Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خالدہ حسین کا افسانہ ’’ہزار پایہ‘‘

طارق چھتاری

خالدہ حسین کا افسانہ ’’ہزار پایہ‘‘

طارق چھتاری

MORE BYطارق چھتاری

    (موضوع سے متعلق ایک بحث)

    کسی بھی ملک یا قوم میں جب سیاسی جبر و تشدد انتہا پر پہنچتا ہے تو سماج کا حساس طبقہ نہ صرف متاثر ہوتا ہے بلکہ احتجاج بھی کرتا ہے۔ احتجاج کے طریقے مخصوص تاریخی پس منظر کے لحاظ سے متعین ہوتے ہیں۔ کہیں احتجاج شدید ہوتا ہے کہیں نرم۔ فنونِ لطیفہ میں اس جذبے کے اظہار کے لیے ادب اور مصوری زیادہ مؤثر طریقے ہیں۔ اکثر جبر کے انتہائی دباؤ کے سبب فنکاروں کی زبانیں بند ہو جاتی ہیں مگر ان کی آواز کو زیادہ دنوں تک دبایا نہیں جا سکتا۔ واضح انداز میں اور کبھی علامتوں کا سہارا لے کر ان کے جذبات و خیالات سارے عالم کی فضا میں گونجنے لگتے ہیں۔ لفظ علاقے کی حدوں کو توڑ کر آگے بڑھتے ہیں اور عوام کے حافظے میں محفوظ ہو جاتے ہیں۔ وقت گزرتا رہتا ہے، ان پر زمانے کی پرتیں جمتی رہتی ہیں مگر جب تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے تو ایک لمحہ ایسا ہوتا ہے کہ کھوئے ہوئے لفظ حرکت میں آ جاتے ہیں اور یہ بازیافت فن پارے کے عظیم ہونے کا احساس دلاتی ہے۔ اس کی مثال پاکستانی ادیبہ خالدہ حسین کا افسانہ ’’ہزار پایہ‘‘ بھی ہے۔

    ’’ہزار پایہ‘‘ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو گلے کے مہلک مرض میں مبتلا ہے۔ وہ مرض کینسر بھی ہو سکتا ہے۔ خالدہ حسین نے اس افسانے کا عنوان ’’ہزار پایہ‘‘ اسی رعایت سے رکھا ہے۔ چونکہ کینسر اپنی جڑیں انسان کے جسم میں اس طرح پھیلاتا ہے جیسے ہزار پایہ اس کے اندر رینگ رہا ہو۔ افسانے میں اس طرح کے اشارے بھی دیے گئے ہیں کہ جو شخص گلے کے کینسر میں مبتلا ہے، وہ محض ایک فرد نہیں بلکہ پاکستانی معاشرہ یا وہاں کے سیاسی نظام کی علامت ہے۔ حق گوئی کا فقدان یعنی انصاف کی آواز کا خاتمہ دراصل نظام کے بدترین ہونے کی دلیل ہے۔ گلے کے کینسر کا اثر بھی براہِ راست آواز پر پڑتا ہے اور مریض کی آواز ختم ہو جاتی ہے۔

    افسانے کا آغاز ان الفاظ کے ساتھ ہوتا ہے،

    ’’میں نے دروازہ کھولا۔ اندر کے ٹھنڈے اندھیرے کے بعد، باہر کی چکاچوند اور تپش پر میں حیران رہ گیا۔ دروازہ، جس کا رنگ سلیٹی اور جالی مٹیالی تھی، اسپرنگوں کی ہلکی سی آواز سے بند ہو گیا۔ اس بند دروازے کے اندر ٹنکچر آیوڈین اور اسپرٹ کی بوتھی اور چمڑے منڈھے لمبے بینچوں اور پالش اتری کرسیوں پر لوگ بیٹھے، اخبار اور رسالوں کے ورق بےدلی سے الٹتے تھے۔ نوائے وقت، پاکستان ٹائمز اور کمرے سے باہر چبوترے پر میں کھڑا تھا۔‘‘

    گلے کی خطرناک بیماری میں مبتلا مریض ڈاکٹر کے اندھیرے کمرے سے معائنہ کر وا کر باہر آیا ہے۔ بظاہر افسانے میں ایک مریض کی ذہنی کیفیت کا بیان ہے مگر مصنفہ نے اخبار ’’نوائے وقت‘‘ اور ’’پاکستان ٹائمز‘‘ کا تذکرہ کرکے پاکستان کے سیاسی حالات کی طرف قاری کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ افسانے کا مرکزی کردار سامنے نظر آنے والی ظاہری چکاچوند، جوش اور ولولے کی تپش دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے، کیونکہ وہ ٹھنڈے اندھرے یعنی بے حسی اور تاریک مستقبل کا احساس کرکے باہر نکلا ہے۔ چونکہ کہانی کا مرکزی کردار گلے سڑے اور مہلک مرض میں مبتلا نظام کا حصہ ہے، اس لیے اندرونی حالات سے بخوبی واقف ہے۔ اسے احساس ہے کہ اس کے اندر ایک ہزار پایہ جنم لے چکا ہے۔ وہ سوچتا ہے،

    ’’مجھے معلوم تھا کہ میرے اندر ایک ہزار پایہ پھیل رہا ہے۔۔۔ لمبے لمبے پنجوں والا کیڑا جو رفتہ رفتہ اپنی بےشمار شاخیں پھیلا رہا ہے۔ میری رگوں میں گاڑ رہا ہے۔‘‘

    جب افسانے کا مرکزی کردار بازار سے گزرتا ہے تو انسانوں، دکانوں، تفریح گاہوں اور سرکاری دفتروں پر نظر ڈالتے ہوئے ان کی ظاہری چمک دمک اور اندرونی انتشار کو محسوس کرتا ہے۔ اسے قلم کی طاقت کا احساس ہوتا ہے اور وہ سوچتا ہے،

    ’’مجھے اب یوں محسوس ہونے لگا ہے گویا میں کچھ لکھوں گا۔ دراصل اب سے پندرہ بیس برس پہلے مجھے یہ احساس ہوا تھا کہ میں لکھنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ میں نے کاغذوں کا ایک دستہ خریدا اور اپنی میز پر لکھنے کا سامان سجایا۔ مگر جب جب میں نے قلم اٹھایا تو مجھے لگا کہ شاید میں لکھنا نہیں، پڑھنا چاہتا ہوں۔۔۔ ابھی لکھنے کا وقت نہیں آیا۔ کبھی آئےگا۔ اس لیے میں نے پڑھنا شروع کیا مگر چند سطریں پڑھ کر مجھے لگتا ہے کہ اب میں لکھوں گا۔ میں قلم اٹھاتا مگر لکھ نہ پاتا۔ دراصل مجھے کوئی ایسی چیز لکھنی تھی جس کے لیے لفظ نہیں تھے۔‘‘

    یعنی پندرہ بیس برس پہلے قیام پاکستان کے وقت ادیبوں نے حالات کو محسوس کرکے جو کچھ لکھنا چاہا، وہ شاید اس لیے نہیں لکھ سکے کہ ابھی وہ حالات پڑھنا چاہتے تھے اور سوچتے تھے کہ،

    ’’ابھی لکھنے کا وقت نہیں آیا۔۔۔‘‘

    خود سے نظریں چراتے رہنے اور اپنے اصل چہرے کو نہ دیکھ پانے کا یہ عمل برسوں چلتا رہا اور ایک روز خود کو بدلتا ہوا محسوس کرکے افسانے کا مرکزی کردار سوچنے لگتا ہے کہ،

    ’’میں اپنے آپ کو بدلتے لمحے میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ مگر میں اکثر آئینے سے دور رہتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ میرے کمرے میں کوئی آئینہ ہے ہی نہیں۔۔۔‘‘

    ایک رات اسے آئینہ مل جاتا ہے اور وہ خود کو دیکھتا ہے تو اسے ناموں کے بے فائدہ ہونے اور پیروں کے بے روح ہو جانے کا علم ہوتا ہے،

    ’’آخر ایک رات میں نے آئینہ اپنے پاس رکھا اور پھر اپنی تصنیف میں مصروف ہو گیا۔ مجھے لگتا ہے اب میرے تمام نام ختم ہو گئے ہیں۔ اب میں روز کے تین چار نام بھی نہیں لکھ سکتا اور قلم لے کر دیر تک بیٹھا رہتا ہوں۔۔۔

    پھر میرے گلے اور سینے میں کسی چیز نے کروٹ لی۔ یہ وہی کیڑا ہے جو میرے اندر پل رہا ہے۔ اس کیڑے نے اپنے لمبے لمبے پنجے میری شہ رگ میں گاڑ دیے۔ مفہوم محض کا سیال اندھیرا سامنے امڈا۔ عین وقت پر میرے ہاتھ نے بڑھ کر آئینہ اٹھا لیا اور اس آئینہ کو دیکھ کر مجھے ناموں کے بے فائدہ ہونے کا یقین آیا۔ میں خود اپنے ساتھ برسوں سے زندہ تھا اور اب تک محض نام سے اپنے آپ کو پہچانتا تھا۔ مگر یہ پہچان اوپری تھی۔ سخت چھلکے کے اندر بیچ کا کا گودا اور اس گودے کی کوئی شکل نہیں ہوتی، اس لیے اس کا کوئی نام نہیں ہوتا۔‘‘

    کردار کی اس کیفیت کے ذریعے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہمارے معاشرے، سیاسی ڈھانچے اور سرکاری محکموں کی اوپری پہچان کچھ بھی رہی ہو، اندر سے سب ایک ہی جیسے کھوکھلے ہو چکے ہیں۔ جب وہ مریض اپنے پرانے ایکسرے دیکھتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ سب انسانوں کے ڈھانچے ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں۔ کھوکھلے اور بےروح، جن کی اپنی کوئی شناخت نہیں ہوتی، بس کونے پر لگی نام کی پلیٹ سے انھیں پہچانا جا سکتا ہے۔ یعنی یہاں سبھی کا حال یہی ہے۔ وزیروں اور افسروں کا، تنظیموں کا اور سرکاری شعبوں کا۔۔۔

    ’’میں نے ان چکنے سرمئی کاغذوں کو روشنی کے سامنے رکھ کر دیکھا۔ گول گول پسلیوں کا خول، جس کے بیچوں بیچ کن کھجور ے کی سی شاخ چلی جاتی تھی اور چوکور جبڑے۔ ماتھے میں کھدے گڑھے اور ان گڑھوں کے اندر اندھیرا بھرا تھا اور خالی پن۔ ان کاغذوں پر نیچے کونے میں ایک نام لکھا تھا جو میرا تھا۔۔۔ دیکھو میں یہ ہوں۔۔۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا اور سرمئی کاغذ اس کے سامنے پھیلا دیے مگر وہ کچھ نہ سمجھ سکی۔‘‘

    معصوم عوام کچھ نہ سمجھ سکے ہیں اور اب بھی اندھیرے اور خالی پن سے بےخبر اور لاعلم ہیں۔ اس خالی پن کر پر کرنا یعنی اس مرض کا علاج اب مشکل ہو گیا ہے۔ سوائے اس کے کہ آپریشن کے ذریعے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس گلے سڑے حصے کو جسم سے الگ کر دیا جائے۔ ڈاکٹر بھی یہی مشورہ دیتے ہیں۔ مریض نیم بےہوشی کی حالت میں ڈاکٹر کو کہتے سنتا ہے،

    ’’اس ہزار پائے کو ختم کردو۔ اسے ہلاک کر دو۔‘‘

    لیکن افسانہ نگار کے ذہن میں سوال یہ ابھرتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے؟ وہ ہزار پایہ جو اس کی شخصیت کا حصہ بنتا جا رہا ہے اسے آسانی سے جسم سے دور کیا جا سکتا ہے؟ کیا اس کی جڑیں اب پورے جسم میں نہیں پھیل گئی ہیں۔۔۔ اگر ایسا کیا گیا تو مریض کی کیفیت کیا ہوگی؟ کیا وہ آسانی سے ہزار پایے کو جسم سے الگ کروانے پر راضی ہو جائےگا؟

    خالدہ حسین اس ذہنی کشمکش سے گزرتے ہوئے افسانے کے مرکزی کردار کے ذہن میں داخل ہو جاتی ہے اور کہانی کا اختتام آپریشن تھیٹر کے اندھیرے اور گھنے سناٹے میں کردار کی اس ذہنی کیفیت کے اظہار کے ساتھ ہوتا ہے،

    ’’نہیں نہیں۔۔۔ میں نے کہنا چاہا۔۔۔ یہ زہریلا دھڑکتا گودا، یہ جڑوں بھرا میرے اندر، ہر مقام پر، میرے ہر مسام پر اور دنیا کے ہر لفظ پر حاوی ہے۔ میں نے کہنا چاہا مگر مجھے یاد نہیں میں نے کیا کہا۔۔۔ کچھ کہا بھی یا نہیں۔۔۔ کہ آواز مر چکی تھی۔۔ اور اب یہ مجھے لے جا رہے ہیں، کہیں باہر ویرانے میں، اندھیرے اور گھنے سناٹے میں۔ یہاں میرے ہزار پایے، اس۔۔۔ پہلی اور آخری آواز، پہلے اور آخری لفظ کو ہلاک کر دیا جائےگا۔۔۔ اندھیرے اور گھنے سناٹے میں۔۔۔‘‘

    خالدہ حسین کے اس افسانے میں معنوں کی کئی جہتیں پوشیدہ ہیں۔ ایک سطح پر کہانی بیانیہ کی تمام تر خوبیوں کے ساتھ تخلیق ہوئی ہے تو دوسری سطح پر جدید رجحان سے متاثر ہوکر نہایت فن کاری کے ساتھ وجودیت کے فلسفے کو کہانی کا جزو بنا دیا ہے اور اس کے علاوہ کہانی کا سب سے مضبوط پہلو اس وقت نمایاں ہوتا ہے جب کہانی اپنے دور کے سیاسی، سماجی اور معاشی کھوکھلے پن کی علامت بن جاتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ کہانی کسی منفی رویے کو جنم دیتی ہے بلکہ خالدہ حسین نے بڑی خوبی کے ساتھ کہانی کو مرکزی کردار کی زبان سے بیان کرکے مثبت پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ایک تو یہ کہ کردار کو اپنے اندر پل رہے ہزار پائے کا پوری طرح احساس ہے۔ وہ آئینہ میں اپنے چہرے کو بھی دیکھتا ہے اور ایکسریز کے ذریعے جسم کے اندر کے کھوکھلے پن کو بھی۔ دوسرا یہ کہ چونکہ کہانی واحد متکلم کے صیغے میں ہی اختتام پذیر ہوتی ہے، اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ کہانی کے مرکزی کردار کا آپریشن کامیاب ہوا۔ یعنی تمام خرابیوں کا علاج ممکن ہے۔ ضرورت ہے کسی بڑے آپریشن کی۔

    لیکن المیہ یہ ہے کہ مریض جس بیماری کے ساتھ اتنے دنوں جیتا رہا، اب وہ اس کا عادی ہو چکا ہے۔ اسے اس بات کا غم ہے کہ وہ مرض جو اس کا پرانا ساتھی بن چکا ہے، اب اس سے دور ہو جائےگا۔ یعنی ہم جس برائی کے عادی ہو جاتے ہیں اسے دور کرنا نہیں چاہتے۔ یہی احساس اس افسانے کا اصل موضوع ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے