Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جدید غزل کا امام :یگانہؔ چنگیزی

وسیم فرحت علیگ

جدید غزل کا امام :یگانہؔ چنگیزی

وسیم فرحت علیگ

MORE BYوسیم فرحت علیگ

    سرورِ کائناتؐ نے فرمایا ،

    ’’ماھلک امر وعرف قدر نفسہ‘‘

    (جس آدمی نے اپنی قدر پہچان لی وہ کبھی برباد نہ ہوگا)

    اس قولِ فیصل کے یہاں اندراج کا محل کچھ آگے چل کر سمجھ آئے گا۔سر ِدست امام الغزل ابوالمعانی میرزا یگانہؔ چنگیزی کے فن کا جائزہ لیا جائے تو میں نہایت اعتماد و سنجیدگی کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ یگانہؔکے عہد سے اردو شاعری کی گزشتہ دوسو سالہ تاریخ میں یگانہؔایک بالکل چونکا دینے والی آواز بن کر سامنے آئے۔اردو غزل ’اسم ِ بامسمیٰ‘کا کردار نبھاتے ہوئے دو سو سال سے ایک ہی رنگ و آہنگ میں اپنا سفر طے کرتی آرہی تھی۔خواجہ حالیؔ کے بیانات محض کاغذی کاروائی کے طور پر ہی دھرے کے دھرے رہ گئے تھے۔عملی طور پر اردو شعراء اس وقت تک اسی گھسی پٹی روش پر گامزن تھے جس کی ابتداء ولی دکنی،عزلت سورتی،شاہ حاتم دہلوی وغیرہ سے ہوتی ہے۔غالبؔ کے گزرنے کو ۱۵ برس بیت گئے تھے۔اور غالبؔ نے اردو شاعری میں جو انقلاب برپا کیا تھا،بس وہی ایک راستہ اہلِ اردو کے نزدیک ’جدید‘ باقی رہا تھا۔کل ملا کر ہندوستان بھرکے شعراء نے اسی ایک راستے کی تقلید ’فرضِ عین‘ تسلیم کر لی تھی۔ایسے میں بیسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں یگانہؔ چنگیزی نے ایک نئی عمارت کی بناء رکھی۔ابتداء میں خواجہ آتش کے رنگ میں شعر کہنے کے بعد یہ شیوہ بھی یگانہؔکو بہت زیادہ مفید نہ معلوم ہوا اور یہیں سے اردو شاعری کو ایک نیا موڑ ’یگانہؔ‘ کی صورت میں ملتا ہے۔

    اردو شاعری کو پہلی مرتبہ کسی شاعر نے محض واردات ِ قلب کی سطحیت سے آزاد کرنے کا نظریہ سامنے رکھا۔گوشت و پوست میں غرق اردو شاعری کو دقیانوسی زنجیروں سے آزاد کرنے کا ایک منضبط لائحہء عمل یگانہؔ نے اپنی شاعری کے ذریعے پیش کیا۔وجودی شاعری کا زندہ اور توانا پہلو یگانہ ؔ کے طفیل اردو شاعری کو نصیب آیا۔فرد اور عظمتِ فرد کو اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ شاعری کے میدان میں داخل کیا گیا۔اور یہ تسلیم کرنے پر اہل ِاردو مجبور ہوئے کہ شاعری محض عشقیہ معاملہ بندی ،سرمستیِ رندی اور قصیدہ خوانی تک محدود نہیں بلکہ اور بھی کچھ ہے۔اور اسی ’اور بھی کچھ‘ کو یگانہؔ نے شعری تہہ داری کے ساتھ غزل میں جائز مقام دلایا۔معرفت اور مجاز کے درمیان حد ِ فاصل کھینچنے میں مصروف شعرائے اردو کے لیے یگانہؔ کا وژن بالکل انوکھا رہا۔بلکہ اول اول ناقابلِ ہضم۔لیکن زمانہ جانتا ہے کہ جدید شاعری کے امام یگانہؔچنگیزی کی قربانیاں داخلِ نصاب نہ ہوتیں توہمیں شکیب جلالی،زیب غوری،ندا فاضلی،شجاع خاور اور اسی قبیل کے دیگر شعراء کی شاعری قطعی پسند نہ آتی۔نباضِ ادب ،ماہرِ غالبیات آنجہانی کالی داس گپتا رضا کے استاد اور شاگرد ِ داغؔعلامہ جوش ؔ ملسیانی نے یگانہؔ کے کلام کے متعلق کیا نپی تلی رائے دی ہے، ملاحظہ فرمائیں،

    ’’یگانہؔکا نمایاںوصف یہ ہے کہ فلسفیانہ شاعری اور حقائق ِ زندگی کے دقیق مضامین کو موضوعِ سخن قرار دے کر وہ غزل کا انداز ِ بیان اور غزل کی زبان کسی شعر میں ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔کسی غزل میں کوئی شعر ایسا نظر نہیں آتا جو خشک سے خشک مضمون کو بیان کرنے کے باوجود غزل کے انداز سے بیگانہ ہو۔غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ شعر میں اس وصف کا پیدا کرنا اس میدان میں فی الحقیقت بہت مشکل کام ہے۔‘‘(۱)

    ایمان کی بات یہ ہے کہ یگانہؔکی شاعری ہمیں زندگی جینے کا فن سکھاتی ہے۔کم زور لمحوں میں ہمیں حوصلہ بخشتی ہے۔ہماری ڈھارس بندھاتی ہے۔یہی یگانہؔکی شاعری کا ماحصل ہے۔خود کے لیے نئی راہ تیار کرنے اور پھر اس کی عظمت و انفرادیت زمانے سے منوانے میں یگانہؔ کو بڑی قربانیاں دینی پڑیں۔

    یگانہؔ کی کیفیت بقول خلیل فرحتؔ کارنجوی مرحوم،

    ذوق ؔ کے دور میں غالبؔ کا طرفدار ہوں میں

    بے تکلف مجھے سولی پہ چڑھایا جائے

    کی سی ہے۔یگانہؔکے وقتوں میں لکھنوی تہذیب اور لکھنو اسکول پر مرثیہ کا کچھ اس طور غلبہ تھا کہ ہر صنفِ سخن سے ’مرثیہ پن‘ جھلکتا تھا۔یاسیت،قنوطیت سے اردو شاعری لبریز تھی۔ہر عاشق در ِ جاناں پر مرجانے کو زندہ رہنے پر مقدم جانتا تھا۔گلدستوں اورطرحی مشاعروںمیں محض پینترے بازی اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے جنون نے اردو شاعری کی صورت ہی کچھ اور کردی تھی۔یگانہؔنے ان تمام گورکھ دھندوں سے پاک،صاف ستھری اور بامعنی شاعری سے اردو ادب کو روشناس کیا۔ایک ایسی شاعری جو انسانیت کے لیے اکسیر ہو،ایک ایسی شاعری جہاں فرد کے زخموں پر مرہم لگایا جاتا ہو۔میں عرض کر چکا ہوں کہ خواجہ الطاف حسین حالی پانی پتی کے متعینہ اصولوں کو اس وقت تک کسی نے خود پر منطبق نہیں کیا تھا۔یگانہؔ کی شاعری خواجہ حالیؔ کے نافذ کردہ قوانین سے میلوں آگے بڑھ گئی۔اہلِ زمانہ اس انقلاب سے چونک پڑے کہ،یہ کون حضرت ِ آتش کاؔ ہم زباں نکلا۔

    نیاز فتخ پوری جیسے سخت ترین نقاد بھی یگانہؔ کی شعری روش کے قدردان رہے،فرماتے ہیں،

    ’’یگانہؔ پہلا شخص تھا جس نے لکھنو کے روتے اور بسورتے رنگ ِ تغزل پر کاری ضرب لگائی اور یہ کہنا غالباً غلط نہ ہوگا کہ یگانہؔ ہی نے سب سے پہلے اپنے زمانے کے لکھنوی شاعروں کے اُس رنگ ِ تغزل کو بدلاجو اپنا اصلی رنگ چھوڑ کر بے تمیزی کے ساتھ غالبؔ کی تقلید پر آمادہ ہوگئے تھے۔یگانہؔ نے غالبؔ کے متعلق جو کچھ لکھا ،میں اسے رد ِ عمل سمجھتا ہوںاس شدید مخالفت کا جو لکھنوی مقلدین کی طرف سے یگانہؔ کے باب میں ظاہر کی گئی اور جسے یگانہؔ ایسے حساس آدمی کے دماغ کو واقعی بری طرح متاثر کرنا چاہیے تھا،ورنہ یگانہؔ کی فطرت شاید اس کو گوارا نہ کرتی۔یگانہؔ کی شاعری حسن و عشق کا وہ مرقع نہیں ہے ،جس میں محبت کی فتادگی،خواری وتذلل تک پہنچ جاتی ہے بلکہ اس میں ہمیں ایسے عشق ِخوددارکی جھلک نظر آتی ہے جس کا سینہ تو ضرور خونچکاں ہے لیکن لب پر آہ و فغاں نہیںہے۔ایسے جواہر ریزوں کی ان کے یہاں کمی نہیں ہے۔‘‘(۲)

    یگانہؔ کی شاعری کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ان کی آواز اپنے پیش روئوں یا ہم عصروں ، سبھی سے جداگانہ ہے۔یگانہؔ کا شعر کسی دوسرے کے خانے میں رکھا نہیں جا سکتا اسی لیے انتساب ِ شعر کے معاملے میں یگانہؔکا کوئی ایک شعر بھی تاحال کسی اور شاعر سے منسوب نہیں کیا جا سکا ہے۔ اس کے بر عکس آپ جگر،اصغر،سیماب،فانی،عزیز،ثاقب وغیرہ کے سیکڑوں اشعار یہاں وہاں خلط ملط پائیں گے۔کلام کی یہی انفرادیت یگانہؔکی شناخت کا وسیلہ ہے۔ان کی آواز ان کی اپنی ہے،وہ کسی کے لہجہ کی جگالی نہیں کرتے۔میرے مربی ندافاضلی صاحب یگانہؔ چنگیزی کے ساتھ ساتھ مرحوم خلیل فرحت ؔ کارنجوی کے متعلق اکثر فرماتے ہیں کہ’بڑا شعر کہنا بڑی بات نہیںہے بلکہ اپنا شعر کہنا بڑی بات ہے۔‘اور یہی’اپنا شعر‘یگانہؔ کو اردو شاعری میں حشرات الارض کی مقدار میں موجود شعراء کی بھیڑ سے مستثنیٰ کرتا ہے۔

    نریش کمار شادؔ یگانہؔ کی شاعرانہ عظمت کے یوں قائل ہیں،

    ’’میرزا یگانہؔ چنگیزی بلا شبہ اس دور کے نہایت عظیم غزل گو شعرا میں سے ہیں۔عظمت کا لفظ اگرچہ اس دور میں اپنی معنویت کھوچکا ہے لیکن میرزا یگانہ کی غیر معمولی شعری صلاحیتوں کے پیشِ نظر ان کی عظمت پر شک کرنا ادبی خیانت کے مترادف ہے۔یاسؔ کی غزلوں کا لب و لہجہ ہمارا ادبی و تہذیبی ورثہ ہے۔ہم نئی نسل کے شاعروں کو ان کے کلام کی صحت مند اور توانا روایات کو اپنانے کے لیے کسی تعصب اور بغض کے بغیر غیر متعلقہ امور کو بھلا کر اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔‘‘ (۳)

    یگانہؔنے اردو شاعری کو زنانہ پسپائیت سے یکسر آزاد کردیا ہے۔ان کی شاعری مردانہ آہنگ کی لےَ بلند کرتی ہے۔مرادنہ اور دلیرانہ جذبات کو یگانہؔ کچھ اس ڈھب سے شعری جامہ پنہاتے ہیں کہ قاری و سامع جوش و انبساط کی سی کیفیت محسوس کرنے لگتا ہے۔یگانہؔ کے یہاں افسردگی،لاچارگی،یاسیت،شکست خوردگی وغیرہ حوصلہ شکن مضامین عنقا ہیں۔اس کے بدلے یگانہؔ کی شاعری ولولہ،غیرت،خودداری،حوصلہ کی تعلیم دیتی ہے۔ہم فرد کے غموں کا مداوایگانہؔ کی شاعری میں تلاش کر سکتے ہیں اور یقین جانیے کہ اس تلاش میں مایوسی نہیں ہوگی۔حقائق ِ زندگی کے اظہار پر یگانہؔ کی زبردست گرفت ہے۔اردو شاعری میں حقائق ِ زندگی کو اس بڑے پیمانے پر یگانہؔ سے قبل کسی نے بروئے کار نہیں لایا۔یگانہؔ کی فکری بلندی نے معاملات ِ زیست کی سطحیت کو بھی ارفع مقام عطا کیا ہے۔ان کے یہاں بہت چھوٹی سی بات بھی چھوٹی معلوم نہیں پڑتی۔اظہار اور تخلیق پر یہی قدرت یگانہؔ کو سربلندی فراہم کرتی ہے۔مصائب ِ زمانہ کے یگانہؔ شاکی ضرور ہیں تاہم ان سے نمٹنے کا فن ان کی شاعری سے عیاں ہے۔حالات کی سختی اور ناہمواری وقت میں یگانہؔ کے اشعار ایک سچے دوست کا کردار نبھاتے ہیں۔اور محض ہمیں سنبھالا ہی نہیں دیتے بلکہ لب ِ ساحل تک پہنچنے کا راستہ بتاتے ہیں۔یہی بے پناہ انسیت یگانہؔ کی شاعری سے قاری کا رشتہ استوار کرتی ہے۔اور وہ حیرت،تاسف و گم گشتگی کے بھنور سے نکلنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔یہی یگانہؔ کی شعری کامیابی ہے۔

    پروفیسر مجنوں گورکھپوری یگانہ کی شاعری کا کس بل محسوس کرتے ہیں،

    ’’میزرا یاسؔ یگانہ اردو غزل میں پہلے شخص ہیںجن کی شاعری میں وہ کس بل محسوس ہوتا ہے جس کو ہم صحیح اور توانا زندگی سے منسوب کرتے ہیں۔غزل کو جو اب تک صرف حسن و عشق کی شاعری سمجھی جاتی رہی ہے یگانہؔنے زندگی کی شاعری بنا دیا ہے اور انسان اور کائنات کی ہستی کے رموز ا شارات کو اپنی غزلوں کا موضوع قرار دیا ہے۔میرے کہنے کا یہ مقصد نہیں کہ ان کے ہاں حسن و عشق سے متعلق اشعار نہیں ملتے،ملتے ہیں مگر ان میں بھی حسن و عشق کا احساس عام اور عالم گیر زندگی کے احساس میں سمویا ہوا ہوتا ہے۔‘‘(۴)

    تخیل کی بلندی،لہجہ کی ندرت اور زبان پر قدرت،یہ تینوں صفات کسی ایک شاعر میں موجود ہوں،اردو شاعری میں اس کی مثالیں بہت کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔اس قبیل میں غالبؔ، داغؔ ، امیرؔ اور بلاشبہ یگانہؔ چنگیزی کو دیکھا جاسکتا ہے۔ذوقـؔدہلوی کے بعد اردو شاعری میں محاورے کے صرف ِ بامحل کا سہرا یگانہؔ ہی کے سر جاتا ہے۔معاف کیجیے گا ذوق ؔکے یہاں کئی مقامات پر میں نے یہ بات شدت سے محسوس کی ہے کہ شعر محض محاورہ کے استعمال کے لیے کہا گیا ہے۔اس کے برعکس آپ یگانہؔ کی شاعری میں محاورات کا اصراف ملاحظہ فرمائیں،یوں لگتا ہے جیسے محاورہ ہی شعر کے لیے بنا ہو۔محاورہ دراصل ایک بے جان شئے کا نام ہے،ایک سچا فنکار اپنی برجستگی اور صرف ِ بامحل سے محاورہ میں جان بھر دیتا ہے۔یہی وصف یگانہؔ کی شاعری کو منتہائے خصوص تک پہنچا دیتا ہے۔چنداں محاورے تو کچھ یوں نظم ہوگئے ہیں کہ اس کے بعد ممکن نہیں۔یگانہؔ کی حیات میں ان کے مخالفین بھی اس بات کا اعتراف کرتے تھے کہ انھیں زبان پر بڑی قدرت حاصل تھی۔ فارسی، اردو اور انگریزی ادب کے کثیر مطالعہ نے جہاں زبان میں پختگی بخشی وہیں بیان بھی پر اثر ہوگیا۔ ٹھیٹ اردو کے الفاظ بھی یگانہؔ ہی کے طفیل داخل ِ غزل ہوئے اور وہ بھی اس شان سے کہ باید و شاید۔عوام تو خیر جانے دیجیے،خواص اور اساتذئہ فن بھی اپنے روزمرہ میں جن الفاظ کا استعمال کرتے تھے انھیں غزل میں شریک کرنا گناہ ِ کبیرہ گردانتے تھے۔یگانہؔ نے روزمرہ کے الفاظ کو غزل میں یوں برتاکہ ایسے خشک اور سماعت پر بار محسوس ہونے والے الفاظ بھی مزہ دینے لگے۔ ایمان کی بات یہ ہے کہ عامیانہ الفاظ بروئے کار لانے پر بھی یگانہؔ کے ٹھیٹ اردو کے الفاظ ’بازاری‘ نہیں معلوم پڑتے۔عمر بھر کی مشاقی اور قادر الکلامی نے ایسے لفظوں کی ’ثقلیت‘ کو زائل کردیا۔اور غزل کی لفظیات میں ایک زبردست اضافہ کا موجب ہوا۔

    باقر مہدی نے فیصلہ کن انداز میں فرمایا ہے، او رکیا خوب فرمایا ہے،

    ’’یگانہؔ کا آرٹ مینا کاری کا آرٹ نہیں ہے۔ان کے یہاں نازک جذبات بھی زور ِ بیان کے تیکھے پن کے ساتھ آتے ہیں اور ان کا یہی کارنامہ ہے کہ انھوں نے آتش اور غالب کی زمین میں بلند پایہ غزلیں کہی ہیں جو نہ تو ان شعراء کی آواز ِ بازگشت ہیں اور نہ صدا بہ صحرا بلکہ ان میں آواز کی تیزی اور سوز و گداز کی آنچ کے ساتھ زندگی کا ولولہ بھی پایا جاتا ہے جسے ہم یگانہ آرٹ کہہ سکتے ہیں۔یگانہؔ آرٹ سنگ تراشی کا آرٹ ہے۔ان جاندار پتھروں میں ذہن کے مختلف موڈل کی بے شمار کیفیتیں اور فکر کی تصویرں دل کی دھڑکنوں کے ساتھ ابھر آئی ہیں۔اور یہ بھی معجز نما شخصیت کا پرتو ہے۔یگانہؔ نے اردو شاعری کو جو ولولہ بخشا ہے وہ سرکشوں کی پوری داستان کا عنوان بن سکتا ہے۔اگر اقبال کی شاعری بقول سرورؔ صاحب’ارضیت کا عہد نامہ ء جدید ہے تو یگانہؔ کی شاعری اردو میں ایک باغی کا پہلا کامیاب شعری رجز ہے۔جس کی بنیاد’مانگے کے اجالے‘ پر نہیں رکھی گئی تھی بلکہ جس کا سرچشمہ خود یگانہؔ کی شخصیت تھی۔اردو غزل میں میرؔ اور غالبؔ کے بعد تیسرا نام جو سب سے زیادہ احترام اور اہمیت کا مالک ہے،وہ یگانہؔ کا ہے۔‘‘(۵)

    یگانہؔ کی شاعری میں اپنے پیش روئوں کی مانند نسوانی نازکی و نرمی،غیر ضروری ناز و ادا، بل کھاتی ہوئی شعری چال وغیرہ دکھائی نہیں دیتی۔ان کے یہاں کھردرے پن،احتجاج،درشتگی کی ان کی اپنی تیار کردہ فضاء ہے جو کسی اور نے نہیں برتی گویا یگانہؔ اپنی بوطیقا لیے سفر کرتے رہے۔لیکن اس احتجاج میں فنی رمق بھی ہے،وگرنہ احتجاجی شعرا ء کے یہاں ’احتجاج‘ محض چیخ و پکار بن کر رہ جاتا ہے۔ندائے باغیانہ کے چکر میں شعر کی معنویت کہیں گم ہوجاتی ہے اور کلی شاعری اکہرے پن اورخشکی کی شکار ہوجاتی ہے۔یگانہؔ کی شاعری ایسے کسی بھی عیب سے پاک ہے۔

    اردو غزل کی تاریخ میں غالبؔ،آتش اور اقبالؔ کے بعد انفرادی لفظیاتی تشکیل صرف یگانہؔ کے یہاں دیکھنے کو ملتی ہے۔زبان اور اس کا رچائو،اور ان دونوں خصوصیات کو اپنے قطعی نئے موضوعات میں خوش سلیقگی کے ساتھ جس طرح یگانہؔ نے برتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔حال آنکہ محض ’زبان‘ کے نام پر اپنی دوکانداری چلانے والے شعراء کے یہاں ’لچھے دار زبان‘ تو ضرور مل جاتی ہے تاہم اس چکر میں شعری پہلو خشک ہوجاتا ہے۔اور شعر دیر پا اثر چھوڑنے سے قاصر رہتا ہے۔غالبؔ ،آتش اور یگانہ متذکرہ دونوں ہی صفات پر ید ِ طولیٰ رکھتے ہیں اور اسی لیے ان کی شاعری کا جادو اتنے برس بعد بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔

    مصرعوں کی ساخت پر یگانہؔ بے حد توجہ دیتے ہیں۔ان کے یہاں کوئی مصرعہ لکنت کا شکارمحسوس نہیں ہوتا۔سجے سجائے اور ڈھلے ڈھلائے مصرعوں کو پڑھ کر طبیعت جھوم اٹھتی ہے۔ سلاست اور روانی کا وہ عالم ہے کہ گمان پڑتا ہے کہ جیسے پوری غزل غیب سے اتاری گئی ہو۔کہیں کسی شعر میں جھول،بے جا اضافتیں،نامانوس تراکیب،دور از قیاس استعارات وغیرہ کو دخل نہیں ہے۔ان کے ہر شعر سے استادانہ شان جھلکتی ہے۔رموز ِ شاعری سے مکمل آشنائی نے یگانہؔ کی شاعری کو ’سند‘ کادرجہ دے دیا ہے۔فن کی باریکیوں پر قدرت کھنے کے باوجودان کی شاعری بوجھل نہیں لگتی۔وگرنہ اس قماش کے بیش تر شعراء کے اشعار بطور ’سند‘ تو پیش کیے جاسکتے ہیں لیکن ’پسند ‘نہیں کیے جاسکتے۔

    اردو غزل کے خد و خال اور اس کے تخلیق کاروں کو شک کی نگاہ سے دیکھنے والے سخت ترین نقاد محترم پروفیسر کلیم الدین احمد نے بھی یگانہؔ کی شاعری اور اس کے ابعاد کی عظمت ِ دوچند کو تسلیم کیا ہے،فرماتے ہیں،

    ’’یگانہؔ چنگیزی نے چند مخصوص وجہوں کے سبب صحتِ زبان،لطفِ محاورہ کی طرف زیادہ توجہ کی ہے اور اس میں نمایاں کامیابی بھی حاصل کی ہے۔ان کی شاعری کی دوسری خصوصیت زور،شگفتگی اور انبساط ہے۔قنوطیت کا نام و نشان نہیں۔ان کا لہجہ بلند اور آواز خوش آئند ہے۔‘‘(۶)

    اردو شاعری کی تثلیث رندی،عاشقی اور تصوف سے قطعی مختلف طرز ِ فکر رکھنے والے یگانہؔ نے اپنے بعد کی نسلوں کے لیے ایک نئی راہ فراہم کر رکھی ہے۔اس اعتبار سے دیکھیں تو یہ اعزاز اردو شاعری میں دو ہی شاعروں کے حصہ میں آیا ہے۔اول غالبؔ دوم یگانہؔ۔غالبؔ نے اپنے پیش روئو ں کے موضوعِ اظہار اور طرز ِ اظہار سے انحراف کیا۔ٹھیک اسی طرح یگانہؔ نے غالبؔ کے موضوعات اور طریقہ ہائے اظہار سے انکار کیا اور نئی طرز ایجاد کی۔مطلب یہ کہ غالبؔ نقشِ اول ہیں اور یگانہؔ نقشِ ثانی۔غرض کہ یگانہؔ کی شاعری ’رجحان ساز‘ ثابت ہوئی۔اور اسی آواز کی گونج شاد عارفی و نئی نسل کے دیگر احتجاجی شعراء کے یہاں سنائی دی۔

    یگانہؔ اظہار کو معنی پر مقدم جانتے ہیں۔ان کی شاعری پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اظہار کی سطح پر ان کے یہاں مشاقی اور تازہ کاری دکھائی پڑتی ہے۔میرا یمان ہے کہ کسی بھی شاعر کے ہر شعر میںکچھ نہ کچھ معنی تو نکل ہی آتے ہیں،سوال یہ ہے کہ معنی کے علاوہ اظہار کی سطح پر بھی کچھ نیا پن ہے یا نہیں؟ایک معمولی سے خیال کو مناسب و موزوں اظہارکے پیرائے میں پیش کیا جائے تو شعر دو آتشہ ہوجاتا ہے۔وگرنہ بلند خیال بھی پست اظہار کی بناء پر رفعت حاصل نہیں کرسکتا۔بلند آہنگی اور بیان کا زوراس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یگانہؔ اظہار کے معاملہ میں سنجیدگی سے کام لیتے ہیں۔

    ندا فاضلی فرماتے ہیں،

    ’’یا سؔ سے یگانہؔ اور یگانہؔ سے چنگیزی بننے کا ادبی سفر خود یگانہؔ کی ادبی زندگی کاہی نہیں اردو ادب کی تاریخ کا بھی اہم واقعہ ہے۔اس واقعہ کی تشکیل میں کئی اہم چہرے شامل ہیں۔یگانہؔ کی زندگی کے یہ مختلف ادوار جو ان کی غزلوں ،رباعیوں اور مضامین میں نمایاں طور پر جھانکتے نظر آتے ہیں اب غالب کے بعد غالب جیسی تخلیقی توانائی کی دوسری مثال ہے۔یگانہؔ کا عہد غزل کا سنہری دور تھا،حسرت،فانی،جگر،اصغر اس دور میں صنف ِ غزل کے روشن ستارے تھے۔یگانہؔ کا امتیازی وصف یہی ہے کہ انھوں نے بھی غالب کی طرح اپنے دیکھے ہوئے اور اپنے جیے ہوئے پر اپنی شاعری کی بنیاد رکھی۔یگانہؔ نے اپنے شعر کہے جو موضوع،برتائو اور اظہار کے لحاظ سے اپنے ہم عصروں کے اجتماع میں الگ سے نظر آتے ہیں۔ان کی غزلوں کا مرکزی کردار زمین کی سختی اور آسمان کی دوری کو تصوف اور حسن و عشق کے کھلونے سے بہلاتا نہیں ،ان سے آنکھ ملاتا ہے اور ٹکراتا ہے۔یگانہؔ کی شعری شناخت ان کے عہد میں ممکن نہیں تھی۔اس کو نئے دور کا انتظار تھا جو اب پورا ہوچکا ہے۔‘‘(۷)

    اردو شاعری میں رباعی یگانہؔ کی حاضری تک محض ادق مضامین،فلسفیانہ معاملات اور تشکیک و عقیدہ کے اظہار کا ذریعہ تھی۔یگانہؔ نے پامردی کے ساتھ اس بیش قیمتی صنف ِ سخن کا دائرئہ موضوعات وسیع کیا۔انسانی پراگندگی،زمینی مسائل،شکست و ریخت،سماجی افتراپردازیاں وغیرہ سے متعلقہ مضامین کو یگانہؔ نے اپنی رباعی میں شایانِ شان مقام عطا کیا۔موضوعات کا تنوع، مردانہ کس بل اور فکر کی انفرادیت نے یگانہؔ کی رباعیوں کو ایک خاص مرتبہ بخشا ہے۔وہ غزلوں کے ساتھ ساتھ رباعیوں میں بھی مکر و فریب کے آب ِ زلال کی بجائے صدق و صفا کے تیزاب کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔اور خیال کرتے ہیں کہ معاشرتی زنگ آلودگی اسی تیزاب سے زائل ہو سکتی ہے۔ معارفانہ بلند خیالی اور اخلاقیات کے مضامین بھی یگانہؔ کی رباعیات میں نرالی شان سے نظم ہوئے ہیں جنھیںپڑھ کر بلا شبہ ’حکایات ِ سعدی‘ کی طرح بوریت محسوس نہیں ہوتی۔

    یگانہؔ کے رباعیوں کے مجموعہ ’ترانہ‘ پر تبصرہ فرماتے ہوئے علامہ سید سلیمان ندوی نے خوب رائے دی،

    ’’میرزا یاس ؔ عظیم آبادی اردو کے مشہور شعراء میں ہیں۔یہ بات بلا خوف ِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ میرزا یاس یگانہؔ اپنے وقت کے ایک کامل شاعر ہیں ،ان کے خیالات بلند،زبان صاف ستھری،ترکیبیں چست اور کلام حشو و زوائد سے پاک ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ لکھنو کے طرز ِ شاعری میں ان کے ہنگاموں کے باعث مفید انقلاب پیدا ہوا ہے۔غزلیات کے ساتھ ان کی ہر رباعی زبان کی صفائی اور روزمرہ اور محاورات کی برجستگی اور ترکیبوں کی چستی کے لحاظ سے قابلِ داد ہے۔ایسا نہ سمجھا جائے کہ ان کی رباعیوں کے مضامین صرف ’فلسفہ ء خودی‘کی تشریح پر مشتمل ہیں، بلکہ ’انفس‘ کے بعد ’آفاق‘ کا فلسفہ بھی ان میں جا بہ جا بیان کیا گیا ہے،کہتے ہیں اور کیا خوب کہتے ہیں۔‘‘(۸)

    اخیر میں ایک اہم نکتہ جسے ابتداء میں زیر ِ بحث لایا جانا چاہیے تھا لیکن میں نے قصداً اسے خاتمہ پر جگہ دی وہ ہے یگانہؔ کی خود پسندی۔جس نے کہیں کہیں یگانہؔ کی شعری فضاء کو بے طرح متاثر کیا ہے۔مضمونِ ہٰذا کی اولین سطر دوبارہ ملاحظہ فرمائیں،اس ضمن میں عرض کروں کہ اہل ِ نظر ’خود پسندی‘ اور ’خود پرستی‘ کے فرق سے خوب آشنا ہیں۔اردو شاعری سے کسی ایک شاعر کی بھی مثال ایسی نہ ملے گی جو خود پسند نہ واقع ہوا ہو۔بلکہ میں عرض کرتا ہوں کہ لفظ ’تعلّی‘اردو اور فارسی شاعری ہی کی دین ہے۔یہاں ہر شاعر خو د پسند،ہر دانشور خود نگر،ہر نقاد خود سر،ہر ادیب خود بین ہے۔لہٰذا یگانہؔ چنگیزی کو محض ’خودپسندی‘نامی گناہ ِ معصوم کی پاداش میں نظر انداز کرنا میرے نزدیک بجز کورچشمی اور کچھ نہیں۔اردو شاعری کی ابتداء سے تاحال شعراء کے فطری اور فکری مزاج پر غور کیا جائے تو شیخ قلندر بخش جرأت کی بے جا اکڑ،خواجہ آتش کی بے باکی،میرـؔکی ’مستند ہے مرا فرمایا ہوا‘ کی سی خود شناسی،خواجہ میردرد کے یہاں ’من و تو‘ کی دوئی مٹ کر ’من‘کی ساخت،غالبؔ کی ’الٹے پھر آئے‘ والی سرشت،اقبال کی ’خود‘ی، غرض کہ کل اردو شاعری میں ’خود پسندی‘ جزو لاینفک کی حیثیت رکھتی ہے۔ تناسب مختلف ہوسکتا ہے۔ تاہم یگانہؔ کے ماسوا سبھی کا احساسِ برتری ’تعلّی‘ کہلایا جاتا ہے اور یگانہؔ کے لیے ہم اسی ’جذبے‘ کو ’خود پرستی‘ کا نام دے دیتے ہیں،میری اپنی دانست میں یہ حضرت ِ یگانہؔ چنگیزی پر ظلم کے مترادف ہوگا۔

    یگانہؔ کو بہ نظرِ انصاف دیکھنے والے ماہرِ زبان و ادب والدِ محترم مرحوم خلیل فرحتؔ نے فرمایا تھا،

    ’’سن ۵۳ ؁کے کسی دن اخبار میں خبر پڑھی کہ یگانہؔ کا جلوس نکالا گیا تو میں نے محسوس کیا کہ تاریخ کی کتابوں میں جو واقعہ منصور حلاج کے نام سے پڑھا تھا وہی اخبار میں پڑھ رہا ہوں۔ واقعہ یہ ہے کہ اردو شاعری کو نیا موڑ دینے کے صلہ میں یہ ’کانٹوں بھرا تاج‘ صرف یگانہؔ ہی پہن سکتے تھے۔یگانہؔ کی شاعری حریر و اطلس و کمخواب والے چغہ داروں کی آسائش والی شاعری ہرگز نہیں ہے۔اور نہ یگانہؔ شاعری میں آسمان کے تارے توڑ لانے کے مضامین کو وقعت دیتے ہیں،ان کی آواز ایک پرا مید و اعتماد فرد کی آواز ہے۔زمینی اضطراری کیفیت کی چارہ گری نہ غالب کر سکتے ہیں اور نہ اقبال۔یہ امکانات تو یگانہؔ کی شاعری میں نظر آتے ہیں۔پارکھی لوگ اس سے خوب لطف اٹھاتے ہیںاور ضرورت سے زیادہ سیانے چہ می گوئیاں کرنے لگتے ہیں۔کسی علمی نکتے پر جاہل کی حیرت انگیزی بھی دلیلِ کامرانی ہوتی ہے،یہی یگانہؔ کی کامیابی کا بالواسطہ وسیلہ ہے کہ بے بضاعت حضرات ان کی شاعری پڑھ کر ’کھمبے نوچنے ‘لگ جاتے ہیں۔‘‘ (۹)

    غرض کہ یگانہؔ چنگیزی کی شاعری آنے والے وقت کے لیے نوید ِ بہار کا کام کرتی رہی جو بہ زمانہء خزاں دی جاتی ہو۔پھر چاہے وہ غزل کے نصاب میں نئے موضوعات کی شمولیت ہو،یا ٹھیٹ اردو کے الفاظ کی شرکت،یا فرد کو مکمل اکائی کی طرح سمجھنے،اس کے مسائل کا حل تلاش کرنے اور اس پر دست ِ ہمدردی پھیرنے کے ذیل میں ہو۔یگانہؔ کی خدمات سے اردو ادب انکار نہیں کرسکتا۔

    حواشی

    ۱) میرزا یگانہؔ چنگیزی ،مطبوعہ آجکل،یکم اپریل ۱۹۴۵؁ صفحہ نمبر ۸

    ۲) بزمِ نگار نمبر،ماہنامہ’ نگار‘ لکھنو،جنوری فروری ۱۹۴۱؁ صفحہ نمبر ۲۲۲

    ۳) یاسؔ کی خود پرستی،مطبوعہ ’نیا دور‘لکھنو ،جولائی ۱۹۶۱؁ صفحہ نمبر ۳۲

    ۴) غزل اور عصر ِ جدید، مطبوعہ ’نگار‘ لکھنو،جنوری ۱۹۴۲؁ صفحہ نمبر ۵۰

    ۵) یگانہ آرٹ،مطبوعہ ’آجکل‘دہلی، مئی ۱۹۵۶؁ صفحہ نمبر ۱۵

    ۶) بزم ِ نگار،مطبوعہ ’نگار‘ لکھنو،جنوری ۱۹۴۲؁ صفحہ نمبر۱۸

    ۷) مکتوب ِ ندافاضلی بنام خاکسار محررہ ۲۷ ؍ فروری ۲۰۱۴؁

    ۸) تبصرہ بر ’ترانہ‘مطبوعہ ’معارف ‘اعظم گڑھ ،شمارہ نمبر۴ جلد ۳۳، اپریل ۱۹۳۴؁ صفحہ نمبر ۳۱۴

    ۹) راقم سے دورانِ گفتگو فرمائے گئے ارشادات

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے