Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جدیدیت اور اردو افسانہ

محمد حسن

جدیدیت اور اردو افسانہ

محمد حسن

MORE BYمحمد حسن

    جدیدیت میرے نزدیک معاصرانہ حقیقتوں میں نئی بصیرت اورمعنویت کی تلاش ہے۔ معاصرانہ حقیقت کاتعین آسان نہیں ایک ہی دور اور ایک ہی سماج میں متعدد حقیقتیں ہوتی ہیں جو مختلف بھی ہوتی ہیں اور متصادم بھی۔ ایسی پیچیدہ صورتحال حال میں معاصرانہ حقیقت کا تعین اور بھی دشوار ہوجاتا ہے۔ ہر دور اور ہر سماج کی معاصرانہ حقیقت کے تعین کا اختیار فنکار کو ملنا چاہئے اور اسے اس کا پورا استحقاق ہے کہ وہ اپنی بصیرت اور شعور کے مطابق معاصرانہ حقیقت کا تعین کرے۔

    دوسرے لفظوں میں ہر دور کی حقیقتوں کے بارے میں فن کار کا اپنا ایک PRIVATE VISION یا ذاتی بصیرت ہوتی ہے۔ اس نجی بصیرت کو اس پر عائد نہیں کیا جاسکتا۔ یہ نجی بصیرت (PRIVATE VISION) دراصل اس کی تخلیقی شخصیت کابنیادی جوہر ہے۔ اس کی روشنی میں وہ خارج کے مختلف عوامل اور اشیا کو پہچانتا ہے اور ان کی مدد سے کسی مربوط اور مرتب تصور تک پہنچتا ہے۔ زندگی بکھرے ہوئے اشیا اور عوامل سے عبارت ہے اور ان میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے کسی نہ کسی سلسلۂ ترجیحات SCALE OF PRIORITIES کی ضرورت ہے جسے بعض علماء نے نظام اقدار کا نام دیا ہے۔ اس نظام اقدار کے بغیر زندگی کے گوناگوں مشاہدات اور تجربات کی کثرت میں وحدت کا تصور ناممکن ہے۔ اسی نظام اقدار کے لئے عقیدہ، نظریہ یا کسی قسم کا COMMITMENT وابستگی ضروری ہوجاتی ہے۔

    اب مسئلے کا دوسرا پہلو سامنے آتا ہے۔ اگر مصنف اور لکھنے والا دونوں ایک ہی دور میں زندہ ہیں تو جہاں حقیقت کا ایک PRIVATE VISION مصنف کا ہے، وہاں ا سکے پڑھنے والوں نے بھی اپنے طور پر معاصرانہ حقیقت کا یا معاصرانہ حقیقتوں کا اپنا ایک VISION یا تصور قائم کیا ہوگا اور عام پڑھنے والوں کے اس VISION میں اقدار مشترک تلاش کر کے اسے PUBLIC یا اس دور کا COLLECTIVE VISION کہا جائے تو نامناسب نہ ہوگا۔ پڑھنے والے کا یہ تصور یا VISION ان کے اپنے تجربات، مشاہدات اور اقدار سے عبارت ہوگا۔ اب اگر کوئی مصنف ترسیل یا محض اظہار چاہتا ہے تو بھی لازم ہے کہ وہ اپنے نجی تصور PRIVATE VISION کو کسی نہ کسی طرح اپنے دور کے PUBLIC یا COLLECTIVE VISIONکے ذریعہ بیان کرے یعنی اظہار اور ترسیل کا عمل لازم طور پر نجی کو اجتماعی اور ذاتی کو مجلسی نظام اقدار کے پیرائے میں ڈھالنے کا عمل ہے۔ یہ عمل محض زبان و بیان کی سطح کا نہیں بلکہ دراصل تجربات کی اس اجتماعی سطح کا ہے جو ایک ہی دور کی حقیقتوں سے اثر پذیر ہونے کی وجہ سے مصنف اور قاری دونوں کے درمیان مشترک بصیرت کی شکل میں سامنے آتی ہے۔ گویا ہر تخلیقی عمل لازمی طور پر فرد اور سماج کے درمیان ایک مفاہمے کی حیثیت رکھتا ہے۔

    دراصل فن میں بنیادی قدر یہی VISION جو مختلف وسائل اور ذرائع سے اظہار اور ترسیل کی منزل سے گزرتا ہے۔ آج کے زمانے میں یہ شعور پہلے سے کہیں زیادہ عام ہوا ہے کہ افسانے یا ناول یا ڈرامے میں پلاٹ کی وہ اہمیت نہیں جس کی طرف ارسطو نے بوطیقا میں اشارہ کیا تھا۔ ان معنوں میں فن حقیقت کی نقالی نہیں نہ وہ حقیقت کی نقالی کرتا ہے، نہ بیان واقعہ اس کا مقصد ہے۔ پلاٹ ہو یا کردار نگاری یا انداز بیان یا تکنیک۔ ان میں سے کوئی بھی فی نفسہ اہم نہیں۔ ان میں سے کوئی بھی فن کار کا مقصد نہیں بلکہ محض ذریعہ ہیں۔ حتی کہ نفس مضمون یا موضوع بھی فی نفسہ اہم نہیں۔ ان کی اہمیت بھی صرف اس بنا پر ہے کہ ان کے ذریعہ فنکار کی نجی بصیرت کا اظہار ہوتا ہے۔

    عہد جدید کی نئی معاصرانہ حقیقت کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ ایک حقیقت نہیں بلکہ ہزاروں لاکھوں اور کروڑوں ہیں۔ لیکن جن مسئلوں نے ادھر لوگوں کے ذہن کو خاص طور سے متاثر کیا ہے، ان میں ایک اہم مسئلہ فرد اور سماج کے مفاہمے کا بھی ہے۔ آج سے پہلے بھی اس مسئلے کی طرف اشارے کئے گئے ہیں۔ اقبال کا مشہور مصرع ہے،

    کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

    اب سے پہلے شاید سحر کی طرف ہمارے فنکاروں کی توجہ زیادہ مبذول رہی اب ان صد ہزار انجم کے درد و کرب کی طرف زیادہ توجہ ہے جن کے خون سے سحر طلوع ہوتی ہے، سماج آگے بڑھتا ہے اور ہر بدلتے ہوئے دور کے ساتھ افراد کو ذہنی، جذباتی اور مجلسی زندگی میں ADJUSTMENTS مناسب سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں مگر ان مفاہموں کے دوران فرد کی شخصیت کے کتنے پرت مجروح ہوتے ہیں اور کتنے ارمان ٹوٹتے ہیں، شکست دل کی کتنی منزلوں سے گزرنا ہوتا ہے، آج کے ادب میں فرد کے اس اندرونی مہابھارت کی طرف بھی توجہ کی گئی ہے، مگر اس تصویر کے ایک ہی رخ میں اس قدر محو ہوجانا مناسب نہیں کہ ’’خون صد ہزار انجم‘‘ سے پیدا ہونے والی سحر ہی سے ہم غافل ہوجائیں۔ خون کی لالی ہی کو دیکھتے رہیں اور سحر کی پیغام برشفق سے آنکھیں بند کرلیں۔

    معاصرانہ حقیقت ادب میں کم سے کم تین سطحوں پر جلوہ گر ہوتی ہے، اسے خانوں میں بانٹنا اور ٹکڑوں میں توڑ لینا آسان نہیں۔ ادب میں حقیقت کم سے کم سہ جہتی ہوتی ہے، ہر حقیقت ذاتی اور نجی بھی ہے اور اجتماعی اور مجلسی بھی۔ ادیب فرد کی حیثیت سے مخصوص تجربات سے گزرنے کے بعد بھی سماج ہی کا حصہ رہتا ہے اور اس لحاظ سے اس کا تجربہ بھی لازمی طور پر مجلسی تجربے اور سماجی حقیقت کا ایک جزو ہوتا ہے، وہ ذاتی اور نجی ہوتے ہوئے بھی مجلسی اور اجتماعی ہے، دوسری سطح زمان و مکان کی ہے۔ ہر عظیم ادب پارہ ہنگامی، وقتی اور مقامی بھی ہوتا ہے اور آفاقی اور ابدی بھی۔ ہر ادب پارہ اپنے دور اور اپنے علاقہ کی زندگی کی عکاسی کرتا ہے، وہ لمحہ گریزاں کی آواز ہے لیکن اس میں عظمت صرف اس صورت میں پیدا ہوسکتی ہے جب اس کا تاثر ان حد بندیوں کو عبور کرے اور وہ ایک دور، ایک مقام علاقے یا ملک اور ایک لمحہ گریزاں کی داستان ہونے کے بجائے انسانیت کی میراث کا حصہ بن جائے اور اپنے علاقے سے بہت دور اور اپنے دور تصنیف کے بہت بعد بھی پڑھا اور پسند کیا جائے۔

    اس میں بہ یک وقت عصریت اور ابدیت دونوں کا عکس ملے۔ تیسری سطح مادی، حسی اور روحانی، جمالیاتی ہے ادب احساس کا نتیجہ ہے احساس جذبہ بنتا ہے، شعور کی آمیز اور تخیل کی رہبری سے اس میں رنگ و آہنگ آتا ہے اور وہ شعور اور جذبے کی راہ میں نئے چراغ روشن کرتا ہے، دوسری منزل وہ ہے جہاں نفس مضمون کی ترسیل ہی سے نہیں بلکہ انداز بیان کی ساحری، تکنیک اور طرز ادا کی حسن کاری سے قاری کے جمالیاتی انبساط کو بیدار کرتا ہے اور حس جمال کو آسوہ کرتا ہے۔

    جدید ادب کا کام تجربے کی اسی پوری وحدت اور آہنگ کو برقرار رکھنا ہے۔ ہمارے دور کی حقیقت مختلف ٹکڑوں میں منقسم نہ ہو، مختلف سطحوں پر دو نیم نہ ہو بلکہ ان تقسیموں سے گزر کر پورے تجربے کو پیش کرسکے، اس انسان کی عکاسی کرسکے، جس کا وجود ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا ہے۔ جب وہ مادی حقائق کی عکاسی کے ذریعہ انتہائی پاکیزہ ہوئے انسان کے پارہ پارہ وجود کو ایک پیکر میں ڈھال کر اسے ایک جسم ایک وجود، ایک لمحہ حیات بخشنے کا کام بھی معاصرانہ حقیقت کو نئی معنویت اور بصیرت دینے کے مترادف ہے۔

    جدید اردو افسانے ہی کو لیجئے۔ ترقی کے باوجود آج بھی اردو افسانہ اردو کی بعض دوسری اصناف کی طرح ADOLESCENSE عنفوان شباب کی نفسیات کا شکار ہے، جب کبھی فلمی دنیا میں اردو شاعری کی مقبولیت کا ذکر سنتا ہوں تو مجھے یہ خیال ہوتا ہے کہ شاید اردو ادب کے ADOLESCENT مزاج اور لب و لہجے کا ثبوت ہے۔ ہماری شاعری اور افسانے میں آج تک بالغ ذہن کی عکاسی بہت کم ہے، ہمارے افسانے اکثر نوجوانوں کے گرد گھومتے ہیں اور ان کی حیات معاشقہ یا جنسی بے راہ روی کی داستان بیان کرتے ہیں اور اکثر شادی یا ناکامی پر ختم ہوتے ہیں۔ ان میں شادی کے بعد صحت مند اور نارمل زندگی کی عکاسی بہت کم ہے۔ نارمل انسان، مسکراتے ہوئے بچے، گرہستن بیوی کے کردار شاذ ہی ملتے ہیں۔ بیدی کی کہانی ’’اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘ اور چند اور کی کہانیاں البتہ مستثنیات میں سے ہیں۔

    ہمارے افسانوی ادب میں محبوباؤں کی کثرت ہے، مگر ماں کا کردار نایاب ہے۔ آخر عشق و محبت، جنسی و جذباتی لگاؤ مرد اور عورت کی شخصیت کی تعمیر کا ذریعہ اور اس کی محض ایک منزل ہے، مجھے اعتراف ہے کہ کسی افسانہ نگار یا ادیب پر موضوعات کے سلسلہ میں کوئی پابندی نہیں لگانی چاہئے۔ ادیب یا افسانہ نگار اگر جنس ہی کو اپنا موضوع بنانا چاہتا ہے تو کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح اگر کوئی ادیب تنہائی، محرومی اور موت کو اپنا موضوع بناتا ہے تو بھی میرے نزدیک یہ محض ایک ضمنی اور ثانوی بات ہے۔ اصل بات تو اس نقطہ اس VISION کی معقولیت VALIDITYیا عدم معقولیت NON-VALIDITY کی ہے جسے وہ ان موضوعات کے ذریعہ پیش کر رہا ہے یعنی اس کا تصور حیات، نظریہ زندگی، نظام اقدار یا سلسلہ ترجیحات کیا ہے اگر وہ صحیح ہے تو پھر موضوع کی بحث ضمنی ہوجاتی ہے۔

    اردو افسانے میں فلسفیانہ حجم TEXTURE کی کمی اب بھی موجود ہے۔ اردو افسانے نے پچھلے دور میں مثالی ترقی کی ہے۔ ہمارے افسانہ نگاروں میں کوئی پریم چند نئے دور میں پیدا نہیں ہوا لیکن اگر اس دور کا افسانوی ادب مجموعی طور پر پریم چند سے کہیں آگے ہے اور ایسی کہانیاں لکھی گئی ہیں جو دنیا کے بہترین ادب میں شامل کی جاسکتی ہیں، لیکن فلسفیانہ طور پر جدید افسانہ ہنوز تشنہ تکمیل ہے۔ ہمارے ہاں جذبہ کا خروش زیادہ اور فکر کی عظمت اور بالیدگی کم ہے۔

    جدید افسانہ کے ضمن میں کردار نگاری اور تکنیک کے تجربوں کا ذکر بھی ضروری ہے۔ آج کا افسانہ نگار کرداروں کو اعمال و افعال یا واقعات کے ذریعہ سے اتنا ظاہر نہیں کرتا جتنا ان کے افکار و خیالات کے ذریعہ سے ان کی تصویر کشی کرتا ہے۔ آ ج کے کردار عمل کے اتنے غازی نہیں جتنے خیالات کے غازی ہیں۔ وہ سوچتے زیادہ اور کرتے کم ہیں۔ ان کے فکر و خیال میں بھی ایک خاص قسم کا بکھراؤ اور انتشار ہے۔ وہ سوچنے سے بھی زیادہ BROODING کرتے ہیں۔ مجاز مرحوم کسی کے متعلق ایک لطیفہ بیان کرتے تھے کہ فلاں صاحب گرفتار کرلئے گئے۔ جرم صرف یہ بتایا کہ ’’سوچ رہے تھے‘‘ ۔ سوچنے کا یہ عمل جاری رہنا چاہئے اور نئے افسانے کے لئے اس کا جاری رہنا فال نیک ثابت ہوسکتا ہے۔

    اس کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ آج کا افسانوی ادب کرداروں کو براہ راست پیش نہیں کرتا بلکہ بکھرے ہوئے تاثر پاروں کے ذریعہ ان کی خصوصیات واضح کرتا اور ان کی تشکیل و تعمیر کرتا ہے۔ ان کرداروں کی شکلیں ایک جگہ یا ایک SEQUENCE میں بیان نہیں ہوتیں۔ مختلف بہ ظاہر الجھی ہوئی IMAGES کے ذریعہ سے ابھرتی ہیں اور جو شکل ابھرتی ہے وہ بھی ایک کرب ناک سی شخصیت TORTURED PERSONALITY ہے اب کردار TYPE نہیں۔ وہ فنکار کے ہاتھ کی کٹھ پتلی بھی نہیں۔ اب وہ الفاظ نہیں بولتے جو مصنف کی شخصیت کی گہری چھاپ رکھتے ہیں، اب ان کرداروں میں زیادہ انفرادیت ہے۔

    تکنیک کے سلسلے میں STREAM OF CONSCIOUSNESS شعور کی رو کا ذکر اکثر کیا جاتا ہے۔ دور حاضر میں اس کا چلن زیادہ ہوا بھی ہے، مگر تکنیک کے بارے میں گفتگو کرتے وقت پھر یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اس کی نوعیت ثانوی اور ضمنی ہے۔ دراصل وہ مجموعی تاثر اہم ہے جس کو تکنیک اور بیان کے ذریعہ سے پیش کرنا مقصود ہے۔ اس کے تقاضوں کے مطابق تکنیک میں بھی ردو بدل اور اضافے ہوں گے لیکن یہ تمام تجربے اور اضافے بنیادی طور پر اسے مجموعی تاثر کے اظہار اور ترسیل کے ذریعہ ہیں، خود مقصد نہیں ہیں۔ جس طرح کردار کو ایک نقطہ یا مقام پر بیان کردینے کے بجائے بکھری ہوئی IMAGES یا تمثالی ٹکڑوں کے ذریعہ پیش کرنے کی روش عام ہوئی اسی طرح ہمارے افسانوی ادب میں مجموعی تاثر کو براہ راست اور بلا واسطہ ادا کرنے کے بجائے اسے بکھری ہوئی تصویروں کے ذریعہ ادا کیا جانے لگا۔

    تکنیک کے تجربوں میں فی نفسہ حسن یا قبح، خوبی یا خراب نہیں ہوتی، ان پر الگ سے کوئی فیصلہ دینا بھی نامناسب ہوگا۔ ان کا اصل معیار صرف یہ ہے کہ کس خوبی سے نجی تاثر PRIVTE VISION اجتماعی COLLECTIVE VISION میں منتقل ہوسکا ہے۔ جو لوگ تکنیک میں تجربے اور انداز بیان میں تنوع کی آزادی چاہتے ہیں بے شک ان کو اس آزادی کا حق حاصل ہے۔ البتہ انھیں اس دائرے میں رہ کر یہ آزادی حاصل ہوسکے گی جس کے اندرونی سرحد نجی تاثر اوربیرونی سرحد اجتماعی تاثر یا VISION سے عبارت ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس سیمینار مصوری میں جدیدیت کے عنوان پر ایک تفصیلی مقالے کی گنجائش اور ضرورت تھی کیونکہ نئی مصوری کی متعدد تکنیک سے ہم نے شاعری اور افسانہ دونوں میں استفادہ کیا ہے۔

    مجموعی طور پر جدید اردو افسانے میں نئی آوازیں ابھری ہیں اورنئے میلانات پیدا ہوئے ہیں۔ ہمارے افسانوں میں زمین سے قربت کا احساس بیدار ہوا ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ حقیقت نگاری کا نیا تصور بھی سامنے آیا ہے۔ ہمارے دور کا شہر آشوب افسانوں ہی میں لکھا گیا ہے۔ میرا یہ بھی خیال ہے کہ ہمارے دور کا افسانہ نگار دوسری اصناف کے لکھنے والوں سے کہیں زیادہ حقیقت پسند ہے اورمجھے امید ہے کہ نئی سربلندیوں کی طرف اس کا سفر اسی طرح جاری رہے گا یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب ہمارا افسانوی ادب برابر معاصرانہ حقیقتوں میں نئی معنویت اور بصیرت کی تلاش کے کام کو جاری رکھے، کیونکہ اسی سے جدیدیت کے تقاضے بھی پورے ہوں گے اور ادبی روایت کوبھی نیا رنگ و آہنگ ملے گا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے