میں نے اس مقالے میں وہ اساسی وجوہ بیان کیے ہیں جن سے جدید اردو شاعری کی تحریک عہد آفریں کارنامے پیدا نہ کرسکی۔ اس مقالے کو محض موجودہ ’’جمود‘‘ اور ’’تعطل‘‘ کی شرح سمجھ کر نہ پڑھئے۔ ’’تعطل‘‘ اور ’’انحطاط‘‘ کا باعث بھی بیشتر دیرپا عناصر ہوتے ہیں اور وہ عناصر جو بظاہر وقتی معلوم ہوتے ہیں، برسوں کا مجموعی ردِّعمل ہوتے ہیں۔ مجھے خالص ہنگامی عناصر سے انکار نہیں، مگر میں انہیں یہاں زیرِبحث نہیں لاؤں گا۔ اس لیے کہ یہ میرے موضوع سے خارج ہیں۔ (ج۔ ک)
اگر آپ اس مقولے کے قائل نہیں کہ تعریفیں مسائل کوکچھ اور الجھادیتی ہیں تو آپ کی آسانی کے لیے میں شروع ہی میں عرض کردوں کہ جدید شاعری سے میرا مفہوم کیا ہے۔
جدید شاعری سے جو کچھ میں سمجھتا ہوں اس کے لحاظ سے اس میں صا لح روایتوں کی پاسداری کے ساتھ ساتھ زندگی کے قدم بہ قدم چلنے کا ولولہ ہونا چاہیے۔ اور نئے حالات کے پیدا کردہ مسائل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا حوصلہ۔ ساتھ ہی فن کار کو فن کے نئے تقاضوں کے پیش نظر نئے سانچے ڈھالنے کا ملکہ بھی ہونا چاہیے۔ مواد۔ اسلوب اور ہیئت کی یہی ترکیب جدید نئی شاعری کی وجہہ امتیاز ہے۔ ممکن ہے آپ کہیں یہ سب عناصر ہمیں غدر سے پہلے کی کلاسیکی شاعری میں بھی ملتے ہیں۔ اور اگر ہم اس توضیح کو معیار بنائیں تو ہمیں جدید شاعری کا دامن اردو کے اولین شاعروں کے دامن سے باندھنا ہوگا۔ یہ صحیح ہے کہ غدر سے پہلے کے شعری ادب میں زندگی کے اثرات تھے۔ اور بعض شاعروں میں زندگی سے آنکھیں ملانے کا حوصلہ بھی۔ مگر اس دور کی شاعری بالعموم ایک پرسکون جھیل کی طرح تھی۔ کبھی کبھی کوئی پتھر اس جمود کو توڑ کر سطح میں ارتعاش پیدا کردیتا۔ مگر یہ لہریں کسی طوفان کا پیش خیمہ نہ بنتیں۔ اس ٹھہراؤ کی وجہ وہ فرسودہ معاشی نظام تھا۔ جس میں اب قوتِ نمو باقی نہ رہی تھی۔ اسی غیرمنصفانہ نظام کی تھکا دینے والی یکسانیت ہمارے شعروں میں بھی ملتی ہے۔
غدر کے عین بعد اردو شاعری کا دورِ اصلاح شروع ہوا۔ ہندوستان میں قومیت کے شعور کے پختہ ہونے پر یہ دور رسمی طور پر ختم ہوگیا مگر حالیؔ۔ آزادؔ۔ اکبرؔ اور چکبستؔ کا زاویہ نگاہ بعد کے شعرا ءبھی اپناتے رہے۔ اور اس وراثت کا اثر حال کے بعض شعراء کی شاعری میں بھی ملتا ہے۔ عام طور پر دورِ اصلاح ہی سے جدید شاعری کا آغاز سمجھا جاتا ہے۔ مگراصلاحی شاعری کو جدید شاعری سے کوئی منطقی نسبت نہیں۔ خالص معاشی وجوہ کی نیم مذہبی۔ نیم سیاسی توجیح نے ان شاعروں کے لیے شروع ہی سے ایک غلط راہ متعین کردی تھی۔ جس پر اس مدرسہ خیال کے شعراء آخر تک کھوئے رہے۔ جدید شاعری کاآغاز صحیح معنوں میں ترقی پسند تحریک کے ساتھ ہوا۔ اس وقت تک قومیت کے نظریوں میں وہ کچاپن کم ہوگیا تھا۔ جو غدر کے فوراً بعد کے شعرا ءمیں ہمیں ملتا ہے، ساتھ ہی مغربی علوم کی روشنی تراجم کے دبیز پردوں سے ہوکر آنے کی بجائے براہِ راست پہنچنے لگی تھی۔ جدید شاعری کو سب سے زیادہ تقویت ترقی پسند تحریک ہی سے ملی۔ یہ تحریک روس کے عوامی انقلاب سے متاثر ہوکر شروع ہوئی تھی۔ اس طرح جدید شاعری کا اساسی نظریہ خود بہ خود جمہور دوستی ہوگیا۔ اس تحریک سے نمو حاصل کرنے والی تمام شاعری بالضرور انجمن کے منشور سے متفق نہ تھی۔ مگرجدید شعراء کی ذہنی تربیت میں انجمنِ ترقی پسند مصنفین کا بہت بڑا حصہ ہے۔
جدید شاعری کا قافلہ ۱۹۳۵ء سے اب تک بہت پیچ و خم سے ہوکر گزرا ہے۔ ایک چیز جو شروع ہی سے نمایاں رہی وہ اس نئی تحریک کے دورخوں کی مختلف تاویل تھی۔ ہمیں ابتدا ہی سے جدید شعراء دو حصوں میں بٹتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اگرچہ بسااوقات یہ خطِ تقسیم اتنا مدھم ہوجاتا ہے کہ فرق کرنا مشکل ہے۔ شعراء کا ایک حصہ جو انجمنِ ترقی پسند مصنفین کے منشور کو سرچشمۂ ہدایت سمجھتا تھا۔ قدرتی طور پر مواد کی اہمیت پر زور دیتا تھا۔ دوسرا حصہ جو یورپ کی مختلف جدید شعری تحریکوں سے متاثر تھا۔ ہیئت کے تجربوں کی طرف زیادہ مائل تھا۔ مگر شاعری کے مختلف عناصر کو مختلف خانوں میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ مواد اور ہیئت میں کوئی مستقل حدِّفاصل نہیں کھینچی جاسکتی۔ ابتدا میں یہ دو گروہ ملے جلے نظرآتے ہیں۔ بعد میں نظریاتی اختلافات کی وجہ سے تفریق واضح ہوتی جاتی ہے۔ ضدّین کے اصول کے مطابق ایک گروہ زیادہ سے زیادہ تبلیغی سہارا لینے لگتا ہے۔ اور دوسرا ہیئت کے تجربوں میں فن کی روح کو کھودیتا ہے۔ اس انتہا پسندی سے جدید شعری تحریک کے المیہ کی ابتداہوتی ہے۔
تجزیے کی آسانی کی خاطر جدید شاعری کے ان دونوں مکتبوں کا علیحدہ علیحدہ جائزہ لیا جاناکچھ ناگزیر سا ہے۔ اگرچہ یہ ممکن ہے کہ جو وجوہ ایک مکتبہ شاعری کے ضمن میں بیان کیے جائیں، وہی دوسرے مکتہ شاعری کے زوال کے ذمہ دار بھی ہوں۔
جدید شعری ادب ایک علیحدہ تحریک کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس تحریک کی ابتدا بہت حد تک بیرونی عناصر کی مرہون منت رہی جس کی وجہ سے یہ ملک کی روایات اور کلچر میں جڑیں پکڑنے نہ پائی۔ شاعری ادب کا ایک حصہ ہوتے ہوئے اجتماعی فریضہ ہے۔ اور اسے ملک کے سماجی، معاشی اور سیاسی حالات سے گہری نسبت ہے۔ مغرب میں نئی شاعری نے صنعتی انقلاب کے پس منظر میں آنکھیں کھولیں۔ ہندوستان میں حالات بہت کچھ محتلف تھے۔ غدر کو عام طور پر صنعتی نظام کے سامنتی نظام پر فتح کہا جاتا ہے۔ اور یہ کسی حد تک ٹھیک بھی ہے۔ مگر ہندوستان میں برطانوی سامراج کا استحکام کسی صنعتی انقلاب کی پیش خیمہ نہ تھا۔ حاکموں نے اپنے مفاد کی خاطر جاگیردارانہ ماحول کو برقرار رکھا۔ ریاستوں کے علاوہ جہاں غدر سے پہلے ہندوستان کی فرسودہ روایات کو راجوں اور نوابوں کی صورت میں برقرار رکھا گیا۔ عام سماجی اور سیاسی زندگی میں بھی صنعتی جمہوریت کو رواج پانے کی اجازت نہ دی گئی۔ انگریزی عہدِحکومت کے اختتام تک عوامی تحریکوں کو کچلا جاتا رہا۔ آزادی اپنے ساتھ بہت سے ایسے مسائل لے کر آئی جن کافوری حل دونوں مملکتوں کی زندگی کے لیے ضروری تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک غیرملکی سامراج کے استحصال کی بہت سی نشانیاں ہم آج بھی اپنے درمیان پاتے ہیں۔ اور کئی ایسے مسائل وقتی طور پر نظروں سے اوجھل ہوگئے ہیں جنہیں عام حالات میں اولین توجہ کامستحق سمجھا جاتا۔ جدید شاعری کے لیے ابتدا ہی سے یہ فضا موزوں نہ تھی۔ تجرباتی گروپ نے ذہنی جمناسٹک کاسہارا لے کر چلنا چاہا۔ اور مغربی ادب کے شعری تجربوں کو اردو ادب میں لانے کی سعی کی۔ لیکن انہیں اس میں زیادہ کامیابی نہ ہوسکی۔ اس کی بنیادی وجہ تو وہی ہے جس کی طرف میں اوپر اشارہ کرچکا ہوں۔ یعنی صنعتی پس منظر کا نہ ہونا۔ جو مغربی شعر وشاعری کی نئی تجرباتی تحریکوں کے لیے بنیاد کاکام دیتا تھا۔ دوسری اہم وجہ کسی اجتماعی آدرش کافقدان تھا۔ رومانی تحریک سے فطری وابستگی کی وجہ سے انسانیت پرستی کا ایک ہیولیٰ سا ان کے ذہن میں تھا۔ جو عمومیت کے ساتھ ان کی شاعری میں اظہار پاتا رہتا۔ مگر مقصد کی تزئین و ترتیب اور اسے حاصل کرنے کے لیے سعی وجہد کا طریقہ ادب کو ترقی پسند تحریک نے بتایا۔ جدید شاعری کی تدریجی داستان ترقی پسند تحریک کی تاریخ سے وابستہ ہے۔ اور اس کے تجزیے کے لیے ہمیں یہ دوہرا مطالعہ کرنا ہوگا۔
ترقی پسند ادب سے یہاں مراد وہ ادب ہے جو ایک مخصوص معاشی مقصد کو پیش نظر رکھ کر تخلیق کیا جاتا ہے۔ ترقی پسند ادیب ایک منفرد فلسفہ زندگی کا علم بردار ہے۔ جس کی جڑیں مارکس اور اینگلز کے مینی فسٹو میں پیوست ہیں۔ ممکن ہے بعض اصحاب کواس تعریف سے اختلاف ہو اور اسے وہ کوتاہ بینی قرار دیں۔ بہرحال مجھے یہ ذہن نشین کرانا مقصود ہے کہ ترقی پسند ادب کا یہی مفہوم اس مضمون میں میرے پیش نظر رہے گا۔ ترقی پسند ادب کی بنیاد عالمگیر اشتراکی فلسفے پر ہے۔ اس لیے ترقی پسند شاعری پر غور کرتے ہوئے اس فلسفے کی مبادیات کو موضوعِ بحث بنانا ہی پڑتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ترقی پسند شعراءکے نقطہ نظر سے فلسفہ اشتراکیت کے مقابلے میں ادبی اقدار کی اہمیت ثانوی ہوجاتی ہے تو غلط نہ ہوگا۔ ادبی اقدار کو ثانوی حیثیت دینے سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ان قدروں کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ قدریں بذاتِ خود مقصد نہیں، محض مقصد کے حصول کاذریعہ ہیں۔ اور مقصد کی اہمیت ذرائع سے بہرحال زیادہ ہوتی ہے۔ فلسفہ اشتراکیت کی نوعیت مابعد الطبیعاتی نہیں۔ یہ اسی دنیا پر رہنے والوں کا فلسفہ ہے جس کی بنیادیں سائنٹفک حقیقتوں پر مبنی ہیں۔ انسانیت اورعوام دوستی اس کا آدرش ہے۔ سائنس کی تجرباتی دنیا انسانیت کی متحدہ کاوشوں کا عکس ہے۔ یہ طبیعی اور انسانی خصوصیات کو سمجھنے اور ان پر قابو پانے کانام ہے۔ یہ انسانی معاشرت کی حرکی قوت کے شعوری اظہار کے سوا اور کچھ نہیں۔ سائنس اور انسانی معاشرت کا یہی اتحادِ کار انسانیت کے مستقبل کا ضامن ہے۔ اور یہی سائنس اور اس فلسفہ کامقامِ اتصال بھی ہے۔ جس طرح سائنس کی دنیا میں چراغ سے چراغ جلائے جاتے ہیں، اور ایک فرد کی کاوشیں دوسروں کے لیے دلیلِ راہ بنتی ہیں۔ اسی طرح انسانی ارتقا روایات کا سہارا لے کر بڑھتا ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ کسی ملک میں اشتراکی نظام جاری ہوتے ہی وہاں کے حالات فوراً اوریکسر تبدیل ہوجائیں گے۔ وہ ملک ایک طرح کی جنت بن جائے گا۔ یہاں ترقی کی گنجائش مفقود ہوگی۔ ان حالات میں کسی قسم کی بڑھتی ہوئی ادبی قدروں کی گنجائش نہیں۔ اسی کج بینی نے ہمارے ترقی پسند ادیبوں کو ایک بڑی غلط فہمی میں مبتلا کردیا ہے۔ چند مخصوص قدروں کو معیارِ ادب بنالینے کے علاوہ وہ روایات کی اہمیت کو نظرانداز کرنے لگے ہیں۔ یہ غلط فہمی ترقی پسند شعرا ءتک ہی محدود نہیں، تجرباتی گروپ نے بھی اس ورثے کو بھلادیا ہے۔ زندگی عقائد کا مکمل اور منجمد مجموعہ نہیں۔ یہ ایک متشکل ارتقا ہے۔ یہاں کوئی شے بھی جامد اور متمکن نہیں۔ جس طرح سائنس کی دنیا میں ایک ماہر اپنے سے پہلے ماہرین کی کڑی سے کڑی ملاتا ہے۔ اور دوسروں کی رکھی ہوئی بنیادوں پر اپنی تعمیری صلاحیتوں کو بروئے کار لاتا ہے۔ اسی طرح ادیب روایت کی ضرورت اور اہمیت سے کسی طرح روگردانی نہیں کرسکتا۔ اب تک جدید شعراء میں یہ رجحان عام رہا ہے کہ وہ آگے تو بڑھنا چاہتے ہیں مگر ماضی سے منہ پھیر کر۔ یہ کامیابی سے ہمکنار ہونے کا طریقہ نہیں۔ ماضی کی اچھی روایتوں سے روگردانی فن اور ادب کے لیے کوئی نیک علامت نہیں۔ جدید شاعری کے المیے کی ایک اہم وجہ بنیادی روایتوں کی عظمت سے انکار ہے۔
مارکس کے معاشرتی عمل کے نظریے کے مطابق تاریخی ارتقا میں سب سے نمایاں عمل شخصیتوں کا نہیں جماعتوں کا ہوتا ہے۔ افراد زیادہ سے زیادہ اس عمل کو تیز کرنے یا اس کی راہ میں روڑے اٹکانے کاکام دیتے ہیں۔ یہاں تک اس نقطہ نظر سے اختلاف ممکن نہیں۔ مارکس پھر کہتاہے کہ ان مختلف گروہوں یا جماعتوں کا لائحہ عمل ان کے معاشی حالات بناتے ہیں۔ وہ جماعت جو ذرائع پیداوار پر قابض ہوتی ہے ان سے کسی صورت دستبردار ہونے کے لیے تیار نہ ہوگی۔ اس کے برعکس جس جماعت کے قبضۂ اختیار میں کچھ نہیں وہ ان ذرائع پر قابض ہونے کی سعی کرے گی۔ اس کشمکش میں نادار جماعت زیادہ سے زیادہ مفلس ہوتی جائے گی اور ذرائع پیداوار پر قابض جماعت اپنے تصرف کو زیادہ سے زیادہ بڑھاتی رہے گی۔ مارکس کی اس پیشین گوئی کا پہلا حصہ تو سرمایہ دار صنعتی نظام میں بہت کچھ ٹھیک ثابت ہوا۔ ذرائع پیداوار محدود سے محدودتر جماعت کے لیے مخصوص ہوتے گئے۔ اور آزاد مقابلہ خودبہ خود اجارہ داری کی صورت میں ڈھلتا گیا۔ مگر اس کے دوسرے حصے کو صحیح ثابت کرنے کی سعی مشکور نہیں ہوتی۔ سوشلزم اور اس کے زیر اثر اصلاحی قوانین کے محنت کش طبقے کی حالت کواس حدتک گرنے نہیں دیا جس کا تصور مارکس نے کیاتھا۔ ان کی نفسیات میں ابھی وہ تناؤ پیدا نہیں ہوسکا جس کا اشتراکی تحریروں میں ذکر ہے۔ اس لیے مجموعی طور پر وہ ردِّعمل بھی پیدا نہ ہوسکا جومعاشرتی عمل کے نظریے کے لیے ضروری ہے۔ صرف ایک ملک میں حالات نے مارکس کی پیش گوئی کا ساتھ دیا۔ اور وہ ملک روس ہے۔ مگر روس میں انقلاب کے وقت صنعتی دور کی ابھی ابتدا بھی نہیں ہوئی تھی۔ خود فاشزم کا مرحلہ مارکس کی توقعات کے مطابق نہیں کیا جاسکتا۔ حالانکہ جنگ سے عین پہلے فاشزم بہت سے صنعتی ممالک پر چھا چکی تھی۔ اسی نفسیاتی غلطی کی وجہ سے اشتراکی ادیب ایک الجھن میں مبتلا ہوگئے۔ انہوں نے نچلے طبقے کو اپنے تمام عقائد کا مرکز بنالیا۔ اور اس طبقے سے ایک قسم کی رومانی وابستگی پیدا کرلی۔ محنت کش طبقے کے مفاد کی نگہداشت اچھی چیز ہے۔ مگر محنت کش طبقے کے مفاد کو ادب کا معیار بنالینا اچھی چیز نہیں۔ یہاں جنسیات عقل پر غالب آجاتے ہیں، اور اوہام منطق پر۔
یہی نفسیاتی الجھن ہمارے ترقی پسند شاعروں میں بڑی شدت سے پائی جاتی ہے۔ ترقی پسند شاعری میں مزدور بھی ویسا ہی رومانی کردار ہے جیسا الف لیلیٰ کا کوئی خیالی ہیرو۔ ان کے شعروں میں محنت کش طبقے کا، اس کے حقوق، اس کی آسوں کا بیان اسی انداز میں ہوتا ہے جس میں ہمارے کلاسیکی شاعرمے و مطرب، گل و بلبل کا ذکر کرتے ہیں۔ اسی انداز میں جس کے لیے وہ پرانے شعراء پر طعن و تشنیع کرتے ہیں۔ اس طرح نئی شاعری بھی تاثرات کی اسی ’’ماورائی دلدل‘‘ میں پھنس جاتی ہے۔ جہاں تک رومانیت نے اسے پہنچایا تھا۔ اور جہاں سے نکالنے کا عزم لے کر ترقی پسند تحریک شروع ہوئی تھی۔ داخلیت سے اجتماعی دکھ درد تک کا یہ سفر ادھورا ہی رہ جاتا ہے۔ شعر و ادب کو سماجی بہتری کا وسیلہ سمجھا جانے کی بجائے طبقاتی ہتھیار سمجھ لیا گیا۔ ترقی پسند شعرا ءنے اجتماعی زندگی سے قطع تعلق کرکے اپنے آپ کو طبقاتی زندگی تک محدود کرلیا۔ انہوں نے یہ امر فراموش کردیا کہ ادب کے ذریعے تبدیلی کا عمل غیرشعوری اور بالواسطہ ہوتا ہے۔ شعر انسانی ذہن کو جمالیات کے ذریعے متاثر کرتے ہیں۔ سیاست کی طرح یہ عمل خارجی اور شعوری نہیں ہوتا۔
جہاں ادب کا معیار طبقاتی شعور پیدا کرنا رہ جائے وہاں ہیئت اور اسلوب سے توجہ ہٹانالازمی ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شاعری کی جمالیاتی قدریں اور روایتیں فراموش کردی گئیں۔ اسلوب سے ابہام۔ عمومیت اور شاعرانہ علامتوں کو بورژوا ادب کی خاصیتیں کہہ کر رد کردیا گیا۔ اور جذباتی خلوص اور فکری تنوع کی آگ نظریوں کے ڈھیر میں دب کر رہ گئی۔
دوسری طرف تجرباتی سکول کے شعراء ایک مختلف نفسیاتی الجھن سے گریباں گیر رہے۔ کسی سماجی مقصد کے فقدان نے ان کی شاعری کی روح کو سلب کرلیا۔ غیرشعوری طور پر انہیں اس بات کا شدید احساس تھا کہ جس سماجی نظام میں وہ زندگی بسر کر رہے ہیں منصفانہ نہیں۔ اس میں محنت کش طبقے کی حق تلفی ہوتی ہے۔ خود ان کی تعلیم و ترتیب، جس نے انہیں مغربی علوم سے استفادہ کرنے کے قابل بنایا۔ ان کے لمحاتِ فرصت جن میں انہوں نے شعری تجربے کیے، لاکھوں انسانوں کی مفلسی اور ناداری سے ان کے حقوق کو پس پشت ڈال کر حاصل کیے گئے تھے۔ ان کی روح اس کرب میں مبتلا تھی کہ وہ غیرارادی طور پر اس ناانصافی کو، اس غلط نظامِ معاشرت کو سہارے دے دے کر اس کی غیرطبعی زندگی میں اضافہ کر رہے ہیں۔ جدید شعراء داخلی طور پر متحد نہ تھے۔ اسی تقسیم شخصیت نے ان کی شاعری میں عظمت پیدا نہ ہونے دی۔ اور ان کا ہاتھی دانت کا مینار جگہ جگہ سے شکستہ ہونے لگا۔ یہ انسانی فشار جسے ورجینا ولف نے اپنے خوبصورت مضمون IVORY TOWER میں بیان کیا ہے۔ ہمارے ہی ادیبوں اور شاعروں کے فن کے لیے سم قاتل نہیں، ان تمام ملکوں کے فنکاروں کی تخلیقی قوتوں کا گلا گھونٹے ہوئے ہیں جہاں بندۂ مزدور کے اوقات آج بھی تلخ ہیں، اور وہ نانِ جویں تک کامحتاج ہے۔
ان الجھنوں میں ہماری جدید شاعری اجتماعی نصب العین سے محروم ہوگئی، جس کے بغیر عظیم شعری ادب کی تخلیق ممکن ہی نہیں۔ ا س کا نتیجہ ذہنی انارکی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ نئے لکھنے والوں میں رسمی غزل گوئی کا رجحان بڑی شدت سے بڑھ رہا ہے۔ اس کے پس منظر میں یہی ادبی بے راہ روی کارفرما نظر آتی ہے جسے تقسیم ہند سے منسلک مصائب اور مسائل نے پر پرواز دیے۔ اجتماعی نقطہ نظر کے حصول کے لیے ہمیں قومی آدرش کاتعین کرنا ہوتا ہے۔ یہ آدرش جمہور کی آسوں کا ترجمان ہونا چاہیے۔ ورنہ اجتماعی اور جمہوری نقطہ ہائے نظر میں کشمکش باقی رہے گی۔ جس کا نتیجہ معاشرتی انتشار کے سوا کچھ نہیں۔ جو ادب میں سوروپ بھر کر ظاہر ہوتا رہتا ہے۔ فی الحال ہماری شاعری کچھ ایسے ہی کرب، بے چینی، روحانی اور ذہنی اضطراب سے بالمقابل ہے۔ جب جمہوری اور اجتماعی مقاصد اولیٰ میں دیر تک اتفاق پیدا نہ کیا جاسکے۔ تو ادب میں ایک گونہ تساہل، بے پروائی آجاتی ہے۔ جو زوال کے ادب کاخاصہ ہے۔ ایسی صورت میں یا تو جمہوری نقطہ نظر کو تحریک کرنی پڑتی ہے۔ اور وہ ایک نئی حالت کا انتخاب کرلیتا ہے۔ آمریت اور فاشزم کے نمائندہ ادب کے مطالعہ سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے۔ یا پھر اجتماعی نقطۂ نظر کو عوامی نقطۂ نظر کے ساتھ منطبق کرنا پڑتا ہے۔ پہلی حالت میں ادب عام زندگی سے دور ہٹنا شروع ہوجاتاہے۔ اکثر ایسا ہوا ہے کہ ایک ترقی پسند تحریک اپنے مرکز سے ہٹتی ہٹتی دوسری رجعت پسند تحریکوں کے شانہ بشانہ چلنے لگی۔ انگلستان میں رومانی اور مافوق الفطرت تحریک کا یہی حال ہوا۔ فرانس کی تحریک انقلاب کے اثرات آہستہ آہستہ زائل ہوگئے اور زوال پسند مکتب پیش پیش آتا گیا۔
یہ تمام سنگ گراں جن کا میں نے اوپر کی سطور میں ذکر کیا ہے ابتدا ہی سے جدید شاعری کی راہ میں حائل تھے۔ امتداد زمانہ کے ساتھ ان کے مکمل اثرات ظاہر ہوئے۔ آج ہم اپنے شعری ادب کو جس جمود کے عالم میں پاتے ہیں اس کے محض وقتی عناصر ہی ذمہ دار نہیں۔ نئی شاعری کے سوتوں کے سوکھ جانے کی وجہ بنیادی طور پر وہ عناصر ہیں جن کا میں ذکر کرچکا ہوں۔ مگر اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ان تمام سالو ں میں جدید شاعری کادامن بالکل تہی رہا۔ ۱۹۳۵ء سے لے کر اب تک بہت سی اچھی نظمیں اور غزلیں کہی گئی ہیں۔ مگر جیسا کہ میں نے ابتدا میں عرض کیا تھا۔ اردو شاعری کی نئی تحریک کوئی عہد آفریں کارنامہ پیدا نہیں کرسکی۔ ابھی تک جدید شاعری نے اپنے میرؔ۔ سوداؔ۔ مومنؔ۔ اور غالبؔ پیدا نہیں کیے۔ اور فوری اصلاحِ احوال نہ کی گئی تو مستقبل میں بھی اس کے امکانات نہیں۔ آزادی سے پہلے غیرملکی سامراج کے خلاف مشترکہ محاذ نے ادیبوں کے لیے ایک ذہنی افق اور آدرش مہیا کردیا تھا۔ اور اس کشمکش میں وہ عناصر دب کر رہ گئے تھے۔ جو اس تحریک کے پھولنے پھلنے کے خلاف کام کر رہے تھے۔ جبھی نئی شاعری کے تمام قابل وقعت کارنامے ہمیں آزادی سے پہلے اور خصوصاً فوراً پہلے کی شاعری میں ملتے ہیں۔ آزادی کے بعد سیاسی، معاشی اور ثقافتی ناآسودگی نے ان تمام ادب دشمن عناصر کو یک لخت اچھال دیا۔ اور شاعری کی دیوی اس قعر میں دھکیل دی گئی جس میں اب اسے ہم دیکھ رہے ہیں۔
اس صورت حال کے لیے جمہور دوست ادیبوں کو مختلف محاذوں سے کام کرنا ہوگا۔ اب محض انفرادی کاوشیں بارآور نہ ہوسکیں گی۔ اجتماعیت کے اس عہد میں متحدہ سعی کی ضرورت ہے۔ جدید شاعری خلا میں معلق نہیں۔ ہر تحریک کے اصول و ضوابط بنیادی طور پر تمام معاشرتی زندگی پر لاحق ہوتے ہیں۔ از منہ وسطیٰ کی شجاعت کی داستانیں۔ اصلاحِ مذہب کی تحریک کے زیر اثر پیدا شدہ ادب۔ نشاۃ ثانیہ کی تخلیقیں۔ معاشرتی۔ سیاسی اور ادبی تحریکوں کے ایک ساتھ بڑھنے کی مثالیں ہیں۔ آزاد مقابلے کی تحریک۔ صنعتی جمہویت کی پیدا کردہ حد سے بڑھی ہوئی انفرادی آزادی کا لازمی نتیجہ تھی۔ جب اس بے انتہا بے راہ روی نے سرمایہ اور محنت کی کشمکش کی صورت میں اپنے معیوب پہلوؤں کااظہار کیا، تو سیاسی اورمعاشی رجحان مرکزی ترتیب کی طرف ہوگیا۔ اس عہد کاادب بھی اس رجحان کے بنیادی مقاصد سے علیحدہ رہ کر سانس نہیں لے سکتا۔ ادب آج کل جن ذمہ داریوں کا حامل ہے۔ ان سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اجتماعی کاوش کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر موجودہ حالات میں ہمارا شعری ادب مسموم ہوکر رہ جائے گا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.