خواجہ سگ پرست
میں نے یوپی کا شہر گورکھپور نہیں دیکھا، ضرورت بھی نہیں پڑی۔ فراق گورکھپوری صاحب، مجنوں گورکھپوری صاحب اور پھر شمشاد نبی ساقی فاروقی سے مل لیا، ان صاحبان کا لکھا ہوا پڑھتا رہتا ہوں۔۔۔ یوں سمجھئے شہر گورکھپور میں جتنا کچھ دیکھنے اور جاننے لائق ہوگا، حسین اور دل آویز ہوگا، تقریباً سبھی دیکھ لیا۔ شہروں میں اور ہوتا بھی کیا ہے؟
جی ہاں! ساقی گورکھپور میں پیدا ہوا تھا۔ ڈھاکے میں اس نے ابتدائی تعلیم حاصل کی، کراچی یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ ایم اے انگریزی میں پڑھ رہا تھا تو لندن روانہ ہوگیا اور لندن یونیورسٹی میں انگریزی ادب میں داخلے کی کوششیں کرنے لگا۔ یونیورسٹی والوں نے کہا، ’’یہاں تمھیں بی اے دوبارہ کرنا پڑے گا۔‘‘
ساقی نے کہا، ’’کرلوں گا۔‘‘
وہ بولے، ’’ٹھیک ہے مگر انگریزی کے ساتھ یونانی اور لاطینی دونوں زبانیں پڑھنا ہوں گی تب کہیں جاکر بیچلر آف آرٹس کی سند ملے گی۔‘‘
ساقی نے کہا، ’’یہ کیا سفلہ پن ہے؟ یونانی تو میں پڑھ لوں گا، ارسطو صاحب کی زبان ہے۔۔۔ اور سکندرِ اعظم کی بھی مگر لاطینی سے مجھے اصولی اختلاف ہے۔‘‘
انھوں نے پوچھا، ’’لاطینی سے کیا اختلاف ہے؟‘‘
ساقی نے کہا، ’’ہے بس کچھ۔ آپ کو کیا بتاؤں؟‘‘
انھوں نے کہا، ’’پھر بھی، کچھ تو کہئے؟‘‘
ساقی بولا، ’’چلیے یہی سمجھ لیجئے کہ امپیریل روما میں ا نسانوں کو غلام بنانے کا رواج تھا اور وہ اپنے غلاموں کو شہری رتبہ نہیں د یتے تھے تو اس بات پر میں بہت خفا ہوں، سمجھے آپ؟ میں لاطینی نہیں پڑھوں گا۔‘‘
لندن یونیورسٹی والوں نے کہا، ’’پھر تو ہم آپ کو داخلہ نہیں دیں گے۔‘‘
ساقی نے کہا، ’’داخلہ لے بھی کون رہا ہے؟ میں اپنے اصولوں پر سودے بازی نہیں کرسکتا۔‘‘ اور بات وہی ختم ہوگئی۔ چنانچہ ساقی فاروقی نے آگے جو کچھ پڑھا وہ اداروں وغیرہ کی دھونس دھڑی سے باہر رہ کر ہی پڑھا۔
ساقی فاروقی نے عمرِ عزیز کا بڑا حصہ گورکھپور، ڈھاکے، کراچی اور لندن میں گزارا ہے۔ وہ آسٹریا کے شہر وی آنا جاکے کئی کئی دن رہ پڑتا ہے کیونکہ وی آنا میں اس کا سسرال ہے اور اس کے سسر ہیں جو ہٹلر کے زمانے میں نازی تحریک میں شامل تھے۔
میں نے ساقی کو کراچی اور لندن میں اس کے دونوں گھروں میں دیکھا ہے۔ کراچی والے گھر میں دوسرے اہلِ خانہ کے برخلاف وہ ایسے رہتا تھا جیسے لوگ ہوٹلوں میں رہتے ہیں۔ کتابیں تک ’’تھپّیاں‘‘ بنا کر رکھتا تھا، گویا ادھر کوچ کا حکم ملا، ادھر بقچوں میں بھر کے روانہ ہوجائے گا۔ اس کے برعکس اپنے لندن والے گھر میں ساقی ٹھیک ٹھاک جم کے اور اپنی جڑیں وڑیں پھیلا کے بیٹھا ہے۔ اس حد تک کہ اس نے اپنے مرحوم کچھوے اور آنجہانی کتے ’’کامریڈ“ کے مرقد بھی گھر کے عقبی لان میں بنا رکھے ہیں جس کی زیارت وہ ہر آتے جاتے کو کراتا ہے۔
میں اور برادرم جمال احسانی نے ’’کامریڈ“ کتے کو زندہ حالت میں دیکھا ہے مگر جمال اس کی رحلت سے پہلے لندن چھوڑ چکے تھے وہ مدفنِ کامریڈ نہ دیکھ سکے، جبکہ اس خاکسار کو ’’کامریڈ“ کی قبر پر ’’احتیاطاً“ دو منٹ خاموش کھڑے رہنا پڑا۔
میں ہر گز ایسا نہ کرتا مگر ساقی نے بھونکنا شروع کردیا تھا، مجبوری تھی۔
ساقی فاروقی کے گورکھپور اور ڈھاکے کے زمانۂ جاہلیت (یا طفولیت) کے بارے میں مجھے کچھ زیادہ نہیں معلوم۔۔۔ اس وقت میں وہاں نہیں تھا۔
گورکھپور کے پس منظر کے بارے میں ا تنا جانتا ہوں کہ ساقی کے داداخان بہادر خیرات نبی ریٹائرڈ ایس پی تھے اور بڑے دبنگ آدمی تھے۔ وہ سرسیّد کے پسندیدہ لباس یعنی تھری پیس سوٹ اور نکٹائی میں رہتے تھے اور کیونکہ خاصے وجیہہ بزرگ تھے، اس لیے تصویر میں بہت شاندار لگتے تھے۔ خان بہادر صاحب کی یہ تصویر کراچی میں ساقی کے دست گیر سوسائٹی والے ایک سو بیس گز کے کرائے کے مکان کے بڑے کمرے میں لگی رہتی تھی۔
مجھے یاد ہے، ہم لوگ پہلی بار ساقی کے گھر گئے (یہ سن اٹھاون کا قصہ ہے ) تو یاس یگانہ چنگیزی کی کسی غزل کی تلاش میں وہ ہمیں لیے ہوئے اپنے ابا کے بڑے کمرے میں گھس گیا، وہاں پہلی اور آخری بار ہم نے یہ تصویر دیکھی۔ اس کے ابا گھر پر نہیں تھے اس لیے ساقی کو یقین تھا کہ یگانہ کی غزل کی بازیابی میں و ہ کامیاب ہوجائے گا۔
دراصل ساقی کے ابا (مرحوم) ڈاکٹر التفات نبی صاحب کو یگانہ اس قدر پسند تھا کہ وہ ساقی کے ذخیرہ ¿ کتب اور اس کے کاغذوں کے پلندوں سے ہر وہ رسالہ یا کاغذ کا پرزہ تلاش کر منگواتے تھے جس پر یاس یگانہ کا ایک بھی شعر لکھا ہو۔ خود وہ بہت مصروف آدمی تھے اس لیے غزلوں وغیرہ کی نقلیں تیار کرنے کا وقت کہاں سے لاتے۔ ساقی کو تاکید کردیتے تھے کہ بھئی غزل ابھی میرے پاس ہی رہنے دینا، پڑھ لوں گا تو لوٹا دوں گا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ یاس یگانہ کی شاعری کو کراچی کے نواجوان باقاعدہ دریافت کررہے تھے۔ یگانہ کاایک نیا شعر بلکہ مصرع بھی نوجوانوں کے حلقوں میں خبر کا درجہ رکھتا تھا۔ خود یگانہ صاحب بہ قید حیات تھے۔ کراچی میں علامہ رشید ترابی صاحب قبلہ کی علمی مجلسوں میں یگانہ کا طوطی بولتا تھا یعنی بزرگوں اور نوجوانوں میں یہ دور یگانہ کی مقبولیت کا سنہری دور تھا۔
تو یگانہ کی غزل کی طفیل ہم نے خان بہادر خیرات نبی کی یہ شاندار رنگین تصویر دیکھ لی۔
میرے لڑکپن کی یادوں میں روغنی تصاویر کو ایک خاص اہمیت حاصل رہی ہے کہ خود میرے والد پورٹریٹ پینٹ کیا کرتے تھے۔ ساقی کے جد بزرگوار کی تصویر میں کوئی ایسی بات ضرور تھی جسے دیکھ کر میں نے کہا، ’’واؤ! یار یہ کون شان دار بزرگ ہیں؟‘‘
’’کون؟ کہاں؟‘‘ ساقی نے اپنی مصروفیت کی بیزاری میں پوچھا، ’’اچھا یہ؟ یہ میرے دادا ہیں مسٹر خیرات نبی۔‘‘
میں ابھی تک تصویر کے سحر میں تھا، میں نے پوچھا، ’’یہ اپنے کوٹ کے سینے پر سرسیّد جیسا تمغہ کیا لگائے ہوئے ہیں؟‘‘
’’کہاں؟‘‘ کہہ کر ساقی تصویر کی طرف مڑا۔ ’’اچھا، یہ؟ ہنہ!“
میں کچھ نہ سمجھا، میں نے کہا، ’’اچھا، یہ اور ہنہ! سے تمھاری کیا مراد ہے؟ یہ کیا کوئی تمغہ نہیں لگائے ہوئے؟‘‘
’’ارے ہاں بھئی، انھیں۔۔۔ خان بہادر کا خطاب ملا تھا۔ ہنہ!“ ساقی نے اپنے ابا کی دراز کھول کر پھر کاغذ الٹنا پلٹنا شروع کردیے۔
مجھے اس کا یہ ہنہ، ہنہ والا رویہ برا لگا۔ کندھا تھپتھپا کر میں نے کہا، ’’ادھر دیکھو، بات سنو! یہ کوئی شرمندہ ہونے کی بات تو نہیں ہے۔ بہت سے پوتے اس بات پر فخر کریں گے کہ ان کے دادا کو خان بہادر کا خطاب ملا تھا۔ یہ تم نے کیا بکواس لگا رکھی ہے؟‘‘
ساقی نے تصویر کی طرف انگلی اٹھاکر کہا، ’’میں ان سے ناخوش ہوں۔۔۔ انھوں نے انگریز کا خطاب کیوں قبول کیا؟“
قاضی محفوظ نے ساقی کو ٹوکا، ’’بھئی علامہ اقبال کو بھی تو سرکا خطاب ملا تھا؟“
’’کیا سمجھتے ہو، علامہ سے مجھے کوئی کم شکایت ہے؟ وہ تو ان کی شاعری کی وجہ سے درگذر کرتا رہا ہوں۔ یوں ہے میرے خان بہادر دادا اگر اقبال جیسا ایک بھی شعر کہہ دیتے تو ان کی خان بہادری کو میں معاف کرسکتا تھا، مگر وہ شعر ہی نہیں کہتے تھے۔‘‘ اس نے مڑ کر تصویر سے کہا، ’’سوری سر! مجبوری ہے۔‘‘ پھر چہک کر بولا، ’’اوہ! یہ رہی غزل۔‘‘
ساقی کو بالآخر دراز میں یگانہ والی غزل مل گئی تھی۔ ہم اس کے ابا کے کمرے اور داداکی تصویر سے باہر آگئے۔
دست گیر کالونی، فیڈرل بی ایریا کے اس گھر کا نمبر شمار ۱۰۰ تھا جس میں ساقی نے اپنی تخلیق کاری، اپنی ذلت اور سرشاری اور عروج کا طویل زمانہ گزارا۔ سو نمبر کے اس مکان میں ساقی کے دوستوں کو بے وقت چائے پلانے، کھانا کھلانے اور باہر کمرے کی مسہری ہٹوا کر فرش پر گدے بچھوانے یعنی ہم خانہ بدوش شاعروں کو بسیرے کی اجازت دینے والی اس کی امی موجود تھیں۔ خدا ان کے درجات بلند کرے، وہ ایک نوع کی ’’فلاحی مملکت“ تھیں۔ انھی کے بھروسے پر ہم میں سے کوئی بھی ساقی کے گھر کسی بھی وقت چلاجاتا اور فلاح پاتا تھا۔
فیڈرل بی ایریا ابھی پوری طرح آباد نہیں ہوا تھا۔ خدا معلوم دس بجے کہ گیارہ بجے یہاں بسیں بند ہوجاتی تھیں۔ ساقی فاروقی کا میزبانی والا ضمیر ہرگز کسی بھروسے کے قابل نہیں تھا۔ ہم ڈرتے ہی رہتے تھے کہ کہیں بارہ بجے رات کو یہ شخص اپنی نظمیں سنانے کے بعد ہمیں خدا حافظ کہتا ہوا دروازے تک نہ پہنچادے۔ لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ میلوں پیدل چلنا ہوگا۔ ہوسکتا ہے پولیس دھرلے، اگرچہ ایسا کبھی ہوا تو نہیں پھر بھی ایک خوف سا دل کو لگا رہتا تھا کیو نکہ بعض لوگوں نے خبر دی تھی کہ ساقی کی آنکھ میں کسی چوپائے کا بال ہے۔ (یہ خبر بعد کو جھوٹ نکلی) تاہم، کسی واقف حال نے یہ خوش خبری بھی دی کہ ساقی کے گھر پہنچ کر ایسا کیا کرو کہ بلند آواز سے امی کو سلام کرلیا کرو، یہ ضروری ہے۔ بس کسی طرح اس کی امی کو معلوم ہوجائے کہ ’’بچے‘‘ آئے ہوئے ہیں پھر وہ خود ہی سنبھال لیں گی۔ ماں تو پھر ماں ہوتی ہے۔
ساقی کتنا پرفن، پرفریب آدمی ہے، اس کا اندازہ ہمیں پہلی ملاقات پر ہی ہوگیا تھا یا یوں کہیے کہ پہلی ملاقات پر اندازہ نہ ہوسکا تھا، دوسری بار پہنچے تو معلوم ہوا کہ پہلی بار جو۔۔۔
مگر نہیں۔ یہ واقعہ مجھے ابتدا ہی سے سنانا پڑے گا۔
ہم دونوں کو پہلی بار کہاں، کس نے ملوایا، اب یاد نہیں۔ ہاں اتنا یاد ہے کہ صبح کے نو بجے سے رات کے آٹھ بجے تک ہم لوگ مختلف گھروں پر چائے، کھانے، سگریٹیں کھاتے پیتے رہے اور باتیں کرتے رہے۔ بہت سا پیدل چلے، بسوں میں بیٹھے اور آٹھ بجے کسی نہ کسی طرح دست گیر کالونی، ساقی کے ساتھ اس کے گھر پہنچ گئے۔ گھر پر اس نے ہمیں کھانا کھلایا، چائے پلائی اور کہنے لگا، ’’اب میں تم کو ایسی جگہ لے جاکر بٹھاؤں گا کہ جس کی دل آویزی اور طراوت اور حسن کتابوں میں درج کیا ہوا تو شاید مل جائے، تم میں سے کسی کے ذاتی تجربے میں خدا کی قسم ایسی دل آویزی، طراوت اور حسن ہر گز نہ ہوگا۔ آؤ سب کے سب میرے پیچھے چلے آؤ۔‘‘
اگست کا مہینہ اور اماوس کی راتیں تھیں یعنی جب چاند بالکل نہیں نکلتا۔ اس وقت تک دست گیر کالونی میں اسٹریٹ لائٹس بھی نہیں لگی تھیں۔ ہم مکانوں کی قطار سے نکلے تو سامنے کھلا میدان تھا۔ گھپ اندھیرے میں ہماری رہنمائی کرتا ساقی فاروقی ہمیں سیمنٹ کی بنچوں تک لے گیا۔ کہنے لگا، ’’بیٹھو اور گہرے گہرے سانس لو۔ یہ پُروائی ہے یا شاید اترپون ہے۔ ہاں ٹھیک تو ہے، اپنے سندھ میں بادِ شمال ہی بادِ بہارہوتی ہے یعنی ’’اترادھی“۔۔۔ بہرحال جو بھی ہو۔ یہ سامنے حدِ نظر تک۔۔۔ یا اس وقت نظر نہیں آرہا تو اگلے چار فرلانگ تک۔۔۔ ایک لش گرین سبزہ زار کھلا ہوا ہے یعنی دست گیر پارک۔ ذرا سونگھوں اس ہوا میں نئی دوب کی خوشبو ہے، نمو کا سرسبز وعدہ۔۔۔ ہے نا؟ تو یہ وہ جگہ ہے یارو! جہاں بیٹھ کر میں نے اپنی بیش تر شاعری سوچی ہے۔‘‘ پھر اس نے کنار آب رکنا باد وگلگشت مصلیٰ والا مصرع پڑھا اور گہری گہری سانسیں لے کر بولا ’’اس تازگی اور سناٹے کو اور اس سبز خوشبو کو اپنے وجود میں اتر جانے دو۔ خوب اترجانے دو۔ سالو! ایسا مست ہرا سناٹا شہر میں اورکہیں نہیں ملے گا۔
ہا آ آہ! ہا!“
ہم میں سے ہر ایک نے خوب پانی دیے ہوئے سر سبز و تروتازہ لان کو اندھیرے میں دریافت کیا اور لطف اندوز ہوئے پھر وہاں گھنٹے سوا گھنٹے بیٹھ کر آخری بس سے ہم اپنے اپنے گھروں کو چل دیے۔
ساقی کے قابلِ رشک، آئیڈیل سبزہ زار کی یاد تین چار دن تک ہمیں گھیرے رہی۔
اینٹی کلائی میکس یا رجعتِ قہقری اس وقت ہوئی جب ہم تین دوست ساقی سے ملنے کے لیے اس کے گھر جا پہنچے۔ بینچوں پر بیٹھنے کے ارادے سے مکانوں کی قطار سے نکلے تو سامنے حدِ نگاہ یا کم سے کم دو فرلانگ تک کچا دھول بھرا میدان تھا۔ بے گیاہ ننگی زمین پر کنکر بکھرے پڑے تھے اور چھوٹے چھوٹے بگولے دھول اور تنکوں کے بھنور سے بناتے تھے۔
ہم نے بھنا کر ساقی کی طرف دیکھا۔ وہ بولا، ’’اوہو! تم سبزہ زار کو پوچھتے ہو؟“ پھر دانش مندی سے کہنے لگا، ’’وہ تو رات میں بچھایا جاتا ہے۔ صبح ہوتے ہی میونسپل کارندے لپیٹ کر لے جاتے ہیں۔۔۔ ہیں ہیں ہیں۔۔۔ کیسی رہی استاد؟“
ہمارے اس دور کے ساتھیوں میں قاضی محفوظ کو پیارے ’’علامہ الدہر“ یا ’’مولانا ابوالکلام“ کہا جاتا تھا۔ قاضی محفوظ کا کمال یہ تھا کہ وہ ایک چھوٹے سے مشاہدے یا خبر کو علمی جبہ ود ستار پہنا کر علمی مجاہدہ کو مجادلہ بنادیتے تھے یعنی یہ کہ اگر بادل چھائے ہوئے ہیں اور پھہار پڑسکتی ہے تو قاضی میم اپنے بالوں پر ہاتھ پھیر کر، منڈی گھماکر اطلاع دیں گے کہ ’’مطلع ابر آلود ہے، چنانچہ ترشح کا ہونا ناگزیر و لابدی ہے۔‘‘ جو بات مشکل زبان میں کہی جاسکتی ہو وہ اسے آسان زبان میں نہیں کہہ سکتے تھے۔ بہت سے جملوں کے ساتھ وہ ’’علیٰ ہذا القیاس“ کا لاحقہ بھی لگاتے تھے چاہے کچھ ہوجائے۔ کہتے تھے اور شاید اب بھی کہتے ہوں کہ ’’علیٰ ہذا القیاس“ کہہ دینے سے ’’مشاہدے کی تشہید میں وقوف حاصل ہوجاتا ہے۔۔۔‘‘ یا خدا جانے کیا ہوتا ہے۔
تو ایسی علمی مقطع چقطع صورتِ حال میں اپنے قاضی محفوظ سن چون سے سن اٹھاون تک ہم دوستوں کو اسد صاحب، احسان صاحب کہہ کہہ کر مخاطب کرتے رہے۔ ہم لوگ بھی جواباً انھیں ’’محفوظ صاحب“ کہا کرتے تھے اور کیا؟ جیسے کو تیسا۔
’’سبزہ زار“ والے واقعے کے تیسرے روز کہ ساقی کے ساتھ ساتھ ہمارے مراسم بالکل نئی ’’سطح مرتفع“ مرتب کر رہے تھے۔ معاف کیجیے۔۔۔ ’’ترتیب پذیر ہونے کی جانب مرفوع تھے۔‘‘ اور ہم قاضی محفوظ کے گھر میں بیٹھے رَوے کا حلوہ کھارہے تھے کہ اچانک ساقی نے چہرہ سرخ کرکے ڈپٹ کر کہا، ’’اسٹاپ!“
حلوے کا ہنگام تھا، کچھ لوگوں نے ہاتھ کھینچ لیا، رک گئے، بعض نے پروا بھی نہ کی تو ساقی نے خود کو اور مشتعل کیا اور بولا، ’’سنو! لاریب کہ اندر صحن تک میری آواز پہنچ سکتی ہے اور صحن میں امی (قاضی محفوظ کی امی) ہوں گی اور منیا ہوگی، اس لیے بہتر یہ ہے کہ ہم سب گلیارے میں چلیں۔‘‘
ہم سمجھ گئے کہ وہ سب کو گلیارے میں کیوں لے جانا چاہتا ہے۔
کوئی ایسی بات ہوگئی تھی جس پر ساقی فاروقی کو گالی گلوچ کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔
ہم میں سے بعض نیم دلی سے اٹھ کر گلی میں آگئے بعض نے روے کے حلوے سے ہاتھ کھینچنا پسند نہ کیا۔ کمرے میں ہی بیٹھے رہے۔ خیر ساقی نے گلی میں نکل آنے والوں کے سامنے ایک مختصر سی تقریر کی، کہنے لگا،
’’نیک بختو۔۔۔!‘‘ (ان سطور میں نیک بختو، بد نصیبو، طوطیان شیریں مقال وغیرہ کو ناشر کی معذوری سمجھنا چاہیے۔ ساقی نے جو اسمائے تخاطب استعمال کیے وہ فی الحال ضبط تحریر میں نہیں لائے جا سکتے) تو کہنے لگا، ’’نیک بختو! تم ایک قعرِ مذلت میں پڑے ہوئے تھے۔ میں آیا، میں نے دیکھا، اور سالو میں نے تمھاری اصلاح کا ارادہ کیا۔۔۔‘‘
اب وہ یونانیوں کے خطیبانہ اسلوب میں ایک ایک سے سوال کرنے لگا، ’’اور مجھے اس کے بدلے میں ملا کیا؟“
کسی نے رواروی میں کہہ دیا، ’’حلوہ۔۔۔ حلوہ ملا سالے تجھے!“ تو ساقی ذاتی طور پر اشتعال میں آگیا۔ خیر، ہاتھا پائی تو وہ کرتا نہیں۔ کچھ دیر بعد ’’نارمل“ ہوا تو کہنے لگا۔
بدنصیبو! میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ تم آج تک اجہل الجاہلین حلال زادوں کی طرح ایک دوسرے کو اسد صاحب، محفوظ صاحب، ارشاد صاحب، کہہ کر پکارتے ہو۔ ارے پانچ پانچ چھ چھ برس کی دوستیاں ہیں اور اب تک۔۔۔ ہیہات! اب تک یہ حرام زدگی چل رہی ہے؟ تف ہے!“
کسی نے بات ختم کرنے کو کہا، ’’یا ہادی! ہم نام نہ لیں تو ایک دوسرے کو اور کس طرح پکاریں؟ تم ہی بتاؤ نمبر شمار مقررکرلیں اور نمبروں سے بلائیں ایک دوسرے کو؟ ایک؟‘‘
ساقی نے سر پیٹ لیا، بولا، ’’کندہ ناتراش، سالے، طوطیِ شیریں مقال! ارے نمبروں سے کیوں پکارو؟ میرے بچوں نام تم لوگوں کے بہت خوبصورت ہیں۔ بہ خدا مجھے ناموں سے کوئی کد نہیں مگر یہ جو ’’صاحب“ لگاتے ہو آخر میں، یہ کیا ہوگیا ہے تم کو؟ بدنصیبو! ارے دوستو کے درمیان آپ جناب کا حجابِ ذلیل کہاں ہوتا ہے؟ سالو! دوست تو ایک دوسرے کے محرم ہوتے ہیں اور وہ کیا کہتے ہیں بے حجاب اور بے محابہ۔ ابے کچھ خبر بھی ہے؟ اپنے جوش صاحب تو پرنس معظم یا مکرم جاہ کے حوض میں اپنے دوستوں کی معیت میں حالتِ بے ستری میں بے خطر کود پڑتے تھے اور ایک تم ہو سالو! ننگ ِ اسلاف، کہ ایک دوسرے کو ’’صاحب“ کا غلاف اڑھاتے ہو۔۔ صد ہزار افسوس!“
ساقی آب دیدہ ہو چلا تھا اور گلی میں کھڑا غصے سے کانپ رہا تھا اس لیے ہم نے اس کے دل پر ہاتھ رکھا اور وعدہ کیا کہ اب ایک دوسرے کو ’’صاحب“ پکار پکار کے ذلیل و رسوا نہیں کریں گے۔ چنانچہ وہ دن ہے اور آج کا دن۔۔۔ اور اس کا کریڈٹ ساقی ’’صاحب“ کو جاتا ہے۔
اب جبکہ وہ اس مختصر گروہ کا ’’والدین“ بن بیٹھا تھا تو ہمیں مزید مطیع و مرعوب کرنے کے ارادے سے اس نے فیصلہ کرلیا کہ ہم سب کو رائٹرز گلڈ کے اس اہم اجلاس میں شرکت کرنی چاہیے جس میں مصور فیضی رحمن اور عطیہ بیگم فیضی تشریف لارہے ہیں۔ ہم نے عذر پیش کیا کہ بھئی ہم لوگ کیا کریں گے جاکر، ہم تو گلڈ کے ممبر نہیں ہیں۔ پھر بعض نے ابھی دو ڈھائی ماہ سے لکھنا شروع کیا ہے۔ بعضے لکھتے لکھاتے بھی نہیں، صرف پڑھتے ہیں۔ ایک تو ایسا ہے جو پڑھتا بھی نہیں بس ’’منہ زبانی“ تیرا کلام سن لیتا ہے، داد تک نہیں دیتا۔ تو گلڈ کے جلسے میں ہمیں کیوں لے جا رہا ہے بھائی؟“
ساقی نے اس ’’کیوں‘‘ کے جواب میں وجوہ گنانی شروع کیں جو کچھ اس طرح تھیں، کہ ’’اوّل یہ کہ میرا حکم ہے اس لیے چوں و چراں کی گنجائش نہیں۔ دوم میں ر ائٹرز گلڈ کا فاؤنڈر ممبر یعنی بنیادی رکن ہوں، میں جس کو چاہوں لے جاسکتا ہوں۔ امام بخش صاحب پہلوان بھی میرے ساتھ اجلاس میں داخل ہوجائیں تو کوئی ’’چوں‘‘ نہیں کرسکتا۔‘‘
ہم نے کہا، ’’امام بخش صاحب تو کا بینہ تک کے اجلاس میں داخل ہوسکتے ہیں، کوئی چوں نہیں کرے گا۔ ہاتھ پیر نہیں تڑوانے کسی کو۔‘‘
ساقی نے کہا، ’’بدتمیزی مت کرو، بات سنو، میں تم سب کو اپنی شان و شوکت دکھانا چاہتا ہوں۔ تم لوگ ابھی میرے عظیم شاعرانہ رتبے کے قائل نہیں ہوئے ہو۔ میں چاہتا ہوں تم گلڈ جاکر اپنی آنکھوں سے دیکھو لو جو دبدبہ اور شکوہ میرا ہے۔‘‘
ہم نے کہا، ’’ہم قائل ہوچکے ہیں اور دبدبے کے سلسلے میں یہ سن چکے ہیں کہ تم نے ایک محترم نقاد، ایک سینئر شاعر کا گریبان پکڑ کر جھٹکا دیا تھا کسی بات پر۔‘‘
کہنے لگا، ’’وہ اور بات تھی اور محترم کا لفظ یہاں غور طلب ہے۔ دیگر یہ کہ میں نے جھٹکا نہیں دیا تھا۔ جس نے یہ واقعہ اس طرح سنایا وہ راوی ضعیف اور گردن زدنی ہے۔ نام بتاؤ اس کا؟
ہم نے کہا، ’’ہم پاگل نہیں ہیں اور عہد شکنی بھی نہیں کرسکتے۔ راوی نے اپنے سفید سر پر ہاتھ رکھوا کر ہم سے قسم کھلوائی تھی کہ اس کا نام تم پر ظاہر نہیں کیا جائے گا۔‘‘
یہ سن کر ساقی خوش ہوا شاید اس لیے کہ گلڈ لے جائے بغیر اس کی ’’دہشت“ ہم پر منکشف ہو رہی تھی۔
خیر اسے اور خوش کرنے کو ہم گلڈ کے جلسے میں پہنچ گئے۔
جلسہ گاہ بنیادی اراکین اور ان کے ساتھ آئے ہوئے مہمانوں سے بھری پڑی تھی۔ اس جلسے میں ساقی نے کوئی خاص جگلری نہیں دکھائی۔ اپنی ’’سینیاریٹی“ اور شہرت (بری بھلی دونوں قسم کی) کی سنہری آنچ میں لوگوں کے درمیان ہمیں لیے ٹہلتا رہا۔ بیگم عطیہ فیضی کے روبرو شولری کے سکہ بند اصولوں کے مطابق اپنے شکم پر ایک ہاتھ رکھ کر جھکا، کہنے لگا، ’’بیگم صاحب! کمال حسین لگ رہی ہیں آپ۔‘‘
بیگم عطیہ فیضی کی بینائی جواب دیتی جارہی تھی۔ انھوں نے سرمہ لگی آنکھوں سے اس کا چہرہ پہچاننے کی کوشش کی، پھر سیکریٹری گلڈ سے پوچھا، ’’میں اس لڑکے کو پہچانتی نہیں، کون ہے یہ؟ بہت مہذب ہے۔‘‘
سیکریٹری گلڈ نے کہا، ’’بیگم صاحبہ! ساقی ہے۔ شاعر ساقی فاروقی۔‘‘
’’شاعر!“ عطیہ بیگم نے دہرایا۔ ’’اچھا یاد آیا۔ خوب شاعر ہے۔ بہادر اور منحرف۔۔۔ مگر یہ عمر ہی ایسی ہوتی ہے۔‘‘
ساقی داد وصول کرتے ہوئے ہنسا، ’’آداب عرض کرتا ہوں۔۔۔! اب آپ اور حسین لگ رہی ہیں بیگم صاحبہ۔ ہہ ہاہا۔‘‘
عطیہ بیگم روشن آنکھوں سے مسکراتی آگے بڑھ گئیں۔
ساقی نے ہمارے پاس پہنچ کر کہا، ’’دیکھ لیا سالو؟“
بعد میں ’’جو یوں ہوتا تو کیا ہوتا“ کے ضمن میں ساقی ہمیں قائل کرتا رہا کہ وہ اگرمولانا شبلی، علامہ اقبال اور عطیہ بیگم فیضی کے عہد زریں میں ہوتا تو عطیہ بیگم کے سلسلے میں حضرت علامہ اور جناب شمس العلمادونوں کا چراغ نہ جلنے دیتا بلکہ عین ممکن تھا کہ اپنے فیضی رحمن صاحب کی ریاضتیں بھی رائگاں جاتیں۔
ایسا خبیث آدمی تھا یہ اس زمانے میں۔
یہ ہمیں دوسری اور آخری بار گلڈ کے دفتر میں لے گیا تو وہاں فخر سلطنت، جناب فردوسی بہ نفس نفیس موجود تھے۔ ان کو دیکھ کر ساقی نے ہم سے کہا، ’’ذرا خیال رکھنا۔ آج بہت سی باتیں ایسی ہوں گی جن سے میں اشتعال میں آسکتا ہوں۔‘‘
ہم میں جس کی صحت سب سے اچھی تھی اس نے ساقی سے کہا، ’’ذرا تم بھی خیال رکھنا کیونکہ میں مشتعل ہوئے بغیر گدی میں ہاتھ دے کے آدمی کو ادھر ادھر لے جانے کی مشق کر رہا ہوں۔‘‘
ساقی فاروقی فقرے کی سنگینی کو سمجھ گیا۔ اس کی صحت اس زمانے میں بھی کوئی زیادہ قابل رشک نہیں تھی۔
جلسہ شروع ہوا تو صدر میں صوفے پر بیٹھے ہوئے فخرِ قوم جناب حفیظ جالندھری نے حسب معمول چھوٹے چھوٹے بظاہر بے ضرر فقروں سے کارروائی میں رخنے ڈالنا شروع کردیے۔ کوئی رپورٹ پڑھی جارہی تھی جس سے حاضرین بیزار ہو رہے ہوں گے۔ فخرِ سلطنت کے فقروں کی حوصلہ افزائی کیے بغیر لوگوں نے دبی آواز میں ہنسنا، سرگوشیاں کرنا، اونچے سر میں کھانسنا اور جماہیاں لینا شروع کردیا تھا۔ فخرِ سلطنت جناب فردوسی کو گمان ہوا کہ یہ پھلجھڑیاں ان کے ’’ذہین“ فقروں کے سبب سے چھوٹ رہی ہیں، انھوں نے اور تیزی سے فقرے مارنا شروع کردیے۔ ساقی نے ہم سے کہا ’’میں بتدریج طیش میں آرہا ہوں۔ عین ممکن ہے، اس شخص کی بے جا اور بے کیف مداخلت پر مکمل ساقیانہ جلال میں آجاؤں۔ آگاہ کیے دیتا ہوں پھر نہ کہنا۔‘‘
ہماے اچھی صحت والے ساتھی نے کہا، ’’آگاہ اپنی موت سے کوئی بشرنہیں اور یہاں ’’کوئی بشر“ سے مراد تم ہو ساقی فاروقی۔ اس لیے سکون سے بیٹھنا۔ گڑبڑ بالکل نہ کرنا۔‘‘
ساقی چپ ہورہا۔ اس کھلی چیتاؤنی کے جواب میں کیا کہہ سکتا تھا؟
خیر رپورٹ ختم ہوئی۔ کسی نثر نگار نے کچھ پڑھا پھر اس پڑھے ہوئے پر بات چیت کی دعوت دی گئی تو سب سے پہلا آدمی جس نے اس نثر پارے کے بخیے ادھیڑنا شروع کیے، ساقی فاروقی تھا۔ ساقی کی یہ جارحانہ کارروائی اصلاً ہمیں متاثر کرنے کے لیے تھی۔ اب یاد نہیں رہا کہ نثار کون تھا؟ ہر نئے جملے پر بے چارہ حیران ہوکر ساقی کا منہ تکنے لگتا تھا جیسے کہہ رہا ہو ’’بروٹس! تم بھی؟“
جملہ وفاداریاں بھول کر ساقی اس کا جھٹکا کرنے پر تل گیا تھا۔
نثر پارے پر ساقی کے اعتراضات کے جواب میں کسی نے کچھ کہا۔ پھر فخرِ سلطنت جنابِ فردوسی نے صدر میں بچھے ہوئے صوفے پر سے کچھ کہنا شروع کیا، ہم سمجھ گئے کہ نقصِ امن کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
فردوسی نے کہنا شروع کیا، ’’میں جب روس میں تھا۔۔۔‘‘ آگے انھوں نے بتایا کہ وہ جب روس میں تھے تو وہاں کون سی چیز کس طرح تھی۔
ساقی نے کہا، ’’میں اپنے فاضل دوست فخرِ قوم ملک ملت جناب فردوسی سے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔‘‘
ساقی انھیں اپنا دوست کہہ رہا تھا جب کہ فردوسی کی عمر شاید ساٹھ سے تجاوز کرچکی تھی، ساقی پورے بیس کا بھی نہ ہوگا۔
جواباً فردوسی بولے، ’’جب میں روس میں تھا تو۔۔۔‘‘ اور انھوں نے پھر یہ واضح کیا کہ اس وقت روس میں کیا کچھ کس طرح تھا۔
ساقی نے بے نیازانہ ایک ایسا فقرہ کہا جس کا مفہوم یہ تھا کہ فاضل دوست فردوسی اس مغالطے میں رہتے ہیں کہ وہ چیزوں کو اور چیزیں انھیں سمجھ سکتی ہیں۔
ساقی حد سے تجاوز کرگیا تھا۔ فخرِ سلطنت جنابِ فردوسی نے کڑک کر کہا، ’’صاحب زادے! میں نے روس میں۔۔۔‘‘
ساقی نے جملہ پورا نہ کرنے دیا، ڈپٹ کر کہا، ’’اسٹاپ! مسٹر فردوسی پلیز اسٹاپ! ذہین ادیبوں، شاعروں کا یہ اجتماع!“ ساقی نے جھاڑوکی طرح اپنا ہاتھ سوئیپ کرتے ہوئے جملہ حاضرین کو روغنِ قاز مل دیا۔
بولا، ’’یہ ذہین اجتماع حلق تک اس اطلاع سے بھر چکا ہے بلکہ اب تو ابل رہا ہے، اس خبر سے مسٹر فردوسی کہ آپ سرکاری خرچ پر بالآخر روس بھی ہو آئے۔‘‘
حلقہ بگوشوں میں سے کسی نے برابر کے سوفے سے سر ابھارا، کہا، ’’ساقی! کیا بدتمیزی ہے؟‘‘
ہمارے عقب سے بھی کسی نے حلقہ بگوشی کی، ’’شرم کرو! شرم کرو مسٹر!“
برابر سے ایک صاحب، ’’چچ چچ“ کے ساتھ افسوس کرتے ہوئے بولے ’’فخرِ قوم ملک سلطنت جنابِ فردوسی دوراں کے ساتھ یہ سلوک ناقابل برداشت ہے۔ مسٹر فاروقی، آپ کو معافی مانگنی ہوگی۔‘‘
ساقی کے خلاف بغاوت پھیلتی جارہی تھی۔
ہمارے اچھی صحت والے ساتھی نے ساقی کے کان میں کہا، ’’شریف زادے! تو ہمیں بھی مروا دے گا۔‘‘
دوسرے نے کہا، ’’اب مرو بھی، اٹھو اور اپنی لاش لیے بھاگ جاؤ جلدی سے۔ چلو۔ سؤر!“
مگر ساقی۔ اپنی ننہال کی فاروقی نسبت کے ساتھ، اب پورے قامت سے تن کر اٹھ کھڑا ہوا اور اصیل لفظوں کی تمام جارحیت کے ساتھ اس نے دم سادھے ہوئے آڈی ٹوریم میں چھ سات منٹ مسلسل تقریر کی۔ جس کا لب لباب یہ تھا کہ پچھلی جنگِ عظیم کی حنوط کی ہوئی لاشوں کو ایک زندہ اور متحرک اور سیماب صفت نسلِ نو پر مسلط کردیا گیا۔ جوایک ارضِ نو شگفتہ کی کچی کونپل امنگوں کی نمائندگی کررہا ہے، یہ شغال ٹولہ جو ٹوڈیوں کا پروردہ ہے۔۔۔ کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد اور فیض صاحب کو ریڈیو پاکستان سے بین کردیا گیا ہے، ان کا نام بھی نہیں لیا جاسکتا وہاں اور بے مغز خالی کھوکھے یہاں سے ارضِ چین تک بجتے چلے جاتے ہیں۔ کہنے لگا ’’یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں۔ حاضرین میں ان غلط کاریوں، غلط بخشیوں کا خاموش تماشائی نہیں رہ سکتا۔ نو!“
حلقہ بگوش صفوں سے کسی نے لفظ غلط کاریوں پر کھیلتے ہوئے ساقی کے غیر محتاط لڑکپن پر حرف زنی کی۔ سیکریٹری گلڈ نے (یا جو بھی ان کا عہدہ تھا) ساقی کو یاد دلایا کہ یہ ادبی مجلس ہے، اس فورم پر سیاسی گفتگو نہیں کی جاسکتی۔ ہم نے اپنے میزبان ساقی فاروقی کی آستین کھینچی ’’چل۔۔۔ ! یہ کس پھڈے میں ڈال دیا ہمیں۔‘‘
اس کی آنکھیں روشن اور سر اور گردن کا زاویہ کشیدہ تھا۔ اسٹیج وہسپر میں یعنی دور تک سنائی دیتی سرگوشی میں بولا، ’’طوطیِ خوش الحان سالے! دیکھتا نہیں گھمسان کا رن پڑ رہا ہے۔ تو یہاں شعر لکھنے آیا تو اب سیکھ لے کہ۔۔۔ سکوں کے بیوپاریوں کو خداوند کی ہیکل سے کیسے آؤٹ کیا جاتا ہے۔ اب یہ بھی سیکھ۔‘‘
مگر رائٹر گلڈ کا دفتر خداوند کی ہیکل نہ تھا اور نہ ہی شعر و ادب کی مملکتیں کسی فوج کشی سے جیتی جاسکتی ہیں۔ ساقی فاروقی کو بالآخر اس ’’چوہا دوڑ“ کو سمجھنا اور کبھی کبھی اس میں شامل ہونا پڑا جو زندگی کے ہر شعبے کی طرح ادب میں بھی جاری و ساری ہے۔ شاید وہ پہلے بھی ایک چھوٹی موٹی چوہا دوڑ جیت چکا تھا کہ گلڈ کے ائیرٹکٹ پر ڈھاکے کا ایک چکر لگا آیا تھا، اس نے ایک نظم لکھی تھی، قطار اندر قطار پٹ سن کے نرم پودے۔۔۔ ہاں روس، چین نہیں جاسکتا تھا۔ تو وہ غصہ بہ دستور اپنی جگہ تھا۔
بعد کو اردو مرکز، بی سی سی آئی یا ’’سوغات“ بنگلور کے سلسلے میں ساقی نے جو قلم کاریاں کیں انھیں روس چین محرومی، جمع استحقاق، جمع توقعات کے سلسلے کی شکستہ کڑیاں سمجھنا چاہیے۔ میں اس کی وکالت نہیں کررہا مگر شاید ساقی ابھی تک انوکھا لاڈلا بنا ہوا ہے، کھیلنے کو چاند مانگتا رہتا ہے۔ شاید ممتاز حسین، مدنی، سلیم احمد، اطہر نفیس اور ایسے بے شمار لوگوں نے بشمول راقم اسے لاڈ کر کر کے بگاڑ دیا۔ خیر چھوڑیے۔ ایک قصہ اور سنیے۔
ساقی سناتا تھا کہ ایک بار گلڈ کے کسی عظیم الشان اجلاس کے دوران (فاؤنڈر ممبر ہونے کے ناتے ) وہ ڈرائیور سمیت گلڈ کی ایک گاڑی ہتھیانے میں کامیاب ہوگیااور ڈرائیورکو لے کر کسی عزیز، کسی دوست یا کسی محبوبہ کے گھر جا پہنچا اور اپنی شان و شوکت دکھا کر وہاں سے دو گھنٹے بعد لوٹا۔ گلڈ کے عہدے دار (نام ان کا تاج صاحب فرض کرلیجیے ) نے لاہور، پشاور، ڈھاکے، کوئٹے سے آئے ہوئے مندوبین کی موجودگی میں (انتظامیہ سے مخصوص) جھلاہٹ اورر عونت کے ساتھ ساقی سے جواب طلب کیا کہ ’’مسٹر ساقی فاروقی آپ کس اتھارٹی سے گلڈ کا ڈرائیوراور گاڑی لے گئے تھے؟“
ساقی غصے میں سانولے سے سفید ہوگیا مگر حالات سازگار نہیں تھے۔ اس نے دائیں بائیں، آگے پیچھے دیکھا۔ اس کی ذلت و خواری کوئی بیس مندوبین کے روبرو ہوئی تھی۔ وہ اس کا نام سن کر متوجہ ہوئے تھے اور اسے پہچان بھی گئے مگر وہ گلڈ کے عہدیدار تاج کی آفیشیل پوزیشن کے رعب و داب کو بھی تسلیم کرچکے تھے کیونکہ تاج نے ساقی جیسے معروف شاعر کو ڈانٹ دیا تھا جبکہ تاج (بقول ساقی) بہت برے شاعرتھے بلکہ سرے سے شاعر تھے ہی نہیں۔
ساقی نے دیکھا کہ آڈی ٹوریم لوگوں سے بھرتا جارہا ہے ایک ٹیکنیشین مائیکرو فون ٹیسٹ کررہا تھا۔ ٹھن ٹھن، ہیلو ہیلو، ون ٹو تھری کیے جارہا تھا۔ ساقی نرمی کے ساتھ تاج کا ہاتھ تھامے اسے ڈائس پر، پھر مائیکرو فون کی رینج میں لے آیا۔ ساقی بہت نرمی سے بڑبڑاتا ہوا آیا تھا کہ یار تاج بات سنو۔ قصہ یہ ہے کہ، یار بات سمجھا کرو۔۔۔ وہ اس لیے۔۔۔ وہ اس لیے کہ تاج کو اس کے اصل عزائم کا علم نہ ہونے پائے۔ جوں ہی یہ لوگ مائیک کے دائرۂ اثر میں پہنچے، ساقی نے ٹیکنیشین کو آہستگی سے ہٹایا اور قرونِ وسطیٰ کے درباری نقیبوں کی سی ٹھنٹھناتی ہوئی آواز میں براہِ راست مائیک کو مخاطب کیا کہ ’’تاج محمد فلانے جائنٹ سیکریٹری (یا جو بھی عہدہ تھا) پاکستان رائٹرز گلڈ، یونانی کتوں کے مورثِ اعلیٰ، کفن چور، حلال زادے، عجمی گونگے تیری یہ مجال کہ تو ساقی فاروقی سے گاڑیوں، ڈرائیوروں کے بارے میں جواب طلب کرے‘‘ پھر اس نے اپنے سلسلے میں لاف زنی کی کہ ’’میں ساقی فاروقی عربی الاصل ہوں۔ صاحبِ لسان ہوں، ایسا زبردست شاعر ہوں کہ اللہ اللہ اور وغیرہ وغیرہ اور فرہاد تک ’’رکھ کے تیشہ کہے کہ یا استاد“ اور تونے اب تک کیا لکھا ہے؟ تاج محمد فلانے ہیچ پوچ سالے! دشت گم نامی کے چراغِ کشتہ۔‘‘
ساقی کی سینچورئین آواز چالیس لاؤڈاسپیکروں سے نشر ہوئی اور چار ہزار کے مجمعے نے سنی جبکہ تاج محمد فلانے کی کڑوی جھنجھلاہٹ بیس آدمیوں تک ہی پہنچ سکی تھی۔
ساقی کا انتقام پورا ہوچکا تھا۔ یہ قصہ سناکر ساقی کہنے لگا، ’’پیارے! یہ ہوتی ہے غصے کی حکمتِ عملی!“
وہ شاید چاہتا ہوگا کہ انسان کو اپنے غصے اور اپنے پیار کی حکمت عملی خوب سوچ سمجھ کر تیار کرنی چاہیے کہ کہیں یہ قیمتی اثاثہ دشت میں کھلی ہوئی چاندنی کی طرح ضائع نہ ہوجائے ں۔ (میں نے غصے کی حکمتِ عملی کے قصے سنادیے۔ اس کے پیار کی حکمتِ عملی کا ایک بھی واقعہ نہیں سناسکتا۔ میں محتاط روایتوں کا آدمی ہوں۔ خود ساقی چاہے تو مجلے ’’راوی“ بریڈ فرڈ والے مضمون کی طرح پاکستان، ہندوستان میں بھی اول فول چھپواسکتا ہے، اس کی مرضی۔)
خیر تو ساقی نے کہا، ’’پیارے! یہ ہوتی ہے غصے کی حکمتِ عملی!“ مگر ٹھہریے یہ باتیں ساقی کے ’’اقوالِ زریں‘‘ کے شعبے میں آئیں گی۔۔۔ جب بھی وہ شعبہ کھلے۔ میں تو اس وقت اس شخص کی کھری اور کھوٹی، اوندھی اور کج، خبیثانہ اور آدمیوں جیسی، گہری اور الجھی باتیں یاد کرنا چاہتا ہوں۔ میں کیوں اس کے لیے اقوالِ زریں ڈرافٹ کروں؟ اقوال زریں تیار کرنے کا کام خود ساقی کا ہے اور اس کے پاس ابھی بہت وقت ہے۔ وقت ہی وقت پڑا ہے، اپنی کلیات چھپوا کر بیٹھا ہے وہ۔ اب تو شعر بھی نہیں کہہ رہا۔ تو بس اب دن بھر بیٹھا اقوال زریں گڑھتا ہے سسرا۔
نوٹ، قارئین اور خود صاحب ِ موصوف جان گئے ہوں گے کہ یہ ایک صدیقی، فاروقی، نسبتوں والے عربی الاصل کے لیے مہمیز کے کلمات ہوسکتے ہیں تاکہ وہ اٹھ کھڑا ہو اور لکھتا رہے۔۔۔ عزیز حامد مدنی کی طرح، سلیم احمد اور اطہر نفیس کی طرح لکھتا رہے۔ اپنی آخری سہ پہر تک۔
سید سلیم احمد کا من موہنا نام پھر درمیان میں آگیا ہے اور اطہر نفیس کا بھی۔ جہانگیر روڈ کے شب و روز یاد آتے ہیں مگر وہ بیان کیے جانے کے لیے الگ الگ پوری داستان ہے۔
ساقی پہلی بار ہمیں سلیم بھائی کے گھر جہانگیر روڈ لے گیا تو اس نے اس واقعے کو تقریب کی طرح ٹریٹ کیا۔ کہنے لگا ’’آج میں تجھے کسوٹی پر گھس کر دیکھوں گا کہ تو زر خالص ہے یا پیتل ویتل ہے۔ آج تجھے سلیم خاں کے سامنے نظمیں پڑھنا ہوں گی۔‘‘ پھر کہنے لگا ’’سید سلیم احمد کو اعزازی خان مقرر کیا گیا ہے۔ وہ ’ایک‘ جلالی سید اور مخدوم زادے ہیں تو انھیں اپنے جیسا ’’چ“ نہ سمجھ لینا۔ اور خبر دار! عمر کے کسی حصے میں سلیم احمد کو تو سلیم خاں نہ کہنا۔ ہاں بیٹا، حذر بکنید! سلیم خاں پکارنے کایہ استحقاق گنتی کے لوگوں کو حاصل ہے، اس لیے اے پسر! تا عمر اپنی زبان کو لگام دیتا رہیو۔‘‘
اور ساقی نے اطہر نفیس سے ملوایا۔ مجھے ہدایت کی کہ اس شخص کے ساتھ تو وفا کرنا اس لیے کہ یہ اول درجے کا وفا سرشت ہے۔ کہنے لگا کہ تم دونوں کو اس لیے بھی ملا رہا ہوں کہ سوریہ ونشی راجپوتوں اور اچک زئی پٹھانوں میں ایک چیز مشترک ہے یعنی وہی وفا وغیرہ تو بیٹے میرے نام کو بٹہ نہ لگانا ورنہ یہ سوریہ ونشی مزاج کے کڑے بھی بہت ہوتے ہیں۔ تونے کوئی حرم زدگی کی اور ادھر راجپوتانی ’’جہالت“ نے غلبہ کیا تو کنور اطہر علی خاں پیٹ پھاڑ کے تیرا ’’جوہر“ کر دے گا اور پھر تا عمر کفِ افسوس مل مل کر گریہ کرے گا۔
تو ساقی فاروقی نے ان دونوں سے ملوایا اور پلک جھپکتے میں یہ صحبت تمام ہوئی۔ خبر نہیں اس ملاقات کو دو تین دہائیاں گزری ہوں گی یا دو تین ساعتیں کہ وہ سید صاحب اور وہ کنور صاحب ملکِ بقا کو روانہ ہوئے۔ بس دوہالے روشنی اور خوشبو کے یہیں کہیں آس پاس موجود ہیں۔
ساقی کے انگلستان ہجرت کرجانے کو دل سے نہ سلیم احمد نے پسند کیاتھا نہ اطہر نفیس نے۔ مگر دونوں کا خیال تھا کہ اگر یہ نہ جاسکا تو اس کے ہاں اس درجے کا فرسٹریشن پیدا ہوگا کہ پھر یہ سنبھالے نہیں سنبھلے گا۔ اس کا شاعر واعر سب ختم ہوجائے گا۔
قاضی محفوظ نے جو پاسپورٹ آفس میں نوکر تھا، اس کا پاسپورٹ بنوایا۔ بھائی ارشاد نبی نے جو ساقی سے چند ہی برس چھوٹا تھا اور اس سے پہلے لندن جا بسا تھا، ساقی کے لیے مستند کنجڑے اور قصاب کا اجازت نامۂ سفر و رہائش بھیج دیا۔ اب ایک ہی مسئلہ رہ گیا تھا اور وہ تھا ایئر ٹکٹ کے پیسوں کی فراہمی۔
(مرحوم) ڈاکٹر التفات نبی نے اپنی بیگم کے اور اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لیے (ان کے تین بیٹے دو بیٹیاں ہیں) بہت سے خواب دیکھے ہوں گے۔ ہر آدمی دیکھتا ہے۔ ایک خواب یہ بھی تھا کہ اپنے ذاتی مکان میں ر ہا جائے۔ نارتھ ناظم آباد میں اچھے خاصے قطعۂ زمین پر ایک مکان ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کے تعاون سے بن بھی رہا تھا، وہ بن گیا۔ سب جا بسے اس گھر میں کہ ناگاہ ساقی نے فیصلہ سنادیا ’’میں لندن جارہا ہوں، پڑھوں گا۔‘‘
گھر میں کیا ہوتا رہا اور کیا ہوا، یہ ایک آبرو مند گھرانے کا انتہائی ذاتی مالیاتی معاملہ ہے۔ دوستوں کو بھی کیوں معلوم ہو۔ ہاں ایک روز ساقی بہت پژمردہ سا آکر بیٹھ گیا، ہم نے پوچھا تو کہنے لگا، ’’میں نے آج زندگی میں پہلی بار ابا کی توہین کی ہے، میں اس وقت اپنی ذلت خواری کے جہنم میں جل رہا ہوں، لعنت ہے مجھ پر۔‘‘
تفصیل ہم لوگ کیا پوچھتے، اس نے خود ہی اپنا بوجھ ہلکا کردیا۔ کہنے لگا ’’ائیر ٹکٹ کے پیسوں کی فراہمی کے بارے میں ہر طرف سے ابا پر دباؤ ڈلوارہا تھا آج سویرے انھوں نے جھنجھلا کر کہا، ’’ساقی!“ (وہ اسے ساقی کہتے تھے، اس کے شاعر ہونے پر فخر کرتے تھے) کہنے لگے ’’ساقی!پیسوں کی فوری فراہمی کی دو صورتیں ہیں یا تو میں پانچ ہفتے کا بسا ہوا یہ گھر بیچ دوں یا جو کام کبھی نہیں کیا وہ کروں۔۔۔ رشوت لینے لگوں!“
ساقی نے بڑی اداسی سے بتایا کہنے لگا، ’’یار میں نے بہت لائٹلی ہاتھ لہرا کے کہہ دیا کہ رشوت لے لیجیے، سبھی لے رہے ہیں۔ پتا ہے کیا ہوا؟ میری یہ بے ہودہ بات سن کر ابا حیرت سے میری صورت دیکھتے رہ گئے پھر خاموشی سے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ لعنت ہو یار! میں ایک شریف آدمی کی عمر بھر کی ریاضت کو گالی دے کر آرہا ہوں۔‘‘
خبر نہیں کہاں سے، کس طرح انتظام کیا گیا۔ ہم نے آج تک نہیں پوچھا۔ تاہم ٹکٹ کا بندوبست ہوا۔ ہونا ہی تھا اور ایک دن بھینس کے چمڑے کا نیا سوٹ کیس اٹھائے شمشاد نبی ساقی فاروقی ایئر پورٹ پہنچ گیا۔
ہوائی کمپنی کے کاؤنٹر پر ایک سفید فام خاتون بیٹھی تھی۔ ورناکیولر میں اپنی طاقت لسانی کے جوہر دکھانے والا ساقی کاؤنٹر تک پہنچتے پہنچتے کھانسنے لگا۔ بہ مشکل منھ سے رومال ہٹا کر بولا، ’’اس سے معلوم کرو کہ جہاز کی روانگی کا وقت بدلا تو نہیں؟‘‘
ہم نے خباثت سے کہا، ’’تو خود پوچھ بیٹا!“ پہلی بار اس کی گدی ہمارے ہاتھ میں آئی تھی۔
وہ آنکھیں نکال کر بولا، ’’بدتمیزی مت کرو۔ دیکھ نہیں رہے سالے، مجھے کھانسی آگئی ہے۔‘‘
’’ہاہاہا“ ہم نے کمینگی کا قہقہہ لگایا۔ ’’لوگو! یہ سالا پینڈو انگریزوں کے شہر لندن جا رہا ہے!“
مگر اس واقعے کے ۸۲برس بعد جولائی ۱۹ءمیں بریڈ فورڈ میں برطانوی آرٹس کاؤنسل کا لٹریچرڈائرکٹر، ڈاکٹر السٹیئر نی وین میرا افسانوں کا مجموعہ بریف کیس میں رکھتے ہوئے خوش ہوکر مجھے بتا رہا تھا کہ لندن میں اس کا ایک دوست ہے ’’سے کی فے روکی“۔ تو یہ مجموعہ وہ ’’سے کی“ کے حوالے کردے گا اور کئی گھنٹے پر محیط تعارفی سیشن میں ساقی فاروقی ڈاکٹر نی وین (Niven)کو سامنے بٹھا کر اس مجموعے کے محاسن پر روشنی ڈالے گا۔ وہ کہنے لگا ’’ایک صاحب نظر آدمی کی مدد سے میں آپ کی کہانیوں سے متعارف ہوں گا مسٹر خان۔ ساقی فاروقی کو تو آپ جانتے ہوں گے مسٹر خان؟“
میں نے کہا، ’’جی کم و بیش!“ اور مجھے کھانسی آگئی۔
اس سالے کی گدی اس وقت بھی آزاد تھی اور اٹھائیس برس پہلے بھی میرے ہاتھ نہیں آئی تھی۔
لندن میں اڑتی اڑتی یہ خبر سنی کہ ساقی کو اس کی انگریزی شاعری پر یا شاید اردو یا دونوں زبانوں کی شاعری پر نقد انعام دیا جانا ہے۔ شاید چار ہزار یاچالیس ہزار پاؤنڈ اسٹرلنگ۔ یہ بات ایک ایسے آدمی نے سنائی جو ساقی سے خوش نہیں تھا۔ اس نے دبی زبان سے اور شماتتِ ہمسایہ کے سے انداز میں مجھے بتایا کہ ناپسندیدہ مصنف سلمان رشدی نے بھی ساقی کی لکھی بعض انگریزی نظموں کی تعریف کی ہے۔ یہ کہہ کر اس نے گسٹاپو کے اسٹائل میں آنکھیں چلائی تھیں۔
میں نے پوچھا تھا، ’’کون رشیدی(Rasheedee)؟“
’’شماتتی“ ہمسائے نے حیران ہوکر سوال کیا تھا، ’’تم اخبار نہیں پڑھتے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
مگر یہ ساقی کے اصلی سفر لندن سے اٹھائیس برس آگے کی باتیں ہیں۔
ساقی فاروقی اس عرصے میں کراچی آتا رہا اور ہم سب کو ہاتھ پیر مارتے، اپنے لیے جگہ بناتے دیکھ دیکھ کر واپس جاتا رہا۔ مجال ہے جو اس نے کبھی بتایا ہو کہ وہ وہاں کیا کررہا ہے؟ کس طرح زندہ ہے؟ بس اتنی خبر دی کہ کمپیوٹر سے متعلق کچھ کررہا ہے۔
جب اس نے وہاں کچھ ٹھیک ٹھاک کرلیا تو ایک بار آکر بتایا گیا کہ میں نے بیس ہزار روپے کا واٹر بیڈ خریدا ہے یعنی پانی سے بھرا ہوا بستر۔ کہنے لگا پانی کی وجہ سے لہریں لیتا ہے وہ۔ ہم نے کہا، ’’ڈوب مرو خبیث!“
سلیم احمد نے کہا، ’’خوب!“ لہجے میں خفگی تھی۔
اطہر نفیس بولے، ’’دوست کی طرف سے جو خبر بھی آئے، خوب ہے۔‘‘ اور بات واقعی خوش ہو کر کہی گئی تھی۔
آصف جمال سن کر ہنسنے لگا۔
جمال پانی پتی نے کہا، ’’ساقی گھاس کھا گیا ہے۔‘‘
چنانچہ ساقی نے پچاس پاؤنڈ منافع سے اپنا واٹر بیڈ ایک یہودی کو فروخت کر دیا اور یہاں اطلاع بھیج دی۔ ہم نے کہا، ’’جیتا رہ میرے یار!“ ہمیں پچاس پاؤنڈ کا منافع اچھا لگا۔
سلیم احمد بولے، ’’واہ! خوب!“ آواز میں ساقی کے لیے لاڈ جھلک رہا تھا۔
اطہر نفیس نے کہا، ’’بھئی یہ بھی اچھی رہی۔‘‘ اور انھوں نے قہقہہ لگایا۔
جمال پانی پتی بولے، ’’جب تک اس سے نہ پوچھ لوں کہ خریداکیوں تھا اور بیچ کیوں دیا؟ اس وقت تک کچھ کہہ نہیں سکتا۔‘‘
تو پھر ساقی نے پہلے ایک نظم لکھی، ’’ویرونیکا روتی کیوں ہو، بات کرو دل ڈوب رہا ہے۔‘‘ پھر خبر آئی، اس نے وہاں شادی کرلی ہے۔ لڑکی کا نام ویرونیکا نہیں تھا، گنڈی تھا۔ ساقی نے ایک پب میں بیٹھ کر گنڈی کو بارہا سڑک سے گزرتے دیکھا تھا اور موقع پاکر اسے ویرونیکا والی نظم ترجمہ کرکے سنائی تھی، پھر شادی کرلی تھی۔
یہاں میں نے شادی کرلی۔ ساقی آیا، اس نے فرزانہ کو سن تریسٹھ میں دیکھا تھا۔ اس وقت تک وہ میری بیوی نہ ہوئی تھیں۔ ہماری شادی کے بعد اس نے گھر آکر مجھے دھمکیاں دیں کہ تونے فرزانہ کا خیال نہ رکھا تو میں تجھے فی النار کردوں گا۔ فرزانہ سے کہے لگا ’’تمھارا شوہر بس ٹھیک ٹھاک شاعر ہے تاہم اس کی قدر کرو اور بی بی! اپنے رب کی نعمتوں کا اثبات کرتی رہو۔‘‘ انھوں نے کہا، بہتر ہے۔ پھر جاتے جاتے مجھے ہدایت کرگیا ’’تیری اہلیہ مومن ہے اور ہاتھ ہے اللہ کا ’’مومن بندی کا ہاتھ“۔ اس لیے تجھ پر لازم ہے کہ اپنی بیوی سے گاہے گاہے ہاتھ ملایا کر۔ اسی میں تیری نجات ہے۔‘‘
مگر یہاں زندگی اس کے فقروں کی طرح ہلکی پھلی، چٹک مٹک نہیں گزری تھی، خاص طور پر اس کے اپنوں کے لیے۔
گھر والے نارتھ ناظم آباد کے مکان سے اٹھ کر دست گیر سوسائٹی میں کسی کرایے کے مکان میں آبسے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی صحت پہلے سے نہیں رہی تھی۔ چھوٹے بھائی کو جو پاکستان میں تھا، اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے الجھنوں کا سامنا تھا۔ امی اداس رہنے لگی تھیں۔ اس وقت تک دونوں بیٹوں میں کوئی بھی گھر نہیں آیا تھا اور کہیں پتھر کی کسی سل پر یہ لکھ دیا گیا تھا باپ ان بیٹوں کو دوبارہ نہیں دیکھے گا۔
مگر پھر اللہ نے خوشیاں بھی دیں، ساقی کی بہنوں کے گھر آباد ہوئے۔ اس نے لندن سے دونوں بہنوئیوں کو ٹیلی فون پر مبارک باد دی اور قہقہے لگائے اور دوسرے بھائی ارشاد نبی نے بھی ٹیلی فون کیا۔
اطہر نفیس کی سربراہی میں دوستوں کا ایک جیش ڈاکٹر صاحب کو اور امّی کو مبارک باد دینے پہنچا۔ تقریبوں والے دن ہم سب نے مہمانوں کو پان الائچی کی تھالیاں پیش کیں، ان کی طرف تولیے بڑھائے، پلیٹوں میں کھانے نکالے اور میزوں کے درمیان مصروفیت سے ٹہلتے رہے۔
ساقی نے یہ سب کرنے کے لیے لندن سے ہدایات جاری کی تھیں اور دھمکیاں بھی دی تھیں۔
ڈاکٹر التفات نبی صاحب نے ہمیں یہ سب کرتے ہوئے دیکھا اور اپنے بیٹے کی طرح قہقہہ مار کر بولے، ’’بھئی ان تقریبوں میں ساقی کی شرکت بھی ایک اعتبار سے ہو ہی گئی۔ ہیں نا؟ ہا ہا ہا۔‘‘
خدا مغفرت کرے۔ کمال کے بزرگ تھے۔ ان کے بچے خوب جانتے ہیں کہ اپنی اولاد سے کیسی وفا کی ہے، ڈاکٹر صاحب نے اور کیا قیمت چکائی ہے؟ کیوں نہ کرتے؟ صدیقی جو تھے۔ استواری اور وفاداری کی روایت ان کے بڑوں سے چلی آرہی ہے۔
اور یہاں میں چاہوں گا کہ میرا قاری کچھ دیر کے لیے ٹھہر جائے۔
خود اس کی شاعری سے زیادہ میری ان سطروں میں ساقی فاروقی ایک پر خواہش، امنگ بھرا، ہوش مند، ایمبی شش آدمی نظر آتا ہے۔ بے شک وہ ایسا ہی ہے مگر وہ ایک بہت حساس اور دردمند انسان بھی ہے۔
وہ محبت کے اظہار میں تھیٹریکل ہے۔ دور سے لگتا ہے کہ مکر کررہا ہے یا گمان ہوتا ہے کہ شاید اس وقت پبلک ریلیشنگ چل رہی ہے۔ مگر ہم جانتے ہیں، ہم میں سے بہت سے کہ ایسا نہیں ہے۔ ۱۹ءمیں آخری اور شاید پہلی بار ہم دو بوڑھے آدمیوں نے اس کے سنی گارڈنزوالے مکان میں اپنی تقریباً چہل سالہ دوستی کے بیس تنہا اور خوب صورت منٹ گزارے۔ اوپر گنڈی جانے کی تیاریاں کررہی تھیں۔ یہ شخص میرے کمرے میں بھالوؤں کے پہننے کا اپنا ٹرٹل نیک سوئٹر اٹھائے ہوئے آیا۔ بولا، ’’اسے پہن لے اور کچن گارڈن میں جا کے بیٹھ جا۔ میں تیرے لیے چائے بنا کے لا رہا ہوں۔‘‘ اس نے ضد کرکے وہ ٹرٹل نیک مجھے پہنایا۔ دھمو کے مار مار کے اس کو کندھوں پر سیٹ کیا۔ میں آخر جولائی کے تیکھے موسم میں سیب کے درختوں تلے کرسی بچھا کر بیٹھ گیا۔ یہ چائے لایا تو سہگل کے انداز میں گارہا تھا ’’بھور سہانی چنچل بالک۔‘‘
چائے پیتے ہوئے اس نے پوچھا، ’’یار یہ بتا میری شاعری کے بارے میں لوگ کیا کہتے ہیں؟‘‘
میں نے کہا، ’’تیرے میرے کہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ بھائی یہ تو مکافاتِ عمل ہے اگر کچھ کیا ہوگا تونے تو تیرے دیدوں گھٹنوں کے آگے آئے گا۔‘‘
ہنسنے لگا۔ بولا، ’’بدتمیزی مت کر۔ ویسے مجھے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ شاعر تو میں بڑا ہوں۔ لاریب!“
فقرے بازی سے قطعِ نظر اگر سنجیدگی سے پوچھا گیا تو میں بلا خوفِ تردید کہہ دوں گا کہ اس شخص نے لکھے ہوئے تازہ کار لفظ کے سوا کسی سے وفا نہیں کی۔ شاعری کے حوالے کے سوا اپنے لیے کسی اورحوالے کو دستارِفضیلت نہیں جانا۔ اردو نظم کی ڈرافٹنگ کرتے ہوئے اس نے نے ہر پامال روش کو چھوڑا، ایک نئی راہ نکالنے کی سعی کرتا رہا۔ ازکارِ رفتہ اور عامیانہ لفظوں (کلیشے) سے اس نے اس طرح گریز کیا جیسے مومن لحمِ خنزیر سے گریز کرتا ہے۔ اپنے لیے اس نے بس ایک مسند چاہی۔۔۔ جائنٹ سیکریٹری، صدر، مہمان خصوصی، کمپیوٹر منیجر، شوہر، دوکاروں کا مالک یا خان بہادر کا پوتا، ان سب افتخاروں سے گزر کر ساری زندگی وہ اس ایک مسند کا ہوس مسند رہا جو شاعر کی مسند ہے۔
اور اس نے تو حد ہی کردی۔ ظالم نے اپنے دل کی امنگ میں بنارس کے آسمان شکوہ جولا ہے کبیر کی چٹائی پر ان کے برابر بیٹھنا چاہا۔۔۔ ایسا یزداں شکار حوصلہ لے کر آیا ہے یہ حلال زادہ!
اپنے کسی انٹرویو میں اس نے کہا کہ وہ مرنے کے پانچ برس بعد تک زندہ رہے گا!
بکواس کرتا ہے!
ساقی فاروقی مرنے کے پچاس برس بعد تک (ہوپ فلی) پڑھا جائے گا۔ اور یہ مدت اس کم سواد زمانے میں کسی بھی اردو شاعر کے لیے انفینٹی ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.