Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خیال بند غالب

شمس الرحمن فاروقی

خیال بند غالب

شمس الرحمن فاروقی

MORE BYشمس الرحمن فاروقی

    گزشتہ گفتگو میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ سترہویں صدی میں ولی اور اٹھارویں صدی میں دہلی کے غزل گویوں نے معنی اور مضمون کی تفریق کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شعر میں کثرت معنی کے امکانات کو بروئے کار لانے کے لیے ابہام کی نئی اور پیچیدہ شکلوں کو ایجاد اور استعمال کیا۔ ولی کے ماقبل کی شاعری، ولی اور اٹھارویں صدی کے شعرا کے سامنے کچھ پھیکی اس لیے نظرآتی ہے کہ ولی سے پہلے شعرا نے معنی کی کثرت پر زیادہ توجہ نہیں کی تھی۔

    ہر چند کہ معنی اور مضمون کی تفریق کی دریا فت، یاکم سے کم اس کا واضح ذکر، ملا نصرتی کے یہاں ملتا ہے، لیکن اس دریافت کے ذریعہ شعریات میں کس پہلو کا اضافہ ہوسکتاہے اور لفظ میں پوشیدہ معانی کو کس طرح بالقوۃ سے بالفعل میں تبدیل کیا جاسکتاہے، اس کے لیے اردوغزل کو ولی اور پھر ولی سے بھی زیادہ اٹھارویں صدی کے دہلوی غزل گویوں اور سراج اورنگ آبادی کاانتظارکرناپڑا۔ معنی اور مضمون کی تفریق کی وضاحت ہم پہلے پیش کرچکے ہیں۔

    اس وقت اتناہی کہنا کافی ہوگا کہ ’’مضمون‘‘ سے مراد وہ مقولہ ہے جو اس سوال کے جواب میں بولا جائے، یہ شعر یا یہ نظم، کس شے کے بارے میں ہے؟ اور ’’معنی‘‘ سے مراد وہ مقولہ ہے جو حسب ذیل سوال کے جواب میں بولاجائے، اس شعر، یا اس نظم، سے کیا نکتہ برآمد ہوتاہے، یا اس میں کائنات کے بارے میں کیا کہا گیا ہے؟

    کلام کا کسی شے کے بارے میں ہونا اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ کلام میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ اس شے کی حقیقت بیان کرتاہے، یا اس شے کے بارے میں ہمیں کوئی اطلاع فراہم کرتاہے جس کے بارے میں وہ کلام ترتیب دیا گیا ہے۔ لہٰذا’’مضمون‘‘ دراصل بامعنی، یا معنی خیزبیان کو ادا کرنے کے لیے محض ایک بہانہ یا موقع فراہم کرتاہے۔ چونکہ مضمون کے بغیر معنی وجود میں نہیں آسکتے، اس لیے قدیم عرب مفکرین شعرا کا خیال تھا کہ جومضمون ہے، وہی معنی بھی ہے۔ بنیادی منطقی طور پر یہ بات بالکل درست ہے، لیکن جب یہ نکتہ سامنے رکھا جائے کہ ’’مضمون‘‘ دراصل معنی پیدا کرنے یا معنی کی طرف راہ ہموار کرنے کا بھی کام کرتاہے، تومضمون کی اکائی کودوئی کی شکل میں دیکھنا ممکن ہوجاتاہے۔ مثال کے طور پر دیوان سوم سے میر کا ایک شعر ملا حظہ ہو،

    جدائی کے تعب کھینچے نہیں ہیں میر راضی ہوں

    جلادیں آگ میں یا مجھ کو پھینکیں قعردریا میں

    اگر سوال پوچھا جائے کہ یہ شعر کس چیز کے بارے میں ہے، تو جواب ہوگا، ’’جدائی یا ہجر کے تعب کے بارے میں۔‘‘لیکن اگر سوال یہ ہو کہ اس شعر میں کیا کہاگیا ہے، یعنی اس کے معنی کیا ہیں، تو یہ جواب ناکافی بلکہ غلط ہوگا کہ یہ شعر جدائی کے تعب کے بارے میں ہے۔ اس کے معنی بیان کرنے کے لیے ہمیں کم سے کم حسب ذیل باتیں کہنی ہوں گی،

    (۱) جس نے جدائی کے تعب نہیں اٹھائے، اس نے حق عاشقی نہیں ادا کیا۔

    (۲) لہٰذا ایسے شخص کی سزا یہ ہے کہ اسے آگ یاسمندر میں پھینکا جائے۔

    (۳) جس شخص نے جدائی کے تعب نہیں اٹھائے، وہ بھی جانتاہے کہ میرکے لیے یہ سزا برحق ہے کہ مجھے آگ یا سمندر میں پھینکا جائے۔ وہ اس سزا پر دلجمعی سے راضی ہے۔

    (۴) جدائی کے تعب سے بڑھ کر دنیا میں کوئی رنج نہیں، کوئی زحمت نہیں۔ لہٰذا جس شخص نے جدائی نہیں جھیلی، وہ اس بات پر بخوشی تیار ہے کہ مجھے آگ یا سمندر میں ڈالا جائے، کیوں کہ جل کر یا ڈوب کر مرنا بہرحال جدائی کا رنج اٹھانے سے کمترہے۔

    (۵) اس شخص کو اب تک جدائی سے سابقہ نہیں پڑا ہے لیکن زندگی اور دنیا کاکوئی بھروسا نہیں، کل جدائی کی گھڑی بھی آسکتی ہے۔ لہٰذا وہ اس بات پر تیار ہے کہ مجھے جدائی کے امکان سے نجات دلادو، چاہے وہ آگ یا سمندر میں پھینکے جانے کی صورت ہی میں کیوں نہ ہو۔ جدائی کی سختیاں نہ جھیلنا بہتر ہے، چاہے اس کی قیمت آگ میں جل کر یا پانی میں ڈوب کر کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔

    (۶) ممکن ہے یہ شعر معاملات عقبیٰ سے متعلق ہو۔ متکلم کہتاہے کہ میں نے دنیا میں وصل محبوب کا لطف اٹھایا اور ہجر کے رنج سے محفوظ رہا۔ اب اگر اس کے بدلے مجھے یہاں جہنم کی سزائیں ملیں تو کوئی بات نہیں۔

    (۷) ایک امکان یہ بھی ہے کہ مصرع اولیٰ میں ’’جدائی کے تعب کھینچے نہیں ہیں‘‘ کافقرہ متکلم کے بارے میں نہیں بلکہ اہل دنیا، یا اہل ظاہر، یا خود معشوق کے بارے میں ہو۔ متکلم نے ہجر کی زحمت سے تنگ آکر یا بے حال ہوکر کوئی ایسی بات کردی ہے یا کہہ دی ہے کہ دنیا/اہل ظاہر /معشوق نے اس کے لیے سزائے موت کاحکم لگایا ہے۔ متکلم سزا کا حکم سن کر خود سے کہتاہے کہ ان لوگوں نے جدائی کے تعب توکھینچے نہیں ہیں، ان لوگوں کوکیاخبر کہ مہجور پر کیا گزرتی ہے۔ اگر یہ لوگ میری مغلوب الحالی کو نہیں سمجھتے اور مجھے سزائے موت دینے پر آمادہ ہیں، تو بھی میں راضی ہوں، یہ لوگ مجھے آگ میں جلوائیں یا سمندر میں غرق کرادیں، جو بھی کریں، ان کو معافی ہے، کہ یہ ہجر کا درد سمجھتے نہیں۔ ایسے لوگ مہجور کے ساتھ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔

    (۸) ’’آگ‘‘ کے ساتھ لفظ ’’جلادیں‘‘ رکھاہے۔ اس سے بات پوری ہوجاتی ہے کہ جلنے والا تو جل ہی جائے گا۔ لیکن ’’دریا میں پھینکیں‘‘ سے بات پوری نہیں ہوتی، کیونکہ جسے سمندر میں پھینکا ہے وہ تیر کے بچ بھی سکتا ہے، یا شاید کوئی جہاز یا کشتی اسے بچا کر لے جائے۔ لہٰذا ’’پھینکیں قعر دریا میں‘‘ کہا کہ سمندر کی گہرائیاں کئی ہزار فٹ بھی ہوتی ہیں۔ اگر کسی کو ہزاروں فٹ گہرے سمندری غار میں پھینک دیں تو اس کی غرقابی یقینی ہے۔

    ملحوظ رہے کہ اوپر جو معنی بیان کیے گئے، وہ خودسب کے سب شعر کی سطح پر یعنی الفاظ کی لغوی سطح پر موجود نہیں ہیں۔ اسی لیے بھرتری ہری نے کہا ہے کہ کوئی بھی لفظ ان تمام معنی کو نہیں بیان کرسکتا جن کا وہ بالقوۃ متحمل ہوسکتاہے۔ اور یہی جواز ہے مضمون کو معنی سے الگ کرنے کا، کہ متن کی سطح پر مضمون کا بیان ہوجانا کوئی غیر معمولی بات نہیں، لیکن مضمون کو کس بات کے بیان کے لیے موقع بنایا گیا ہے، اس کی تفتیش کے لیے مضمون کے پردے کے پیچھے جانا پڑے گا۔

    معنی اور مضمون کے درمیان تفریق قائم کرنے کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ مشکل پسند شعرا نے اپنی راہ کو مشکل تربنانے کے لیے وہ طرز اختیار کیا جسے ’’خیال بندی‘‘ کہتے ہیں۔ ’’خیال بندی‘‘ کا فقرہ بطور اصطلاح پرانے زمانے میں بھی کبھی کبھی استعمال ہوا ہے۔ اعظم الدولہ سرور نے ’’عمدہ منتخبہ‘‘ میں غالب کا ذکر ’’اسد‘‘ تخلص کے تحت کیا ہے، یعنی یہ ترجمہ اس وقت لکھا گیا جب غالب کی عمر کم تھی۔ سرور نے غالب کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ ’’رویہء خیال بندی بیش از بیش‘‘ برتتے ہیں۔ غالب نے عبد الرزاق شاکر کے نام اپنے خط میں اسی کو ’’مضامین خیالی‘‘ کا نام دیا ہے اور کہاہے کہ وہ پندرہ سال کی عمر سے لے کر پچیس برس کی عمرتک مضامین خیالی لکھا کیے۔

    ناسخ نے اپنے دیوان اول کے ایک شعر میں ’’خیال بند‘‘ کی اصطلاح وضاحت سے استعمال کی ہے اور اس طرح کہ خیال بندی کی شعریات بھی اس میں بخوبی اداہوگئی ہے،

    ہے بیت ہی میں معنی بیت خیال بند

    نزدیک ہے بہت جسے سمجھے ہیں دورہے

    ناسخ دیوان اول چونکہ ۱۸۱۶/۱۸۱۷میں مکمل ہوگیا تھا، لہٰذا کچھ عجب نہیں کہ یہ شعر انہوں نے ۱۸۰۰یا اس کے بھی پہلے کہا ہو، جب خیال بندی کی کم وبیش نئی اصطلاح کے لیے کچھ وضاحت کی ضرورت محسوس ہوتی ہو۔

    خیال بندی یا مضامین خیالی کو پرانے زمانے میں عام طورپر ’’مضمون آفرینی‘‘ کی ہی ضمن میں رکھتے تھے اور ایسے خیالات کو جن کی بنیادتجریداور غیر عملی تصورات پر ہوتی تھی، نازک یا پیچیدہ کہا جاتا تھا۔ خیال بندی کی راہ معنی آفرینی سے مشکل ترہے کہ نئے مضمون پیدا کرنے، یا پرانے مضامین کے نئے پہلو تلاش کرنے کے لیے قاعدے نہیں ہیں، لہٰذا شاعر ہر وقت اس جوکھم میں مبتلا رہتاہے کہ اس نے تلاش اور فکر بسیار کے بعد جو مضمون حاصل کیا ہے وہ شعری دنیا میں ناقابل قبول ٹھہرے، یا پھر وہ نیا مضمون جو اس نے اپنے ذہن میں پیدا کیا ہے، پوری طرح ادا نہ ہوسکے۔

    معنی آفرینی کا معاملہ اس لیے نسبتاً آسان ہے کہ کثیر المعنی لفظ صرف کرنا، یا ایسی بات کہنا جس میں کئی تہیں یا کئی پہلوہوں، بنیادی طور پر الفاظ پر قدرت اور زبان کی نوعیت سے واقفیت کا معاملہ ہے۔ مثلاً ہم جانتے ہیں کہ معنی آفرینی کا مقبول اور مسلم الثبوت طریقہ ابہام ہے، اور اٹھارویں صدی کے دہلوی شعرانے ولی سے یہ نکتہ حاصل کرکے اس فن میں اور بھی مہارت حاصل کی۔ میر کا شعر ہم اوپر دیکھ چکے ہیں کہ اس میں ابہام نہیں ہے لیکن شاعر نے غزل کی رسومیات سے ایک بات اٹھالی ہے، کہ ہجر کا تعب برداشت کرنا عشق کی شان ہے۔ اب اس نے اس نکتے کو بیان کرنے کے لیے مضمون پیدا کیا کہ جس نے ہجر کی صعوبتیں نہیں اٹھائیں اس کے لیے واجب ہے کہ وہ آگ میں جلایا جائے یا پانی میں غرق کیاجائے۔

    یہاں تک تو مضمون آفرینی تھی۔ اس کے آگے جو کچھ ہے وہ معنی آفرینی ہے، کہ شاعر نے ایسے الفاظ استعمال کیے، یا کلام کو مبہم رکھ کر اس میں ایسے امکانات رکھ دیے جو معنی کی توسیع کرتے ہیں۔ لہٰذا ایہام اور ابہام، معنی آفرینی کے یہ دوطریقے شاعر کے سامنے ہیں۔ لیکن نیا مضمون بنانے کے طریقے کچھ نہیں ہیں، اس لیے کہ مضمون عموماً استعارے پر مبنی ہوتاہے (اگر چہ خودوہ شاذہی استعارے کی شکل میں پیش کیاجاتاہے) ، اور استعارہ سازی کے کوئی قاعدے مقررنہیں ہیں۔ جومضمون بن گئے وہ بس بن گئے، ان کے لیے کوئی عقلی دلیل نہیں لائی جاسکتی کہ یہ فلاں کلیے کے تحت بنے ہیں۔

    تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ جس طرح لفظ کی معنویت منحصر ہوتی ہے بولنے والے اور سامع/ قاری (یا متن کو صرف میں لانے والے) کے درمیان اتفاق رائے پر، اسی طرح استعارے کا قیام بھی اسی وقت عمل میں آتا ہے جب استعارہ بنانے والا اور اور اس کو حاصل کرنے والا (سامع/قاری) اس بات پر متفق ہوں کہ یہاں استعارہ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ استعارے کی بنادومختلف اشیا میں مماثلت ڈھونڈنے پر ہے۔ لیکن کسی دواشیا میں جو مماثلت استعارہ ساز نے دیکھی ہے، وہ اگر استعارہ سننے /پڑھنے والے کو نہ دکھائی دے تو استعارہ قائم نہ ہوگابلکہ کلام بے معنی ہوجائے گا۔

    دوسری طرف یہ بھی ہے کہ استعارہ وہی اچھا مانا جاتاہے جس میں مستعار منہ اور مستعارلہ کے درمیان مماثلت بہت ظاہری نہ ہو بلکہ فاصلے سے ہو یا غیر متوقع ہو۔ لیکن اس اصول کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ اکثر ایسا ہوتاہے کہ مستعارمنہ کی جس صفت کو ہم مستعارلہ کے لیے استعمال کرکے استعارہ بناتے ہیں، وہ مستعارہ منہ کی لازمی صفت نہیں ہوتی۔ لہٰذا استعارے میں کوئی لازمیت نہیں ہوتی۔ مثال کے طورپر ’’دودھ‘‘ کو سفیدی کے لیے استعارہ کرتے ہیں، لیکن اگر کسی گورے شخص کے چہرے کا رنگ بیماری، یا آفات وبلا، یا ذہنی پریشانیوں کے باعث سنولا جائے تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ، ’’اس کا دودھ کجلا گیا تھا/یادھندلا گیا تھا/یاسنولا گیاتھا۔‘‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ دودھ کو سفیدی کے لیے استعارہ کرتے تو ہیں، لیکن چہرے کے گورے پن کے لیے نہیں، حالانکہ سفیدی اور پاکیزگی دونوں میں مشترک ہے۔

    اچھا اگر یوں کہا جاتا، ’’اس کا چاند گہنا گیا تھا /کجلا گیا تھا /سنولا گیاتھا‘‘ وغیرہ، تو استعارہ قائم ہوجائے گا، کیونکہ ’’چاند‘‘ کو گورے چہرے کے لیے استعارہ کرتے ہیں۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ دودھ کی سفیدی اس کی صفت ضرور ہے لیکن اس صفت میں وہ لازمیت نہیں ہے جس کے زور پر ہم سفیدی کے لیے ہر جگہ دودھ کو استعارہ کرسکیں اور نہ ہی کوئی ایسا قاعدہ ہے جس کی وجہ سے ہم حکم لگاسکیں کہ چہرے کے گورے پن کے لیے ’’چاند‘‘ کا استعارہ تو ٹھیک ہے لیکن ’’دودھ‘‘ کا استعارہ ٹھیک نہیں۔

    اقبال کے یہاں سے تین مثالیں اس مسئلے کو شاید واضح کردیں۔ پہلے دوشعر’’بال جبریل‘‘ سے ہیں اور تیسرا ’’ضرب کلیم‘‘ سے۔ ملاحظہ ہو،

    زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی

    نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آداب سحر خیزی

    میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے

    شمشیروہ سناں اول طاؤس ورباب آخر

    ہے شعر عجم گرچہ طرب ناک ودل آویز

    اس شعر سے ہوتی نہیں شمشیر خودی تیز

    ہوا کی رفتار جب عام سے زیادہ ہوتو کہتے ہیں کہ ’’ہوا تیز چل رہی ہے۔‘‘ یعنی ہوا کے حوالے سے ’’تیزی‘‘ اس کی رفتار کی صفت ہے لیکن اقبال نے یہاں ’’تیزی‘‘ سے تلوار کی صفت برش مراد لی ہے، یعنی انہوں نے ’’ہوا‘‘ کے لیے ایک نیا استعارہ بنایا ہے۔ کاٹنے کی قوت کے معنی میں ’’تیزی‘‘ صفت ہے ’’شمشیر‘‘ کی۔

    اقبال کہتے ہیں کہ ہوا اس معنی میں تیز نہ تھی کہ اس کی رفتار معمول سے زیادہ تھی، بلکہ ہوا اس معنی میں تیز تھی جس معنی میں شمشیر’’تیز‘‘ یعنی دھاردار، کاٹنے کی قوت رکھنے والی ہوتی ہے۔ مزید لطف یہ ہے کہ ’’شمشیرکی تیزی‘‘ تشبیہ ہے، اور اقبال نے ’’تیزی‘‘ کو استعاراتی معنی دے کر تشبیہ کے اندر استعارہ پیدا کردیا۔ یا اگر ہوا کی تیزی سے مرادلی جائے کہ ہوا اتنی تیز بہتی تھی جتنی تیزی سے تلوار کسی شے کو کاٹتی ہے تو پھر بھی یہ استعارہ ہے اور اگر معنی یہ لیے جائیں کہ ہوا اتنی تیز بہتی تھی جتنی تیزی سے شمشیرچلتی ہے تو تشبیہ کمزور ہوئی جاتی ہے۔ ہوا میں شمشیر کی ’’تیزی‘‘ (یعنی کاٹنے کی قوت) بیان کرکے اقبال ثابت کرتے ہیں کہ نہ تیز رفتاری ہوا کی لازمی صفت ہے اور نہ برش ہی تلوار کی صفت ہے۔ لیکن استعارے کا سامع /قاری اگر اس بات سے انکار کردے کہ ہوا کی تیزی اور شمشیر کی تیزی دوالگ الگ چیزیں ہیں تو استعارہ قائم نہ ہوگااور اگر سامع /قاری اقبال کی بات مان لے تو وہ لامحالہ یہ بھی کہے گا کہ اقبال نے کیا خوبصورت استعارہ برتا ہے۔

    دوسرے شعر میں ’’شمشیر‘‘ کی صفت برش کی اہمیت اور معنویت محض ثانوی ہے۔ یہاں ’’شمشیر‘‘ استعارہ ہے سخت کوشی، جدوجہد، عیش وعشرت کو تج دینے اور سرفروشی کے لیے تیار رہنے کا۔ ظاہر ہے کہ یہ چیزیں تلوار کی لازمی صفات نہیں ہیں لیکن تلوار کو ان چیزوں کی علامت یا استعارہ پھر بھی کہہ سکتے ہیں۔ تیسرے شعر میں ’’شمشیرخودی‘‘ سے مراد ہے خودی کی وہ صفت جوانسان کو صوفیانہ اصطلاح میں ’’ہمت‘‘ عطا کرتی ہے، اسے باطل اور ماسواحق کو تج دینے کی ترغیب دیتی ہے، جہدوعمل کے لیے آمادہ کرتی ہے۔ اس طرح یہاں بھی ’’شمشیر‘‘ کی ان صفات میں کوئی لازمیت نہیں جن سے شاعر نے ’’شمشیر خودی‘‘ کو متصف کیا ہے۔

    مندرجہ بالا تجزیے سے ایک بات اور ثابت ہوتی ہے۔ خیال بند شاعر چونکہ دورازکار استعارے کو بیش از بیش کام میں لانا ہے، لہٰذا خیال بند شاعر اور اس کے سامع /قاری کے درمیان اتفاق رائے کبھی کبھی کم، اور کبھی کبھی بالکل نہ رہ جانے کا امکان رہتا ہے۔ ایسے موقع پر غیر محتاط سامع /قاری/طالب علم کہہ اٹھتا ہے کہ اس شعر میں معنی نہیں ہیں، یااگر ہیں بھی تو بے لطف ہیں۔ جیسا کہ آپ کے دھیان میں ہوگا کہ خود اقبال کو بھی شروع شروع میں اس مشکل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

    میں نے اوپر عرض کیا ہے کہ ’’خیال بندی‘‘ کی اصطلاح زمانۂ قدیم میں بہت مروج نہ تھی، اگر چہ بالکل نامعلو م بھی نہ تھی۔ جدید عہد کے اوائل میں جس شخص نے سب سے پہلے اس کاذکر کیا وہ محمد حسین آزاد ہیں اور جس شخص نے سب سے پہلے اس کی تعریف متعین کی اور اس کے اکثر نکات واضح کیے وہ شبلی ہیں۔ اب یہ بات الگ ہے کہ خود آزاد اور شبلی کو خیال بندی ناپسند تھی، لیکن شبلی کا یہ کارنامہ ہماری تنقید کے شاہکاروں میں ہے کہ انہوں نے خیال بندی کی صفت اور کیفیت بڑی حد تک واضح کردی۔ ’’شعرالعجم‘‘ جلد سوم (صفحہ ۱۹) پر وہ ’’خیال بندی اور مضمون آفرینی‘‘ کا ذیلی عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں،

    یہ وصف تمام متاخرین میں ہے، لیکن اس طرز خاص کونمایاں کرنے والا جلال اسیر ہے، جوشاہجہاں کاہم عصر ہے۔ شوکت بخاری، قاسم دیوانہ وغیرہ نے اس کو زیادہ ترقی دی اور ہمارے ہندوستان کے شعرا بیدل اور ناصر علی وغیرہ اسی گرداب کے تیراک ہیں۔

    لفظ ’’گرداب‘‘ بطور خاص توجہ کا مستحق ہے۔ لیکن شبلی کا مذاق اس قدر صحیح اور ان کی فہم شعر اس قدرراسخ تھی کہ انہوں نے خیال بندی کے بارے میں بنیادی بات پھر بھی کہہ دی۔ چنانچہ صفحہ ۲۰پر وہ لکھتے ہیں،

    متاخرین کایہ خاص انداز ہے کہ جو بات کہتے ہیں، پیچ دے کر کہتے ہیں۔ یہ پیچیدگی زیادہ تر اس وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ جو خیال کئی شعروں میں ادا ہوسکتاہے، اس کو ایک شعر میں ادا کرتے ہیں۔

    آگے صفحہ ۲۱پر مرقوم ہے،

    کبھی یہ پیچیدگی اس وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ کوئی مبالغہ یا استعارہ یا تشبیہ نہایت دوراز کار ہوتی ہے، اس لیے سننے والے کا ذہن آسانی سے اس طرف منتقل نہیں ہوسکتا۔

    اس کے بعد صفحہ ۲۳پر آخری بات یوں بیان ہوئی ہے،

    اس سے زیادہ یہ کہ ایک بڑا خیال ایک چھوٹے لفظ میں ادا ہوجاتاہے۔

    ’’شعرالعجم‘‘ جلد پنجم کے صفحہ۶۵ پر شبلی نے خیال بندی کے سلسلے میں ایک معرکہ آرابات کہی کہ اس کی وجہ سے عشقیہ شاعری کو ’’نقصان‘‘ پہنچا۔ فرق صرف یہ ہے کہ جس چیز کو وہ نقصان رساں کہتے ہیں، خیال بندوں کے لیے وہ قوت بخش کلام تھی۔ خیال بند شعرا نے غزل کا میدان وسیع کرنے کے لیے یہ جو کھم مول لیاتھا کہ عشقیہ مضامین کی شاہراہ چھوڑکر کرنا مانوس راہیں اختیار کیں اور کچھ اور ہی طرح کی باتوں پر اپنے اشعار کی بنارکھی۔ خیال بندی کو ناپسند کرنے کے باوجود شبلی اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس طرز نے شاعری میں ترقی پیدا کی۔ شبلی فرماتے ہیں،

    فغانی کے سلسلے میں رفتہ رفتہ خیال بندی، مضمون آفرینی، وقت پسندی پیدا ہوئی۔ اس کی ابتدا عرفی نے کی۔ ظہوری، جلال اسیر، طالب آملی، کلیم وغیرہ نے اس طرز کو ترقی دی اور یہی طرز مقبول ہوکر تمام دنیا ئے شاعری پر چھاگیا۔ اس انقلاب نے اگر چہ غزل کوسخت نقصان پہنچایا، کیونکہ غزل اصل میں عشقیہ جذبات کا نام ہے اور اس طرز میں عشقیہ جذبات بالکل فنا ہوگئے لیکن شاعری کو فی نفسہ ترقی ہوئی۔ عرفی نے نہایت بلند فلسفیانہ مسائل ادا کیے۔ کلیم اور صائب نے تخیل کو بے انتہاترقی دی۔ بعض شعرانے اخلاق، موعظت کو نہایت خوبی سے ادا کیا۔

    یہ شبلی کا ہندوستانیوں کے خلاف تعصب ہے کہ وہ غالب کا نام نہیں لیتے، اورخیال بندی کے تحت ہندوستانیوں کا کہیں کہیں ذکر بھی کرتے ہیں تو بیدل اور ناصر علی کے آگے شاذ ہی جاتے ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں، یعنی اردو شاعری میں، غالب کی اہمیت اور عظمت ہمیشہ تسلیم کی گئی ہے۔ اب یہ اور بات ہے کہ خیال بندوں کی فہرست میں غالب کو کبھی نہیں رکھا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کئی تاریخی حالات ایسے پیش آئے (جن میں شبلی کااثر بھی ہے) جن کے باعث خیال بندی کو ہمارے یہاں برا سمجھا گیااور غالب کی عظمت کے ثبوت کہیں اور تلاش کئے گئے۔ یا پھر یہ کیا گیا کہ غالب کی تعقل کوشی، تجریدیت قول محال سے ان کے شغف وغیرہ کو پسند، یا کم سے کم قبول تو کیا گیا، لیکن ان کی یہ خوبیاں خیال بندی کی مرہون منت نہ ٹھہرائی گئیں۔ شاہ نصیر، ناسخ، ذوق وغیرہ میں اکثرخوبیاں ایسی ہیں جوغالب میں بھی ہیں۔ لیکن ان بزرگوں کاکلام یا تو پڑھاہی نہیں گیا، یا اگر پڑھابھی گیا تو اس نقطۂ نظرسے نہیں کہ غالب اور ناسخ وغیرہ میں اشتراکات تلاش کیے جائیں۔ اس طرح غالب کے بعض اہم خصائص، جو تمام خیال بندوں میں مشترک ہیں، صرف غالب کے خصائص قرار دیے گئے۔

    ادبی تاریخ کے حوالے سے دیکھیں تو واقعہ یہ ہے کہ خیال بندی کا باقاعدہ آغاز ہمارے یہاں شاہ نصیر سے ہوا (اگر چہ سودااور میر سوز، اکا دکا جگہ میر اور پھر آخری زمانے میں مصحفی کے یہاں اس کے نشانات مل جاتے ہیں۔) ناسخ وآتش نے اس کو عروج دیا، اور غالب نے اسے درجۂ کمال تک پہنچادیا۔ ولی اور اٹھارویں صدی کے دہلوی شعرا، اور پھر سراج اورنگ آبادی کے بعد اردو غزل میں دوسری توانا آواز شاہ نصیر، ناسخ اور ایک حد تک آتش وذوق کی آواز ہے۔ غالب نے اس نئی آواز کے تمام امکانات کو ظاہر کردیا اورغالب کے بعد کئی وجوہ کی بنا پر خیال بندی کا چلن بہت کم رہ گیا۔ اس تبدیلی کی وجہ میں جانے کا یہاں موقع نہیں، لیکن ان میں مغربی تعلیم اور ہندوستانی فارسی شاعری کے بارے میں شبلی کی بے انصافی شامل ہے اور یہ بات بھی شامل ہے کہ غالب نے اپنی تعقل کو شی اور تجریدیت کی بنا پر خیال بندی کی راہ آئندہ آنے والوں کے لیے دشوار گزار، بلکہ معدوم کردی۔ انیسویں صدی کے نصف دوم میں ہماری غزل خیال بندی کے موافق اور اس کے مخالف، دونوں میلانات کا اظہار کرتی نظرآتی ہے۔ چنانچہ لکھنؤ میں آخری بڑے خیال بند شاعر اصغرعلی خاں نسیم دہلوی کا شعر ہے،

    مضمون کے بھی شعراگر ہوں تو خوب ہیں

    کچھ ہو نہیں گئی غزل عاشقانہ فرض

    اور وزیرعلی صبا اسی زمین میں جواب دیتے ہیں اور خیال بندی سے اپنی برأت کااعلان کرتے ہیں،

    مضمون پیچ دار ہیں مکروہ اے صبا

    اشعار ہر زمین میں ہیں عاشقانہ فرض

    مضمون آفرینی، یا خیال بندی کے خلاف سید محمد خان رندکا ردعمل وزیر علی صبا جیسا سخت تونہیں، لیکن ان کی بھی رائے اس طرز کی موافقت میں نہیں ہے،

    رہے نہ مرغ مضامیں کی فکر ہی میں خراب

    کرے ہمارے معانی کو بھی شکار قلم

    ظاہر ہے کہ رند نہ صرف یہ کہ معنی کی جستجوکو مضمون کی تلاش پر افضل قرار دیتے ہیں بلکہ ان کی رائے میں معنی بمنزلہ ہماہے اور مضمون صرف ایک معمولی پرندہ جس کی تلاش میں رہنا خرابی کا موجب بن سکتا ہے۔

    اس طرح ہم غالب اور نسیم کی زندگیوں میں ہی (نسیم کاانتقال ۱۸۶۴میں ہوا اور غالب کی وفات ۱۸۶۹میں ہوئی) خیال بندی کا چراغ مدھم ہوتا ہوا دیکھتے ہیں۔ اور آج یہ عالم ہے کہ ہم لوگ شاہ نصیر اور ناسخ کو مشکل سے شاعر تسلیم کرتے ہیں اور آتش وناسخ کی شاعری میں بے انتہا مماثلت کے باوجود شہرت عامہ کی بنا پر آتش کو ناسخ سے مختلف طرح کاشاعر سمجھتے ہیں۔

    ذوق کے بارے میں تومحمد حسین آزاد نے ذوق ہی کی زبانی بیان کیا ہے کہ جب ناسخ کی غزل دہلی پہنچتی تھی تو ذوق اس کے جواب میں، یا اسی انداز کی غزل کہتے تھے۔ شاہ نصیر کے تو وہ شاگرد ہی تھے۔ لیکن اس بات کے باوجود کہ غالب کی بہت سی غزلیں شاہ نصیر اور ناسخ کی زمینوں میں ہیں، اس بات کا اعتراف اب تک نہیں ہوا ہے کہ شاہ نصیراور ناسخ نہ ہوتے تو غالب وہ غالب نہ ہوتے جس کو ہم آج اردو کا سب سے بڑا شاعر، یا میر کے بعد سب سے بڑا شاعر سمجھتے اور کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ ہوں،

    اشک کیا دیدۂ تر سے سرمژگاں نکلا

    نورچشم اس کو سمجھتے تھے یہ طوفاں نکلا

    لخت دل چشم سے نکلے ہے تعجب ہے مجھے

    تھا صدف سے نہ کبھولعل بدخشاں نکلا

    حلقۂ زلف میں تھی تاب رخ اس کی یہ دوچند

    شب کو ہالے میں نہ ہرگز مہ تاباں نکلا

    ان اشعار کو دیکھ کر ہمارا پہلا تاثر یہ ہوگا کہ کسی نے غالب کی زمین میں شعر کہے ہیں اوراس نے غالب کاطرز بھی اختیار کرنے کی کوشش کی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ دونوں باتیں غلط ہیں اور حامد کی ٹوپی محمود کے سر کی مثال ہیں۔ حقیقت حال یہ ہے کہ مندرجہ بالا شعر شاہ نصیر کے ہیں۔ لہٰذا غالب نے شاہ نصیر کی زمین میں اور شاہ نصیر کے طرز میں اپنی غزل کہی ہے۔ اس زمین میں غالب کا مقطع مشہور زمانہ ہے،

    دل میں پھر گریہ نے اک شوراٹھایا غالب

    آہ جوقطرہ نہ نکلا تھا سوطوفاں نکلا

    کوئی شک نہیں کہ مقطع ہی کیا، غالب کی یہ پوری غزل ہی بڑی شاعری کا نمونہ ہے، اور شاہ نصیر کی غزل بڑی شاعری کے رتبے کو نہیں پہنچتی۔ لیکن انصاف شرط ہے، ’’قطرۂ اشک، طوفاں نکلا‘‘ کامضمون شاہ نصیر نے پہلے باندھا تھا۔ ہاں یہ درست ہے کہ غالب نے اپنے مخصوص قول محال سے کام لیتے ہوئے قطرے کانہ نکلنا ہی اس کا نکلنا ثابت کردیا، اور شاہ صاحب کا شعر اس پہلو سے عاری ہے۔ لیکن مناسبت الفاظ کے میدان میں شاہ نصیر کا پلہ ذرا بھاری ہے۔ انہوں نے اشک کو ’’نورچشم‘‘ کہاہے، اور یہاں دومناسبتیں ہیں۔ اول تو یہ کہ قطرۂ اشک میں چمک فرض کرتے اور اسے گوہر، لعل اور الماس سے تشبیہ دیتے ہیں۔ دوئم یہ کہ اشک کو ’’طفل‘‘ کہتے ہیں، اور ’’نورچشم‘‘ ہونا طفل کی صفت ہے۔ اس کے برخلاف، غالب نے لفظ ’’شور‘‘ بہت خوب تورکھا کہ اس میں ’’طوفان‘‘ اور آنسو کی نمکینی، دونوں تلازمے ہیں، لیکن دونوں کا تعلق پانی سے ہے، جب کہ شاہ نصیر کی دونوں مناسبتیں دوالگ الگ عوالم سے ہیں۔

    شاہ نصیر کے تیسرے شعر کا ابہام غالب کے لیے بھی باعث رشک ہوتا، کیونکہ چاند تو اکثر ہا لے میں نکلتا ہے۔ یہاں دراصل ’’شب‘‘ سے مراد ’’گزشتہ شب‘‘ ہے، جب معشوق زلفیں کھولے زیر آسمان جلوہ فگن تھا۔ اس رات شرم کے باعث چاند نے ہالے میں نمایاں ہونے کی ہمت نہ کی۔ شاہ نصیر کے دوسرے شعر میں ناممکن کو ممکن بتاکر اس کے لیے جو دلیل قائم کی گی ہے وہ خیال بند ی کی اچھی مثال ہے۔ کیوں کہ اس کامضمون پوری طرح خیالی ہے اور مناسبتیں بھی بھرپور ہیں۔ لخت دل اپنے رنگ اور ڈھنگ کے اعتبار سے لعل بدخشاں کے مانند ہے، اور صورت کے اعتبار سے، اور اس اعتبار سے بھی، کہ آنکھ پانی میں تر رہتی ہے، ’’صدف‘‘ اور آنکھ میں مناسبت ظاہر ہے۔

    شاہ نصیر کے اشعار کی مزید تفصیل میں نہ جاکر میں کچھ اور شعر حاضر کرتاہوں۔

    ایک کو عالم حسرت میں نہیں ایک سے کام

    شمع تصویر سے روشن شب تصویر نہیں

    کار حیرت زدگاں میں ہے کہاں غیر کو دخل

    شمع تصویر کو کچھ حاجت گلگیر نہیں

    بس دلا صورت ہستی کو کوئی دم ہے ثابت

    یہ جہاں آئینہ ہے کاغذ تصویرنہیں

    آج تیرا جو تصرف ہے تو کل اور کا ہے

    کشور حسن کسی کے لیے جاگیر نہیں

    یہاں پہلی بات تو یہ ہے کہ،

    آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں

    والے مصرعے کے زباں زدخلائق ہونے کے باوجود ہم بھول جاتے ہیں کہ غالب نے یہ زمین ناسخ سے مستعار لی ہے، بلکہ انہوں نے ناسخ کی غزل پر غزل کہی ہے، یہ بات آپ کے دھیان میں ہوگی کہ غالب نے اپنی غزل کا مقطع پہلے یوں لکھا تھا،

    میر کے شعر کا احوال کہوں کیا غالب

    جس کا دیوان کم از گلشن کشمیر نہیں

    ناسخ کا پورا مقطع یوں ہے،

    شبہ ناسخ نہیں کچھ میر کی استادی میں

    آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں

    بظاہر معلوم ہوتاہے کہ ناسخ نے کو ئی دلیل نہیں دی ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان کا دعویٰ محتاج ثبوت نہیں، کیوں کہ اس کی بنیاد امیر خسرو کے مشہور نظریے پر ہے کہ شعر کہنے اور شعر سمجھنے دونوں کے لیے اس شے کی ضرورت ہوتی ہے جسے انہوں نے اپنے کلیات کے دیباچے میں ’’طبع وفاد‘‘ کا نام دیا ہے۔‘‘ وفاد‘‘ کے حسب ذیل معنی یہاں مفید طلب ہیں، تیز، روشن، پھرتیلا، حرارت یافتہ، زیرک، روشن خاطر، لہذا ذہین اور دراک۔ خسرو کے خیال میں شعر گوئی اور شعر فہمی، دونوں کے لیے مناسبت طبع اور مناسبت مزاج ضروری ہیں۔ انہوں نے قاری اور شاعر دونوں کے لیے ’’وفاد ‘‘ اور ’’صاحب طبع‘‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں، اور دونوں کو ’’طبع رواں‘‘ کا حامل قرار دیا ہے۔ عربی مادہ ط۔ ب۔ ع۔ کے اصل معنی ہیں ’’کسی چیز کو کسی چیز پرمرتسم کرنا‘‘، لہٰذا لفظ ’’طبع‘‘ میں تعلیم، تربیت، خاص کر بچپن میں حاصل کی ہوئی صلاحیتوں کا مفہوم شامل ہے۔

    ابھینوگپت کاقول ہے کہ سہردیہ قاری’’ایسا دل رکھتا ہے جس کی قوت ادراک نہایت تیز ہو۔‘‘ ممکن ہے خسرو کے اس تصور پر کہ شعر فہمی کے لیے مناسب مزاج اور تربیت ضروری ہیں، ابھینوگپت کے ’’سہردیہ‘‘ (sahridaya) قاری کے تصور کا کچھ اثر رہاہو۔ بہرحال، اس میں شک کی گنجائش بہت کم ہے کہ ناسخ براہ راست یا بالوسطہ، خسرو کے اس قول سے واقف تھے کہ شعر فہمی بھی ایک فن اور صلاحیت ہے، اور جس شخص میں یہ صلاحیت نہیں، وہ نامکمل ہے۔ اسی باعث ناسخ کایہ قول کہ،

    آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں

    خوددلیل کا حکم رکھتا ہے، اور اسے بدیہی، یعنی علم متعارف (axiom) اور واضح بالذات کا درجہ حاصل ہے۔

    ممکن ہے پہلا مقطع کہہ لینے کے بعد غالب کو اس بات کا احساس ہوا ہو کہ ابھی بات پوری طرح بنی نہیں، کیوں کہ ان کے شعر میں ناسخ کاجواب نہیں ہوسکا ہے، صرف دعویٰ ہے اور دلیل اس کی کوئی نہیں۔ لہذا انہوں نے یہی بہتر سمجھا کہ ناسخ کا پورا مصرع ہی اقتباس کرلیں۔ پھر انہوں نے پہلے تو کہا،

    ریختے کاوہ ظہوری ہے بقول ناسخ

    آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں

    یہاں مصرعے میں دوبے لطفیاں تھیں۔ ایک تو یہ کہ ’’ریختے کا وہ ظہوری ہے‘‘ بھی ناسخ کا قول معلوم ہوتا تھا۔ دوسری بات یہ کہ غالب کی نظر میں ظہوری کتناہی موقررہا ہو، لیکن میر کو ریختے کا ظہور ی قرار دینا کچھ مناسب نہیں، کہ ظہوری سے بھی بڑے شاعر فارسی میں موجودتھے اور ظہوری خیال بند شاعر تھا، جب کہ میر کیفیت اور معنی کے شاعر تھے۔ لہٰذا غالب نے مصرع اولیٰ کو پھر بدل کر یوں کہا،

    غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخ

    اور یہی شکل انہوں نے متداول دیوان میں برقرار رکھی۔ ’’گلشن کشمیر‘‘ والا مقطع بالکل ترک کردیا۔ یہ دونوں شعر، اور متداول مقطعے کی منسوخ شکل، سب نسخہ حمیدیہ میں موجود ہیں۔

    اس بات کویہاں اٹھانے کا مقصد یہ ظاہر کرتاہے کہ غالب پر ناسخ کا اثر صرف رسمی نہیں، بلکہ تخلیقی استفادے کی نوعیت رکھتاہے۔ اب ناسخ کے ان اشعار کو دیکھیے جو میں نے اوپر نقل کیے ہیں۔ غالب ’’تصویر‘‘ کا مضمون اپنے ایک شعر میں باندھا اور خوب باندھا،

    شوق اس دشت میں دوڑائے ہے مجھ کو کہ جہاں

    جادہ غیر از نگہ دیدۂ تصویر نہیں

    لیکن یہاں بھی اس بات کو تسلیم کرناپڑتاہے کہ تصویرکے صاحب وجود اور پھر بھی بے وجود ہونے کا مضمون ناسخ نے ان سے پہلے باندھا ہے۔ ناسخ نے اس زمین میں ۴۳ (تینتالیس) شعر کا سہ غزلہ کہا ہے، اس لیے یہ مناسب تھا کہ وہ تصویر کا مضمون طرح طرح سے باندھتے۔ انہوں نے چار شعروں میں یہ مضمون رقم کیا ہے، ان میں سے ایک شعر میں نے ترک کیا ہے کہ اس میں کوئی خاص بات نہیں۔ ورنہ باقی تین اشعار میں ناسخ نے ہر بارنئی بات پر لطف انداز میں کہی ہے۔ غالب نے آنکھ کی تصویر کا مضمون حاصل کیا ہے تو ناسخ نے شمع کی تصویر کا مضمون دوالگ طرح سے باندھا۔ پھر تصویر میں رات کی شبیہ کے حوالے سے بالکل تا زہ بات کہی کہ اگر شمع اور رات کی تصویر ایک ساتھ بنائی جائے، یعنی رات کے منظر کی تصویر بنائی جائے (ظاہر ہے کہ اس میں تاریکی کا عنصر بیش از بیش ہوگا) اور اس منظرمیں شمع کو روشن دکھایا گیا ہو تو بھی اس شمع سے رات کی تصویر درحقیقت روشن نہ ہوگی۔

    اگلے شعر میں ناسخ کسی شے کی تصویر سے آگے جاکر اس کاغذ کامضمون لاتے ہیں جس پر تصویر بنائی جاتی ہے اور یہاں تصویری وجود کا استقلال ایک عجب تمثیل کے ذریعہ ثابت کیا ہے کہ آئینے میں جو شبیہ نظرآتی ہے، وہ صاحب شبیہ کے ہٹتے ہی غالب ہوجاتی ہے، لیکن کاغذ پر جو شبیہ بنتی ہے وہ اپنے قیام واستقلال کے لیے صاحب تصویر کی محتاج نہیں ہوتی۔ یہ دنیا تصویروں کا مجموعہ ضرور ہے، جیسا کہ میر نے کہاہے، لیکن یہ تصویریں آئینے میں منعکسی ہیں، کاغذ پر اتاری ہوئی نہیں ہیں۔ پھر پہلے مصرعے میں ’’صورت ہستی‘‘ کہہ کر کئی طرح کی مناسبتیں پیدا کی ہیں اور شعر کو چار چاند لگادیے ہیں۔

    یہ بھی دھیان میں رکھیے کہ ایک شعر میں تو ناسخ نے شمع کی تصویر کو ’’حیرت زدہ‘‘ کہا ہے، کہ تصویر بے حس وحرکت ہوتی ہے اور یہی صفت حیرت زدگی کی بھی ہے اور دوسرے شعر میں ناسخ نے شب تصویر اور شمع تصویر دونوں کو عالم حسرت میں گرفتار دکھایاہے۔ یعنی دونوں روشنی کے محتاج ہیں اور اسی کی حسرت کا شکار ہیں۔ اس طرح ناسخ صرف ’’تصویر‘‘ کے مضمون پر بس نہیں کرتے، اس کے کئی پہلو ہمیں دکھاتے ہیں۔

    غالب نے ’’جاگیر‘‘ کا قافیہ نہیں نظم کیا ہے۔ ممکن ہے اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ یہاں ناسخ پر فوقیت لے جانا غیر ممکن تھا۔ ناسخ کے شعر میں کم سے کم دومعنی ہیں۔ ایک معنی تو معشوق کو مخاطب فرض کرنے سے برآمد ہوتے ہیں کہ تمہارا حسن دائم وقائم نہیں اور دوسرے معنی سامع کو مخاطب قرار دینے سے نکلتے ہیں، کہ کشور حسن آج تمہارے تصرف میں ہے، کل کسی اور کے قبضے میں ہوگا۔ واضح رہے کہ ’’کشور حسن‘‘ کا مضمون ناسخ نے وحشی یزدی کے مضمون میں تھوڑا سال تصرف کرکے حاصل کیا ہے۔

    فرماں دہی کشور دل کا ر بزرگ است

    نودولت حسنی نر تو ایں کار نیاید

    ظاہر ہے کہ وحشی کا مضمون نہایت لطیف اور عاشقانہ ہے اور تاکید المدح بمایشبہ الذم کی غیر معمولی مثال کے طور پر پیش کیاجاسکتاہے۔ لیکن ناسخ کا مضمون اس لیے نادر ہے کہ اسے اخلاقی، ناصحانہ طنزیہ، وغیرہ کسی آسان نوع (category) کے تحت نہیں رکھا جاسکتا۔

    اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر غالب نے خیال بندی کے طرز ناسخ اور شاہ نصیر سے حاصل کیے تو انہوں نے اردو غزل میں بطور خاص کون سا ایسا اضافہ کیا جسے ان کی طبع وفاد کا کارنامہ قرار دیا جائے؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہمیں اردوغزل کے موضوعات، یعنی مروجہ مضامین پر ایک نظر ڈالنی ہوگی۔

    ہم دیکھ چکے ہیں کہ شبلی کے نزدیک غزل ’’اصل میں عشقیہ جذبات کانام ہے۔‘‘

    اس بات سے اتفاق ممکن نہیں۔ سعدی وخسرو سے لے کر غالب تک تمام بڑے غزل گویوں کاعمل اور طریقہ خود اس دعوے کی نفی کرتاہے کہ غزل میں عشقیہ جذبات کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا، یا یہ کہ غزل کے جن اشعار میں عشقیہ جذبات کی تصویر کشی نہیں، وہ غزل کے دائرے سے باہر ٹھہرائے جائیں گے۔ غزل کا میدان شروع میں یقیناًکم وبیش سارے کا سارا عشقیہ مضامین اور خاص کر عشق میں ناکامی اور نارسائی کے مضامین سے ہی عبارت تھا۔ غزل کاآغازقدیم عرب کے عذری قبیلے کے شعرا کا مرہون منت ہے، اور وہاں بے شک غزل کا بیان عشق تک محدود تھا۔ بعد کی عربی شاعری میں عشق کے مضامین بیان کرنے کے لیے قطعے کو کثرت سے استعمال کیا گیا۔

    غزل فارسی میں آنے پر وسیع الذیل ہونا شروع ہوئی، اور جلد ہی اس میں اتنے بہت سے نئے مضامین آگئے کہ سعدی کے ہی زمانے میں غزل کو خالص عشقیہ شاعری کہنا مشکل ہوگیا۔ لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ شبلی نے مضامین عشق کی نہیں بلکہ ‘‘ عشقیہ جذبات‘‘ کی بات کہی ہے۔ فلسفیانہ طورپر لفظ ’’جذبات‘‘ کی تعریف تو مشکل ہے ہی لیکن یہ لفظ اس لیے بھی ذرامخدوش لفظ ہے کہ غزل میں بہت سے اشعار سامع یا قاری کے جذبے کو توبیدار کرتے ہیں اور عین ممکن ہے کہ وہ اسے عشق کی بھی کسی حقیقت کی طرف متوجہ کریں، لیکن خود ان اشعار میں ایسا جذبہ نہیں بیان ہوتاجسے ہم براہ راست ’’عشقیہ‘‘ کہہ سکیں۔ مثال کے طور پر میں سودا، سوز اور مصحفی کی غزلوں کے چند شعر بالکل بے سعی تلاش نقل کرتا ہوں۔ ملاحظہ ہوں،

    دل رکا آئے ہے تنگی سے فلک کی ہیہات

    نکلوں اس خانۂ بے در کے کدھر سے باہر

    باغباں تھا تجھے دودن کی ہوا پر یہ غرور

    نہ رہے باغ میں گل رہ گئے خار آخر کار

    آب سے کام نہیں نشونما کو اپنے

    شجر خشک کو آتش سے ہے کار آخر کار

    آشیاں باندھے ہے کس امید پر اے عندلیب

    آتش گل سے کوئی دم میں جلاتی ہے بہار

    (سودا)

    کبھی تو جوں خس وخاشاک ہوں میں سوختن قابل

    کبھی جوش دروں سے موج زن ہوں مثل دریا میں

    کبھی نقش قدم سے پست تر ہوں راہ دنیا میں

    کبھی توعرش اعظم سے بھی ہوں میں جائے اعلیٰ میں

    کبھی کہتا ہوں میں کیا چیز ہوں حیران ہوں یارب

    کبھی تومرگ کے ہم رنگ ہو اٹھتا ہوں جیتا میں

    (میر سوز)

    یاس کو اس بلبل بے پر کی دیکھا چاہئے

    آتش گل جس کے کچھ اک آشیاں سے دور ہو

    ایک تنکا بھی نہ ڈھونڈا پائیے افسوس ہے

    آشیاں بلبل کا یوں اس گلستاں سے دور ہو

    مصحفی روئے زمیں پر یوں نہیں رہنے کا لطف

    آسماں کو دور کریا آسماں سے دور ہو

    (مصحفی، دیوان اول)

    مندرجہ بالا اشعار میں غزل کی کیفیت بلکہ یوں کہیں کہ غزل کی فضا، موجود ہے، لیکن ان میں متکلم نے عشق سے متعلق کوئی بات نہیں کہی ہے۔ ہم بہت زور صرف کریں تو شاید یہ کہہ سکیں کہ ان اشعار کے متکلم عاشقانہ مزاج رکھتے ہیں، یا شاید واقعی عاشق ہوں۔ لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان اشعار میں وہ ہمیں عشق کے تجربے پر مطلع نہیں کررہے ہیں۔ ان میں کہیں کچھ محزونی ہے، کہیں واردات ذہنی کاذکر ہے، کہیں مادی دنیا میں انسان کے جینے مرنے کا ذکر ہے اور چونکہ ان شعروں میں کوئی عمومی انسانی صورت حال بیان ہوئی ہے اور ان کا عام لہجہ استعاراتی ہے، لہذا یہ ہمیں اچھے بھی لگتے ہیں، ان میں قصیدے کا انداز یا تو بالکل نہیں ہے، یا بہت ہی کم ہے۔ ہم انہیں غزل کا شعر قرار دینے میں حق بجانب ہیں۔

    کہا جاسکتاہے کہ مندرجہ بالا کلام تو اردو شعرا کاہے، اور شبلی غالباً فارسی شاعری کی بات کررہے تھے۔ لیکن یہ اعتراض درست نہ ہوگا۔ شبلی نے تمام غزل کے بارے میں حکم لگایا ہے کہ وہ اصل میں عشقیہ جذبات پر مبنی ہوتی ہے، اور اسی لیے وہ کہتے ہیں کہ فارسی خیال بندوں نے غزل کو بہت نقصان پہنچایا۔ سچی بات یہ ہے کہ شبلی نے اپنی پسند اور افتاومزاج کے مطابق فیصلہ دیا تھا، ورنہ سعدی اور خسرو کے یہاں بھی ایسے شعر بہ آسانی مل جائیں گے جن میں عشق کے بارے میں کوئی بات، یا کوئی عشقیہ جذبہ نہیں نظرآتا۔ سعدی اور خسرو کو اولین عظیم غزل گو کہاجاتاہے۔ میں یہاں ان کے صرف چھ چھ شعر حاضر کرتاہوں۔ انہیں میں نے کسی خاص تلاش کے بغیر حاصل کیا ہے۔

    گلم بدست بدر برد روزگار مخالف

    امید ہست کہ خارم ز پائے ہم بدر آید

    گرم حیات بہ ماندنہ ماندایں غم وحسرت

    وگر نہ ماند بلبل درخت گل بہ برآید

    گنہ نہ بود وعبادت نہ بود برسرخلق

    بنشتہ بود کہ ایں ناجیست وآں ماخود

    مقدر است کہ از ہر کسے چہ فعل آید

    درخت مقل نہ خرما دہد نہ شفتا لود

    ترک عمل بگفتم وایمن شدم ز عزلت

    بے چیز رانہ باشد اندیشہ از خرامی

    سعدی چوترک ہستی گفتی زخلق رستی

    از سنگ غم نہ باشد بعد از شکستہ جامی

    (سعدی)

    بوستاں ہا کاندرو بودیم خوش بادوستاں

    آں ہمہ گلہا تو پندراری سراسر خار بود

    بارہا بینم بخود آں عیش رایاد آورم

    خسروا دل بد مکن ازنا مرادی ہائے دہر

    کایں ہمہ مرغیست یارب کاندراں گلزار بود

    کآسماں را کینہ ہم بامردم ہشیار بود

    آدمی خوش دل نہ باشد گرچہ درجنت بود

    آدمی خود کے تواند بود چوں آدم نہ بود

    دہر با مردم نہ ساز وزاں خراں دارند گنج

    ورنہ ایں مردار درویرانۂ او کم نہ بود

    زمے چہ توبہ کہ گرذوق آں کند معلوم

    فرشتہ چوں مگس آں جابہ بوفردوآید

    (خسرو)

    یہ بات ظاہر وباہر ہے کہ مندرجہ بالا فارسی اشعار اور سودا، سوز اور مصحفی کے منقولہ بالا اشعار میں بہت مماثلت ہے اور یہ بات بھی غور کرنے کی ہے کہ سعدی کے بعض شعروں میں ادعا اور تمثیل کا وہ انداز نظر آتاہے جو بعد میں خیال بندوں کے یہاں خوب چمکا۔ اسی طرح، خسرو کے ایک دوشعروں میں اس طرح کی شوخی اور رندی ہے جو سترہویں صدی کے فارسی، اور اٹھارویں صدی کے اردو غزل گویوں کے یہاں اور بھی کھل کر شگفتہ ہوئی۔

    یہ نکتہ بھی آپ کی خاطر پرروشن رہے کہ جن اردو شعرا کے شعر میں نے اوپر درج کیے، ان کے یہاں خیال بندی کا رجحان تھوڑا بہت موجود رہاہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ صرف خیال بند شعرا ہی اس طرح کے اشعار کہہ سکتے ہیں۔ سعدی اور خسرو کے منقولہ بالا شعر اس کا ثبوت ہیں۔ علاوہ بریں، میر کے بھی کلام میں ایسے شعروں کی کمی نہیں، لیکن میں نے جان بوجھ کر انہیں نقل نہیں کیا ہے کہ میرکے یہاں اکثر شعروں میں کیفیت کا اس قدروفور ہے کہ ہمارا دھیان اس طرف بہت مشکل سے منعطف ہوتاہے کہ ان اشعار میں کوئی عشقیہ مضمون یا جذبہ براہ راست نہیں بیان ہواہے۔ دیوان اول سے صرف دوشعر مثلاً لکھ دینا شاید کافی ہو۔

    جہاں میں میر سے کا ہے کو ہوتے ہیں پیدا

    سنا یہ واقعہ جن نے اسے تاسف تھا

    نہ سوئے نیند بھر اس تنگ نا میں تانہ موئے

    کہ آہ جانہ تھی پا کے دراز کرنے کو

    مندرجہ بحث اور مثالوں کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’’عشق‘‘ کو اگر غزل کا حاوی موضوع قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا، لیکن اگر غزل کو محض ’’عشقیہ جذبات‘‘ کانام دیاجائے تو غزل نہ صرف یہ کہ بہت محدود ہوجائے گی، بلکہ بڑے غزل گویوں کے بہت سے اشعار کو غزل کے دائرے سے خارج کرناپڑے گا۔

    اسی طرح، یہ کہنا بھی درست نہ ہوگا کہ غزل سراسر عشقیہ جذبات کے اظہار کانام نہ سہی لیکن اس کے تمام مضامین براہ راست عشق سے متعلق ہوتے ہیں۔ اچھے غزل گویوں، اور خاص کرخیال بندوں کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ ایسے مضامین کی تلاش میں رہتے ہیں جو براہ راست جذبات عشق سے تعلق نہیں رکھتے، چاہے ان کے سرچشمے عشق ہی کی زمین سے پھوٹے ہوں۔ اردوغزل گویوں میں یہ بات غالب کے امتیازات میں ہے۔ مثال کے طور پر دیوان غالب کے شروع ہی میں یہ شعر دیکھیے،

    بس کہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیرپا

    موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا

    زخم نے داد نہ دی تنگی دل کی یارب

    تیر بھی سینۂ بسمل سے پرافشاں نکلا

    گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو دیراں ہوتا

    بحراگر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا

    یہ الگ بات ہے کہ غالب نے استعارے کی جدت اور کثرت معنی کے بل بوتے پران شعروں کو نہایت وسیع الذیل کردیا ہے اور مضمون میں تجرید ہونے کے باعث یہ اشعار خیال بندی کے طرز کا بھی اچھا نمونہ ہیں۔ لیکن بنیادی طور پر ان شعروں کے مضامین عشق ہی کے تجربے سے اُگے ہیں۔ اسیر ہونا اس لیے ہے کہ عشق کا نتیجہ دیوانگی ہے، یا خودعشق ایک طرح کی دیوانگی ہے۔ عاشق کو فریفتہ اور شیدا کہتے ہیں، اور دونوں کے اصل معنی ’’دیوانہ‘‘ ہیں۔ دیوانے کو زنجیر کرتے ہیں۔ پرانے زمانے میں، بلکہ ابھی چند دہائی پہلے تک، دیوانگی کا ایک علاج یہ بھی تھا کہ مریض کو پابند سلاسل کرتے یا قید کردیتے تھے۔ جن دیوانوں میں جارحانہ رجحانات ہوتے ہیں ان کو اب بھی بندش میں رکھتے ہیں، یا ایسے حجرے میں قید کرتے ہیں جس کی دیواروں پر بھی گدے جڑے ہوئے ہوتے ہیں کہ مریض خود کو زخمی نہ کرلے۔ دوسری بات یہ کہ دیوانگی کے مریض میں جارحیت کا رجحان ہویا نہ ہو، لیکن اس کے مزاج میں وحشت بہرحال ہوتی ہے، اور عشق کا بھی ایک تفاعل یہ ہے کہ عاشق کا جی کہیں نہیں لگتا۔ (بن میں چمن میں جی نہیں لگتا یارو کیدھرجاویں ہم۔ میر)

    عشق کی فطرت ہی ایسی ہے کہ وہ عاشق کو آتش زیر پا، یعنی بے قرار رکھتا ہے۔ دل میں زخم بھی اس لیے ہے کہ عشق نے دل کو زخمی کردیا ہے، یا پھر نگاہ معشوق نے دل پر مشق ستم کی ہے۔ عاشق کی خاص صفات میں ایک صفت دل تنگی ہے۔ یہ دل تنگی اس طرح دور ہوتی ہے کہ معشوق کا نیش نگاہ دل میں زخم پیدا کرے۔ اسی طرح، عشق کا ایک لازمی نتیجہ غمگینی اور دردمندی ہے۔ غم کا نتیجہ گریہ کی شکل میں ظاہر ہوتاہے۔ اور مسلسل گریہ، یعنی اس قدر رونا کہ گھر کا سب سامان بہہ جائے، یا خود گھر گرپڑے اور ویران ہوجائے، یہ بھی عشق ہی میں ممکن ہے۔ ان تشریحات کی روشنی میں ثابت ہوتاہے کہ غالب کے تینوں منقولہ بالا شعر دراصل عشقیہ ہی شعر ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بفیض معنی آفرینی وخیال بندی انہیں محض عشقیہ نہیں کہاجاسکتا۔

    مندرجہ بالا گفتگو کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر چہ غزل کا حاوی موضوع عشق ہے۔ لیکن اس مجمل بیان میں حسب ذیل باتیں شامل ہیں،

    (۱) معشوق کا سراپا، اس کا شوق شکار، ظلم وستم سے اس کی رغبت، اس کی وعدہ خلافی، غلط بخشی، وغیرہ۔

    (۲) ’’مضامین عشق‘‘ سے مراد وہ مضامین بھی ہیں جو براہ راست عشقیہ نہیں ہیں لیکن جو عشق کے تجربے پر مبنی ہیں، مثلاً متکلم کی لاغری، اس کا گریہ، آوارہ گردی، جنون، وغیرہ۔

    (۳) وہ مضامین بھی ’’عشقیہ‘‘ کہے جاسکتے ہیں جن میں عشق کے بارے میں کوئی بات براہ راست نہیں کہی گئی، لیکن ان کی کیفیت ایسی ہے کہ ہم اسے ’’عشقیہ‘‘ کہہ سکتے ہیں، یعنی عین ممکن ہے ان مضامین پر مبنی اشعار ہمیں عشق کے بارے میں کسی حقیقت پر مطلع کریں۔

    (۴) نمبردو (۲) اور نمبر (۳) میں خاص فرق یہ ہے کہ شق دو (۲) میں جواشعار شامل ہوں گے ان کے بارے میں یہ بات واضح ہوگی کہ ان کی اصل عشقیہ ہے، جب کہ شق تین (۳) میں شامل اشعار کے بارے میں ایسا کوئی حکم نہ لگ سکے گا۔ بس یہ کہاجائے گا کہ ان کی کیفیت عشقیہ ہے۔

    عشق کے حاوی مضمون کے بعد مندرجہ ذیل قسم کے مضامین غزل میں عام طور پر نظرآتے ہیں،

    (۱) تصوف پر مبنی مضامین (ان میں وہ مضامین بھی شامل ہیں جن میں شیخ، یا اہل ظاہر، یااہل دنیا پر نکتہ چینی، تعریض، یاطنزہے۔) بعض لوگوں، مثلاً رالف رسل نے غزل کے تمام عشقیہ اشعار کو متصوفانہ قرار دیا ہے۔ ایسا نہ بھی ہو تو اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے عشقیہ اشعار کی متصوفانہ تعبیرممکن ہے۔

    (۲) موعظت اور پند کے حامل مضامین (ایک طرح سے دیکھیے تو یہ نمبر ایک میں شامل ہیں۔)

    (۳) شوخی اور ندی اور آزادہ مزاجی کی باتیں (ایک طرح سے دیکھیے تو یہ بھی نمبر ایک میں شامل ہیں۔)

    (۴) حکیمانہ، فلسفیانہ مضامین۔

    (۵) مادی، روزمرہ کی دنیا کے معاملات پر رائے زنی۔

    (۶) در مدح خود۔

    (۷) شعریات۔

    یہ بات دھیان میں رہے کہ ظرافت چونکہ تقریباًہر قسم کے مضمون میں دخل کرسکتی ہے، اس لیے اسے الگ سے مضمون قرار دینا غیر ضروری ہے۔ درمدح خود، یعنی تعلی کے اشعار کو غزل کے مضامین میں شروع ہی سے، یاکم سے کم خسرو کے وقت سے جگہ مل گئی تھی۔ قصیدے اور مثنوی میں بھی تعلی کے مضامین بہت شروع سے موجود ہیں، اور کبی کبھی ایسی تعلی میں شعریات کے دھندلے نکات بھی دکھائی دینے لگتے ہیں۔ مسعود سعد سلمان کے قصیدے میں یہ بات بطور خاص نمایاں ہے۔ لیکن براہ راست شعریات پر مبنی مضامین اردو فارسی شاعری اور خاص کر غزل میں سترہویں صدی سے داخل ہوتے ہیں اور شعریات پر مبنی مضامین کو بعض حالات میں درمدح خود کی بھی توسیع کہاجاسکتاہے۔ مثلاً مومن،

    اگرچہ شعر مومن بھی نہایت خوب کہتاہے

    کہاں ہے لیک معنی بندومضموں یاب اپنا سا

    شیخ احمد گجراتی، وجہی، ابن نشاطی، نصرتی وغیرہ کی مثنویوں میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ شاعر کبھی کبھی اپنی ثنا اس طرح بیان کرتاہے کہ شعریات کاکوئی مضمون بھی اس سے مستفاد ہوسکتاہے۔ مثنوی کے شاعر بعض اوقات براہ راست شعریات کے مسائل کی طرف بھی اعتنا کرتے ہیں۔ لیکن جب سترہویں صدی کے ہندوستانی فارسی اور اردو شعرا کو احساس ہوا کہ اب غزل کی شعریات ایک نئے موڑ پر آرہی ہے بلکہ آچکی ہے، اور اس صورت حال میں کئی باتیں ایسی ہیں جو غزل کی دنیا میں دریافت کادرجہ رکھتی ہیں، تو انہوں نے غزل میں شعریات کے مضمون ڈالنے کااہتمام والتزام شروع کیا۔ مثلاً صائب کے اس شعر میں درمدح خودکا مضمون اورشعریات کاایک نکتہ، دونوں موجود ہیں۔

    عشرت مامعنی نازک بدست آوردن است

    عید مانازک خیالاں راہلال اینست وبس

    صائب کا وہ شعر ہم پڑھ چکے ہیں جس میں انہوں نے ’’معنی بیگانہ‘‘ کامضمون باندھا ہے،

    صائب ز آشنائی عالم کنارہ کرد

    آں کس کہ شد ز معنی بیگانہ آشنا

    معنی بے گانہ، یعنی ایسا مضمون جو نامانوس ہواور مشکل سے ہاتھ آئے، اب اسی مضمون پر غنی کا ایک شعر اور دیکھیں،

    طبع ہر شاعر کہ شد با طرز دزدی آشنا

    معنی بے گانہ داند معنی بے گانہ را

    صائب کے شعر میں تعلی نہیں تھی لیکن غنی کے شعر میں ان شعرا کی تحقیرہے جو دوسروں کے مضمون چراتے ہیں۔ ایسوں کے لیے وہ مضمون جو پہلے کسی نے نہ باندھے ہوں بیگانہ ہی ٹھہریں گے۔ (’’بیگانہ‘‘ کے یہاں دومعنی ہیں، ایک تو وہی استعاراتی معنی، کہ وہ مضمون بے گانہ ہے جو کسی اور نے نہ باندھا ہو، اور دوسرے، ’’معنی اجنبی، ایسے معنی جنہیں مضمون کا چوردیکھے بھی تو پہچان نہ سکے کہ یہ مضمون ہوں گے۔‘‘اس مضمون میں خود ستائی کا پہلو ظاہر ہے۔ طالب آملی کے حسب ذیل شعر میں خیال بندی کے بارے میں بنیادی نکتہ بیان ہوا ہے، اور تھوڑا سا شائبہ اپنی مدح کا بھی ہے،

    دفتر بہ بیں کہ معنویاں چوں نوشتہ اند

    الفاظ را فگندہ ومضمون نوشتہ اند

    الفاظ کو چھوڑدینا، یعنی نام نہاد نرم وشیریں الفاظ سے رغبت نہ رکھنا، بلکہ مضمون رقم کرنا، اور مضمون کو بیان کرنے کے لیے ہر ممکن لفظ سے مددلینا، یہ خیال نہ کرنا کہ یہ لفظ ’’شاعرانہ‘‘ ہے بھی کہ نہیں، یہ ’’معنوی‘‘ شعرا، یعنی خیال بند شعرا کی صفت ہے۔ طالب نے یہاں ‘‘ معنوی‘‘ کی اصطلاح ’’حسی‘‘ کے متقابل، یعنی ’’تعقلی کارگزاری پر مبنی‘‘ کے مفہوم میں استعمال کی ہے۔‘‘ حسی‘‘ کی ضد کے طور پر ’’معنوی‘‘ کے حسب ذیل معنی پلیٹس (Platts) نے لکھے ہیں،

    Of or relating to idea, or mind, or intellect, ideal, mental, intellectual (opposite to hissi)

    مندرجہ بالا تعریف کی روشنی میں طالب کا مفہوم بالکل صاف ہوجاتاہے اور ’’معنوی‘‘ شاعر وہ ٹھہرتاہے جس کا سروکار تعقلاتی، ذہنی اور دانشورانہ باتوں سے ہو، اور جو میٹھے الفاظ سے زیادہ نادر مضمون کو ڈھونڈتاہو، چاہے اس نادر مضمون کو ادا کرنے کے لیے اجنبی الفاظ ہی کیوں نہ استعمال کرنا پڑیں۔ طالب آملی ہی کا قول ہے کہ،

    لفظے کہ تازہ است بہ مضمون برابر است

    طالب کے شعر کو ذہن میں رکھیے تو لگتاہے کہ نوجوان غالب نے اپنا مندرجہ ذیل شعرصرف اس لیے کہا تھا کہ طالب کے شعر میں خیال بندی کا جو اصول درج ہوا ہے، اس کی زندہ مثال سامنے آجائے۔

    دل کو اظہار سخن انداز فتح الباب ہے

    یاں صریر خامہ غیر از اصطکاک در نہیں

    ممکن ہے ’’فتح باب‘‘ کی ترکیب غالب نے صائب کے یہاں دیکھی ہو۔ اس خیال کو اس بات سے تقویت پہنچتی ہے کہ کہ صائب نے اپنے شعر میں دروازہ کھلنے کی آواز کا مضمون بھی باندھا ہے۔

    تفاوت است میان شنیدن من و تو

    تو بستن درومن فتح باب می شنوم

    لیکن اس بات سے قطع نظر کہ غالب کے شعر میں شعریات کا بھی نکتہ بیان ہوا ہے، ان کی جرات دیکھیے کہ عربی الف لام کی ترکیب جو فارسی میں کم تر ہے (اور جسے صائب نے ترک کیا) اور جو اردو میں اور بھی شاذ ہے، غالب نے اسے دھڑلے سے استعمال کیا۔ پھر اس پر بس نہ کرکے وہ دوسرے مصرعے میں عربی کا ایک اور لفظ’’اصطکاک‘‘ لے آئے، جو قطعاً نا مانوس، اگر چہ آواز کے پیکر کا حامل ہے۔ غالب کو نادر مضمون بیان کرنا تھا۔ انہیں اس بات کی پروا نہیں تھی کہ اس کو بیان کرنے کے لیے جو الفاظ درکار ہیں، وہ نام نہاد ’’شاعرانہ‘‘ الفاظ نہیں ہیں۔ اور یہی اصل خیال بند کی پہچان ہے۔

    خیال بند شاعر کے طریق کار کو ایک اور مثال کے ذریعہ ظاہر کر سکتے ہیں۔ دیوان اول میں میر کا شعر ہے،

    جوں چشم بسملی نہ مندی آوے گی نظر

    جو آنکھ میرے خونی کے چہرے پہ باز ہو

    انتہائی خوب صورت عشقیہ شعر ہے۔ مضمون یہ ہے کہ جوشخص میر ے معشوق کو دیکھے تو وہ اسے حیرت سے تکتا رہ جائے۔ حیرت سے تکتی ہوئی آنکھ کھلی کی کھلی رہ جاتی ہے، اس لیے ایسی آنکھ کے لیے ذبح کیے ہوئے جانور کی آنکھ کامضمون لائے ہیں۔ یہ مضمون نیا ہے اور مضمون آفرینی کی ضمن میں رکھا جائے گا۔ اب اس کے بعد ہی جوہے معنی آفرینی ہے، ملاحظہ ہو،

    (۱) معشوق کو ’’خونی‘‘ کہا جو بالکل درست ہے۔ اس طرح ’’چشم بسملی‘‘ کے ساتھ مناسبت بھی بن گی۔

    (۲) معشوق کو اپنا خونی کہا، یعنی وہ شخص جو میرا معشوق ہے، یا وہ شخص جس نے میرا خون کیا، وہ یا وہ شخص جو میرا معشوق ہے اور خون کرنا جس کی ادا ہے۔

    (۳) میرے خونی پر کسی کی آنکھ کے باز ہونے میں اشارہ یہ بھی ہے کہ جب اس نے میرا خون کیا، اور لوگوں نے تفتیش کرکے قاتل کو پہچاننا چاہا تو جس کی بھی آنکھ اس پر پڑی وہ محوحیرت ہوگیا۔

    (۴) مقتول زبان حال سے کہہ رہاہے کہ جس نے میرے خونی پر آنکھ ڈالی وہ محو حیرت ہوا۔

    (۵) ’’میرے خونی‘‘ کہنے میں جو پیار، اپنائیت اور غرور ہے وہ داد سے مستغنی ہے۔

    (۶) ’’نہ مندی آوے گی نظر‘‘ میں نکتہ یہ ہے کہ کبھی بند نہ ہوگی اور چشم بسملی کی طرح ہوگی، لہٰذا روشن ہوتے ہوئے بھی روشنی سے عاری ہوگی۔ صرف’’کھلی نظر آوے گی‘‘ کہتے تو یہ بات نہ پیدا ہوتی۔

    (۷) آنکھ مندی نظرنہ آئے گی سے بظاہر یہ مراد ہونا چاہئے کہ جب آنکھ کھلی ہوتی ہوگی تو بینا بھی ہوگی۔ یہاں لطف یہ ہے کہ بینا (کھلی ہوئی) بھی ہے اور نابینا (حیرت کی وجہ سے سناٹے میں) بھی ہے۔ یہ لطف نہ حاصل ہوتا اگر ’’نہ مندی‘‘ کے بجائے صرف ’’کھلی‘‘ کہتے۔

    مندرجہ بالا تجزیے کی روشنی میں یہ شعر معنی اور کیفیت کا خزانہ معلوم ہوتاہے۔ مضمون بے شک تازہ اور انوکھا ہے، لیکن اس سے جو معنی پیدا کیے ہیں وہ نہ صرف کثیر ہیں، بلکہ ارضیت اور ٹھوس پن کی صفات سے مالا مال ہیں۔ اب دیکھیے اسی چشم بسملی کے مضمون کوخیال بند شاعر کس طرح برتتے ہیں۔ ناسخ،

    نور کا نام شب تار جدائی میں نہیں

    جوستارہ ہے وہ اک دیدۂ قربانی ہے

    ستاروں کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں لیکن ان میں روشنی نہیں۔ ہر ستارہ دیدۂ قربانی ہے کہ صید بسمل کی بھی آنکھ کھلی ہوئی لیکن بے نور ہوتی ہے۔ ’’جوستارہ ہے‘‘ میں اشارہ یہ بھی ہے کہ ستارہ صرف ایک ہے۔ ’’قربانی‘‘ کا لفظ شب تارجدائی کی تکالیف سے مناسبت رکھتا ہے۔ شعراپنی جگہ پر مکمل ہے لیکن مضمون اب بڑی حد تک خیالی اور روزمرہ کی دنیا سے دور ہے۔ معنی کی کثرت بھی نہیں۔

    اب غالب کو سنیے،

    اپنے کو دیکھتا نہیں ذوق ستم تودیکھ

    آئینہ تاکہ دیدۂ تخچیر سے نہ ہو

    معشوق کا ذوق ستم اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ وہ اس کے ذوق آرائش جمال سے بھی فزوں تر ہے۔ اسے اپنے جمال کی آرائش ہو، بلکہ آئینے میں بس اپنا منھ ہی دیکھنا ہوتو وہ پہلے کسی کا خون کرتاہے، یا اسے اپنی صورت دکھا کر مبہوت کرتاہے، اور پھراس صید بسمل، یاناظرحیرت زدہ کی آنکھوں میں اپنے عکس کو منعکس دیکھ کر آرائش جمال (یا خود بینی) شروع کرتاہے۔‘‘ تاکہ‘‘ یہاں ’’تاوقتیکہ‘‘ کے معنی میں ہے۔ شعر میں معنی کی کثرت نہیں ہے، صرف مضمون اور پیکر کے ڈرامائی انوکھے پن نے شعر کو یاد گار بنا دیا ہے۔ بنیادی بات یہی ہے کہ حیرت یا تذبیح کی وجہ سے کھلی ہوئی آنکھ بظاہر روشن لیکن دراصل نور سے عاری ہوتی ہے۔

    میر کے شعر میں قول محال ہے، لیکن نمایاں نہیں، ڈراما اور پیکر ہے۔ ناسخ کے یہاں قول محال بھی نمایاں ہے اور پیکر بھی۔ غالب کے یہاں ہلکا سا قول محال لیکن ڈرامائی، جھرجھری پیدا کرنے والا پیکر ہے اور مبالغے نے استعارے کی بلند ترین سطح کو چھولیا ہے۔ ناسخ کے مضمون میں میر کے مضمون پر ترقی ہے، اور غالب کے مضمون میں ناسخ پر بھی ترقی ہے۔ غالب کے شعر میں جوصورت حال بیان کی گئی ہے وہ روزمرہ ’’حقیقت‘‘ سے بالکل منقطع ہے لیکن غزل کی رسومات اسے واقعی بنا دیتی ہے۔ اسی طرح ہم دیکھ سکتے ہیں کہ غالب اور ناسخ کن کن طریقوں کو عمل میں لاکر کیفیت اور (ان دوشعروں کی حد تک) کثرت معنی کو ترک کرتے ہیں اور مضمون کو تجریدی اور غیر زمینی بناتے ہیں۔

    یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مولانا محمد حسین آزاد نے ناسخ پر جو لکھا ہے اس کے بھی چند جملے دہرالیے جائیں۔

    ’’فارسی میں بھی جلال اسیر، قاسم مشہدی، بیدل اور ناصر علی وغیرہ استاد ہوگزرے ہیں جنہوں نے اپنے نازک خیالوں کی بدولت خیال بند اور معنی یا ب لقب اختیار کیا ہے۔ شیخ صاحب نے ان کی طرز اختیار کی تو کیابرا کیا۔

    وہ اپنی تصویریں آپ کھینچتے ہیں اور آپ ان پر قربان ہوتے ہیں، بلکہ شوقین، داددینے والے، جو کھرے کھوٹے کے پرکھنے والے ہیں۔۔۔ ان نازک خیالوں کو دن کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔

    دوسرا اعتراض ان کے حریفوں کا ان سخت اور سنگین الفاظ پر ہے جن کے بھاری وزن کا بوجھ غزل کی لطافت ونزاکت ہرگز برداشت نہیں کرسکتی، اور کلام بھدا ہوجاتاہے۔‘‘ (’’آب حیات‘‘ طبع۱۹۶۷، ص۴۲۶تا۴۲۷)

    دوسرے اور تیسرے پیرا گرافوں میں جو اعتراض ہیں، وہ نہایت کمزورہیں۔ لیکن ان کی حقیقت آشکار کرنے کا یہ موقع نہیں۔ اس وقت اتنی بات تو دیکھ ہی لیجیئے کہ اصل اور اصول کے اعتبار سے ناسخ کے بارے میں محمد حسین آزاد کے یہ اقوال نہ صرف ناسخ بلکہ غالب پر بھی پوری طرح صادق آتے ہیں اور ان کے ذریعہ طالب آملی کے محولہ بالا شعر اورخیال بندی کے تصور کو بھی سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

    غزل کے مضامین کی جو فہرست اب تک میں نے مرتب کی ہے اور ان پر تھوڑی بہت گفتگو جو درج ہوئی، اس کی روشنی میں یہ بات شاید صاف ہوجاتی ہے کہ ہمارے شعرا کا عام عمل یہ رہاہے کہ غزل کو صرف عشق یا متعلقات عشق پر مبنی مضامین تک محدود نہ رکھیں۔ پھر خیال بند شعرا نے مضامین میں مزید تنوع حاصل کرنے کا اہتمام کیا اور اس کی خاطر بعض سامنے کی چیزوں (مثلاًکیفیت) کو ترک بھی کیا۔ غالب کا زمانہ آتے آتے یہ بات کم وبیش ناممکن لگتی ہے کہ غالب نے اپنی غزلوں کے لیے کچھ ایسے بھی مضامین ایجاد کیے ہوں یا دریافت کیے ہوں، جنہیں مندرجہ بالا کسی شق میں نہ رکھا جاسکتاہو۔ لیکن ظاہر ہے کہ غالب نے ایسا کیا۔ غالب کا اہم ترین کارنامہ اس ضمن میں یہ ہے کہ انہوں نے اس قسم کے غیر عشقیہ مضامین توکثرت سے باندھے ہی جن کے لیے غزل میں گنجائش بن چکی تھی، لیکن انہوں نے ایسے بھی مضامین اختیار کیے جو غزل کے مروجہ مضامین میں شامل نہیں تھے۔ (مروجہ مضامین کی فہرست ہم اوپر دیکھ چکے ہیں) ۔ اس نکتے کی تفصیل کے لیے بات کو غالب کے کوئی پچاس برس آگے لے جا کر میں اقبال کی مثال دینا چاہتاہوں۔

    یہ اکثر کہا گیا ہے کہ غالب نے اقبال پر گہرا اثر ڈالا، اور غالب نہ ہوتے تو اقبال بھی نہ ہوتے۔ یہ بات درست ہے، لیکن اقبال کی مملکت میں وہ علاقے کون سے ہیں جن پر ہم غالب کا اثر بہت نمایاں دیکھتے ہیں؟ اس سوال کا کوئی تشفی بخش جواب میری نظر سے نہیں گزرا ہے۔

    اگر اقبال کی فارسیت کو غالب کا مرہون منت بتایاجائے تو بات بہت دور نہیں جاتی، کیوں کہ فارسیت توہمارے اور شعرا کے اسلوب میں بھی تھی۔ چاہے وہ غالب سے کچھ کم رہی ہو، لیکن ہم میر درد، خاص حالات میں سودا اور پھرناسخ ومومن کو فارسیت کے برتنے میں بڑی دستگاہ کا مالک دیکھتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ غالب کے سامنے اقبال کی فارسیت میں گیرندگی بہرحال کم دکھائی دیتی ہے۔ اقبال نے فارسی الفاظ وتراکیب کو اسی حد تک استعمال کیا جس حد تک وہ اردو زبان کی تخلیقی کا وشوں، یعنی زبان کے Paroleکا اٹوٹ حصہ بن چکی تھیں۔

    اس کے برخلاف، غالب نے فارسی کو باہر سے درآمد کیے ہوئے عنصر کی حیثیت سے اردو میں برتا۔ انہوں نے اس بات کا خیال کچھ نہ رکھا کہ فارسی کے جواجزا میں اردو میں برت رہاہوں، وہ اردو میں حل ہوچکے ہیں کہ نہیں، یا حل ہوبھی سکتے ہیں کہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میردرد، جن کی فارسیت جگہ جگہ غالب کی پیش آمد معلوم ہوتی ہے، وہ تو’’پتھر تلے کا ہاتھ‘‘ لکھتے ہیں، اور غالب ’’دست تہ سنگ آمدہ‘‘ نظم کرتے ہیں۔ ذیل کے دونوں شعروں میں مضمون کے تفاوت کوفی الوقت بھول جایئے، صرف فارسیت کو دیکھئے۔ درد نے بھی فارسی لکھی ہے، لیکن اسی حد تک جس حد تک وہ اردو میں حل ہوچکی ہے، یا فوری طورپر حل ہوجانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ غالب نے فارسی کو باہر سے لاکر اردوزبان کو ایک نیا بعد دینے کی کوشش کی ہے اور کہنا پڑتاہے کہ ان کی کوشش کامیاب نظرآتی ہے۔ متعصب حضرات کچھ بھی کہیں، لیکن غالب کے منقولہ ذیل شعر کی زبان بالکل اجنبی نہیں معلوم ہوتی۔

    پتھر تلے کا ہاتھ ہے غفلت کے ہاتھ دل

    سنگ گراں ہوا ہے یہ خواب گراں مجھے

    (درد)

    مجبوری ودعواے گرفتاری الفت

    دست تہ سنگ آمدہ پیمان وفا ہے

    (غالب)

    لہٰذا غالب اور اقبال کا باہمی تفاعل فارسیت کی سطح پر اتنا نہیں جتنا ہم سمجھتے ہیں۔

    درحقیقت اقبال نے غالب سے یہ فن سیکھا کہ غزل کے مروجہ مضامین کے دائرے سے باہر جاکر بھی غزل کا شعر کس طرح بنایا جاسکتاہے۔ مثلاً ’’ضرب کلیم‘‘ کی یہ غزل دیکھیے۔ غالب نہ ہوتے تو ایسی غزل ناممکن تھی،

    دریا میں موتی اے موج بے باک

    ساحل کی سوغات خار وخس وخاک

    میرے شرر میں بجلی کے جوہر

    لیکن نیستاں تیرا ہے نم ناک

    کامل وہی ہے رندی کے فن میں

    مستی ہے جس کی بے منت تاک

    اگر یہ خیال ہو کہ اس طرح کے اشعار اقبال کی آخری زمانے کی یاد گار ہیں، تو ’’بانگ درا‘‘ سے یہ نمونے ملاحظہ ہوں،

    وہ مے کش ہوں فروغ مے سے خود گلزار بن جاؤں

    ہوائے گل فراق ساقی نامہرباں تک ہے

    وہ مشت خاک ہوں فیض پریشانی سے صحرا ہوں

    نہ پوچھو میری وسعت کی، زمیں سے آسماں تک ہے

    جرس ہوں نالہ خوابیدہ ہے میرے ہررگ وپے میں

    یہ خاموشی مری وقت رحیل کارواں تک ہے

    ان اشعار میں تعلی کا ہلکا سا انداز ہے، لیکن انہیں شاعرانہ تعلی پر مبنی نہیں کہاجاسکتا، اور نہ انہیں اخلاقی یا موعظانہ کہہ سکتے ہیں۔ ان اشعار کا سلسلہ ڈھونڈ نے کے لیے غالب کے یہ اشعار دیکھیے،

    بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے

    ہوتا ہے شب وروزتماشا مرے آگے

    اک کھیل ہے اور نگ سلیمان مرے نزدیک

    اک بات ہے اعجاز مسیحا مرے آگے

    ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے پیچھے

    گھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے

    یہ بات نشاں خاطر رہے کہ مندرجہ بالا اشعار ۱۸۵۴/۱۸۵۵کے ہیں، یعنی اس وقت کے، جب اردو شاعری کی ’’سرکار‘‘ تاریخ وتنقید کے بموجب غالب اپنی ’’پرانی‘‘ وضع کو ترک کرتے میر کار نگ، یامیر کا سارنگ، اختیار کرچکے تھے۔ حالانکہ یہ بات بالکل صاف ہے کہ مندرجہ بالا شعر ایک خاص طرح کی تعلی کے عالم سے ہیں۔ ان میں روایتی شاعرانہ تعلی نہیں ہے۔ روایتی لیکن زبردست شاعرانہ تعلی کے لیے فیضی کو سینے۔ مثنوی’’نل من‘‘ میں پہلے تو وہ خود کو اکبر کی زبان سے حکم دلواتا ہے اور اس بہانے اپنی بھی مدح کرتاہے،

    گفت اے چمنت ز شبنم ما

    جادو گر آتشیں دم ما

    از دل شررے بدم درافگن

    آتش بہ نے قلم درافگن

    صدنغمہ درد درسخن ریز

    درساغر نومئے کہن ریز

    گوہر کش وطبل برملا زن

    برجوہریاں دم صلازن

    درخاک تو گنج آسمانی

    بربند طلسم جاودانی

    پھر اپنی ثنا میں یوں زمزمہ آور ہوتاہے،

    زیں خط فگنم برہمنانہ

    زنار بہ گردن زمانہ

    ہرزخمہ کہ برزنم بریں ساز

    ناقوس فلک کنم پرآواز

    گیرم زنواے ہندی آہنگ

    درپہلوی ودری زنم چنگ

    کو ہے بکنم بہ کلک سرباز

    جوے ببرم زچشمۂ راز

    بیسیوں شعر ہیں، میں کئی کئی شعر چھوڑکر نقل کررہاہوں۔ اور دیکھیے ابھی فیضی اتنی مدح خود پربس نہیں کرتا، بادشاہ کو مخاطب کرکے برملا کہتا ہے،

    امروز نہ شاعرم حکیمم

    دانندۂ حادث وقدیمم

    کلکم بہ نقاط جزوکل بیں

    یک نخل بہ صد ہزار گل بیں

    ہر موز تنم ز پردۂ راز

    تاریست جدا جدا نوا ساز

    ہرموے زمن تمام گوش است

    خاموشی من بصد خروش است

    گوساز خسودخون دل قوت

    آتش چہ کندبہ آب یا قوت

    نئے نئے پیکروں، استعاروں، خوداعتمادی کے اعلان ناموں کا ایک سیلاب ہے جو سیکڑوں شعر پر محیط ہے۔ یہ نسبتاً طویل اقتباس میں نے اس لیے پیش کیا کہ درمدح خود والے اشعار کا اندازوآہنگ پوری طرح سامنے آجائے۔ غالب کے شعروں میں روایتی تعلی نہیں ہے اور نہ ہی ان میں بطور عاشق اپنے کسی اختصاص پر فخر ومباہات کیا گیا ہے۔ یہ شعر تصوف کے عالم سے بھی نہیں ہیں، جہاں شاعر/متکلم نے انسان کامل، یا انسان عارف کی حیثیت میں کلام کیا ہو۔ مؤخرالذکر قسم کی تعلی دیکھنا ہوتو میر کو پڑھیے۔ دیوان اول میں ہے،

    ہم آپ ہی کو اپنا مقصود جانتے ہیں

    اپنے سوائے کس کو موجود جانتے ہیں

    عجز ونیاز اپنی طرف ہے سارا

    اس مشت خاک کو ہم مسجود جانتے ہیں

    اپنی ہی سیر کرنے ہم جلوہ گر ہوئے تھے

    اس رمز کو ولیکن معدود جانتے ہیں

    لہٰذاغالب کے شعروں میں درمدح خود کا کوئی بھی روایتی انداز نہیں ہے۔ استعاروں کی جدت، کلام کی روانی، مصرعوں کاتوازن، یہ سب مزید خوبیاں ان اشعار کی ہیں۔ لیکن جس بات پر یہاں زور دینا ہے وہ یہی ہے کہ ان شعروں کے مضمون اپنے پیش روؤں سے مختلف ہیں۔

    یہ درست ہے کہ غالب کے بہت سے اشعار ایسے ہیں جن کا مضمون براہ راست عشقیہ نہیں، لیکن ان کی گل کاری عشق ہی کی زمین میں ہوسکتی تھی، یعنی ان کا تخلیقی سرچشمہ عشق کے ہی تجربات اور عشقیہ شاعری ہی کے رسومیات ہیں۔ اس طرح کے کچھ اشعار ہم پہلے دیکھ چکے ہیں۔ اور اس صفت میں شاہ نصیر، ناسخ، آتش اور ایک حد تک ذوق ان کے شریک ہیں۔ لیکن مندرجہ بالا غزل کی طرح غالب نے ایسے بھی مضمون اختیار کیے جو غزل کے تمام مروجہ مضامین سے ہٹ کر ہیں۔

    ان کی اس قوت نے اقبال اور پھر اقبال کے بعد کی تمام غزل کو متاثر کیا۔ اقبال کے ساتھ والوں، یا ذرا پہلے اور بعد والوں نے فانی (پیدائش۱۸۷۹) اور یگانہ (پیدائش ۱۸۸۳) ، سیماب (پیدائش، ۱۸۸۰) ، ثاقب لکھنوی (پیدائش۱۸۶۹) ، عزیزلکھنوی (پیدائش۱۸۸۲) اور صفی لکھنوی (پیدائش۱۸۶۲) نے بھی غالب کی اس قوت سے تھوڑا بہت فیض حاصل کیا۔

    میرا خیال ہے کہ غالب کی پہچان متعین کرنے والے نقادوں اور پڑھنے والوں نے اگر اس نکتے کو محلوظ رکھا ہوتا کہ غالب دراصل ہمارے بہترین خیال بند ہیں، اور اس صفت کی بنا پر انہیں شاہ نصیر، بعد کے زمانے کے مصحفی، پھر ناسخ وآتش اور ذوق کے ساتھ رکھ کر دیکھنا چاہئے، تو غالب کااثر بھی اتنا ہی پھیلتا جتنا ان کا نام پھیلا۔ اب تک کی تو صورت حال یہ ہے کہ اقبال کے سوا کسی کے یہاں غالب سے سچے اور دوررس تخلیقی استفادے کی شکل نظر نہیں آتی۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ غالب کے بعد ایک اقبال کو چھوڑکر کوئی عالی دماغ شاعر نہیں نظر آتا، جب کہ غالب کا عالم یہ ہے کہ وہ شاہ نصیر، ناسخ اور ذوق سے بھی بہت بڑھ کر صاحب دماغ ہیں۔

    بہرحال، اس میں تو کوئی شک نہیں کہ غالب کا اثر اس حد تک ضرور پھیلا کہ انہوں نے ہمارے ذہنوں میں غزل کا ایسا تصور پیدا کردیا جس میں حالی اور ان کے متبعین اور نام نہاد کلاسیکی غزل کا احیاکرنے والوں (یعنی غزل کے مخالف اور موافق دونوں طرح کے لوگوں) کے تصور غزل کے مقابلے میں زیادہ توانائی اور لچک تھی۔ اس طرح ہم خیال بندی کے اصول اور غالب کی اس پر عمل پیرائی کو اردوغزل کا وہ سب سے اہم موڑکہہ سکتے ہیں جو اٹھارویں صدی کے بعد ظہور پذیر ہوا، اور جس نے اقبال کی غزل کے علاوہ جدید غزل کے لیے بھی راہ ہموار کی۔

    اب ہم سوال کا جواب دے سکتے ہیں کہ خیال بندی کے تحت غالب کا سب سے اہم ابتکارکیا تھا؟ یعنی غزل کے جو مضامین خود خیال بند شعرانے قبل غالب اختیارکیے تھے، ان کے اوپر غالب نے ہمیں کس طرح کے مضامین دیے؟

    یہاں سب سے پہلی بات تو یہی کہنی ہے کہ اب تک خودستائی اور درمدح خود پر مبنی مضامین میں یا تو شاعر اپنی ثنا کرتا تھا، یا پھر انسان (انسان بحیثیت عارف، یا انسان کامل وغیرہ) کی بڑائی بیان کرتاتھا۔ پہلی قسم کی تعلی کو ’’شاعرانہ‘‘ اور دوسری قسم کی تعلی کو ’’متصوفانہ یا حکیمانہ‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ ’’بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے‘‘ والے اشعار میں خود متکلم اپنی ثناکر رہاہے، خواہ اس بنا پر کہ وہ خود کو انسانیت کے کسی بلند درجے پر فائز دیکھتا ہے، یا خواہ اس بناپر کہ وہ اس وقت خود کو وجود وشہود کی نئی منزل میں دیکھتا ہے۔ یہ متکلم بہرحال وہ شاعر نہیں ہے جسے ہم اسد اللہ خان غالب کے نام سے جانتے ہیں، کیونکہ ان اشعار میں شاعرانہ کمالات کے حوالے سے خودستائی نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی ان اشعار کا متکلم کوئی ایسا شخص ہے جو علم یا عرفان کے کسی انتہائی بلند درجے پر متمکن ہے، کیونکہ ان اشعار میں علمی کمالات اور روحانی افتخارات کی بھی بات نہیں ہے۔

    یہ تعلی ایک طرح کے انکار پر مبنی ہے اور اس میں شاید ایک حد تک ذاتی یا شخصی احساس کا شائبہ تلاش کیا جاسکتاہے۔ ذاتی احساس کا بیان کلاسیکی غزل کی مرغوب ادا نہیں، لیکن کبھی کبھی کلاسیکی روایت اسے قبول کرلیتی ہے (جیسا کہ ہم نے میر سوز کے اشعار میں دیکھا) مضمون آفرینی کی سطح پر غالب کو جونئی کامیابی حاصل ہوئی، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بعض اوقات ان کی آواز میں رسومیاتی متکلم کے ساتھ خود شاعر کی آواز سرگوشی کرتی محسوس ہوتی ہے۔

    یہ بھی ممکن ہے کہ ہم جس چیز کو شاعر کی اپنی آواز گمان کررہے ہیں، وہ خیال کی تازگی کا نتیجہ ہو۔ یعنی کلاسیکی شاعر سے یہ تقاضا جائز نہیں کہ وہ اپنے ذاتی تجربات وواردات ضرور بیان کرے۔ شاعر کی شخصیت تو کسی نہ کسی سطح پر شعر میں جلوہ نماہو ہی جاتی ہے، لیکن کلاسیکی شاعر عموماً اس بات سے گریز کرتاہے کہ اپنے واردات ومحسوسات کو براہ راست بیان کرے یا اس طرح بیان کرے کہ ہم سمجھ لیں کہ وہ آپ بیتی کہہ رہا ہے۔ مضمون آفرینی کا اصول آپ بیتی بیان کرنے کے اصول کی نفی کرتاہے۔ حتی کہ یہ بھی ضروری نہیں کہ عشقیہ شعر میں بھی کلاسیکی شاعر اپنی واردات بیان کرے۔ سنسکرت شعریات کی طرح ہمیں بھی Love Poemsاور Poems about love میں فرق کرناچاہیے۔

    اب متداول دیوان سے کچھ شعر دیکھتے ہیں جس میں غالب نے ایسے مضمون لکھے ہیں جوغزل کے مضامین کی اس فہرست میں نہیں آتے جو میں نے اوپر درج کی ہے،

    ڈھانپاکفن نے داغ عیوب برہنگی

    میں ورنہ ہر لباس میں ننگ وجود تھا

    تیشے بغیر مرنہ سکا کوہکن اسد

    سرگشتۂ خمار رسوم وقیوم تھا

    تھی نوآموزفنا ہمت دشوار پسند

    سخت مشکل ہے کہ یہ کام بھی آساں نکلا

    وہی اک بات ہے جو یاں نفس واں نکہت گل ہے

    چمن کا جلوہ باعث ہے مری رنگیں نوائی کا

    پوچھ مت رسوائی انداز استغنا ئے حسن

    دست مرہون حنا رخسار رہن غازہ تھا

    تازہ نہیں ہے نشۂ فکر سخن مجھے

    تریاکی قدیم ہوں دود چراغ کا

    توفیق بہ اندازۂ ہمت ہے ازل سے

    آنکھوں میں ہے وہ قطرہ کہ گوہر نہ ہوا تھا

    یہ اشعار میں نے ردیف الف سے بے تکلف نکالے ہیں۔ یہ بات قابل لحاظ ہے کہ اگر چہ ان کے مضامین براہ راست ’’حکیمانہ‘‘نہیں ہیں، یعنی ان میں کوئی فلسفیانہ، تعلیمی یا اخلاقی نکتہ نہیں ہے اور نہ کوئی تلقین ہے، لیکن مجموعی آہنگ ایسا ہے کہ یہ اشعار اعلیٰ درجے کی ذہنی کاوش اور غوروفکر کانتیجہ معلوم ہوتے ہیں۔ ان میں شعر پر شعر چلے آنے، یا شعر گوئی کے وفورکا وہ انداز نہیں ہے، جیسا کہ مثلاً آتش کے یہاں عام ہے۔ اب یہ اور بات ہے کہ آتش کے یہاں مضامین سامنے کے ہیں اور غالب کے یہاں ہر مضمون پیچیدہ ہے، یادور کا ہے۔ مثال کے طور پر، کلیات آتش کی پہلی غزل دیکھیے۔ غالب کی غزل، پئے نذر کرم تحفہ ہے شرم نارسائی کا، اسی زمین میں ہے۔ آتش کے اولین چار شعر ہیں،

    حباب آسا میں دم بھرتاہوں تیری آشنائی کا

    نہایت غم ہے اس قطرے کو دریا کی جدائی کا

    اسیر اے دوست تیرے عاشق ومعشوق دونوں ہیں

    گرفتار آہنی زنجیر کا یہ وہ طلائی کا

    تعلق روح کامجھ کو جسد سے ناگوارا ہے

    زمانے میں چلن ہے چار دن کی آشنائی کا

    فراق یار میں مرمرکے آخر زندگانی کی

    رہا صدمہ ہمیشہ روح وقالب کی جدائی کا

    صاف معلوم ہوتاہے کہ شعر بڑی بے تکلفی سے کہے گئے ہیں، آورد کااحساس نہیں ہوتا (چاہے درحقیقت شاعر نے بڑی کاوش کی ہو) اور یہ بڑی خوبی ہے لیکن مضمون سب ہلکے ہیں۔ کسی شعر سے متبادر نہیں ہوتا کہ شاعر نے کوئی ذہنی یا تعقلاتی کا رگزاری انجام دی ہے۔

    غالب کے منقولہ بالااشعار کے تعلق سے دوسری بات یہ کہنے کی ہے کہ ان اشعار میں متکلم ہم سے براہ راست مخاطب معلوم ہوتاہے یعنی یہ اشعار سننے سے زیادہ (یااگر زیادہ نہیں تو کم سے کم سننے کے علاوہ) چپ چاپ پڑھے جانے کا تقاضا کرتے ہیں۔ ان کا آہنگ سرگوشی کا نہیں، لیکن ایسا پھر بھی محسوس ہوتاہے کہ ان کا مخاطب ایک شخص واحد ہے، یا پھر یہ اشعار خودکلامی کے عالم سے ہیں۔ یہ جدید شاعری کی صفت ہے اور غالب یہاں بھی جدیدیت کی پیشوائی کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔

    کہاجاسکتاہے کہ غالب کے شعروں میں شخص واحد سے تخاطب کا احساس ہونے کی بات ثابت نہیں ہوسکتی، یہ وجدان یا داخلی تجربے کے عالم سے ہے، اسے تنقیدی نکتہ آفرینی نہیں کہہ سکتے۔ یہ بات بالکل درست ہے۔ لیکن یہ بات تو بہرحال ثابت ہے کہ ان اشعار کا مجموعی رنگ ذہنی اور تعقلاتی کلام کا ہے اور ان میں غزل کے مروج مضامین کو ترک کیا گیا ہے (بعض اوقات ان کو الٹ دیا گیا ہے، مثلاً تیشے بغیر۔۔۔ اورپوچھ مت رسوائی انداز۔۔۔ والے شعر) ایک تیسری بات مندرجہ بالا شعروں کے بارے میں یہ بھی ہے کہ سات میں سے ایک شعر ‘تازہ نہیں ہے۔۔۔’ کامضمون شعرگوئی، یعنی تخلیقی عمل کے بارے میں ہے۔

    جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا، شعر گوئی اور شعریات سے متعلق مضامین پر کلام کی بنا رکھنے کا رواج ہمارے یہاں اہل دکن نے شروع کیااور غزل میں ان مضامین کونظم کرنے کی طرح ولی نے ڈالی۔ لیکن غالب کے پہلے کسی بھی اردو شاعر کے یہاں اظہار کی نارسائی کا مضمون نہیں ملتا۔ یہ ایک نیا مضمون غالب نے شاید اپنی طبیعت سے بنایا، یا انہوں نے اسے شاید بیدل کے یہاں سے اخذ کرکے اس پر اپنا رنگ چڑھایا۔ بہرحال یہ بات دھیان میں رکھنے کی ہے کہ اردو ہی کیا، مشرق اور مغرب کے دوسرے کلاسیکی شعرا کے یہاں اظہار کی نارسائی کا مضمون نہیں ملتا۔ قدیم تہذیبوں میں شاعر کو قدرت کلام کا مثالی نمونہ قرار دیتے تھے، لہٰذا وہاں زبان کی ناکامی کا تصورمحال تھا۔ شیکسپیئراگرچہ یورپ کے کلاسیکی عہد کے تقریباً آخر میں ہے، لیکن اس معاملے میں وہ کلاسیکی اصول پر پوری طرح کاربند ہے کہ کوئی شے ایسی نہیں جو شاعر کو کامل اظہار سے مانع رکھے۔ اس کے سانیٹ اس کی مثال ہیں کہ ان میں وہ جگہ جگہ اپنے شعر کو لافانی کہتا ہے اور اسی کے بل بوتے پر معشوق کو بھی لافانی یا سدا بہار بنادینے کا دعویٰ رکھتا ہے۔

    When in eternal lines to time thou grow’st

    So long as men can breathe, or eyes can sce,

    So long lives and this gives life to thes

    (Sonnet18)

    Not marble nor the gilded monuments

    Of princes shall outlive this powerful time;

    But you shall shine more bright in these contents

    Than unswept stone,besmearded with sluttish time.

    When wasteful war shall statues overtun,

    And broils root out the work of masonry,

    Nor shall Mars his sword nor war’s quick fireshall burn

    The living record of your memory

    (Sonnct55)

    مغرب میں سب سے پہلے انگریزرومانیوں اور پھر فرانسیسی علامت نگاروں نے زبان کے ناکافی ہونے کی شکایت کی۔ اور یہ بات سچ پوچھئے تو مناسب بھی تھی، کہ ان دونوں نے زبان کو اس کی قوت ترسیل کی انتہاؤں تک لے جانے کی کوشش کی تھی۔ کلاسیکی اور رومانی شعریات میں شاعر خودکو کس طرح دیکھتے تھے، اس کی مثال یہ ہے کہ شیکسپیئر نے بھی اپنے آخری ڈراموں میں زبان کی حدوں کو توڑکر زبان کو اپنے موافق بنانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن اس کے یہاں احساس شکست کہیں نہیں ملتا۔ ان آخری ڈراموں میں بھی اس طرف کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ شاعر کی تخلیقی قوتیں زبان کو اپنا تابع بنانے کی آزمائش میں پوری نہیں اتررہی ہیں۔

    فرانسیسی کے مقابلے میں انگریزی زبان زیادہ تجربہ پسند اور آزاد مزاج رہی ہے۔ انگریزی میں نئے الفاظ اور فقرے بے تکلف داخل ہوجاتے ہیں۔ انگریزی ادب کا بھی یہی معاملہ ہے، کہ وہاں تجربہ کوشی اور جدت پسندی کا شیوہ بہت شروع سے عام رہاہے۔ فرانسیسی کاحال بالکل الٹا ہے۔ اور شاید یہ بھی ایک وجہ اس بات کی ہے کہ جب فرانسیسی علامت نگاروں نے اپنے تجربے شروع کیے تو انہیں قدم قدم پر قدغن اور احتباس کا سامنا کرناپڑا۔ فرانسیسی علامت نگار اپنے طور پر زبان کی حدوں کو توڑنے کی کوشش میں تھے۔ پہلے انہوں نے یہ عمل مروج زبان پر کیا، پھر ملارمے نے مروج زبان کی ٹوٹی ہوئی شکلوں کو اور بھی توڑنا چاہا۔ اس کے بعد سرریلزم نے منظم زبان کو اس درجہ ناکافی قرار دیا کہ سرریلسٹ شعریات کی رو سے خود کار تحریر (automatic writing) فن کی پسندیدہ ترین شکل ٹھہری۔

    فرانسیسی علامت نگاروں کے کوئی پچاس برس پہلے انگریزرومانیوں کو دونئی آزمائشوں کا سامنا کرناپڑا۔ ایک تویہ کہ انہوں نے موضوعات میں نئے نئے تجربے کیے (ان موضوعات کو ہماری زبان میں آپ نئے مضامین شعر کہہ لیجئے) ۔ ان کے لیے زبان کا کوئی مکمل ماڈل پہلے سے موجود نہ تھا، اس لیے ان کو زبان کے ناکافی ہونے کا احساس ہوا۔ دوسری بات یہ کہ انہوں نے تخیل پرزوردیا۔ اس طرح تخلیقی عمل ان کی نظرمیں لامحالہ تخیل کی آتی جاتی لہروں کا پابند ٹھہرا، اور زبان ان لہروں کو پکڑنے میں کبھی کامیاب ہوتی، کبھی نہ ہوتی۔ اس موضوع پر شبلی نے اپنے مشہور مضمون ’’شاعری کے دفاع میں‘‘ (A Defence of Poetry) میں کلام کیاہے۔

    اس پر طرہ یہ کہ لسان کی نوعیت پرغور کے نتیجے میں ایک بات کو لرج نے یہ کہی کہ لسان (لفظ اور معنی کا آپسی رشتہ) بے اصول ہے۔ لہٰذا الفاظ کے ذریعہ پوری حقیقت نہیں بیان ہوسکتی۔ (یہ نکتہ اس کے ملفوظاتTable Talk میں بیان ہواہے۔) ایسی صورت میں اظہار کی عدم تکمیل کا تصور لازم تھا۔ اس طرح زبان کے ناکافی ہونے کا تصور جدیدیت کے مرکزی تصورات میں داخل ہوا۔

    مندرجہ بالا نکات میں سے اکثر باتیں غالب کے زمانے میں نہ تھیں اور جو تھیں بھی، وہ غالب تک نہ پہنچی تھیں لیکن زبان کے ناکافی ہونے کا مضمون غالب سے بھی پہلے ہمارے یہاں بیدل بیان کرچکے تھے۔ انہوں نے ملفوظ کی جگہ غیر ملفوظ کو اسرار اور معنی کا حامل ٹھہرایا۔ انہوں نے اظہار کی نارسائی کے دوپہلو، یادو سطحیں دریافت کیں۔ ایک شعر میں تو انہوں نے اتنا ہی کہا کہ بہت سے مضمون، چاہے وہ کتنے ہی ’’شوخ‘‘ (تازہ، بدیع، چلبلے) ہوں، معرض اظہار میں نہیں آتے، کیوں کہ زبان ان کے لئے ’’نامحرم‘‘ ہوتی ہے۔

    اے بسا معنی کہ از نامحرمی ہائے زباں

    باہمہ شوخی مقیم پردہ ہائے راز ماند

    لیکن ایک جگہ اس سے بھی آگے انہوں نے خاموشی کو سب سے زیادہ پرمعنی بیان قرار دیا،

    سخن اگر ہمہ متنیت معنیست بے کم وبیشے

    عبارتیست خموشی کہ انتخاب نہ دارد

    یہی وجہ ہے کہ بیدل نے اس مضمون کو سب سے اچھا اور مکمل آزادی کا حامل کہاہے جن کے معنی کو کبھی پابند نہ کیاجاسکے۔ سب سے اچھا خیال وہ جوآزاد رہے، کسی علاقے میں مقیدنہ ہو، اور سب سے اچھا مضمون آفریں وہ جو ایسے مضمون باندھے جوقید تعین سے آزاد ہوں،

    خیال اگر ہوں آہنگ مشق آزادیست

    چوبوے گل بہ صبا معنی نہ بستہ نویس

    غالب ہمارے ذہن اور ذوق کو اس لیے بھی متاثر کرتے ہیں کہ ہمارے کلاسیکی شعرا میں وہ پہلے ہیں جنہوں نے اظہار کی ناکامی، یا زبان کے ناکافی ہونے کا مضمون باندھا ہے، اور اتنی بار باندھا ہے کہ وہ کلاسیکی شاعر سے زیادہ فرانسیسی علامت نگار، یا آج کے جدید شاعر معلوم ہونے لگتے ہیں،

    فکر سخن یک انشا زندانی خموشی

    دودچراغ گویا زنجیر بے صدا ہے

    موزونی دوعالم قربان ساز یک درد

    مصراع نالۂ نے سکتہ ہزار جاہے

    ہجوم فکر سے دل مثل موج لرزے ہے

    کہ شیشہ نازک وصہباے آبگینہ گداز

    ہاتھ دھودل سے یہی گرمی گراندیشے میں ہے

    آبگینہ تندی صہبا سے پگھلا جائے ہے

    اسد کو حسرت عرض نیازتھی دم قتل

    ہنوز یک سخن بے صد انکلتی ہے

    نہ بندھے تشنگی شوق کے مضموں غالب

    گرچہ دل کھول کے دریا کو بھی ساحل باندھا

    ہوں گرمی نشاط تصورسے نغمہ سنج

    میں عندلیب گلشن ناآفریدہ ہوں

    پیدا نہیں ہے اصل تگ وتازجستجو

    مانند موج آب زبان بریدہ ہوں

    شوخی اظہار غیر از وحشت مجنوں نہیں

    لیلی معنی اسد محمل نشین راز ہے

    فکر سخن بہانۂ پرداز خامشی

    دود چراغ سرمۂ آواز ہے مجھے

    یہ اشعار میں نے زیادہ ترحافظے سے نقل کیے ہیں۔ اگر کاوش کی جائے تو دیوان میں ایسے شعر اور بہت سے نکلیں گے۔ اردو کے کلاسیکی شعرا کی حد تک یہ مضمون غالب کااپنا ہے۔ بیدل سے مستعارلے کر، یا خوداپنی افتاد طبع کے باعث غالب نے اس مضمون کو نہ صرف اپنا لیا بلکہ اس میں کئی پہلو ایسے بھی پیدا کیے جن کا سراغ بیدل کے یہاں نہیں ملتا۔ مندرجہ بالا تمام اشعار کا آہنگ بہت قوی ہے۔ علاوہ بریں ان کا استعاراتی زور اور پیکروں کی تازگی نئی سے نئی معنویتوں کو راہ دیتی ہے۔ زیادہ تر اشعار میں مناسبت الفاظ کا پورا اہتمام ہے۔ رعایتیں بھی جلوہ گر ہیں۔ قول محال بھی جگہ جگہ قاری /سامع کے تجسس معنی کو مہمیزدیتاہے۔ گویا ان اشعار میں تقریباً وہ سب فن کاری ہے جسے ہم غالب سے منسوب کرتے ہیں۔ اس طرح یہ بات بھی ایک طرح کا قول محال بن کر سامنے آتی ہے کہ زبان کی ناکامی کے مضمون پر بنائے ہوئے یہ اشعار اظہار کی دنیا میں نک سک سے درست ہیں، کسی بھی شعر پر معنی کی کمی یا الفاظ کے کفایت نہ کرنے کا اعتراض نہیں وارد ہوسکتا۔

    خیال بندی کاایک نیا اظہار غالب کے ان شعروں میں ملتاہے جن کے مضمون میں تفکر یا غوروفکر کا رنگ ہے، اور جن کے مضامین غزل کی عام دنیائے کلام (universe of discourse) سے بھی اخذ نہیں کیے گئے، لیکن اوپر نقل کیے ہوئے اسی طرح کے اشعار کے برخلاف یہاں مندرجہ ذیل طرز کے شعروں کا مخاطب کوئی شخص واحد نہیں بلکہ عام شعر فہم معاشرہ معلوم ہوتاہے۔ دوسرے الفاظ میں، یہ اشعار خودکلامی پر مبنی نہیں، بلکہ عام سامعین کو دعوت فکر دیتے نظرآتے ہیں، یہ چند شعر ملاحظہ ہوں،

    کیا ہے ترک دنیا کا ہلی سے

    ہمیں حاصل نہیں بے حاصلی سے

    خدا یعنی پدر سے مہرباں تر

    پھر ے ہم دربدر ناقابلی سے

    کی ہیں کس پانی سے یاں یعقوب نے آنکھیں سفید

    ہے جو آبی پیرہن ہر موج رودنیل کی

    (آبی پیرہن۔ ماتمی لباس)

    ہوا چراخ خمیدہ ناتواں بار علائق سے

    کہ ظاہر پنجۂ خورشید دست زیر پہلوہے

    بہ سختی ہاے قید زندگی معلوم آزادی

    شرر بھی صید دام رشتۂ رگ ہاے خارا ہے

    ان اشعار میں سبک ہندی کے طریقے بہت خوبی سے برتے گئے ہیں، لیکن یہ تو اس زمانے کے شعرا کا عام وصف ہے۔ یہ اشعار دراصل اس لیے قابل ذکرہیں کہ ان کا مجموعی آہنگ حکیمانہ ہے اور ان کی پیچیدگی ان کا جواز ہے، لیکن ان کا مخاطب کوئی شخص واحد نہیں۔ یہ اشعار میں نے غیر متداول دیوان کی ردیف ’’ی‘‘ سے بے تکلف نقل کیے ہیں۔ اب متداول دیوان کی بھی ردیف’’ی‘‘ سے اسی طرح کے چند شعر ملاحظہ ہوں،

    دیوار بار منت مزدور سے ہے خم

    اے خانماں خراب نہ احساں اٹھائیے

    رفتار عمر قطع رہ اضطراب ہے

    اس سال کے حساب کو برق آفتاب ہے

    پرپروانہ شاید بادبان کشتی مے تھا

    ہوئی مجلس کی گرمی سے روانی دور ساغرکی

    پابہ دامن ہورہاہوں بس کہ میں صحرا نورد

    خار پا ہیں جوہر آئینہ زانو مجھے

    ایک اور بات جس کی بناپر غالب کاکلام جدید ذہن کے لیے شاہ نصیر یا ناسخ سے زیادہ توجہ انگیزہے، غالب کی تجریدیت ہے۔ یہ سراسر خیال بندی کا اظہار ہے۔ یعنی بہت سے اشعار ایسے ہیں جن میں غالب نے مضمون کو غیر مرئی اور اکثر غیر محسوس بلکہ غیر حقیقی اشیا ومقدمات پر قائم کیا ہے۔ اس طرح معنی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، اور اگر معنی میں وسعت نہ بھی پیدا ہوا تو تخیل کی لطف اندوزی کے لیے میدان وسیع ہوجاتاہے۔ (دیدۂ نخچیرکو آئینہ بنانے والے شعر میں ہم یہ بات دیکھ چکے ہیں) تجرید کے ساتھ قول محال بھی غالب نے استعمال کیا ہے۔ اس طرح کسی چیز کاعدم وجود ہی اس کے وجود کی دلیل بن جاتاہے،

    بزم مے وحشت کدہ ہے کس کی چشم مست کا

    شیشے میں نبض پری پنہاں ہے موج بادہ سے

    بزم ہستی وہ تماشا ہے کہ جس کو ہم اسد

    دیکھتے ہیں چشم از خواب عدم نکشادہ سے

    غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس

    برق سے کرتے ہیں روشن شمع ماتم خانہ ہم

    محفلیں برہم کرے ہے گنجفہ بازخیال

    ہیں ورق گردانی نیرنگ یک بت خانہ ہم

    باوجود یک جہاں ہنگامہ پیدائی نہیں

    ہیں چراغان شبستان دل پروانہ ہم

    ان اشعار کو بہترین شاعری کی مثال میں کہیں بھی پیش کیاجاسکتاہے۔ ان کے مضامین کا سارا دارومدار تجرید اور تعقل پر ہے، لہٰذا یہ خیال بندی کی بھی اعلیٰ ترین مثالوں سے ہیں۔ اس وقت ان کا مفصل تجزیہ کرنے کاموقع نہیں لیکن اس نکتے کی طرف ضرور آپ کو متوجہ کرنا چاہتاہوں کہ ان تمام اشعار کالطف اٹھانے کے لیے تخیل کی قوت درکار ہے، لیکن ان کی تخلیق کے لیے ایسا ذہن درکار تھا جو حقیقی اشیا کو غیرمرئی اورخیالی، اور خیالی اشیا کو مرئی اور حقیقی کی سطح پر انگیز کرسکے۔ ان اشعار میں ’’نام نہاد حقیقی دنیا‘‘ بہت کم ہے، لیکن وہ جتنی اور جیسی بھی ہے، اس کاانحصار عدم حقیقت پر ہے۔ خارجی دنیا یہاں تصور کی قوت کے آئینے میں دیکھی جاتی ہے، یعنی مادی حقیقت (مثلاًمعشوق کی آنکھ) کو شاعر واقعے سے خیال میں بدلتا ہے، پھر اسے شعر میں منعکس کرتاہے۔ ان نکات کی روشنی میں صرف پہلے شعر پر غور کریں،

    بزم مے وحشت کدہ ہے کس کی چشم مست کا

    شیشے میں نبض پری پنہاں ہے موج بادہ سے

    پری میں وحشت ہوتی ہے، اس معنی میں کہ پری کو کہیں قرار نہیں، اس کا جلوہ نظرآتاہے اور غائب ہوجاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ پری کا عمل ہے، دیوانہ بنانا۔ تیسری بات یہ کہ دیوانگی کا اظہار وحشت یعنی عدم سکون کے ذریعہ ہوتاہے۔ پہلی اور دوسری بات کا تعلق حقیقت سے نہیں، تیسری کا ہے۔ اس کے بعد جو بات کہی گئی وہ سراسر تجریدی ہے، کہ شیشے میں شراب کا ابلنا، اس کا تلاطم اور اس کی حرکت، مثل نبض پری ہے۔ پری میں وحشت ہوتی ہے، اور یہ وحشت شراب تک میں آگئی ہے، کہ موج شراب میں وہ حرکت اور ابال ہے جو عالم وحشت کا خاصہ ہے۔

    موج مے میں اضطراب اس قدر ہے کہ وہ نظر نہیں آتی، لیکن یہی بات یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ نبض پری ہے، کیوں کہ جب پری کے مزاج میں وحشت ثابت ہے تو اس کی نبض میں بھی وحشت ہوگی اورنبض بہرحال صرف دھرکتی ہے، دکھائی نہیں دیتی۔ لوگ شراب پی کر بہکتے ہی ہیں، لیکن یہاں وفور نشہ کا عالم دیگر ہے۔ لوگ پی پی کر اس طرح بہک رہے ہیں، مے خانے میں ادھر سے ادھر یوں گرے پڑتے ہیں گویا وحشت میں ہیں۔ معلوم ہوتاہے نبض پری کی وحشت شراب سے اتر کر ان میں بھی آگئی ہے۔ (ملحوظ رہے کہ شراب کو لال پری بھی کہتے ہیں) شورومستی کے تلاطم کو دیکھ کر متکلم فرض کرتاہے کہ یہ سب کسی کی چشم مست کا کرشمہ ہے، ورنہ نبض پری، پری کی وحشت، موج بادہ کا شیشے میں نبض کی طرح دھڑکنا لیکن پنہاں رہنا، کسی بظاہر غیر موجود ہستی کی مستی چشم، یہ ایسی چیزیں نہیں جنہیں ہم عالم حقیقت میں دیکھ سکیں۔

    اگر تجریدکے مقابلے میں ارضیت اورخیال کے مقابلے میں واقعے کی جلوہ گری دیکھنی ہو تو دیوان اول سے میر کا یہ شعر دیکھیے،

    پھوٹا کیے پیالے لنڈھتا پھرا قرابہ

    مستی سے میری تھا یاں اک شور اور شرابا

    تجریر اس سے زیادہ کیا ہوگی کہ غالب کے شعر میں نہ وہ ہستی موجود ہے جس کی نگاہ مست کا جادوساراتلاطم پیدا کررہاہے، اورنہ اس منظر کا شاہد، یعنی خودغالب، یا اس شعر کا متکلم، پردۂ شہودپر ہے۔ پورا شعر صرف غیر شخصی بیان ہے، اور اس کے لہجے میں تحسین کی پھواروں سے بڑھ کر استغراق حیرت کی خاموشیاں جلوہ گر ہیں۔ اس شعر کو پڑھ کر غالب کا ہی شعر یاد آتا ہے، اور وہ شعر بھی ان کے زمانۂ نوجوانی کا ہے،

    دیدار بادہ حوصلہ ساقی نگاہ مست

    بزم خیال مے کدہ بے خروش ہے

    شعرزیربحث میں ’’وحشت کدہ‘‘ ضرور بتایا گیا ہے، لیکن بے خروش، کوئی حاضر نہیں، اور جو حاضر ہیں وہ غیر مرئی ہیں۔ اس کے برخلاف، میرکے شعر میں متکلم خود موجود ہے۔ وہ مے کدے میں سارے شوراور شرابے کا بانی ہے، اور دونوں مصرعوں کے صوتی اور بصر ی پیکراس شور اور شرابے کی زندہ تصویر بناتے ہیں۔ اسی لیے یہ کہنا انسب معلوم ہوتاہے کہ میر کا تخیل زمینی اور بے لگام اور غالب کا تخیل آسمانی اور باریک تھا۔

    خیال بندی کو غزل کے مروجہ مضامین کے خلاف ایک طرح کا اعلان جنگ کہہ سکتے ہیں۔ لیکن اس اعلان جنگ میں غزل سے انکار کی کیفیت نہ تھی، جیسی کہ ہم عظمت اللہ خاں یا ان کے بعد جوش کے یہاں دیکھتے ہیں۔ (یہ بھی دھیان میں رہے کہ عظمت اللہ خان اور جوش کی بغاوتیں الگ الگ بنیادوں پر تھیں، اور زیادہ تر تقلیدپر مبنی تھیں۔ عظمت اللہ خان ہندی اور بخیال خودانگریزی کے مقلد تھے، جوش بھی بخیال خود انگریزی کے متبع تھے) خیال بندی کی شعریات کہتی تھی کہ مضمون ہی کلام کا سنگ بنیاد ہے اور چونکہ عمارت اس نہج کی ہوگی جس نہج کا سنگ بنیادہوگا، اس لیے نئے طرز کی عمارت بنانے کے لیے نئے سنگ بنیاد، یا نئے طرز کے سنگ بنیاد درکار ہیں۔ یہ راہ مشکل اور دشوار گزار تھی، اور اس کو اختیار کرنے میں دائرہ غزل سے باہر جانے کے خطرے بھی تھے۔ لیکن نئے موڑاور تازہ مقامات بھی اسی راہ میں آتے تھے۔

    حالی نے کہاتھا (یادگارغالب) کہ غالب کی طبیعت اس وضع کی تھی کہ ’’وہ عام روش پر چلنے سے ہمیشہ ناک چڑھاتے تھے۔‘‘ اور یہ کہ انہوں نے اگلوں کی ’’شاہراہ چھوڑ کر دوسرے رخ پر چلنا اختیارکیا۔۔۔ اور جس چال پر اور لوگ چل رہے تھے اس چال کوچھوڑکر دوسری چال اختیار کی۔‘‘ یہ باتیں صرف ایک حد تک درست ہیں۔ اس راہ پر چلنے والے غالب پہلے شاعر نہ تھے، نہ اردو میں نہ فارسی میں۔ حالی کو یہ کہنا چاہے تھا کہ غالب نے غزل کے مروجہ مضامین کو نئے انداز تو عطا کیے، انہوں نے مضمون کی تلاش میں دوردور تک پروازبھی کی، حتی کہ ان کے پیش روشعرا، خواہ اردو کے خواہ فارسی کے، سب پیچھے رہ گئے۔ اقبال کو غالب کی فہم اس درجہ تھی کہ انہوں نے اس راز کو پالیاتھا کہ مضمون آفرینی ہی غالب کا طرۂ امتیاز ہے۔ لہٰذا اقبال نے ان سے مخاطب ہوکرکہا،

    شاہد مضمون تصدق ہے ترے انداز پر

    خندہ زن ہے غنچۂ دہلی گل شیرازپر

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے