جدید غزل کس کا مسئلہ ہے؟
جدید غزل تک آتے آتے کلیشے زدہ غزل کا روایتی روپ ہانپنے اور غزل کی تنقید کانپنے لگی تھی۔ جیسے یہ صنف صدیوں کی بوسیدگی کا بوجھ کمر پر لادے کسی سراب سے گزر رہی ہو۔ غزل کی یہی تھکاوٹ یا پژمردگی نئے شاعروں کو نظم گوئی کی طرف لے گئی۔ گو غزل گو شاعر بھی موجود تھے۔۔۔ غزل کہی بھی جا رہی تھی لیکن یہ غزل جدید نظم میں در آنے والے موضوعات اور بدلتی دنیا کی حسیات سے لاتعلق تھی اور نئے اسلوب سے ناآشنا تھی۔ یعنی بیسویں صدی کے آغاز میں بدلتی دنیا اور فرد کی نفسیاتی پیچیدگیوں کی آئینہ دار نہیں تھی۔
بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں کی غزل کے خط وخال بھی اٹھارویں اور انیسویں صدی کی غزل کی خمیر سے بنے تھے۔ اس لیے نئی نظم تحریک کے سامنے غزل ایک طرح سے دفاعی صورت حال سے دوچار تھی۔ یہ منظرنامہ جدید غزل کے آغاز سے پہلے کی غزل کا منظرنامہ ہے۔ یعنی ابھی شعری منظر نامے پر ظفر اقبال، ناصر کاظمی، شہزاد احمد اور شکیب جلالی جیسے مجتہدین طلوع نہیں ہوئے تھے اور اسی لیے ترقی پسند تحریک کے اظہارات نے نظم کا لبادہ اوڑھا۔ یہ تذکرہ اسی دور کا ہے۔ جب غزل کا یہ امیج تشکیل پا چکا تھا۔ کہ یہ صنف نت نئے فلسفوں، انکشاف ذات و کائنات کے علوم و نظریات، صنعتی انقلاب کے بعد سماج، فرد اور زندگی کے نئے چہروں کو جذب کرنے سے قاصر ہے۔ جیسے غزل اب صنف ادب کے طور پر بند گلی میں اپنی آخری سانسیں لے رہی ہو۔ غزل بیسویں صدی کی سب سے بڑی ادبی تحریک ترقی پسند انقلابی ذہن کے لیے ’’جاگیردارانہ‘‘عہد کی نشانی سمجھی گئی۔ اور غزل کے کلاسیکی شعری موضوعات کو بیک جنبش قلم رد کر دیا گیا۔ یہ یک طرفہ فیصلہ تھا۔ جس میں ترقی پسند شعرا کے پاس بڑی دلیل یہ تھی کہ وہ نظم کو اظہار کا وسیلہ بنا رہے تھے۔
اس رویے کو درست سمجھا جائے تو اس میں بطور صنف غزل کا کیا قصور یے۔۔۔؟ غزل کی روایت تو ان قدیم شاعروں کے امکانات سے وجود میں آئے۔ جو انھوں نے اپنی بساط کے مطابق دریافت کیے اور جو غزل میں ظاہر ہوئے۔ نا کہ یہ امکانات غزل کے امکانات تھے۔ (اور کلاسیکی غزل گو شعرا کے انہی محدود امکانات کے اظہار پر بت شکن نقاد ڈاکٹر کلیم احمد نے غزل کو نیم وحشی صنف سخن قرار دیا تھا۔ بحوالۂ ’’اردو شاعری پر ایک نظر‘‘ از ڈاکٹر کلیم الدین احمد)
یہ ترقی پسندوں کے ایک مخصوص گروہ کی غزل جیسی ’’شریف‘‘ صنف سخن کے ساتھ چھیڑ چھاڑ تھی۔ اور اس کا مقصد یہی تھا کہ پرانی شعری اقدار کو دقیانوسی اور بوسیدگی کی علامت سمجھا جائے۔ گویا یہ طے ہے کہ اصل محاذ ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کے درمیان گرم تھا اور نشانے پر غزل کو رکھا گیا۔
اس رویے کی تحلیل نفسی کی جائے تو پتا چلتا ہے کہ ترقی پسند تحریک کا مزاج انقلابی تھا اور انقلابی مزاج بہت کم کسی سمجھوتے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ غزل کے معاملے میں ترقی پسندوں نے مسماری کا کام تو کیا تاہم سوائے فیض اور ایک آدھ دوسرے شاعر کے کسی نے غزل کی ذات میں آباد وسیع تخلیقی امکانات کا ادراک نہ کیا۔ تو کیا غزل مخالف ترقی پسند ٹولے نے یہ طے کر لیا تھا کہ غزل کے معنی وہی ہیں۔ جو قدما طے کر چکے ہیں۔ اور ترقی پسند تحریک کے نزدیک غزل میں اجتہاد کی گنجائش موجود نہیں تھی اور اب اس میں نئے مضامین خصوصاً ’’ترقی پسندی، ذات کی پیچیدگیوں اور روشن خیالی‘‘ کے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں۔
بنظر غائر دیکھا جائے تو یہ رویہ بذات خود رجعت پسندی ہے اور ایک طرح سے اپنے تخلیقی عجز کا اظہار بھی۔ ترقی پسندوں اور نئی نظم تحریک کی نظم دوستی اپنی جگہ تاہم اس بنیاد پر غزل کو رد کرنا ادبی ذہن کا نہیں سیاسی ذہن کا منفی رخ تھا۔ اصل مسئلہ یہ ہوا کہ یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ نظم تسلسل خیال اور ارتکاز فکر کی عکاس ہے اس لیے یہ جدید نظریات ادب کے لیے موزوں ہیں اور غزل ایک خالصتاً ’’ذاتی جذبے‘‘ کی ترجمان ایک نازک صنف سخن ہے۔ جو فلسفے کا بوجھ نہیں سہار سکتی یا جسے انقلابی تحریکوں، جدیدیت کے اظہار کا قرینہ نہیں۔ اس تمام بحث میں غزل دشمنوں نے شعریت اور اسلوب سازی کا بنیادی سرا ہی گم کر دیا تھا۔ وہ اس سوال کو ہی نہیں سمجھ سکے کہ شاعروں کی انفرادیت اسی میں ہے کہ وہ روایت کے لیے قابل قبول تخلیقی اجتہاد کریں۔ عورتوں کی باتیں کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ غزل میں ’’مردانہ بات‘‘ کرنے پر قدغن ہے۔ گویا،
میں الزام اس کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا
یہ تو جدید غزل کی روایت سے ثابت ہوچکا کہ غزل کے حوالے سے ان کاذہن جمود کا شکار تھا اور وہ اس اجتہادی صلاحیت سے محروم تھے۔ جو غزل کو تازگی دے سکے۔ اسے نئے سماج کا ترجمان بنا سکے اور اسے جدید ادب ناگزیر ضرورت بنا سکے۔
جدید غزل کی بنیادگزاری سے پہلے یہ سوچ بھی کلیشے کی صورت تخلیقی ذہنوں پر چھائی ہوئی تھی کہ غزل اپنا دور گزار چکی ہے۔ گویا ان کو غزل میں جدید امکانات کی دریافت کا ادراک تھا نہ ہی غزل کے جدید اسلوب کی تشکیل کی ہنرمندی کا شعور کہ شعریت کسی خاص شعری صنف تک محدود نہیں ہوتی اور نئی تخلیقی شعری زبان صرف نظم ہی تک مخصوص نہیں۔
ترقی پسند تحریک کی اٹھان کے دنوں میں غزل کی خوش قسمتی تھی کہ اسے ترقی پسند صفوں میں فیض، مجروح سلطان پوری، محشربدایوانی، فارغ بخاری، خاطر غزنوی اور آزادی کے بعد احمد فراز کی شکل میں غزل دوست ترقی پسند شاعر ملے۔ جنھوں نے غزل میں اسلوب سازی کی اہمیت کو سمجھا۔ نئی علامتیں وضع کیں اور غزل کے دامن پر لگے الزامات کے داغ مٹائے۔ دراصل ترقی پسند تحریک کی اٹھان کے آس پاس کے زمانے میں جس مزاج کی غزل کہی جا رہی تھی۔ وہ ناصرف ترقی پسند بلکہ جدیدیت پسند ذہن کے لیے بھی ناقابل قبول تھی۔ بالعموم اس دور کی غزل کو نوکلاسیکی لہجے کی غزل کہا جاتا ہے۔ اس کے مضامین لگ بھگ وہی ہیں جو کلاسیکیت سے مخصوص ہیں۔ البتہ اس غزل کی محبوبہ ظالم نہیں بلکہ گوشت پوست کی زندہ دل لمس آشنا محبوبہ ہے۔ جو گرم دوپہر میں ننگے پاؤں چھت پر عاشق سے ملن کا خطرہ مول لیتی ہے اور جس کی دوشیزگی کی جھلک، دانتوں تلے انگلی دبانے میں نظر آ جاتی ہے۔ یہ وہی دائرے کا چکر ہے۔ جس میں صدیوں غزل گھومتی اور جھومتی رہی۔ یہ قدیم غزل کی طاقت بھی ہے اور کمزور پہلو بھی۔ اس میں جدت پسندی بالخصوص بیسویں صدی کے فرد کا مسئلہ ہی نظر نہیں آتا۔ یعنی نوکلاسیکی غزل ترقی پسند نظم کی طرح سیاسی شعور سے بے خبر نظر آتی ہے۔ اب ظاہر ہے ترقی پسندوں کے سامنے غزل کا جو مقبول روپ اور رجحان پنپ رہا تھا۔ وہ ان کے نظریہءادب کے لیے غیر موزوں سانچہ تھا۔ تاہم ترقی پسند غزل نے بھی موضوعاتی سطح پر یک موضوعی غزل کو رواج دیا۔ جس میں کہیں کہیں نعرہ بازی کا عیب بھی درآیا۔
سوال یہ ہے کہ غالب کی غزل سے جدید غزل(1950 کے آس پاس غزل کی نئی تشکیل تک) کی غزلیہ شاعری کو فکر اور اسلوب کے کس خانے میں رکھا جائے۔۔۔ اس دور کی غزل نے لفظ کے تخلیقی استعمال کے کتنے نئے خدوخال تراشے۔ یہ غزل حسیات کی کتنی نئی دنیاؤں کو دریافت کر سکی۔۔۔؟ اس غزل کی شعری لسانیات کا انفراد کیا ہے؟ اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ نظم کی نئی تحریک کے ساتھ سر اٹھا کر کتنے قدم چل سکی۔۔۔؟ غالب کے بعد اور جدید غزل کے ظہور تک لکھی جانے والی غزلیہ شاعری نے کس نئی سمت کا امکان دریافت کیا؟ یہ سوالات جدید غزل کو سمجھنے کے لیے پس منظر میں رکھنے ضروری ہیں۔ تاکہ نئی غزل کے ہمہ گیر رجحانات کا نقشہ کھینچا جا سکے۔۔۔ اگر آپ کلاسیکی غزل کے اسیر ہیں تو ممکن ہے آپ کے لیے غزل کی جدید شعریات اضافی چیز ہو۔۔۔ اور آپ نئی صدی میں بھی پرانی غزل کی دنیا سے سرشاری کشیدنے میں ڈوبے ہوئے ہوں۔۔۔ آپ کے دل کی دھڑکن سر و قد، ظالم محبوب کی مستانہ چال پر تیز ہوتی ہو۔ آپ کو اس رقیب روسیاہ پر سخت غصہ آتا ہو۔ جس کی سازش پر عاشق کو محبوب جفاکار ایک اشارے پر محفل سے اٹھا دیتا ہو۔ وہی عاشق جو محبوب کے کوچے میں دن کو رات کرنے کے لیے کبھی اس سے اور کبھی اس سے بات کرتا ہے۔۔۔ جو محبوب کی نشیلی آنکھوں میں جھانک کر میخانے کے میخانے پی لیتا ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں کہ آپ اردو غزل میں فارسی تراکیب و مضامین پر جھومتے ہیں۔ آپ کو غزل کی آباد کردہ دشت نوردی میں گھر سے زیادہ سکون ملتا ہو کہ آپ واعظ اور صوفی کی کشمکش پر صوفی کے نعرہ ءھو میں جذب ہو جائیں۔ پھر ٹھیک ہے غزل کی قدیم شعریات کا نشہ آپ کو کمبل کی طرح چمٹ چکا ہے لیکن کیا کیجیے کہ جدید غزل کا نشہ بھی کچھ کم شے نہیں ہے۔ جدید غزل تو شاعری کی وہ کائنات ہے جو آج بھی ناتمام ہے اور دمادم اس کی صدا بڑھ رہی ہے۔ یہ صدا قدیم غزل کی صدا سے اتنی مختلف اور منفرد ہے کہ اس نے نئی نظم تحریک کے مقابل اپنی پیش قدمی اس شان سے جاری رکھی کہ یہ نئے فلسفوں، علامتوں، نفسیاتی اور تہذیبی رویوں کی ترجمان بنی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جدید غزل نے قدیم غزل کو دیوار سے لگا دیا ہے۔ قدیم غزل آج بھی پڑھی جا رہی ہے۔ بلکہ نصابی کتب کے زیر اثر آج بھی اس کے قاری بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ صرف قاری ہی نہیں موجودہ زمانے میں بقول ظفر اقبال منوں ٹنوں کے حساب سے جو شاعری ہو رہی ہے اس میں پرانی غزل کو دھرانےوالے شاعر بھی موجود ہیں اور اس پر لٹو ہونے والے دیوانے اور مستانے بھی۔
سوال یہ ہے کہ جدید غزل کس کا مسئلہ ہے؟ سامنے کی بات تو یہ ہے کہ یہ خود غزل کا مسئلہ ہے۔ یہ غزل کی روایت سازی کا مسئلہ ہے۔ غزل خود کو بدلنے کے لیے اور نئے زمانے سے ہم آہنگ ہونے کے لیے اپنے روپ بدلتی رہتی ہے۔ غزل کی روایت نے کبھی اس بات پر اصرار نہیں کیا کہ مجھے مخصوص لفظیات اور موضوعات تک محدود رکھا جائے۔ تاہم یہ صرف روایت کا مسئلہ ہی نہیں رجحان ساز یعنی مجتہدشاعروں کا مسئلہ بھی ہے کہ وہ روایتی غزل کے حصار کو توڑیں۔ غزل کے داخلی اور خارجی بوسیدہ پیراہن کو بدلیں۔ غزل کو نئی صدی کے بیانیوں کے تخلیقی اظہار کا وسیلہ بنائیں۔ غزل کا لسانی ڈھانچہ عالم گیریت کے زیر اثر نئی سماجی لسانیات سے ہم آہنگ کریں۔ جدید غزل شاعروں کے اس عرفان کا نام ہے۔ جس کی روشنی میں انھوں نے غزل کے ظاہر و باطن سے ہم آہنگ اور ہم مزاج کیا ہے اور کر رہے ہیں اور اس کی روایت کو تجدید سے آشنا کیا۔ اس عرفان سے ایک غزل دشمن ترقی پسند ٹولہ ناآشنا تھا۔ اس لیے ان کو اپنی ذات کی ’’نالائقی‘‘ یا عجز غزل میں نظر آئی۔ یہ میری ذاتی رائے نہیں بلکہ جدید غزل کی روایت کا فیصلہ ہے۔ جو اب اکیسویں صدی میں بھی تروتازہ ہے اور یہ ایک ایسا فیصلہ ہے۔ جسے کسی ادبی عدالت میں چیلنج بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے کہ جدید غزل اب اپنے وجود میں جدید اسالیب اور فکری تنوع کی نمائندہ زرخیر صنف بن چکی ہے۔
(مضمون نگار ڈاکٹر اسحاق وردگ پاکستان کی جدید اردو شاعری کے نمائندہ تخلیق کار اور شعری مجموعے ’’شہر میں گاؤں کے پرندے‘‘ کے تخلیق کار ہیں۔ وہ ان دنوں صدر شعبۂ اردو گورنمنٹ سپیرئیر سائنس کالج پشاور صوبہ خیبر پختونخوا میں تدریس اردو ادب سے وابستہ ہیں۔)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.