Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کلام اکبر پر ایک نظر

پریم چند

کلام اکبر پر ایک نظر

پریم چند

MORE BYپریم چند

     

    ولیؔ اور میرؔ سے لے کر امیرؔ و داغؔ تک اردو زبان نے جو رنگ بدلے ہیں وہ ایشیائی شاعر کے ماہرین سے مخفی نہیں ہیں۔ بیشک تخیلات شاعری میں بجز غالبؔ کے کوئی جدید روش نہیں اختیار کی گئی۔ تاہم محاورات، بندش، اور اسلوب بیان میں مختلف شعرا میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ ولیؔ نے جن خیالات کو لیا ہے وہ ہیں تو بہت بلند لیکن ان کی ترکیبوں اور اس زمانے کی ترکیبوں میں بڑا فرق ہے۔ میرؔ و سوداؔ اور انشاؔ کا رنگ بھی الگ الگ ہے لیکن رفتار خیال کی شاہراہ ایک ہی ہے یعنی اکثر خیالات بھاشا اور فارسی سے ملتے ہوئے ہیں اور ایسے خیالات بھی ہیں جو فارسی سے مقتبس نہیں کہے جا سکتے۔

    صدہا محاورات اور ترکیبیں فارسی سے جدا ہیں۔ تمام مشاہیر اساتذہ اردو نے درسیات فارسی اور کتب متداولہ عربی پڑھی ہیں اور عربی میں اگر تبحر نہیں حاصل کیا ہے تو کم سے کم فارسی اور صرف و نحو پڑھی ہے۔ کیونکہ بغیر اس قدر تحصیل کے مذاق سلیم اور ادراک صحیح نہیں ہو سکتا۔ اور بعضے شعرا اردو تو فاضلانہ قابلیت رکھتے تھے مگر یہ سب خیال بندی اور معانی آفرینی میں فارسی شعرا کے مقلد تھے اور گزشتہ اساتذہ اردو کا طرز معاشرت بھی قدیم اور اس زمانے سے بالکل الگ تھا۔ اور داغؔ اور میرؔ نے جس زمانے میں نام حاصل کیا گو اس زمانے کی تہذیب میرؔ وغیرہ کے زمانے سے ہٹ گئی تھی لیکن وہ اس سے متاثر نہیں ہوئے اور اس کا بڑا سبب یہ تھا کہ وہ نہ خود انگریز تھے اور نہ ان کی سرکاریں انگریزی مذاق رکھتی تھیں۔ اس وجہ سے ان کا کلام قدیم رنگ پر تھا۔

    لیکن جناب اکبر قدیم علوم کے علاوہ انگریزی زبان کے بھی ماہر ہیں اوراسی مناسبت سے جناب اکبر نے اپنے کلام میں جابجا انگریزی زبان کے الفاظ کو بھی کھپایا ہے اور کہیں کہیں یہ ترکیب نہایت دلآویز ہے۔ ظریفانہ رنگ کے اشعار میں یہ ترکیبیں سونے میں سہاگہ ہوگئی ہیں۔ لیکن زیادہ تر غزلیں بہ پابندی تخیل قدیم کہی گئی ہیں۔ اکثر اشعار میرؔ و مرزاؔ اور غالبؔ کے رنگ کے ہیں۔ کچھ غزلیں جناب اکبرؔ نے اپنے خاص رنگ میں کہی ہیں جو ناظرین آگے چل کر ملاحظہ فرمائیں گے۔

    زمانہ حال کی اردو شاعری ایک عجیب کشمکش میں گرفتار ہے۔ انگریزی تعلیم کا خیالات پر ایسا مقناطیسی اثر ہوا ہے کہ لوگ پرانی باتوں سے بیزار ہوگئے ہیں۔ نظم اردو میں بھی یہی کیفیت نمایاں ہے۔ اور شعرا حال کی صاف صاف دو جماعتیں ہوگئی ہیں۔ داغؔ اور حالیؔ کے طفیل میں شعرائے اردو کے ایک دوسرے سے متضاد دو اسکول قائم ہوئے جو کئی لحاظ سے ’درباری‘ اور ’گورنمنٹی‘ یا ’سکولی‘ نام سے نامزد ہو سکتے ہیں۔ ان دونوں طبقوں میں بعد المشرقین ہے۔ ایک نے قدامت پرستی کی قسم کھا لی ہے۔ اور دوسرے ہیں کہ جدت پسندی اور آزادی پر مٹے ہوئے ہیں۔ اقلیم سخن میں ان دونوں متضاد جماعتوں کی بدولت ایک طرح کا تہلکہ مچا ہوا ہے۔ ملک میں ایک طرف تو دربار سخن سے ان کے نکالنے کی فکر ہو رہی ہے، کلمہ تکفیر پڑھا جا رہا ہے۔ اور دوسری جانب ان کے حقوق شاعرانہ پر جھگڑا برپا ہے۔ عام شائقین سخن ان دونوں کو ضرورت سے زیادہ جوشیلا پاتے ہیں، اور اعتدال پسند کرتے ہیں۔ یہی ہر دلعزیز ہوتا بھی ہے۔

    اس میں شک نہیں کہ پرانے قصوں، اور استعاروں اور تشبیہوں کے محض دہرانے سے موجودہ زمانے کے لوگ مسرور کیا مطمئن بھی نہیں ہو سکتے۔ دل شاعری سے لفظوں کے الٹ پھیر کے سوا کچھ اور کی بھی توقع رکھتا ہے۔ ساتھ ہی اس کے ابھی بالکل آزادی بھی مناسب نہیں جو نظم کی اشد ضروری قیود کا بھی لحاظ نہ رکھا جائے۔ نرے وعظ خشک قبول خاطر نہیں ہوتے۔ نظم سے لوگ ظاہر فائدے کے بہ نسبت مسرت کی زیادہ امید رکھتے ہیں۔ مگراس پہلو کو بالکل نظر انداز کرنا بھی خلاف مصلحت ہے۔

    شکر ہے کہ ان دونوں جماعتوں کے بین بین چند ایسے شعرا بھی ہیں جنہوں نے زبان اور نظم پر قادر الکلام ہونے کے ساتھ ساتھ ضروریات زمانہ کو بھی بخوبی محسوس کر لیا ہے اور ان میں ہم جناب خان بہادر سید اکبر حسین صاحب جج الہ آباد کا درجہ بہت اونچا پاتے ہیں۔ آپ نے زمانے کے خیالات اور ضروریات کا صحیح اندازہ کر لیا ہے۔ ان کے کلام میں دونوں رنگ اعتدال کے ساتھ موجود ہیں۔ اور اسی وجہ سے آپ کی شاعری اس درجہ مقبول خاص و عام ہے۔ آپ کو دلچسپی اور دلفریبی کے لحاظ سے پرانے طرز سخن کا بھی پاس ہے اور اس کے ساتھ ہی خیالات میں اس کے تنگ حدود کی پابندی منظور نہیں۔ اسی وجہ سے آپ کا کلام موجودہ معیار شاعری کے مطابق ہے۔ اس میں ایشیائی انداز بیان میں مغربی خیالات کے اعلیٰ ترین نمونے ملتے ہیں۔ موجودہ زندگی کے مختلف مسائل پر بھی خاطرخواہ ہدایت اور ہمدردی ہوتی ہے۔ جذبات انسانی کی بھی جھلک رہتی ہے۔ اور کیا عجب ہے کہ کچھ دنوں میں ملک کے مختلف اثرات آپ کے انداز سخن پر مستقل طور سے قائم ہو جائیں۔ اوراس طرح میدان نظم کے موجودہ فریق مل کر ایک ہو جائیں۔

    مگر فی الحال کشمکش جاری ہے۔ اور اس کو جناب اکبرؔ نے ایک نہایت لطیف پیرائے میں بیان کیا ہے،

    قدیم وضع پہ قائم رہوں اگر اکبرؔ 
    تو صاف کہتے ہیں ’سید‘ یہ رنگ ہے میلا

    جدید طرز اگر اختیار کرتا ہوں
    خود اپنی قوم مچاتی ہے شور واویلا

    جو اعتدال کی کہئے تو وہ ادھر ادھر
    زیادہ حد سے دیے سب نے پاؤں میں پھیلا

    ادھر یہ ضد ہے کہ لمنڈ بھی چھو نہیں سکتے
    ادھر یہ دھن ہے کہ ’ساقی صراحی مے لا‘

    ادھر ہے دفتر تدبیر و مصلحت ناپاک
    ادھر ہے وہی ولایت کی ڈاک کا تھیلا

    غرض دوگونہ غذا بست جان مجنوں را
    بلائے صحبت لیلیٰ و فرقت لیلیٰ

    مگر اس مشکل کو اکبرؔ نے نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ آسان کر دکھایا ہے اور ہر شخص اپنے اپنے مذاق کے موافق آپ کے کلام سے اشعار کا انتخاب کر سکتا ہے۔ عشق و محبت کے جن جذبات کو آپ نے موزوں کیا ہے وہ نہایت خوبی سے نظم کئے گئے ہیں۔ تغزل کا رنگ ایسا پیارا ہے کہ عاشق مزاج سخن فہم آپ کا کلام پڑھ کر بے چین ہو سکتا ہے۔ کلام میں بے ساختگی ہی وہ شے ہے جو دلوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ جناب اکبرؔ کے دیوان میں اکثر اشعار تیر و نشتر کا کام دینے والے ہیں۔ اشعار کا مفہوم قرین قیاس ہے اور مبالغہ بھی بالکل دور از قیاس نہیں بلکہ خوش آئند۔ وہ تمام خوبیاں جو ایک کہنہ مشق اور خوش فکر شاعر کے کلام میں ہونا چاہئے، آپ کی کلیات میں موجود ہیں۔

    آپ کا کلیات چالیس سال کی محنت کا نتیجہ ہے۔ غزلیں، رباعیات، قطعات ومثنویات، ظریفانہ اور متفرق اشعار کا ایک دلچسپ مجموعہ ہے۔ یہ ضرور ہے کہ کلیات باعتبار ترتیب اس قابل ہے کہ طبع ثانی میں اس کی اصلاح کر دی جائے لیکن اس بات کو نفس مطلب سے زیادہ تعلق نہیں ہے۔ مبصر اور نقاد سخن تو کلام کی خوبیوں کو دیکھتا ہے اور اس لحاظ سے یہ کلیات بہت ہی قابل قدر ہے۔ اس کی اشاعت سے ایشیائی شاعری میں موجودہ زمانے کے موافق معقول اضافہ ہوا ہے۔ کچھ مختصر انتخاب ملاحظہ ہو،

    مری حقیقت ہستی یہ مشت خاک نہیں
    بجا ہے مجھ سے جو پوچھے کوئی پتا میرا

    در حقیقت یہ شعر اپنے مفہوم کے اعتبار سے بہت بلیغ ہے۔ واقعی انسان کی ہستی فقط مشت خاک ہی نہیں، عارف مشت خاک کی حقیقت کو سمجھ سکتا ہے اور اسی واسطے ایک اسلام لیڈر (پیشوا) نے کہا ہے من عرف نفسہ فقد عرف ربہ یعنی جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا۔ مصرعہ ثانی صاف ہے اور طالب حقیقت کو چاہتے ہیں کہ کاش وہ اس رمز کو دریافت کرے۔ ایک اردو شعر میں یہ نازک خیالی معمولی بات نہیں ہے۔

    پیغمبرؐ اسلام صلعم کی نعت میں یہ اشعار خوب کہے ہیں،

    در فشانی نے تری قطروں کو دریا کردیا
    دل کو روشن کردیا آنکھوں کو بینا کردیا

    خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے
    کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کر دیا

    ہمراز
    دل مرا جس سے بہلتا کوئی ایسا نہ ملا
    بت کے بندے ملے اللہ کا بندا نہ ملا

    وارفتگی عشق
    واہ کیا راہ دکھائی ہے ہمیں مرشد نے
    کر دیا کعبے کو گم اور کلیسا نہ ملا

    اسی زمیں میں دو ظرافت آمیز شعر ہیں،

    رنگ چہرے کا تو کالج نے بھی رکھا قائم
    رنگ باطن میں مگر باپ سے بیٹا نہ ملا

    سید اٹھے جو گزٹ لے کے تولا کھوں لائے
    شیخ قرآن دکھاتے پھرے پیسا نہ ملا

    اگر یہ شعر غزل سے الگ کسی نظم میں شامل کئے جاتے تو دلچسپی بڑھ جاتی مگر جناب اکبرؔ کی بے تکلف طبیعت نے اس کا خیال نہیں کیا۔ عاشقانہ رنگ میں یہ اشعار قابل داد ہیں اورخوبی یہ کہ ان میں تصوف کی جھلک بھی موجود ہے،

    غنچہ دل کو نسیم عشق نے وا کردیا
    میں مریض ہوش تھا مستی نے اچھا کردیا

    دین سے اتنی الگ حد فنا سے یوں قریب
    اس قدر دلچسپ کیوں پھر رنگ دنیا کردیا

    سب کے سب ماہر ہوئے وہم و خرد ہوش و تمیز
    خانہ دل میں تم آؤ ہم نے پردا کردیا

    توحید
    تصور اس کا جب بندھا تو پھر نظر میں کیا رہا
    نہ بحث این و آں رہی نہ شورما سوا رہا

    آزادانہ
    جو مل گیا وہ کھانا داتا کا نام جپنا
    اس کے سوا بتاؤں کیا تم سے کام اپنا

    عاشقانہ
    عقل کو کچھ نہ ملا علم میں حیرت کے سوا
    دل کو بھایا نہ کوئی رنگ محبت کے سوا

    بڑھنے تو ذرا دو اثر جذبہ دل کو
    قائم نہیں رہنے کا یہ انکار تمہارا

    باعث تسکین نہ تھا باغ جہاں کا کوئی رنگ
    جس روش پر میں چلا آخر پریشاں ہوگیا

    جناب اکبرؔ نے یہ شعر خوب کہا ہے اور گویا غالبؔ کے مضمون کو دوسرے پیرایہ سے نظم کیا ہے،

    بوئے گل نالہ دل دود چراغ محفل
    جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا

    درازی عمر کی شکایت
    بس یہی دولت دی تو نے اے عمر عزیز
    سینہ اک گنجینہ داغ عزیزاں ہو گیا

    ہے غضب جلوہ دیر فانی کا
    پوچھنا کیا ہے اس کے بانی کا

    ہوش بھی بار ہے طبیعت پر
    کیا کہوں حال ناتوانی کا

    معرفت
    نسیم مستانہ چل رہی ہے
    چمن میں پھر رت بدل رہی ہے
    صدا یہ دل سے نکل رہی ہے
    وہی ہے یہ گل کھلانے والا

    ترک تعلق
    خودی گم کر چکا ہوں اب خوشی و غم سے کیا مطلب
    تعلق ہوش سے چھوڑا تو پھر عالم سے کیا مطلب

    جسے مرنا نہ ہو وہ حشر تک کی فکر میں الجھے
    بدلتی ہے اگر دنیا تو بدلے ہم سے کیا مطلب

    مری فطرت میں مستی ہے حقیقت میں ہے دل میرا
    مجھے ساقی کی کیا حاجت مے جام جم سے کیا مطلب

    دل ہو وفا پسند نظر ہو حیا پسند
    جس حسن میں یہ وصف ہو وہ ہے خدا پسند

    توڑوں پہ تیرے جھومنے لگتی ہے شاخ گل
    بے حد ہے تیرا ناچ مجھے اے صبا پسند

    اردو کے سلسلے میں بعض فارسی غزلیں بھی درج کردی گئی ہیں اور انصاف یہ ہے کہ جناب اکبرؔ فارسی میں بھی ایک زبان داں کی حیثیت سے کہتے ہیں۔ دو ایک شعر ملاحظہ ہوں،

    وقت بہار گل دلم از ہوش دور بود
    موج نسیم دشمن شمع شعور بود

    یک جلوہ گردد صورت پروانہ سوختم
    آرہی ہیں علاج دل ناصبور بود

    خوش بود آں زماں خودی از خود خبرنداشت
    ہوشم بخواب بود دلم از حضور بود

    اردو
    موقوف کچھ نہیں ہے فقط مے پرست پر
    زاہد کو بھی ہے وجد تری چشم مست پر

    اس باوفا کو حشر کا دن ہوگا روز وصل
    قائم رہا جو دہر میں عہد الست پر

    جدید ترکیب اور ظریفانہ رنگ میں یہ مطلع ملاحظہ ہو،

    میل نظرہے زلف مس کج کلاہ پر
    سونا چڑھا رہا ہوں میں تار نگاہ پر

    عاشقی اور امید
    طبع کرتی ہے ترے عشق کی تائید ہنوز
    ان جفاؤں پہ بھی ٹوٹی نہیں امید ہنوز

    دوسرا شعر اکثر ہندوستانیوں کے حسب حال ہے،

    نہ خوشی ہوتی ہے دل کو نہ طبیعت کو ابھار
    پھر بھی سالانہ کئے جاتے ہیں ہم عید ہنوز

    شب فراق کا منظر
    شب فراق کی خیالی تصویر شعرا نے مختلف انداز سے اتاری ہے۔ غالبؔ نے اس خیال کو یوں نظم کیا ہے،

    داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی
    ایک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے

    جناب اکبرؔ نے بھی اس خیال کو اثر انداز لہجے سے موزوں کیا ہے،

    نہیں کوئی شب تار فراق میں دل سوز
    خموش شمع ہے خود جل رہے ہیں شام سے ہم

    نگاہ پیرمغاں کہتی ہے مریدوں سے
    رہ سلوک میں واقف ہیں ہر مقام سے ہم

    جناب اکبر کا یہ شعر حافظ شیرازی کے اس شعر کے مفہوم کے قریب قریب ہے،

    بے مے سجادہ رنگیں کن کرت پیر مغاں گوید
    کہ سالک بے خبر نبود زراہ و رسم منزلہا

    انقلاب زمانہ
    فلک کے دور میں ہارے ہیں بازی اقبال
    اگرچہ شاہ تھے بدتر ہیں اب غلام سے ہم

    نازک خیالی
    مری بے تابیاں بھی خود ہیں اک میر ہستی کی
    یہ ظاہر ہے کہ موجیں خارج از دریا نہیں ہوتیں

    افسردہ دلی
    ہوا ہوں اس قدر افسردہ رنگ باغ ہستی سے
    ہوائیں فصل گل کی بھی نشاط افزا نہیں ہوتیں

    قضا کے سامنے بے کار ہوتے ہیں حو اس اکبرؔ
    کھلی ہوتی ہیں گو آنکھیں مگر بینا نہیں ہوتیں

    آزادی کے لالے
    اتنی آزادی بھی غنیمت ہے
    سانس لیتا ہوں بات کرتا ہوں

    مشکلات حق شناسی
    معرفت خالق کی عالم میں بہت دشوار ہے
    شہر تن میں جبکہ خود اپنا پتا ملتا نہیں

    دوستوں کی یاد
    زندگانی کا مزا ملتا تھا جن کی بزم میں
    ان کی قبروں کا بھی اب مجھ کو پتا ملتا نہیں

    دشت غربت کی بے کسی
    بے کسی میری نہ پوچھ اے جادہ راہ طلب
    کارواں کیسا کہ کوئی نقش پا ملتا نہیں

    یوں کہو مل آؤں ان سے لیکن اکبر سچ یہ ہے
    دل نہیں ملتا تو ملنے کا مزا ملتا نہیں

    عاشقانہ زندگی
    دل زیست سے بیزار ہے معلوم نہیں کیوں
    سینہ پہ نفس بار ہے معلوم نہیں کیوں

    جس سے دل رنجور کو پہنچی ہے اذیت
    پھر اس کا طلب گار ہے معلوم نہیں کیوں

    انداز تو عشاق کے پائے نہیں جاتے
    اکبرؔ جگر افگار ہے معلوم نہیں کیوں

    ذیل کی طرح میں آپ نے ایک طولانی غزل لکھی ہے اور خوب خوب شعر نکالے ہیں۔ غالباً یہ غزل مشاعرہ مقام پریانواں میں کہی ہے۔ یہ ساری غزل مرصع ہے۔ دوتین شعر ملاحظہ ہوں،

    ہجر کی رات یوں ہوں میں حسرت قدیار میں
    جیسے لحد میں ہو کوئی حشر کے انتظار میں

    رنگ جہاں کے ساتھ کاش میری یونہی ہو بسر
    جیسے گل و نسیم کی نبھ گئی چاہ پیار میں

    آنکھ کی ناتوانیاں حسن کی لن ترانیاں
    پھر بھی ہیں جانفشانیاں کوچہ انتظار میں

    ترغیب درستی اخلاق
    آئینہ رکھ دے بہار غفلت افزا ہو چکی
    دل سنوار اپنا جوانی میں خود آرا ہو چکی

    خانہ تن کی خرابی پر بھی لازم ہے نظر
    زینت آرائش قصر معلیٰ ہو چکی

    بے خودی کی دیکھ لذت کرکے ترک آرزو
    ہو چکی حد ہوس مشق تمنا ہو چکی

    چل بسے یاران ہمدم اٹھ گئے پیارے عزیز
    آخرت کی اب کر اکبرؔ فکر دنیا ہو چکی

    عیادت کو آئے شفا ہو گئی
    علالت ہماری دوا ہو گئی

    پڑھی یاد رخ میں جو میں نے نماز
    عجب حسن کے ساتھ ادا ہو گئی

    بتوں نے بھلایا جو دل سے مجھے
    مرے ساتھ یاد خدا ہوگئی

    مریض محبت ترا مر گیا
    خدا کی طرف سے دوا ہو گئی

    نہ تھا منزل عافیت کا پتہ
    قناعت مری رہنما ہوگئی

    اشارہ کیا بیٹھنے کا مجھے
    عنایت کی آج انتہا ہوگئی

    دوا کیا کہ وقت دعا بھی نہیں
    تری حالت اکبرؔ یہ کیا ہوگئی

    حقیقت عالم
    دو عالم کی بنا کیا جانے کیا ہے
    نشان ماسوا کیا جانے کیا ہے

    مری نظروں میں ہے اللہ ہی اللہ
    دلیل ماسوا کیا جانے کیا ہے

    جنون عشق میں ہم کاش مبتلا ہوتے
    خدا نے عقل جو دی تھی تو باخدا ہوتے

    لطف زباں
    یہ خاکسار بھی کچھ عرض حال کر لیتا
    حضور اگر متوجہ ادھر ذرا ہوتے

    یہ ان کی بے خبری ظلم سے بھی افزوں ہے
    اب آرزو ہے کہ وہ مائل جفا ہوتے

    بے ثباتی عالم
    دو ہی دن میں رخ گل زرد ہوا جاتا ہے
    چمن دہر سے دل سرد ہوا جاتا ہے

    رقابت
    میرے حواس عشق میں کیا کم ہیں منتشر
    مجنوں کا نام ہوگیا قسمت کی بات ہے

    تعلقات حسن و عشق
    سو رنگ تصور میں ہم اے جان درآئے
    ہر رنگ میں تم آفت ایمان نظر آئے

    عاشقانہ
    دم لبوں پرتھا دل زار کے گھبرانے سے
    آگئی جان میں جان آپ کے آجانے سے

    انقلاب زمانہ اور فقدان اتفاق
    کل تک محبتوں کے چمن تھے کھلے ہوئے
    دو دل بھی آج مل نہیں سکتے ملے ہوئے

    تمہیں سے ہوئی مجھ کو الفت کچھ ایسی
    نہ تھی ورنہ میری طبیعت کچھ ایسی

    گرے میر ی نظروں سے خوبان عالم
    پسند آگئی تیری صورت کچھ ایسی

    ذیل کی غزل میں قافیہ و ردیف کس قدر چسپاں ہے۔ نازک خیالی کے ساتھ تغزل کی شان بھی دیکھنے کے قابل ہے،

    درد دل بھی نہ تھا سوزش جگر بھی نہ تھی
    ان آفتوں کی تو الفت میں کچھ خبر بھی نہ تھی

    زمانہ سازی ہے اب یہ کہ منتظر تھا میں
    ہمارے آنے کی تم کو تو کچھ خبر بھی نہ تھی

    لپٹ گئے وہ گلے سے مرے تو حیرت کیا
    وہ سنگ دل بھی نہ تھے آہ بے اثر بھی نہ تھی

    شہید جلوۂ مستانہ ہو گیا شب وصل
    خوشی نصیب میں عاشق کے رات بھر بھی نہ تھی

    یہاں تک جو کچھ انتخاب کیا گیا وہ قدیم رنگ تغزل کو لئے ہوئے ہے۔ اکبرؔ نے حسن وعشق، شوخی اور ضد معشوقہ وغیرہ سب مضامین پرخوب خوب طبع آزمائیاں کی ہیں مگر ہم بخوف طوالت اس صنف میں اسی قدر انتخاب کو کافی سمجھتے ہیں اور اب آپ کی شاعری کی اس امتیازی خصوصیت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، جس نے آپ کو سر آمد شعرائے روزگار بنا دیا ہے اور جس نے آپ کے کلام کو ایک نرالی اور بہت مرغوب شان عطا کی ہے۔ ہماری مراد آپ کے خداداد ظریفانہ رنگ سخن سے ہے جو آپ کے تمام کلام میں موجود ہے۔ اور جس سے آپ کی نصیحت دل پذیر اور موثر اور آپ کی فضیحت و دل نشیں اور کامیاب ہوتی ہے۔ 

    حسن اتفاق سے کہئے یا مصلحت ایزدی سے آپ کا وجود قوم کے دماغی نشو و نما کے لحاظ سے تاریخ ہند کے ایک نازک زمانے میں ہوا ہے۔ جس میں دو عظیم الشان تہذیبوں کی کشمکش درپیش ہے۔ ایک طرف مغربی تہذیب کا سکہ پھر رہا ہے۔ دوسری جانب مشرقی تہذیب پر دلوں پر تسلط جمائے ہوئے ہے۔ خیالات اور معاشرت غرض زندگی کے ہر پہلو میں تغیر و تبدل کا زمانہ اور افراط و تفریط کا عہد ہے۔ ابھی تک کسی حالت پر قرار کی صورت پیدا نہیں ہو سکی ہے۔ اور اس لئے مختلف قسم کی خرابیاں ظاہر ہو رہی ہیں۔ اور افراد قوم کے خیال ومقال، علم اور عمل مذہب اور معاشرت، جذبات اور محسوسات میں عجب اختلاف اور نیرنگیاں اور طرح طرح کی ایک دوسرے سے متضاد بدعملیاں نمایاں ہو رہی ہیں۔ 

    ایسی حالت میں ایک ناصح، شفیق مذاق اور مضحکہ سے جو کام لے سکتا ہے، وہ پند و نصیحت سے ممکن نہیں ہے۔ اور یہی جناب اکبر کی ظرافت کی علت غائی ہے۔ اس رنگ میں ان کی شاعری نے جو کمال حاصل کیا ہے وہ اردو میں آج تک کسی کو نصیب ہی نہیں ہوا۔ ایک لفظ ایک فقرے میں آپ وہ بات پیدا کردیتے ہیں۔1 جو دوسروں سے صفحوں کے صفحے رنگ ڈالنے پر بھی ممکن نہیں۔ بعض اشعار تو بالکل کشت زعفراں ہیں۔ پولٹیکل واقعات کا بھی آپ نے مضحکہ اڑایا ہے،

    کرزن و کنچر کی حالت پر جوکل
    وہ صنم تشریح کا طالب ہوا

    کہہ دیا میں نے کہ ہے یہ صاف بات
    دیکھ لو تم زن پہ نر غالب ہوا

    مناسبت وقت
    شیخ صاحب یہ تو اپنے اپنے موقع کی بات ہے
    آپ قبلہ بن گئے میں اسکوائر ہو گیا

    اس زمانے کے نوجوانوں کے حسب حال یہ شعر بھی خوب کہا ہے،

    پری کی زلف میں الجھا نہ ریش واعظ میں
    دل غریب ہوا لقمہ امتحانوں کا

    وہ حافظہ جو مناسب تھا ایشیا کے لئے
    خزانہ بن گیا یورپ کی داستانوں کا

    آسائش عمر کے لئے کافی ہے
    بی بی راضی ہوں اور کلکٹر صاحب

    پردہ اور ہندوستانی
    پردے میں ضرور ہے طوالت بے حد
    انصاف پسند کو نہیں چاہئے ہٹ

    تشبیہ بری نہیں اگر میں یہ کہوں
    بیگم صاحب پیچواں لیڈی سگریٹ

    ہر رنگ کی باتوں کا مرے دل میں ہے جھرمٹ
    اجمیر میں کلچا ہوں علی گڑھ میں ہوں بسکٹ

    پابند کسی مشرب و ملت کا نہیں ہوں
    گھوڑا مری آزادی کا اب جاتا ہے بگ ٹٹ

    بی شیخانی بھی ہیں بہت ذی ہوش
    کہتی ہیں شیخ سے بجوش و خروش

    خواہ لنگی ہو خواہ ہو تہمد
    در عمل کوش ہر چہ خواہی پوش

    شمع سے تشبیہ پا سکتے ہیں یہ عیاش امیر
    رات بھر پگھلا کریں دن بھر رہیں بالائے طاق

    میرے منصوبے ترقی کے ہوئے سب پائمال
    بیج مغرب نے جو بویا وہ اگا اور پھل ہوگیا

    بوٹ ڈاسن نے بنایا میں نے اک مضمون لکھا
    ملک میں مضمون نہ پھیلا اور جوتا چل گیا

    کوٹھی میں جمع ہے نہ ڈپازٹ ہے بینکس میں
    قلاش کر دیا مجھے دوچار تھینکس میں

    پانیر کے صفحہ اول میں جس کا نام ہو
    میں ولی سمجھوں جواس کو عاقبت کی فکر ہو

    جال دنیا سے بے خبر ہیں آپ
    تو تقدس مآب بے شک ہیں

    شیخ جی پر یہ قول صادق ہے
    چاہ زمزم کے آپ مینڈھک ہیں

    ماشاء اللہ وہ ڈنر کھاتے ہیں
    بنگالی بھائی ان کا سر کھاتے ہیں

    بس ہم ہیں خدا کے نیک بندے اکبرؔ
    ان کی گاتے ہیں اپنے گھر کھاتے ہیں

    موکل چھٹے ان کے پنجے سے سب
    تو بس قوم مرحوم کے سر ہوئے

    پپیہے پکارا کئے پی کہاں
    مگر وہ پلیڈر سے لیڈر ہوئے

    شو میکری شروع جو کی ایک عزیز نے
    جو سلسلہ ملاتے تھے بہرام گور سے

    پوچھا کہ بھائی تم تھے تلوار کے دھنی
    مورث تمہارے آئے تھے غزنی و غور سے

    کہنے لگے ہے اس میں بھی اک بات نوک کی
    روٹی اب ہم کھاتے ہیں جوتی کے زور سے

    اپنے بھائی کے مقابل کبر سے تن جایئے
    غیر کا جب سامنا ہو بس قلی بن جایئے

    چندے کی مجلس میں پڑھئے رو کے قرآن مجید
    مذہبی محفل میں لیکن مثل دشمن جایئے

    آپ کی انجمن کی ہے کیا بات
    آہ چھپتی ہے واہ چھپتی ہے

    اپنی گرہ سے کچھ نہ مجھے آپ دیجئے
    اخبار میں تو میرا نام چھاپ دیجئے

    محتاج اور وکیل ومختار ہیں آپ
    سارے عملوں کے ناز بردار ہیں آپ

    آوارۂ و منتشر ہیں مانند غبار
    معلوم ہوا مجھے زمیندار ہیں آپ

    ناظرین ملاحظہ فرمائیں کہ اکبر نے ظرافت اور مذاق میں بھی کیسی خوبیاں پیدا کی ہیں اور در اصل موجودہ تہذیب اور طرز معاشرت کا خاکہ کھینچ دیا ہے۔ اس رنگ میں صدہا اشعار لکھے ہیں۔ اس جدید ظریفانہ رنگ میں آپ کو بڑی جگر کاوی کرنا پڑی ہوگی۔ اس لئے کہ یہ رنگ ظرافت بالکل نیا ہے۔

    اقتباس بالا سے ناظرین کو معلوم ہوگیا ہوگا کہ حضرت اکبر پولٹیکل نکات بھی کس خوبی اور مذاق کے پیرائے میں ادا فرماتے ہیں۔ آپ کے خیالات بالکل آزاد ہیں۔ ملکی معاملات میں بے جا جوش کو برا سمجھتے ہیں۔ ساتھ ہی اس کے خوشامد اور تملق سازی کی پالیسی بھی پسند نہیں فرماتے۔ بقول اپنے،

    میرے نزدیک یہ پنجاب کا بلوا بھی برا
    ساتھ ہی اس کے علی گڑھ کا حلوا بھی برا

    آپ اظہار وفا کیجئے تمکین کے ساتھ
    لیٹ جانا بھی برا ناز کا جلوا بھی برا

    نہ نرے اونٹ ہو نہ ہو بلڈاگ
    نہ تو مٹی ہی ہو نہ ہو تم آگ

    چال ہے اعتدال کی اچھی
    ساز حکمت کا جوڑہے یہ راگ

    مگراس اعتدال پسندی کا یہ مطلب نہیں کہ صورت حال صحیح طورپر محسوس نہ کی جائے یا حقیقت سے آنکھ بند کرلی جائے۔ آپ نے کیا خوب کہا ہے،

    یہ بات غلط دار السلام ہے ہند
    یہ جھوٹ کہ ملک لچھمن ورام ہے ہند

    ہم سب ہیں مطیع و خیر خواہ انگلش
    یورپ کے لئے بس ایک گودام ہے ہند

    دل اس بت فرنگ سے ملنے کی شکل کیا
    میری زبان اور ہے اس کی زبان اور

    بنگالی ہاتھ میں قلم لے تو کیا
    مسلم جو مثال بزم جم لے تو کیا

    ہندی کی نجات ہے نہایت مشکل
    سو مرتبہ مر کے وہ جنم لے تو کیا

    یا اسٹیشن کے بدلے دودھ چائے اور کھانڈ لے
    یا ایجیٹیشن کے بدلے تو چلاجا مانڈلے

    بحث ملکی میں تو پڑنا ہے تری دیوانگی
    پالسی ان کی رہے قائم ہماری دل لگی

    دلچسپ ہوائیں سوئے گلشن پہنچیں
    زلفیں شملے سے تابہ دامن پہنچیں

    درگا بائی سے راجہ جی جب روٹھے
    صدقے ہونے کو بی نصیبن پہنچیں

    آپ ہندو مسلمانوں کے اتفاق کی اشد ضرورت محسوس کرتے ہیں اور اس پر نہایت لطیف اور مؤثر پیرائے میں جابجا زور دیتے اور افسوس کرتے ہیں کہ،

    وہ لطف آب ہندو ومسلماں میں کہاں
    اغیار ان پر گزرتے ہیں خندہ زناں

    جھگڑا کبھی گائے کا زباں کی کبھی بحث
    ہے سخت مضر یہ نسخہ گاؤ زباں

    پھر کہتے ہیں کہ،
    ہندو و مسلم ایک ہیں دونوں
    یعنی یہ دونوں ایشیائی ہیں

    ہم وطن ہم زبان و ہم قسمت
    کیوں نہ کہہ دوں کہ بھائی بھائی ہیں

    ایک مدبر وقت کی حیثیت سے آپ باہمی جھگڑوں اور دونوں کی کمزوریوں کو سمجھتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ آئے دن کی رقابتیں اور سرگوشیاں دلوں کو ایک دوسرے سے پھیر رہی ہیں۔ دونوں،

    چغلیاں اک دوسرے کی وقت پر جڑتے بھی ہیں
    ناگہاں غصہ جو آ جاتا ہے لڑ پڑتے بھی ہیں

    ہندو و مسلم ہیں پھر بھی ایک اور کہتے ہیں سچ
    ہیں نظر آپس کی ہم ملتے بھی ہیں لڑتے بھی ہیں

    کہتا ہوں میں ہندو و مسلماں سے یہی
    اپنی اپنی روش پہ تم نیک رہو

    لاٹھی ہے ہوائے دہر پانی بن جاؤ
    موجوں کی طرح لڑو مگر ایک رہو

    ہزل چھوڑ کر دوسرے کے زٹل تک میں شریک ہو جانا چاہئے۔ اس میں یہ ضرور ہوگا کہ ’’نہ لاٹ صاحب خطاب دیں گے نہ راجہ جی سے ملے گا ہاتھی لیکن یہ تو کوئی نہ کہہ سکے گا تمہارے دشمن کہاں بغل میں۔‘‘ آپ سمجھتے ہیں اور کس خوبی سے اس کا اظہار کرتے ہیں کہ قوم اپنے ہی قوت بازو سے ابھر سکتی ہے۔ کیونکہ،

    دنیا میں ضرورت زور کی ہے اور آپ میں مطلق زور نہیں
    یہ صورت حال ہے قائم تو امن کی جا جز گور نہیں

    اے بھائیو بابو صاحب سے کھنچنے کا نہیں ہے کوئی محل
    گو نسل علاؤ الدین میں ہو مسکن تو تمہارے غور میں

    ایک دوسرے پولٹیکل مسئلے کو کیسے شاعرانہ استعارات میں ادا فرمایا ہے،

    اونٹ نے گاؤں کی ضد پر شیر کو ساجھی کیا
    پھر تو مینڈک سے بھی بدتر سب نے پایا اونٹ کو

    جس پہ رکھا چاہتے ہو باقی اپنی دسترس
    مونہہ میں ہاتھی کے کبھی اے بھائی وہ گنا نہ دو

    ملکی ترقی کی تمام معقول تحریکوں کے ساتھ آپ کو پوری ہمدردی ہے۔ آپ کے کلام میں ایسے اشعار اکثر ملتے ہیں جو ملکی کام کرنے والوں کے لئے چراغ ہدایت ہیں۔ قابل مضحکہ باتوں کا خاکہ اڑانے کے ساتھ ساتھ اچھی تحریکوں کی حمایت میں آپ دل بھی کس طرح بڑھاتے ہیں۔ تحریک سودیشی پر کیا خوب کہا ہے کہ،

    داخل مری دانست میں یہ کام ہے پن میں
    پہنچائے گا قوت شجر ملک کے بن میں

    تحریک سودیشی پہ مجھے وجد ہے اکبرؔ
    کیا خوب یہ نغمہ ہے چھڑا دیس کے دھن میں

    موجودہ تہذیب کے قابل مضحکہ پہلوؤں پر ہم حضرت اکبرؔ کے خیالات ظاہر کر چکے ہیں۔ فی زمانہ چندوں کی بھرمار اور عملی اور اصلی کام کی کمی اس نئی تہذیب کی ایک مضحکہ خیز شان ہے۔ روپیہ کا زور، روپیہ کا وقت بے وقت ذکر، اس کے وصول کرنے کی مختلف تدبیرں، غرض ان سب باتوں پر آپ نے خوب لے دے کی ہے۔ آپ بانیان علی گڑھ کالج کے دوستوں میں ہیں مگر کسی کے مقلد نہیں بلکہ بالکل آزاد خیال ہیں اور جس میں جو کمزوری دیکھتے ہیں اس طرح کہہ دیتے ہیں کہ کسی کو گراں نہ گزرے اور سب کے کام بھی ہو جائیں۔ علی گڑھ کالج کے نامور بانی کی آپ نے اکثر موقعوں پر نہایت گرم جوشی سے تعریف کی ہے۔ قابل گرفت باتوں پر مضحکہ بھی خوب اڑایا ہے۔ یہاں پر ہم صرف چند باتوں پر آپ کے ہنسا دینے والے ریمارک اور پھبتیاں ظیافت طبع کے لئے درج کرتے ہیں،

    کیجئے ثابت خوش اخلاقی سے اپنی خوبیاں
    یہ نمود جبہ و دستار رہنے دیجئے

    ظالمانہ مشوروں میں میں نہیں ہوں گا شریک
    غیر ہی کو محرم اسرار رہنے دیجئے

    کھل گیا مجھ پر بہت ہیں آپ میرے خیرخواہ
    خیر چندہ لیجئے طومار رہنے دیجئے

    اسیر دام زلف پالیسی مدت سے بندہ ہے
    فصاحت نذر لیکچر ہے ریاست نذرچندہ ہے

    جزیے کو سدھارے ہوئے مدت ہوئی اکبرؔ
    البتہ علی گڑھ کی لگی ایک یہ پخ ہے

    اب کہاں تک بت کدے میں صرف ایماں کیجئے
    تا کجا عشق بتان سست پیماں کیجئے

    ہے یہی بہتر علی گڑھ جاکے سید سے کہوں
    مجھ سے چندہ لیجئے مجھ کو مسلماں کیجئے

    جیب خالی پھرا کیا بندہ
    لے گئے احباب اس قدر چندہ

    ایمان بیچنے پر ہیں اب سب تلے ہوئے
    لیکن خرید ہو جو علی گڑھ کے بھاؤ سے

    شیخ صاحب چل بسے کالج کے لوگ ابھرے ہیں اب
    اونٹ رخصت ہوگئے پولو کے گھوڑے رہ گئے

    غرض کہاں تک انتخاب کیجئے۔ اس لسان العصر نے زندگی کے ہر پہلو پر غائر نظر ڈالی ہے اور مذاق مذاق میں سب کچھ دلنشیں کر دیا ہے۔ ذاتی حالات کی بھی کہیں کہیں جھلک مل جاتی ہے۔ حضرت اکبرؔ نے اپنے کلیات سے سوانح عمری کا کام نہیں کیا ہے۔ تاہم کہیں کہیں پر دلی جذبات کے ساتھ ایک آدھ ذاتی خیالات بھی شامل ہوگئے ہیں۔ کئی سال سے آپ کو آنکھوں کی سخت شکایت ہے،

    کونسل سے ہر طرح کا قانون آرہا ہے
    مطبع سے ہر طرح کا مضمون آرہا ہے

    لیکن پڑھوں میں کیوں کر آنکھوں کی ہے یہ حالت
    اشک آ رہے تھے پہلے اب خون آ رہا ہے

    بصارت نے کمی کی انحطاط عمر میں اکبرؔ
    بصیرت ہے تو آنکھیں مجھ سے اب آنکھیں چراتی ہیں

    ایک عرصہ دراز تک آپ کے صاحبزادے لندن میں اور آپ یہاں مدت مجوزہ کے بعد ان کی جلد واپسی کے لئے بے قرار تھے۔ اکثر مقامات پر یہ بے قراری ظاہر ہوگئی ہے،

    ہند میں ہوں مرا نور نظر لندن میں ہے
    سینہ پر غم ہے یہاں لخت جگر لندن میں ہے

    دفتر تدبیر تو کھولا گیا ہے ہند میں
    فیصلہ قسمت ہے اے اکبرؔ مگر لندن میں ہے

    اب ہم اس مضمون کو ختم کرتے ہیں۔ آپ کا کلام بہت سی خوبیوں کا مجموعہ ہے اور اس معیار شاعری پر جو آپ نے شعر ذیل میں مقرر کیا ہے پورا اترتا ہے۔


    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے