کہنا کیا چاہتے ہو؟
گو اس بات کا اس کہانی سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔ یہ تعلق بھی لغت کا عجیب وغریب لفظ ہے۔ کسی نوع کا تعلق ہر جگہ نکل آتاہے۔ ہاں تو میں نے جس بات کے ذکر کا ابھی قصد کیا ہے، وہ یہ ہے کہ انسانی آنت ایک آتشکدہ ہے، جس میں اس گولے کی نفیس ترین لطافتیں، ٹھوس سے ٹھوس مادیتیں ، خوشگوار تر نزاکتیں مختلف شکلوں میں گر گر کر جل رہی ہیں۔ سارے ذی روحوں میں یا کرے پر زندگی کی مختلف شکلوں میں سے اس انسانی آنت کو سب سے زیادہ حق تصرف ملا ہے۔ اسی حق تصرف نے بحر وبر کی کتنی زندگیاں انسانی آنت کی خدمت میں دھکیل دی ہیں۔ آنت کا آتشکدہ صرف پیٹ کی پچونی تک محدود نہیں بلکہ اسی کے دم خم سے ساری انسانی سرگرمیاں جی دار ہیں۔ اب جی دار کی بھی خوب ہے کہ ہر جی داری میں موت کی ایک کتاب دھری ہے۔ آنت کے لئے پورا کرہ ایک نعمت خانے کی طرح خوار ہورہاہے۔ بصیرت کی نظر گاڑ کر دیکھیں تو کتنی مکھیاں بھنبھنا رہی ہیں اس نعمت خانے پر۔ واقعی پورا کرہ جنگل کی جلتی ہوئی روشنی کی مانند چمک رہاہے۔ تاریخ کی گرہیں کسی منحوس گْرَہ میں تبدیل ہوگئیں ہیں۔ جغرافیےکےمجنوں کےہاتھ میں چھینی ہے اور پورا کرہ اس کے سامنے ناچ رہا ہےاور وہ اس کرے سے منحوس گرہوں کی چٹانیں کھود رہاہے۔ ایک مانجھی کے لئے رستے کی منزل ہے لیکن اس کے لئے کوئی منزل نہیں۔ بس کھودتے کھودتےاپنے وجود کی متضادجلتی آنت میں گرکربھسم ہوجانا اس کا مقدر ہے۔ آنت کی روح کے دانت دیکھیےتو آپ کو اندازہ ہوگا کہ وہ اس گولے کو اپنی بتیسی کے بیچ دبانے میں مصروف ہے۔ زمینی گولے پراس دانت کے ذریعے ڈالی خراشیں ملاحظہ میں لائی جاسکتی ہیں۔ یہ روحانی آنت ہی دراصل تاریخ کی وہ پچونی ہے جو قربانی کی پچونیوں کی مانند گلی گلی سڑاند اٹھارہی ہے ۔
جس افسانے کے بارےمیں میں گفتگو کررہا ہوں ، اس میں یہ ساری باتیں من وعن موجود نہیں ہیں ۔ کئی باتیں ، اس کے مرکزی کردار کی رو سےبالکل ہی غلط درج ہوئی ہیں۔ کسی بھی متن کو پڑھ کر تاثر بیان کرنے کامطلب ہے کہ بہت کچھ اس میں ایسا بھی آئے گا جو اس کا نہیں ہے۔ ایک مضبوط اور جھنجھوڑنے والے متن سے گزرنے کامطلب یہ بھی ہے کہ اس متن کی چیخ قاری کے حاسے میں کچھ دیر تو گونجتی رہے۔ اور جب فکشن زندگی کے تئیں ایسی سفاکی اختیار کر لے کہ وہ ایک بددعا، بدشگون اور چیخ کی صورت متن کی شکل اختیار کرے تو اس متن کی چیخ کا دیر تک گونجتے رہنا ایک متوقع بات ہے۔ (یہ بھی پڑھیں تفریح کی ایک دوپہر – پروفیسر خالد جاوید)
اس افسانے کو پڑھیے ۔ طاقت کی جدلیات نے طبیعی جغرافیے میں جو الگ الگ کیلیں ٹھوکیں،انھوں نے انسانی تعقل پر تاریخ کے شہادت ناموں کی صورت ایسی خراشیں ڈالی ہیں کہ انسان اگر بھلا نابھی چاہتاہے تو انھیں بھلا نہیں پاتا۔ جمہوری ذہن انسانی بنیادوں کو بحال کرنے کے سو جتن کرتاہے لیکن تجارت کی وقتی ہوس سارے ابلاغی ذرائع اور آنت کے اسیر دانش پیشہ طبقے کی مدد سے نہایت ہی مختصر مدت میں ان کوششوں پر پانی پھیر دیتی ہے۔ طاقت کی جدلیات سے پڑنے والی خراشیں اجتماعی حاسے سے چمٹ جاتی ہیں۔ جونک کی طرح یا پھر کٹھملوں کے انبوہ کی صورت۔ آپ ان کٹھملوں اور جونکوں کے استیصال کے لئے مارآور دواؤں کا کتناہی چھڑکاؤ کی جیے، لیکن یہ کچھ دنوں کے لیے روپوش ہوکر پھر انبوہ کی صورت نکل ہی آتے ہیں۔ دو متخالف رویے ایک جمہوریت پرستی کی بحالی کا اور دوسرا روایت پرستی کی جگالی کا، یہ دونوں باہم ٹکراتے رہتے ہیں۔ کہیں یہ آلہ بنتاہے کہیں وہ آلہ بنتاہے۔ تاریخ کی من چاہی تعبیریں ایک ناسور کی صورت اجتماعی سائیکی کے کاغذپر حکمراں ہونے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔طاقت کی خراشیں بشردوست قلیل آبادی کو ٹھینگا دکھاکر اس کی بر آتی امید اور منزل آرزو سے اسےکھینچ لیتی ہیں، وہ اپنےآغاز سفر پر کئی زخم لیے پہنچتی ہے۔ سربام پہنچتےاس کوہ پیما کی طرح ،جس کی میخیں اچانک اکھڑ جاتی ہیں اور وہ بالکل ہلاکت کے قریب پہنچ کر بمشکل نجات کے نشیب میں اتر تاہے۔
یہ متن اپنے آپ میں کتنا بلیغ ہے۔ افسانے کے من وما کا کوئی جواب نہیں۔
اس قصے کے ساتھ ساتھ چلیے تو اس کا عنوان بھی ایک سوال کی صورت ہمارے ساتھ چلتا رہتا ہے۔ افسانے کا کردار اپنا نام زبان پر نہیں لاتا۔ اس کردار کاذہن ، پیشہ، مشغلہ، ذہنی افتاد،گھریلو زندگی ،الغرض وہ تمام ضروری پہلو جو کسی کردار کو مستحکم کرتے اور اس کی زبردست شناخت سمیت اسے پڑھنے والے کے ذہن میں راسخ کردیتے ہیں ، اس افسانے میں موجود ہیں۔ افسانے میں کردارکا جو انجام ہے ، وہ عنوان میں ہی جلی حرفوں میں دھرا ہوا ہے لیکن وہ انجام کو پہنچ کر ہی اپنے معنی کھولتا ہے۔ افسانے کا بیانیہ کہیں راست ہے تو کہیں بالواسطہ ،یعنی مرکزی کردار کی تحریر یا پھر دوسرے کرداروں سے اکا دکا اس کے مکالمے۔کردار ایک مدرسے میں جغرافیہ کا مدرس ہے۔ اسے جغرافیہ سے حد درجہ شغف ہے۔ اس کاباپ ایک مؤذن تھا جو اسے بائیں ہاتھ سے کھاناکھانے اور بائیں کروٹ سونے پر سزائیں دیتا تھا۔ اسی باپ نے بچپن میں راستے کے بائیں طرف سے چلنے کی یہ وجہ بتائی تھی کہ:
’’تو بائیں طرف سے چلنا کیوں اچھا ہے؟‘‘ بچے نے باپ سے پوچھا تھا۔
’’امن وامان کے لئے ۔‘‘ باپ نے جواب دیاتھا۔
’’امن وامان کے لئے۔ امن وامان کے لئے۔‘‘ بچے نے دہرایا تھا۔( تفریح کی ایک دوپہر، ص،۱۰۲،۱۰۳)
باپ فوت ہوچکا ہے۔ گھر میں مذہبی کتابیں اور قرآن کے بہت سے نسخے موجود ہیں۔ ایک بہن بھی ہے ، جس نےاپنی خواہش کی موندی آنکھوں کو ایک ماموںزاد کا ہاتھ پکڑ کر کھولنے کی اپنی سی ایک مجہول کوشش کی تھی ، جس پر اس کے اس مدرس بھائی نے بائیں ہاتھ سے مار مار کر اس کا منھ سجا دیا تھا۔ یہ بہن اپنے بھائی کی خبر گیری کرتی ہے۔ گھر نے ناداری سے ناطہ رکھا ہے ، اس لئے فراخی کی گنجائش نہیں ۔ مدرس کسی دور دراز جگہ کی سیر سے بھی لطف اندوز نہیں ہوا ہے۔ وہ داہنے جسم کے بجائے ، بائیں طرف کے جسم کو ترجیح دیتا ہے۔ کیوں کہ دائیں طرف کے جسم سے ہونے والے کام اس کے ارادی عمل اور منشا سے بغاوت کرنے لگتے ہیں۔ بائیں ہاتھ سے لکھے لفظ کی بنسبت دائیں ہاتھ سے لکھا ہوا لفظ اپنے معنی ومفہوم سے بغاوت کرنے لگتا ہے۔ دیکھتے دیکھتے افسانہ نگار دائیں بائیں کی اس کشمکش کو ایک بلیغ جہت دے دیتا ہے۔ یہ جہت یمینیت اور یساریت کا ایک بہت کھلا ڈھلا روپ لے لیتی ہے۔ اپنے سیاسی معنی میں نہیں بلکہ جبلی وماحولیاتی معنی میں۔ رائج طریقے ، رویے اور رواج سارے یمینیت کے ہم معنی ہیں جو تکلف، رواداری، اخلاق، تمیز وبے تمیزی، آزاری وبے زاری کے بہت سے باروں سے بوجھل ہے۔ یساریت تلاش امن کی ایسی خواہش کانام ہے جو کرے سے چپکے سارے تکلفات اور دوغلے رویوں کو الگ کرکے نذرآتش کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ اس کردار کو جغرافیے اور نقشےسے حددرجہ شغف ہے ۔ یہ کردار اپنی منفرد افتاد طبع کے ساتھ ساتھ حیرتناک اور پرخطر جمالیات کا بھی دلدادہ ہے۔ تخیل کی بلا خیزی بھی اسےوافر مقدار میں حاصل ہے۔ اس کردار کی تخییل اتنی تیز ہے کہ گندے اور غبار آلود بستر پر بیٹھے بیٹھے پہاڑ، چوٹیوں ، سبزہ زاروں، گولائیوں ،اور گھماو کو ناپنے کے ساتھ سمندر کی گہرائیوں کی تھاہ لیتی بلکہ خیال کی سطح پر ان میں جی کر لوٹتی ہے۔ وہ جغرافیہ کو تاریخ کے جبر سے آزاد کرنے کاخواہاں ہے۔ تاریخ کی طرف سے جغرافیے میں کی گئی دراندازیاں اسے سخت ناپسند ہیں۔ اسے لگتا ہے کہ تاریخ نے کرے پر زندگی کے نام پر بے رحم رویوں کو راسخ کیاہے، جن سے جغرافیے کو آزاد کرانا ازحد ضروری ہے۔ وہ تاریخ کو اڑنے پھرنے اور ادھر ادھر منڈلانے والا ایک آسیب خیال کرتا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہےکہ جغرافیہ کا فراہم کردہ طبیعی نقشہ ان کھانچوں اور بے جا لکیروں سے آزاد تھا جو تاریخ نقشے کی سطح پر ڈالتی ہے۔ ورنہفطرت اور اس کے مظاہر پہاڑوں ، سمندراور میدان کی صورت واضح نظر آتے تھے۔ اس طرح کہانی میں ماحولیات دوست فضا قائم ہوجاتی ہے۔ یہ ماحولیات دوست فضا صرف تاریخ کو نہیں بلکہ مذہب کو بھی اپنے نشانے پر لے آتی ہے۔اسے اس بارش کابھی انتظار ہے جو تاریخ کو دھو کر جنگل کو ہرا بھراکردیتی ہے۔اسے مشرقی ہمالیہ کے ان باشندوں سے دلچسپی ہےجو جنگل کے چھوٹے حصے کو جلا ڈالتے ہیں اور جلے ہوئے جنگل کی راکھ سے کچھ عرصہ کے لئے وہاں کی مٹی زرخیزی کو پالیتی ہے۔ کہانی کے مرکزی کردار کا چندن کے جنگلوں سے ڈر کہانی میں ایک اسطوری جہت لاتا ہے:
اسےچندن کے جنگلوں سے بھی ڈر لگتا تھا ۔جن پر ، مشہور ہے کہ صد صالہ بوڑھے سانپ ، دبلے ہوکر اڑتے ہوئے آتے ہیں۔ کمزور بوڑھے اور مہیب حدتک دبلے پتلے، نہ جانے کہاں سے اپنے تاریک اور سنسان بلوں کو ویران کرکے چندن کے درختوں سے آکر چمٹ جاتے ہیں۔ ان سانپوں کے جسم سے چھوکر آنے والی ہواانسان اور چرند پرند سب کے لہو کو منجمد کئے دیتی ہے۔، لقوہ مارے دیتی ہے۔ یہ موت کی زہریلی خوشبو ہے۔ وہ اکثر نقشے میں چندن کے درختوں اور ان پر لپٹے دبلے بوڑھے سانپوں کو تلاش کرنے کی بے معنی اور ناکام کوشش کرتا۔ (ایضا، ۹۷)
کہانی کا کردار جغرافیہ کی موت سے بیگانہ ہے، وہ خدا کی موت کا اعلان نہیں کرتا۔ مذہبی جبر کی اندوہناک صورتوں نے اسے تاریخ کے ساتھ مذہب کو بھی خوفناک ہڈیوں کا ہار ماننے پر مجبور کیا ہے۔ وہ خدا کو ایک سری یا پھر عرفانی زاویے سے تلاش کرتا ہے۔ وہ شعور کی ڈگر سے چل کر تاریخ اور مذہب سے نالاں ہے لیکن عرفان یا وجدان کی پگڈنڈی اسے یہ تاویل بھی سجھاتی ہے:
اور یوں تو ملک ایک روحانی اکائی ہے۔ ہر ملک اور اس کی تاریخ ایک عظیم روحانی تجربے میں بدل جاتی ہے۔ کیوں کہ جب خدا اپنے آپ کوعظیم وسعت میں دیکھنا پسند کرتا ہے تو اس کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنی قلب ماہیت مملکت میں کرے ۔ ویسے تو خیر خدا نکتے میں سمٹ جائے پھر بھی وسعت ہی کا سراغ دیتا ہے۔ اب دیکھیے کہ نادار ، لاچار ، اپاہج اور مظلوم سب میں اس کا قیام ہے۔ یہ سب وسعت کی مثالیں نہیں تو اور کیا ہیں۔؟اور وسعت میں طول البلد اور عرض البلد کی شمولیت کس قدر لطیف ہے۔
اس مقتبس کودرج کرنے کے بعد ،اس سے پہلے کی دی گئی اپنی رائے میں مجھے کچھ تأمل سا ہے۔ کیایہ عرفان ہے یا پھر عرفان کے پردے میں ظل اللٰہیت کا مخول ہے؟ خیر اتنی بات تو صاف ہے کہ شعر کے ساتھ ساتھ نثر میں بھی ایہا م کو دھرنا ممکن ہے ۔ ایسی نثر معنی بلیغ کے ساتھ ساتھ طنز بلیغ کے کام میں بیک وقت لائی جاسکتی ہے۔ تاریخ اور مذہب نے زمین کے ساتھ جو سلوک کیا ہے، اس سلوک کے بارے میں کہانی کے مدرس جغرافیہ کا کیا نقطۂ نگاہ ہے وہ بھی ملاحظہ کریں:
’’ شاید اسی لئے تاریخی شعور سے بڑی حماقت دوسری کوئی نہیں ہوسکتی۔ واقعات کو یاد رکھنے میں ہی اصل عیب پوشیدہ ہے۔ ورنہ واقعات کی اپنے آپ میں کوئی اہمیت نہیں۔ مذہب اور تاریخ دونوں ہی زمین کے گلے میں پڑے ہوئے ڈراؤنے ہڈیوں کے ہار کی مانند ہیں۔ ان کی وجہ سے زمین کا پورا چہرہ اپنے پورے جغرافیہ سمیت ایک بھوت کی طرح نظر آنے لگا ہے۔ اس ہڈیوں کے ہار کو زمین کے گلے سے کھینچ کر الگ کرنا ہوگا۔ ‘‘(ایضا، ۱۰۶)
اب ایک سوال نے میرے ذہن میںگرہ ڈال دی ہے۔ وہ یہ کہ مذہب بڑی چیز ہے یا تاریخ ؟ تاریخ مذہب میں پھیر ڈالتی ہے یا مذہب تاریخ کے جبڑے میں اپنی زبان رکھتا ہے۔ یہ سوال یوں تودوطرفہ ہی بونگا سا ہے۔ انسانی جبلتیں بہت سے سابقہ تعصبات کو اپنے فوری مقاصد کے لیے استعمال میں لاتی ہیں ۔ انسان تاریخ کے کرتوتوں سے ایک لاتعلق اور عبرت کیش طرز نہیں اپناتا جس کی وجہ سے ماضی کاجبر حال پر حاوی رہتا ہے۔ بشر دوست اور کائنات پرست رویے سے انحراف ہی دراصل اس مسئلے کی جڑ ہے۔ اس سوال کا اپنی بساط بھر ایک لجلجا سا مگر خود کو تسلی دینے والا جواب گڑھ لینے کے بعد بونگے سوال کی طرف رجوع ہوتاہوں کہ تاریخ کا مذہب سے رشتہ کیا ہے ؟ اس وقت قرۃ العین حیدر مرحومہ مشکل کشا بن کرحاضر ہیں ۔ مولیٰ ان پر کرم کی نظر کریں۔ وہ لکھتی ہیں:
ہم سب ، ساری دنیا، ساری اقوام، نسلیں، مذاہب، فرقے ، طبقے ،ممالک، افراد، ہمارے خیالات، نظریے، تعصبات، فلسفے، علوم وفنون ، ہماری مختلف الٰہیات، روحانی وجذباتی تجربات، سیاسی سماجی تمدنی مسائل، ہماری اجتماعی اور انفرادی شخصیت، ہماری خامیاں ہماری خوبیاں ، دشمنی اور دوستی، فتح وشکست، کمال اور زوال دکھ اور سکھ، حسب نسب تاریخ کی وجوہ کے گنجلک ، دھندلے ، روشن واضح اور غیر واضح تفاعل کی پیداوار ہیں۔ (کوہ دماوند، ص، ۱۵)
اس اقتباس کو پڑھ لینے کے بعد اندازہ کی جیے کہ جغرافیے کی پیٹھ سے تاریخ کو کھرچ کر نکالنے کا عمل کس نوع کے انسان اور دنیاکی طلب کا غماز بنتا ہے۔ وجود اور زیست کی کون سی صورت قابل قبول ٹھہرتی ہے۔ تخلیق کار کیسے چیختے سوال کے سامنے ہمیں لا کھڑا کرتا ہے۔ کیاجغرافیہ سے تاریخ کو کھرچنے کی خواہش فی الواقع بشردوست خواہش ہے کہ انسان یا جاندار زمین کے گولے سے چپکا گولے کی طرح ڈھننگ کر کسی بھی خطے سے فیضیاب ہونے پر قادر ہو سکتاہے۔ ثقافت کی فصیلیں، تہذیب کی کھائیاں اکبارگی محو ہو جائیں۔ بس ایک اختیار کی صورت حکمراں ہواور تنوع بس ذات کی سطح پر قابل قبول ہو۔تہذیب دھرتی کے بڑے حصے سے جونک کی طرح چمٹ کرمستقل بوجھ نہ بن جائے ، جس سے انسانی اجتماع اپنی توانا کمرکاتوازن کھودے۔ وہ اس کے اسپائنل سسٹم کوٹھیک کرواتے کرواتے عاجز آجائے۔ کبھی اسکرو ٹیڑھا ہوجائے تو کبھی ڈسک پھسلنے لگے۔
سچ بات تو یہی ہے کہ ثقافتی جبر کا جبڑا کھلتابند ہوتارہتاہے اور کھلے سانسوں کے پیاسے ان کے تلے کچّ کچّ کی آواز پیدا کرنے میں ایندھن کے طور پر استعمال ہوتے رہتے ہیں۔کہانی کے مرکزی کردار کا انجام کیسا بھیانک ہے۔ کہانی لکھنے والا اس کی بہن کو سفر حج پر روانہ کرچکا ہے ، اس لئے کردار کومطلوب آزادی اور مداخلت سے اطمینان کا پوراانتظام ہے۔ کردارکے جسم کا یساری نظام اس کے یمینی نظام سے بے نیاز ہونے کی خواہش رکھتا ہے۔ اسی لئے تو جنگل کی جلتی روشنی میں نہ سہی اپنے وجود کی جلتی روشنی میں وہ اپنا دلپسند خطرناک کھیل کھیلتا ہے۔ باراں کے قطرے نہ سہی ، نل کی چھیٹیں ہی سہی ،اس کا پرخطر رومان حقیقت میں بدلتا ہے۔ ندیوں اور قوموں کے ادغام کو وہ عمل کی سطح پر برت نہیں سکتا۔ وہ مدت مدید تک جغرافیہ کے بوسیدہ نقشے میں اپنے من پسند رنگا رنگ جہان ، سجی سجائی محفلیں ،بقعۂ نور بنی دنیا کو خیال کی انگلیوں سے ٹٹولتا اور تصور کی آنکھ سے دیکھتا رہتا ہے۔ اس کے حظ میں تاریخ کے جبر سے پڑے والے غیر ضروری خطوط خلل ڈالتے ہیں تو وہ جغرافیے کی تطہیر پر کمربستہ ہوجاتا ہے۔وہ تحریرکے ذریعے اس کام کو انجام دینا چاہتا ہے۔ اسے لفظ کی منقوطی اور مکتوبی صورت میں یکساںآہنگ کی جستجو ہوتی ہے۔ اس کا یساری نظام جسم یہ کام دلپسند انداز میں انجام دیتا ہے لیکن وہ اپنی یمینیت سے محاذآرائی کرتے کرتے نڈھال بھی تو ہے ، اس لئے چیں بول جاتا ہے۔ یہی کام جب یمینی نظام جسم انجام دیتا ہے تو الفاظ اس کی نافرمانی کرنے لگتے ہیں۔ الفاظ تحفظ فراہم کرتے ہیں لیکن اسے ان کا ممنون احسان ہونا بھی نا منظور ہے۔ الفاظ کیسے کسی چیز کوختم نہ کرکے اسی کی کھال سے دوسری چیزکو چپکاکرمستحکم کر دیتے ہیں، اس کا اظہارکس قدر اچھوتا ہے۔ میں اس کہانی کو کہانی کی طرح ہی پڑھ رہاہوں ، کسی فلسفے اورنظریے کی طرح نہیں ، مگراسی کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ یہ کہانی فلسفے اور نظریے سے زیادہ توجہ کی طالب ہے۔ متن کو برتنے اور اس سے اپنی مطلب براری کے لئے تعبیرکے جو نت نئے طریقے ایجاد ہوتے رہتےہیں اور متن کو معنی کی نئی جلبابیں پہناتے ہیں ۔ مختلف کلامیے اورنظریے کیسے متن کے سیاق اور فضا کولپک لیتے ہیں اور کھلےتخیل اور رومان کے روشن دانوں پر آہنی سیسہ بن کر پگھل جاتےہیں، ان بیانیوں اور تعبیری طریقوں کا تجزیہ ملاحظہ کی جیے:
یہ درست ہے کہ الفاظ ہی سب کوتحفظ بخشتے ہیں۔ مگر کیا تحفظ کے بدلے آپ اپنے شعور کاسودا کرلیں گےاور لافانی ہونے کے لئے اپنی آتما کا سودا؟یہ لین دین فاؤسٹ کے شیطان کے ساتھ ہی ممکن ہے۔شیطان جس کا اپنا محاورہ ہے اور اپناروزمرہ ۔ دائیں ہاتھ سے لکھنے میں یہ محاورہ بلند آواز میں سنائی پڑتا ہے۔ لفظوں سے ایک کمینہ بھیانک ہوا نکلتی ہے جو سب کچھ مسخ کردینے سے زیادہ سب کچھ دوسری طرح سے مستحکم کرنا چاہتی ہے۔ اوردراصل یہی اصل اور سب سے زیادہ بری بات ہے۔ (تفریح کی ایک دوپہر، ص،۱۰۶)
تخلیق کار جو واقعی انسانی پوست اور ڈھانچ سے کھرچ کھرچ کر خاموشی کی زبان میں اس کی بے بس کربناکی کا تلخابہ پروستارہتاہے، فی الواقع وہ خود میں اس ساری کھرچن کو سمیٹ لیتاہے۔ ایسا اس لیے کر پاتاہے کہ اس کاشعور عامی شعور سے بلند ہوکر کسی اور منزل پر سانس لیتاہے ۔ اسے اپنے شعور کو لفظوں میں نچوڑ کر ہی کچھ دیر کے لیے سکون ملتاہے۔ ایسا کرنے پر وہ اس لیے قادر ہوتا ہے کیوں کہ اس کے نزدیک خود فراموشی یا بھلانے کا کوئی انستھیزیائی محلول پینا اپنے ادراک کی نفی کرنا ہے۔اسے فسانہ کہنے یا کہانی کے نام جھوٹ بولنے کی آزادی ہے، اس لیے وہ سچ کےسارےتلخابے کو قابل قبول فسانے کی صورت زبان کے قفس میں باندھ کر پڑھنے والوں کی دسترس میں دے دیتا ہے۔
اک محو تماشا ہیں اک گرم ہیں قصے کے
یاں آج جو کچھ دیکھا سو کل وہ فسانہ تھا
میر جو کہ بیانیہ اصناف میں بھی اپنی نادرہ کاری کا اچھوتا طور باندھتے ہیں۔ فسانے کی خیر ،جوکل تھا وہ بھی فسانہ، جو کل ہوگا وہ بھی فسانہ لگتاہے، اور جوآج ایک حقیقت بن کرکھڑا ہے، لمحے بعد التباس رہ جائے گا بس ۔ اب ہم کسی طرف بھی پیر کر جائیں، فسانے سے باہر نکلیں گے کیا؟ ہم بہر طور فسانے کے بیچ ہی ہیں۔میر صاحب افسانے کے کوئی نقاد تھے؟ جی زندگی کا التباس جیتے تھے اور سطروں میں جہان معنیکا التباس دھرتے تھے۔ وہ تھے فسانہ گر۔ خیر سے انھوں نے مثنویاں بھی تو لکھی ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے ان بڑے تخلیق کاروں میں عالم ارواح میں کوئی گٹھ جوڑ ضرور ہوا ہے کہ ہم اپنے زمانے میں یوں کہیں گے اور تم یوں کہنا ۔ تو میں نے اوپر تعلق کی بات کہی تھی۔ یہ تعلق کہیں نہ کہیں نکل ہی آتاہے۔اب تاریخ بھی واقعات کا مجموعہ ہے اور فسانے یا کہانی کی اساس بھی واقعہ ہے۔ میر کہتے ہیں کہ جو کچھ بیتی یابیت رہی ہے سب کا مقدر فسانہ ہے۔ اب مسئلہ تارٰیخ سے گزرنے کاہے کہ سیاح کی طرح تاریخ سے گزرے تو کیا جان کر؟فسانہ یا سچا واقعہ۔ یہ سچے واقعے کے الفاظ حاسے اور شعور کو سیاح رہنے دیں گے یا نہیں؟ الفاظ کابھی اپنا ایک جبر ہے جو اچھی بھلی سوچی سمجھی کہانی، مضمون اور فکر کو کیا سے کیا رخ دے دیتے ہیں۔ اس کہانی میں انسان کا ایک شخصی تضاد بھی تو ہے اور اگر یہی تضاداجتماعی صورت میں رونما ہو تو ا س کا انجام بھی جغرافیہ اور جغرافیہ پرست کی صورت ہو ، کیا یہ امکان سے بعید ہے؟ کیسے پرہول سوالات آرہے ہیں؟ کیا انسانوں کے شانت ہونے کا یہی ایک طریقہ ہے؟
آج کل کسی بھی تخلیق کواستعارہ قراردینے کا بڑاچلن ہے ۔ یہ کہانی جوکہ ایک چیخ کی طرح ،ہمارے ادراک پر ، چنگھاڑتی ہوئی ختم ہوتی ہےکہ کہانی کاکردار اپنے داہنے حصے سے پریشان ہوکر اسے مٹی کے تیل سے بگھو کر اپنے آدھے حصے کو نذرآتش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ درخت کی طرح نہیں ایک جنگل کی طرح دھڑادھڑ جل کراپنے اطراف کو روشن کرتا ہے۔ تاریخ بدنیت غبی بندر کی صورت اپنا گلا کاٹتی نظرآتی ہے۔ کہانی میں کتنے ہی علوم یکجاہیں۔ سچ کہئے تو ماحولیات اپنے آپ میں ایک جامع العلوم ہے۔ کمال یہ ہے کہ کہانی کہانی رہتی ہے اور کہانی کی طرح ختم ہوجاتی ہے۔ اب میں کسی غبی لالچی بندر کی طرح اس کہانی کو استعارہ کہنا چاہتا ہوں لیکن چند تحفظات جو میری بے آبروئی کے ہیں ، ان کے سبب میں اسے ایک بلیغ استعارہ کہنے سے کترا رہا ہوں۔ اسے مجموعی طورپر ایک نرالفظ بھی نہیں کہہ سکتا کہ کہانی کی اساس واقعہ بتائی گئی ہے اور میں مکتبی باتوں کا بڑا قدردان ہوں۔ میرے اس تذبذب کی بڑی وجہ اور بھی ہے اور وہ اس کردار کایہ ہول انگیز قول زریں ہے:
استعارہ جس نے دنیا میں سب سے زیادہ گڑبڑ پیدا کی ہے ۔ وہ چھچھوندر کی مانند ہے، جس کی بدبو اور کراہیت اس سے آگے آگے چلتی ہے۔ ایک گیلی لجلجی لکیر کی طرح جس کے معنی کچھ نہیں ہوتے سوائے اس کے کہ کچھ عیش طبع لوگ اسے رمز بلیغ کہہ کر خود بھی آرام سے بدبو خارج کرسکتے ہیں۔ (ایضا، ص، ۱۰۶)
کسی کہانی کواستعارہ کہنے کا چلن آج کل پسندیدہ اور سب سے زیادہ مقبول برانڈ کی من پسند جینس پہننے جیسا ہے ۔ میں ایسے استعارہ اور ایسی جینس دونوں سے باز آتا ہوں کہ اس جلتے ہوئے جنگل کی روشنی کا مجھ پر گہرااثر ہے۔ آپ نے میری یاوہ گوئی پڑھ لی ۔ بھائی اچھاکیا۔ اب اپنے فسانہ گر کو بھی پڑھیے۔ دیکھیے ایسا اسی وقت کی جیے گا جب اس یاوہ گوئی کو بتحمل برداشت کر گئے ہوں۔ اگر سیدھی سادی باتیں ہی آپ کوراس آتی ہوں۔ آپ میں منشی جی کی چمچماتی چھڑی کی سی سیدھائی ہےتوکیوں پڑھیےگا ۔ مجھے یقیں ہے اس سے پہلے آپ مجھے قماچیں ماریےگا، اور کہیےگا،کوڑھ مغز اس یاوہ گوئی کے بعد سیدھے سیدھے کہو بھی ، کہنا کیا چاہتے ہو؟
میں اپنے مطلب چند اور باتیں کہنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس کہانی کی زمانی حد کو پیش نظر رکھئے۔ خط یا خبر کے تراشے پر مبنی کہانیوں کو ذہن میں لائیے۔ اب کردار کے ذریعہ تیار کردہ متن سے آگے بڑھتی کہانی تلاش کیجئے ،جسے کردار کے متن نےہی اجالا ہو ، یعنی کردار کی طرف منسوب متن سے کہانی روشن ہو کر صاف صاف اتری ہو۔ کہانی کسی دوسرے شعبۂ علم کالبادہ نہ اوڑھے اور ان کے تضادات کو کہانی رہتے ہوئے عیاں کر دے۔ کہانی دنیامیں تاریخ وتہذیب کےتضادات اور ماحولیات سے بدسلوکی کی ہی روداد نہ کہے، بلکہ انسان کے شخصی وجود کے تضاد کو بھی ظاہر کرے اور اپنے وجودکے دونوں رنگوں کو باہم ٹکرا کر ان میں سے اپنے پسندیدہ رنگ کو غالب کرنے کا انجام دیکھے۔انسانی وجود کے بقعہ ٔ نور بننے کاایسا ہولناک منظر لکھنا لکھنے والے سے اس کے سارے ہی حواس مانگتا ہے ۔ یہ کہانی جس قدراپنے اندر بول رہی ہے ، اس سے کہیں زیادہ اہم اس کی وہ چپ ہے،جسے وہ اپنے باہر چیختی ہے۔ یہ کہہ لینے بعد اب میں یہ دہرانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ کھل کے کہو ، کہناکیا چاہتے ہو؟
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.