Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جون ایلیا کی نظم ’درخت زرد‘

جمال رضوی

جون ایلیا کی نظم ’درخت زرد‘

جمال رضوی

MORE BYجمال رضوی

    جون ایلیاؔ کا شمار ان شعرا میں ہوتا ہے جن کی شاعری میں فکر و فلسفہ کا عنصر فن کی جمالیات سے ہم آہنگ ہو کر ایک ایسی شعری کائنات کی تخلیق کرتا ہے جو بہ ظاہر بہت سادہ سی نظر آتی ہے لیکن اس کے مظاہر کا واقعتا عرفان حاصل کرنے کے لیے تفکر و تدبر کے اعلیٰ معیار کی ضرورت ہوتی ہے۔ جون ؔنے نہ صرف اپنے عہد کے شعرا کے مابین اپنی انفرادیت قائم کی بلکہ ان کی تخلیقی ریاضتوں نے انھیں ان شعرا کی صف میں نمایاں مقام عطا کردیا جن کا فن حدودِ زماں و مکاں سے ماورا ہو کر منزل ابدیت پر پہنچ جاتا ہے۔ جون ؔکا منفرد لب و لہجہ اور الفاظ کو اس کے تمام تر معنیاتی امکان کے ساتھ برتنے کا انداز ان کے کمال ِ فن کا ثبوت ہے۔ بیسویں صدی کے نصف آخر میں جن شعرا نے اردو کے شعری منظرنامہ پر اپنی موجودگی کا احساس دلایا ان میں ایک نام جون ایلیا ؔکا بھی ہے۔

    جون ؔکی شاعری کا نمایاں وصف یہ ہے کہ اس نے شعری زبان کے دامن کو وسعت عطا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ جون ؔکی شاعری میں الفاظ کا استعمال ان کی تخلیقی صلاحیت کی طرف واضح اشارہ ہے اور یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ اپنے معاصرین میں اس حوالے سے وہ صف اول کے شعرا میں نظر آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے موضوعاتی سطح پر بھی اردو شاعری کے دائرے کو کشادگی عطا کی۔ جون کی غزلوں اور نظموں کے مطالعے کے بعد ان کی شخصیت ایک ایسے شاعر کے روپ میں سامنے آتی ہے جو انسانی معاشرہ سے محبت اور ہمدردی تو رکھتا ہے لیکن اس محبت و ہمدردی میں جذباتیت کے بجائے عقلیت پسندی کا عنصر غالب ہے۔ اسی لیے وہ سوسائٹی کے تاریک و سیاہ پہلوؤں کو بیان کرتے وقت مصلحت پسندی سے کام نہیں لیتے۔ اکثر یوں بھی ہوتا ہے کہ انسانوں کے غیر انسانی رویہ کے خلاف جونؔ کے لہجے کا تیکھا پن دنیائے احساس کو اس قدر متزلزل کر دتیا ہے کہ معاشرہ سے وابستہ تصورات ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔

    جونؔ نے شعری اصناف میں غزل، نظم اور قطعہ نگاری میں خصوصی طور پر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھر پور مظاہرہ کیا ہے۔ انھوں نے ان اصناف میں قابل قدر شعری سرمایہ چھوڑا ہے۔ جونؔ کا یہ سرمایہ سنجیدہ اور معتبر شاعری کی عمدہ مثال ہے۔ اس مضمون میں جونؔ کی نظم ’درختِ زرد‘ پر اظہار خیال مقصود ہے۔ ساڑھے چار سو سے زیادہ مصرعوں پر مبنی یہ نظم کئی تخلیقی جہات کی حامل ہے۔ جون ؔنے اس نظم میں مرکزی موضوع کے حوالے سے دیگر کئی ذیلی موضوعات کا احاطہ کیا ہے۔ اس لحاظ سے نظم درختِ زرد‘ کا تخلیقی کینوس بہت وسعت اختیار کر لیتا ہے۔ اس کے علاوہ جونؔ نے اس نظم میں بعض فنی تجربات بھی کیے ہیں جن میں سب سے اہم مختلف مقامات پر بحروں کی تبدیلی ہے۔ جونؔ نے طویل اور مختصر بحروں کا ایسا فنکارانہ امتزاج پیش کیا ہے جس سے نظم کی روانی میں سیمابی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ سطور بالا میں جونؔ کی سنجیدہ اور معتبر شاعری کا جو ذکر کیا گیا اس حوالے سے بھی یہ نظم بہت اہمیت کی حامل ہے۔ ناقدین فن نے معتبر شاعری کی مختلف تعریفیں بیان کی ہیں اور ان تعریفوں میں جو چیز قدر مشترک کی حیثیت رکھتی ہے وہ یہ کہ شاعری میں پیش کیے گیے خیالات میں عظمت اور ہمہ گیریت ہونی چاہیے۔ بقول سید شبیہ الحسن جب شدید جذبات عظیم خیالات کے سائے میں پر تاثیر زبان کی مدد سے وجود میں آتے ہیں تو معتبر شاعری ظہور میں آتی ہے۔ معتبر شاعری کی اس متوازن اور واضح تعریف کی کسوٹی پر جون ؔکی یہ نظم ’درختِ زرد‘ پوری اترتی ہے۔

    جون نے یہ نظم اپنے بیٹے زریون کو مخاطب کر کے لکھی ہے لیکن اس میں محض ایک باپ کے پدرانہ جذبات ہی نہیں ہیں بلکہ یہ نظم تاریخ انسانی کا ایک ایسا روزن ہے جس سے تہذیب و ثقافت، فکر و فلسفہ، ادب و مذہب کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ اس طرح جون ؔنے ایک انتہائی ذاتی موضوع کو ایسی ہمہ گیریت عطا کر دی ہے جس میں انسانی تمدن کی تاریخ سمٹ آئی ہے۔ جون ؔکی اس نظم کی تفہیم ان کی ذات کو الگ کر کے نہیں کی جا سکتی ہر چند کہ نظم جوں جوں ارتقائی منزل طے کرتی جاتی ہے اس کا بیانیہ بیٹے کے لیے ایک باپ کے جذبات کے دائرے سے نکل کر اس قدر وسعت اختیار کر لیتا ہے کہ اگر نظم کے ابتدائی حصے کو الگ کر کے باقی حصے کو پڑھا جائے تو اسے ایک ایسی شعری تخلیق قرار دیا جا سکتا ہے جس میں نیرنگیٔ حیات کی جلوہ سامانی اور کائنات کے اسرار و رموز کو جاننے کی کوشش بہ یک وقت نظر آتی ہے۔

    اس حقیقت سے انکار مشکل ہے کہ جون ؔکے نحیف و لاغر جسم میں ایک ایسی روح بستی تھی جس نے تمام عمر انھیں بیچین رکھا۔ ان کی زندگی میں خوشی و انبساط کے مقابلے درد و غم کے لمحات زیادہ رہے اور شایدیہ کہنا غلط نہ ہو کہ رنج و غم مول لینا ان کی عادت سی ہو گئی تھی۔ زندگی کے تئیں ان کا مخصوص رویہ ان کے لیے بیشتر باعث ِ آزار ثابت ہوا۔ لیکن اس مقام پر یہ حقیقت بھی قابل غور ہے کہ زندگی میں رنج و آلام کی کثرت کے باوجود ان کے شاعرانہ افکار میں انتشار کی کیفیت بہت کم نظر آتی ہے۔ جس طرح ہر بڑا ذہن اپنی ذات سے وابستہ مسائل سے بالا ہو کر دنیا اور معاملات دنیا کے متعلق غور وفکر کرتا ہے اسی طرح جون ؔنے بھی اس عمل سے گزرتے وقت اپنی ذات کو درمیان میں حائل نہیں ہونے دیا۔ یہ ضرور ہے کہ اپنے تجربات و مشاہدات کو شعری پیکر عطا کرتے وقت وہ جرات اظہار کی انتہائی منزلوں پر نظر آتے ہیں۔ بعض اوقات یہ جرات اظہار تلخ کلامی کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور ایسی صورت میں جونؔ کی شاعری ضمیر کو بیدار کرنے اور اسے جھنجھوڑنے کا کام کرتی ہے۔ اس حوالے سے جونؔ کی شاعری کا مطالعہ اس امر کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے کہ وہ صرف دنیا اور اہل دنیا کو ہی ہدف نہیں بناتے بلکہ اس دنیا سے مطابقت پیدا کرنے میں ناکامی پر وہ خود اپنے متعلق اس طرح گویا ہوتے ہیں ع میں جو ایک فاسق و فاجر ہوں جو زندیقی ہوں۔ جونؔ کا سا یہ انداز اور یہ حوصلہ اردو شاعری میں بہت کم نظر آتا ہے۔ اس مقام تک پہنچنے کے لیے انسان کو بہت صبر آزما اور دشوار مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور بلاشبہ جون ؔنے اس سخت سفر کو مکمل کر لینے کے بعد ہی یہ لب و لہجہ حاصل کیا تھا۔ جون کی نظم ’درختِ زرد‘ بھی بہت کچھ اسی تخلیقی مزاج کی عکاسی کرتی ہے۔

    اس نظم کے مرکزی موضوع کے روایتی تصور کو پیش نظر رکھا جائے تو اسے کامیاب اور معتبر شاعری کہنا تو درکنار اچھی شاعری بھی نہیں کہا جا سکتا۔ نظم کے موضوع کا روایتی تقاضا یہ تھا کہ شاعر اپنے بیٹے سے ا پنی محبت و شفقت کا اظہار کرتا اور گردش وقت نے دونوں کے درمیان جو خلیج پیدا کر دی ہے اور اس فاصلے کے سبب باپ جس درد و کرب میں مبتلا ہے اسے بیان کیا جاتا۔ اس کے علاوہ راہِ زیست کے پیچ و خم اور ان سے کامیاب و کامراں گزرنے کا سلیقہ، زندگی میں انسانی اقدار کی پیروی اور نظم کے آخری حصے میں بیٹے کے لیے دعائیہ کلمات ادا کیے جاتے۔ لیکن اس نظم کا تخلیقی انداز یکسر مختلف ہے۔ جون ؔنے اس نظم کو اپنے بیٹے کے لیے دنیائے ارضی کا ایک ایسا Miniature بنا دیا ہے جس سے وہ اپنا دل بہلانے کے ساتھ ساتھ اس کی بوالعجبیوں کا بہت کچھ مشاہدہ کر سکتا ہے۔ نظم کے آغاز میں جون ؔ، زریون کو مخاطب کرکے اس کی ممکنہ محبت کا ذکر کرتے ہیں اوراپنے بیٹے کے محبوب سے وہ اپنی جن توقعات کا اظہار کرتے ہیں وہ دراصل ان کی اپنی روداد عشق کا بیان ہے۔ جونؔ کی محبت ان کی زندگی کا ایک بڑا المیہ ثابت ہوئی۔ اس کے اسباب کچھ بھی ہو سکتے ہیں لیکن محبت میں ناکامی کے بعد جنس مخالف کے تئیں ان کے یہاں ایک مخصوص رویہ نظر آتا ہے۔ انھوں نے اس ضمن میں چند تحفظات قایم کر لیے تھے اور ان تحفظات نے ان کے افکار کو ایک مخصوص نہج پر ڈال دیا تھا۔ اس حوالے سے مذکورہ نظم کا یہ شعر،

    گماں یہ ہے تمہاری بھی رسائی نا رسائی ہو

    وہ آئی ہو تمہارے پاس لیکن آ نہ پائی ہو

    جون ؔکی ذاتی زندگی کا بیانیہ معلوم ہوتا ہے۔ نظم کے اس حصے میں جونؔ نے زمانے کے بدلتے ہوئے انداز کو بھی بہت دلچسپ اندازمیں بیان کیا ہے اور مسلم معاشرہ پر اس تغیر کے اثرات اورکے طرز ِبود و باش میں پیدا ہونے والی تبدیلی کی جانب بھی ایسے بلیغ اشارے کیے ہیں جس میں تعلیم، تہذیب اور کلچر سب کچھ سمٹ آیا ہے،

    اسے تم فون کرتے اور خط لکھتے رہے ہوگے

    نہ جانے تم نے کتنی کم غلط اردو لکھی ہوگی

    یہ خط لکھنا تو دقیانوس کی پیڑھی کا قصہ ہے

    گزشتہ سطور میں اس نظم کے تخلیقی کینوس کی وسعت کا جو ذکر کیا گیا تھا یہ تین مصرعے اس کی بھرپور تائید کرتے ہیں۔ وقت کی تبدیلی کے ساتھ انسان کے معمولات حیات کی تبدیلی جو رفتہ رفتہ معاشرہ کی شناخت بن جایا کرتی ہے، اس کا بیان جون ؔنے اس انداز میں کیا ہے جو تاریخی حوالے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہ پوری نظم تاریخ و تہذیب کے حوالوں سے آگے بڑھتی ہے۔ اس نظم میں زریون، اس کا ممکنہ محبوب اور خود جون ؔکی شخصیت انسانی تہذیب و ثقافت کے تغیراتی عمل کے سبب اقدار کی تبدیلی کا اشاریہ بن کر سامنے آتے ہیں۔ جون نے اس نظم میں زریون اور اس کے ممکنہ محبوب کو ایک ایسے میڈیم کے طور پر پیش کیا ہے جن کے توسط سے وہ انسانی سماج سے وابستہ اپنے تصورات و توقعات کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ تصورات اور توقعات بلا جواز نہیں ہیں بلکہ ان کے ساتھ وہ حقائق وابستہ ہیں جنھوں نے ایک مخصوص طرز پر معاشرہ کی تشکیل میں کم و بیش بنیادی کردار ادا کیا ہے، لیکن ان حقائق کی ساخت میں تبدیلی کے سبب انسانی افکار و رویہ میں تبدیلی کو خصوصی طور پر جونؔ نے ہدف بنایا ہے۔ اس نظم میں معاشرہ اور مذہب کی سابقہ اعلیٰ اقدار کے حوالے سے موجودہ دور کے انسانی سماج کی وہ تصویر پیش کی گئی ہے جس پر تصنع کی ملمع کاری واضح نظر آتی ہے۔ جون ؔجس مخصوص شیعی تہذیب وثقافت سے تعلق رکھتے تھے اس کے بھی بیشتر عوامل میں یکسر تبدیلی کے سبب اس پر بھی تصنع کا رنگ غالب آگیا جس کا عکس ذیل کے مصرعوں میں نمایاں ہے،

    وہ نجم آفندیِ مرحوم کو تو جانتی ہوگی

    وہ نوحوں کے ادب کا طرز تو پہچانتی ہوگی

    اسے کد ہوگی شاید ان سبھی سے جو لپاڑ ی ہوں

    نہ ہوں گے خواب اس کا جو گویّے اور کھلاڑی ہوں

    اس مقام پر یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ جون ؔنے اس نظم میں اپنی فکر کو صرف تہذیب و معاشرت کی مختلف صورتوں کے بیان تک ہی محدود نہیں رکھا ہے بلکہ کائنات اور اس کے وجود کے اسرار و رموز کو بھی اپنے دائرہ ٔ فکر میں لاکر اس نظم میں ایک ایسا فلسفیانہ تاثر پیدا کر دیا ہے جو ذہن کو غور وفکر پر آمادہ کرتا ہے۔ شیکسپیئر کی طرح جون ؔبھی اس دنیا کو ایک اسٹیج تصور کرتے ہیں جس پر مختلف طرح کے کردار اپنا فن دکھا کر روپو ش ہوجاتے ہیں اور اس لامتناہی سلسلے پر دنیا کی ہاؤ ہو کا دارومدار ہے۔ دنیا کے اس وسیع و عریض اسٹیج پر کرتب دکھانے والے مختلف انسانی گروہوں کی فنکارانہ انفرادیت انھیں ایک دوسرے سے نہ صرف مختلف شناخت عطا کرتی ہے بلکہ بعض امور کسی مخصوص انسانی گروہ کے ساتھ اس قدر وابستہ ہو جاتے ہیں کہ وہ اس کا تاریخی و تہذیبی اثاثہ بن جاتے ہیں۔ اس کرہ ٔ ارض پر بنی نوع آدم کے درمیان تاریخ اور تہذیب و ثقافت کا اختلاف بہت کچھ اسی سلسلے کے جاری رہنے کا نتیجہ ہے۔ جونؔ نے اس نظم میں دنیا کے اسٹیج کی یہ روداد اپنے اجداد کے حوالے سے یوں بیان کی ہے،

    مگر میرے غریب اجداد نے بھی کچھ کیا ہوگا

    بہت ٹچا سہی ان کا بھی کوئی ماجرا ہوگا

    یہ ہم جو ہیں، ہماری بھی تو ہوگی کوئی نوٹنکی

    درج بالا مصرعوں میں جون ؔکے لہجے کی کرختگی گرچہ شعری حسن کو مجروح کرتی ہے لیکن اگر ہم ان کی زندگی سے واقف ہوں تو یہ زبان بالکل فطری محسوس ہوگی۔ جونؔ کی ٹریجڈی صرف یہی نہیں تھی کہ انھیں اپنی ازدواجی زندگی میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور وقت و حالات کے سبب ایک حساس باپ اور شوہر کو اپنے بچوں اور بیوی سے الگ ہونا پڑا بلکہ کئی ایسے غم بھی ان کی ذات سے وابستہ تھے جن کا مداوا انھیں تمام عمر میسر نہ آسکا۔ انھیں اپنے سلسلۂ ٔنسب پر بہت فخر تھا، انھیں اپنے آبائی وطن امروہہ سے والہانہ محبت ہی نہیں بلکہ عقیدت تھی، انھیں اپنی علمیت پر ناز تھا لیکن وطن سے ہجرت اور پاکستان میں قیام کے دوران انھیں جن کرب ناک حقائق سے دوچار ہونا پڑا اس نے ان کی شخصیت اور شاعری میں ایسی تلخی بھر دی جسے برداشت کرپانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ جس طرح زندگی میں ایک پرشکوہ اندازِ بے نیازی ان کی شان ِ امتیاز تھی اسی طرح ان کی شاعری بھی اپنے معاصرین کے درمیان اپنی منفرد فنی شناخت قایم کرنے میں کامیاب ہوئی۔ یہ کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ جون ؔکی شاعری کا ایک بڑا حصہ ایسا ہے جسے سمجھنے کے لیے صرف مشرق و مغرب کے ادبی نظریات و رجحانات سے واقفیت ہی کافی نہیں ہے بلکہ تاریخ، فلسفہ اور تصوف جیسے دیگر علوم سے بھی کماحقہ واقفیت ضروری ہے۔ ان کے فن میں اس گہرائی اور گیرائی نے ان کی شاعری کو سنجیدہ و معتبر شاعری کا مرتبہ عطا کرنے میں اہم رول اداکیا۔ جون ؔایک کثیر المطالعہ شاعر تھے اور وہ اکثر اس کا اظہار بھی کرتے تھے،

    میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمھیں

    میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں

    اس شعر میں ایک حد تک شاعرانہ تعلّی بھی ہو سکتی ہے لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان کی علمیت نے زندگی اور فن کے متعلق ان کے اندر ایک مخصوص وژن پیدا کردیا تھا۔ اس وژن میں یقین اور بغاوت دو اہم اجزا کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بنیادی طور پر ان دو مختلف المزاج اجزا کا یکجا ہونا قرین قیاس نہیں نظر آتا کیونکہ عموماً یقین کے بعد مفاہمت اور مصلحت پسندی کا رجحان پیدا ہوجانا فطری ہے جبکہ بغاوت کے لیے غیر یقینی پہلی شرط ہے۔ جونؔ کے شاعرانہ وژن کی تشکیل ان دواجزا سے اس طرح ہوتی ہے کہ وہ انسان کی عظمت پر کامل یقین رکھتے ہیں لیکن انسانی معاشرہ کی بے سمتی اور انتشار آمیز صورتحال کو دیکھ کر مروجہ نظام کے خلاف ان کے یہاں بغاوت کا رجحان واضح نظر آتا ہے۔ نظم درختِ زرد‘ میں بھی یہ دو اجزا وسیع تر تناظر میں نظر آتے ہیں۔ جون ؔنے اس نظم میں جتنے بھی ذیلی موضوعات پر اظہار خیال کیا ہے ان میں ان دو اجزا کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ خصوصاً باغیانہ میلان، جس کی شروعات غیر یقینی کی کیفیت سے ہوتی ہے۔ غیر یقینی کی یہ کیفیت جب اپنی انتہا کو پہنچتی ہے تو انداز بیان طنز و تضحیک کے دائرے سے نکل کر طعن و تشنیع کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اس حوالے سے ذیل کی یہ مثالیں دیکھیے۔

    ۱۔ بہت ٹچا سہی، ان کا بھی کوئی ماجرا ہوگا

    ۲۔ یہ ہم جو ہیں، ہماری بھی تو ہوگی کوئی نوٹنکی

    ۳۔ یہ سالے کچھ بھی کھانے کو نہ پائیں، گالیاں کھائیں

    ہے ان کی بے حسی میں تو مقدس تر حرامی پن

    ۴۔ ادب، ادب کتّے، ترے کان کاٹوں

    ۵۔ مگر میں یعنی جانے کون؟ اچّھا میں، سراسر میں

    ۶۔ میں اک کاسد ہوں، کاذب ہوں، میں کیّاد و کمینہ ہوں

    میں کاسہ باز و کینہ ساز و کاسہ تن ہوں، کتّا ہوں

    ۷۔ زنازادے مری عزت بھی گستاخانہ کرتے ہیں

    کمینے شرم بھی اب مجھ سے بے شرمانہ کرتے ہیں

    نظم کے مختلف حصوں سے پیش کی گئی درج بالا مثالوں سے پوری نظم کی کیفیت اور شعری آہنگ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ چونکہ اس نظم کی تخلیق کا بنیادی محرک وہ اشتعال آمیز جذبہ ہے جو ایک حساس باپ کے دل میں اپنی اولاد سے فرقت کے سبب پیدا ہوا ہے۔ اس لیے نظم کے شعری آہنگ میں نرمی اور شیرینی کے بجائے کرختگی اور تلخی جونؔ کے درد و کرب کو ظاہر کرتی ہے۔ نظم میں درد و کرب کی یہ کیفیت ان مقامات پر زیادہ نمایاں ہے جہاں جونؔ نے اپنی شخصیت کو موضوع بنایا ہے۔ یوں تو اس پوری نظم میں ان کی شخصیت ایک اہم حوالے کے طور پر موجود ہے لیکن جن مقامات پر انھوں نے براہ راست اپنے حالات کو شعری پیکر عطا کیا ہے وہاں دردوکرب کی یہ کیفیت دو آتشہ ہو گئی ہے۔ مثلاً

    (۱)

    ہے شاید دل مرا بے زخم اور لب پر نہیں چھالے

    مرے سینے میں کب سو زندہ تر داغوں کے ہیں تھالے

    مگر دوزخ پگھل جائے جو میرے سانس اپنا لے

    تم اپنی مام کے بے حد مرادی منتوں والے

    مرے کچھ بھی نہیں، کچھ بھی نہیں، کچھ بھی نہیں بالے

    (۲)

    ہے میری زندگی اب روز و شب یک مجلس ِ غم ہا

    عزاہا، مرثیہ ہا، گریہ ہا، آشوبِ ماتم ہا

    (۳)

    تمہاری ارجمند امّی کو میں بھولا بہت دن میں

    میں ان کی رنگ کی تسکین سے نمٹا بہت دن میں

    وہی تو ہیں جنھوں نے مجھ کو پیہم رنگ تھکوایا

    وہ کس رنگ کا لہو ہے جو میاں میں نے نہیں تھوکا

    لہو اور تھوکنا اس کا، ہے کاروبار بھی میرا

    یہی ہے ساکھ بھی میری، یہی معیار بھی میرا

    میں وہ ہوں جس نے اپنے خون سے موسم کھلائے ہیں

    نہ جانے وقت کے کتنے ہی عالم آزمائے ہیں

    یہ بات شروع میں ہی عرض کی جا چکی ہے کہ یہ نظم تخلیقی سطح پر کئی جہات کی حامل ہے اس لیے اسے ایک بیٹے کے لیے ایک باپ کے جذبات کے دائرے میں محدود نہیں کیا جا سکتا۔ اس نظم میں بحیثیت باپ جون ؔکے شدید جذبات، عظیم خیالات کے سانچے میں ڈھل گئے ہیں جس نے اس نظم کو ایسی ہمہ گیریت عطا کر دی ہے کہ یہ شعری تخلیق پوری انسانی سوسائٹی کا بیانیہ نظر آتی ہے۔ جون ؔنے اس بیانیہ میں مختلف رنگوں کی آمیزش سے ایسا مرکب تیار کیا ہے جو نیرنگیٔ حیات اور تغیر کائنات کا منظرنامہ پیش کرتا ہے۔

    آخر میں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ کسی ایک نظم کی بنیاد پر کسی شاعر کے تخلیقی رجحانات و میلانات اور فنی سروکار کا تعیین نہیں کیا جا سکتا تاہم جونؔ کی یہ نظم بہت کچھ ان کے تخلیقی رویہ کو واضح کرتی ہے۔ انھوں نے اپنے کمالِ فن سے اس نظم میں ایک انتہائی ذاتی موضوع کو ایسی آفاقیت عطا کردی ہے جس میں انسانی سماج کے مختلف عناصر اس طرح سمٹ آئے ہیں کہ ان کی گوناگونی کو ان کی امکانی کیفیات کے ساتھ محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہ نظم دل و دماغ دونوں کو متاثر کرتی ہے اور بنیادی موضوع کے حوالے سے کئی ایسے موضوعات و مسائل کو بیان کرتی ہے جو انسانی سماج کا ناگزیر جزو ہیں۔ اس طرح یہ نظم ایک مخصوص رشتے کی انفرادیت اور اس سے وابستہ جذبات و احساسات کی ترجمانی کرنے کے ساتھ ساتھ سماجی حقائق کو بھی بیان کرتی ہے اور یہی اس نظم کا فنی امتیاز ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے