Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جدید اردو افسانے میں سماجی و ثقافتی جہات:ایک جائزہ

وصیہ عرفانہ

جدید اردو افسانے میں سماجی و ثقافتی جہات:ایک جائزہ

وصیہ عرفانہ

MORE BYوصیہ عرفانہ

    ہندوستان کی سرزمین اپنی داخلی وسعت اور اخلاقی ہمہ گیری کی وجہ سے ہمیشہ مشہور رہی ہے۔اس سرزمین پر ابتدائے تہذیب و تمدن سے ہی مختلف قوموں کی آمدورفت جاری رہی۔ ان قوموں نے یہاں مہمانوں یا حملہ آوروں کی صورت میں اپنے قدم جمائے لیکن یہاں کی سرزمین نے انہیں اپنا بنالیا۔ مسلمانوں کی ہندوستان میں آمدنے ہندوستان کی تہذیب کو سب سے زیادہ اورمثبت انداز میں متاثر کیا۔ہندو مسلمانوں کے میل جول،ربط و ضبط،باہمی اختلاط،تیج تہوار اور رسم و رواج نے ہندوستانی تہذیب و تمدن کو رنگارنگی عطا کی۔ہندوؤں نے مسلمانوں کی بعض رسموں کو اپنایا تو مسلمانوں کے رہن سہن اور ملبوسات پر بھی ہندو تہذیب کا اثر ہوا۔ہندو مسلمانوں کے اختلاط کے بعد بھگتی تحریک نے بھی ہندوستانی تہذیب کو بے حد متاثر کیا۔دراصل ہندوستان کی سرزمین میں انجذابی کیفیت بدرجہ اتم موجود ہے۔صوفیوں اور بھگتوں کے اثرات نے ہندو مسلم مشترکہ تہذیب کو اخلاقی اور انسانی سطح پر ایک نئے قالب میں ڈھال دیا۔اب ہندوستانی تہذیب مذہب و ملت کے محدود دائرے سے نکل کر انسانی سطح پر اپنی پہچان قائم کرنے لگی۔اس صوفیانہ تہذیب نے آپس میں اخوت اور محبت کی فضا ہموار کردی اور ہندوستان کی مشترکہ تہذیب زندگی کی ہر تصویر میں رنگ بھرنے لگی۔ بات اب آداب معاشرت، رہن سہن اور رسم و رواج تک محدود نہیں رہی بلکہ علوم وفنون اور شعروادب پر بھی مشترکہ تہذیب کے اثرات نمایاں نظر آنے لگے۔ ادب لطیف کا براہ راست رشتہ معاشرے اور انسان سے ہوتا ہے۔جس عہد میں زندگی جیسی ہوگی،فن پارہ اسی کیف و کم کی ترجمانی کرے گا۔ دراصل مشترکہ تہذیب جس خطہ میں نشوونما پاتی ہے،وہاں کی زبان بھی مشترک ہوتی ہے،مسائل بھی مشترکہ ہوتے ہیں اور کم و بیش اظہار کے پیرائے بھی یکساں ہواکرتے ہیں۔

    اردو زبان کی تشکیل مختلف زبانوں کے میل جول سے ہوئی ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ اس زبان نے مشترکہ وراثت کو خوب خوب اپنے دامن میں سمیٹا اور دلکش پیرائے میں اظہار کیا ہے۔قدیم اردو شاعری کا مطالعہ کریں تو مشترکہ تہذیب کے متعدد نقوش واضح نظر آئیں گے ۔شاعری میں علامتی یا اشاراتی اسلوب اختیار کیا جاتا ہے لیکن نثری بیانیہ میں تفصیلات کی مکمل گنجائش ہوتی ہے۔لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ داستانوں ،افسانوں اور ناولوں میں مشترکہ تہذیب و ثقافت کی بھرپور رنگا رنگی نظر آتی ہے۔ مقام فکر یہ ہے کہ نثری بیانیہ کے اس اہم عنصر کی بازیافت کو چند ادیبوں اور نقادوں نے ہی قابل اعتناء سمجھا ہے جن میں سرفہرست عابد حسین،تنویر علوی اور گوپی چند نارنگ ہیں جنہوں نے اردو ادب کے اس اہم پہلو کو موضوع گفتگو بناکر اردو قاری کی توجہ مبذول کرائی ہے۔

    ایسا نہیں ہے کہ دیگر ناقدین یا ادب کے پارکھوں نے اس جانب دھیان نہیں دیا ہے لیکن ادب میںتہذیب و ثقافت کی شناخت کے حوالے سے مبسوط اور مفصل مطالعے کی کمی نظر آتی ہے۔اکیسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں احمد طارق کی ایک اہم کاوش سامنے آئی،’’جدید اردو افسانے میں سماجی و ثقافتی جہات‘‘۔یہ ایک ضخیم کتاب ہے جس میں اردو داستان،ناول اور افسانوں کے حوالے سے ہندوستانی تہذیب و ثقافت کا نہایت تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔احمد طارق کوہندوستانی تہذیب وثقافت سے غیر معمولی دلچسپی ہے اور اس ضمن میں ان کا مطالعہ بھی گہرا ہے۔ان کا خیال ہے کہ کسی جغرافیائی خطے میں نمو پذیر ہونے والی مشترکہ تہذیب و ثقافت کے ہزارہا پہلو اور گوشے ہوتے ہیں جن کی جڑیں معاشرت،مذہب، اعتقادات، توہمات، فکروفلسفہ غرض کہ پوری انسانی زندگی اور سماج میں اس طرح گہرائی تک پیوست ہوتی ہیں کہ ان کے ماخذ کی شناخت بھی آسان نہیں۔مقالے کی تفصیلات و جزئیات سے یہ بات روشن ہوتی ہے کہ احمد طارق نے اس کار مشکل کو بخوبی انجام دیا ہے۔انہوں نے مقالے کو سات مفصل ابواب میں منقسم کیا ہے۔ انہوں نے نہ صرف تہذیب و ثقافت کے معانی و مفاہیم کا جائزہ لیا ہے بلکہ اس ضمن میں مختلف ماہرین سماجیات کے نظریات پر نگاہ رکھی ہے۔مختلف نظریات کے جائزے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں :

    ’’تہذیب کی تعریف مختلف زمانے میں مختلف لوگوں نے اپنے اپنے ڈھنگ سے پیش کی ہے۔کسی کے نزدیک تہذیب انسانی رویوں کے اس مجموعے کا نام ہے جس میں انسانی جماعت کی بہتری کے عناصر ہوتے ہیں۔کسی نے اسے نیکی،خیر اور پاکیزگی کا نام دیا ہے۔بعض مفکرین کے نزدیک تہذیب عظیم انسانوں کی شخصی اور تخلیقی توانائی کا ظاہری روپ ہے۔کسی کے نزدیک تہذیب اخلاقی احساس کا نام ہے ۔مذہبی اعتقادات سے متاثر شخص کے لئے بہترین زندگی وہ ہے جو خدا کی مرضی کے مطابق بسر کی جائے۔‘‘

    تمام نظریات اور بیانات کے تناظر میں احمد طارق میتھیو آرنلڈ کے نظریے کو مقدم مانتے ہیں جو تہذیب یا کلچر کو شہد کی مکھیوں کے چھتے سے تعبیر کرتا ہے جس میں شہد بھی ہوتا ہے اور موم بھی۔شہد غذا بھی ہے اور دوا بھی اور موم تاریکی کو دور کرنے کا وسیلہ بنتا ہے۔احمد طارق کہتے ہیں کہ انسان کو علم ،نور اور شیرینیٔ گفتار و کردار کی ہی ضرورت ہے اور یہی تہذیب کا لب و لباب ہے۔وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ تہذیب کے وجود اور اس کے ارتقاء کے لئے افراد کا مشترکہ اور بنیادی اقدار پر متحد اور متفق ہونا لازمی ہے۔ان کی رائے میں تہذیب انسان کو ایک منظم ضابطۂ حیات عطا کرتی ہے تاکہ وہ حیوانیت کی سطح سے بلند ہوکر زندگی گزار سکے اور سماج کی ترقی میں ممد و معاون ہو۔سچ تو یہ ہے کہ تہذیب انسانی زندگی اور معاشرہ دونوں کی اصلاح اور نشوونما کے لئے راستہ ہموار کرتی ہے۔ سید اسد علی نے اپنی کتاب ’’ہندی ادب کے بھگتی کال پر مسلم ثقافت کے اثرات‘‘ میں نہایت مفصل اورجامع انداز میں تہذیب و ثقافت کی تعریف درج کی ہے:

    ’’اس کا اطلاق کھانے پینے،پہننے اوڑھنے،رہنے سہنے ،نیز علم وادب ،فن و فکر، عمل طور طریقہ،سیاست،فلسفہ، دلچسپی،مذہب، اعتقاد،معیشت وغیرہ غرض کہ سماجی اور غیر سماجی لوازم زندگی پر بھی ہوسکتا ہے۔اور ان سب کا تعلق محض اصلاح بشر اور اس کی نشونما اور ارتقائے حیات سے رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی دور کی ثقافت کو ہم اس عہد کا ہمہ جہتی ارتقاء کہتے ہیں۔‘‘

    تہذیب و ثقافت کے آغاز و ارتقا کے سلسلے میں بھی مختلف ماہرین مختلف نظریات کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا تہذیب کا تعلق جغرافیائی مرکز سے جوڑتے ہیں تو ڈاکٹر عابد حسین تہذیب کو طبیعی ماحول اور سماجی حالات سے وابستہ کرکے دیکھتے ہیں۔ بعض ماہرین سماجیات تہذیب کے متعلق مادی نظریات کے پیروکار ہیں تو بعض تہذیبی ارتقا کو مذہب سے جوڑکر دیکھتے ہیں۔ احمد طارق مذکورہ بالا نظریات کے تجزیے کے بعد اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ دونوں ہی نظریے انتہا پسندی کا شکار ہیں۔تہذیبی اداروں کی تعمیر میں اقدار اعلیٰ اور طبیعی اور جغرافیائی ماحول دونوں ہی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں:

    ’’ اس بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ انسانی سماج مذہبی اعتقادات کو اپنے جغرافیائی ماحول میں اپنی ضرورت اور سہولت کے مطابق ڈھال لیا کرتا ہے۔اس لئے یہ دونوں ہی عناصر تہذیب کی تعمیروتشکیل کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔جو ایک دوسرے میں گھل مل کر ایک وحدت میں ڈھل جاتے ہیں۔‘‘

    تہذیب کی تہہ داری سے بحث کرنے کے بعد احمد طارق نے مشترکہ تہذیب کی تعریف کرتے ہوئے مشترکہ سماجی و ثقافتی جہات میں نمایاں کردار ادا کرنے والے عناصر کا مختلف عنوانات کے تحت تجزیہ پیش کیا ہے۔ہندوستان کا موسم ،آب و ہوا اور جغرافیائی خصوصیات،وادئی سندھ سے قبل کی تہذیبیں،وادئی سندھ کی دراوڑی تہذیب،آریائی تہذیب،بدھ مذہب،جین مذہب ،ہندوستانی مشترکہ تہذیب پر بدھ اور جین مذہب کے اثرات،ہندو مذہب کا احیاء اور دراوڑی ،بدھ اور جین مذاہب اور تہذیبوں کا ہندو مذہب میں انضمام،مشترکہ ہندوستانی تہذیب پر یونانی اور ایرانی تہذیبوں کے اثرات، گپتا شہنشاہوں کے عہد کی ثقافت و تہذیب،جنوبی ہند کی ثقافت و تہذیب،اسلام کا آغاز اور اس کے بنیادی اصول و تصورات، ہندوستان کے متعلق عربوں کے تصورات اور ہند عرب تجارتی تعلقات غرض کہ احمد طارق نے نہایت باریک بینی اور دلجمعی کے ساتھ مشترکہ تہذیب کے ظاہری اور باطنی لوازمات کی نشاندہی کی ہے اور ماہرین سماجیات کے نظریات کے حوالوں سے اپنی باتوں کو مدلل بناکر پیش کیا ہے اور بالآخر اس نتیجے پر پہنچے ہیں :

    ’’ہندوستان کی مشترکہ تہذیبی تاریخ اپنے باطن میں پانچ ہزار سال کا ایسا تسلسل رکھتی ہے ، جو تاریخ میں کسی بھی مقام پر ٹوٹنے نہیں پایا ہے۔تنوع اور رنگارنگی اس سرزمین کی خصوصیت ہے، لیکن تمام رنگوں کی آمیزش سے ایک نیا رنگ وجود میں آتا ہے اور یہ نیا رنگ دیگر رنگوں کو اور زیادہ نمایاں کردیتا ہے۔مختلف تہذیبی وحدتوں کے اشتراک و انضمام سے جو تہذیب بنی ،اس کے مظاہر تمام تہذیبوں کا اس طرح ناگزیر حصہ بن گئے کہ ان تہذیبی وحدتوں کی اپنی شناخت بھی برقرار رہی۔‘‘

    یہ واقعہ ہے کہ کسی بھی تہذیب کی جتنی مکمل عکاسی زبان و ادب کے ذریعے ہوتی ہے،دیگر مظاہر مثلاً مذہب، سیاست یا دیگر علوم و فنون کے ذریعے اتنی بھرپور عکاسی نہیں ہوپاتی۔کسی بھی زبان کے الفاظ کے پس منظر میں تہذیب و ثقافت اور عروج و زوال کی مکمل داستان ملتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر زبان کے ادب میں اس معاشرے کی تہذیبی تاریخ محفوظ ہوجاتی ہے۔لہٰذاکسی بھی قوم کی زبان یا رسم الخط کو ختم کردیا جائے تو اس قوم کی تہذیبی شناخت مٹ جاتی ہے۔احمد طارق اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ ادب کے مطالعے کے حوالے سے ہی تہذیبی تغیر اور تبدل کی منزلوں سے واقفیت ممکن ہے۔لہٰذا انہوں نے اردو افسانے کے پیچ و خم میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے مراحل کی شناخت کا بیڑا اٹھایا ہے ۔ اردو افسانے نے خلا ء میں جنم نہیں لیا بلکہ داستان اور ناول کی راہداری سے ہی اردو افسانے کا سفر شروع ہوتا ہے ۔اس لئے احمد طارق نے اردو داستانوں اور ناولوں کا سرسری جائزہ لے کر تہذیب و ثقافت کے عناصر کی بازیافت کا بھی عمل انجام دیا ہے۔ مختلف داستانوں میں پائے جانے والے تہذیبی عوامل کا تجزیہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:

    ’’ داستانیں ایک بے عمل اور آرام طلب معاشرہ کی پیداوار ہیں مگر اس کے باوجود ان میں زندگی کی حرارت اور خود عملی ہے۔ان میں ٹھہراؤ نہیں کے برابر ہے۔بلکہ ہرجگہ تیزگامی ،انقلاب اور تغیر ہے۔داستانوں کی انھیں خصوصیات کی بنا پر داستان گویوں نے اپنی داستانوں میں ہر مقام پر ہندوستان کی مشترکہ تہذیب و ثقافت کے گل بوٹے کھلائے ہیں۔‘‘

    جب معاشرے کا رنگ ڈھنگ بدلا ۔زندگی آرام طلبی کی نیند سے بیدار ہوکر متحرک اور فعال ہوئی۔جب زندگی کے سامنے جہد فی البقا کا مسئلہ روبرو ہوا تو ادب میں داستانوں کا بھی زوال ہوگیا اور زندگی کی ترجمانی کے لئے ایک نئی صنف ’ناول‘ وجود پذیر ہوئی۔احمد طارق نے ڈپٹی نذیر احمد کی ’’مرأۃ العروس‘‘ سے اقبال مجید کے ناول ’’ نمک‘‘ تک کے خاص خاص ناولوں میں پائے جانے والے تہذیبی و ثقافتی عناصر کا جائزہ لیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں :

    ’’اردو ناول نگاروں نے اپنے ناولوں میں جن کرداروں کو پیش کیا ہے ،ان کی پیشکش میں ان کرداروں کی زندگی، ان کے عقائدونظریات،افکاروخیالات،علوم و فنون،رسوم رواج، اقدار و روایات،تیج و تہوار اور میلے، رہن سہن کے آداب ، مجلسی زندگی کے آداب،غرض کہ ان کی پوری سماجی اور تہذیبی زندگی ناول کے صفحات میں جلوہ گر ہے۔‘‘

    اردو ناول کے تجزیے کے بعد احمد طارق نے اردو افسانے کی طرف رجوع کیا ہے۔اردو افسانے کے آغاز و ارتقا کے پس پشت وہی اسباب کارفرما تھے جن کی وجہ سے داستانوں کا زوال اور ناول نگاری کا آغاز ہوا یعنی زندگی زیادہ گنجلک ہوتی گئی۔ اوقات محدود اور زندگی کے چیلنجز وافر۔بدلتے ہوئے سماجی حالات ،سیاسی پس منظر،برطانوی تسلط اور مغربی علوم و فنون اور صنعت کاری نے انسانی زندگی سے فرصت کے لمحات چھین لئے۔زندگی بسر کرنا جب سب سے اہم مسئلہ بن جائے تو داستانوں اور ناولوں کی وسیع دنیا میں دشت گردی ممکن نہیں رہتی لیکن انسانی ذہن کو تفریح کے ذرائع کی ضرورت پیہم رہتی ہے۔قصہ سننا اور سنانا ذہن کو سکون و راحت دینے کا ایک وسیلہ بھی ہوتا ہے اور انسان کی خلاقانہ صلاحیتوں کو مہمیز کرنے کا طریقہ بھی۔چنانچہ بیسویں صدی کے اوائل میں مختصر اردو افسانہ وجود پذیر ہوا جس میں زندگی کی وسعتوں اور گہرائیوں کو پیش کرنے کے وصف کے ساتھ ساتھ ایجاز و اختصار کی خوبی بھی تھی۔اردو افسانے نے واقعیت نگاری پر اپنے صنف کی اساس رکھی اور زندگی کے ہر پہلو اور معاشرے کے ہر طبقے کی نمائندگی کو اپنا شعار بنایا۔لہٰذا اردو افسانے نے زندگی کے تمام پہلوؤں اور مختلف طبقات کے تہذیبی و ثقافتی پس منظر کو نسبتاً زیادہ کامیابی کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔ احمد طارق لکھتے ہیں:

    ’’افسانہ نگاروں نے اردو افسانہ میں سماجی زندگی کی جو سچی تصویریں پیش کی ہیں ،اس کے نتیجے میں افسانوں کے صفحات پر ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کے عناصر جابجا بکھرے ہوئے ملتے ہیں۔سماجی زندگی کے تعین اور اس کی تشکیل و تعمیر میں تہذیبی قدریں،روایتیں اور ثقافتی مظاہر نمایاں طور پر حصہ لیتے ہیںاور سماج کو شناخت اور انفرادیت عطا کرکے اسے دنیا کے دیگر سماجوں سے منفرد اور ممتاز بناتے ہیں۔تہذیبی اور ثقافتی قدریںکسی سماج میں رہنے والے افراد کی معاشرت،مذہبی اعتقادات،فکروفلسفہ،رسم و رواج اور سماجی زندگی کے دیگر متعلقات پر بھرپور طریقے سے اثرانداز ہوتی ہیں اور ان کا تعین کرتی ہیں۔چنانچہ جب اردو افسانے میں سماجی زندگی اور اس کے مسائل کی پیش کش ہوئی تو ان کے بیان میں ہندوستان کی مشترکہ تہذیبی عناصر کی بھی مناسب اور متوازن ڈھنگ سے ترجمانی اور عکاسی ہوئی۔‘‘

    اسی نقطہ نظر کے تحت احمد طارق نے اردو افسانے کے مختلف ادوار کا جائزہ لیتے ہوئے افسانے کی دستاویزی اہمیت کو روشن کرنے کی سعی کی ہے اور ہندوستان کی سماجی زندگی میں پائے جانے والے مشترکہ تہذیبی عناصر کی بازیافت کا عمل سرانجام دیا ہے۔اس ضمن میں انہوں نے اردو افسانے کے رومانوی دور پر سب سے پہلے توجہ مبذول کی ہے اوررومانویت کے پس منظر نیز اردو ادب میں رومانوی تحریک کے دروبست کو نمایاں کیا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اردو افسانے کے سالار اولین سجاد حیدر یلدرم اور پریم چندتھے جنہوں نے بیک وقت اردو افسانے کو دو مختلف نہج پر چلنا سکھایا۔ پریم چند کی افسانہ نگاری کا محور حقیقت نگاری اور واقعیت نگاری کی پیشکش تھا اور یلدرم نے تخیلی اور جمالیاتی اسلوب اپنایا اور افسانے کے قاری کو ایک تخیلی و رومانی جہان کے سفرپر آمادہ کیا۔ یلدرم کی ڈگر پر چلنے والوں میں نیاز فتح پوری ،مجنوں گورکھپوری ،سلطان حیدر جوش وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ یہ وہ افسانہ نگار تھے جو حقیقت کی سنگلاخی اور تلخ ماحول سے چشم پوشی کرکے خوابوں خیالوں کی حسین فضا تعمیر کرتے جس میں آرزوؤں کی تکمیل ہوتی نظر آتی تھی۔اس رومانوی فضا کی پیشکش میں بھی ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کے عناصر جابجا اپنی جھلک دکھلاتے رہتے ہیں۔گوکہ رومانوی افسانہ نگار وں کا مرکزی موضوع حسن و عشق ہے اور وہ حسن و عشق کی پیشکش میں بساوقات ایک اجنبی فضا اور غیر حقیقی بیانیہ تشکیل دیتے ہیں لیکن حیات و موت کے رسم و رواج،کرداروں کے اعمال و افعال اور جذبات واحساسات ،محبت،اخوت، رواداری وغیرہ وہ عناصر ہیں جن کے وسیلے سے ہندوستانی مشترکہ تہذیب کی عکاسی ہوتی رہتی ہے۔

    رومانوی افسانہ نگاری کے متوازی سماجی حقیقت نگاری سے مزین افسانہ نگاری کے جس سلسلے کا آغاز پریم چند نے کیا،دراصل وہی مستقل بنیادوں پر اردو افسانے کی شناخت قرار پایا۔حالانکہ یلدرم اور پریم چند دونوں نے اپنی افسانہ نگاری کا آغاز تقریباً ایک ہی دور میں کیا۔ یہ بیسویں صدی کا ابتدائی زمانہ تھا جب ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا مختلف قسم کے تغیرات سے آشنا ہورہی تھی۔مغربی تہذیب اور علوم و فنون کی اشاعت نے فکروعمل کے نئے پیمانے وضع کردئیے تھے۔مشینی صنعتوں کے پھیلاؤ نے نئے سماجی طبقات کو جنم دیا۔علمی و تکنیکی ترقیات نے ملک میں روشن خیالی اور ذہنی بیداری کی روح پھونک دی۔مجبور و محکوم عوام برطانوی تسلط سے آزادی حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہنے لگی۔ملک و قوم کی اصلاح کے لئے اقدام اٹھائے جانے لگے۔عوام کی بہتری کے لئے مختلف تحریکیںوجود پذیر ہونے لگیں۔برہمو سماج،آریہ سماجی تحریک،رام کرشن مشن وغیرہ نے ہندو سماج کے فرسودہ عقائد اور کھوکھلے رسم ورواج کے اصلاح کا بیڑا اٹھایا تو سرسید کی علیگڈھ تحریک نے بھی مسلم معاشرے میں ذہنی بیداری اور روشن خیالی کی فضا قائم کرنے کی کوشش کی۔پریم چند نے ایسے ہی ماحول میں افسانہ نگاری کی ابتدا کی اور اپنے افسانوں کو اس عہد کا آئینہ خانہ بنا دیا۔انہوں نے اپنے افسانوں کی اساس سماجی حقیقت نگاری اور واقعیت نگاری پر رکھی۔یہ واقعہ ہے کہ پریم چند کے افسانے اس عہد کی سماجی تبدیلی اور تہذیبی زندگی کے تاریخی دستاویز ہیں۔ احمد طارق کے اس خیال سے مکمل اتفاق کیا جاسکتا ہے:

    ’’پریم چند کے افسانوں میں ہندوستان کی عام زندگی کی سچی تصویریں نظر آتی ہیں۔ان کی سماجی حقیقت نگاری کے پس پردہ ان کے افسانوں میں مشترکہ ہندوستانی تہذیب کے نقوش مناسب طریقے سے جگہ پاتے ہیں۔جس کے تحت آداب معاشرت،روحانی اور اخلاقی قدریں، مذہب پرستی،توہم پرستی،وطن پرستی،حب الوطنی،انسان دوستی،ایمانداری، سماجی مساوات،طبقاتی زندگی اور سماجی رسوم ورواج وغیرہ کو رکھا جاسکتا ہے۔پریم چند کے افسانوں میں ایک ایسا فنکار ابھرتا ہے جو نہ ہندو ہے نہ مسلمان بلکہ اس کا مذہب انسان دوستی ہے اور وہ ایک ایماندار انسان اور محب وطن کی حیثیت سے روزمرہ کی عام زندگی کو اور اس کے سماجی اور تہذیبی مسائل کو پوری دردمندی سے اپنے قاری کے سامنے پیش کردیتا ہے۔‘‘

    پریم چند نے پہلی بار متوسط اور کمزور طبقے کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔ پریم چند سے پہلے اردو ادب رئیسوں کے محلات اور عیش عشرت کا نگارخانہ ہوا کرتے تھے۔پریم چند خود بھی متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔لہٰذا انہوں نے اس طبقے کی خوشیاں اور محرومیاں،دکھ سکھ، عادات و اطوار،تہذیب و ثقافت، مذہب و اعتقادات،رسوم و رواج کو نہایت کامیابی اور دردمندی سے پیش کیا ہے۔ دیکھا جائے تو پریم چند کے تمام افسانے ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے عناصر کا آئینہ خانہ ہیں جن کا مطالعہ بذات خود ایک طویل و بسیط مقالے کا متقاضی ہے۔لہٰذا موضوع کو سمیٹتے ہوئے احمد طارق نے ان کے منتخب افسانوں کے مطالعے کو ضروری سمجھاہے اور مذکورہ افسانوں کے تہذیبی و ثقافتی عناصر کو نمایاں کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔پریم چند کے افسانوں میں جو جذبہ سب سے زیادہ قوی ہے ،وہ ہے انسان دوستی،محبت و خلوص اور مساوات کا جذبہ۔احمد طارق کا خیال ہے کہ ہندوستان کی معتدل آب وہوا،زرعی معیشت اور قدرتی وسائل کی فراوانی نے ہندوستانی سماج میں رہنے والے افراد کی فکر کی نشونما ایک مخصوص طرز پر کی جس نے ہندوستانی سماج میں قیام کرنے والے افراد کے ذہن و دل میں فراخی،کشادگی، محبت، اپنائیت،انسان دوستی اور فطرت کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کا جذبہ بیدار کیا۔ذاتی مفاد پر اجتماعی فلاح کو ترجیح دینا ہندوستانی تہذیب کی اساس ہے۔رانی سارندھا،قاتل کی ماں، جیل، آشیاں برباد،عید گاہ، تالیف،زاد راہ،ہولی کی چھٹی،زیور کا ڈبہ ، نمک کا داروغہ،بڑے گھر کی بیٹی،شکوہ و شکایت،شدھی، عجیب ہولی، کفن، بوڑھی کاکی،شطرنج کی بازی،بے غرض محسن، پنچایت، پرائشچت ،نئی بیوی،مالکن،علیحدگی،زادراہ وغیرہ افسانوں کا مختلف جہتوں سے تجزیے کرتے ہوئے احمد طارق لکھتے ہیں:

    ’’پریم چند کے افسانوں میں مشترکہ تہذیب کے عناصر کا یہ اجمالی جائزہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ ایک سچا فنکار اپنے عہد کے مسائل کی پیش کش میں ہم عصر سماجی،تہذیبی و ثقافتی عناصر اور مظاہر کو کبھی نظر انداز نہیں کرسکتا۔یہ حقیقت ہے کہ کسی فنکار کے فن پاروں میں ہم عصر سماجی،سیاسی مسائل کی کامیاب عکاسی تبھی ممکن ہوسکتی ہے جب فنکار اپنے فن کا رشتہ عصری حسیت سے جوڑتا ہے۔پریم چند حقیقت پسند نقطہ نظر رکھنے والے افسانہ نگار تھے ، چنانچہ انہوں نے اپنے افسانوں کے لئے جن موضوعات کا انتخاب کیا ،ان میں ہندوستان کے دیہی معاشرہ کے مسائل ،صدیوں سے غربت، افلاس اور استحصال کے شکار سماج کے نچلے طبقے کے مسائل، تحریک آزادی، اور سماج کے دیگر مسائل جن میں مشترکہ خاندان کا مسئلہ، جہیز کا مسئلہ، بے جوڑ شادی کا مسئلہ اور سماج میں رہنے والی بیواؤں کے مسائل وغیرہ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔پریم چند نے ایک سچے فنکار کی طرح سماج کے ساتھ اپنے فن کا رشتہ قائم کرتے ہوئے ان مسائل کی عکاسی خالص ہندوستانی ماحول اور پس منظر میں کی ہے،جن کے پس پردہ ان کے افسانوں میں ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کے مختلف عناصر کی ترجمانی کامیابی سے ہوئی ہے۔‘‘

    پریم چند کی فکر اور فنی رویہ ان تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ ان کے افکاروانداز کی تقلید کرنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے اردو افسانے کے سرمائے کو وسیع تر کیا۔ایسے افسانہ نگاروں میں علی عباس حسینی، بلونت سنگھ،سہیل عظیم آبادی، اعظم کریوی،اوپندرناتھ اشک،اختر اورینوی وغیرہ کے نام سر فہرست ہیں جنہوں نے اپنے افسانوں کے توسط سے سماج کے پسماندہ طبقات کے مسائل اور محرومیوں کو نہایت دردمندی سے بیان کیا ہے۔مختلف افسانہ نگاروں نے ہندوستان کے مختلف علاقوںکے رسوم و رواج، مذہبی عقائد، آداب معاشرت اور رہن سہن کی کامیاب نمائندگی کی ہے۔ ایک چیز ہے جو ان تمام افسانہ نگاروں کے یہاں ایک زیریں لہر کی طرح جاری و ساری ہے اوروہ ہے انسان دوستی ۔احمد طارق نے مذکورہ بالا تمام افسانہ نگاروں کے افسانوںکا تجزیہ کرتے ہوئے ان میں تہذیبی و ثقافتی عناصرکی شناخت اور بازیافت کا عمل انجام دیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں:

    ’’پریم چند اور ان سے متاثر افسانہ نگاروں نے ہندوستان کی دیہی اور شہری معاشرت کے مسائل اور سماج کے پسماندہ اور متوسط طبقوں کے مسائل کو بھی فنکارانہ ہنرمندی سے پیش کیا۔چنانچہ ان کے افسانوں میں ان طبقوں کے کردار اپنے تہذیبی پس منظر کے ساتھ ابھرتے ہیں۔ایک سماجی حقیقت ہے کہ سماج کے متوسط اور پس ماندہ طبقے تہذیبی قدروں ، روایتوں، ضابطوں اور اداروں پر سختی سے کاربند ہوتے ہیںاور ان سے انحراف کسی بھی صورت میں گوارا نہیں کرتے۔چنانچہ ان کے افسانوں میں متوسط اور پسماندہ طبقوں اور ان کے مسائل کی عکاسی کے ساتھ ان کی تہذیبی اور معاشرتی زندگی کی بھرپور عکاسی ہوئی ہے۔ ان افسانہ نگاروں نے ہم عصر ہندوستانی سماج کے سیاسی،سماجی مسائل کی پیشکش میں کہیں بھی فن کا رشتہ ہندوستانی سماج اور تہذیبی و ثقافتی قدروں اور روایتوں سے ٹوٹنے نہیں دیاہے۔ان کے افسانوں میں ہندوستان کی مشترکہ تہذیب و ثقافت کے عناصر اور معاصر عہد کی دھڑکتی ہوئی سماجی زندگی کی پیشکش نے ان افسانوں کو تہذیبی و سماجی دستاویز کا درجہ عطا کردیا ہے۔‘‘

    بیسویں صدی کا نصف اول سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کا عہد رہا ہے۔مغربی تہذیب کے تسلط اور سائنس کی ترقیوں نے پرانے عقائد کی جڑوں کو متزلزل کردیا تھا۔مذہب کی جانب سے ایک تشکیکی فضا قائم ہوگئی تھی۔یورپ کی سامراجی قوتوں نے پوری دنیا میں بے اطمینانی اور ناامیدی کی لہر پیدا کردی تھی۔پوری دنیا اس جبر و تسلط سے نجات کی راہ کی متلاشی تھی۔ایسی صورت حال میں انقلاب فرانس اور انقلاب روس نے مظلوم آبادی کو راہ نجات دکھائی۔پہلی جنگ عظیم نے تبدیلی کی اس لہر کو اور مہمیز کردیا۔سماجی اور سیاسی سطح پر بے اطمینانی اور نا آسودگی کی فضانے ہر نئی تبدیلی کو خیرمقدم کرنے کی کیفیت طاری کردی۔ ہندوستان بھی ان ہی حالات سے نبرد آزما تھا۔ مذہبی عقائد اور پرانے رسم و رواج فرسودہ اور غیر افادی محسوس ہونے لگے تھے۔ آزادی،امن اور مساوات کے عناصر سے مزین ایک صالح معاشرہ کا قیام عوام کی اولین ترجیحات میں شامل ہوگیا خواہ اس کے لئے کوئی بھی جانی،مالی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔معاشرے کے اس سماجی اور سیاسی حالات نے ادب کو بھی خوب متاثر کیا۔ ادب زندگی کا آئینہ دارہوتا ہے۔لہٰذایہی وہ زمانہ تھا جب اردو ادب ترقی پسند تحریک سے متاثر ہوکر زندگی کے تلخ حقائق سے آنکھیں ملانے لگا اور اردو افسانہ بھی موضوع اور تکنیک کی سطح پر عظیم الشان تبدیلیوں سے روشناس ہوا۔یہ واقعہ ہے کہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ افسانہ نگاروں کا سلسلہ ہیئت،ماہیئت اور معنویت کے اعتبار سے کافی اہم رہا جنہوں نے اردو افسانے کے دامن کو مالامال کردیا۔ترقی پسند افسانہ نگاروں نے بے باکی اور صاف گوئی کو اپنا نصب العین قرار دیاجس کی وجہ سے اس عہد کے افسانے اپنے عہد کی سماجی،سیاسی اور تہذیبی دستاویز کی اہمیت کے حامل ہیں۔

    ترقی پسند افسانہ نگاروں نے نہ صرف سماجی ناہمواریوں،کمزور طبقے کے استحصال،فرسودہ رسم و رواج اور سماجی نابرابری کو اپنی تخلیقات کے توسط سے نشانہ بنایا بلکہ ہندوستان کی تحریک آزادی کے تناظر میںحب الوطنی اور جدوجہد آزادی کو بھی اپنا موضوع بناکر عوام میںذہنی بیداری پیدا کرنے میں اہم رول ادا کیا۔لیکن ان تمام پہلوؤں کی پیشکش میںاردو افسانے میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت روح کی طرح جاری و ساری نظر آتی ہے۔احمد طارق نے اس عہد کے اہم افسانہ نگاروں مثلاً قرۃ العین حیدر،راجندر سنگھ بیدی،کرشن چندر،احمد ندیم قاسمی،ممتاز مفتی،عصمت چغتائی،غلام عباس،خواجہ احمد عباس، حیات اللہ انصاری، سعادت حسن منٹووغیرہ کے افسانوں کا جائزہ پیش کرتے ہوئے ہندوستانی رسم و رواج اور تہذیب ثقافت کے متعدد مظاہر کی نشاندہی کی ہے۔مثلاً ولادت ،شادی بیاہ یا فوتگی کی رسمیں،توہم پرستی،نذرونیاز،طبقاتی تقسیم،معاشرے میں عورت کی حیثیت،بانجھ پن یا بیوگی کے مسائل،مذہبی رواداری،جذبہ خیر سگالی،مشترکہ خاندان کے فضائل و مسائل،رشتوں کی مختلف نوعیت اور ان کے آپسی جذبات،روحانیت اور فکروفلسفہ،ہندوستانی موسموں کا کیف و کم، حب الوطنی،جنگ آزادی ،تقسیم ملک اور بعد ازاں بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ منافرت اور فسادات غرض کہ مذکورہ بالا افسانہ نگاروں نے زندگی کے تمام پہلوؤں پر نگاہ رکھی اور اپنے افسانوں میں عمدگی سے پیش کیا ہے۔ احمد طارق لکھتے ہیں:

    ’’ممتاز ترقی پسند افسانہ نگاروں کی تخلیقات میںمشترکہ تہذیب و ثقافت کے عناصر پر مبنی یہ جائزہ اس امر کی دلالت کرتا ہے کہ ترقی پسند افسانہ نگاروں نے اپنے عہد کی عصری حسیت کو بھرپور طریقے سے اپنی تخلیقات میں پیش کیا۔انہوں نے اپنے فکروفن کا رشتہ اپنے عہد،سماج اور تہذیب سے ہمیشہ استوار رکھا۔ترقی پسند تحریک سے وابستہ افسانہ نگاروں نے پریم چند کی قائم کردہ روش اختیار کی اور اس روایت سے فیض اٹھاتے ہوئے اس کی توسیع کا فریضہ بھی انجام دیا۔ انہوں نے پریم چند کی سماجی حقیقت نگاری کی روایت کو مستحکم کیا اور پیچیدہ حقیقت نگاری کی بنیاد ڈالی۔چنانچہ گردوپیش کی زندگی اور سماج کی عکاسی نیز تہذیبی و سماجی مسائل کے بیان میں ہندوستان کی مشترکہ تہذیب و ثقافت کے عناصر بھرپور طریقے سے ان کے افسانے کا حصہ بنے جو ان کی تخلیقات کو ہندوستان کی تہذیبی،ثقافتی دستاویز کا درجہ عطا کرتے ہیں۔ان تخلیقات میں ہندوستانی سماجی زندگی کی حرارت اور رنگارنگی اور مشترکہ تہذیب و ثقافت کے عناصر کی خوبصورت جھلکیاں قاری کو دعوت نظارہ دیتی ہیں۔‘‘

    یہ واقعہ ہے کہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ افسانہ نگاروں نے اپنے فکروفن سے اردو افسانے کے افق کو وسیع کیا اورسماج سے رشتہ مستحکم کیا ۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ زندگی تغیر پذیر ہے اور ادب زندگی کا آئینہ دار ہوتا ہے لہٰذا ہر زمانے میں تہذیبی و معاشرتی تبدیلیوں و تغیرات کو ہم عصر ادب میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔سماجی تبدیلیاں اور فطری تقاضے ہر نسل کو اپنی شناخت خود متعین کرنے کے لئے بیقرار رکھتی ہیںلہٰذا اپنے پیش روؤں سے اقدار وروایات کا شعور حاصل کرکے نئی نسل اپنے عہد کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے نئے افکار واقدار کا تعین کرتی ہے۔جذب وانجذاب اور اختلاف وانحراف کے اسی تسلسل کے ذریعے وقت اپنی رفتار سے آگے بڑھتا رہتا ہے۔

    بیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں افسانہ نگاروں کی ایک نئی نسل ابھرکر سامنے آئی جس نے ترقی پسند افسانہ نگاروں کے افکارو خیالات اور فن و تکنیک کو بھی پیش نظر رکھا اور اپنے

    فکروفن کو نئے زمانے سے بھی ہم آہنگی عطا فرمائی۔اس نسل کے علمبرداروں میںاقبال مجید،عابد سہیل، اقبال متین،قاضی عبد الستار،رتن سنگھ،احمد ہمیش،سریندر پرکاش،بلراج مینرا،غیاث احمد گدی،الیاس احمد گدی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔اس نسل کے افسانہ نگاروں کے سلسلے میں احمد طارق کا خیال ہے:

    ’’نئی نسل کے افسانہ نگاروں نے ترقی پسند افسانے سے فکروفن کا ادراک اور شعور حاصل کرنے کے باوجود خود کو اپنے پیش روؤں کے دائرے میں محصور اور اپنے فن کے افق کو محدود نہیں کیا۔نئی نسل کے افسانہ نگاروں نے ہندوستان کی آزادی کی تحریک،آزادیٔ وطن ، تقسیم اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والے ہولناک فسادات،لاکھوں انسانوں کی در بدری، تہذیبی و ثقافتی قدروں کی پامالی،زمینداری نظام کے خاتمے،صنعتی تہذیب اور سماج کے ظہور اور ان سب کے نتیجے میں رونما ہونے والی تبدیلیوںاور پیچیدگیوں کو اپنے افسانے کا موضوع بنایا۔اس کے ساتھ ہی ان افسانہ نگاروں نے بین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں اور مسائل کو سمجھنے اور اسے پیش کرنے کی سعی کی۔‘‘

    اس عہد سے وابستہ افسانہ نگاروں کے یہاں بیک وقت کئی رجحانات کے آثار وشواہد ملتے ہیں۔ایک قوی رجحان تقسیم کا المناک حادثہ اور ہولناک فسادات ہیں جس کے تحت ایک جانب فرقہ وارانہ منافرت،اخلاقی زوال،خوں ریزی اور دربدری، تہذیبی قدروں کی پامالی نظر آتی ہے تو دوسری جانب انسان دوستی،رواداری،محبت واخوت جیسی اعلیٰ انسانی قدروں کے فروغ کی بھی وافر مثالیں ملتی ہیں۔دوسرا رجحان سماجی حقیقت نگاری کا ملتا ہے جس کے تحت عام سماجی مسائل پیش کئے گئے ہیں اور ان کے حسن وقبح کو نمایاں کیا گیا ہے۔تیسرا اہم رجحان علاقائیت کا رجحان ہے جس کے تحت تخلیق پانے والے افسانوںمیں ہندوستان کا مختلف علاقہ اپنی زمینی بو باس کے

    ساتھ روشن ہوا ہے۔تہذیبی و ثقافتی قدروں کی سب سے زیادہ بھرپور ترجمانی اسی قبیل کے افسانوں کے توسط سے ہوئی ہیں۔ایک اہم رجحان مغرب کی وجودیت کی فکر سے متاثر ہونے والوں کا بھی پایا جاتا ہے جس کے تحت تخلیق پانے والے افسانوں میں فرد کو سماج پر اولیت دیتے ہوئے ان کی تنہائی،مایوسی اور داخلی کیفیات کی ترجمانی کو فوقیت دی گئی۔ روایات سے انحراف اور نئے تجربات کی سعی ان کا مطمح نظر تھا جسے اس قبیل کے افسانہ نگاروں نے فکری،فنی اور تکنیکی ہر سطح پر لاگو کیا۔ان کی فکر معاشرے کی بجائے فرد تک محدود ہوکر رہ گئی۔ افسانے میں کہانی پن کے التزام کی نفی کی گئی۔اسلوب اور پیشکش کی سطح پر استعاراتی،علامتی،تمثیلی اور تجریدی انداز کو ترجیح دیا جانے لگا۔ابہام اور لایعنیت کو فروغ حاصل ہوا۔گویا روایات سے انحراف کی ایک متشدد شکل ظہور پذیر ہوگئی۔

    اس جائزے کے دوران یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ احمد طارق نے نہایت لگن،باریکی،عرق ریزی اور خلوص کے ساتھ اردو افسانے کے ساٹھ ستر سالوں کا عمیق مطالعہ پیش کیا ہے اور ہندوستان کی تہذیب و ثقافت کی ایک اہم دستاویز مکمل کرکے اردو ادب کے سرمائے میں قابل قدر اضافہ کیا ہے۔یہ مطالعہ اردو افسانے کے کسی بھی طالب علم کے لئے نہایت اہم، بامعنی اور ممدومعاون ثابت ہوگا۔غالباً مطالعہ کی ضخامت کی وجہ سے بات جدید اور مابعد جدید افسانوں تک نہیں پہنچ پائی۔بہر حال ادب کا قافلہ رواں دواں رہتا ہے اور کوئی مطالعہ حتمی یا مکمل قرار نہیں دیا جاسکتا۔لہٰذا اردو افسانے کی تہذیبی تاریخ اپنی تکمیل کے لئے احمد طارق جیسے حوصلہ مند اور مضطرب صحرا نورد کی متلاشی رہے گی۔

    ગુજરાતી ભાષા-સાહિત્યનો મંચ : રેખ્તા ગુજરાતી

    ગુજરાતી ભાષા-સાહિત્યનો મંચ : રેખ્તા ગુજરાતી

    મધ્યકાલથી લઈ સાંપ્રત સમય સુધીની ચૂંટેલી કવિતાનો ખજાનો હવે છે માત્ર એક ક્લિક પર. સાથે સાથે સાહિત્યિક વીડિયો અને શબ્દકોશની સગવડ પણ છે. સંતસાહિત્ય, ડાયસ્પોરા સાહિત્ય, પ્રતિબદ્ધ સાહિત્ય અને ગુજરાતના અનેક ઐતિહાસિક પુસ્તકાલયોના દુર્લભ પુસ્તકો પણ તમે રેખ્તા ગુજરાતી પર વાંચી શકશો

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے