کہاوتیں
کہاوتیں ہم آپ سب کہتے ہیں، کیونکہ ان چھوٹے چھوٹے جملوں میں ہماری زندگی کے کسی رخ کا بیان، کسی عام حقیقت کا اظہار یا کسی روز مرہ کے تجربہ کا بڑا صاف عکس نظر آتا ہے۔ کہاوتوں کا استعمال ایک لفظ یا جملے میں نہیں کرسکتے۔ ہم میں سے ہر ایک کہاوتوں کااستعمال اور موقع و محل تھوڑا بہت ضرور جانتاہے لیکن اگر کوئی ان کی ا یک قطعی تعریف پوچھے تو سوائے اس کے کیا جواب دیاجاسکتا ہے کہ زندگی میں جو چیز ہم سے جس قدر قریب ہوتی ہے، اسی قدر ہم اس کی قطعی تعریف نہیں کرسکتے۔ بس یہ کہنا چاہیے کہ انسان کے عام بنیادی تجربات و خیالات کے بیان کی یہ بھی ایک مقبول و معروف شکل ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے جملوں میں سموئے ہوئے بڑے بڑے تجربات، حقیقت و حکمت کے وہ نکتے اور چٹکلے ہوتے ہیں جو آسانی سے سمجھے اور یاد رکھے جاسکتے ہیں۔
یہاں ہمیں ذرا زندگی کی حقیقتوں میں کچھ امتیاز کرنا پڑے گا۔ ہمیں زندگی کے ہر موڑ پر، ہر ہر قدم پر، ایک نہ ایک حقیقت سے واسطہ پڑتا ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ ہر ملک، ہر قوم، ہر فرد کے ردعمل میں کافی فرق ہوتاہے۔ لیکن پھر بھی چند ایسی بنیادی حقیقتیں ہیں جن کا ردعمل چاہے وقتی طور سے کتنا ہی الگ کیوں نہ ہو، آخر میں جاکر ہر فرد بشرقریب قریب ایک جیسے نتیجوں پرپہنچ جاتا ہے۔ ایک نسل، دوسری نسل کے تجربات کو غلط ٹھہراتی ہے، ایک طبقہ دوسرے طبقہ کو جھوٹا بتاتاہے اورا یک قوم دوسری قوم کے مقابلے میں اپنا امتیاز قائم رکھنا چاہتی ہے لیکن جس طرح ہم سب اپنے آپ کو انسان کہے بغیر نہیں رہ سکتے، اسی طرح بالکل غیر شعوری طور پر ہم (چاہے اپنے خاص انداز میں ہی سہی) بہرحال چند ایسے حقائق کو بھی مان ہی لیتے ہیں جنہیں کسی نہ کسی شکل میں دوسروں نے بھی مان لیا ہے۔
ساری حقیقتیں کہاوتیں نہیں بن جاتیں، لیکن ساری کہاوتیں، اپنے موقع و محل پر زندگی کی حقیقتیں ضرور بن جاتی ہیں۔ یہ وہ حقائق ہیں جنہیں انسانوں کی کثیر جماعتیں ایک لمبے عرصے سے پرکھتی اور مانتی رہی ہیں۔آج کل کے بہت سے چلتے چلاتے ادبی کلیے، محاورے یا چھوٹے جملے چاہے جتنے حقیقت سے قریب ہوں، لیکن ان میں سے شاید ہی کوئی کہاوت یا ضرب المثل بنتا ہو۔ اس کے یوں تو اور کئی اسباب بھی ہیں، جنہیں ہم آگے چل کر بتائیں گے لیکن یہاں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ کوئی ضرب المثل اس وقت تک ٹکسالی سکہ بنتی ہی نہیں جب تک اس کا ’’آہن سرد‘‘ صدیوں کے تجربات کی بھٹیوں میں گل کر اپنے حشور زوائد سے پاک نہ ہوجائے۔ آج کی عجلت پسند دنیا کو انتظار کہاں کہ پہلے ایک حقیقت کومعلوم کرے اور پھر برسوں تک اس کی صحت کی جانچ کرتی رہی۔
کسی بھی کہاوت کو لو، لفظ لفظ سے کیسا بھولا بھالا پن برستا ہے۔ اس میں چھپی ہوئی حقیقت چاہے جتنی شوخ ہو یا سنجیدہ، بلند ہو یا پست، بہرحال اس کے اندر کسی قسم کے اغلاق، تکلف یا تصنع کا گزر بھی نہ ہوگا۔ اندازِ اظہار کا یہی ’’بھولپن اور سادہ لوحی‘‘ اسے ہر دل سے قریب کردیتی ہے۔ اس سیدھے سادے بیان میں ظرافت و مزاح کے شہد و شکر بھی ہوتے ہیں اور طنز و بیباکی کے تیر و نشتر بھی۔ انسان کے ابتدائی دور کی معصومیت اور خلوص ہر ہر لفظ سے نمایاں ہے۔ یہاں تک کہ ان کے ابتذال اور عامیانہ پن پر بھی روٹھ روٹھ کر پیار آتا ہے لیکن ان کی اس سادگی کو حماقت آمیزی سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ ان میں وہی تمکنت، خلوص اور بے لوثی ہے جو کسی قانون کو قانون کا نام دیتی ہے۔
ان کی نظر میں سب برابر ہوتے ہیں، اس صاف و شفاف آئینہ میں ہر فردکی اچھائیاں، برائیاں، فطرت کی بلندیاں اور پستیاں، بغیر کسی رورعایت بے نقاب ہوکر بالکل سامنے آجاتی ہیں۔ اس کا وار بھی بڑا سخت ہوتا ہے۔ اس کا تیر شاید ہی کبھی خطا ہوتا ہو۔ بڑی بڑی چلتی ہوئی زبانیں رک جاتی ہیں، اٹھتی ہوئی آندھیاں دب جاتی ہیں اور بڑھتے ہوئے سیلاب رک جاتے ہیں۔
اس زور و اثر کے کئی اسباب ہیں۔ ایجاز، اختصار، قطعیت، نمکینی اور چٹکلے پن کو چھوڑکر، کہ ان کے بغیر تو کوئی کہاوت کہاوت کی سند پا ہی نہیں سکتی۔ اور دوسری خصوصیات میں جو سب سے زیادہ قابل لحاظ چیز ہے، وہ ہے ان کہاوتوں میں ایک قسم کی موزونی اور اکثر مقفیٰ عبارت کا استعمال۔ جامعیت کے ساتھ یہ موزونی الفاظ مل کر سو کا کام کرتی ہے۔ کہنے والا کہتا جاتا ہے اور سننے والے کو وہ یاد ہوتی چلی جاتی ہے۔ یہ کہاوتیں چاہے نثر میں ہوں یا نظم میں، سہل ممتنع کی قابل رشک مثالیں ہوتی ہیں۔ اس سہل ممتنع میں جو طنز و ظرافت، تضاد و تکرار اور اشارے کنائے ہوتے ہیں، وہ سامع کی کسی نہ کسی قوتِ احساس کو متاثر کیے بغیر رہ ہی نہیں سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ چاہے ایک وقت میں آدمی ایک حقیقت سے انکار ہی کر چکا ہولیکن اسی کو کسی ضرب المثل میں موزوں دیکھ کر تھوڑی دیر کے لیے سوچنے پر ضرور مجبور ہوجاتا ہے۔
چونکہ ان کہاوتوں کے مخاطب چھوٹے بڑے، شہری، دیہاتی، امیر، غریب، عالم، جاہل، سب ہوتے ہیں، اس لیے ان کی سادگی بیان اور قطعیت خطیبوں اور مقرروں کے بڑے کام آتی ہے۔ اکثر جس جگہ صحیح استدلال سے کام نہیں بنتا، وہاں ایک بے ثبوت کی کہاوت یا کوئی طنز آمیز ضرب المثل عوام کو متاثر کرنے میں بڑی مدد دیتی ہے۔ یہ سب محض اس لیے کہ ان کہاوتوں میں انسانی فطرت کی بنیادی خصوصیات کابڑا مختصر اور پرمعنی بیان ہوتا ہے یا اس پر بڑی جامع تنقید ہوتی ہے۔مثلاً،
پڑھیں فارسی اور بیچیں تیل۔ دیکھو یہ قدرت کے کھیل۔
زبردست کا ٹھینگا سر پر۔ پڑھے نہ لکھے نام محمدفاضل۔ دو ملاؤں میں مرغی حرام۔ ہر روز عید نیست کہ حلوہ خورَد کسے۔ چڑھ جا بیٹا سولی پر رام بھلی کرے گا۔ ناچ نہ جانوں آنگن ٹیڑھا۔ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں۔ خوئے بدرا بہانۂ بسیار۔ ماں سے زیادہ چاہے اور پھاپا کٹنی کہلائے۔
یہاں اس کا موقع نہیں کہ ایک ایک ضرب المثل کی نفسیات اور طنزیاتی اہمیت پر تفصیلی نظر ڈالی جائے لیکن یہ اشارہ کیے بغیر بھی نہیں رہا جاسکتا کہ ہجویہ ادب میں ان کہاوتوں کی بڑی اہمیت ہے۔اگر ذرا غور کیا جائے تو اس حقیقت سے انکار کیا ہی نہیں جاسکتا کہ قریب قریب ہر کہاوت کا ایک طنزیاتی یا ہجویہ پہلو ضرور ہوتا ہے۔ دراصل یہی نمکینی یا نشتریت اس کی جان ہوتی ہے۔ ہجو ادب کی ایک ایسی مفید صنف ہے، جس پر ابھی تک باقاعدہ توجہ ہی نہیں کی گئی اور لطف یہ ہے کہ کہاوتوں کو تو ہجو کے دائرہ میں ہی شمار نہیں کیا جاتا۔
یہ سچ سہی کہ اکثریہ صنف محض کیچڑ اچھالنے اور غلط بات منوانے کے لیے بھی ایک ناجائز ذریعہ کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے او رہوتی رہے گی لیکن اس کے معنی یہ نہیں کہ سرے سے اس کی نفسیاتی افادیت سے ہی انکار کردیا جائے۔ کہاوتوں میں اس کا افادی پہلو خصوصی طور سے غائب رہتا ہے۔ روز کا تجربہ شاہد ہے کہ اکثر کسی ہجویہ کہاوت کابھرپور وار سہہ کرہنگامی طور سے تو ہم بڑے جھنجھلاتے اور بل کھاتے ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو، اب تو اس کے خلاف ہی کریں گے، لیکن جب ذرا حواس ٹھکانے آتے ہیں تومعلوم ہوتا ہے نشتر تو لگ بھی چکا۔
ہم نے ابتدا میں ان کہاوتوں کی عملی اہمیت پر کچھ اشارے کیے تھے، جن میں بتایا کہ صدیوں کی چکی میں گھسے پسے ہوئے علم و حکمت کے یہ ریزے دراصل آفاقی تجربات کے خزانے ہیں۔ ہماری روزمرہ کی عملی زندگی میں ان کاعام استعمال ہی ان کی صداقت او رہمہ گیری کی واضح شہادت ہے۔ ان کی حقیقت نگاری چاہے تلخ ہو یاشیریں، بہرصورت وہ عملی زندگی کے کسی رخ کی ایک صحیح تصویر ضرور ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ ادبی لحاظ سے جو کہاوتیں متبذل شمار ہوتی ہیں، ان میں حیات انسانی کے ہی کسی پہلو کی نقاب کشائی ہوتی ہے۔ اب یہ اور بات ہے کہ وہ ہم جیسے فرار پسندوں کو گھناؤنے معلوم ہوں۔ لیکن کیا کیا جائے کہ گھناؤنا پن بھی انسانی زندگی کاایک جزولاینفک ہے۔ کون ہے جو ان مشاہدات سے انکار کرے!
آدھی چھوڑ پوری کو لیوے۔ پوری کھو، آدھی کو رووے۔ اندھا بانٹے ریوڑی، اپنے اپنوں کو دے۔
ہر کہ آمد عمارت نو ساخت۔ قہر درویش برجانِ درویش۔ مایا تیرے تین نام، پرسو، پرسا، پرس رام۔ کایا تیرے تین نام، لچا غندہ بے ایمان۔
کوئلوں کی دلالی میں ہاتھ بھی کالے منہ بھی کالا۔
دونوں ہاتھوں سے تالی بجتی ہے۔
ناچ نہ جانوں آنگن ٹیڑھا۔ خوئے بدرا بہانۂ بسیار۔
خر عیسیٰ اگر بسکہ رود۔ چوں بیاید ہنوز خرباشد۔
اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی۔
بھینس کے آگے بین بجائے، بھینس کھڑی بھرائے۔
اندھے کے آگے رووے اور اپنی آنکھیں بھی کھودوے۔
کانٹری کے بیاہ میں سوجوکھیں۔
کتے کی دُم بارہ برس گاڑی اور نکلی تو وہی ٹیڑھی کی ٹیڑھی۔
دودھ کاجلا چھاج کو پھونک پھونک کر پیتا ہے۔
یہ تو صرف مشتے نمونہ ازخروارے ہے ورنہ ایسے سچے نفسیاتی مشاہدات اور عملی تجربات کس زبان کی کہاوتوں میں نہیں۔ ان میں ہر کہاوت کی تشریح گویا انسانی عادات و نفسیات کی تفسیر ہوگی۔ مثال کے طور پر،
مایا تیرے تین نام۔ پرسو، پرسا، پرس رام، کا یا تیرے تین نام۔ لچا، غنڈہ، بے ایمان۔
اس کہاوت میں جس پراثر اور جامع طور پر انسان کے دنیاوی عروج و زوال کی تصویر کھینچی گئی ہے، وہ حقیقت نگاری اور طنز لطیف کی لاثانی مثال ہے۔ جی چاہے تو ماضی و حال کو ٹٹول کر دیکھ لیجیے۔ تقسیم ملک سے پہلے اور بعد جو کچھ لوگوں پر گزری ہے، اس کا کیا سچاعکس اس آئینہ میں نظر آتا ہے، جو اس سے پہلے سب کچھ تھے وہ آج کچھ بھی نہیں اور جو کچھ بھی نہیں تھے آج سب کچھ ہیں۔ دراصل ایسے حالات ہر انقلاب اپنے ساتھ لاتا ہے۔ وہ ۱۸۵۷ء کا غدر ہو یا انقلابِ فرانس۔ زوالِ بغداد ہو یا تقسیم ہند و پاکستان۔ ان بڑے بڑے انقلابات سے قطع نظر اگر ہم سب خود اپنے خاندانوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ’’مایا‘‘ اور ’’کایا‘‘ کی یہ شعبدہ بازیاں ہرجگہ صاف نمایاں ہوجاتی ہیں۔
اس قسم کی کہاوتوں کو سننے یا پڑھنے کے بعدلوگ عموماً دو قسم کے اعتراضات کرتے ہیں۔ اول تو یہ کہ ان کا طریقِ اظہار مبتذل نہ سہی ’’عامیانہ‘‘ ضرور ہے اور دوم یہ کہ کہاوتوں کی بیشتر تعداد کسی بلند روحانی مقصد کی طرف رہنمائی نہیں کرتی۔ یہ دونوں اعتراض دراصل ایک ہی بنیادی غلطی کانتیجہ ہیں۔ معترض حضرات کہاوتوں پر نظر ڈالتے وقت سب سے پہلے یہ نظرانداز کردیتے ہیں کہ دراصل یہ سوسائٹی کے کن طبقوں کے تجربات کی آئینہ دار ہیں؟
سوسائٹی میں واضح طور سے تین طبقے پائے جاتے ہیں۔ بلند، متوسط، پست۔ دراصل ان تینوں طبقات کے درمیان الگ الگ کوئی قطعی حدِفاصل قائم کرنا بڑا مشکل ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بلند وپست طبقوں کو واضح طور پر ایک دوسرے سے ممتاز نہ کرلیاجائے لیکن متوسط طبقہ کے لیے کیا حدِفاصل رکھی جائے کہ اس کاایک پاؤں پستی میں ہے او رایک بلندی پر۔ اس کے بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ ساتھ اس کا ذہنی توازن، طرزِ فکر اور اس کے ساتھ ساتھ نظریۂ حیات بھی کچھ نہ کچھ بدلتا رہتا ہے۔ کبھی اس کا دماغ بلند طبقہ کے ساتھ ہوتا ہے اور دل پست طبقہ کے ساتھ۔ اور کبھی دل بلند کے ساتھ اور دماغ پست کے ساتھ۔
دراصل یہی طبقہ کشمکشِ حیات کے پورے جھٹکے سہتا ہے، ورنہ پست و بلند دونوں طبقے کتابِ زندگی کا صرف ایک ایک صفحہ پڑھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ اب اس طبقے کے تجربات میں پستی و بلندی، تلخی و شیرینی، ابتذال و احتیاط کا جو ہمہ گیر امتزاج پایا جاتا ہے، وہ کسی نہ کسی وقت ہر طبقہ کو متاثر کرتا ہی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ درجۂ تاثر انقلابِ حالات کے تناسب سے گھٹتا یا بڑھتا رہے۔ یہ سب کچھ کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ یہ ساری کہاوتیں اس متوسط طبقے کی ایجاد ہیں۔ ہاں حقائق کی روشنی میں یہ کہنا غلط نہیں کہ بہرحال ان کی کثیر تعداد کہی گئی ہے اسی طبقے کے لیے۔ یہاں اس کی کمزوریوں کا بھی بیان ہے اور خوبیوں کا بھی۔ اس بڑی تعداد کے علاوہ جو کہاوتیں ہر زبان میں ملتی ہیں، وہ بلند سے بلند اخلاقی و روحانی معیاروں پر بھی پوری اتر سکتی ہیں۔ مثلاً،
آپ کاج مہا کاج۔ خموشی معنی دارد کہ درگفتن نمی آید۔
ہمت مرداں مددِ خدا۔ Silent waters go deep.
جلدی کام شیطان کا۔ جو ظرف کہ خالی ہے صدا دیتا ہے۔ پکا ایمان منزل آسان۔
زبان و ادب کے علاوہ ملک کی قومی زندگی میں بھی کہاوتوں کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ کہاوتیں کسی قوم کے ذہنی پس منظر، درجۂ تمدن اور اخلاقی معیار کو بڑی خوبی سے ظاہر کرتی ہیں، آفاقی یا مقامی تجربات کو ہر قوم اپنے طرز پر اپنی کہاوتوں میں سمودیتی ہے۔ کہیں تو قومی و تاریخی تلمیحات کے ذریعہ کسی تجربے کی تصدیق ہوتی ہے جیسے،
پڑھیں فارسی اور بیچیں تیل۔ دیکھو یہ قدرت کے کھیل۔ راجہ نل پہ بپتا پڑی۔ بھولی مچھلی دہ میں پڑی۔
الٹے بانس بریلی کو (یونانی) Owls to Athens (انگریزی) Coals to New Castle برعکس نہندنامِ زنگی کافور۔ ایاز قدرِ خود بہ شناس۔ نہ نومن تیل ہوگا نہ رادھاناچیں گی۔ خیر عیسیٰ اگر بسکہ رود۔ چوں بیاید ہنوز خرباشد۔
کہیں کسی قوم کے مختلف طبقوں کی امتیازی خصوصیات، کردار اور ذہنیتوں کا بڑا دلچسپ اور حقیقت افروز بیان ہوتا ہے، جیسے،
مشک آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید۔ دو ملاّؤں میں مرغی حرام۔ کوئلوں کی دلالی میں ہاتھ بھی کالے منہ بھی کالا۔ پڑھے بھٹکتے ہیں لاکھو ملاّ ہزاروں پنڈت ہزاروں سیانے۔ جو خوب دیکھا تو یار آخر خدا کی باتیں خدا ہی جانے۔ بنیا تو کھڑا بھی نہ ہونے دے اور میاں جی کہتے ہیں کہ جھکتا تولیو۔ رسی جل گئی پر بل نہ گیا۔ یا تو ہنس موتی چگے یا لنگن ہی مرجائے۔ رموزِ مملکتِ خویش خسرواں دانند۔ گاہے بہ سلامے برنجند وگاہے بہ دشنامے خلعت دہند (بادشاہوں کی عادت)
ظاہر ہے کہ ایسی اور بہت سی کہاوتوں کانفسیاتی تجزیہ قوم کے ذہنی معیار کا پتہ دیتا ہے۔ ان سے قوم کی تخلیقی قوت، روحِ عصر، ذوق اور مزاج کا بہت کچھ اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ لیکن ان کے ذریعہ کسی قوم کے ذہنی درجے کاتعین کرتے وقت اس حقیقت کو نظرانداز نہ کرناچاہیے کہ بیشتر بنیادی ضرب الامثال قوموں کے ابتدائی یا وسطی عہد میں رواجِ عام پاتی ہیں۔ ان کی زبان، قطعیت، اور اندازِ خطاب سب اس بات کے گواہ ہیں۔
ابتدا میں کہاوتوں کااستعمال صرف بول چال کے ادب تک ہی محدودنہ تھا بلکہ ان کے صحیح و برمحل استعمال کی تعلیم لسانیات اور خطابت کی تربیت میں ایک خاص جگہ رکھتی تھی۔ آج کتابوں کی کثرت کے ساتھ ساتھ پرانی کہاوتوں کا استعمال بھی کم ہوتا جارہاہے۔ اس کے کئی نفسیاتی و معاشرتی وجوہ ہیں۔ اول تو ان کی قدامت ہی ان کے لیے ایک عیب بن گئی ہے۔ دوسرے آج کل فنی و طبیعاتی کتابوں کی کثرت اورصحافی ادب کی مقبولیت نے ٹکسالی زبانوں کی حدود کوتوڑ پھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
آج کا اخبار کسی خود غرض افسر پر تنقید کرتے ہوئے یہ نہیں لکھے گاکہ ’’اندھا بانٹے ریوڑی اور اپنے اپنوں کو دے۔‘‘ بلکہ اسے ’’خوش نوازی اور اقربا پروری کامجرم‘‘ ٹھہرائے گا۔اس کامطلب یہ نہیں کہ آج کاادیب یا مقرر زندگی کی بنیادی حقیقتوں سے انکار کر بیٹھا ہے۔ وہ آج بھی صدیوں پرانی حقیقتوں کو ہی دہراتا ہے، لیکن اس کے الفاظ، ترکیبیں اور طرزِ اظہار اس کے نت نئے موضوعات کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ یہی اندازِ اظہار کا فرق یا تنوع جو آج فن کے ہر شعبہ میں نمایاں ہے، کہاوتوں کو پیچھے چھوڑتا جارہاہے۔ لیکن اس بے التفاتی کے باوجود کہاوتوں کی سخت جانی بڑی حیرت انگیز ہے۔ساری کہاوتیں آج بھی اپنی جگہ چٹان کی طرح قائم ہیں۔ بات یہ ہے کہ ان کارشتہ بلاواسطہ فطرت انسانی سے ہے اور یہی قوت انہیں آج زبانوں کی پناہ ’’بقائے اصلح‘‘ کی کشمکش میں زندہ رکھے ہوئے ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.