جونپور کا تخلیقی نور
وقت تاریخ کے نقشے بدل دیتا ہے اور تاریخ شہروں کے نقشے بدل دیتی ہے!
انسانوں کی طرح شہروں کے آداب اور اسالیب بھی بدلتے رہتے ہیں مگر بقول قرۃ العین حیدر، ’’خیالات کے صنم خانے ہمیشہ آباد رہیں گے۔‘‘
ماضی میں ایسا ہی ایک صنم خانہ جونپور بھی تھا۔ برسوں تک اس شہر کو مرکزیت اور مرجعیت نصیب تھی۔ یہ وہی شہر تھا جو مدینۃ العلم والعلما کہلاتا تھا اور جسے شاہجہاں نے ’’شیراز ہند‘‘ کا خطاب دیا۔
یہی وہ سرزمین تھی جس کا شہرہ ایران اور عرب تک تھا اور جس کی رعنائی افکار اور لذت اسرارکی روشنی پورے ہندوستان میں تھی۔ مولوی کرامت علی، سخاوت علی، غلام حسین کے افکار سے کتنے شہر روشن ہوئے۔ مہدوی تحریک کا نقطہ آغاز بھی یہی شہر ہے جس کے بانی سید محمد جون پوری تھے۔ فتاویٰ عالم گیری کی تدوین و ترتیب میں بھی جونپور کے علما ہی نے حصہ لیا تھااور پہلی جلد مولوی جلال الدین مچھلی شہری نے مرتب کی تھی۔ اسی سرزمین سے فیض حاصل کرنے والے شیر شاہ سوری نے ہندوستان میں اقتدار و اختیار کی ایک نئی تاریخ مرتب کی اور مواصلاتی نظام کو جی ٹی روڈ بنا کر ایک نئی شکل دی۔
آخر کوئی تو وجہ کشش رہی ہو گی کہ علما و مشائخ نے تیموری حملے کے بعد دلی چھوڑ کر اس شہر کا رخ کیا تھا، کیسے کیسے جید علما اور صوفیا اس زمین میں قیام پذیر ہوئے اور یہاں کی مٹی کو مفتخر کیا۔ قاضی شہاب الدین دولت آبادی، شیخ حسن طاہر، شیخ معروف جونپوری، شیخ بہاؤ الدین جونپوری، مولانا الہ داد، شیخ ادھن جونپوری، شیخ محمد حسن جونپوری، شیخ علی بن حسام الدین، شیخ محمد عیسیٰ، شیخ ابوالفتح جونپوری، سید علی یہ وہ ہستیاں تھیں جو علم و تصوف کے میدان میں ممتاز تھیں اور جن کی روحانیت سے جونپور کی زمین سرشار اور شاداب رہی۔ اسی جونپور میں قاضی شہاب الدین دولت آبادی کی قبر بھی ہے جن کے بارے میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اخبارالاخیار میں لکھا ہے کہ، ’’آپ کے زمانے میں اگر چہ بڑے بڑے شہیر فی الآفاق اکابر موجود تھے جو آپ کے اساتذہ اور ہم عصر تھے لیکن خدا تعالیٰ نے جو شہرت اور مقبولیت آپ کو عطا فرمائی تھی وہ کسی اور کو نہیں ملی، آپ کی تصنیفات میں ایک کتاب مشہور کتاب کافیہ کا حاشیہ ہے جو اپنی مثال آپ ہے اور وہ حاشیہ آپ کی زندگی ہی میں تقریباً تمام جہان میں شہرت پذیر ہو گیا تھا۔ اسی طرح علم نحو میں آپ کی ایک کتاب بنام ارشاد ہے، جس میں مسائل کے تحت امثلہ بھی بیان کی ہیں۔ اور ایک اچھوتے طرز پر یہ کتاب لکھی ہے۔ اس کی عبارت میں تسلسل اور نہایت عمدگی ہے۔‘‘
مولانا الہ دادجو قاضی شہاب الدین کے شاگرد اور راجی حامد شاہ کے مرید تھے، ان کا شمار بھی یہاں کے اہم علما میں ہوتا ہے۔ اخبار الاخیار کے مطابق کافیہ، ہدایہ، بزدوی اور مدارک کی شرح لکھی، طالب علمی ہی کے زمانے سے تحریروتنقیح پر قدرت رکھتے تھے۔ ان کے علاوہ شیخ حسن طاہر جن کا تولد بہا ر میں ہوا تھا جونپور کے معروف عالموں میں سے تھے۔ اس طرح کی اور برگزیدہ شخصیات کی وجہ سے جونپور میں وجدانی اور روحانی چشموں سے فیض پانے والوں کی کمی نہیں تھی۔ وہاں زندگی تھی، محبت معرفت اور نگاہ تھی۔ لیکن بعد میں خوشبوؤں کے یہ سلسلے ختم ہوئے گو کہ اب بھی کچھ اثر باقی ہے۔
بہر زمیں کہ نسیمے ززلف او زدہ است
ہنوزازسر آں بوئے عشق می آید
یہی وہ سرزمین تھی جہاں نکہت ونور کی ایک کہکشاں آباد تھی۔ قرۃ العین حیدر نے لکھا ہے، ’’شرقیہ سلطنت، ہند میں تہذیب کا عظیم الشان مرکز بنی ہوئی تھی۔ جونپور ’’شیرازہند‘‘ کہلا رہا تھا۔ اس سلطنت کو قائم ہوئے ابھی فقط 70 سال گزرے تھے۔ صاحبقراں کے حملے کے بعد کی گڑبڑ سے فائدہ اٹھا کر ملک الشرق خواجہ جہاں نے اس کی بنیاد ڈالی تھی۔ اس کے سلاطین اپنے آپ کو غیر ملکی نہیں گردانتے تھے۔ دکن کی بادشاہتوں کی مانند، ان کی حکومت بھی خالص ہندی حکومت تھی۔ انہوں نے خوبصورت عمارتیں بنائی تھیں۔ گلاب کے باغ لگائے تھے۔ دور دور سے اہل علم آ کر جونپور میں جمع ہو رہے تھے۔‘‘
(آگ کا دریا۔ ص126)
اوررشید احمد صدیقی نے لکھا، ’’جونپور تاریخی شہر ہے۔ وہاں شاہان شرقی کے آثار اب تک موجود ہیں۔ کئی جید مسجدیں ہیں، مزارات اور مقبرے ایک عالیشان قلعہ، عیدگاہ، پل، پختہ سرائے اور کتنے سارے کھنڈر شاہی زمانے کے دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ دریائے گومتی وسط شہر سے گزرتا ہے، جس پر شاہی زمانے کا بڑا مضبوط پل ہے۔ برسات میں با لضرور طغیانی آتی ہے۔ یہ زمانہ شہر میں تردد اور تفریح دونوں کا ہوتا ہے۔ شہر سے متصل شاہان شرقی کا ویران قلعہ ہے۔ کتنا اونچا، مستحکم اور شاندار پل جس کے ایک سرے پر پبلک لائبریری کی دو منزلہ عمارت، جس کی دیوار کے ایک رخ پر دریا کا اتار چڑھاؤ ظاہر کرنے کے لیے نمبر لگا دیے گئے ہیں۔‘‘
(آشفتہ بیانی میری۔ ص 21-22)
مگر وقت بدلتا ہے تو پھر تاریخ بھی تبدیل ہو جاتی ہے اور زمین بھی اپنی کیفیت بدل لیتی ہے، چمیلی، کیسری کیوڑا، خس کاشت کر نے والی زمین مکئ اور آلو اگانے لگتی ہے۔ ’’تخیل‘‘ عروج تلذذ کے نقطہ پر مرکوز ہو جائے تو یہی حال ہوتا ہے۔
جونپور کے عروج نے زوال کا منظر بھی دیکھا۔ وہی جونپورجوسلطنت شرقیہ کا دارالسلطنت تھا، اسے 1362 میں فیروز شاہ تغلق نے جونا شاہ کے نام پرآباد کیا تھا۔ سلاطین شرقیہ کے ذوق جمال اور نفاست پسندی کا مظہر وہ عمارتیں ہیں جن کی تابناکی میں کمی ضرور آئی ہے مگر اب بھی ان عمارتوں کے نقوش عہد رفتہ کے جلال و جمال کی داستانیں سناتے ہیں۔ سلطان ابراہیم شاہ کی تعمیر کردہ قدیم اٹالہ مسجد، شاہی مسجد، لال دروازہ مسجد اور400سال پراناشاہی پل جو شہنشاہ اکبر نے بنوایا تھا دوسری بہت سی عمارتیں اور جن میں تہذیب سانس لے رہی ہے۔
تہذیب کو تلاش نہ کر شہر شہر میں
تہذیب کھنڈروں میں ہے کچھ پتھروں میں ہے
پرشکوہ عمارتوں کے ساتھ ساتھ علم و فضل کی کہکشاں بھی آباد تھی، فلسفے کی مشہور کتاب ’’شمس بازغہ‘‘ کے مصنف ملا محمود فاروقی جونپوری (م 1632)اور شیخ عبدالرشید جیسی شخصیتوں کی زادگاہ جونپور کے امتیازات علمی دنیا میں روشن ہیں جن کے بارے میں شیخ محمد افضل جونپوری کا قول تھا کہ ’’تفتا زانی اور جرجانی کے بعدملا محمود جونپوری اور شیخ عبدالرشید جونپوری کی جامعیت کے دو فاضل ایک شہر میں جمع نہیں ہوئے۔‘‘
(تذکرہ، مولانا ابو الکلام آزاد)
شعر و ادب کی دنیا میں بھی جونپور کو عظمت حاصل رہی ہے۔ اردو کی تاریخوں میں یہاں کے تخلیق کاروں کا ذکر ہو یا نہ ہو مگر حضرت حفیظ جونپوری کا یہ شعر زبان زد خاص و عام ہے اور اس کی شہرت کسی تذکرے یا تنقید کی رہین منت نہیں ہے۔ وہ شعر ہے
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
اسی غزل کا ایک اور شعر عجب سی کیفیت سے سرشار ہے
پی لو دو گھونٹ کہ ساقی کی رہے بات حفیظ
صاف انکار سے خاطر شکنی ہوتی ہے
جونپورکی فضامیں موسیقیت اور نغمگی تھی کیونکہ یہاں کا سلطان حسین شرقی موسیقی کا دلدادہ تھا، راگ خیال کے موجدحضرت سلطان شرقی ہی تھے جن کے دور میں قوالی بہت مقبول تھی۔ قرۃ العین حیدر نے لکھا ہے کہ ’’کشمیر کے زین العابدین اور گوڑ کے علاء الدین حسین شاہ کی طرح جونپور کا حسین شرقی بھی انہی سنکی لوگوں میں سے تھا، جن بادشاہوں نے مزید بت شکنی کے بجائے ان پوتھی پتروں میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔ حسین شرقی کو جب بھی دلی کے سلطان بہلول اور سلطان سکندر سے جنگ کرنے سے فرصت ملتی وہ اپنا طنبورہ لے کر بیٹھ جاتا۔ راگوں کی دنیا کی نئی نئی سیاحتیں کرتا یا قدیم نسخوں کی ورق گردانی میں مصروف رہتا۔ ‘‘
(آگ کا دریا۔ ص 122)
’’سلطان حسین کے دوسرے وفادار امرا اور افسروں کے ساتھ بیٹھ کر منصوبے بناتا تھا کہ جونپور کی سلطنت دوبارہ کس طرح حاصل کی جائے۔ جونپور میں اب دلی کا ایک شہزادہ تخت پر بیٹھا تھا۔ سلطنت شرقیہ کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ شیراز ہند اجڑ چکا تھا۔‘‘
(آگ کا دریا۔ ص 136)
’’ابوالمنصور کمال الدین قاضی شہاب الدین جونپوری کا جانشین، مؤرخ محقق اب سیاسی سازشوں کا بھی ماہر ہو گیا۔ دن رات وہ سلطان کے ساتھ سر جوڑے بیٹھا ترکیبیں سوچا کرتا۔ دلی کے سلطان کو کس طرح زیر کیا جائے۔ اب سلطان بہلول مر چکا تھا اور اس کا خوبصورت شاندار بیٹا سکندر ہند کا بادشاہ تھا۔ جس کی ماں کا نام ہیماوتی تھا جو شرع محمدی کا بڑا پابند تھا۔ جو اپنے باپ سے بھی زیادہ طاقتور بادشاہ تھا۔ سلطان حسین اپنی جوڑ توڑ کے ذریعہ کئی بار جونپور میں باربک شاہ کے خلاف بغاوت کر وا چکا تھا۔ اب کی مرتبہ اس نے جوکا سے مل کر ایک بڑی بغاوت کا منصوبہ بنایا۔۔۔ چند روز بعد انہوں نے بغاوت کا علم بلند کیا اور سلطان سکندر ان کی سرزنش کے لیے جونپور پہنچا اور حسین شرقی کو دوبارہ شکست ہوئی اور سنگیت کار بادشاہ جس کی آدھی عمر راگ تخلیق کرنے کے بجائے میدان کارزار میں لڑتے لڑتے گزری ایک مرتبہ پھر بہار کی طرف واپس لوٹا۔ اب کمال کا جی اچاٹ ہو گیا اس نے جس قدر خونریزی دیکھی تھی، اس نے اتنے انسانوں کو قتل کیا تھا، اس نے اتنی بے بس عورتوں کو روتے دیکھا تھا، اس نے سلطان حسین کے امرا کو اس حالت میں سلطان سکندر کے سامنے جاتے دیکھا تھا کہ عمامے ان کی گردنوں میں رسیوں کی طرح بندھے تھے اور وہ پا پیادہ قیدیوں کی مانند فاتح کے ساتھ پیش کیے جا رہے تھے۔ یہ لوگ جو عالم، شاعر اور اہل قلم تھے اور ان کا فاتح بھی علم دوست اور شاعر تھا۔ لیکن کتابیں بیکار تھیں، علم فضول تھا، فلسفے بے معنی تھے کیونکہ انسان کا خون ان سب چیزوں کے باوجود بہتا تھا۔‘‘
(آگ کا دریا۔ ص 137)
’’انسانیت کس طرح ساری کی ساری خون کے سمندر میں ڈوبی ہوئی تھی۔ تاریخ سے اس کو جس قدر دلچسپی تھی اب اتنی ہی نفرت ہو گئی۔ اس نے سلاطین کے نسب ناموں اوران کے ادوار اور ان کی سلطنتوں کے واقعات کو بھول جانا چاہا۔ اس نے یہ بھی فراموش کرنا چاہا کہ سلطان کی بھانجی جنگی قیدی کی حیثیت سے اب دلی میں تھی اور سلطان سکندر کے حرم میں داخل کی جا چکی ہو گی۔ اس کے دوست اودے سنگھ راٹھور نے اسے غیرت دلائی، کیسے بے شرم ہو، تمہاری شہزادی دلی میں ہے اور تم بہار میں چین سے بیٹھے ہوئے ہو، اسے چھڑا کر لاؤ، جاکر سلطان سکندر کو قتل کرو یا مجھے اجازت دو میں اس کا کام تمام کر دوں، شہزادی کو واپس لے آؤں۔ کمال یہ سب باتیں سنتا اور خاموش رہتا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اب کون سا راستہ اختیار کروں۔ بہار سے غریب الوطن سلطان حسین نے بنگال کا رخ کیا۔ کمال اس کے ساتھ ساتھ رہا گوڑ کے سلطان حسین شاہ نے جونپور کے شکست خوردہ بادشاہ کو اپنے یہاں پناہ دی، جس کے سارے پرانے ساتھی بچھڑ چکے تھے، جس کا کتب خانہ تباہ ہو گیا تھا، خالی طنبورا اب جس کا رفیق تھا۔ طنبورا کبھی اس سے دغا نہیں کرے گا۔‘‘
(آگ کا دریا۔ ص 138)
شہروں کی جس طرح تاریخ بدلتی ہے اسی طرح تخلیق کی ہیئت و ماہیت بھی تبدیل ہو جاتی ہے۔ تاریخ کی طرح تخلیق بھی نشیب و فراز اور مدوجزر سے گزرتی ہے۔ وہی جونپور جس کا اپنا فسانہ تھا، فسوں تھا، سحر تھا، اسرار تھے، رفتہ رفتہ جونپور کے سارے جادو ختم ہوتے گئے، اب وہ بھی ہندوستان کے دوسرے شہروں کی طرح بس ایک شہر ہے، جس کا ماضی اب تاریخ کے اوراق میں منجمد ہے۔ شاندار ماضی نے اسے روشن حال نہیں عطا کیا اسی لیے جونپور بھی عہد زوال میں ہے اور زوال کی وجہ قوت تخیل کی کمی ہے۔ یہ وہی قوت ہے جو عروج و اعزاز عطا کرتی ہے۔
تخیل کمزور ہو جائے تو شہر کی عظمتیں منسوخ یا محجوب ہونے لگتی ہیں۔ شہر سے سوز ختم ہو جائے تو اس کا تخلیقی رومان اور گلیمر بھی ختم ہو جاتا ہے۔ مگرالفاظ میں بڑی قوت ہوتی ہے کہ لفظ زندہ رہیں گے۔ کچھ لفظ اب بھی زندہ ہیں جس کی وجہ سے جونپور کو بھی زندگی نصیب ہے۔ ان لفظوں کے سلسلے ماضی بعید سے جڑے ہوئے ہیں۔ اسی سلسلہ لفظ و خیال میں بہت سے نام روشن ہیں۔ ایک نام فخر مشرق شفیق جونپوری کا بھی ہے جن کے والدانیق جونپوری داغ کے شاگرد تھے اور جن کا یہ شعر ایک خاص کیفیت کا حامل ہے،
کلیسا میں وہ رہتے ہیں نہ کعبے میں قیام ان کا
بہ رب کعبہ کہتا ہوں میرا دل ہے مقام ان کا
ان کے صاحبزادے شفیق جونپوری نے اس سرزمین کو ایک نیا نشان عظمت عطا کیا ہے۔ ایک محب وطن شاعر جن کے بارے میں سید احتشام حسین نے لکھا ہے کہ، ’’یہ شفیق جونپوری کی انفرادیت ہے کہ انہوں نے حسرت موہانی سے سلاست، نشاط و غم اور عشقیہ عناصر کو لیتے ہوئے بھی اپنی راہ الگ رکھی ہے۔ 97 شفیق کی غزلوں میں سوز و گداز، لطف و پاکیزگی، انداز بیاں کی ندرت و سادگی سب کچھ ہے، خیالات کا پرلطف بیان اور کلام کی سادگی و صفائی شفیق کی سب سے بڑی شاعرانہ خوبی ہے۔‘‘ مٹی کی محبت سے معمور شفیق جونپوری کی نظم کے یہ چند بند ثبوت کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں،
بلا رہی ہو کراچی میں تم ہمیں لیکن
وہاں وطن کا نظارہ کہاں سے پائیں گے
بجا کہ ساحل راوی ہے پربہار مگر
یہ گومتی کا کنارہ کہاں سے لائیں گے
درست ہے کہ ملیں گے نئے نئے احباب
وہ جونپور ہمارا کہاں سے لائیں گے
کہاں ملے گا بنارس کی صبح کا منظر
اودھ کی شام دل آرا کہاں سے لائیں گے
جب قبریں اپنے بزرگوں کی یاد آئیں گی
بتاؤ ضبط کا یارا کہاں سے لائیں گے
جگر مرادآبادی نے سچ لکھا ہے کہ ’’شفیق جونپوری صحیح شعریت کے سرمایہ دار ہیں۔ سادگی اور پرکاری ان کی خاص صفت شعری ہے۔ صداقت و واقعیت ان کے ہاتھ سے کسی جگہ نہیں جاتی، یہ ان کے مذاق سلیم کی دلیل ہے۔‘‘ ماہنامہ ’’وحید العصر‘‘، ماہنامہ ’’طارق‘‘، روزانہ ’’اخبار مشیر‘‘ کے مدیر اور مولانا حسرت موہانی کے رسالے ’’اردوئے معلی‘‘ کی مجلس ادارت کے رکن شفیق جونپوری کی شاعری کا کینوس بہت وسیع ہے۔ ان کی فنی عظمت کا اعتراف اس زمانے کے مشاہیر نے کیا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مولانا حسرت موہانی جو ان کے استاد تھے، انہوں نے اپنے رسالے اردوئے معلی کا ایک خاص شمارہ شفیق جونپوری پر نکالا۔ استاد کی طرف سے کسی شاگرد کو اس سے بہتر تحفہ شاید ہی نصیب ہوا ہو۔ (تفصیل کے لیے: تابش مہدی کی کتاب ’’شفیق جونپوری ایک مطالعہ‘‘)
لفظوں سے شہرکوروشنی اور قوت عطا کرنے والوں میں اسی شہر کے سپوت سلام مچھلی شہر کا نام بھی روشن ہے، جنہوں نے اپنی نظموں کے ذریعہ اردو ادب کی فکری اور فنی ثروت میں اضافہ کیا۔ کسانوں، مزدوروں کے مسائل، محرومیوں کے موضوعات پر نظمیں لکھیں۔ تہذیبی قدروں کی تبدیلی پر افسوس کا اظہار کیا۔ صنعتی مشینی زندگی اور کلچر کو اپنے طنز کا نشانہ بنایا۔ سلام کا ذہن ہمیشہ انتشار میں اتحاد تلاش کرتا رہا۔ ان کی نظمیں ’’سڑک بن رہی ہے، مٹی کا گھر اور تیسری قوت‘‘ بہت مشہور ہیں۔ پروفیسر ملک زادہ منظور احمدنے اپنی خود نوشت ’’رقص شرر‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’سلام مچھلی شہری کی شخصیت اور فن کا مذاق، مجاز کا یہ لطیفہ سنا کر نہیں اڑایا جا سکتا کہ ’’نام عبدالسلام، تخلص سلام، شاعری وعلیکم السلام‘‘ اور نہ ان کی ذاتی زندگی کی بے اعتدالیوں کو بیان کر کے ان کی اہمیت کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اردو کے ان چند شعرا میں جو اپنے لب و لہجہ اور لفظیات کی بنا پر پہچانے جاتے ہیں، ان میں سلام بھی شامل ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی شخصیت بہت ہی ہنگامہ پرور رہی ہے اور خصوصیت کے ساتھ شراب کے نشے میں وہ کیا کر گزریں اس کا بھی اندازہ نہیں کیا جا سکتا تھا، مگر اس کے باوجود ان کا خلوص، ان کی بے تکلفی اور ان کی بے ریائی دل کو اپنی جانب کھینچتی تھی اور ان کے چہرے پر بھولے پن اور معصومیت کی جو ایک فضا تھی وہ اچھی لگتی تھی۔‘‘ (ص 136)
ان کا مجموعہ ’’وسعتیں‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ انہوں نے وطن کی مشترک تہذیب کے روشن نشان، اردو زبان کے عظیم شاعر، دیار تاج کے سراپا شعلہ گل، نغمہ شبنم، غالب کو یوں خراج پیش کیا:
وہ غالب جس نے اردو شاعری کو دلکشی بخشی
ضیائے علم و دانش دے کے تازہ زندگی بخشی
وہ غالب حسن کار زہرہ اردو جسے کہئے
گلستان ادب میں جان رنگ و بو جسے کہئے
وہ جس نے بربط ہندی پہ نغمات عجم گایا
وہ جو حافظ کو بھی فردوس خسرو کے قریں لایا
آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ سلام مچھلی شہری کے بارے میں ممتاز ناقد خلیل الرحمن اعظمی نے لکھا ہے کہ ’’گلاب باڑی، سڑک بن رہی ہے، ڈرائنگ روم، پیتل کا سانپ وغیرہ ایسی نظمیں ہیں جن میں زندگی کے تجربات سادہ ہیں لیکن طرز فکر میں انفرادیت ہے۔‘‘
لفظوں کی ایک روشنی اور ہے جس کا نام ہے رشید احمد صدیقی (24/ دسمبر 1892، 15؍جنوری 1977) جن کا تعلق جونپور کے مڑیاہوں سے تھا۔ علی گڑھ کے فیض یافتہ اردو کے ممتاز طنز نگار تھے۔ ان کی ذہنی فکری تشکیل میں سب سے زیادہ حصہ علی گڑھ ہی کا تھا۔ خود ان کا کہناہے،
’’میرا خیال کچھ ایسا ہے کہ میری پسندوناپسند، رہن سہن، گفتار کردار، اور فکر و نظرجسے بحیثیت مجموعی شخصیت کہہ سکتے ہیں، سب کچھ علی گڑھ میں ڈھلیں۔ اس میں شک نہیں کہ اپنی سیرت کی تعمیر و تشکیل کے لیے بہت کچھ خام مواد اپنے گھر اور اسکول سے لایا تھا لیکن اس کو تب وتاب، رنگ وآہنگ، لمس ولذت اور صورت و معنیٰ علی گڑھ نے دیے۔‘‘
رشید احمد صدیقی کی نظر میں علی گڑھ ہی وہ جگہ تھی،’’جہاں نہ صرف اچھی صلاحیتوں کو برگ وبار لانے کا موقع ملتا ہے بلکہ یہ صلاحیتیں یہاں پیدا بھی کی جاتی ہیں۔ میرا تو یہاں تک خیال ہے کہ جن بعض اچھی استعدادوں کو پیدا کر نے میں فطرت بخل کرتی تھی یہ دانش گاہ اسے بڑی فیاضی سے اپنی طرف سے پورا کردیتی تھی۔‘‘
رشید احمد صدیقی کی ہر تحریر میں علی گڑھ کہیں نہ کہیں سے ضِرور آجاتاہے، ان کے نزدیک اردو اور تہذیب کا دوسرا نام علی گڑھ ہے۔ ایک خاکے میں لکھتے ہیں، ’’فاروق صاحب علی گڑھ کے اس زمانے کے طلبا میں سے تھے جب ہم سب علی گڑھ کو مسلمانوں کا اندلس اور یونان سمجھتے تھے، کیسے کیسے ذوق و ذہن اور ہمت وحوصلہ کے طالب علم یہاں تھے۔ کتنے قیمتی اور قوی عوامل وعناصر اور کیسی کیسی صحتمند اور صحت بخش فضا میں ان کی ذہنی اور اخلاقی تربیت ہوتی تھی۔ ان میں سے کس کس کا نام لوں اور کہاں تک اس کی تفصیل سناؤں۔ علی گڑھ کے اس زمانے کے رندان با صفاان کو جانتے پہچانتے ہو ں گے، موجودہ صدی کے ابتدائی تیس پینتیں سال میں جتنے نامور طلبا اس ادارے سے فارغ التحصیل ہوئے وہ پھر کبھی دیکھنے میں نہ آیا جیسے اقدار اعلیٰ کے وہ سانچے ٹوٹ چکے ہوں، جن میں نوجوانوں کی سیرت وشخصیت ڈھلتی تھی یا وہ روایات اپنا اعتبار کھو چکی ہوں جن میں ہماری فکرو نظر بالیدہ ہوئی تھی، جس نسل کا ذکر کر رہا ہوں اس تہذیب کی شکست وریخت سے بر آمد ہوئی تھی جس کو تاریخ میں ایسی تہذیب قرار دیا گیا ہے جو اپنی ترکیب و توانائی اور تازگی کے اعتبار سے تہذیب ہی نہیں تحریک بھی ہے۔ یہ تہذیب اور ایسی تہذیب ختم نہیں ہوتی بلکہ کلام الٰہی کے لفظوں میں اپنی شان بدلتی رہتی ہے۔‘‘
رشید احمد صدیقی علی گڑھ میگزین کے ایڈیٹر بھی رہے، سہیل جیسا معیاری مجلہ بھی شائع کیا جسے انہوں نے شاعروں اور نثر نگاروں کی ’’تالیف قلوب‘‘ کا ذریعہ نہیں بنایا۔ ان کی تصنیفات میں خنداں، طنزیات و مضحکات، گنجہائے گراں مایہ، جدید غزل، غالب کی ِشخصیت اور شاعری، اقبال شخضیت اور شاعری اور آشفتہ بیانی میری اہم ہیں۔ خلیل الرحمان اعظمی نے انہیں تمدنی نقاد قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’انہیں ہر نقاد نے ہماری زبان کا بہترین طنزنگار تسلیم کیا ہے، ان کی فلسفیانہ نظر، خیال انگیزی، موضوعات کی وسعت، نفسیاتی لا تعلقی، ان کی انسانیت اور لہجے کی مرحمت وآسودگی کا اعتراف سب نے کیا ہے۔‘‘
وہ جونپور جو کبھی معقولات ومنقولات کا گہوارہ تھا اور جہاں کی فضاؤں میں مابعدالطبعیاتی اثرات غالب تھے وہیں کی فضاؤں میں وہ آوازیں بھی گونجیں جن کا رشتہ ترقی پسندانہ فکر وفرہنگ سے تھا۔ سجاد ظہیر جو ترقی پسند مصنفین کے معماروں میں سے ہیں اور جنہوں نے لندن میں ترقی پسندی کے اولین منشور پر ملک راج آنند، ڈاکٹرجیوتی گھوش، ایس این سنہا، ڈاکٹر ایس اے بھٹ اور ڈاکٹر محمد دین تاثیر کے ساتھ دستخط کیے تھے ان کا تعلق بھی جونپور کے موضع بڑا گاؤں سے تھا۔ زمینداروں کے اس گاؤں میں ان کا پورا خاندان آباد تھا مگر انہوں نے جاگیردارانہ نظام سے اپنا رشتہ توڑکر محروموں، مظلوموں اور بیکسوں سے اپنا تعلق جوڑلیااور دنیائے ادب کو لندن کی ایک رات، انگارے، روشنائی، پگھلا نیلم اور ذکر حافظ جیسی تصنیفات سے مالا مال کیا، ان کے بارے میں اشفاق حسین نے لکھا تھا،
’’اگر وہ ہندوستان کے عہدقدیم میں پیدا ہوتے تو لوگ انہیں دیوتا مان کر پوجا کر نے لگتے، اگر وہ قرون وسطیٰ میں پیدا ہوتے تو صوفیائے کرام کے اس گروہ سے تعلق رکھتے جو اپنی وسیع المشربی اور انسان دوستی کی بدولت مرجع خلائق بن جاتے مگر بنے بھائی کوتو بیسویں صدی میں پیدا ہوکر سجاد ظہیر بنناتھا اور عہد حاضر کے شمرو یزید سے لڑنا تھا۔‘‘
اور بھیشم ساہنی جیسے روشن خیال ادیب نے اعتراف کیا،
’’وہ پکے کمیونسٹ تھے اور ان کے عقائد کے بارے میں کوئی چیز میکانکی نہ تھی، ان کی وسیع النظری، ان کا صحیح معنوں میں سیکولر انداز فکر، ان کی گہری انسان دوستی سب ان کے کردار کا لازمی جزتھیں۔‘‘
(بحوالہ نصیر الدین ازہر، ’’سجاد ظہیر حیات اور خدمات‘‘)
اسی ترقی پسندانہ اقدار اورفکر کے حامل تھے احمد مجتبیٰ زیدی وامق جونپوری (23اکتوبر1909۔ 21نومبر 1998)جن کی شہرت کا ایک حوالہ بھوکا ہے بنگال جیسی نظم ہے۔
بھوکا ہے بنگال رے ساتھی بھوکا ہے بنگال
کوٹھریوں میں گاجے بیٹھے بنیے سارا اناج
سندر ناری بھوک کی ماری بیچے گھر گھر ناج
چوپٹ نگری کون سنبھالے چار طرف بھونچال
قحط بنگال پر تلوک چند محروم اور جگر مراد آبادی نے بھی نظمیں لکھیں مگر وامق کو زیادہ شہرت ومقبولیت نصیب ہوئی۔ جرس، چیخیں، شب چراغ اور سفر تمام ان کے شعری مجموعے ہیں اور گفتنی نا گفتنی ان کی خود نوشت سوانح حیات ہے۔
اسی جونپورسے شہاب جعفری کا بھی تعلق ہے جو ترقی پسند نظریے کے حامل تھے اور جن کا یہ شعر بہت مشہور ہے،
چلے تو پاؤں کے نیچے کچل گئی کوئی شے
نشے کی جھونک میں دیکھا نہیں کہ دنیا ہے
شہاب جعفری نے اپنی شاعری میں سورج کو بطور اسطور استعمال کیا، ’’سورج کا شہر‘‘ ان کا مشہور مجموعہ ہے۔ بلوا گھاٹ جونپور سے ان کا وطنی تعلق ہے۔ 2جون 1928میں پیدا ہوئے اور یکم فروری 2002 میں دلی میں ان کا انتقال ہوا۔
امین اشرف جیسے ممتاز غزل گو شاعر کے تخلیقی ذہن کی تشکیل بھی جونپور کی فضا ہی میں ہوئی، انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے، ’’جونپور آتے آتے میرا شعری ذوق اور بھی نکھر گیا۔‘‘ شفیق جونپوری میلاد شریف بہت اچھا پڑھتے تھے، تقریر کے دوران پختہ اشعار کثرت سے پڑھتے۔ یاد ہے کہ ایک مقامی مشاعرے میں انہوں نے ایک غزل ترنم سے سنائی تھی جس کا مطلع تھا،
شام آئی اور یاد تیری دلنشیں ہوئی
پھر کیاخبر کہ صبح ہوئی یا نہیں ہوئی
اس شعر نے میرے دل اور دماغ پر جادو کا سا اثر کیا، عجب وارفتگی کا عالم طاری تھا، جونپور میں جب تک رہا شفیق جونپوری سے برابر ملتا رہا، ان کے چھوٹے بھائی ربانی بھی شاعر تھے اور میرے دوست اور ایک شاعر تھے کامل شفیقی، اس طرح ہم لوگوں کا ایک ادبی حلقہ بن گیا تھا جس میں غلام سمنانی اور انور صدیقی کی شمولیت نے چار چاند لگا دیے، (میرا تخلیقی سفر مشمولہ تحریر نو، ممبئی جنوری 2010) پروفیسر امین اشرف کے شعری مجموعے ’’جادۂ شب اور بہار ایجاد‘‘ ان کی تخلیقی انفرادیت کے ثبوت ہیں۔
جونپور سے ہی تعلق ہے فرحت زیدی کا جو اب اڑیسہ میں اردو کے حوالے سے الگ شناخت رکھتے ہیں۔ داکٹر حفیظ اللہ نیولپوری نے لکھا ہے کہ، ’’ان کا ذہنی رشتہ شعرو ادب کی روایتی قدروں سے مربوط و مستحکم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں اخلاقی قدریں صاف اور عیاں ہیں۔ انہوں نے جدید شاعری کے بحرانی دور میں جدید رنگ کی غزلیں بھی کہی ہیں لیکن صرف طنزاً کیونکہ بنیادی طور پر ان کا مزاج کلا سیکل ہے۔‘‘
فرحت زیدی کے چند اشعار ان کی افتاد طبع اور ان کے نفسی میلان و تخلیقی رجحان کے ثبوت کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں۔
مانا کہ راستوں کو نہ تبدیل کر سکے
ہم کاروان نو کی تشکیل کر سکے
احکام وقت کی وہی تعمیل کر سکے
اپنے ضمیر کی بھی جو تذلیل کر سکے
الفاظ کیا وہ ایک اشارہ بھی ہے بہت
جو ان کہے فسانوں کی ترسیل کر سکے
نئی تہذیب کی یہ روشنی ہے
جو ہر سو تیرگی پھیلی ہوئی ہے
چراغوں سے ہی گھر جلنے لگے ہیں
ہوا کچھ اس طرح چلنے لگی ہے
اردو کے تنقیدی منظرنامے کی تابانی میں بھی جونپور کا حصہ رہا ہے۔ پاکستان کے پروفیسر مجتبیٰ حسین جہاں اپنی تنقیدی تحریروں کے حوالے سے مستحکم شناخت رکھتے ہیں، وہیں ہندوستان میں اردو کے ایک معتبر اور مستند تنقید نگار کا تعلق بھی جونپور سے ہی ہے جن کا آبائی وطن اعظم گڑھ کا علاقہ ماہل ہے مگر ان کی پیدائش جونپور میں ہوئی، اس تنقید نگار کا نام ہے پروفیسر احتشام حسین، جن کی کئی تنقیدی کتابیں آج بھی طلبا اور اساتذہ کے لیے مشعل راہ ہیں اور جن کی تنقیدی نظر کا اعتراف جہان کو ہے۔ اردو ادب کی تنقیدی تاریخ ان کی اہم کتاب ہے۔ اس کے علاوہ ساحل اور سمندر، سفرنامے میں امتیازی حیثیت کا حامل ہے۔
اردو ادبیات کے علاوہ دیگر علوم وفنون میں بھی جونپور کی خدمات روشن رہی ہیں اور بہت سے اہم نام اسی خطۂ شیراز سے جڑے ہوئے ہیں، علامہ ابراہیم بلیاوی شیح الہند کے تلمیذ رشید تھے جنہیں معقولات پر درک کامل تھا۔ سلم العلوم جیسی دقیق کتاب پر حاشیہ، ضیاء النجوم کے نام سے لکھا اور میبذی پر بھی حواشی لکھے دار العلوم دیو بند کے صدر مدرس جو صدرا اور شمس بازغہ، قاضی مبارک، حمداللہ کا درس دیا کرتے تھے ایسی عظیم شخصیت کا تعلق بھی جونپور سے رہا ہے کہ آپ کا خاندان برسوں تک جونپور میں قیام پذیر رہا اور پھر بلیا میں مستقل سکونت اختیار کی۔ مزار قاسمی دیوبند میں مدفون علامہ ابراہیم کی ابتدائی تعلیم بھی اسی شہر جونپور میں ہوئی تھی۔
اردو ترجمہ اور تصنیف کے حوالے سے ایک معتبر نام عبداللہ عمادی کا ہے جنہوں نے مسعودی کی مروج الذہب، طبری کی تاریخ الرسل والملوک، ابن حزم اندلسی کی الملل والنحل اور ابن قتیبہ کی المعارف کے اردو ترجمے کیے۔ یہ حیدر آباد کے دارالترجمہ سے وابستہ رہے، شیخ عبدالقادر عمادی کی تاریخ جونپور کا تر جمہ بھی کیا، جو شائد غیر مطبوعہ ہے۔ ان کے والد محمد افضل کا شمار جونپور کی معروف شخصیات میں ہوتا ہے۔ ان کے جد امجد عماد عمادی کا تعلق بھی جونپور ہی سے تھا۔
جدید عربی ادب کے ماہر اورحکومت ہند کے عربی مجلہ ثقافت الہند کے سابق مدیر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبۂ عربی کے پروفیسر زبیر احمد فاروقی کا تعلق بھی صبر حد جونپور سے ہے۔ ان کا مقالہ عربی ادب میں دارالعلوم کا حصہ حوالہ جاتی حیثیت رکھتا ہے۔ علمی و ادبی مطالعہ ان کے اہم مقالات کا مجموعہ ہے۔ انہوں نے زبیر رضوی کے رسالہ ذہن جدید میں فلسطینی تخلیق کاروں کے ترجمے بھی کیے جو بہت مقبول ہوئے۔ ان کے ترجموں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے فیض یافتہ زبیر احمد فاروقی کو صدر جمہوریہ ٔ ہند نے عربی ایوارڈ سے سرفرازکیا تھا۔ ساہتیہ اکادمی نے ان کی ایک کتاب ’’عربی شاعری کی نئی آوازیں‘‘شائع کی۔ اس طرح ترجمے کے ذریعہ انہوں نے اردو ادب کی ثروت میں اضافہ کیا۔
جونپور ہی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ سائنسی علوم کے میدان میں یہاں کی کئی شخصیتوں کو عالمی سطح پر شناخت اور اعتبار حاصل ہے۔ ان میں سب سے اہم شخصیت پروفیسر محمد شفیع کی ہے جو زرعی جغرافیے کے میدان میں عالمی سطح پر ممتازہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیور سٹی کے شعبۂ جغرافیہ کے صدر اور کارگزار وائس چانسلر محمد شفیع انٹر نیشنل جغرافیہ کانفرنس کے نائب صدر بھی رہے۔ ان کے علاوہ پروفیسر بلقیس بانو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں شعبہ ٔ بایو کیمسٹری سے وابستہ ہیں۔ باہر کے مقتدر سائنسی مجلات میں ان کے تحقیقی مقالے شائع ہو چکے ہیں۔ انہیں لندن میں کامن ویلتھ فیلو شپ بھی ملا انہوں نے پرو ٹین اور ذیابیطس پر اہم تحقیقات پیش کی ہیں اور مختلف بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت بھی کی ہے۔ سائنسی ادب کے حوالے سے ایک اہم نام محمد خلیل کا بھی ہے جو پہلے سائنس کی دنیا کے ایڈیٹر تھے جنہوں نے ماحولیات، نباتات، حیوانات اور علم طیور پر اہم مضامین لکھے۔ اردو زبان میں سائنس کو مقبول بنانے میں ان کی خدمات سے انکار ممکن نہیں۔ محمد خلیل کو بہت سے ایوارڈ بھی مل چکے ہیں جن میں غالب ایوارڈ، این سی ای آرٹی ایوارڈ کے علاوہ ncstc نیشنل ایوارڈ قابل ذکر ہیں محمد خلیل کی ایک کتاب انوکھے پرندوں کی دنیا ہے جس میں انہوں نے پینگوئن، پھول سنگھی، البطراس، ٹوکان مٹری، بہشتی چڑیا، امریکی بگلا، ہنس، جہازی چڑیا، کیوی، لق لق، پپیہا، کوئل، گدھ، ہدہد، کے بارے میں نہایت معلوماتی تفصیلات درج کی ہیں۔ بچوں کے سائنسی ادب میں یہ کتاب ایک اہم اضافہ ہے۔
جونپور ہی سے علی گڑھ کے وائس چانسلر سر شاہ محمد سلیمان (3فروری 1886۔ 12مارچ 1941) کا بھی تعلق ہے۔ جو الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی رہے اور جنہوں نے کیمبرج یونیور سٹی سے تعلیم حاصل کی تھی۔ ان کا تعلق ملا محمود جونپوری کے خانوادے سے تھا۔ شوق قدوائی کی مثنوی عالم خیال کی ترتیب تدوین بھی کی مگر ان کا بنیادی میدان ریاضیات تھا۔ ریاضیاتی تحقیق میں ان کی خدمات قابل تحسین ہیں۔ خاص طور پر نیوٹن کے نظریۂ کشش اور آئنسٹائن کے نظریۂ اضافت کے تعلق سے ان کی تحقیق کچھ اور سمتوں کا اشارہ کرتی ہے۔
جون پور کے علمی افق کی تابانی میں پروفیسر آر ایل سنگھ، پروفیسر محمد جمیل، ڈاکٹر فضل الرحمن، پروفیسر محمد شکیل، اشتیاق احمد، ظہیر الدین علوی، عبدالمجید، طفیل الرحمن انصاری، محمد یعقوب اور پروفیسر رویندر بھرمر اور منور علی (کراکت)کے حصے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.