Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خلیل الرحمٰن اعظمی اور ان کا تخلیقی جہاں

وصیہ عرفانہ

خلیل الرحمٰن اعظمی اور ان کا تخلیقی جہاں

وصیہ عرفانہ

MORE BYوصیہ عرفانہ

    خلیل الرحمٰن اعظمی (۹؍ اگست ۱۹۲۷ء ۔ یکم جون ۱۹۷۸ء )اپنے عہد کے ایک ایسے نابغہ تھے جن کی تخلیقی و تنقیدی نگارشات نے جدید اردو شاعری اور ادبی تنقید کی رجحان سازی میں اہم رول ادا کیا۔شاعری اور تنقیدہر دو میدان میںوہ اپنے رنگ میںیکتا اور منفرد رہے۔انہوں نے شاعری کے بہترین معیار کو پیش کیا ۔شاعری سے ان کا طبعی میلان تھا ۔ ’’ترقی پسند ادبی تحریک‘‘جیسی معرکتہ لآرا کتاب اور کلامِ آتشؔ کے متعلق اپنے تازہ کار مطالعے کے توسط سے انہوں نے اعلیٰ تنقیدی بصیرت کا ثبوت دیا۔اس لحاظ سے ان کی ناقدانہ حیثیت بھی مستحکم ہے۔خلیل ا لرحمٰن اعظمی کی تنقید نگاری کی خصوصیت ان کا معروضی نقطہ نظر اور افراط و تفریط سے پاک متوازن رویہ ہے۔ترقی پسند تحریک سے وابستگی کے باوجود انہوں نے جس غیر جانب داری سے اس تحریک اور تحریک کے پروردہ ادب کی خوبیوں اور خامیوںکا تجزیہ کیا ہے،وہ عملی تنقید کی بہترین مثال ہے۔دراصل وہ کسی بھی گروہ بندی سے بالاتر ہوکر ادب کے براہ راست مطالعے اور تعین قدر پر یقین رکھتے تھے۔بقول خود:

    ’’اچھے ادب کا براہ راست مطالعہ کرکے ادب کی خصوصیات کو سمجھنے اور ان کا معیار اور سطح مقرر کرنے سے مجھے زیادہ دلچسپی رہی ہے۔‘‘

    ان کا یہی رویہ کلام آتش کے تجزئیے کے دوران سامنے آیا۔آتش کے سلسلے میں انہوں نے معتقدات اور مسلمات سے صرف نظر کرتے ہوئے کلام آتش کا براہ راست مطالعہ کیا اور تفہیم و تجزیہ کی پُر پیچ منزلوں سے گذرتے ہوئے آتشؔ کی شاعری کے سلسلے میں اپنے افکار و نظریات کو پیش کیا۔حالانکہ ان کی یہ تحریر طالب علمی کے زمانے کی تھی لیکن ان کا مطالعہ اتنا مستحکم تھا کہ نیاز فتح پوری جیسے بالغ نظر اور دِقت پسند ادیب بھی یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوئے :

    ’’جناب اعظمی جس دِقت نگاہ اور امعانِ نظر سے کام لے رہے ہیں وہ آتش کے باب میں اس وقت تک کسی صاحب قلم کی طرف سے ظاہر نہیں ہوئی۔۔۔۔۔۔۔ان مضامین میںبھی وہی آن بان ہے جو آتش کی خصوصیت کا خاصہ ہے۔‘‘

    مطالعۂ آتش کی زبردست پذیرائی ہوئی ۔بابائے اردو مولوی عبد ا لحق،مولانا سید سلیمان ندوی،قاضی عبد ا لغفار،اثر لکھنوی،ڈاکٹر سید عبد ا للہ،پروفیسر نجیب اشرف ندوی، فراق گورکھ پوری،سید احتشام حسین،رشید احمد صدیقی وغیرہ نے ان کے افکار و نظریات کو سراہا۔خلیل صاحب نے آتش کے کلام کے جائزے کے دوران آتشؔ کی شخصیت کے تشکیلی عناصر کی شناخت کی کوشش کی۔یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ان کا یہ مطالعہ آتش کو دریافت کرنے کی اولین کوشش قرار پائی۔خلیل صاحب دراصل ادب اور ادیب کے اٹوٹ رشتے کے قائل ہیں۔وہ ادب کے مطالعے کے ضمن میں ادیب کے حالات و شواہد اور ماحولیاتی پس منظر کو اہمیت دیتے ہیں۔’’نیا عہد نامہ‘‘ کے دیباچے میں وہ رقمطراز ہیں:

    ’’تخلیقی عمل ادیب کی شخصیت،اُفتاد طبع،اس کی زندگی کے محسوسات و تجربات کی نوعیت اوراس کے انسانی و سماجی تعلقات کے ایک پیچ درپیچ سلسلے کا نام ہے۔ان تمام مراحل سے فطری طور سے گذرنے کے بعد ہی شعر نظم یا ادب پارہ اپنے اندر وہ کیفیت پیدا کر سکتاہے جو اسے جمالیاتی قدر اور فنی حسن عطا کرتی ہے۔‘‘

    خلیل ا لرحمٰن اعظمی کے تنقیدی مضامین کے تین مجموعے ’’فکروفن‘‘ ، ’’زاویۂ نگاہ‘‘ اور ’’مضامین نو‘‘شائع ہوئے۔ان مجموعوں کے بیشتر مشمولات کلاسیکی شعرا کے مطالعے اور موضوعاتی مطالعے پر مبنی ہیں۔یہ مضامین خلیل صاحب کے مذکورہ نظریات کا آئینہ ہیں اور ان کی معروضیت،بالغ نظری،باریک بینی،سخن شناسی اور غیر پیچیدہ اسلوب کی وجہ سے اردو ادب کے تنقیدی سرمایے میں ایک خاص اہمیت کے حامل ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ بزعم خود ناقد نہ تھے اور نہ ہی تنقید نگاری ان کی اولین ترجیح۔اس کے باوجود یہ نقد پارے اردو ادب کا سرمایۂ افتخار ہیں۔’’فکروفن‘‘ کے دیباچے میں انہوں نے لکھا ہے :

    ’’مضمون نگاری کو میری ادبی زندگی میں ثانوی حیثیت حاصل ہے۔میں نے اپنی شخصیت کے سارے عناصر کی ترتیب و تہذیب اب تک اسی نقطۂ نظر سے کی ہے کہ شعر کے پردے پر اپنی روح کو بے نقاب کر سکوں۔‘‘

    لیکن جوں ہی شعر کے پردے پر اپنی روح کو بے نقاب کرنے کا عمل شروع ہوتا،ان کے اندر چھپی ناقدانہ بصیرت ان کے فن پارے کی جانچ پرکھ شروع کر دیتی،ان کا تنقیدی شعور کلام کی ’نا پختگی‘ اور ’نا تراشیدگی‘ کی جانب اشارے کر کے انہیں اضطراری کیفیت میں مبتلا کر دیتا اور اسی الجھن میں ان کی بیاض خالی رہ جاتی۔گویا اسی خود احتسابی نے انہیں تنقید نگار بنا دیا۔وہ خود اعتراف کرتے ہیں :

    ’’میری تنقید نگاری میری داخلی ضرورتوں کی پیداوار تھی۔یہ داخلی ضرورتیں میری اپنی شاعری سے تعلق رکھتی تھیں۔میں کچھ ایسی کیفیتوں سے گذر رہا تھا جو بہت سے مصرعے کہنے کے بعد بھی ان کہی رہ جاتی تھیں۔انہیں سے ملتی جلتی کیفیات کو دوسرے شعرا کے یہاں تکمیل یافتہ صورت میں دیکھتا تو محسوس ہوتا کہ میں نے ان شعرا کو ہی نہیں بلکہ اپنے آپ کو پا لیا ہے۔‘‘

    گویا کہا جا سکتا ہے کہ خلیل صاحب کی داخلی ضرورت اپنی ذات کا برملا شعری اظہار ہے اور اظہار کی کاملیت اورشفافیت کی شدید خواہش نے ہی انہیں تنقید نگار بنا دیا وگرنہ وہ بنیادی اور وہبی طور پر شاعر ہیں۔شعر گوئی ان کے خمیر میں شامل ہے۔ شاعری ان کی ذات کا پردہ بھی ہے اور جلوہ بھی۔شعر کے پیکر میں وہ عیاں بھی ہیں اور نہاں بھی۔

    میں کہ شاعر ہوںمیں پیغامبر فطرت ہوں

    میری تخئیل میں ہے ایک جہانِ بیدار

    دسترس میں مری نظّارۂ گلہائے چمن

    میرے ادراک میںہیں کن فیکون کے اسرار

    میرے اشعار میں ہے قلب حزیں کی دھڑکن

    میری نظموں میں مری روح کی دلدوز پکار

    خلیل ا لرحمٰن اعظمی نے شاعری کو اپنی روح کی پکار کا وسیلہ بنا لیا۔ان کے تین مجموعۂ کلام شائع ہوئے۔۔۔’’کاغذی پیرہن‘‘،’’نیا عہد نامہ‘‘ اور ’’زندگی اے زندگی‘‘ ۔ان کی شاعری داخلی احساسات کی شاعری ہے۔دراصل ان کی زندگی مسلسل آلام و مصائب کی آماجگاہ بنی رہی جس نے ان کی دلدوزی اور حساسیت کو فزوں تر کیا ہے۔شعر کے تہہ دار اسلوب میں انہوں نے اظہار ذات کی راہ نکالی۔

    دل کی رہ جائے نہ دل میں یہ کہانی کہہ لو

    چاہے دو حرف لکھو چاہے زبانی کہہ لو

    ہم پہ جو گذری ہے بس اس کو رقم کرتے ہیں

    آپ بیتی کہو یا مرثیہ خوانی کہہ لو

    خلیل ا لرحمٰن اعظمی نہایت ذہین و فطین تھے۔حصول علم سے انہیں بے انتہا رغبت تھی۔عہد طفلی سے زندگی کے آخری ایام تک کتابوں سے ان کا عشق قائم رہا۔طالب علمی کے دور سے نکل کر جب درس و تدریس میں مشغول ہوئے تب بھی ان کی علم دوستی یوں ہی لازوال رہی۔نہ جانے کتنے لوگوں کو انہوں نے علم کی راہ دکھائی اور رہنمائی کی۔بقول محمود ہاشمی، ان کی داستان لکھنے کے دوران شہریار سے شمس ا لرحمٰن فاروقی تک کتنے ہی لوگوںکے نام آئیں گے۔خلیل صاحب ایک خوش اطوار،تہذیب یافتہ اور وسیع ا لاخلاق شخص تھے۔انہیں اپنی عزت نفس کا حددرجہ خیال رہتا تھا اور دوسروں کی عزت نفس کابھی احترام کرتے تھے۔لوگوں کی کمزوریوں سے چشم پوشی ان کا وطیرہ رہا اور عیب جوئی سے سخت پرہیز کرتے تھے۔ادب میں کسی بھی قسم کی انتہا پسندی سے گریز کرتے لیکن بقول علی حماد عباسی،دوست نوازی میں بلا کے انتہا پسند تھے۔ان کے اندر خود اعتمادی غضب کی تھی اور قوت ارادی نہایت مضبوط۔دل میں جب کچھ ٹھان لی تو تکمیل کی منزل تک پہنچ کے رہے۔باریک بیں اور ذکی ا لحس تھے۔دوستی یا رشتوں کے درمیان موہوم دراڑ بھی ان کی نگاہوں سے اوجھل نہیں رہ پاتی اور وہ اپنے سودوزیاں سے بے نیاز ایسے تعلقات کو خیر باد کہہ دیتے۔دراصل انہیں خود ترحمی سے نفرت تھی۔اپنی جفاکشی اور جدو جہد کے سہارے زندگی کے کڑے کوس سہل کرنا انہیں زیادہ بھاتا تھا،بہ نسبت اس کے کہ ان پر ترس کھایا جائے یا ان کے ساتھ چاہے اَن چاہے مہربانی کی جائے۔ایک شانِ بے نیازی سے انہوں نے اپنی زندگی گذاری اور نہایت جاں بازی اور جواں مردی سے مہلک بیماری کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جان مالکِ حقیقی کو سونپ دی۔لیکن زندگی کی ڈھلتی شام میں بھی ان کی زبان پر یہی کلمہ رہا ؎

    ہم بانسری پر موت کی گاتے رہے نغمہ ترا

    اے زندگی ! اے زندگی!رتبہ رہے بالا ترا

    لیکن اپنی تقدیر پر قانع رہنے کے باوجود ایک دبی دبی سی حسرت لہجے کو آزردہ کرتی رہی ؎

    اپنا مقدر تھا یہی،اے منبع آسودگی

    بس تشنگی،بس تشنگی گو پاس تھا دریا ترا

    لیکن وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے کہ ایک انسان کے ہونے نہ ہونے سے دنیا رک نہیں جاتی۔زمین یوں ہی اپنے محور پر گردش کرتی رہتی ہے۔کسی کو منزل ملے نہ ملے،رستہ یوں ہی چلتا رہتا ہے۔شکر گذار روح یہ کہتے ہوئے ابدی سفر پر روانہ ہو گئی ؎

    اے آسماں ،اے آسماں دائم رہے سایہ ترا

    انسان کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں خاندانی روایات،ماحولیاتی اثرات اور جغرافیائی و تہذیبی حالات کا بڑا اہم رول ہوتا ہے۔خلیل ا لرحمٰن اعظمی کا تعلق ہندوستان کے مردم خیز خطے اعظم گڈھ سے تھا۔وہ ایک ایسے علمی،ادبی اور مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جو بعض خصوصیات اور روشن روایات کی وجہ سے اس علاقے میں اپنی ایک واضح شناخت رکھتا تھا۔ان کے والد مولانا شفیع صاحب ایک جیّد عالم دین اور رہبر قوم تھے۔ان کی فطرت میں نیکی،خداترسی اورعلم دوستی کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔وہ بہت ہی متواضع اور متحمل شخص تھے۔انہیں اپنے دین سے محبت اور اپنی قوم سے ہمدردی تھی جو جہالت کی وجہ سے مختلف قسم کے شرک اور بدعت میں مبتلا تھی۔انہوں نے ارادے کی پختگی کے ساتھ اصلاحِ قوم کا بیڑا اُٹھایا اور انسدادِ بدعت کی کوششوں میں فعال و سرگرم رہے۔ابتدا میں ان کی یہ کوشش ایک تحریک’’اصلاح ا لمسلمین‘‘ کے طور پر رہی اور بعد میں مدرسۃ ا لا صلاح کے ذریعے زمینی شکل میں مبدل ہوئی۔علم سے محبت اور تقلید سے انحراف خلیل ا لرحمٰن اعظمی نے وراثت میں پایا۔لیکن ان کا میدان ادب رہا جبکہ ان کے والد کا دائرہ کار مذہب تھا۔ایک مکمل مذہبی ماحول کا پروردہ ہونے کے باوجود عملی زندگی کے ابتدائی ایام میں وہ مذہب سے قدرے لا تعلق رہے بلکہ بقلم خود ان کی پہلی شعوری بیداری مذہب کے خلاف بغاوت سے شروع ہوتی ہے۔ان کے سبھی بھائی مدرسۃ ا لا صلاح سے فارغ تھے لیکن انہوں نے خاندانی روش سے انحراف کرتے ہوئے بینا پارہ پرائمری اسکول میں داخلہ لیا۔شبلی نیشنل ہائی اسکول،اعظم گڈھ سے میٹرک کیا اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے علیگڈھ چلے آئے۔علیگڈھ میں تعلیم حاصل کرنا ان کا دیرینہ خواب تھا۔اس خواب کی تکمیل کے لئے انہوں نے غیر معمولی مصائب کا سامنا کیا ۔والد کا سایہ سر سے اُٹھ چکا تھا۔ذرائع آمدنی محدود اور معاشی حالات دگرگوں تھے۔علیگڈھ جانے کے موضوع پر بھائیوں میں اختلاف بھی ہوا لیکن علیگڈھ کا فسوں ان کے ذہن پرطاری تھا لہٰذا کمالِ ہمت و حوصلے سے انہوں نے آزمائشوں کا سامنا کیا۔پے در پے مشکلات سے گذرنا پڑا لیکن انہوں نے اپنے سفر کو جاری رکھا اور بحرِ علم سے اپنی تشنہ لبی کو سیراب کرتے رہے۔ آموں کے وہ باغات جو ان کے والد نے گاؤں میں لگائے تھے،وہ پھلواری جو ان کے اپنے شوق کا نتیجہ تھی،سرسوں کے کھیتوں کی بسنتی ہوائیں،سب انہیں یاد آتی رہیں ۔موتیا گلاب اورہار سنگھارکی خوشبوئیں ان کے دامنِ دل کو کھینچتی رہیں لیکن وہ گلشن ِادب کی سیر میں مگن رہے۔ میدانوں کی ہریالی،دریا کا پانی ،پرندوں کی چہکاریں حتیٰ کہ ماں کی منتظر آنکھیں انہیں صدائیں دیتی رہیں لیکن انہوں نے پلٹ کر نقشِ پا کو نہیں دیکھا۔ہاں البتہ انہوں نے ان ساری آوازوں،خوشبوؤں اور منظروں کو دل کے ایوان میں سجا لیا جو شاعر کے جذبات سے ہم آہنگ ہو کر شعر کے پیکر میں جلوہ گر ہونے لگے۔

    لہلہاتی ہوئی فصلیں، وہ مرے آم کے باغ

    وہ مکانوں میں لرزتے ہوئے دھندلے سے چراغ

    وہ وطن جو ان سے چھوٹ گیا یا جسے چھوڑنے پر انہیں مجبور کر دیا گیا ،اس وطن کی یاد ان کے دل سے کبھی محو نہ ہو پائی۔وہ تا عمروقتِ رخصت کی کیفیات کے اسیر رہے۔

    بے کسی رختِ سفر بن کے مرے ساتھ چلی

    یاد آئی تھی مجھے گاؤں کی ایک ایک گلی

    وطن کے مناظر ان کے قدم روکتے ہیں۔ان کی سانسیں تھم تھم جاتی ہیں۔انہیں اپنے وطن سے جیسی اور جتنی محبت ہے، انہیں لگتا ہے کہ وطن بھی ان کے ہجر کے کرب سے یوں ہی آشنا ہو رہا ہوگا۔ان کا گھر اور گاؤں کی گلیاں ،ان کے ہار سنگھار،ان کے باغات بھی ان کی طرح مغموم و بے قرار ہوں گے۔

    یاد کرتے ہوئے اک یوسفِ گم گشتہ کو

    کچھ دنوں روئی تو ہوگی مرے گھر کی دیوار

    کچھ دنوں گاؤں کی گلیوں میں اداسی ہوگی

    کچھ دنوں کھل نہ سکے ہونگے مرے ہار سنگھار

    کچھ دنوں کے لئے سنسان سا لگتا ہوگا

    آم کے باغ میں بے چین پھری ہوگی بہار

    پھر انہیں خود ہی اپنے قیاسات پر شبہ ہونے لگتا ہے اور وہ بے اختیار وطن سے پُرسشِ احوال کرنے لگتے ہیں۔

    اے وطن تیرے مرغزاروں میں

    میرے بچپن کے خواب رقصاں ہیں

    مجھ سے چھٹ کر بھی وادیاں تیری

    کیا اسی طرح سے غزل خواں ہیں

    ’’بہار کی واپسی‘‘ اور ’’نیا جنم‘‘ خصوصی طور پر ایسی نظمیں ہیں جن میں ماضی کی بازگشت ہے،گاؤں کے کھیت کھلیان اور دوستوں کی محفل کی بے آواز صدائیں ہیں۔ان کی نظم’’میرے خوابوں کی سرزمین‘‘ میں بھی ہجرتِ وطن کا ہی کرب رچا بسا ہوا ہے۔وطن کے کھیت،وہاں کی فصلیں،خوشوں کی دلآویز خوشبوئیں،چڑیوں کی چہچہاہٹ اور ندیوں کی گنگناہٹ ان اشعار میں جھلک رہی ہیں۔خلیل صاحب کو اپنی اس ناسٹلجیائی کیفیت کا بخوبی ادراک ہے۔

    کہاں کہاں لے کے پھر رہا ہوں میں اپنے خوابوں کی سرزمیں کو

    نہ جانے کیوں اس کو مجھ سے الفت ہے،یہ مجھے چھوڑتی نہیں ہے

    خلیل ا لرحمٰن اعظمی کے تخلیقی مزاج کی تشکیل میں یاد وطن اور ہجرتِ وطن کا کرب ایک غالب عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔وطن سے بچھڑنے کے غم نے ان کے جذبات میں جو تیرگی پھیلائی اور ان کی شخصیت میں جو دائمی تشنگی پیدا کردی،وہ ان کی شاعری میں ایک زیریں لہر کی طرح جاری و ساری نظر آتا ہے۔وطن کی یاد ان کے شعروں میں اضطرابی و اضطراری کیفیت پیدا کرتی رہتی ہے۔

    وہ گھڑی کون تھی جب مجھ کو ملا تھا بن باس

    ایک جھونکا بھی ہوا کا نہ وطن سے آیا

    نَے کوئی نکہتِ گل اور نہ کوئی موجِ نسیم

    پھر کوئی ڈھونڈنے مجھ کو نہ چمن سے آیا

    میں وہ اک لعل ہوںجو بِک گیا بازاروں میں

    پھر کوئی پوچھنے مجھ کو نہ یمن سے آیا

    یادِ وطن نے ایک طرف ان کے شعروں میں الم انگیز سنجیدگی پیدا کی ہے تو دوسری طرف نشتریت میں اضافہ کیا ہے۔ان کا سوزِ دروں اور ان کا حزینہ لہجہ ایک خاص نوع کے تیکھے پن سے ہم آمیز ہوکر اثر آفرینی کی وسیع کائنات تشکیل کر رہا ہے۔

    یوں تو مرنے کے لئے زہر سبھی پیتے ہیں

    زندگی تیرے لئے زہر پیا ہے میں نے

    شمع جلتی ہے پر اک رات میں جل جاتی ہے

    یاں تو اک عمر اسی طرح سے جلتے گذری

    کون سی خاک ہے یہ جانے کہاں کا ہے خمیر

    اک نئے سانچے میں ہر روز ہی ڈھلتے گذری

    خلیل ا لرحمٰن اعظمی بنیادی طور پر حساس طبیعت کے مالک تھے۔وہ اپنے ارد گرد کے لوگوں سے شفاف محبت رکھتے تھے اور ویسے ہی جذبات کے طلب گار بھی تھے۔محبتوں کا ایسا بحرِ بے کراں ان کی ہستی میں مئو جزن تھا کہ زندگی کا زہر بھی ان کی سانسوں کو زہرناک نہ کر سکا۔رشتوں کی عدم دستیابی نے انہیں دوست داری اور دوست پروری کی راہ دکھائی۔وہ غیر مشروط طور پر دوست نواز تھے اور دوستوں کے لئے وہ کسی بھی انتہا تک جا سکتے تھے۔ہر چند کہ وہ کلاسیکی ادب کے دلدادہ تھے اور کلاسیکی روایات کے حامی و پاسدار، لیکن اس کے باوجود دوستوں کی ہمسری میں وہ ترقی پسند تحریک سے بھی وابستہ ہوئے اور جدیدیت کی طرفداری بھی ان کی دوستی کا ہی شاخسانہ تھا۔حالانکہ وہ ترقی پسندوں کی انتہا پرستی اور جدیدیوں کی بے راہروی دونوں سے نالاں تھے۔دراصل رشتوں سے کٹ کر انسان کی شخصیت میں کہیں نہ کہیں کوئی خلا سا رہ جاتا ہے اور وہ اس خلا کو بھرنے کے لئے ممکنہ راہوں کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔لیکن زندگی میں اکثر وہ چیزیں نہیں ملتیں جن کی طلب شدید ہوتی ہے۔ہجومِ دوستاں کے باوجود تنہائی کا دبیز احساس خلیل صاحب کے وجود سے لپٹا رہا۔

    تیری گلی سے چھٹ کے نہ جائے اماں ملی

    اب کے تو میرا گھر بھی مرا گھر نہ ہو سکا

    ایک سی بے رنگ صبحیں،ایک سی بے کیف شام

    لے رہی ہے زندگی مجھ سے یہ کب کا انتقام

    کون سی منزل میں ہوں اب کچھ بھی یاد آتا نہیں

    اپنی تنہائی سے اکثر پوچھتا ہوں اپنا نام

    رات جب دیر تلک چاند نہیں نکلا تھا

    میری ہی طرح سے سایہ بھی میرا تنہا تھا

    جب ان کی زندگی میں خوشگوار تبدیلیاں آئیں یعنی شادی اور بچے، تب بھی ان کی ذہنی تنہائی نے ان کا دامن نہیں چھوڑا حالانکہ ایک شریف ا لنفس،با شعور اور سلجھی ہوئی خاتون کی رفاقت نے ان کی زندگی اور شخصیت پر مثبت اثر ڈالا جس کا انہوں نے خود بھی اعتراف کیا ہے لیکن ان کی شاعری میں تنہائی یوں ہی ان سے کلام کرتی رہی۔

    کیا کہیں ہم کہ ازل سے ہی ملی تھی ہم کو

    ایسی تنہائی کہ تم سے بھی مداوا نہ ہوا

    تنہائی کی ایک جامد کیفیت ان کے وجود پر چھائی رہی۔ان کا احساس تنہائی کسی دوسرے وجود کی موجودگی سے ختم ہونے والی چیز نہیں ہے بلکہ یہ ایک غیر مرئی شئے ہے جو حالات کے بطن کی پیداوار ہے۔’’نیا عہد نامہ‘‘ کے دیباچے میں انہوں نے اپنی اس کیفیت کا خود ہی تجزیہ کیا ہے:

    ’’کاغذی پیرہن کی اشاعت کو اب دس سال ہو گئے۔اس دوران میری ذاتی زندگی میںبعض خوشگوار تبدیلیاں ہوئی ہیں جن کا اثر میری نظموں کی نہج پر دیکھا جا سکتاہے۔۔۔۔لیکن میری ذہنی تنہائی کسی نہ کسی صورت میں اب بھی برقرار ہے۔اس کا تعلق اگر میری مادی ضرورتوں اور متخیلی خواہشوںسے ہوتا تو میں اب تک اس سے نجات حاصل کر چکا ہوتا،لیکن اس کی جڑیں زیادہ گہری ہیں اور سماجی زندگی و انسانی اقدار کی وسعتوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔میری نظر میں انسانی اقدار کا جو تصور ہے اور میں جو خواب دیکھا کرتا ہوں اس کا ٹکراؤ قدم قدم پر میرے ماحول اور معاشرے سے ہوتا ہے اور میری روح غالب ؔ کی طرح فریاد کرتی رہتی ہے کہ ؎

    ہزار حیف کہ اتنا نہیں کوئی غالبؔ

    جو جاگنے کو ملادیوے آکے خواب کے ساتھ اس لئے میری نظمیں اور غزلیں اب بھی داخلی اور خارجی حقیقت کے تصادم کی کہانیاںسناتی ہیں۔‘‘

    زندگی کی مثبت قدروں پر ان کا ایقان تھا اور حق پرستی ان کا شعار رہالیکن قدم قدم پر اقدار کی شکست و ریخت انہیں شکستہ کرکے رکھ دیتی۔ایک حساس فنکار ہونے کی وجہ سے وہ کبھی بھی زندگی میں مصلحت آمیز سمجھوتہ نہ کر سکے۔نتیجہ یہ ہوا کہ کوئی خراج لئے بغیر زندگی بھی انہیں وہ حقوق نہ دے سکی جس کے وہ مستحق تھے ۔لیکن پیہم ناکامیوں اور مسلسل محرومیوں نے بھی انہیں سر کو خم کرنا نہیں سکھایا۔

    لوگ ہم جیسے تھے اور ہم سے خدا بن کے ملے

    ہم وہ کافر ہیں کہ ہم سے کہیں سجدہ نہ ہوا

    یاں تو سب لوگ ہیں دستارِ فضیلت باندھے

    کوئی ہم سا جو ہو محفل میں تو ہم بھی بیٹھیں

    ہمیں تو راس نہ کسی کی محفل بھی

    کوئی خدا، کوئی ہمسایۂ خدا نکلا

    ان کی نظم ’’اَن کہی‘‘ بھی ان کے انہی خیالات کی عکاسی کر رہی ہے۔حالانکہ وہ اپنے خیالات کی حقیقت اور ان کے نتائج و اثرات سے واقف تھے۔اس گنبدِ بے در میں ان کی صدا بے معنی تھی لہٰذا حالات نے بالآخر انہیں جینے کا ڈھب سکھا ہی دیا۔

    دنیا داری تو کیا آتی ،دامن سینا سیکھ لیا

    مرنے کے تھے لاکھ بہانے پھر بھی جینا سیکھ لیا

    خلیل صاحب نے بہرطور جینا سیکھ لیا کیونکہ انہیں زندگی سے محبت تھی۔وہ زندگی کی بالاتری کے قائل تھے۔موت کی بانسری پر بھی زندگی کا نغمہ گاتے رہے۔زندگی سے اپنی صدا سنادینے کی آرزو و منّت کرتے رہے۔آخرکار زندگی کی تنگ دامنی پر یوں قناعت کر لیا۔

    بس یہی ایک بوند آنسو کی

    میرے حصے کی رہ گئی ہوگی

    جانے کیوں اک خیال سا آیا

    میں نہ ہوں گا تو کیا کمی ہوگی

    ’’میں نہ ہوں گا تو کیا کمی ہوگی‘‘۔۔۔۔۔یہ ایک مصرعہ محض نہیں ہے بلکہ یہ ایک سوال ہے اپنے عہد سے،اپنے رفیقوں سے اور تاریخ کے اوراق سے۔اس سوال کے جواب کے لئے ایک دفتر چاہئے۔ خلیل ا لرحمٰن اعظمی کی شخصیت ایک عہد ساز کی تھی۔ اردو شعر و ادب پر ان کی تحریروں کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ ان کی علم دوستی نے بہتوں کو زندگی میں مثبت راہیں دکھائیں۔ڈاکٹر اخلاق احمد،شہریار،سریندر پرکاش،بانی،کمار پاشی، علی حماد عباسی،شاذ تمکنت وغیرہ کی ذہنی و ادبی تربیت میں انہوں نے اہم رول ادا کیا۔وہ اپنے معاصرین کے بھی مشیر رہے اور بعد میں آنے والوں کی بھی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کی ۔علاوہ ازیں،متعدد قدآور ادیبوں نے ان کے علم و آگہی سے کسبِ فیض کیا اور اپنے افکار و نظریات کا قبلہ درست کیا۔

    اردو ادب کی تاریخ خلیل ا لرحمٰن اعظمی کی خدمات کا اعتراف کئے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ان کا اولین اہم اور لائقِ تحسین کارنامہ کلام آتش پر لکھا گیا مقدمہ ہے۔آتشؔ کے علاوہ دیگر کلاسیکی شعرا پر ان کے ذریعے کیا گیا کام بھی مضبوط تنقیدی بنیادوں پر استوار اور مستحکم ہے۔ان کی طا لب علمی کے دور میں ترقی پسند تحریک اپنے عروج پر تھی۔تحریک کے حرکی و نامیاتی تصور نے انہیں متاثر کیا اور وہ اس تحریک کا ایک فعال حصہ بن گئے۔لیکن یہ تحریک رفتہ رفتہ جمود کا شکار ہو گئی اور ادب سیاست کا وسیلۂ اظہار بن کر رہ گیا۔اعظمی صاحب ایک ذہین اور حساس فنکار تھے۔وہ اس جامد صورت حال سے بد ظن و بے مزہ ہو گئے۔وہ خود کہتے ہیں:

    ’’میں زندگی اور ادب کے سلسلے میںاس تصور سے مطابقت نہیں کر پاتا تھا جس میں ضرورت سے زیادہ غلو،یک سُرے پن اور منجمد خیال کی کارفرمائی ہوتی۔پرانی مذہبی،اخلاقی اور تہذیبی قدروں سے میں نے اپنا ناطہ اسی لئے توڑا تھا کہ میرے نزدیک ان میںادعائیت اور انجماد پیدا ہو گیا تھا۔‘‘

    خلیل صاحب کے خیال میں ترقی پسند اسی شدت اور ادعائیت سے کام لے رہے تھے جو واعظوں اور محتسبوں کی صفات ہیں۔وہ جامد حقیقت نگاری کے قائل نہیں تھے۔حقیقت نگاری صرف اپنے عہد میں زندہ رہتی ہے جبکہ آفاقی صداقتیں زمان و مکان سے بالاتر ہوکر ادبی استحکام بخشتی ہیں۔خلیل صاحب کا تخلیقی شعور نہایت بالیدہ تھا اور ان کی تخیلی اُڑان کسی تحریک یا ازم کے دائرے میں محدود و محبوس ہونے کی روادار نہیں تھی۔ذہانت و جدت پسندی کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔انہوں نے خود اپنے لئے نیا راستہ تلاش کیا جن پر ان کے بعد آنے والوں نے بھی اپنے نقوش ثبت کئے۔خلیل صاحب کلاسیکی ادب کے دلدادہ تھے اور کلاسِک کی بعض خوبیوں کے معترف بھی۔انہوں نے کلاسیکی پیکر میں عصری حسیت کو پیش کرکے اردو شاعری کو ایک نئے رنگ و آہنگ سے رو شناس کرایا۔تہہ داری،آہستہ خرامی،نرم روی،نغمگی،شیرینی اور لطافت کے اسلوب میں انہوں نے اپنے عہد کے افراداور ان کی سائیکی،عصری ذہن کے مسائل، مختلف تہذیبی قوتوں کے تصادم اور ان کے نتائج اور کائناتی صداقتوں کو کچھ اس طرح پیش کیا کہ بقول محمود ہاشمی،’’خلیل صاحب کی ذات کا افسانہ صرف ان کا نہیں بلکہ جدید نسل کی مکمل سائیکی کا افسانہ ہے۔‘‘

    ہمارے عہد سے منسوب کیوں ہوئے آخر

    کچھ ایسے خواب کہ جن کا نہیں ہے کوئی بدن

    خود اپنے اپنے جہنم میں جل رہے ہیں سبھی

    عجیب دور ہے یہ دورِ آتش و آہن

    بنے بنائے سے رستوں کا سلسلہ نکلا

    نیا سفر بھی بہت ہی گریزپا نکلا

    اُبلتے دیکھی ہے سورج سے میں نے تاریکی

    نہ راس آئے گی یہ صبح زرنگار مجھے

    اب اپنے آپ کو ڈھونڈیں کہاں کہاں جاکر

    عدم سے تا بہ عدم اپنا نقش پا نکلا

    میں دیر سے دھوپ میں کھڑا ہوں

    سایہ سایہ پکارتا ہوں

    ابھی خود اپنے معانی کی ہے تلاش مجھے

    میں لخت لخت ہوں اک سیل انتشار میں ہوں

    درج بالا اشعار خلیل صاحب کے فکر کی گہرائی و گیرائی اور ان کے اسلوب کے امکانات کو روشن کررہے ہیں۔ محمود ہاشمی مزید اعتراف کرتے ہیں کہ’’ خلیل صاحب خود اپنے لہجے کو بھی پروان چڑھارہے تھے اور اپنے معاصرین کے لہجے پر بھی اثر انداز ہو رہے تھے۔‘‘یہ واقعہ ہے کہ خلیل صاحب کے لہجے و اسلوب نے اردوشاعری کو ایک نئی سمت عطا کی جس میں وسیع امکانات پوشیدہ تھے۔ خلیل ا لرحمٰن اعظمی نے اپنے طور پر ایک نیا جہانِ رنگ و بو تشکیل کیا جس میں ان کی تخلیقی لرزشوں کے امکانات بقا پارہے تھے لیکن ان کی فکر کا آہنگ اور اسلوب کا رنگ عصری اور جدید حسیت سے اس قدر مانوس اور قریب تر تھا کہ یہی اس عہد کی شاعری کا مزاج اور اسلوب بن گیا ۔اردو غزل کی تاریخ میں یہ اعتراف یقینادرج ہوگا کہ خلیل ا لرحمٰن اعظمی نے اپنے عہد میں غزل کو ایک ایسالب و لہجہ بخشا جس میں سادگی و شفافیت کے ساتھ ساتھ عصری مسائل کو بیان کرنے کی وسعت اور امکانات موجود ہیں۔ان کا تخلیقی طرز جدید غزل کا طرز ٹھہرا۔خلیل صاحب نے طبعی عمر مختصر پائی لیکن اس مختصر دورانیہ میں انہوں نے اردو ادب میں جو کارنامہ انجام دیا وہ ناقابل فراموش ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے