کافکا کی زندگی ایک دروں بیں شخص کی زندگی ہے وہ اپنی ذات میں کھویا ہوا تھا اس کی تلاش وجستجو کا بڑا گہرا تعلق خود اس کی اپنی ذات سے تھا۔ یہودی ہونے کے باعث وہ اپنے شہر کی سماجی زندگی سے کٹا ہوا تھا وہ اپنے شہر میں رہ کر اپنے شہر کے واقعات کا مشاہدہ کرتا رہا وہ دراصل اپنے معاشرے کے لیے ایک اجنبی شخص تھا۔
اُس نے پراگ ہی میں رہ کر جنگِ عظیم کو دیکھا تھا اس کے علاوہ اس نے آسٹروہنگارین Austro Hungarion مملکت کا تھا اور چیکوسلواکیہ کی مملکت کو جنم لیتے ہوئے دیکھا تھا اس کا خیال تھا کہ یہودیت اور اس کی شخصیت کی انفرادیت نے اُسے اپنے عہد کے لیے ایک اجنبی شخص بنادیا تھا۔ اجنبیت کے تجربے نے اُسے منفرد نوعیت کی کہانیوں کے لیے موضوع اور اسلوب عطا کردیا تھا اور اسی کے ساتھ ساتھ اجنبی کہانیاں لکھنے کی صلاحیت بھی بیدار کردی تھی۔
کافکاایک کم سخن اورکم آمیز شخص تھا اس سے پہلے کہ وہ شہرت حاصل کرتا اس کے اعزاء اور اس کے دوست احباب میں سے اکثر اس دنیا سے رخصت ہوچکے تھے ان میں سے بیشتر تونازیت کے جبر کاشکار ہوگئے دراصل اس کی زندگی ایک بے گھر یہودی کی زندگی تھی ایک ایسے یہودی کی زندگی جو خود اپنے مذہب کے ایقان سے محروم تھا۔
کافکا کو پراگ کے مسائل سے بھی گہری دلچسپی تھی اس میں وہی فلسفیانہ اورجذباتی بحران تھا جو اس کے عہد کا مزاج تھا۔ وہ اسی قسم کی لایعنیت سے دوچار تھا جوکیر کے گار، دوستووسکی، نطشے، سارتر اور کامیو کی زندگی کا حصہ تھی دراصل ہم کافکا کو پراگ اور اس کے عہد سے جدا کرکے نہیں دیکھ سکتے۔ اظہاریت پسندوں نے اس کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے اس سے بڑی حد تک اُس کے مزاج کی عکاسی ہوتی ہے۔ اس کی تحریروں پر(Surrealism) اور وجودیت (Existentialim) کا بہت گہرا اثر تھا اسی لیے اس کی تحریروں کو سمجھنے کے لیے سرریلزم اور وجودیت کے علاوہ اظہاریت کو سمجھنا بھی بہت ضروری ہے۔ اس کی زندگی میں اس کی کوئی تحریر شائع نہیں ہوئی اس کے انتقال کے زمانے تک اس کے تینوں ناول اور مختصر کہانیاں مسودوں کی شکل میں موجود تھیں۔
کافکا کا باپ کافکا کے نانہالی عزیز واقارب پر طنز اور تنقید کرتا رہتا تھا اس سے ایک طرف تو کافکامیں یہ جرأت نہیں پیدا ہوئی کہ باپ کی طنز وتنقید کا جواب دے سکے دوسری طرف خود کافکا کے اندر بے اعتمادی پیدا ہوگئی تھی۔ اس کے باپ کی طنز اورتنقید سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کافکا کا ذرا بھی لحاظ نہیں کرتا تھا۔ اسی لیے کافکا کے اندر اپنے آپ پر تنقید کرتے رہنے کا رویہ ہمیشہ بیدار رہتا تھا۔ کافکا کے باپ کے مقابلہ میں کافکا کی ماں بہت زیادہ نرم مزاج تھی اور کافکا سے رحمدلانہ رویہ رکھتی تھی لیکن مشکل یہ تھی کہ کافکا کاباپ یہ محسوس کرتا تھا کہ کافکا کی ماں اس کی بات نہیں سمجھتی اس کے علاوہ کافکا کی ماں کو اُس کے باپ کے کام کاج میں ہاتھ بٹانا بھی پڑتا تھا۔ اس کا سارا وقت شوہر کی اطاعت اور اپنے بچوں کو دیکھ بھال میں گزرتا تھا اور اس کے علاوہ شام میںاپنے شوہر کے ساتھ تاش بھی کھیلنا پڑتا تھا اس لیے بچوں کی نگہداشت اور تربیت پر جتنا وقت دینا چاہیے تھا وہ نہیں دے سکتی تھی۔ کافکا کو اپنے باپ کے رشتے داروں کے مقابلے میں ماں کے عزیزوں سے زیادہ محبت تھی۔ کافکا کی ماں کے عزیز واقارب مذہبی اورمتقی بھی تھے اور انٹلکچول قسم کے لوگ تھے کافکا کو اپنے نانہالی عزیزوں سے بڑا گہرا تعلق تھا اور وہ یہ سمجھتا تھا کہ اسے وراثت میں زیادہ تر ایسی خصوصیات ہی ملی ہیں جو اس کے نانہالی عزیزوں کی ہیں۔ انہی خصوصیات میں ایک خرابی صحت بھی تھی۔ اس کے ایک عزیز ماموں ڈاکٹر تھے اور تازہ ہوا کھانے کے شوقین تھے چنانچہ کافکا بھی رات کو اپنے کمرے کی کھڑکی کھلی رکھتا تھا وہ سال بھر ہلکے کپڑے پہنتا تھا تاکہ تازہ ہوا اس کے جسم کو مَس کرتی رہے۔
اب وہRationalism اور سائنس کے علاوہ دوسری طاقتور اقدار کی تلاش میں تھا وہ ایک نئی (Vitalism) کی تلاش میں تھا وہ نطشے کی طرح روایتی اقدار کی نفی نہیں کرسکتا تھا اور نہ وہ اپنے آپ کو(Superman) سمجھ سکتا تھا۔
اُس کے دوست احباب بہت کم تھےOskar Pollakجو اسکول کے آخری زمانے میں اور یونیورسٹی کے ابتدائی دنوں میں اس کا دوست تھا یہی دوست اُس کے لیے ایک ایسی کھڑکی کی طرح تھا جس کے ذریعے وہ دنیا کو دیکھتا تھا۔ اس کے دوست Pollakکے ذریعے اس کی شناسائی نطشے کے فلسفے سے ہوئی انہی دوستوں کے ذریعے جو نطشے کی کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے۔ وہ انیسویں صدی کے(Decadent) کلچر سے ہٹ کر ایک زیادہ توانا کلچر کی طرف متوجہ ہوگیا۔
وہ عقلیت پسندی اور سائنس سے بڑھ کر توانا قوتوں کا متلاشی تھا لیکن وہ روایتی اخلاق کو خیرباد کہنے کے لیے بھی تیار نہیں تھا اور اپنے آپ کو سپرمین بھی نہیں کہہ سکتا تھا۔
وہ اسی قسم کی لایعنیت (Absurdity) سے دوچار تھا جو کیر کے گار، ڈوسٹوسکی، نطشے، سارتر اور کامیو کی زندگی کا حصہ تھی دراصل ہم کافکا کو اس کے عہد اور پراگ سے جدا کرکے نہیں سمجھ سکتے ۔ اظہاریت پسندوں Expresionistsنے اس کے جو پورٹریٹ بنائے ہیں اُن سے بڑی حد تک اس کی عکاسی ہوتی ہے۔ اس کی تحریروں پر سرریلزم کے علاوہ وجودیت کا بھی بڑا گہرا اثر تھا اس کی تحریروں کو سمجھنے کے لیے اظہاریت، سرریلزم اور وجودیت کو سمجھنا ضروری ہے اس کی زندگی میں اس کی تحریر بہت کم شائع ہوئی ہیں۔ اس کی زندگی میں اس کے تینوں ناول اور مختصر کہانیاں مسودوں کی شکل میں موجود تھیں ان میں سے کوئی مسودہ شائع نہیں ہوا تھا۔
کافکا کا انتقال ۱۹۲۴ء میں ہوا۔ اس کا دوست میکس براڈاسکیGenius کا قائل تھا چنانچہ کافکا کی وصیت کے خلاف اس کے مرنے کے بعد Max Brodنے اس کی تحریروں کو جلایا نہیں بلکہ اس کی اشاعت کے انتظامات کیے۔ اس کی تصانیف کی شرح میں بڑے اختلاف ہوئے بعض نے کافکا کی تحریروں کی مذیبیت پر زور دیاہے اور بعض نے اسے لایعنیت کی فکر کا نمائندہ قرار دیا ہے اور کچھ نقّادوں نے اسے تنہائی میں اسیر مصنف کی نفسیات کا شکار بتایاہے۔
کافکا کے ابا نے کافکا کے مسائل پر کبھی توجہ نہیں دی وہ جنوبی بوہیمیا کی ایک کوٹھری میں رہتا تھا جس میں خاندان کے آٹھ افراد رہتے تھے۔ وہ اپنے بچپن میں ننگے پاؤں لوگوں کے گھروں میں گوشت تقسیم کرنے جاتا تھا (اس کی یہ تقسیم صرف یہودی خاندانوں تک محدود تھی) کافکا کا باپ اپنے بیٹے کی تربیت اپنی مرضی سے کرناچاہتا تھا۔
کافکا کہتاہے کہ اس کے والد نے کافکا کے اندر اپنے اور دوسروں کے سلسلے میں بڑی بے اعتمادی پیدا کردی تھی کیوں کہ اپنی ذات میں جن چیزوں کو وہ بہت اچھا سمجھتا تھا وہ اُس کے بیٹے میں موجود نہیں تھیں۔ چنانچہ وہ اپنے بچے کو اپنے مطابق ڈھالنا چاہتا تھا اس طرح کافکا کے باپ نے اس کی شخصیت کو بہت بری طرح متاثر کردیا تھا۔
کافکا خود اپنی بے اعتمادی کا شکارہوگیا تھا لیکن نطشے کی انفرادیت پسندی اُسے عزیز تھی۔ نطشے کی انفرادیت پسندی کا اثر نہ صرف کافکا پرہوا بلکہ کافکا کی ساری نسل پر ہوا کافکا کو اپنے اندر اپنی ناکامیوں کا احساس شدید ہوگیا تھا کیوں کہ نطشے WillTo Powerپر بہت زور دیتا تھا اور کافکا یہ اثر اس لیے محسو س کرتا تھا کیوں کہ خود کافکا کے اندر Will To Powerنہیں ہے۔
۱۹۱۱ء میں میٹریکیولیشن کرنے کے بعد وہ پراگ یونیورسٹی کاطالب علم ہوگیا۔ پراگ یونیورسٹی کی ادبی انجمنوں کے ذریعے کافکا کو اپنے ہم عصر ادیبوں کے لٹریچر سے دلچسپی پیدا ہوگئی انہی انجمنوں میں اس کی شناسائیMax Brod سے بھی ہوگئی جس نے ان ادبی انجمنوں میں شوپنہاور پر ایک لیکچر بھی دیا تھاMax Brod نطشے کا مخالف تھا اور کافکا کو نطشے سے گہرا تعلق تھا۔ یہاں کسی مسئلے پر کافکا کی میکس براڈ سے بحث ہوگئی اور یہی اختلاف ان دونوں کے درمیان دوستی کا باعث بھی بن گیا میکس براڈ اور کافکا کی یہ دوستی موت تک قائم رہی۔
پراگ میں اُسی زمانے میں رلکے بھی موجود تھا اور کافکا کے ساتھ (Franz Werfel ) بھی تھا جو کافکا سے سات سال چھوٹا تھا اور یہی (Franz Werfel) بعدمیں اظہاریت پسند شاعر (Expressionist) شاعر کی حیثیت سے پہچانا گیا۔
کافکا اور میکس براڈ میں اختلاف ان دونوں کے درمیان دوستی کا باعث بن گیا اور یہ دوستی کافکا کی موت تک قائم رہی۔ پراگ میں اسی زمانے میں رلکے بھی موجود تھا اور کافکا کے ساتھ (Franz Werfel ) بھی تھا جو بعد میں اظہاریت پسند شاعر کی حیثیت سے پہنچایا گیا(Franz Werfel ) بھی کافکا اور میکس براڈ کے ساتھ رہنے لگا(Werfel) کی شاعری میں اپنے ہم وطنوں اور کائنات کے ساتھ اتحاد اور یگانگت یعنیUnion کاشدید احساس ملتاہے۔
Union with the Casmos and his fellow men
کیوں کہ وہ ایک ایسی نئی انسانیت کی بنیاد رکھنا چاہتا تھا جو سراپا انکسار اور محبت ہو اس کے باوجود اس کی تحریروں میں گناہ اور نجات کا تصور ملتا ہے کافکا کو Werfelکی شاعری پسند تھی لیکن Max Brodکو شوپنہاور کے نظریات سے بڑی دلچسپی تھی شوپنہاور کی طرح میکس براڈ کا بھی یہ خیال تھا کہ شاعر کو سچائی کی اعلیٰ قدر حاصل کرنے کے لیے مادی احتیاجات سے بلند ہونا چاہیے۔(Max Brod) میں بھی متصوفانہ رجحانات موجود تھے اور پراگ کے دوسرے شاعروں کی طرح اُسے بدکاروں اورلفنگوں کی صحبت پسند تھی۔
اکتوبر۱۹۰۷ء میں کافکا کو ایک انشورنس کمپنی میں ایک معمولی سی ملازمت مل گئی۔ اس ملازمت میں اُسے امید تھی کہ اسے باہر جانے کا موقع مل جائے گا۔ پراگ میں اس کا دم گھٹتا تھا اور انشورنس کمپنی میں اسے امید تھی کہ اسے باہر جانے کا موقع مل جائے گا۔
لیکن وہ اس کمپنی سے بہت جلد اُکتا گیا یہاں وہ صبح۸ بجے سے شام۶ بجے تک کام کرتا رہتا تھا یہاں تک کہ اُسے اتور کو بھی کمپنی میں کام کرناپڑتا تھا اُسے شکایت دراصل یہ تھی کہ کمپنی کے کام کی وجہ سے اپنے تخلیقی کام کے لیے وقت نکالنا مشکل تھا۔
وہ نئے کام کی تلاش میں تھا چنانچہ اُسے ایک انشورنس کمپنی میں کام کرنے کا موقع مل گیا یہ صنعتی حادثات کی انشورنس کمپنی تھی یہ کمپنی اُس کے لیے کسی قدر بہتر تھی یہاں اُسے چودہ سال کام کرنے کا موقع ملا یہ ایک نیم سرکاری ادارہ تھا اور اُسے یہاں بھی صبح۸ بجے سے دن کے۲ بجے تک کام کرنا پڑتا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.