغ کرکے دم لیتے ہیں ’’خزاں‘‘ کا معاملہ یہ ہے کہ اس کے زیراثر کردار کا المیہ نمودار ہوتا ہے یعنی وہ اپنے انسانی یا غیرانسانی دشمنوں کے ہاتھوں مات کھاجاتا ہے۔ ’’سردی‘‘ کے تحت کردار کی مہم ناکام ہوجاتی ہے اور کردار یا تومرجاتا ہے یا پھر دیوانگی میں مبتلا نظرآتا ہے۔ ایک عام قاری توافسانہ نگار سے ایسی کہانی سننے کا متمنی ہوگا جو ان مدوں Categoric کے عین مطابق ہومگرایک صاحب نظرقاری کہانی سننے کی فطری طلب میں جمالیاتی تسکین کی طلب کو بھی شامل کرے گا جو پلاٹ کی مقرر اور متعین کھائیوں سے باہر نکلنے کی ایک صورت ہے۔ روسی فارمل ازم والوں نے اس عمل کو Foregrounding کا نام دیا تھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ تخلیق کار تخلیق کے متن کو انوکھا بناکر پیش کرتا ہے جس سے قاری کو حیرت کے وہ لمحات ملتے ہیں جو جمالیاتی حظ کی تحصیل پر منتج ہوجاتے ہیں۔ ساختیات والوں کا کہنا کہ انوکھا بنانے کا عمل قرأت کے عمل میں مضمر ہے مگر یہ پوری سچائی نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا ہو تو ایک عام سی کہانی اور ایک اعلیٰ پائے کے افسانے میں کوئی فرق ہی باقی نہ رہ جائے۔ وجہ یہ کہ قاری اپنی معنی آفرینی کی جبلت کو متحرک کرکے ایک عام سی کہانی میں بھی متعدد نفسیاتی سطحیں خلق کرسکتا ہے۔ شعر کے باب میں بھی ساختیات والوں کا کہنا کہ عام سی اخباری نثرکو بھی اگربطور شعری Text لکھا جائے تواس سے شعری کیفیات کا انشراح ہونے لگتا ہے۔ صحیح نہیں ہے۔ میں ذاتی طورپر قرأت کے عمل کی تخلیقیت کا قائل ہوں لیکن اسی صورت میں جب خود Text فن کے اعلیٰ مدارج پر فائز ہویعنی انوکھا بنانے اور حیرت کو جگانے پر قادر ہو۔ افسانے کے کردار کی پیشکش کے سلسلے میں افسانہ نگار کی تخلیقیت کو کم اہمیت تفویض کرنے کی کوشش ناقابل فہم ہے کیونکہ افسانہ نگار اپنے تخلیقی عمل کے ذریعے کردار کو پروٹوٹائپ کے سانچے سے چھلکانے میں کامیاب ہوتا ہے۔ اس کے بعد قاری اس کردار کے بہت سے دیگر پرتوں کو روشنی میں لاکر اسے متعدد ایسی نئی معنیاتی سطحیں تفویض کرتا ہے جن سے ’’انوکھا بنانے کا‘‘ عمل مزید تیز اور کٹیلا ہوجاتا ہے۔ عصمت چغتائی کے نسوانی کرداروں کی اہمیت اس بات میں ہے کہ وہ ٹائپ کے سانچے سے چھلکنے کا منظر دکھاتے ہیں اور اپنے اس عمل میں کرداروں کو مکمل کرنے پر بھی اکساتے ہیں۔ جس طرح مصوری کا کوئی شاہکار دیکھنے پر ناظر کے ہاں متخیلہ برانگیخت ہوجاتا ہے اور وہ تصویر میں موجود Spaces اور Gaps کو اپنے دیکھنے کے عمل سے پرکرتا اور اسے مزید حیرت انگیز اور انوکھا بنا دیتا ہے۔ بالکل اسی طرح ’’کردار‘‘ کا قاری بھی کردار میں موجود بہت سے Gapsکو پرکرکے اس میں گہرائی اور وسعت پیدا کرتا ہے۔ یوں بھی فنکار کا کام ایسی ’’فنی تکمیل‘‘ کامظاہرہ کرنا نہیں ہے جس سے قاری کا تخلیقی عمل رک جائے۔ اس کا کام تو تخلیق کی ایک کھلی ہوں تاکہ قاری کی تخلیقی کارکردگی جاری رہ سکے۔ عصمت چغتائی کے نسوانی کردار کاریگری کے نمونے نہیں ہیں جن میں کوئی خلا موجود ہی نہیں ہوتا۔ وہ تو ایک ایسا پیٹرن ہیں جن میں کردار کے دھاگے سدا بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں۔ قاری جب خود بھی اس پیٹرن میں داخل ہوکر بنانے اور بگاڑنے کے عمل میں شریک ہوتا ہے تواسے ان کرداروں کے بے پناہ امکانات کافی الفور احساس ہوجاتا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے