جموں وکشمیر میں اردو صحافت کا عصری منظر نامہ
صحافت کا تعلق سماجی ،سیاسی ،نفسیاتی ،جذباتی اور روز مرہ زندگی میں رونما ہونے والے اُن حالات وواقعات اور حادثات سے ہوتا ہے جن سے ہمیں صحافت آگاہ کرتی ہے ۔گویا صحافت ایک طرح سے سماج کی آئینہ داری کا فریضہ انجام دیتی ہے ۔یہاں ادب اور صحافت کا رشتہ اگرچہ ایک حد تک مربوط کہا جاسکتا ہے لیکن اس کے باوجود ادب ایک الگ دنیا ہے اور صحافت کی اپنی دُنیا ہے ۔یہاں یہ واضح رہے کہ ادب کو صحافت کی ضرورت نہیں ہوتی جب کہ صحافت کو ادبی قدروں کے تابع رہنا پڑتا ہے ۔
ہندوستان میں اردو صحافت کی داغ بیل سدا سکھ لال ۔ایڈیٹر’’جام جہاں نما‘‘اور ’’دہلی اردو اخبار‘‘کے مدیر مولوی محمد باقروغیر ہ کے ہاتھوں رکھی گئی ۔اُن کے بعد جو صحافی گزرے ہیں اُن میں منشی نول کشور،منشی محبوب عالم ،سرسید احمد خان ،عبدالحلیم شرر،تاجور نجیب آبادی،منشی سجاد حسین ،مولانا ظفر علی خاں،مولانا حسرت موہانی ،راشدالخیری،مولانا ابوالکلام آزاد،مولوی عبدالرزاق ملیح آبادی،مولانا محمد علی جوہر ،نیاز فتح پوری،عبدالماجد دریابادی،اعجاز احمد صدیقی،شاہد احمد دہلوی،محمد طفیل اورحیات اللہ انصاری وغیرہ ایسے کامیاب اور دیدہ ور صحافی گزرے ہیں جو صحافت کے ساتھ زبان وادب میں بھی یکتائے روزگار کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
صحافت، ایک غیر جانبدارانہ عمل ہے کہ جس کے تحت ایک صحافی ظلم وجبر اور اُن تکلیفوں کو پیش کرتا ہے جن کا تعلق عوام کی زندگیوں کے ساتھ ہوتا ہے ۔گویا نقلی چہروں کے بدلے اصلی چہرے دکھانے کی ذمہ داری صحافی پر عائد ہوتی ہے ۔وہ بے باک ،حق پرست ،خوددار ہونا چاہیے اور کسی بھی مصلحت پسندی سے کام نہ لیتا ہو ۔اخبار’’پرتاپ‘‘کے مدیر مہاشہ کرشن نے صحافت سے متعلق دل کو چھو جانے والا نظر یہ یوں پیش کیاہے:
’’اخبار نویس یاخبر فروش ایک عام دکان دار کی طرح نہیں ہوتا ہے ۔اُس کا خبریں بیچنے کا رنگ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک کاز کےلئے اپنی زندگی وقف کردیتا ہے ۔اُس پر جبرواستبداد کے خلاف آوز بلند کرنے کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔اُسے ہمیشہ مجبورو مقہور کی ترجمانی کرنی چاہیے اور ضرورت پڑنے پر اُسے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار رہنا چاہیے ۔اُس کا فرض ہے کہ وہ عوام کی تکلیفیں بیان کرے اور اُن تکلیفوں کی نمائندگی کرے اور اگر حکومت ان پر توجہ نہ دے تو حکومت کے خلاف‘‘
(مشمولہ ،اکیسویں صدی میں اردو صحافت۔ڈاکٹر امام اعظم،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی2016ء ص160)
جموں وکشمیر میں اردو صحافت کا عصری منظر نامہ بیان کرنے سے پہلے یہ دیکھنا نہایت ضروری ہے کہ یہاں اردو صحافت کی شروعات کب اور کن ہاتھوں سے ہوئی ۔اس اعتبار سے دیکھیں تو جموں وکشمیر میں اردو صحافت کا سفر ایک سو چھیاسٹھ سال کے طویل مدت پر محیط ہے ۔مہاراجہ رنبیر سنگھ نے 1867ء میں جب ایک ادبی تنظیم قائم کی تو اُس کانام ’’ بدیا بلاس سبھا ‘‘رکھا جس کے تحت مہاراجہ ادبی محفلیں منعقد کرواتا تھا ۔اس سبھا کا اپنا ترجمان ایک ہفت روزہ کی صورت میں شائع ہونے لگا جس کا نام ’’بدیا بلاس‘‘رکھا گیا ۔جموں وکشمیر کا یہ پہلااخبار سمجھا جاتا ہے جو اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں شائع ہوتا تھالیکن1885ء میں جب مہاراجہ رنبیر سنگھ کی وفات ہوگئی تو یہ اخبار بھی بند ہوگیا ۔لیکن اس کے باوجو د جموں میں مہاجن سبھا نے’’ ڈوگرہ گزٹ‘‘کے نام سے اپنا ایک اخبار جاری کیا جس میں سماجی اور مذہبی اصلاح کے مضامین ہوتے تھے یہ1906 ء تا1916 ء کے وسط کا زمانہ تھا۔
محمد الدّین فوق ایک ہمہ جہت ادبی شخصیت تھے کہ جنھوں نے سب سے پہلے مہاراجہ پرتاپ سنگھ کے راج دربار میں یہ درخواست پیش کی کہ انھیں ریاست میں ’’کشمیر میگزین ‘‘جاری کرنے کی اجازت دی جائے مگرپرتاپ سنگھ نے اُن کی عرضی نظر انداز کردی۔قلم کارچونکہ نہایت حساس ہوتے ہیں چنانچہ کشمیری قلم کاروں نے ریاست سے باہر کے اخبارات میں کشمیری عوام کے مسائل ومشکلات کو مستقل طور پر لکھنا شروع کیا ۔لاہور اور دوسری جگہوں سے کشمیری عوام کی حالت زار اور اُن پر ظلم وستم کی مارکا حال جن اخبارات میں شائع ہوتاتھا اُن میں مرثیہء کشمیر،اخبار عام ،خیرخواہ کشمیر،ہمدرد،تحفۂ کشمیر،کشمیر درپن،راجپوت گزٹ کشمیری میگزین ،اخبار کشمیر،مظلوم کشمیر،پنجابی فولاداور صبح کشمیر وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔
لالہ ملک راج صراف کانام زبان پر آتے ہی جموں میں اردو صحافت کے شاندار ابتدائی دور کی یاد تازہ ہوجاتی ہے ۔ملک راج صراف سانبہ کے رہنے والے تھے ۔ وہ ایک بے باک ،اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باہمت صحافی کے طور پر تقریباً پچاس برس تک اردو صحافت کی خدمت کرتے رہے ۔24جون 1924ء کو انھوں نے اپنا اردو اخبار ’’رنبیر‘‘کے نام سے جاری کیا جس کے سبب ریاستی قلم کاروں کی ایک کہکشاں بھی سامنے آئی ۔اس اخبار میں جن قلم کاروں کی شمولیت رہی اُن میں وشواناتھ کیرنی،ذولفقار علی نسیم،حبیب اللہ ،شری رام ،بدری ناتھ وکیل،گردھاری لال آنند،ایس ایس نشاط،سورن ناتھ آفتاب،پریم ناتھ سادھورونق،ارجن سنگھ عرش،بنسی لال سوری ،منوہر لال دل،متھرا داس شائق،مرزامبارک بیگ ،ماسٹر زندہ لال کول،غلام حیدر،صاحب زادہ محمد عمر،محی الدّین احمد گمان اورپنڈت نند لال طالب قابل ذکر ہیں ۔یہ وہ اہل قلم تھے جنھوں نے شخصی راج کے ظلم وستم ،ذبردستیوں اور حق تلفیوں کو صحافت کے حوالے کیا ۔
جولائی1933ء میں جموں سے ’’پاسبان ‘‘نام کا ایک اخبار منشی معراج الدّین نے شائع کیا جو جموں خطے کے مسلمانوں کے احساسات وجذبات کے اظہار کا وسیلہ ثابت ہوا۔اسی طرح 1932ء میںکشمیر میں سب سے پہلے بریم ناتھ بزاز نے’’ وتستا‘‘کے نام سے ایک اخبارجاری کیا جسے کشمیرکا پہلا اخبار تصور کیا جاتا ہے ۔ ’’وتستا‘‘نے دوسرے اخبارات کے لئے مہمیز کا کام کیا ،دیکھتے دیکھتے ہمدرد،مارتنڈ،خدمت،خالد،نُور اور دیش نے صحافت کا ماحول پیدا کردیا ۔
1947ٗء کے بعد جموں کشمیر میں اردو صحافت کا سفر بڑی تیز رفتاری کے ساتھ شروع ہوا اور اس وقت تک سینکڑوں روز نامے،ہفت روزے اور ماہنامے یہاں اردو صحافت کو فروغ دے رہے ہیں ۔کشمیر کے جن صحافیوں نے 1960-65ء سے اردو صحافت کے معیار کو قائم کرکے اپنی بیش بہا خدمات انجام دیں اُن میں مولوی محمد سعید مسعودی،غلام محمد کشفی،مفتی جلال الدّین ،مولوی غلام نبی مبارکی،مولوی قاسم شاہ بخاری،غلام محی الدّین رہبر،عاشق کاشمیری،میر عبدالعزیز، نندلال واتل،غلام رسول عارف،شمیم احمد شمیم،خواجہ ثنااللہ بٹ،صوفی غلام محمد ،غلام نبی خیال،کرشن دیو سیٹھی،کارٹونسٹ بشیر احمد بشیر،فیاض احمد کلو،یوسف جمیل اور طاہر محی الدّین جیسے ممتاز صحافیوں کی اردوصحافتی خدمات آب ِ زر سے لکھے جانے کے لائق ہیں ۔
جموں وکشمیر میں اردو صحافت کے عصری منظر نامہ کے حوالے سے یہ بات اطمینان بخش ہے کہ یہاں ایک سوکے قریب روزناموں اور ہفت روزں کی اشاعت اس بات کا ٹھوس ثبوت ہے کہ 1980 ء کے بعد بتدریج روزناموں کی تعداد بڑھتی چلی گئی ہے ۔جموں کے مقابلے میں کشمیر میں اخبارات کی تعداد درجنوں میں ہے جن میں کچھ اہم اخبارات کے نام یہاں درج کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے ،جیسے ’’کشمیر عظمیٰ،تعمیل ارشاد،آفتاب،روشنی،سرینگر جنگ،گھڑیال،ویتھ،سری نگر نیوز،سری نگر ٹائمز،آفاق،عقاب،سٹی ر پورٹر،ایشین میل،ایشین ایکسپریس،سر نگر میل،شہنشاہ،ہفت روزہ سری نگر سماچار،ہفت روزہ شہر بین،ہفت روزہ ندائے کشمیر،روزنامہ اخبار مشرق،روزنامہ چٹان،روزنامہ وادی کی آزاو،بلند کشمیر،سری نگر ریز۔جموں سے شائع ہونے والے روزناموں میں ’’لازوال،اُڈان،چٹان،عوامی لہر،تسکین ،اذان سحر اور آسمان باذوق قارئین کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں ۔لیکن اس سب کے باوجود اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ پہلے کے مقابلے میں مجموعی طور پر اخبارات کی ریڈر شپ میں بہت کمی آگئی ہے ۔اس کی سب سے بڑی وجہ انٹر نیٹ کی آمد ہے ۔اب لوگ اخبار کم ہی خریدتے ہیں کیونکہ اُنھیں انٹر نیٹ پہ اخبار بھی دستیاب ہوجاتا ہے ۔یہاں میں اس حقیقت کو بیان کئے بغیر آگے بڑھنا نہیں چاہتا کہ جس طرح ٹیلی ویژن نے ہم سے بہت حدتک ریڈیو چھین لیا ہے ۔کمپیوٹر نے ہم سے فن خوش نویسی ،موبائل فون نے ہم سے سے مکتوب نگاری ۔اسی طرح انٹر نیٹ نے ہم سے کتاب اور اخبار چھیننا شروع کردیاہے ۔مانا کہ اکیسویں صدی میں ذرائع ابلاغ ہماری زندگیوں کا ایک لازمی حصہ بن گیا ہے مگر اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ یہ سب ایک طرح کا ہوائی سلسلہ ہے ۔
ملک کے دوسرے حصوں کی طرح جموں کشمیر میں بھی اردو اخبارات کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے وہ ہیں پیسہ،طباعت،نیوزپرنٹر،اشتہارات اور سرکولیشن ۔علاوہ ازیں اردو روزنامے نئی صحافت کے بدلتے رجحانات سے کوسوں دُور رہے ہیں جب کہ اخبارات کے مدیران کا یہ بھی فرض بنتا ہے کہ وہ وقت کے مطابق اپنے آپ کو بدلنے کے ساتھ ساتھ قارئین کو جملہ معلومات مہیا کرائیں جن سے اُنھیں آسانی فراہم ہوسکے کیونکہ اخبارات قارئین کی وجہ سے زندہ رہتے ہیں ۔بلاشبہ اخبارات حیات اور حالات کے آئینہ دار ہوتے ہیں ۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اخبارات کے مالکان صحافت کو ایک مقدس پیشہ خیال کریں ۔زیادہ تر وہی اخبارات زندہ رہتے ہیں جن کا تعلق زیادہ تر بڑے تجارتی اداروں اور مضبوط تجارتی خاندانوں سے ہوتا ہے ۔ روزنامہ ’’کشمیر اعظمی‘‘ میں ایک طویل مدت تک کام کرنے والے کشمیر کے ایک بے باک ،ذہین اور تجربہ کار صحافی ش۔م احمد نے ’’جموں کشمیر میں اردو صحافت کا سفر ‘‘کے عنوان سے ایک جامع اور پُر اثر مضمون قلم بند کیا ہے جس میں وہ ماضی میں اردو صحافت سے مطمین اور حال سے مایوس نظر آتے ہیں ۔وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’بہر کیف اردو صحافت کا سفر ماضی میں بہت ہی شاندار رہا ہے مگر حال کے بارے میں یہ کہنے میں باک نہیںکہ یہ روبہ زوال ہے ۔اس کے قارئین کا حلقہ بلاشبہ خاصا وسیع وعریض ہے مگر سنجیدہ اور تازہ دم اردو قلم کاروںکا واقعتاً کال پڑا ہوا ہے ۔اس کی ایک وجہ اردو زبان کی شکستہ حالی اور سرکاری سطح پر اس زبان سے لاتعلقی بھی ہے اور سرد مہری بھی۔اردو صحافت کا بوجھل قدموں کا سفر اردو زبان کی حالت زار کی صدائے بازگشت ہے۔ہمارے آج کے وہ اردو کالم نگار جنھیں نہ صرف عمدہ لکھنے پر دسترس اور علم پروری کا ملکہ حاصل ہے بلکہ جو اپنی تحریروں سے باذوق قارئین کی ذہنی تشفی کا سامان بھی کرنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں ،اُن کی تعداد آٹے میںنمک کے برابر ہے‘‘
مجموعی حیثیت سے کہا جاسکتا ہے کہ جموں وکشمیر میں اردو صحافت کا مستقبل کسی حدتک تشویشناک ہے ۔اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ یہاں کی حکومتوں نے اُردو زبان کو اُس کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا ۔دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ اردو صحافت کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کیا گیا ہے ۔تیسری وجہ یہ ہے کہ ماضی کے مقابلے میں یہاںاردو صحافت کو وہ ذہین اور باذوق قلمکار اور قارئین میسر نہیں ہیں ۔میں آخر پر یہ سجھاؤ دینا چاہتا ہوں کہ جموں کشمیر میں اردو صحافت کا مستقبل اُسی صورت میں تابناک ہوسکتا ہے کہ جب اردو زبان کو سرکاری طور پر تحفظ اور اُس کاصحیح مقام ملے۔علاوہ ازیں کوئی بھی زبان اُسی صورت میں زندہ رہتی اور ترقی کی منازل طے کرتی ہے جب وہ ٹکنالوجی کے ساتھ چلے لہٰذا اردو صحافت کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.