Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کالیداس گپتا رضاؔ۔ بڑا شاعراس سے بڑا انسان

خلیق الزماں نصرت

کالیداس گپتا رضاؔ۔ بڑا شاعراس سے بڑا انسان

خلیق الزماں نصرت

MORE BYخلیق الزماں نصرت

    کالیداس گپتا رضاؔ اردو ادب کا وہ رمز آشنا، شاعر و ادیب تھا۔ جس نے غالبیات پر دفتر کے دفتر لکھ ڈالے ہیں اور غالب جیسے مشکل پسند شاعر پر متعلقاتِ غالب، آبِ حیات میں ترجمۂ غالب۔ دعائے مباح۔ غالبیات ہند عنوانات شہر شہر غالب غالب۔ انتخابِ رقعات و اشعارِ غالب، اسداللہ خاں غالب مرد کے عنوان سے اردو کے خزانے میں ۲۰ کتابوں کا اضافہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ شعلۂ خاموش، شورشِ پنہاں، شاخِ گل، گیت اور بھجن۔ شعاعِ جاوید (رباعیات) انگلش میں روڈ ٹو ایسٹ ونڈ، نظم سمندر سے ابھی ناؤ نہ باندھو تک۔ ۱۴ کتابیں شعری تصنیف کی ہیں اور اردو کے سرمایہ کو علم شعر و فن کے لعل و جواہر سے بھر دیا ہے

    اردو کے معتبر شاعر علی سردار جعفری نے کالیداس گپتا رضاؔ کے عنوان سے جو نظم کہی ہے وہ ایک عجیب و غریب نظم ہے جس میں رضاؔ کی زندگی، فکر و فن اردو دانی اردو سے شیفتگی کا والہانہ ذکر کیا ہے۔

    روش رضائے الٰہی کی ہے عجیب و غریب

    ہمارے عہد میں آیا ایک رمز شناس

    ہے اس کے علم کے شعلے میں جوہرِ شمشیر

    اور اس کے ذوقِ سخن میں ہے جوہرِ الماس

    بجھا سکے نہ جسے موجِ کوثر و تسنیم!

    خدا کرے کہ بڑھے اور اُس کے علم کی پیاس

    خدا کرے کہ ملے اس کو منزلِ تحقیق

    پہنچ سکیں نہ جہاں رہروانِ وہم و قیاس

    ابھی کچھ اور بھی نقش و نگار لوح و قلم

    کہ زندگی کا صنم خانہ آج بھی ہے اداس

    کوئی ورق ورقِ آفتاب نو کی طرح

    ابھی سحر کے ہے تن پر شب سیہ کا لباس

    جو گل بہشت تخیل میں کھلتا رہتا ہے

    نہ وہ زمین کے دل میں ہے نہ آسمان کے پاس

    ’’سلامت ہر و حرف در سلامت تست‘‘

    کہ جزو اعظم گپتا ہے اسم کالی داس

    علی سردار جعفری کا یہ خراج تحسین بظاہر قصیدہ سا لگتا ہے تاہم اس میں علی سردار جعفری کے علاوہ کالیداس گپتا رضاؔ کی علمیت، اردو فارسی دانی، فکری علو، رفعتِ شعر کا تعارف موجود ہے۔ رضاؔ کی قد آور اور انسانی شخصیت کا لفظی انعکاس ہے۔ اس کے علاوہ ۲۶ تصانیف اور تالیفات اور بھی ہیں جو اپنی علمی بلند قامتی اور صحت مند انتقادیات و تحقیق و شعریات اور مرتبات کے ذیل میں آتی ہیں۔ قدسی الہ آبادی اور نعت قدسی، ہندوستانی مشرقی افریقہ میں، بہارِ اردو گلشنِ مشرقی افریقہ میں۔ علی سردار جعفری اپنی بہنوں کی نظر میں سہو و سراغ، فرہنگِ عارفاں، سروقدواں بیچ، حرف مدعا بیگانے اہم غیر اہم، غزالاں تم تو واقف ہو۔ وغیرہ ایسی تصانیف ہیں جو اپنی علمی، تحقیقی، تنقیدی اور تذکراتی روح کے اعتبار سے بڑے پائے کی تسلیم کی جاتی ہیں۔ اپنی زندگی کے مختصر اور معدود دنوں، ایام اور مہ و سال میں کوئی اتنی کتابیں بھی لکھ سکتا ہے اور وہ بھی ایسا اہل قلم جو اردو تہذیب و معاشرت کی بجائے اس تہذیب میں معاشرت سے ابھرا ہو جو اس کی مادری زبان بھی نہ ہو۔ یہ بات حیرت ناک ہی نہیں کالیداس گپتا رضاؔ کے علم و فن اور اس کے مقام و مرتبہ کو واضح کرتی ہے۔

    دراصل رضاؔ کی غیر معمولی شخصیت، اردو سے ان کے کمال درجے کا لگاؤ اس کا سبب ہے۔ رضاؔ نے زندگی کے گنے ہوئے دنوں میں غالباً یہ طے کیا تھا کہ اپنی زندگی میں اردو زبان و ادب کو جملہ شعبہ ہائے ادب میں اس طرح مالا مال کردیا جائے کہ عمر کی کوتاہی کا گلہ نہ رہے۔ اور قدرت نے ان کی اس خواہش کا احترام کیا۔ وہ اردو کے ادیبوں، شاعروں کی عام حالت کے برعکس خود صاحب وسیلہ تھے، کسی کے محتاجِ کرم نہ تھے، جو لکھا شائع ہوا جو کیا شعر و ادب بنا۔

    اردو بالکل سیکولر اور مخلوط زبان ہے۔ محققین کے بقول اردو ترُکی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی لشکر کے ہیں لیکن علامہ پنڈت برجموہن دتہ تریہ کیفی کے خیال و تحقیق میں اردو دو لفظوں سے مرکب ہے۔ سنسکرت میں ’’ار‘‘ کے معنی ہیں ’’دل‘‘ اور فارسی میں دو کے معنی ’’دو‘‘ لکھے گئے ہیں لیکن صاحب تحقیق کے مطابق اردو زبان دو دلوں کے اتحاد اور مختلف قوموں کے ملاپ کی نشان دہی کرتی ہے۔ انسائیکلو پیڈیا آف برتانیکا و اسلام اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق چینی اور انگریزی اور اردو دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے۔ (بشریٰ، علامہ غلام رسول، چڑیا کوٹی)

    حالیؔ نے اردو کو ہندی نژاد بتایا ہے اور لکھا ہے کہ وہ سنسکرت اور پراکرت کی بیٹی ہے۔ خاندان دونوں کا ایک ہی ہے، زبان کی نہ کوئی قوم ہوتی ہے نہ کوئی ذات ہوتی ہے۔ (نقوش نعت نمبر)۔ آزادی کے قبل دھولیہ کے ایک عام ادبی پروگرام میں پہلے روز اردو کانفرنس کا اہتمام کیا گیا تھا اور دوسرے روز آل انڈیا طرحی مشاعرہ تھا۔ مصرع اس طرح دیا گیا تھا ؎

    ازل سے افسانۂ قیامت، کس کی زلف دراز میں ہے

    مشاعرے کی صدارت نا خدائے سخن فصیح العصر نوح نارویؔ کے ذمے تھی لیکن پروگرام کے پہلے روز جب نظم خوانی کا سلسلہ چلا تو ایک بزرگ شاعر نے اردو پر نظم پڑھی اور بتایا، تھی یہ لشکر کی زباں، نام اس کا اردو پڑگیا، اس مشاعرے میں مولانا ماہر القادری رحمۃ اللہ علیہ بھی موجود تھے، انہوں نے بزرگ شاعر کے بعد خود بھی اردو کے عنوان سے ایک نظم پڑھی جس میں انہوں نے بڑی علمیت اور خلاّقی سے اردو کے لشکر کی زباں ہونے کے تعلق کی تکذیب کرتے ہوئے درج ذیل شعر پڑھا تھا ؎

    اس کو قوموں کے تمدن نے کیا ہے پیدا

    کون کہتا ہے کہ لشکر کی زبان ہے اردو

    اردو زبان ایک ملکی اور ہندوستانی زبان ہے۔ اس میں اخذ و قبول کی بے انتہا صلاحیت ہے۔ اس زبان کو مسلمانوں کی زبان قرار دینا زیادتی ہے۔ اردو شعر و ادب کو مسلمانوں کی ہی طرح دیگر مذاہب کے اصولِ علم و فن کی رفاقت حاصل رہی ہے ۔کالید اس گپتا رضا انہی اہلِ علم اردو دانوں میں سے ہیں۔

    ’’ابھی ناؤ نہ باندھو‘‘ رضاؔ صاحب کا مجموعہ غزلیات ۱۹۴۱۔؁ء سے ۱۹۹۸۔؁ء تک غزلوں پر مشتمل ہے۔ کتاب کے کل صفحات ۲۴۹ ہیں۔ ترتیب عام شعری مجموعہ کی ترتیب سے الگ ہے۔ جدت کے ساتھ ساتھ مطالعے کے لیے اہم ہے۔ ۱۹۶۷۔؁ء ۲۰ غزلیں ۱۹۵۰۔؁ئ- ۱۹۴۱۔؁ء ۲۲ غزلیں ۱۹۶۷۔ئ؁ - ۱۹۵۱۔؁ء ۷ غزلیں ۱۹۶۹۔؁ء - ۱۹۶۷۔؁ئ، ۲۲ غزلیں ۱۹۷۳۔؁ء - ۱۹۶۹۔؁ء غزلیں ۱۹۹۲۔؁ء - ۱۹۷۴۔؁ء ۲۴ غزلیں ۱۹۹۸۔؁ء - ۱۹۹۳۔؁ء کے مجموعے میں شامل ہے۔

    پیش لفظ میں رضاؔ صاحب نے خود ستائی سے گریز کیا ہے اور اس اردو تہذیب کی روایتی انکساری سے کام لیتے ہوئے خود لکھا ہے کہ یہ مجموعہ بعنوان ’’ابھی ناؤ نہ باندھو‘‘ ۱۹۴۱۔؁ء تا ۱۹۹۸۔؁ء کے درمیان میں کہی ہوئی غزلوں کا احاطہ کرتا ہے۔ اس کی اشاعت وقت کا تقاضہ نہیں اور یہ ایسے کسی مشہور شاعر کا کلام بھی نہیں جو میر و غالب کے بعد کے مشاہیر میں بے جھجھک شامل کیا جاسکے۔ یہ محض اس آرزو کی بھرپائی کے لیے ہے کہ شاید کوئی اس کے مطالعے کے بعد صاحب تصنیف کو قابل ذکر شاعروں میں شمار کرے۔ اردو اور اردو غزل کے لیے کالیداس گپتا رضاؔ کا ذوقِ سلیم اس درجہ کا ہے کہ ان کی شاعری میں رطب و یاس اور کیف و کم کی بحث ہی نہیں پیدا ہوتی جو کہا ہے پورے شعور، زباندانی، مذاق سلیم، فکر و نظر اور فن پر قدرت رکھتے ہوئے کہا ہے۔ رضاؔ، غزل اور اس کی فنی نزاکتوں اور سمتوں کے رمز شناس ہیں ’’ابھی ناؤ نہ باندھو‘‘ کے پیش لفظ کا یہ حصہ مطالعہ کے لائق ہے۔ جس کے مالۂ و ماعلیہ سے جس کے بین السطور اور پس منظر سے غزل کے بارے میں ان کا نقطہ نظر واضح ہوکر سامنے آجاتا ہے۔

    ’’غزل کی نوکِ پلک سنوارنے کا کام ہر عہد میں ہوتا آیا ہے۔ یہ صنف ایسی لچکدار ہے کہ ہر عہد اسے اپنی ضرورت کے مطابق ڈھالتا رہا ہے تاہم ایک یکسانیت سی قائم رہی ہے جسے پہلی بار غالب نے توڑا۔ شاید غالبؔ سے کم تر درجے کا خلاق ذہن اس میں یہ تبدیلی پیدا کر بھی نہ سکتا تھا۔ غالبؔ نے یہ کہہ کر اس کو توڑا، جس نے اردو غزل کو عورت سے بات چیت تک محدود کرکے رکھ دیا تھا

    بقدرِ شوق نہیں ظرف تنگنائے غزل

    کچھ اور چاہئے وسعت مرے بیاں کیلئے

    یہ غالبؔ ہی تھا جس نے اردو غزل کو تفکیری اور تخلیقی جوہر سے مالا مال کردیا۔ بعد میں آنے والوں نے اُس سے نئے نئے پہلو نکالے، طرح طرح کے انداز پیدا کئے مگر کیا غالب کے بعد بھی کوئی دور لے لیجئے۔ یہ صنف ہجر و وصال، معاملہ بندی اور عاشقانہ جذبوں کے اعمال ذکر سے خالی رہ سکی؟ نہیں۔ ایک ہی عہد میں آج بھی وہ غزل موجود ہے، جسے عورتوں سے گفتگو کہا گیا تھا اور وہ غزل بھی جو حیات و کائنات کے مسائل دامن میں لئے ہوئے ہے، مگر ہر حال میں کامیاب غزل وہی کہلاتی ہے جو ان مسائل کے بیان کو ناز و غمزہ کا وہ پیرایہ عطا کرے جو روزِ ازل سے غزل کے لیے مخصوص ہے غزل کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ گیت یا نغمہ یا نظم ہوکر بھی غزل رہتی ہے۔‘‘ (ابھی ناؤ نہ باندھو: ص۱۵،۱۶)

    غزل کے بارے میں کالیداس گپتا رضاؔ کا یہ وہ نظریہ ہے جس نے ان کی غزل کو ہمیشہ سرسبز و شاداب رکھنے کا وعدہ کیا ہے۔ خود کہتے ہیں

    فکر کی باڑھ چلی جاتی ہے، ساحل ساحل

    ختم کہاں ہے، رختِ سفر ابھی ناؤ نہ باندھو

    رنگ فضا میں مست ہوئیں نٹ کھٹ لہریں

    پانی، شراب، گھٹا، ساغر ابھی ناؤ نہ باندھو

    ’’ابھی ناؤ نہ باندھو‘‘ ایک انوکھا اور چونکا دینے والا نام ضرور ہے لیکن لفظوں کے پیراہن میں کالیداس گپتا رضاؔ کی طغیانی اور سیلاب سامانی کا جو اندازہ پیش کیا ہے اس کے مطابق یہ قطعی لازمی ہے کہ آج کا انسان واردات و حادثات کے اس دور میں ہمہ وقت تیار اور پایۂ رکاب ہے۔ کب حالات کی طوفان خیزی اور موجِ سامانی اُسے نئے ساحل کی تلاش پر مجبور کردے۔ اب سے ۵۰- ۶۰ سال قبل دہلی میں اردو کا وقیع رسالہ ’’ساقی‘‘ نکلتا تھا۔ جناب شاہد دہلوی اس کے مدیر تھے اس کے لکھنے والوں میں بڑی بڑی شخصیتیں شامل تھیں۔ احمد کمال صدیقی جیسا ایک شاعر بھی تھا جو شاعری میں معریٰ نظموں کے نت نئے تجربے کیا کرتا تھا۔ اس نے اس قسم کی ایک نظم لکھی تھی۔

    نیّا باندھورے، باندھورے، کنارِ دریا

    نیا باندھورے

    باندھورے کنارِ دریا

    کالیداس گپتا رضاؔ جس عہد، جس دور کا شاعر ہے وہ دور اپنے مزاج تلّون کے اعتبار سے بڑا ناقابل اعتبار ہے اس دور میں ناؤ کاباندھنا ایک مخدوش عمل ہوچکا ہے۔ پیہم روانی اور سرگرمی اس عہد کا مزاج اور خاصہ بن چکا ہے۔

    دور کہیں موجوں میں ہے گھر، ابھی ناؤ نہ باندھو

    مانجھی رے! باقی ہے سفر، ابھی ناؤ نہ باندھو

    آج کے انسان کا گھر موجوں کے درمیان ہے۔ گھر پہنچ کر بھی اس کو گھر نہیں ملتا معلوم نہیں اور بہتے پانی کی طرح اسے اور کسی طرف بہہ جانا پڑے۔

    اپنی شاعری کے بارے میں کالیداس گپتا رضاؔ خوب اچھی طرح جانتے ہیں ۔

    وہی قصے زمین و آسمان کے

    رضاؔ کی شعر گوئی کیا، رضاؔ کیا

    اسے انکساری اور خاکساری کا نام دیا جاسکتا ہے اور ایک مقام پر اس سے زیادہ عجز سے کام لیتے ہوئے کہتے ہیں

    رضاؔ میں اب بھی تعلّی کروں تو کیسے کروں

    قلم میں زور نہیں، فکر خام ہے اب تک

    دوسری طرف کالیداس رضاؔ کو اس بات کا عرفان ہے کہ ان کا سخن اور ان کی شاعری کا مقام و مرتبہ کیا تھا وہ خالی خولی تعلیٰ اور بڑائی نہیں ہانک رہے ہیں۔ بلکہ غزل اور اس کے اساطیر۔ اس کی روایت کو نہ صرف وہ جانتے ہیں بلکہ ان کی غزلیہ شاعری میں تواتر کی حد تک اساتذہ اور اردو غزل کا بانکپن موجود ہے۔

    جو برسوں پہلے خدائے سخن نے بخشا تھا

    وہی ہمارے سخن کا مقام ہے اب تک

    خدائے سخن میرؔ کو کہا جاتا ہے۔ جن کے بارے میں غالبؔ کہتے ہیں

    غالبؔ اپنا یہ عقیدہ ہے، بقول ناسخؔ

    آپ بے بہرہ ہے، جو معتقدِ میرؔ نہیں

    اس پہلو سے رضاؔ کی غزل گوئی کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ رضاؔ کی غزل گوئی تقلیدی نہیں اور نہ ہی اجتہادی ہے۔ بلکہ ماضی کی غزل گوئی کے تواتر کی حسین اور مضبوط کڑی ہے جو زرتار الفاظ کے دھاگوں میں پروئی نہیں گئی ہے بلکہ اس میں اپنے غزل کہتے ہوئے دھاگوں کی سادگی بھی شامل ہے۔ کالیداس گپتا رضاؔ کی غزل گوئی نہ تو نقالی ہے، نہ منہ بنانا ہے۔ نہ مکھی پر مکھی مارنے کی کوشش ہے بلکہ اس میں ایک فکری حسن و شعور کی چھوٹ اور افزائش ہے۔ غزل میں اُردو زبان کی نزاکتوں، باریکیوں اور روایتوں کا حسن کارانہ اظہار ہے۔

    اس کے علاوہ رضاؔ کی غزل گوئی اور شاعری بے روح، بے مغز نظریہ اور نعرہ بازی کی شاعری نہیں ہے، ناصحانہ خیالات اور صلاح کی سفّاک، بے اپج اظہار کی شاعری ہے۔ بلکہ اس شاعری میں میرؔ و غالبؔ کی روایات اور اردو شاعری کے وہ اجزاء بڑے فنی محاسن کے ساتھ پائے جاتے ہیں جو اس غزل کی ضمانت اور پہچان بن چکے ہیں۔ اس طرح کالیداس گپتا رضاؔ کی غزل گوئی میں ان کی فنی و فکری انفرادیت بھی نمایاں ہیں۔ ملاحظہ فرمایئے

    میں آب و تاب سے لبریز ایک سورج ہوں

    تو گل ہے وقت سحر دھوپ میں سنورتا ہے

    ادھر ہے آخرِ شب ڈوبی جاتی ہیں شمعیں

    ادھر درختوں سے اک نور سا ابھرتا ہے

    یہ اشعار اس بات کے غماز ہیں کہ رضاؔ کی غزل میں عصری حسیت اور قدامت سے پیار اور لگاؤ کی چاہت ضرور ہے لیکن وہ اس کے مقلد نہیں ہیں۔ جدید ذہنوں سے اپنا افسانہ کہتے کہتے، وہ قدیم زمانے میں چلے جاتے ہیں، لیکن ان میں گم نہیں ہوتے بلکہ اپنی انفرادیت کے ساتھ برآمد بھی ہوتے ہیں

    جدید ذہن سے اپنا فسانہ کہتے ہوئے

    رضاؔ قدیم زمانے میں جا اترتا ہے

    رضاؔ، اردو غزل کیا ہے؟ اس کا عرفان و شعور رکھتے ہیں اس کے علاوہ ان کا مزاج جن عناصر میں ترتیب پایا ہے، اس میں فکر و فن اور غزل کے تمام ادوار کے جان کار ہیں .

    ہم یونہی تو نہیں ہوئے خدا

    دل نے ساری جدوں ہارا تھا

    اشک بہہ بھی گئے ٹھہر بھی گئے

    یہی دریا یہی کنارا تھا

    رضاؔ نے اردو غزل کی نئی لفظیات اور معنویت بھی دی ہے جو ان کی غیر معمولی خلاق ہونے کا ثبوت ہے ’’ہم یونہی نہیں ہوئے‘‘ کا محاورہ اردو غزل اور شاعری میں کالیداس گپتا رضاؔ کا اضافہ ہے اور بڑا وسیع معنوی اضافہ ہے۔

    غزل: محبوب سے بات چیت، محبوب سراپا کی محاکات کا بھی نام ہے۔ اس پہلو سے بھی رضاؔ صاحب کے یہاں بڑی بے ساختگی پائی جاتی ہے ۔

    چھم سے آنے میں راز جو بھی ہو

    چونک پڑنا ہمیں گوارا تھا

    اس شعر کو پڑھ کر ذہن ریاضؔ خیرآبادی کے اس شعر کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ جس میں صرف لفظی یکسانیت ہے۔ لیکن محاکات میں کافی فرق ہے۔ ریاضؔ کہتے ہیں

    اچھا ہوا کہ گھنگھرو کوئی پائل کا نہ بولے

    جب چھم سے چلے گود میں چپکے سے اٹھالیں

    رضاؔ چونک پڑنا گوارا کرلیتے ہیں لیکن ریاضؔ گود میں اٹھالینے کی خواہش لگا بیٹھتے ہیں۔ کالیداس گپتا رضاؔ کی غزل گوئی میں تھما تھما جذبہ ہے۔ جبکہ ریاضؔ ضبط کی حد پھلانگ گئے ہیں۔ اس سے رضاؔ کی صحت فکر، بلند آہنگ تہذیب یافتہ جذبے کی عکاسی ہوتی ہے۔ جذبہ بے اختیار ان میں بھی ہے لیکن دراز دستی کی بے تکلفی کا شائبہ تک نہیں ہے۔

    آنسوؤں کے بارے میں اردو غزل میں بے شمار پہلو نکالے گئے ہیں لیکن جو پہلو رضاؔ نے نکالا ہے وہ شاید اردو شاعری کے پورے سرمایہ میں نہیں ملے گا۔

    اچھا ہوا جو سوکھ گیا آنکھ میں آنسو

    بے چارے کا دھرتی پر کوئی گھر بھی نہیں تھا

    اس طرح رضاؔ کی شاعری اور اس کی اردو اور اردو غزل سب اس کا اپنا ہے۔ اخذ، تقلید اور روایت کی اندھی پیروی نہیں ہے۔ نہ اجتہاد کا نہ مسموع تنافر ہے۔ کالیداس گپتا رضاؔ کو خود حیرت ہے کہ وہ اس خرابے کے کیسے پار اتر آئے ہیں ۔

    حیرت ہے کہ ہم قید ہوس سے نکل آئے

    دیواریں بھی اونچی تھی کوئی در بھی نہیں تھا

    شنکر دہلوی کا بڑا مشہور شعر ہے اور وہ بھی روایتی غزل کا .

    شنکر کی شکل دیکھ کے کہنے لگے وہ ناز سے

    کمبخت! تجھ کو کس نے مسلماں بنا دیا!

    لیکن رضاؔ غزل کی فنی خوبی کے تحت بڑی ایمائیت سے کہتے ہیں .

    یہ راز کھلا، بعد رضاؔ اہل وطن پر

    وہ لاکھ مسلماں نہ تھا کافر بھی نہ تھا

    کالیداس گپتا رضاؔ کی شاعری اور اردو دانی، اردو غزل میں اس کا اپنا رنگ سخن سب سے منفرد اور انوکھا نہ تو وہ ترسیل کا المیہ ہے۔ نہ بے روح و بے مغز شاعری کا پلندہ ہے۔ بلکہ اس میں ایک شریف انسان و ادب دوست کے فکر کا پر تو فگن ہے۔ اردو کی تہذیبی اقدار اور روایت انسانی اس کی شاعری کی وہ روح ہے جو انہیں ہمیشہ زندہ و پائندہ رکھے گی۔ اور اردو کے شاعرانہ لفظی و معنوی سرمائے کو فکر و فن اور لفظیات کی گوہر باری سے نوازتی رہیں گی۔ آخر میں چند منتخب اشعار اور سن لیجئے۔

    پھول، کلی، مدھو بن، تتلی بے رنگ ہے سب

    رنگ کی ندیاں، روپ کے دھارے تیرے نام

    سرگم، راگ، ترانے سارے تیرے لیے

    شعر ہمارے شِبہَ کنوارے تیرے نام

    روشنی اے روشنی واقف تیری فطرت سے ہوں

    مہر و مہہ، خادم اسی کے، وقت پر جس کی نظر

    اے رضاؔ! تیرے ہر پرواز کی قیمت ہی کیا

    وقت وہ شمشیر ہے جو کاٹ دے شاہین کے پر

    جس نے اک عہد کے ذہنوں کو جلادی ہوگی

    میرے آوارہ خیالات کی بجلی ہوگی

    لے اڑی ہے ترے ہاتھوں کی حنا پچھلے پہر

    میرے الجھے ہوئے افکار کی آندھی ہوگی

    جمالِ دوست کی تنویر کم نہ ہوگی

    مچل مچل کے صبا لاکھ زلف بکھرائے

    چمن کی رونق بہار پر تھی، برستی تھی چاندی کہ چاندی

    ہمیں نظر آئی کچھ کمی سی وہاں جو وہ سیم تن نہ پایا

    ضبط دل کے بغیر اے واعظ!

    صوم بے فائدہ وضو بے کار

    نہ پاسکو گے رضاؔ منزل مراد کبھی

    یقیں نہ رکھو خضر جیسے رہنماؤں میں

    بچھڑ کر کارواں سے راہ رو ایسا ہوا تنہا

    تھکا تنہا، گرا تنہا، اٹھا تنہا، چلا تنہا!

    رضاؔ لازم ہے آڑے وقت ہو تقدیر بھی یاور

    کہاں تک کام دیں گے دہر میں فہم و فکار تنہا

    ’’ابھی ناؤ نہ باندھو‘‘ کا شاعر کالیداس گپتا رضاؔ ایک بڑا شاعر اور اس سے بھی بڑا انسان تھا اس کی فکر کے یہ صالح اور صحت مند اجزاء اس کی عظمت اور اس کے افتخار و بلندی کے نقیب ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے